India's Naval Expansionism: Challenges and Reality

بھارت کی بحری توسیع پسندی: چیلنجز اور حقیقت

:Share

فضامیں ابھی امریکی پابندیوں کی تلخ گونج ابھی چل رہی ہے کہ اب پاکستان نیوی کی بڑھتی صلاحیتوں پردشمن کی نیندیں حرام ہورہی ہیں۔جیساکہ ہم سب جانتے ہیں کہ پاکستان اورانڈیاجنوبی ایشیا میں دوایسے ہمسایہ ممالک ہیں جوماضی میں تین باقاعدہ بڑی جنگیں لڑچکے ہیں اوراس کے علاوہ متعددایسے مواقع بھی آئے جب یہ دونوں چوتھی باقاعدہ جنگ کے دہانے سے واپس پلٹے۔گزشتہ77برسوں سے چلی آرہی کشیدگی کی بناءپردونوں ممالک ایک دوسرے کی عسکری قوت پرنظررکھتی ہیں۔انڈین بحریہ کے سربراہ نے ایک تقریب میں خطاب کرتے ہوئے کہاکہ انڈیا پاکستانی بحریہ کی”حیرت انگیزترقی”سے پوری طرح آگاہ ہے،جوآئندہ برسوں میں اپنے موجودہ بحری بیڑے کی صلاحیت50بحری جہازوں تک بڑھانے کی کوشش کررہی ہے۔

اِس وقت چین پاکستانی بحریہ کی بحری جہازاورآبدوزیں بنانے میں مددکررہاہے۔ہم اُن(پاکستان)کی بڑھتی ہوئی صلاحیتوں کے بارے میں پوری طرح آگاہ ہیں،اسی لیے ہم اپنے مفادات پرپڑنے والے کسی ممکنہ منفی اثرکوزائل کرنے کیلئے اپنی حکمت عملی اورآپریشنل منصوبے میں تبدیلی کررہے ہیں ۔ہم کسی بھی چیلنج کاسامناکرنے کیلئے پوری طرح تیارہیں”۔پاکستانی بحریہ کی بڑھتی ہوئی طاقت اورچین سے اشتراک پرانڈین تشویش دراصل عالمی طاقتوں کوگمراہ کرنے کی ایک کوشش ہے۔

حالیہ برسوں میں چین کی بحری طاقت میں تیزی سے اضافہ ہواہے اوراس کے بحری بیڑے میں اب امریکاسے زیادہ جہازموجود ہیں اوراس نے بحرہند میں کئی ریسرچ اورجاسوسی کرنے والے جہازمستقل طورپرتعینات کررکھےہیں۔انڈین بحریہ کے سربراہ کا یہ بیان ایک ایسے وقت میں آیاہے جب انڈیا اورپاکستان کئی برس سے اپنی بحریہ کووسعت دینے میں مصروف ہیں۔حالیہ برسوں میں دنیاکے بدلتے ہوئے سکیورٹی پس منظر میں جنگی حکمت عملی میں بحریہ مزیداہمیت اختیارکرگئی ہے۔

انڈین بحریہ کے مطابق اُن کے پاس اِس وقت چھوٹے بڑے بحری جہازوں کی تعداد150ہے جبکہ ان کے پاس دوطیارہ بردارجہاز بھی موجودہیں،اس کے علاوہ انڈیاکے پاس16کنوینشل یعنی روایتی جبکہ دونیوکلیئرپاورڈ آبدوزیں بھی موجودہیں۔انڈین بحریہ کے مطابق اُن کے پاس275طیارے،ہیلی کاپٹراورڈرونزبھی موجودہیں جبکہ50بحری جہازاورآبدوزیں تیاری کے مختلف مراحل میں ہیں۔ انڈیانے حال ہی میں ایک اپناطیارہ بردار بحری جہاز”آئی این ایس وراٹ”بنایاہے جبکہ ایک اورطیارہ برداربحری جہازکی منظوری دی ہے جسے بننے میں ابھی کئی برس لگیں گے۔اس وقت انڈین بحریہ کے پاس روسی ساخت کاطیارہ بردارجہاز”آئی این ایس وکرم ادتیہ”اور”آئی این ایس وراٹ”آپریشن میں ہیں۔

انڈیانے حالیہ برسوں میں روس کی مدد سے ملک میں دوجوہری آبدوزیں بنائی ہیں جبکہ مزیددوآبدوزیں آئندہ سالوں میں فعال ہوں گی۔انڈین بحریہ نے گزشتہ30-40برس میں بہت خاموشی سے خودکووسعت دینے پرتوجہ مرکوزکی ہے۔یہ اس خطے میں پہلی بحریہ تھی جس نے اپنے بیڑے میں طیارہ بردار بحری جہازشامل کیاتھا۔1964میں انڈین بحریہ نے برطانیہ سے ایچ ایم ہرکولیس نامی ایک پراناطیارہ بردارجہازخریداتھاجسے”آئی این ایس وکرانت‘کانام دیاگیاتھا۔انڈیاکی بیشترآبدوزیں بہت پرانی ہوچکی ہیں۔اس کی16میں سے نصف کنونشنل آبدوزیں جنگ میں استعمال کے لائق نہیں تاہم اب بحریہ نیوکلیرپاورڈآبدوزیں حاصل کرنے پرتوجہ مرکوز کررہی ہے۔

بحریہ تین طرح کی ہوتی ہیں:ایک”براؤن واٹر”نیوی،جوسمندرکے اندرونی علاقوں اوردریاؤں وغیرہ کے آس پاس کام کرتی ہے۔ “گرین واٹرنیوی” ساحلی علاقوں کی نگہبانی کیلئے ہوتی ہے جوکہ عموماً12سے16بحری میل کے دائرے میں آپریٹ کرتی ہے اور بنیادی طورپراپنے ساحلوں اوربحری حدودکی حفاظت کرتی ہے اورتیسری”بلیوواٹرنیوی”اپنی بحری حدودسے ہزاروں میل دور تک پیٹرولنگ کرتی ہے اوراپناحق جتاتی ہے۔اس وقت انڈین بحریہ اب بلیوواٹرنیوی کے زمرے میں آتی ہے اورسب کوعلم ہے کہ انڈیاکی بحریہ کی صلاحیت پاکستان سے زیادہ ہے لیکن اس کے باوجودانڈیا پر اس خطے میں سپرپاوربننے کاایک جنگی جنون سوار ہے۔

جبکہ پاکستان میں عسکری ذرائع کے مطابق بحریہ کے پاس مختلف اقسام کے45بحری جہازہیں،جن میں چھ آئل ٹینکرزبھی شامل ہیں۔ پاکستانی بحریہ کے پاس پانچ آبدوزیں موجودہیں،جبکہ آٹھ آبدوزیں اورمتعددجنگی جہاز ابھی تیاری کے مراحل میں ہیں۔ پاکستانی بحریہ کے پاس فکسڈونگ جہازوں کے تین ،روٹری ونگ جہازوں کے تین اورڈرونزکابھی ایک سکواڈرن موجود ہے۔خیال رہے ایک سکواڈرن میں متعدد طیارے ہوتے ہیں ۔پاکستان کی ساحلی پٹی ایک ہزارکلومیٹرسے زیادہ لمبی ہے۔تاہم دونوں ممالک کے دفاعی تجزیہ کارکے مطابق دوممالک کی نیول فورسزکاموازنہ اُن کے پاس موجود جنگی سازوسامان کی بنیادپرکرنامناسب نہیں ہے کیونکہ زمینی حقائق کے مطابق ہرملک کی بحریہ کامقصدالگ ہوتاہے۔پاکستانی نیوی کامِشن دراصل دفاعی نوعیت کاہے جس کا مقصداپنی سمندری سرحدوں کی حفاظت کرناہے۔چونکہ ہماری90فیصدسے زیادہ تجارت سمندرکےذریعے ہوتی ہے توہمیں امن اورجنگ دونوں زمانوں میں اس کی حفاظت کرنی ہے۔اس کیلئے جوچیزیں چاہییں ہم ان کابندوبست کرتے ہیں۔

حالیہ برسوں میں پاکستان کی بحریہ نے انتہائی تیزی سے ترقی کی ہے اورپاکستانی قیادت کوانڈیاکی اس(ترقی)میں دلچسپی کا بخوبی اندازہ ہے۔پاکستان کی بحریہ ہردوبرس بعدمشقیں کرتی ہے تاکہ کسی بھی جنگ کی صورت میں پیچیدہ آپریشنزکی تیاری ہو سکے۔رواں برس فروری کے مہینے میں بھی ایسی ہی مشقیں “سپارک2024” کے نام پرسندھ اوربلوچستان کے ساحلی علاقوں میں ہوئی تھی۔ان مشقوں کے دوران”سمندرمیں آپریشنزکے دوران پاکستانی بحریہ کے جنگی جہازوں اورہوائی جہازوں نے انڈین بحریہ کے جہازوں،آبدوزوں اورہوائی جہازوں کی موجودگی کابھی سراغ لگایاجوپاکستان نیوی کی جنگی مشقوں کاخفیہ طریقے سے مشاہدہ کرنے کی کوشش کررہے تھے”۔

گزشتہ چندبرسوں میں پاکستانی بحریہ نے متعددنئے جہازاپنے بیڑے میں شامل کیے ہیں اورکئی نئے جہازاورآبدوزیں ابھی تکمیل کے مراحل میں ہیں۔ گزشتہ برس پاکستانی بحریہ نے ترکی میں بنائے گئے جنگی جہاز”پی این ایس بابر”اوررومانیہ میں بنائے گئے جنگی جہاز”پی این ایس حنین”کواپنے بیڑے میں شامل کیاتھا۔اس طرح پاکستان اورچین کے درمیان چاربحری جنگی جہاز بنانے کا معاہدہ2018میں ہواتھااورگزشتہ برس یہ معاہدہ اس وقت مکمل ہوا جب چین نے دوٹائپ054اے جنگی جہازپاکستان کے حوالے کیے ۔اس سے قبل بھی چین ایسے ہی دوجہاز پاکستان کے حوالے کرچکاتھا۔ایک رپورٹ کے مطابق”پاکستان نے چین کوآٹھ ہنگورکلاس آبدوزیں بنانے کاآرڈربھی دے رکھاہے اورتوقع کی جارہی ہے کہ یہ تمام آبدوزیں2028تک پاکستانی بحریہ کے بیڑے میں شامل کر لی جائیں گی۔

وائس ایڈمرل ریٹائرڈاحمدتسنیم جو1971میں پاکستانی آبدوز”پی این ایس ہنگور”کے کمانڈر تھے اوران ہی کی قیادت میں پاکستان نے انڈین بحری جہاز “آئی این ایس کھکری”کوتباہ کیاتھا۔ان کے مطابق وہ گزشتہ15برسوں میں پاکستانی نیوی کی برق رفتارترقی کی وجہ بحریہ کی قیادت کوسمجھتے ہیں۔پاکستان میں فیصلہ سازوں کوسمندرکی اہمیت دیرسے سمجھ آئی اور”جب حکومتوں نے اسے نظراندازکرناچھوڑا”۔ہم نے خاموشی سے فنڈحاصل کیے،نئے پلیٹ فارمزحاصل کیے،اچھے ہتھیاراورسینسرزخریدے اوریوں پاکستانی بحریہ کی دیگرممالک کے ساتھ ٹیکنالوجی کی منتقلی کی جو پالیسی انتہائی کامیاب ثابت ہوئی ہے۔

ابھی حال ہی میں رومانیہ اورترکی میں بنائے گئے جہازبھی پاکستانی بحریہ میں شامل کیے گئے ہیں اورمستقبل قریب میں پاکستانی بحریہ کے پاس50تک بحری جنگی جہازآجائیں گے۔پاکستان اورچین مل کرابھی8آبدوزیں بنارہے ہیں جن میں سے چارچین جبکہ چارکراچی کے شپ یارڈ میں بن رہی ہیں۔پاکستان کی بحریہ دیگربحری جنگی جہازبنانے پربھی کام کررہی ہے جس کے کچھ پُرزے پاکستان اورکچھ دیگرممالک میں بن رہے ہیں۔دوسری جانب انڈین کا دعویٰ ہے کہ”پاکستان نے چین کے ذریعے اپنے جہاز،میزائل اورآبدوزیں بنانے کی صلاحیت میں اضافہ کیا ہے۔سب سے اہم بات یہ ہے کہ چین نے پاکستان کوایریاڈینائل نامی دومیزائل دیے ہیں جن کی رینج200سے400کلومیٹرتک ہے اور یہ طیارہ برداربحری جہازوں کوبھی باآسانی نشانہ بناسکتے ہیں”۔ان کے مطابق”چین کوپاکستان کی بحری صلاحیت بڑھانے میں اس لئے بہت دلچسپی ہےکہ چین کی بحریہ بحرہند میں زیادہ کام کرتی ہے اور اگر پاکستان بحیرِہ عرب کامحاذ سنبھال لیتاہے توچین کواس طرف توجہ دینے کی ضرورت نہیں پڑے گی اوراہم بات یہ ہے کہ پاکستان کے پاس جوکنوینشنل آبدوزیں ہیں اس صلاحیت کی آبدوزیں انڈیاکے پاس بھی نہیں ہیں”۔

دوسری جانب اس خطے پرامریکااورچین کے درمیان جاری مقابلے کااثربھی پڑرہاہے اوراس کافائدہ انڈیاکوہوتاہے۔چین کے بڑھتے ہوئے اثرورسوخ کوکم کرنے کیلئے امریکانے”انڈو پیسیفک حکمت عملی”تیارکی ہے۔امریکاکہتاتوہے کہ یہ کثیرالاقوامی پالیسی ہے لیکن دراصل یہ ہم خیال ممالک کے ساتھ اتحادبنانے کی حکمت عملی ہے۔اس سلسلے میں امریکانے کواڈ نمااتحادبنایاجس میں امریکا ،انڈیا،جاپان اورآسٹریلیاشامل ہیں اوراس میں اقتصادی، عسکری اورٹیکنالوجی کے اعتبارسے تعاون کیاجارہاہے۔ان تمام شعبوں میں انڈیاکوہونے والافائدہ ہمارے لیے اچھانہیں کیونکہ وہ ہمارے مخالف ہیں”۔

انڈین دفاعی جریدے”فورس”کے مطابق پاکستان نے کم دفاعی بجٹ کی وجہ سے “سی کنٹرول”کی بجائے”سی ڈینائل”کی پالیسی پرعمل کیا۔”سی ڈینائل”کی پالیسی میں آبدوزوں کابہت بڑا کردارہوتاہے کیونکہ وہ زیرِسمندررہ کراپنے ہدف پرحملہ آورہوسکتی ہیں۔ پاکستان کے پاس موجودمنی آبدوزیں سومیٹرکی گہرائی تک جاسکتی ہیں اوریہ بحری سرحدوں کی حدود کے نزدیک کام کرتی ہیں، یعنی اگر دشمن کا کوئی جہازان کے بحری حدودکے نزدیک آتاہے تواس کے واپسی کے امکانات بہت کم ہوتے ہیں۔

وہ اس بات سے بھی اتفاق کرتے ہیں کہ پاکستان کی بحریہ آج طاقتورہو چکی ہے اوراس میں کوئی حیرانی نہیں اگرچین کی مدد سے پاکستان زیرسمندر چھوڑے جانے والے کچھ ڈرون بھی بنا رہا ہوجووہ اپنی بحریہ میں شامل کرسکے۔انڈیاکوپاکستانی بحریہ سے یہ تشویش بھی ہے کہ”خلیج فارس اوربحراحمرکے راستے انڈیاکابیشترتیل آتاہے اوریورپ سے تجارت ہوتی ہے۔جبوتی میں چین کا بحری اڈہ ہے،ادھرکراچی،گوادراورمکران کے سمندری خطے میں پاکستان کی بحریہ سرگرم ہے۔اس خطے میں پاکستان اورچین کی طاقت بہت بڑھ گئی ہے۔

ادھرانڈیانے سمندرمیں اپنی ذمہ داری اپنی موجودہ صلاحیتوں سے زیادہ بڑھالی ہے۔دراصل پاکستان جن بحری علاقوں کی حفاظت کررہاہے وہ رقبے کے لحاظ سے انڈیاکے مقابلے میں بہت کم ہیں،یعنی پاکستان پرذمہ داری بھی کم ہے اوراس کوصرف بحیرہ عرب پرنظررکھنی ہے اوروہیں لڑائی بھی لڑنی ہے جبکہ انڈیاامریکاکی گودمیں بیٹھ کریہ تاثردے رہاہے کہ انڈیاکی بحریہ نے اپنے دائرہ بحرہندسے بڑھاکرساؤتھ چائناسی اورپیسیفک اوشین(بحرالکاہل ) تک پھیلالیاہے۔انڈیاکی فوج یابحریہ کے پاس وہ طاقت نہیں ہے جوبہت دورتک جاکرمفادات کاتحفظ کرسکے۔انڈیانے تھیوری میں عالمی طاقتوں کی طرح بڑھک ماری ہے لیکن زمینی حقائق کے مطابق اتنی دورتک اپنے مفادات کاتحفظ کرنے کی اس میں صلاحیت نہیں ہے۔

گزشتہ دودہائیوں میں انڈین بحریہ نے خودپرکافی سرمایہ لگایاہے اوروہ”اس علاقے میں تھانیدارکاکردارنبھانا چاہتاہے۔فی الحال تو اس کے پاس اتنی صلاحیت نہیں ہے جواس نے خودپرنیٹ سکیورٹی پروائیڈرکالیبل لگایاہے،یعنی جوکچھ علاقے میں ہورہاہے۔اس اس پرنظرہے اوراس سب سے نمٹنے کیلئے اس کے پاس قابلیت ووسائل ہونے چاہییں،یہ صلاحیت فی الحال تواس کے پاس نہیں ہے لیکن یہ اس کامقصدہے جس کے حصول کیلئے ہاتھ پاؤں ماررہاہے۔

دوسری جانب خودانڈین دفاعی ماہرین کاکہناہے کہ اس خطے کی تین قوتوں انڈیا،چین اورپاکستان کی فوجی طاقت کاسوال ہے،انڈیا اورچین کے درمیان زمین آسمان کافرق ہے۔جہاں تک انڈیااورپاکستان کے موازنہ کاسوال ہے آج پاکستان کی بحریہ اورفضائیہ اپنے ماہرین کی مدداورچین کے تعاون سے بہت طاقتورہوچکے ہیں۔پاکستان کی تینوں افواج بشمول بحریہ کامقصداپنی زمین کادفاع کرنا ہے اوران کے پاس جارحانہ صلاحیتیں بھی ہیں لیکن اس کے باوجود پاکستان کے کوئی جارحانہ عزائم نہیں اورنہ ہی کسی علاقے پرقبضہ کرنامقصودہے تاہم اپنی زمین کے انچ انچ کادفاع کاعزم لئے ہوئے ہیں۔

یادرہے کہ25نومبر2022کوشہبازشریف نے ترکی کے صدراردگان کی دعوت پراعلیٰ سطح وفد کے ہمراہ استنبول شپ یارڈ میں پاکستان بحریہ کیلئے چارملجم(MILGEM)کارویٹ بحری جہازوں میں سے تیسرے جہازپی این ایس خیبرکاافتتاح کیاتھا۔ملجم منصوبہ ترکی کاقومی بحری جنگی جہازوں کی تیاری کاپروگرام ہے،جسے ترک بحریہ سنبھالتی ہے۔ان جنگی جہازوں کوفوجی نگرانی،انٹیلی جنس مشنز،قبل ازوقت وارننگ،اینٹی سب میرین وارفیئر اوردیگرمشنزکیلئے استعمال کیاجاسکتاہے۔

پاکستان کی بحریہ کیلئے ملجم جنگی جہازبنانے کامنصوبہ2018میں ترکی کی ایک فرم کودیاگیاتھا۔گزشتہ برس اگست میں اس منصوبے کے پہلے جنگی جہازپی این ایس بابرکی افتتاحی تقریب استنبول میں منعقد ہوئی تھی۔ جبکہ دوسرے جنگی جہازپی این ایس بدرکاافتتاح مئی2022میں کراچی میں کیاگیا۔یہ تکنیکی طورپرپاکستان نیوی فلیٹ کیلئے جدیدترین جنگی جہازہیں۔ترکی کے مشترکہ طورپربنائے گئے یہ جنگی جہازپاکستانی بحریہ کے پاس جدیدترین ہتھیارہیں جوکہ پاکستان کی میری ٹائم سکیورٹی کی صلاحیت کوبڑھانے میں اہم ثابت ہوں گے۔سندھ اوربلوچستان کی ساحلی سرحدکواہم سکیورٹی فراہم کریں گے۔یہ علامتی طورپراہم ہے اورساتھ ہی یہ منصوبہ دومسلم ممالک کے درمیان تاریخی دوستی اوربرادرانہ تعلقات کی ایک مثال بھی ہے۔

یادرہے کہ پاکستان اورترکی کے تعلقات کی بنیادتقسیم برصغیراورپاکستان کے قیام کے فوراًبعدرکھی گئی۔اس رشتے کی بنیاد مشترکہ مسلم وراثت،روایات اوربھائی چارہ تھی۔اس بھائی چارے کی جڑیں تاریخ میں موجودہیں۔ترکی کی جدوجہد آزادی کو برصغیرکے مسلمانوں کی طرف سے دی گئی حمایت ترک عوام کے ذہنوں میں ایک خاص اہمیت رکھتی ہے۔دونوں ممالک زلزلے اورسیلاب جیسی قدرتی آفات میں ایک دوسرے کی مددکرتے رہے ہیں۔ دونوں ممالک کے درمیان سکیورٹی تعاون اورعوام کے درمیان تعلقات میں گرمجوشی رہی ہیں۔تاریخی طورپردونوں ممالک نے کشمیراورقبرص جیسے مسائل پرایک دوسرے کاساتھ دیا ہے۔تاہم اقتصادی تعاون اب بھی بہت محدودہے۔

اب تک پاکستان اورچین کی دوستی انڈیاکیلئے چیلنج تھی،اب پاک ترک دوستی نےانڈیاکوپریشان کررکھاہے۔مارچ2021میں سعودی گزٹ میں شائع ہونے والے ایک مضمون میں کہاگیاتھاکہ اردوگان جنوبی ایشیامیں پاکستان کے ساتھ سٹریٹجک اتحادکومزیدمضبوط کرناچاہتے ہیں۔گزشتہ سال مارچ میں اکنامک ٹائمزمیں شائع ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق افغانستان میں ترکی اورپاکستان کے ساتھ مل کرکام کرنے کے فیصلے نے ان قیاس آرائیوں کوہوا دی ہے کہ بحیرۂ روم اورجنوبی ایشیامیں انڈیا کی مشکلات بڑھ سکتی ہیں۔ترکی کاکہناہے کہ اس کاہدف جنگ زدہ ملک افغانستان میں اقتصادی ترقی کیلئے کام کرناہے۔پاکستان اورترکی دونوں مشترکہ طورپرایران کے راستے ریلوے لائن کوتوسیع دے رہے ہیں۔

اکنامک ٹائمزکی رپورٹ میں کہاگیاہے کہ”پاکستان ترکی کے تیارکردہ ملجم(MILGEM)بحری جنگی جہازوہاں کے سرکاری دفاعی ٹھیکیدارایسفاٹ (ASFAT)سے خریدنے کے عمل میں ہے۔اس کے علاوہ پاکستان نے30ٹی-129ATAK ہیلی کاپٹربھی منگوائے ہیں۔ترکی سے پاکستان کی یہ دفاعی سازوسامان کی خریداری تین ارب ڈالرتک پہنچ گئی ہے۔پاکستان نے مشرقی بحیرۂ روم میں ترکی کی گیس کی تلاش کی مہم کی بھی حمایت کی۔ترکی بھی مسئلہ کشمیرپرپاکستان کی کھل کرحمایت کرتاہے۔فروری 2020میں اردوگان نے کہاتھاکہ کشمیرکامسئلہ ترکی کیلئے بھی اتنااہم ہے جتناپاکستان کیلئے ۔ آرمینیاآذربائیجان تنازعے میں بھی پاکستان نے ترکی کی کھل کرحمایت کی تھی۔اب ٹرائیکا(امریکا،اسرائیل اورانڈیا)کوجہاں یہ پریشانی ہے کہ خطے کے سمندری راستوں پرپاکستانی نیوی کی بڑھتی ہوئی برتری کواڈکوناکام بنانے میں اہم کردارادا کرسکتی ہے وہاں خلیج فارس اوربحراحمرکی ناکہ بندی سے انڈیاکا بیشترتیل اوریورپ سے تجارت کاخاتمہ ہوسکتاہے اوردوسری طرف کراچی،گوادراورمکران کے سمندری خطے میں پاکستانی نیوی ایک مضبوط طاقت بن چکی ہےجوملکی دفاع کیلئے پہلے سے کہیں زیادہ اہم کرداراداکرنے کی صلاحیت حاصل کرچکی ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں