Shadows of brutality

سفاکی کے سائے میں

:Share

ہندوستان کی تہذیب دنیاکی قدیم ترین تہذیبوں میں شمارہوتی ہے۔تاریخ گواہ ہے کہ مسلم حکمرانوں کے دورِحکومت میں اس سرزمین نے محبت، فلسفہ، اور روحانیت کے وہ سبق دنیاکو دیے جن پرانسانیت ہمیشہ نازاں رہی۔مگرافسوس کہ اسی دھرتی کے سینے پرصدیوں سے ایک ایسازخم بھی ہے جومندمل نہیں ہوتا۔برِصغیرکی تاریخ میں ذات پات کانظام ایک ایسا ناسور ہے جس نے انسانی مساوات کے چہرے سے روشنی چھین لی۔اس دھرتی پرجہاں کبھی اوپنشدی صدائیں“اہم برہمااسمی”کی برابری کاپیغام دیتی تھیں،وہیں وقت کی گرد میں انسانوں کوطبقوں،اونچ نیچ اورآلودہ خونی وراثتوں میں بانٹ دیاگیا۔

ذات پات کازخم،ذات کایہ تصور،جوکبھی مذہبی فہم یامعاشی تقسیم کے نام پروجودمیں آیاتھا،وقت کے ساتھ ساتھ ایک منظم استحصال میں ڈھل گیا۔ انسان ،انسان کاخدابن بیٹھا،اور “اچھوت”وہ ٹھہرے جن کی روحیں خالص تھیں مگرخون نچلے طبقے سے منسوب تھا۔کسی نے کیاسچ کہاتھا کہ انسان کی عزت کو پامال کرناخداکی زمین پربغاوت کے مترادف ہے۔موجودہ آر ایس ایس کے ہندوستانی سماج میں “دلت”محض ایک لفظ نہیں،بلکہ صدیوں کی محکومی،نفرت اوراجتماعی شرم کی ایسی داستان ہے جس کوآرایس ایس کا سیاسی ونگ بی جے پی مودی پایہ تکمیل تک پہنچانے میں پیش پیش ہیں۔

مدھیہ پردیش کی زرخیززمین،جہاں کبھی سنگیت اورسکون کے نغمے گونجتے تھے،آج مظلومیت کی چیخوں سے لرزرہی ہے۔مدھیہ پردیش کے حالیہ واقعات اسی بغاوت کی تجدیدہیں۔33سالہ گیان سنگھ،26 سالہ راجکمارچوہدری،اورداموہ کاوہ خاموش دلت—یہ سب اُس تاریخ کی تسلسل ہیں جوصدیوں سے اپنی تکرارمیں انسانیت کوشرمندہ کرتی آئی ہے۔اکتوبر2025کے وسط میں مدھیہ پردیش کی سرزمین پرتین واقعات رونماہوئے جنہوں نے ریاستی انصاف کے ستونوں کوہلاکررکھ دیا۔جب کسی قوم کے دل سے عدل کااحساس مٹ جاتاہے توظلم صرف دوسروں پر نہیں،اپنے آپ پربھی ہونے لگتاہے۔

مدھیہ پردیش کی حالیہ زمین پرگرے ہوئے آنسواس قول کی تصدیق کرتے ہیں۔33سالہ گیان سنگھ کے ساتھ پیش آنے والاواقعہ—جس میں اسے بندوق کی نوک پرمجبورکیاگیاکہ وہ پیشاب پئے—انسانی تاریخ کے اُن تاریک ابواب میں سے ایک ہے جنہیں پڑھ کرشرم بھی شرمندہ اورلرزجاتی ہے۔یہ محض فردکی تذلیل نہیں،بلکہ ایک پورے برہمن سامراج کے تکبرکااعلان اورمظلوم طبقے کی نفی ہے۔جب ایک انسان اپنی شناخت صرف اس لیے کھوبیٹھتاہے کہ وہ دلت ہے،تویہ ظلم کسی ایک ضلع یاایک ریاست کامسئلہ نہیں رہتا—یہ تہذیبی المیہ بن جاتاہے۔

اکتوبر 2025 کے ایّام مدھیہ پردیش کے دلتوں پر قیامت بن کر گزرے۔ بھنڈ، کٹنی، اور داموہ — تین اضلاع، تین دلت خاندان، اور ایک ہی المیہ، ذات کی بنیاد پر انسان کی تذلیل۔ گیان سنگھ کی فریاد – بھنڈ کی زمین پر انسانیت کی توہین، دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کا دعویٰ کرنے والی مودی سرکار کی ناک کے نیچے ہونے والا واقعہ جس نے دنیا بھر کی انسانیت کا سر شرم سے جھکا دیا۔

