دنیاکی تاریخ میں کچھ لمحات ایسے ہوتے ہیں جوصرف خبریں نہیں ہوتے،وہ آنے والے زمانوں کی پیش گوئیاں،تہذیبی موڑاورفکری دنگل کے تمہیدی اشارے بن جاتے ہیں۔دنیاکی سیاسی افق پروہ لمحے باربارنمودارہوتے ہیں جب تاریخ کی سانسیں رکتی محسوس ہوتی ہیں،اورطاقت کے ایوانوں میں گونجنے والی آوازیں گویاحشرکانقارہ بن جاتی ہیں۔بعض اوقات دنیاکی تاریخ میں کچھ لمحے ایسے بھی آتے ہیں جب تہذیبیں اپنی مکمل معنویت کے ساتھ میدان میں اترتی ہیں۔یہ الفاظ اگرچہ کسی فلسفی کے نہیں،لیکن مجھے یوں محسوس ہوتاہے کہ آج کے عالمی تناظرمیں ایران وامریکاکے درمیان بڑھتی کشیدگی کوسمجھنے کیلئےایک گہری تمثیل کادرجہ ضروررکھتے ہیں۔
جی ہاں!ایساہی ایک لمحہ حالیہ ایام میں مشرقِ وسطیٰ کے آسمان پرسایہ فگن ہے،جہاں ایران اورامریکاکے درمیان کشیدگی کی آگ، دھمکیوں کی چنگاریاں بن کربھڑک رہی ہے،اورآج کا مشرقِ وسطیٰ بھی کچھ ایسی ہی کیفیات سے گزررہاہے،جہاں ایک طرف سامراجی طاقتیں اپنے اقتصادی مفادات،عسکری برتری اورتہذیبی غرورکے تحت نئی بساط بچھارہی ہیں،تودوسری جانب قدیم اقوام، اپنی روایات،دینی شعوراورتمدنی غیرت کوسینہ سپرکیے ہوئے دفاعِ عظمت میں مصروف ہیں۔اورآج اس شعلہ بیانی میں اسرائیل کی آتش افشانی اوربھارت کی تپش بھی شامل ہوچکی ہے۔
امریکی سیاست کے تماشے کایہ کرشمہ دیکھیے کہ ایک وہ شخص جوخودکبھی دستوروقانون کی سرحدوں کاپابند نہ رہا،خودکودنیاکا سب سے طاقتورسمجھتے ہوئے متکبرانہ اندازمیں آج ایران جیسے تہذیبی، دینی اورانقلابی مزاج کے حامل ملک سے”غیرمشروط سرینڈر”کامطالبہ کررہاہے۔ٹرمپ نے جی سیون کانفرنس سے قبل یورپی رہنماؤں کوبھی دوررکھتے ہوئے اپنی طاقت کے گھمنڈمیں پیغام دیاکہ “یہ معاملہ صرف اُن کی دُوراندیشی پرمنحصرہے۔کوئی نہیں جانتامیں کیا کرناچاہتاہوں “توگویاخوداپنی فکری بےسمتی پرمہرِ تصدیق ثبت کرتے ہیں۔
اس جملے میں ایک اضطرابی لہرہے،ایک بوکھلاہٹ ہے،جس کامرکزصرف ایران نہیں،بلکہ وہ عالمی ترتیب ہے جومغرب کے ہاتھوں سے پھسلتی جارہی ہے۔ صرف ذاتی انتشارکا اظہار نہیں،بلکہ ایک عالمی حکمتِ عملی کی بوکھلاہٹ اورمغربی یگانگت شکن کاکھلا ثبوت ہے۔ٹرمپ کاایران سے یہ مطالبہ کہ وہ بغیرکسی شرط کے ہتھیارڈال دے،ایک ایسی سیاسی ضدکا مظہر ہے جوبیسویں صدی کی سامراجی ذہنیت کاعکس لیے ہوئے ہے۔ٹرمپ کا حالیہ بیانیہ بظاہر ایک لاپروائی،مگردرحقیقت ایک گمشدہ مغربی قیادت کی علامت ہے،جواپنے ہی تراشے ہوئے اصولوں اورنظریات کی صلیب پرلٹکی ہوئی ہے۔اپنے اندرایک گہری فکری انتشار،سیاسی غیرسمتی اور نفسیاتی الجھن کامظہرہے۔ایک سپرپاورکاسربراہ اگراپنی سمت سے ناآشناہوتویہ محض ایک فردکی ذہنی بےچینی نہیں بلکہ پوری تہذیب کی فکری زوال کاآئینہ دارہوتاہے۔
ایرانی سپریم لیڈرآیت اللہ علی خامنہای نے اس مطالبے کومستردکرتے ہوئے کہاکہ”ایران کبھی سرینڈرنہیں کرے گا،امریکی مداخلت تاریخی،تہذیبی اورمعاشرتی لحاظ سے ناقابلِ تلافی نقصان کاسبب بنے گی”۔ان کایہ اعتمادکسی ذاتی حماقت نہیں،بلکہ40سالہ مزاحمتی روایت،انقلاب کی آگ اورامت کے شعورکی روشنی کانتیجہ ہے۔خامنہ ای کابیان ایک نظریاتی بنیادرکھتا ہے ۔ان کے نزدیک یہ صرف سیاسی مزاحمت نہیں بلکہ تاریخ،ایمان اورتہذیب کی بقاکی جنگ ہے۔
ٹرمپ کاغیرسفارتی لہجہ اوردہمکی کے برعکس خامنہ ای کاجواب تاریخ کے لہجے میں ہے۔خامنہ ای کی زبان سے نکلے الفاظ صرف سیاسی مؤقف یافقط سفارتی ردعمل ہی نہیں بلکہ ایک تہذیبی مزاحمت کابیانیہ اورصدیوں پرمحیط ایرانی عزیمت،دینی تشخص اور تہذیبی بیداری کی گواہی ہے۔یہ اعلانِ مزاحمت ایک ایسی قوم کی طرف سے ہے جس نے دارااورکوروش کی سلطنتوں کوجنم دیا،جو قادسیہ کی گردسے ابھری،جس نے مغلوں کوتہذیب کاشعورسکھایا،اورجس کے سینے میں ابھی بھی امام حسینؑ کی کربلائی روح دھڑک رہی ہے۔یہ آوازکسی ایوانِ اقتدار سے نہیں بلکہ صدیوں پرمحیط عزیمت کی تاریخ سے آتی ہے۔ ایران،جس نے نہ یونانیوں کے سامنے جھکنے کاحوصلہ کیا،نہ چنگیزی لشکروں کے سامنے،وہ آج بھی فکری استقامت کی علامت ہے۔
اقوامِ متحدہ میں ایران کے سفارتی مشن کی ٹرمپ پرتنقید،ایک اورنوحہ ہے اس عالمی ادارے کی بےبسی کا،جواب محض ایک تھکے ہوئے نقارے کی مانندہے،جس پرسب چوٹ کرتے ہیں مگرکوئی نغمہ برآمدنہیں ہوتا۔ایرانی سفارتی مشن کی جانب سے اقوامِ متحدہ میں دیاجانے والابیان،ٹرمپ کے غرورپرکاری ضرب تھا۔جب کہاگیاکہ”ہم وائٹ ہاؤس کے قریب بھٹکنا بھی نہیں چاہتے”تواس میں صرف سیاسی تردید نہیں بلکہ ایک تہذیبی استغناکی خوشبوہے۔یہ جملہ گویامغرب کی بےلطف سیاست کے منہ پرایک طنزیہ مسکراہٹ ہے۔ ایرانی سفارتی مشن نے اقوامِ متحدہ سے ٹرمپ کویہ واضح پیغام محض جملہ نہیں،بلکہ ایک تہذیبی خودداری اوربرخاستی کابیانیہ ہے جومغربی دباؤکاتسلسل توڑکرسامنے آیا۔ایران کی یہ روش،اسلامی تعلیمات کی اس بنیاد پرہے جوعزت وذلت کامعیارایمان،استقامت اور عدل کومانتی ہے،نہ کہ دھونس،پابندیوں یاڈالرکی چمک کو۔
ایران کاحالیہ فیصلہ کہ جنگی اختیارات اورفیصلے مکمل طورپرپاسدارانِ انقلاب کے سپردہوں گے۔بادی النظرمیں یہ محض ایک فوجی حکمتِ عملی ہے،مگراس کے پس پردہ ایک عمیق پیغام ہے:”جب امت کے نظریاتی ستونوں پرحملہ ہوتوتلوارصرف دفاع کاہتھیارنہیں رہتی،وہ خودایک زبان بن جاتی ہے”۔ ایران نے حالات کی نزاکت کوبھانپتے ہوئے پاسدارانِ انقلاب کو جنگی فیصلوں کامکمل اختیاردے دیاہے۔یہ اقدام محض عسکری حکمتِ عملی نہیں بلکہ ایک تہذیبی اعلان ہے کہ”اب گفتگوکاوقت نہیں،میدان کی زبان بولی جائے گی”۔
پاسداران کافلسفہ صرف عسکری تربیت نہیں بلکہ ایک دینی تربیت ہے۔ان کاہتھیارصرف لوہے کانہیں بلکہ ایمان کاہوتاہے اورجب ایمان میدان میں آتاہے توجنگ صرف بارود سے نہیں،جذبے سے جیتی جاتی ہے۔گویاایران کی عسکری حکمتِ عملی میں دینی اسنادہم پلہ نظرآرہی ہے۔ایران کاپاسدارانِ انقلاب کوجنگی فیصلوں کااختیارسونپناتہذیبی اورفکری طورپرمعنی خیزہے۔اسے محض عسکری فیصلہ نہیں بلکہ ایک تاریخ کااعلامیہ سمجھیں کہ جب ایمان اور عزت پرسوال اٹھتاہے،وہاں دفاع کے ہتھیاروں کے ساتھ نظریاتی اصول بھی لڑتے ہیں۔ایران نے جنگ کے اختیارات پاسدارانِ انقلاب کوسونپ کریہ پیغام دیاہے کہ اگرحملہ ہواتوجواب فقط عسکری نہ ہوگا بلکہ تہذیبی سطح پربھی اس کااثرہوگا۔
اسرائیل کی طرف سے ایران پرحملے اورایران کی جانب سے بھرپورجواب،وہ قندیل ہیں جوکسی بڑی جنگ کی آمدکاپیش خیمہ ہو سکتی ہیں۔یہاں صہیونی ذہنیت اورتہذیبی غرورصرف ایک ملک کے خلاف نہیں،بلکہ پوری مسلم دنیاکے وجود،اس کی روح اوراس کے خوابوں پرحملہ آورہے۔یہ محض حملے اورجوابی حملے نہیں،بلکہ ایک ایساسیاسی طائفان ہے جس کے بطن سے ایک عالمی تصادم جنم لے سکتاہے۔ایران کی جوابی کارروائی کے بعدخطے میں ایٹمی ہتھیاروں کی سیاست ایک نئے دورمیں داخل ہوگئی ہے۔
نیتن یاہوکی حالیہ دھمکی کہ ایران کے بعد پاکستان کی ایٹمی صلاحیت کوبھی ختم کیاجائے گا،فقط ایک عسکری اعلان نہیں بلکہ ایک تہذیبی چیلنج ہے۔نتین یاہو کی یہ زہرآلوددھمکی یازبان سے پھسلے الفاظ کہ وہ”ایران کے بعدپاکستان کی ایٹمی صلاحیت ختم کرے گا”یہ محض ایک سیاسی بیان نہیں،بلکہ ایک برہنہ تہذیبی دھمکی ہے۔یہ محض پاکستان کے خلاف ایک لسانی اشتعال نہیں،بلکہ مسلم امہ کے اجتماعی وقارکوچیلنج اوراسلامی دنیا کیلئےلمحۂ فکریہ ہے۔نیتن یاہوجیسے درندےکایہ اشتعال انگیزبیان یقیناًصرف خطہ میں ہی نہیں بلکہ دنیاکوایک انتہائی خوفناک جنگ کی دہلیزپرلاکھڑاکیاہے جس کیلئے ابھی سے سیاسی اورسفارتی اندازمیں باورکرانے کی ضرورت ہے کہ کیاواقعی نیتن یاہواورمودی جیسے فاشسٹ افرادکودنیاکوتاریک کرنے کی اجازت دی جاسکتی ہے؟
یہ سوال آج ہردانشور،ہرتجزیہ نگاراورہرعام انسان کی زبان پرہے:کیاواقعی امریکاایران پرحملہ کرے گااورایران کاجواب کیاہوگا؟تاہم اگرایساہواتویہ حملہ کسی ملک پرنہیں بلکہ ایک تہذیب، ایک فکراورایک نظریے پرحملہ ہوگا۔اگرامریکانے ایران پربراہِ راست حملے کی جسارت کی تویہ ایک چنگاری نہیں بلکہ آتش فشاں ثابت ہوگا۔ایران کاردعمل صرف امریکی اڈوں تک محدود نہ ہوگا،بلکہ پورے خطے میں امریکی مفادات کولپیٹ میں لے سکتاہے ۔ عراق ، شام،لبنان،اورخلیجی ریاستیں—سب اس دائرۂ آتش میں آئیں گی۔
ایران کاجواب شایدروایتی نہ ہوبلکہ غیرمتوقع،ہمہ جہتی اورفکری سطح پربھی ہوسکتا ہے ۔ایرانی جواب دہی صرف میزائلوں سے نہ ہوگی،بلکہ اس میں وہ فکری شعوربھی شامل ہوگاجوسیدالشہداءؑ کے لہوسے کشیدکیاگیاہے،اورجوزمانے کے ہریزیدکے خلاف قیام کی علامت بن چکاہے۔اگرایران پرحملہ ہوتا ہے توایران کاپہلاردعمل یقیناًان امریکی اڈوں پرہوسکتاہے جوقطر،بحرین، سعودی عرب،کویت اورعراق میں موجودہیں۔یہ صرف عسکری تنصیبات نہیں بلکہ مغربی تسلط کی علامتیں ہیں۔ان پرحملہ گویاامریکاکی”ناقابلِ تسخیر” ہیبت کوخاک میں ملاناہوگا۔
چین اورروس کی خاموشی کی حکمت اورشطرنجی چالوں کوبھی نظراندازنہیں کیاجاسکتا۔روس اورچین اب تک اس سارے معاملے میں پراسرارخاموشی اختیار کیے ہوئے ہیں،مگریہ خاموشی بےمعنی نہیں۔ایسے عالم میں جب عالمی سیاست ایک نازک موڑپرہے،چین اور روس کی خاموشی بھی ایک گونج رکھتی ہے۔ان کی خاموشی طوفان سے پہلے کی خاموشی معلوم ہوتی ہے ۔روس،شام میں اپنے تجربے کی بنیادپرمشرقِ وسطیٰ کی حرکیات کوبخوبی سمجھتاہے،جبکہ چین کی توانائی کی ضروریات اسے خلیجی استحکام کاناگزیرخواہاں بناتی ہیں۔چین کابیلٹ اینڈروڈمنصوبہ اورروس کے مشرقِ وسطیٰ میں بڑھتے ہوئے مفادات شاید انہیں اس کھیل کافریق بننے پرمجبورکریں۔چین کی اقتصادی شاہراہیں اورروس کاشام ویوکرین میں کردار،ان دونوں کواس کھیل کالازمی فریق بناتاہے۔ ممکن ہے کہ یہ دونوں طاقتیں وقت آنے پرایک بڑے اتحادکی بنیادرکھیں جومغربی اجارہ داری کے خلاف ایک نئی عالمی صف بندی کاسبب بنے۔
سوال یہ ہے کہ کیاامت مسلمہ واقعی بےحس ہوچکی ہے؟کیاامت مسلمہ واقعی خوابِ غفلت سے جاگے گی؟یاپھرحسبِ سابق قراردادوں، مذمتوں اور بیان بازیوں تک محدودرہے گی، یا وقت آنے پرتاریخ کوحیران کردینے والی کوئی پیش رفت کرے گی؟کیایہ ممکن ہے کہ ترکی،ملائشیا،ایران،پاکستان اور دیگرممالک کسی نئے اسلامی اتحادکاپیش خیمہ بنیں،جہاں نہ صرف عسکری بلکہ سفارتی وفکری محاذ پربھی مشترکہ جدوجہدکی بنیادرکھی جائے؟پاکستان،ترکی، ملائشیاجیسے ممالک کی جانب سے ممکنہ اسلامی عسکری یاسفارتی بلاک نہ صرف ایک سیاسی حکمت بلکہ امت کی فکری وحدت کی آزمائش ہوگی۔ایک فکری اضطراب اس امت کے سوتے ہوئے ضمیرکو جھنجھوڑرہاہے،اورشایدوقت آپہنچاہے کہ تہذیبی بیداری کی کوئی شمع روشن کی جائے۔ اب ضرورت اس امرکی ہے کہ پاکستان،ترکی، ملائشیااوردیگرمسلم ممالک مشترکہ سفارتی،اقتصادی اورعسکری محاذکی تیاری کریں—یہ فقط ایک سیاسی اتحادنہیں بلکہ تہذیبی اعادہ اورتاریخی بیداری کاعملی اظہارہوگا۔
اب دیکھناہوگا کہ مودی کی ٹرمپ سے حالیہ فون کال،ایک چال ہے یاچالاکی؟مودی نے کسی تیسرے فریق کی مداخلت کوسختی سے رد کردیاہے۔یہ گویا امریکاکوکشمیرکے مسئلے سے دور رکھنے کی ایک کوشش ہے۔فون کال میں اس بات پراصرارکہ وہ کسی تیسرے فریق کوپاک بھارت تنازعے میں شامل نہیں ہونے دیں گے،اس بات کی دلیل ہے کہ بھارت امریکاکی ثالثی کوقبول نہیں کرناچاہتا۔یہ انکارٹرمپ کی سفارتی اہمیت کوزک پہنچاتاہے۔کیاٹرمپ کی خاموشی اس امرکی مظہرہے کہ وہ خودکو اب عالمی ثالث کے کردارسے پیچھے ہٹ جائیں اوردنیا بھرمیں باربارپاک بھارت جنگ میں سیزفائرکاکریڈٹ کے بیانئے کی سبکی قبول کرلیں گے؟کیاٹرمپ اس نظر اندازی کوبرداشت کریں گے؟یاپھراس کاکوئی بدلہ جنوبی ایشیائی سیاست میں تلاش کریں گے؟
پاکستانی فوج کے سربراہ جنرل عاصم منیرکی امریکامیں اعلیٰ حکام سے ملاقاتیں،اورٹرمپ کے ساتھ خصوصی ظہرانہ ایک غیر معمولی پیش رفت ہے۔امریکی اعلیٰ حکام سے ملاقات اورپھر ٹرمپ کے ساتھ خصوصی ظہرانہ،بظاہرتوسفارتی کارروائی لگتی ہے، مگراس کے بین السطورکچھ اورکہانی لکھی جارہی ہے۔ ٹرمپ کی جانب سے پاکستان کے کردارکی تعریف،اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ فیلڈ مارشل جنرل عاصم منیرکی یہ اہم ملاقات کوئی ایسا خاموش معاہدہ ہے جہاں امریکاکو اب خطے میں خصوصاًافغانستان، چین،ایران اوربھارت کے تناظرمیں پاکستان کی ضرورت ہے اوراس بات کابھی اشارہ ہے کہ امریکاپاکستان کوخطے میں متوازن حکمتِ عملی میں اہم سمجھ رہاہے۔ٹرمپ کی تعریف سے ظاہرہے کہ پاکستان اپنی عسکری طاقت کے ساتھ سفارتی قدکوبھی اجاگر کرنے کی افسائش میں ہے۔
ٹرمپ کی جانب سے پاکستانی کردارکی ستائش،ایک نئی صبح کی نویدبھی ہوسکتی ہے،بشرطیکہ پاکستان اس موقع کوسفارتی،عسکری اوراقتصادی سطح پردانشمندی سے بروئے کارلائے۔یادرہے کہ امریکاکی ہمیشہ یہ پالیسی رہی ہے کہ یہ وقت آنے پراپنے مفادات کے حصول کیلئے پاؤں پڑنے میں بھی اتنی ہی عجلت دکھاتے ہیں جتنایہ اپنے مفادات کے حصول کے بعد اپنے اسی اتحادی کوایک لمحے میں قربان کردینے میں تاخیرنہیں کرتے۔پاکستان کواس کابارہاتلخ تجربہ ہے تاہم پاکستان کواس اہم نکتے کوضرورذہن نشین رکھناہوگا۔
تاہم بھارتی مودی کی امریکاکوثالثی سے روکنے کی حالیہ کوشش،ایک جانب ٹرمپ کی تضحیک بھی کرتی ہے اوردوسری جانب علاقائی بالادستی کاعندیہ بھی، وہی پرجوابی طورپرجنرل عاصم منیر کی واشنگٹن میں اعلیٰ امریکی حکام اورٹرمپ سے ملاقات اوربعد ازاں ظہرانہ میں شرکت،پاکستان کے کردارکوعالمی سیاست میں پھرسے اُجاگرکررہی ہے۔
آج کی دنیاکسی عالمی جنگ کے دہانے پرنہیں بلکہ تہذیبوں کے تصادم کے مقام پرکھڑی ہے۔مغرب کے پاس بارودہے،مگرمشرق کے پاس بصیرت۔ مغرب کے پاس فوجیں ہیں، مگرمشرق کے پاس فلسفہ،اورتاریخ نے ہمیشہ فلسفے کودوام بخشاہے،نہ کہ اسلحے کو۔ٹرمپ، نیتن یاہو،مودی جیسے کرداروقت کے نمائندے نہیں بلکہ وقت کے ردعمل ہیں۔اصل جنگ ان کے اورہمارے درمیان نہیں،بلکہ انسان کی آزادی،وقاراورخودی کے بقاکی جنگ ہے۔ اگرامت مسلمہ آج بیدارہوجائے،تویہ صدی اس کی ہوسکتی ہے ورنہ یہ تاریخ کے قبرستان میں ایک اورالمناک صدمے کی شکل میں دفن کردی جائے گی۔
یہ دنیااب پرانی سیاسی حرکیات پرنہیں چل سکتی۔اب بیانیہ وہ جیتے گاجس کے پاس تاریخ کاشعور،تہذیب کاوقاراورفکرکی جولانی ہو۔ مغرب کی طاقتیں شاید ہتھیاروں سے جیتناچاہتی ہیں، مگرمشرق کے پاس ابھی بھی ایک چیزباقی ہے—ایمان،جسے نہ دبایاجاسکتاہے،نہ خریداجاسکتاہے،اورنہ دھمکیوں سے جھکایا جا سکتاہے۔
یہ دنیااب صرف باروداوراعلانات کی بنیادپرآگے نہیں بڑھے گی۔اس کامحوروہ تہذیبی،دینی اورفکری قوت ہے جوصدیوں سے کمزور نہیں ہوتی۔ٹرمپ، مودی،نیتن یاہوجیسے فریق وقتی محور ہیں،مگراصل جنگ اس فکری دنیاکی بقاکی ہے۔اگرامت مسلمہ آج اپناشعورجگا لے،اپنی وحدت میں استقامت سمو لے اوراپنے تہذیبی وقارکی حفاظت کرے،تویہ صدی اس کی ہوسکتی ہے ورنہ یہ صدائے تاریخ کے اک ستم زدہ آرشیوکاحصہ بن کررہ جائے گی۔
یہ محض ٹرمپ اورخامنہ ای کااختلاف نہیں،بلکہ تہذیبوں،مفادات،عقائداورنظریات کی وہ کشمکش ہے جس کادائرہ کاراقوامِ متحدہ سے لے کرعرب صحرا، غزہ فلسطین اورکشمیرکی وادیوں تک پھیلاہواہے۔تہذیبوں کی اس جنگ میں مستقبل کے فیصلہ کیلئے اگرامتِ مسلمہ اس نازک موقع پر عصرِ نو کے تقاضوں کو سمجھ کر متحد ہو جائے، تو یہ صدی شاید اُس کی بیداری کا دور بن جائے ۔ ورنہ—تاریخ اپنی گرد میں سب کچھ دفن کر دیتی ہے، جو خود کو پہچاننے سے قاصر ہو۔