لارڈماؤنٹ بیٹن کوپہلاگورنرجنرل بنانے سے اس لئے انکارنہیں کیاتھاکہ وہ خوداس عہدے کے خواہاں تھے،بلکہ اس لئےکہ اپنی قوم اوراقوام عالم کویہ باورکروایاجائے کہ اب برطانوی راج ختم ہوگیااورسلطانی جمہورکازمانہ آگیاہےاورملک کے فیصلے ملک کے اندرہوں گے۔یہ سیا سی آزادی کی علامت تھی۔اس کے ایک سال بعدجب یہ مسئلہ درپیش ہواکہ آیاپاکستان کے طے شدہ تما م اثا ثے پہلے کی طرح”ریزروبینک آف انڈیا”میں جمع رہیں یااس کااپنابینک ہو،قائداعظم نے فیصلہ کیاکہ آزادملک پاکستان کااپنا آزادبینک ہونا چاہئے،اس طرح انہوں نے اقتصادی آزادی کااعلان کرتے ہوئے اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے قیام کااعلان کیااور کراچی میں بولٹن مارکیٹ میں واقع تاریخی عمارت میں پاکستان کے پہلے اسٹیٹ بینک کا افتتاح کرتے ہوئے فرمایاکہ میں ایسا معاشی نظام نہیں چاہتاجس میں امیر،امیرتراورغریب، غریب ترہوجائے۔انہوں نے سودی نظام کواستحصا لی نظام قراردیتے ہوئے ماہرین اقتصادیات اورعلمائے دین کوتلقین کی کہ وہ اسلام کے اصولوں پر مبنی بینکاری کے قیام کیلئے تحقیق اورغوروخوض کریں۔اسی طرح انہوں نے سابقہ مشرقی پا کستان کی بندرگاہ چٹاگانگ میں استحصال کے خاتمے اورفلاحی مملکت کے قیام پر زوردیا۔
انہوں نے پاکستان کی خارجہ پالیسی کے بارے میں رہنمااصول متعین کئے اورکہاکہ پاکستان دنیاکے ہرملک سے برابری کی بنیاد پردوستانہ تعلقات کا خواہاں ہے لیکن ساتھ ہی مظلوم قوموں کی حمائت بھی جاری رکھے گا۔یہ صرف سیاسی بیان نہیں تھاجیساکہ ایوانِ اقتدارپہنچتے ہی ہرطالع آزمااپنے بیرونی آقاؤں کی خوشنودی کیلئے اختیارکرلیتے ہیں بلکہ قائداعظم نے فلسطین،جنوبی افریقااورانڈونیشیاکے عوام کی جدوجہدآزادی کی کھل کربرملاحمائت کی،نسلی امتیازاورنوآبادیات کے خاتمے کیلئے قرارواقعی اقدامات بھی کئے۔اگریہ کہاجائے کہ وہ صرف مسلم ممالک کی آزادی کے حامی تھے توجنوبی افریقاکی اکثریت توغیرمسلم تھی تو پھرانہوں نے اس کی حمائت کیوں کی؟
قائد اعظم نے پاکستان کے قبائلی علاقوں میں سلطنت برطانیہ کے زمانے سے تعینات فوج کوان کی چوکیوں سے واپس بلالیااور کہا کہ اب ہمارے قبائلی بھائی ہماری شمال مغربی سرحدکی حفاظت کریں گے۔لیکن انہیں کیامعلوم تھاکہ ساٹھ سال بعدکوئی خود ساختہ محافظ پاکستان امریکی قصرسفیدمیں بیٹھے فرعون کے حکم پران ویران چوکیوں پرجواب کھنڈربن گئیں تھیں،پھرفوج تعینات کردے گاجیسے برصغیرکے برطا نوی آقاؤں نے حریت پسندوں کی بستیوں پرسامراج کی گرفت مضبوط کرنے کیلئے کر رکھاتھا۔جہاں سیاسی ایجنٹ چیدہ چیدہ قبائلی سرداروں کورشوت دیکران کی وفاداریاں خریدلیتے تھے ۔اس ڈکٹیٹرکے دورمیں یہ کاروباراپنے عروج پرپہنچ گیاتھاکیونکہ اس ڈکٹیٹرنے اپنےغاصبانہ اقتدارکوطول دینے کیلئے چندڈالروں کے عوض قبائلی عوام کو کچلنے کیلئے امریکی سی آئی اے کووہاں اڈے بنانے کی اجازت دے کرقائداورملک وملت کے ساتھ غداری کی۔
لیکن یہ بدنصیبی تواس ڈکٹیٹرکے آنے سے پہلے سےجاری تھی جب امریکی خفیہ پولیس ایف بی آئی کوپا کستان کی سرزمین پر تھا نے قائم کرنے کی اجازت مل چکی تھی۔کیایہ ستم ظریفی نہیں ہے کہ بانی پاکستان قائداعظم توانگریزگورنرجنرل گوارہ کرنے کوتیارنہیں تھے اورایک ایک کرکے نوآبادیات کی باقیات کومٹاتے جارہے تھے،جبکہ ان کی وفات کے تقریباًنصف صدی کے بعد آنے والے حکمران استعمارکے غیرملکی گماشتوں اورجاسوسوں کی میزبانی کررہے تھے۔اب نوبت بہ ایں جارسیدکہ کٹھ پتلی حکمران اپنے عوام سے خاص کرغیورقبائلیوں سے اس قدرخا ئف ہوگئےکہ اپنے غاصبانہ قبضے کوبچا نے کی خاطرغیر ملکیوں اورصہیونی وصلیبی عناصرکی غلامی اختیارکرلی۔کیاکوئی تصورکرسکتاہے کہ کسی حکومت کوخود اپنے ہی عوم سے ،اپنے دین سے،اپنے اعتقادات سے،اپنے نظریات سے خطرہ محسوس ہورہاہوجس سے خودکومحفوظ رکھنے کیلئے انہیں غیر ملکی ایجنٹ اورغیراسلامی نظریات درآمدکرنا پڑیں؟ بلیک واٹرکادرندہ دن دیہاڑے لاہورکی مشہورشاہراہ پرسینکڑوں لوگوں کے سامنے دوغریب پاکستانیوں کوگولیاں مارکرہلاک کردے اوراسے باعزت چھڑوانے کیلئے خود ریاستی اداروں کے سربراہ بشمول صدرآصف زرداری قومی خزانے سے وارثوں کو24کروڑ روپے خون بہااداکرکے اسے واپس امریکا روانہ کردیں اوراسی ریمنڈڈیوس نے اپنی خودنوشتہ کتاب”دی کنٹریکٹر” میں پاکستانی اداروں کے ان افراد کی تحقیرمیں اپنے کالے صفحات میں ان کامنہ کالاکردیا۔
قا ئداعظم کی11/اگست کی تقریرکابعض لوگ اس طرح حوالہ دیتے ہیں کہ جیسے انہوں نے زندگی میں پہلی باریہ تقریرکی ہے اوران کی باقی تقاریر منسوخ ہوگئیں۔یہ لوگ قائداعظم کے متعدد بیانات کونظراندزکردیتے ہیں جن میں انہوں نے واضح طورپر تواتراورتکرارکے ساتھ یہ واضح کردیا تھاکہ پاکستان ایک اسلامی فلاحی ریاست ہوگی،ساتھ ہی قوم کویہ بھی بتادیاتھاکہ اسلام میں پاپائیت یابرہمنیت جیساکوئی طبقہ نہیں ہے جسے ریاست کی اجارہ داری کاکوئی پیدائشی حق حاصل ہو۔جولوگ یہ کہتے ہیں کہ قا ئداعظم ایک سیکولرریاست چاہتے تھےتوسوال یہ پیداہوتاہے کہ کیاانہوں نے پاکستان کامطالبہ محض اس لئے کیاتھاکہ برصغیر میں دوسیکولرریاستیں ہوں،ایک پاکستان اوردوسری اس کے پڑوس میں ہندوستان؟پھردوریاستوں کی ضرورت ہی کیاتھی؟اگرپا کستان حق خودارادیت کے نتیجے میں وجودمیں آیاتواس میں اوربھارت میں اسلام کاعنصرانہیں ایک دوسرے سے ممّیز کرتا ہے۔
کون اس تاریخی حقیقت سے انکارکرسکتاہے کہ برصغیرکے مسلم اقلیتی صوبوں کے مسلمانوں نے جذبہ یگانگت کے تحت مطا لبہ پاکستان کی حمائت کی تھی۔لہندایہ کہناکہ مطالبہ پاکستان کی عوامی حمائت کے محرکات معاشی تھے،قطعاًغلط ہے۔کیونکہ مسلم اقلیتی صوبوں کے مسلمانوں کوقیام پاکستان سے کون سے معاشی فوائدکی توقع تھی؟وہ توبیچارے ہندواکثریت کے یرغمال بن گئے،البتہ میں ان جاگیرداروں اورسرمایہ داروں کی نیتوں کے بارے میں کچھ نہیں کہہ سکتاجنہوں نے راتوں رات یونینسٹ پا رٹی چھوڑکرحکمران مسلم لیگ میں شمولیت اختیارکرلی تاکہ ان کی مراعات باقی رہیں۔میں بھا رت سے نقل مکانی کرنے والے ان مفادپرستوں کے بارے میں کچھ نہیں کہوں گاجوحصول جائیداد،مال ودولت اورجاہ وحشم کے لالچ میں پا کستان آئے۔
بلکہ یہ بھی حقیقت ہے کہ پاکستان کی ایک لسانی جماعت کے اکژرہنما ایسے بھی ہیں جوقیام پاکستان کے موقع پرہندوستان میں ہی مقیم رہے لیکن یہ اپنی قلیل تعدادکے باوجوداپنے مفادات کے تحفظ کیلئے یہاں مہاجرکالبادہ اوڑھ کرلوگوں کی ہمدردیاں حاصل کرکے اپنےسیاسی ایجنڈہ پرگامزن ہیں حالانکہ یہ فوری پاکستان آنے کی بجائےاس بات کاجائزہ لیتے رہے کہ پاکستان کے معاشی اورسیاسی حالات کیارخ اختیارکرتے ہیں۔اپنے کاروباراوردوسری تمام املاک کواچھے داموں فروخت کرکے پاکستان میں مہاجرکا لیبل لگاکر پاکستانی مایہ میں خوب ہاتھ رنگے۔پاکستان کی بیوروکریسی کے توسط سے پا کستان کی نوکرشاہی اوردوسرے ملکی اہم اداروں میں کالے انگریزوں کی طرح بطورحکمران قابض ہوگئےاورآج کھلے عام ملک کی لوٹ کھسوٹ کے علاوہ پاکستان کیلئے اپنے بزرگوں کی قربانی کاذکربھی بڑی بے شرمی کے ساتھ کرتے ہیں لیکن یہ حقیقت ہے کہ مخلص مہاجرین کی اکثریت بھی ان سے شدیدنالاں ہے۔ان مذکورہ طبقا ت کے محرکات یقینامعاشی تھے لیکن خودپاکستان میں بسنے والے کروڑہاعوام نے اسلامی جذبے سے سرشارہوکرجدوجہدپاکستان میں اپناکرداراداکیاتھا۔ان میں کتنے کٹ مرے،کتنی عصمتیں لٹ گئیں،لیکن ان کے پائے استقلال میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔لاکھ سے زائد مسلمان بچیاں ہندؤوں اورسکھوں نے اغؤاکرلیں اورآج بھی یقیناًآسمان کی طرف منہ اٹھاکر نجانے کس حال میں پا کستان کی سلامتی کیلئے دعاگوہوں گی۔یہ جذبہ ایمانی نہیں تھاتواورکیاتھا ؟اس کی پشت پر کربلاکی روایت تھی،اس کی آکسیجن تحریک خلا فت کانظریہ تھا۔
کیا مسلم عوام نے جس وطن کیلئے اتنی قربانیاں دیں،وہ اس لئے کہ ان کے ملک پرامریکااورمغرب کاتسلط قائم ہوجائے،ان کو امریکی انتظامیہ کاایک ادنیٰ سااہلکاریہ بتائے کہ فلاں کووزیر اعظم بناؤ،فلاں کووزیرداخلہ،فلاں کوملکی سلامتی کامشیر،فلاں کو ہمارے ہاں سفیرمقررکرواورفلاں کوعدلیہ کاسربراہ بناؤ؟کیاقائداعظم محمدعلی جناح نے پاکستان کےاثا ثے”ریزروبینک آف انڈیا” سے نکال کراس لئے اسٹیٹ بینک آف پاکستان میں رکھے تھے کہ سٹی بینک کاایک”کنٹری مینجر”درآمدکرکے اس کوملک کا وزیراعظم بنادیاجائے جوپاکستان کے قومی اثاثوں کواونے پونے داموں میں فروخت کرکے اپناکمیشن کھراکرکے رات کے اندھیرے میں گم ہوجائے؟بات یہی تک موقوف نہیں بلکہ بعدازاں آئی ایم ایف کے حاضرسروس نمائندے کواسٹیٹ بینک کاگورنر بناکرملک کی ساری مالی سلامتی کی شہہ رگ ان کے حوالے کردی جائے۔
کیاقائداعظم نے کشمیرمیں استصواب رائے عامہ کی حمایت اس لئے کی تھی کہ کوئی طالع آزماآکریہ کہے کہ اب رائے شما ری سے متعلق سلا متی کونسل کی تما م قراردادیں غیرضروری ہوگئی ہیں!جیساکہ میں نے شروع میں یہ عرض کیاکہ قا ئد اعظم نے قبائلی بستیوں سے فوج ہٹائی لیکن کمانڈومشرف نے نہ صرف فوج کشی کردی بلکہ ایک لا کھ دس ہزارفوج پاک بھارت سرحد سے ہٹاکرقبائلی علاقوں اورافغان سرحدپرلگادی اوروہ بھی قصرسفیدکے فرعون کے حکم پر!پاکستان کوبیرونی حملے سے بچا نے کیلئے نہیں بلکہ افغانستان میں امریکی پٹھوحکومت کوافغان عوام پر مسلط کرنے کیلئے،تاکہ افغانستان پرامریکاکا قبضہ برقرار رہے۔اس وقت بھی ہم جیسے افرادچیخ چیخ کرشورمچاتے رہے کہ اب اگربھارت جوکنٹرول لائن کی باربارخلاف ورزیاں بھی کر رہاتھا،پا کستان پرحملہ کردے توکیاہوگا؟ہماری دفاعی لائن جوڈیونڈرلائن تک پھیل جائے گی تومشرقی محاذپر کون لڑے گا؟…….امریکا ؟کیاجب نپولین ،ہٹلر، برژنیف دومحاذوں پرنہیں لڑسکے تو پاکستان کے جنرل پاک افغان اور پاک بھارت سرحد وں کی حفاظت کرسکیں گے؟لیکن جواب میں پاکستانی میڈیاکو حکم دے دیاگیااورمیری تمام تحریروں پرمکمل پابندی لگادی گئی لیکن اللہ بڑے کریم ہیں کہ پابندی لگانے والابزدل ملک سے فرارہوگیااوراس کی میت ہی واپس آسکی۔ فَاعْتَبِرُوايَاأُولِي الْأَبْصَارِ
شنیدیہ ہے کہ امریکابہادرکی یقین دہانی پربھارت سے تمام متنازعہ امورپرخفیہ مفاہمت کااشارہ دیاگیاتھاجس کے بعدہی حکومت نے ایک لاکھ دس ہزار فوج پاک بھارت سرحدسے ہٹاکرپاک افغان سرحدپرلگادی تھی۔قا ئداعظم کی وفات کے چھ سال بعدہی نوکر شاہی نے اپنی سرزمین پرامریکاکوفوجی اڈے دے دئیے جہاں سے سوویت یونین کے خلاف جاسوسی پروازیں جاری رہیں جس کے با عث روس پاکستان کواپنادشمن سمجھنے لگااورکشمیرمیں رائے شماری کی قراردادکے خلاف حق تنسیخ استعمال کرکے اسے کالعدم بنادیا۔اسی طرح مشرقی پاکستان سے فوجوں کی واپسی کی قراردادکوبھی منسوخ کرکے بھارتی فوج کومشرقی پا کستان پرقبضہ کرنے کابھرپورموقع فراہم کردیا۔لیکن صدمے کی بات تویہ ہے اورہماری تاریخ کے سیاہ اوراق میں یہ بھی درج ہوگیا ہے کہ کس طرح قصرسفیدکے فرعون کے حکم پرتھالی میں رکھ کرکشمیرکومودی کے حوالے کردیاگیا۔اس کربناک داستان کومیں کئی مرتبہ اپنے کالمزمیں تحریربھی کرچکاہوں۔
قائداعظم نے فرمایاتھا کہ ملک میں جمہوریت ہوگی اورہرصوبے کواندرونی خودمختاری حاصل ہوگی،جبکہ ان کے جانشینوں نے مشرقی پا کستان کوآبادی کے تناسب سے نمائندگی دینے سے انکارکردیااورمغربی پا کستان کے صوبوں کاوجودختم کرکے ایک اکائی بنادیا۔جب صوبے ہی نہ رہے توپھرصوبائی خود مختاری کیسی؟ہماری انہی آمرانہ حکومتوں کی غلطیوں سے دشمنوں نے خوب فائدہ اٹھایااوراب تومودی کود عالمی میڈیاپربھی یہ بارہاتسلیم کررہاہے کہ کس طرح اس نے مشرقی پاکستان میں مکتی باہنی کیلئے کام کیا۔ کیونکہ اندرہی اندرعلیحدگی پسندی کی آگ سلگتی رہی جس پرانڈیاتیل پھینکتارہاجومشرقی پاکستان میں آتش فشاں بن کرپھٹ پڑی اورصوبہ سرحد،سندھ اوربلوچستان تک پھیل گئی۔مشرقی پاکستان سے بنگلہ دیش کےتکلیف دہ سفرپرکئی کتابیں لکھی جاچکی ہیں لیکن میرے رب نے ان تمام کرداروں سے جوانتقام لیا،وہ بھی باعثِ عبرت توہے لیکن ان تمام متکبرشیطانی دماغ تو5/اگست2024ء کو یقیناًششدررہ گئے جب ان کی ایجنٹ خونی حسینہ ڈائن پناہ کیلئے ان کے پاس پہنچ گئی اورچشم فلک نے اسی ڈھاکہ،چٹاگانگ،جیسورکی سڑکوں پر نوجوانوں کو”پاکستان سے رشتہ کیا،لاالہٰ الااللہ”کے فلک شگاف نعرے لگاتے ہوئے دیکھا جبکہ ان تمام بچوں کی عمریں توبنگلہ دیش کی عمرسے کہیں کم ہیں۔
لیکن ہمارے ہاں اب بھی سیاسی ابتری،انارکی اورخلفشارپاکستان کی بنیادوں کوکھوکھلاکررہی ہے اوراستعمارکے گماشتے ماضی کی طرح اب بھی خاکم بدہن اس کے ٹوٹنے کاذکرکرتے رہتے ہیں۔اب بھی اپنے شیطانی دماغوں سے اس کے نقشے شائع کرتے رہتے ہیں۔یہ خبیث پاکستان کی نفرت میں اتنے اندھے ہوگئے کہ ابھی تک اس لنگڑے گھوڑے بھارت پرشرطیں لگارہے ہیں جہاں خوددنیاکی سب سے زیادہ علیحدگی کی تحریکیں چل رہی ہیں ۔خودبھارتی تجزیہ نگارتسلیم کرتے ہیں کہ14بھارتی ریاستوں میں21 بڑی اور53چھوٹی مگرمؤثرآزادی کی تحریکیں اپنی آزادی کیلئے لڑرہی ہیں بالخصوص ماؤتحریک سے بھارتی سلامتی کوشدید خطرات کااعتراف بھی کیاجارہاہے۔ناگالینڈ،میزوران،منی پورہ،آسام،مغربی بنگال بہار،اترپردیش میں بھی علیحدگی پسندوں نے بھارت کوبہت خوفزدہ کررکھاہے۔اس کے ساتھ ساتھ نکسل باڑی کے ساتھ تین دیگرصوبوں میں بھی بھارتی حکومت بے بس نظرآرہی ہے۔
بھارتی تجزیہ نگاروں کے مطابق موجودہ بھارتی گورنمنٹ کی انتہاپسندانہ سوچ کی وجہ سے آئے دن ان تحریکوں میں تیزی سے اضافہ ہورہاہے اورخودیہ اعتراف منظرعام پرآچکاہے کہ اس وقت بھارت کے174ڈسٹرکٹس انتہاپسنداورعسکریت پسندوں کے کنٹرول میں ہیں۔ان ریاستوں کوعکسریت پسند اورانتہاپسندتنظمیں چلارہی ہیں۔صوبے آسام میں اس وقت علیحدگی پسندگردوں کی 34تنظمیں موجودہیں جواپنے اپنے علاقوں کاانتظام وانتصرام چلا رہی ہیں۔اسی طرح ناگالینڈ کی آزادی کی جدوجہدکرنے والی تنظیموں نے نہ صرف بھارت میں جنگی تربیت کے کیمپ لگارکھے ہیں بلکہ ان کیمپوں میں یہ اپنے نوجوانوں کوروزانہ ٹریننگ بھی دیتے ہیں اورایک اطلاع کے مطابق ان کے پاس جنگی پیمانے پرہتھیار،توپ،ٹینک اورچھوٹے میزائلوں سمیت درجنوں ہتھیار موجود ہیں۔اپنے اپنے علاقوں میں ان تمام تنظیموں کانہ صرف غلبہ ہے بلکہ ان تنظیموں کی اپنی فوج پولیس،آئین،قانون،عدالتیں، کرنسی،جھنڈے اوربڑے سرکاری دفاترمیں ان کے اپنے لیڈروں کی تصاویرآویزاں ہیں۔یہ لیڈربڑے پروٹوکول کے ساتھ اپنے سرکاری دفاترمیں آکربیٹھتے اورکام کرتے ہیں۔مودی حکومت ان کے علاقوں سے ٹرینوں کے گزرنے کاباقاعدہ خراج بھی اداکرتی ہے جبکہ منافقت کایہ عالم ہے کہ بھارتی حکومتیں کئی باران پرپابندیاں بھی عائدکرچکی ہیں،ان تنظیموں کے خلاف کئی بارفوجی آپریشن بھی کئے گئے لیکن بھارتی افواج کے دستے ان ریاستوں میں گم ہوکررہ گئے جن کااآج رک کوئی سراغ نہیں مل سکالیکن اپنی کامیوں پرپردہ ڈالنے کیلئے پاکستان میں اب تک دہشتگردی کی تحریکوں کی سرپرستی کررہاہے اورکبھی کبھار اپنے لوگوں کوبیوقوف بنانے کیلئے پاکستان پرسرجیکل اسٹرائیک کی دہمکیاں دیتارہتاہے جبکہ وہ خوب جانتاہے کہ سرجیکل سٹرائیک کاجواب فی الفوراس کی ندامت اوررسوائی کی شکل میں ساری دنیاتک دیکھ لیتی ہے۔
اب ضرورت اس امرکی ہے کہ ہم اپنے ملک کواستعماری قوتوں کے نرغے سے نکالنے کیلئے اپناوہ کرداراداکریں جس کاعہدہم نے اپنے رب سے کیاتھاکہ اے بارِ الہٰ:ہمیں زمین پرایساخطہ عنائت فرماجہاں ہم قرآن وسنت کے مطابق اپنی زندگی گزارسکیں۔ ہمارے کریم ورحیم رب نے توہمیں ماہِ رمضان کی انتہائی مبارک شب”لیلتہ القدر”کویہ معجزاتی ریاست عطافرمادی، ایک گولی چلائے بغیرہمارے قائدنے اپنے تمام وفادارساتھیوں کی شب وروزمحنت کے ساتھ علامہ اقبال کے خواب کی تعبیرہمارے حوالے کردی لیکن سوال یہ ہے کہ کیاواقعی ہم نے اپنے رب سے کیاگیاعہدپوراکیا؟جس کاجواب نفی میں ہے۔آئیے ہمیں سب سے پہلے اپنے رب کے حضورپوری ندامت کے ساتھ سجدہ ریزہوکراجتماعی توبہ کرناہوگی اورتجدیدعہد کی توفیق طلب کرتے ہوئے اس راستے کی طرف گامزن ہوں جس کیلئے یہ ریاست وجودمیں آئی۔ہمیں آج اپنے رب سے یہ عہدبھی کرناہوگاکہ ہم اپنے اس ملک میں قرآن وسنت کے نفاذ کیلئےاپنی ساری توانائیاں اخلاص کے ساتھ صرف کریں گے اوران تمام عہدشکنوں کوان کے بیرونی آقاؤں کے ساتھ ان کے حتمی انجام تک پہنچائیں گے۔۔۔ان شاءاللہ۔۔۔اللہ ہم سب کاحامی وناصرہو۔۔آمین