20اکتوبرکی وہ گھناؤنی شام—جب سورج مغرب کے دامن میں چھپ رہاتھا—بھنڈکے نواحی علاقے میں33سالہ گیان سنگھ کواغواکر کے اس پربہیمانہ تشدد کیاگیا۔بھنڈکے ایک مجبورباسی، گیان سنگھ،اپنی بےبسی کی داستان سناتے ہوئے زاروقطارروپڑے۔اس نے اپنی لرزتی وکانپتی زبان سے آنسوؤں سے شرابورچہرےکی جھلک میں دل چیردینے والے اورتیربن کردلوں کو چھیدتے ہوئے اپنے اوپر ہونے خوفناک ظلم کے بارے میں کہا:انہوں نے مجھے بندوق کی نوک پرگاڑی میں بٹھایا،مجھ پرتشددکیا،اورایک بوتل سے پیشاب پینے پرمجبورکیا۔اگرمیں دلت نہ ہوتاتوکیایہ ذلت میرے مقدرمیں لکھی جاتی؟کیامجھے پیشاب پینے پرمجبورکیاجاتا؟اگرمیں دلت نہ ہوتاتوکیا مجھے یہ سب سہنا پڑتا؟

20/اکتوبرکوضلع بھنڈمیں33سالہ دلت ڈرائیورگیان سنگھ کوبندوق کی نوک پراغواکیاگیا،تشددکیاگیااوربالآخر ایک بوتل میں پیشاب پینے پرمجبورکیاگیا ۔جرمِ ضعیفی—اورسزاءِمحرومی۔۔گیان سنگھ کا جرم کیاتھا؟صرف یہ کہ انہوں نے ایک مشتبہ جرائم پیشہ شخص،سونو باروا،کے ساتھ ڈرائیوری کرنے سے انکار کردیامگرانکار کے جواب میں اسے اغواکیاگیا،ماراگیااورانسانیت کی حدوں سے گزرکر رسواکیاگیا۔بسترِعلالت پراس کی رندھی ہوئی آوازاب بھی سوال کرتی ہے“میں نے خوف کے سبب کارچلانے سے انکارکیامگرکیا خوف بھی جرم ہے؟اگرمیں دلت نہ ہوتاتوکیایہ ذلت سہنی پڑتی؟”

یہ محض ایک شخص کی فریادنہیں،یہ اس سماج کی چٹان پرپڑی وہ دراڑہے جہاں انسانیت ذات پات کے اس خوفناک نظام کے قدموں تلے روندی جارہی ہے ۔بھنڈکے ضلعی اسپتال میں بسترِمرگ پرپڑاگیان سنگھ،اپنے زخموں سے زیادہ اپنی بے حرمتی کے داغوں سے لہولہان ہے۔ذات پات کاعفریت اورقانون کی لاچاری کایہ پہلاواقعہ نہیں،سینکروں بلکہ ہزاروں واقعات تومجبوری کے کفن میں دفنا دیئے جاتے ہیں۔۔صرف پندرہ دنوں کے اندرایسے تین واقعات سامنے آئے ہیں—تین دلت گھرانے،تین چیختی روحیں،اورمودی سرکار کے منہ پرایک اورطمانچہ،ایک اورسوال ابھرآیاکہ کیاقانون محض طاقتورکیلئے ہے؟بھنڈپولیس نے اگرچہ تین ملزمان کے خلاف ایف آئی آردرج کرلی ہے،مگریہ قانونی چارہ جوئی اس آگ پرپانی کے چندچھینٹوں سے زیادہ نہیں۔

لیکن سوال یہ ہے کہ—انصاف کی راہ کب روشن ہوگی،جب اندھیرے کے دیوتاخودقانون کے دروازے پرپہرہ دے رہے ہوں؟ذات پات کی تذلیل کاسلسلہ ابھی رکانہیں۔ایک اور زخم،ایک اورداستان بھی سن لیں۔بھنڈسے پانچ سوکلومیٹردور،کٹنی کے26سالہ دلت کسان راجکمارچوہدری کی رودادبھی اسی خونی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔13/اکتوبر کوجب اس نے غیر قانونی کان کنی کے خلاف آواز اٹھائی—اوراس جرات کاانجام یہ ہواکہ گاؤں کے سربراہ رامنوج پانڈے کے بیٹے پون پانڈے نے اس پربہیمانہ تشددکیا،اس کے چہرے پرپیشاب کیا،اور اس کی ماں کوبالوں سے گھسیٹاگیا۔بھرے مجمع میں اسے روند ڈالا، ذات کے نام پر مغلظات برسائے گئےاورانسانیت کوننگاکیاگیا۔یہ ظلم صرف جسم پر نہیں،روح پر ہوا۔

رام بہاری،رامنوج پانڈے اورپون پانڈے—وہ نام جوانصاف کی کتاب میں جرم کے عنوان کے طورپردرج ہونے چاہئیں،آج بھی آزادہیں کیونکہ ان کی پشت پرننگ انسانیت کی علمبردار سیاسی جماعت بی جے پی کے تحفظ کاسایہ ہے۔پولیس کے مطابق“ملزمان کی تلاش جاری ہے”مگراس تلاش کی رفتار مظلوم کے زخموں سے سست ہے۔پولیس اب بھی کہتی ہے،ہم کوشش کررہے ہیں،لیکن انصاف کی ساعت اب بھی تعویق میں ہے،اورانصاف جب تاخیرسے آئے توظالم کیلئے سہولت اورمظلوم کیلئے مزیداذیت بن جاتاہے۔

معاملہ یہاں بھی رکانہیں،داموہ کی زمین پربھی وہی کہانی دہرائی گئی۔خوف کے سایے میں خاموشی لرزرہی ہے۔داموہ میں ایک دلت کوایک برہمن کے پاؤں دھونے اوروہی پانی پینے پرمجبورکیاگیا—یہ صرف ذلت نہیں،یہ روح کی توہین ہے اورجب اس مظلوم سے پوچھاگیا کہ وہ قانونی کارروائی کیوں نہیں کرتا،تواس نے وہ جملہ کہاجو پورے نظام کونہ صرف ننگاکرگیابلکہ ذات پات کے اس ںطام کے منہ پرطمانچہ اورپورے عدالتی نظام پرحرف بن گیاہے”مجھے یہاں رہناہے۔ایف آئی آرکٹوانے کے بعدمیں کہاں جاؤں گا؟”یہ جملہ محض صرف ایک انسان کاخوف نہیں،یہ پورے سماج کی اخلاقی موت کااعلان ہے۔ اُس سماجی غلامی کی علامت ہے جسے قانون بھی اب تک آزادنہیں کرسکا۔

مدھیہ پردیش کے ان تینوں واقعات نے آئینِ ہندکی روح پرکاری ضرب لگائی ہے۔آئین کی دفعات15،17اور46 واضح طورپرذات،مذہب،اورنسلی امتیازکی نفی کرتی ہیں؛ مگرعملاًمعاشرہ اب بھی“منوسمرتی”کے سائے میں سانس لے رہاہے۔دفعہ17میں“اَن ٹچ ایبلٹی” (چھوت چھات)کوجرم قرار دیا گیامگرحقیقت یہ ہے کہ یہ جرم آج بھی گلیوں میں زندہ اورقانونی کتابوں میں دفن ہے۔انسدادِمظالم برذاتوں کاقانون1989،محض لفظوں کی زینت بن چکا ہے—جہاں مظلوم کی دہائی کویاتو“گاؤں کے جھگڑے” کارنگ دے دیاجاتاہے،یاخود متاثرہ فریق کوملزم بنادیاجاتاہے۔

وکیل اورسماجی کارکنان کے مطابق“احتساب کی عدم موجودگی ہی اصل مسئلہ ہے۔جب ظلم کے خلاف آوازاٹھانے والاخودخطرے میں پڑجائے،توخاموشی معاشرتی مجبوری بن جاتی ہے۔انصاف کی دیواروں پرخاموشی کے جالے اور مصلحتوں کاجبرطاری ہے۔وکیل اور انسانی حقوق کے علمبردارچیخ چیخ کرکہتے ہیں کہ ان جرائم کی جڑاحتساب کی کمی میں ہے۔اکثرمقدمات کو “اپسی جھگڑا”کہہ کررفع دفع کردیاجاتا ہے ،یاالٹامتاثرین پرہی مقدمے درج ہوجاتے ہیں۔ایک سوشل ورکرکابیان ہے کہ قوانین توہیں،مگرانصاف تک رسائی ایک خواب بن چکی ہے۔جب انصاف کے دروازے پراقتدارکے نگہبان کھڑے ہوں،تو مظلوم کی صدافصیلوں سے سرٹکراکرزخموں سےچور ناکامی کادھبہ لئےواپس آجاتی ہے۔

ذات پات کانظام،جسے ہندودھرم کے قدیم متون میں“ورن آشرم”کہاگیا،دراصل انسانی معاشرت کومنظم کرنے کاایک ابتدائی فریم ورک تھالیکن رفتہ رفتہ یہ مذہبی تقدیس کے پردے میں طبقاتی استبدادمیں بدل گیا۔منوسمرتی” نے اس تقسیم کومذہبی جوازعطاکیا،برہمن کوعلم کا،ویش کوتجارت کا،اور شودر کوخدمت کاحق ملا،جبکہ دلت کوصرف خاموشی اورغلامی اوردیگرمذاہب یعنی اسلام اورعیسائیت کے ماننے والوں کوتواس سے بھی کہیں زیادہ نفرت کاشکار بنایاجاتاہے جس کی درجوں مثالیں موجود ہیں۔تاہم تاریخ اس جبرکے خلاف مسلسل آوازوں کی گواہ بھی ہے۔بدھ مت نے“کرونا”(رحم)اور “اَہِمسا” (عدم تشدد)کے ذریعے اس نظام کے خلاف روحانی بغاوت کی۔بھکتی تحریک اورسنت کبیرنے ذات کی بیڑیاں توڑنے کاپیغام دیا۔
کبیرکی صداآج بھی گونجتی ہے“جات نہ پوچھوسادھوکی،پوچھ لیجو گیان”۔
اسلام نے بھی مساوات کاتصوردیتے ہوئے اعلان کیا:یعنی اللہ کے نزدیک سب سے زیادہ عزت والاوہ ہے جوسب سے زیادہ پرہیزگارہے۔(الحجرات:13)

یہ آفاقی اصول آج کے ہندوستان کیلئے بھی آئینِ عدل کی بنیادبن سکتے ہیں،اگردل ودماغ تعصب کے غلاف سے آزادہوں لیکن صد افسوس کہ آر ایس ایس جیسامتعصب گروہ جوامسال اپنے سوسال مکمل کرنے جارہاہے،اس کادعویٰ ہے کہ100سال گزرنے تک یہ ساراخطہ اکھنڈبھارت اوریہاں صرف ہندو برہمن راج کرے گااورباقی رہنے والے ان برہمنوں کی غلامی کیلئے رہ جائیں گے۔

1949ءمیں منظورہونے والے آئینِ ہندنے دلتوں کومساوی شہری قراردیااورذات پرمبنی امتیازکوممنوع ٹھہرایا۔ دفعہ15میں مذہب،نسل، ذات یاجنس کی بنیادپرامتیازممنوع قراردیاگیاہے جبکہ دفعہ17میں چھوت چھات کوجرم قراردیاگیااوردفعہ46میں ریاست پرلازم ہے کہ دلتوں اورپسماندہ طبقات کی تعلیمی ومعاشی ترقی کویقینی بنائے۔1989ءمیں شیڈول کاسٹ اورشیڈول قبائل نافذکیاگیاتاکہ ایسے تمام مظالم کاقانونی سدباب کیاجاسکے مگرعملاًیہ قانون اکثرطاقتورطبقات کے اثرمیں کمزورپڑجاتاہے۔

انسانی حقوق کے کارکنان کے مطابق جب نظامِ عدل کے دروازے پرطاقت کے محافظ کھڑے ہوں،توانصاف کاداخلہ ممکن نہیں رہتا۔ عدلیہ کے متعدد فیصلے خصوصاً سٹیٹ آف کرناٹکا بمقابلہ اپابالوانگیل(1995)اس حقیقت کوتسلیم کرتے ہیں کہ اس ذات پات کے جرائم محض سماجی نہیں بلکہ آئینی بغاوت ہیں،تاہم قانون کی موجودگی کے باوجود،انصاف کی عدم دستیابی ایک مسلسل المیہ ہے۔

فکری وتہذیبی زاویہ کابغورجائزہ لیاجائے توانسان کی حرمت،عدل اورایمان ہی معاشرہ کی خوبصورت اقدارکی ضامن ہوتی ہیں اور انسان کی حرمت اور سماجی عدل کے علمبردارمعاشرے ہی زندہ رہتے ہیں۔اسلام نے غلامی کے ہردروازے پرعدل کی دستک دی،اور انسان کوانسان ہونے کی بنیادپرشرف عطاکیاہے۔زبان صرف اظہارکاذریعہ نہیں،تہذیب کی امانت ہے—اورجب زبان میں عدل و انسانیت کابیان مفقودہوجائے تومعاشرہ اپنی تہذیب کھودیتا ہے اورعدل صرف قانونی نہیں بلکہ فکری اوراخلاقی فریضہ ہےاورجوقوم ظلم برداشت کرتی ہے،وہ دراصل ظلم کودوام بخشتی ہے۔مدھیہ پردیش کے واقعات میں یہی فکری سبق چھپاہے—جب مظلوم خوف سے خاموش رہتاہے،توظالم کے ہاتھ مضبوط ہوتے ہیں۔یہ خاموشی بھی جرم ہے۔

مدھیہ پردیش کے تینوں واقعات نے ثابت کیاکہ انصاف کامسئلہ محض قانونی نہیں بلکہ سماجی مرض ہے۔ظلم کی جڑاحتساب کی کمی کی بناءپرمعاشرہ کوتباہ و برباد کردیتی ہے جس پرآج کی مودی سرکارہندواقتدارکے نشے میں بگٹٹ بھاگ رہی ہے۔مدھیہ پردیش کے یہ واقعات محض پولیس کی نااہلی یاچندافرادکی سفاکی نہیں،یہ ایک ایسے معاشرتی زہرکی علامت ہیں جونسلوں سے رگ وپے میں اتر چکاہے۔پولیس کارروائی اکثرمتاثرین کے خلاف بھی درج ہوجاتی ہے۔ملزمان کوسیاسی پشت پناہی حاصل ہوتی ہے اورمعاشرہ،جوکبھی بیدارضمیرتھا، اب تماشائی بن چکاہے۔سوشل ورکرزکے مطابق،جب انصاف ایک طبقے کیلئے نایاب اوردوسرے کیلئے یقینی ہوجائے، تووہ سماج خوداپنادشمن بن جاتاہے،یہی موجودہ ہندوستان کاالمیہ ہے جہاں دلت کادرداب بھی انصاف کے کٹہرے تک نہیں پہنچ پاتا۔

یہ مقالہ صرف چندواقعات کی رپورٹ نہیں،بلکہ پورے ہندوستانی ضمیرکامحاسبہ ہے۔گیان سنگھ کے آنسو،راجکمارکی چیخ،اورداموہ کے دلت کی خاموشی—یہ سب اس قوم کیلئے آئینہ ہیں۔ذات پات کانظام دراصل انسانیت کے چہرے پروہ دھبہ ہے جوصرف قانون سے نہیں،بلکہ ضمیرکی بیداری سے مٹ سکتاہے.یہ سوال صرف مودی کی سفاک حکومت سے نہیں جو آرایس ایس کاخوفناک خواب پوراکرنے کیلئے راج کررہی ہے بلکہ یہ اقوام عالم سے ہے اوربالخصوص مغربی ممالک اورامریکا کے ان تمام اداروں سے بھی ہے جوانسانی حقوق کے چیمپئن بننے کادعویٰ کرتے ہیں کہ کیاذات اورمذہب کی بنیادپرانسان کی حرمت پامال کی جاسکتی ہے؟اگرہم نے ان آنسوؤں میں انسانیت کاعکس نہ پہچانا،توآنے والی نسلیں ہم سب پرلعنت بھیجیں گی۔یہ وقت ہے کہ قانون کاقلم طاقت کے سائے سے آزادہو،اورعدل کاترازورنگ،نسل یاذات نہیں بلکہ انسانیت کے پیمانے پرتولاجائے۔

مدھیہ پردیش کے واقعات نے ہمیں پھریاددلایاہے کہ عدل جب خوف کے تابع ہو،توظلم حکومت کرتاہے۔یہ وقت ہے کہ ہم سماج کے اس زہرکوایمان،تعلیم،اورقانون کے عزم سے صاف کریں۔یادرکھیں جب قومیں عدل کھو دیتی ہیں توان کے معبدومندرباقی رہ جاتے ہیں، مگرروح فناہوجاتی ہے۔اگرآج بھی انسانی حقوق کانعرہ لگانے والے ممالک نےعدل و انسانیت کی اس روح کوزندہ نہ کیا،اورعالمی پلیٹ فارمزپرمودی سرکارکوکھلی چھٹی دے دی توتاریخ ایک بارپھرہمیں ظالموں کے زمرے میں شمارکرے گی۔میڈیاکی بھی یہ اہم ذمہ داری ہے کہ ایسے واقعات کومحض خبری شہ سرخی نہیں بلکہ سماجی مکالمے کا موضوع بنایاجائے۔یہ مقالہ نہ صرف ایک سماجی تحقیق ہے بلکہ ایک اخلاقی دعوت بھی کہ انسان،چاہے کسی بھی ذات،مذہب یانسل سے ہو،اس کی حرمت، اس کاوقار،اوراس کاحقِ عدل ایک آفاقی امانت ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں