Iran, Hezbollah, and US Policy

ایران،حزب اللہ اورامریکی پالیسی

:Share

صرف ایک سال قبل تک حزب اللہ کی عسکری،سیاسی،اورمعاشرتی ترقی نے اسے لبنان میں ایک ناقابلِ نظراندازقوت بنادیا تھااور اس کی طاقت کا اثر نہ صرف لبنان بلکہ پورے خطے میں محسوس کیاجاتاتھا۔حزب اللہ کااسرائیل کیلئےچیلنج بننااورایران کی ممکنہ حکمتِ عملی—اب بھی باہمی طورپر جُڑے ہوئے ہیں اورخطے کی جغرافیائی سیاست میں گہرے اثرات رکھتے ہیں ۔لبنان میں حزب اللہ نہ صرف عسکری تنظیم ہے بلکہ ایک سیاسی جماعت اورفلاحی ادارہ بھی ہے،جوعوامی خدمات فراہم کرتاہے۔اس کی مقامی حمایت اسے مزیدمستحکم بناتی ہے،جس سے اسرائیل کیلئےاسے عسکری طورپرکمزورکرنا مزیدمشکل ہوجاتاہے۔

حزب اللہ کے پاس جدیدمیزائل سسٹمز،ڈرون ٹیکنالوجی،اورگوریلاوارفیئرمیں مہارت ہے،جواسرائیل کیلئےایک سنگین خطرہ ہے۔ 2006کی لبنان-اسرائیل جنگ میں حزب اللہ نے اسرائیل کوحیران کن مزاحمت کاسامناکرایاتھا،جس کے بعداسرائیل نے اپنی شمالی سرحدپردفاعی نظام کومزیدمضبوط کیا۔اس وقت حزب اللہ کے پاس اندازاًلاکھ سے زیادہ میزائل اورراکٹ موجودہیں، جن کی رینج اسرائیل کے بڑے شہروں تک پہنچ سکتی ہے۔اگرچہ اسرائیل کے پاس جدید دفاعی نظام،جیسے آئرن ڈوم،موجودہیں،حزب اللہ کی مسلسل عسکری ترقی اورجنوبی لبنان میں اس کے ٹھکانے اسرائیل کیلئے مسلسل خطرہ بن گئے تھے۔کسی بھی بڑے تصادم کی صورت میں دونوں اطراف بھاری نقصان کاسامنا بھی کرناپڑالیکن حزب اللہ کی استعداداسرائیل کیلئے ایک مستقل خطرہ ثابت ہوئی۔

حزب اللہ لبنان میں ایک مضبوط سیاسی اورعسکری قوت ہے جس کاایران کے ساتھ گہراتعلق ہے۔اسرائیل کی جانب سے حزب اللہ کوکمزورکرنے کی مسلسل کوششوں کے باوجود،تنظیم نے شام کی خانہ جنگی میں حصہ لےکرمزیدعسکری تجربہ حاصل کیاتھا لیکن شام سے بشارالاسدکے فرارکے بعد حزب اللہ کاوجودبھی ختم ہوچکاہے۔تاہم لبنان میں عوامی حمایت اورایرانی مالی وعسکری امدادنے حزب اللہ کواب تک برقراررکھاہواہے،لیکن داخلی معاشی بحران اورسیاسی عدم استحکام کے ساتھ ساتھ حالیہ پسپائی کے بعدتنظیم کیلئےچیلنجزپیداہوچکے ہیں۔

اسرائیل اب بھی خاص طورپرشام اورلبنان میں حزب اللہ کے عسکری انفراسٹرکچرکوتباہ کرنے کیلئےفضائی حملوں اورانٹیلی جنس آپریشنزپرانحصارکررہا ہے، ۔اسرائیل کی کوشش ہے کہ حزب اللہ کواتناکمزوررکھاجائے کہ وہ اسرائیل کے خلاف بڑی عسکری کارروائی نہ کرسکے۔تاہم،مکمل عسکری انخلانہ ہونے کی وجہ سے سرحدپرکشیدگی برقرارہے۔کیاان حالات میں حزب اللہ اسرائیل کیلئےچیلنج بن سکتی ہے؟آئیے اس کاجائزہ لیتے ہیں۔

26جنوری کے دن ہزاروں بے گھرلبنانی شہریوں نے جنوبی لبنان میں واقع اپنے گھروں کوواپس لوٹنے کی کوشش کی۔انقلابی موسیقی سنتے،حزب اللہ کاپرچم فخرسے لہراتے،قافلوں میں سفرکرنے والے ان لوگوں کوایک سال کی جنگ کے بعدواپسی پرپتہ چلاکہ ان کے گھررہے ہی نہیں تھے۔تاہم موٹرسائیکل سوارنوجوان حزب اللہ کے پرچم لہراتے ہوئے اورہارن بجاتے ہوئے ان علاقوں سے گزرے جہاں اہل تشیع آبادنہیں توچندمقامی افرادسے ان کی مدبھیڑہوئی کیوںکہ ان قافلوں کواشتعال انگیزحرکت کے طورپردیکھا گیا ۔انہوں نے اپنے نقصان پرتاسف کااظہارکیااورتباہ شدہ عمارات میں حزب اللہ کے سابق سربراہ حسن نصراللہ کی تصاویرآویزاں کر دیں۔

اس دن اسرائیلی فوجیوں کے انخلامکمل ہوناتھاجوامریکااورفرانس کی ثالثی میں طے پانے والی جنگ بندی کی شرط تھی۔اس شرط کے تحت حزب اللہ کوجنوبی علاقوں سے ہتھیاراورجنگجوبھی ہٹاناتھے جبکہ ہزاروں لبنانی فوجیوں کی جنوب میں تعیناتی ہوناتھی۔ تاہم اسرائیل کاکہناہے کہ لبنان نے معاہدے پرمکمل عملدرآمدنہیں کیااوراس کانتیجہ یہ نکلاکہ اسرائیلی فوج کاانخلابھی مکمل نہیں ہوا ۔لبنان نے بھی اسرائیل پرکچھ ایسے ہی الزامات لگائے ہیں اورجیساکہ متوقع تھا،حالات بگڑے۔چندعلاقوں میں اسرائیلی فوجیوں نے گولیاں چلادیں اورایک لبنانی فوجی سمیت24افرادہلاک ہوئے۔تاہم جنوبی لبنان میں دہائیوں سے سب سے بڑی طاقت حزب اللہ کوایک بارپھراپنی طاقت کے اظہارکاموقع مل گیاجسے اسرائیل سے جنگ میں بہت نقصان اٹھاناپڑاتھالیکن حزب اللہ کے اس جواب نے اسرائیل اوراس کے اتحادیوں کوپھرسے ششدرکردیاہے لیکن بڑاسوال یہ ہے کیاحزب اللہ بطورگروہ لبنان اورمشرق وسطیٰ میں وقوع پذیرہونے والی تبدیلیوں سے بچ کرزندہ رہ سکے گی؟

گذشتہ دہائیوں میں حزب اللہ نے ایک عسکری،سیاسی اورمعاشرتی تحریک کے طورپرلبنان کے سب سے طاقتورگروہ کی حیثیت اختیارکرلی تھی جس نے ایرانی حمایت اورمددسے لبنانی فوج سے بھی زیادہ عسکری طاقت اورمہارت حاصل کرلی۔تشددکااستعمال ہمیشہ ایک راستہ ہوتاتھا۔دوسری جانب پارلیمان میں موجودگی کی وجہ سے حزب اللہ کے بغیرکوئی اہم ملکی فیصلہ ممکن نہیں ہوتا تھا۔مختصرطورپریہ کہاجاسکتاہے کہ حزب اللہ کسی بھی وقت ملک کومنجمندکرنے کی مکمل صلاحیت رکھتی تھی اورکئی باراس نے کیابھی۔تازہ ترین تنازع اکتوبر2023میں اس وقت شروع ہواجب حزب اللہ نے غزہ میں اسرائیلی جنگ کے جواب میں ایک دوسرا محاذ کھول دیا۔گزشتہ ستمبرمیں کشیدگی اس وقت بڑھی جب اسرائیل نے ناقابل یقین حدتک حزب اللہ کے اندرگھس کرپہلے پیجر دھماکوں میں گروہ کے اراکین کی ہلاکت کی منصوبہ بندی کوعملی جامہ پہنایااوراس کے بعدوالکی ٹاکیزبھی اسی طرح استعمال ہوئیں۔

دوسری جانب فضائی حملوں اورجنوبی لبنان پرزمینی حملے میں عام شہریوں سمیت چارہزارافرادہلاک ہوئے اورخصوصی طورپر حزب اللہ کی حمایت کرنے والے علاقوں میں بہت جانی اورمالی نقصان کے علاوہ حزب اللہ کوبھی بھاری چوٹ پہنچی۔بہت سے رہنما قتل ہوئے،حسن نصراللہ سمیت،جوتین دہائیوں سے حزب اللہ کاچہرہ تھے۔ان کے جانشین نعیم قاسم،جوحسن نصراللہ جتنے بااختیار نہیں،نے تسلیم کیاہے کہ ان کو”تکلیف دہ”نقصانات پہنچے ہیں۔نومبرمیں جنگ بندی کااعلان ایک طرح سے حزب اللہ کی جانب سے ہتھیارپھینکنے کے برابرتھاجسے امریکا، برطانیہ سمیت بہت سے ممالک میں دہشتگردگروہ سمجھاجاتاہے۔

گذشتہ ماہ نئی حقیقت کاادراک اس وقت ہواجب لبنان کی پارلیمنٹ نے سابق آرمی چیف جوزف اون کونیاصدرمنتخب کرلیاجن کی حمایت امریکامیں بھی پائی جاتی ہے۔یہ انتخاب دوسال تک ایک بحران کے بعدہواجس کی وجہ حزب اللہ بتائی جاتی ہے۔تاہم کمزور حزب اللہ اس باراس عمل کوماضی کی طرح روک نہیں سکی۔ایسی ہی ایک اورپیش رفت نئے صدرکی جانب سے نواف سلام کی بطوروزیراعظم تعیناتی تھی جوبین الاقوامی عدالت انصاف کے صدرکے طورپر کام کررہے تھے۔ان کوحزب اللہ کاحامی نہیں سمجھا جاتا۔

فی الحال حزب اللہ کی توجہ اورترجیح اس کی اپنی بنیادہے۔حزب اللہ نے اپنے لوگوں کوبتارکھاہے کہ جنگ میں ناکامی حقیقت میں اس کی فتح ہے لیکن لبنان میں اکثریت جانتی ہے کہ سچائی مختلف ہے۔آبادیاں تباہ ہوچکی ہیں اورعالمی بینک کے مطابق عمارات کوپہنچنے والے نقصان کاتخمینہ تین ارب ڈالرسے زیادہ کالگایاگیاہے۔تباہ حال معیشت کے ساتھ لبنان میں کوئی نہیں جانتاکہ مددکہاں سے آئے گی کیونکہ بین الاقوامی امداد کوحکومت کی جانب سے حزب اللہ کی طاقت کولگام دینے کے اقدامات سے مشروط کردیاگیا ہے۔حزب اللہ نے2006کی جنگ کے بعدکی طرح بہت سے لوگوں کی مالی امدادکی ہے تاہم اشارے مل رہے ہیں کہ حزب اللہ سے لوگوں کی امیدیں دم توڑرہی ہیں۔

“واریئرزآف گاڈ:انسائیڈحزب اللہ سٹرگل اگینسٹ اسرائیل”کے مصنف نکولس بلینڈفورڈکے مطابق “چھ ماہ بعدبھی لوگ خیموں یااپنے مکانات کے کھنڈرات میں رہ رہے ہوئے توشایدوہ جنگ کیلئےاسرائیل یالبنانی حکومت کی بجائے حزب اللہ کوموردالزام ٹھہراناشروع کردیں۔ایسی صورت حال میں حزب اللہ کے خلاف کارروائی ہوسکتی ہے۔تاہم حزب اللہ کے خلاف کارروائی خطرات سے بھرپور ہوگی۔حزب اللہ کی عسکری طاقت کی وجہ سے یہ گروہ تشددکی ڈھکی چھپی دھمکی استعمال کرتاتھاکہ اگرانہیں دیوارسے لگانے کی کوشش کی گئی تووہ بہت سخت جواب دیں گے”۔ایک مغربی سفارت کارنے نام ظاہرنہ کرنے کی شرط پربتایاکہ”ہم لبنان کی اپوزیشن اوردیگرممالک میں لوگوں کوبتارہے ہیں کہ حزب اللہ کودیوارسے لگانے کی کوشش کا الٹااثرہوسکتاہے اورتشددکاخطرہ ممکن ہے”۔

تاہم لبنان میں ایک نیاباب لکھاجارہاہے جہاں کرپشن اورحکومتی مسائل سمیت تشددکی نہ ختم ہونے والی لہرسے لوگ تھک چکے ہیں۔یہ مسائل کاایساانبارہے جس کی وجہ سے ریاست غیرفعال ہوچکی ہے۔پارلیمنٹ سے اپنے پہلے خطاب میں نئے صدرنے اصلاحات لانے کاوعدہ کیاجن کے بغیرملک کوبچانامشکل ہوگا۔انہوں نے حکومتی اداروں کی تعمیرنو،معیشت کی بحالی اورفوج کوملک کی واحدمسلح طاقت بنانے کاوعدہ بھی کیا۔انہوں نے حزب اللہ کانام تونہیں لیالیکن ان کااشارہ اسی کی جانب تھا۔پارلیمان میں تالیوں کی گونج کے بیچ حزب اللہ کے اراکین خاموش بیٹھے رہے۔

حزب اللہ کے مستقبل کاانحصارلبنان کے داخلی حالات، ایران کی پالیسی،اوراسرائیل کی عسکری حکمت عملی پرہوگا ۔ اگرلبنان میں اقتصادی بحران بڑھتاہے توحزب اللہ کی عوامی حمایت میں کمی آسکتی ہے لیکن اگراسرائیل دباؤبڑھاتاہے توتنظیم اپنی عسکری سرگرمیوں میں شدت لاسکتی ہے،جس سے خطے میں مزیدعدم استحکام پیداہوسکتاہے لیکن حزب اللہ کی عسکری طاقت کے مستقبل کافیصلہ شاید لبنان سے بہت دورایران کے دارالحکومت میں ہوگاجہاں سے دہائیوں تک اسلحے اورپیسے کی مددسے مزاحمت کے محورنامی علاقائی اتحادکی پرورش کی گئی اوراسرائیل کاآتشیں گھیراؤقائم کیاگیا۔اس اتحادکاایک اہم کھلاڑی حزب اللہ ہے جس کے پاس ہزاروں تربیت یافتہ جنگجواورمیزائلوں کاانبارموجودہے۔اس گروہ نے ایرانی جوہری تنصیبات پر اسرائیل کے ممکنہ حملے کے خلاف ایک طاقت کے طورپرکام کیاہے لیکن وہ طاقت اب بکھرچکی ہے اوراگرایران چاہے بھی تواس طاقت کو بحال کرنا آسان نہ ہوگا۔

شام میں بشارالاسدکی حکومت کے گرجانے کے بعد،جس کی ایک وجہ حزب اللہ کوپہنچنے والی چوٹ بھی تھی،تہران کاوہ زمینی رابطہ منقطع ہوچکاہے جس سے حزب اللہ تک اسلحہ اورپیسہ پہنچایاجاتاتھا۔اسرائیل،جس نے حزب اللہ کے خلاف وسیع پیمانے پر خفیہ اطلاعات اکٹھی کی ہیں،کے مطابق وہ حزب اللہ کونشانہ بناتارہے گاتاکہ یہ دوبارہ پہلے جیسی طاقت حاصل نہ کر سکے۔تاہم بلینفورڈکے مطابق”حزب اللہ کے بارے میں بنیادی سوالوں کے جواب ایران ہی دے سکتاہے۔یہ ممکن ہے کہ ایران یاحزب اللہ کچھ مختلف سوچیں،غیرمسلح ہونے کے بارے میں اورصرف ایک سیاسی اورسماجی تحریک کی شکل میں برقراررہیں۔لیکن یہ حزب اللہ کانہیں،ایران کافیصلہ ہوگا۔

حزب اللہ کے اندرونی معاملات سے واقفیت رکھنے والے ذرائع سے جب یہ سوال کیاگیا کہ کیاایساممکن ہوسکتاہے توبتایاگیاکہ”یہ ایک بڑے علاقائی حل کاحصہ ضرورہوسکتاہے۔یہ بظاہر ایک اشارہ ہے کہ ایران اپنے جوہری پروگرام پرمغرب سے معاہدہ کرنے کاخواہش مندہے۔ذرائع کے مطابق”اسلحہ مکمل طورپرچھوڑنے اورریاست کے اندرضابطوں میں رہتے ہوئے ان کے استعمال میں فرق ہے اورایسابھی ممکن ہے”۔

خطے کے سیاسی تجزیہ نگاروں کامانناہے کہ ایران ممکنہ طورپرحزب اللہ کوایک”پریشرپوائنٹ”کے طورپراستعمال کررہاہے تاکہ امریکااورمغرب کے ساتھ ایٹمی معاہدے میں بہترشرائط حاصل کرسکے۔جب بھی ایران محسوس کرتاہے کہ اس پربین الاقوامی دباؤ بڑھ رہاہے یامعاہدے کی شرائط اس کے مفادات کے خلاف ہیں،تووہ حزب اللہ کے ذریعے اسرائیل پردباؤڈالنے کیلئے استعمال کرتا ہے اس طرح،ایران حزب اللہ کوایک غیررسمی سفارتی ہتھیارکے طورپراستعمال کرتارہاہے،جس سے خطے میں کشیدگی بڑھاکر مغرب کومذاکرات کی میزپرلانے کی کوششوں میں کامیاب رہالیکن اب سوال یہ ہے کہ خطے میں جنگ بندی کے بعدکیاایران جواب زمینی رابطے سے بھی محروم ہوچکاہے،کیاحزب اللہ کوایک مؤثرہتھیارکے طورپراستعمال کرنے کی استطاعت رکھتاہے جبکہ لبنان میں بھی کئی اہم تبدیلیوں رونماہوچکی ہیں۔

یادرہے کہ ایران حزب اللہ کاسب سے بڑامالی اورعسکری سرپرست ہے۔ایران نے حزب اللہ کوجدیدہتھیارفراہم کئے ہیں اورعسکری تربیت میں مدد دی ہے۔اس رشتے کابنیادی مقصدخطے میں ایران کے اثرورسوخ کوبڑھانااوراسرائیل وامریکاکے خلاف ایک دفاعی فرنٹ بناکراپنے مقاصدکی تکمیل ہے لیکن کیاامریکاکے ساتھ ایٹمی معاہدے کیلئے حزب اللہ کی قربانی قبول کرلے گاجبکہ حزب اللہ کی مکمل عدم موجودگی سے گریٹراسرائیل کاراستہ آسان ہوجائے گا۔

اگرچہ ٹرمپ نے اپنامنصب سنبھالتے ہی اپنے جارحانہ بیانات سے امریکاکے نئے چہرے سے متعارف کروایاہے اورایران کے بارے میں بیانات کی تلخی سے معلوم ہوتاہے کہ امریکاکبھی بھی اپنی دہمکیوں کوعملی جامہ پہنانے کیلئے”آئندہ امریکاکوئی نئی جنگ شروع نہیں کرے گااورجاری جنگوں سے امریکاکوباہرنکالے گا”جیسے اپنے تمام انتخابی وعدوں سے یکسرمنحرف ہوکراپنے مقاصد کیلئے نئی جنگوں کاآغازکرسکتاہے لیکن ٹرمپ کے سابقہ کردارسے یہ بھی عیاں ہے کہ ٹرمپ نے دہمکیوں کی آڑمیں افغانستان میں مقاصدکے حصول کیلئے پہلے بھی یہ کرداراداکیالیکن بعدازاں اس کارسواکن انجام بھی دنیانے دیکھالیکن لگتایہ ہے کہ یہاں معاملات کوایک اوراندازمیں استعمال کیاجاسکتاہے کہ خطے میں دیگرامیرعرب ریاستوں پردباؤجاری رکھنے کیلئے خطے میں ایران کے خطرے کے نام پراپنے مقاصدکے حصول کی تکمیل کی جاسکے اوریہ بھی عین ممکن ہے کہ ایران کوحزب اللہ کی عسکری امداد سے الگ کرکے مجوزہ ایرانی ایٹمی پروگرام پرکوئی ایسامعاہدہ کرلیاجائے۔تاہم،موجودہ حالات میں ایران کیلئےحزب اللہ ایک طویل مدتی حکمتِ عملی کاحصہ ہے،جسے وہ خطے میں اپنی موجودگی اوراثرورسوخ برقراررکھنے کیلئےاستعمال کرتارہے گا۔

لیکن دوسری طرف لبنان کے نئے رہنماؤں پرجلدازجلدکچھ کرنے کادباؤبڑھ رہاہے۔بیرونی اتحادی مشرق وسطیٰ میں طاقت کی نئی بساط کوایک موقع کے طورپردیکھ رہے ہیں جس میں ایران کومزیدکمزورکیاجاسکتاہے جبکہ لبنان میں استحکام کیلئے لوگ پریشان ہیں۔لوگ اب اس بات کوپسندنہیں کرتے جب یہ کہاجاتاہے کہ تباہی کے باوجودانہوں نے زندگی کورواں دواں رکھاہواہے۔حزب اللہ کی پسپائی کے بعدبیروت کے مسیحی علاقے میں بسنے والے رہائشی بھی اس خواہش کااظہارکررہے ہیں”ہم ایک ایسے عام سے ملک میں رہناچاہتے ہیں جہاں جنگ کادوردورتک نام ونشان نہ ہو،ہم کئی دہائیوں سے جنگ کی ہولناکیوں سے نجات چاہتے ہیں”۔

شایداتنی مشکل دیکھنے کے بعدحزب اللہ کے حامی بھی اب یہ سوال اٹھائیں کہ اس گروہ کامستقبل میں کیاکردارہوناچاہیے۔حزب اللہ شایدجنگ سے پہلے والی تنظیم کبھی نہ بن پائے۔اسے غیرمسلح کرنااب ماضی کی طرح ایک ایسامعاملہ نہیں جس کے بارے میں سوچنابھی محال ہواکرتاتھا۔

ادھردوسری طرف ٹرمپ کی پالیسیزہمیشہ اسرائیل نوازرہی ہیں،جس کاواضح مظاہرہ”صدی کی ڈیل میں دیکھاگیا۔ٹرمپ اب پھرقصر سفیدمیں فرعونی طاقت کے نشہ میں براجمان ہوکر ہر روز اپنے بیانات سے دنیابھرمیں تہلکہ پیداکررہے ہیں،ان کی پالیسیوں کااثراب ایک مرتبہ پھرامریکی خارجہ پالیسی میں محسوس کیاجاسکتاہے۔غزہ پرتسلط کاکوئی بھی منصوبہ فلسطینی عوام اور حماس کی سخت مزاحمت کاسامناکرے گا۔ٹرمپ کے منصوبے کوخطے کے بیشترممالک،حتیٰ کہ امریکاکے روایتی اتحادیوں جیسے اردن اورمصرنےبھی مستردکیاہے۔اقوامِ متحدہ اوریورپی یونین نے بھی فلسطینی عوام کے حقوق کی حمایت کی ہے۔عرب دنیامیں عوامی سطح پرفلسطینی کازکیلئےہمدردی موجودہے،جوکسی بھی امریکی یااسرائیلی جارحیت کے خلاف ردعمل کاسبب بن سکتی ہے۔اگرامریکااوراسرائیل غزہ پرمزیددباؤ ڈالتے ہیں تواس کانتیجہ خطے میں بڑے پیمانے پرتشددکی صورت میں نکل سکتاہے۔حزب اللہ جیسے گروہ،جو پہلے ہی اسرائیل کے خلاف مزاحمت کاعزم رکھتے ہیں،مزیدفعال ہوسکتے ہیں،جس سے اسرائیل کی شمالی سرحدپرکشیدگی میں اضافہ ہوگا۔

حزب اللہ اسرائیل کیلئےایک سنجیدہ چیلنج ہے،جسے نظراندازنہیں کیاجاسکتا۔تاہم اس چیلنج کی نوعیت اورشدت کاانحصارایران کی وسیع ترحکمتِ عملی پر ہے۔ایران حزب اللہ کونہ صرف خطے میں اپنی پوزیشن مضبوط کرنے کیلئےبلکہ امریکا کے ساتھ ایٹمی معاہدے میں بہترسودے بازی کیلئےبھی استعمال کر سکتاہے۔خطے میں کسی بھی بڑی عسکری کشیدگی کاامکان اس وقت زیادہ ہوتا ہے جب سفارتی کوششیں ناکام ہوجائیں یاایران پرپابندیوں کادباؤبڑھ جائے ۔اس لیے حزب اللہ کی سرگرمیوں اورایران-امریکاتعلقات کے درمیان گہراتعلق ہے،جومشرقِ وسطیٰ کی مستقبل کی سیاست پراثراندازہوگا۔

حزب اللہ کی طاقت کومحدودکرنے کی اسرائیلی کوششوں اورامریکی پالیسیوں کے تحت غزہ پردباؤکے نتیجے میں خطہ مزیدعدم استحکام کاشکارہوسکتا ہے۔ عالمی برادری کی جانب سے ان پالیسیوں کی مخالفت ظاہرکرتی ہے کہ مشرقِ وسطیٰ میں امن کیلئے یکطرفہ اقدامات کارگرثابت نہیں ہوں گے،بلکہ ایک جامع اورمتوازن سفارتی حل ہی دیرپاامن کی بنیادرکھ سکتاہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں