اگرسننے والے مزاج آشناہوں توگفتگوکرنے کامزاآتاہے اوران سب کی سننے کی خواہش بھی مزادیتی ہے لیکن پتہ نہیں ان دنوں طبیعت کیوں بوجھل سی رہتی ہے۔اردگردسناٹاسامحسوس ہوتاہے اورجذبات کی شائیں شائیں نے کپکپی طاری کررکھی ہے۔اسی لئے گزشتہ چندنوں سے ٹیلیفون کاگلہ دباکر سب کے ساتھ رابطہ منقطع کئے خاموش بیٹھاہوں۔اچانک کل صبح ایک بچی نے گھرکادروازہ زورزور سے پیٹناشروع کردیا۔دروازہ کھولاتوشکائت شروع کردی کہ اتنی دیرسے ٹیلیفون کررہی تھی لیکن کسی نے اٹھانے کی زحمت ہی گوارہ نہیں کی توسوچاخودہی دیکھ آؤں۔ منافقت بھری مسکراہٹ سے آنے کامقصددریافت کیاتوبولی: مجھے پاکستان کے یومِ آزادی پرتقریرکرنی ہے لکھ دیں۔میں نے یہ کہہ کرانکارکردیاکہ یومِ آزادی توگزرچکاتواس نے فوری جواب میں کہاکہ “کیایومِ آزادی صرف ایک ہی دن کیلئے ہوتاہے؟”۔مجھے یقیناًایسے جواب کی توقع نہیں تھی۔میں نے مختلف اندازمیں اسے سمجھانے کی کوشش کی لیکن وہ بضدتھی کہ ہمارے اسکول والوں نے ایک علامتی پاکستانی پارلیمنٹ کاسٹیج سجایاہے اوروہاں مختلف مہمانان کو بطور اسمبلی ممبران اوران میں سے ایک سنئیرترین بزرگ نے بطوراسپیکرشرکت کرنی ہے اس لئے اس پروگرام کی اہمیت کوسمجھتے ہوئے آپ کی مدد درکار ہے۔جب اس کااصراربڑھاتومیری مجبوریوں نےاس کے منہ کا مزاکرکراکردیا۔ اچھا خودلکھ لوں گی لیکن …….. لیکن کیا؟آپ اسے دیکھ تو لیں گے ناں۔میں نے جان چھڑاتے ہوئے حامی بھرلی کہ ہاں ضروردیکھ لوں گا۔ اب یہ میرے سامنے ہے ……..یوم آزادی جمہوریت پرایک مباحثہ ……..ہنسی آتی ہے اب تو۔خیرایک بچی کے خیالات پڑھ لیجیے۔اس سے متفق ہوناکیاضروری ہے،معلوم نہیں۔
جناب اسپیکر!ایوان میں موجودافرادکی تقاریرآپ نے سنیں جن میں انہوں نے آزادملک کے آزادشہریوں کی پرکیف زندگی کے بڑے سہانے مناظردکھائے ہیں۔ان تمام حضرات کی تقاریر سے میں محظوظ ہوئے بغیرنہیں رہ سکتی۔ یقین ہوگیاہے کہ بینائی اس حد تک کمزورہوسکتی ہے، معلومات کااس قدرفقدان ہوسکتاہے یاہم حقائق سے نظریں چراتے ہیں!ہماری خودمیں مصروف زندگیاں ہمیں اجازت نہیں دیتیں کہ ہم عوام کی اس دھندلائی ہوئی تصویرکادوسرارخ بھی دیکھ سکیں جہاں صرف دکھ ہے،درد ہے،محرومی ہے،احساسِ غلامی ہے،اپنے تمام اورمکمل وجودکے ساتھ بھی بے دست وپائی ہے،آزاد ملک کے شہری ہونے کے باوجود احساسات تک پہرے میں ہیں،زندگی کی ہرسانس مقروض،ہرفکرپہ پہرہ ہرجنبش پرچیک ہربات کی نگرانی۔ یہ تو ایک مڈل کلاس اورکچھ سوچنے سمجھنے والے کاحشرہے اوریہ بھی عوام کی زندگی کاایک رخ ہے۔
آپ کوسن کربہت اچھالگے گامیرے قابل احترام ساتھیوں کوبہت خوشی ہوگی سن کر،یہاں ہرایک آزادہے۔دال کھائے،چٹنی کھائے،کھاسکے تو کھائے ورنہ آزادہے کہ رات کوبھوکاہی سوجائے۔اگراس کامعصوم بچہ بیمارہے اوراس کودواکی ضرورت ہے تووہ بالکل آزادہے چاہے اس کوبخارسے سلگ کرمرنے دے،چاہے پانچ روپے کی میٹھی گولیاں لادے ……. .جس طرح چاہے مرنے دے اس پرکوئی پابندی نہیں۔وہ کسی کی ذمہ داری نہیں ہے،اس کی موت کسی کابوجھ نہیں ہے۔اگراس وطن کے شہری کو بڑھاپے یاادھیڑعمری نے آلیا ہے،اس کوکوئی تکلیف ہے تووہ بالکل آزاد ہے چاہے اپنی کھولی میں دم توڑے،سڑک کے کنارے کھانس کھانس کرمرجائے یاچلتی ہوئی کسی منی بس سے اترتے ہوئے اس کے پہیوں تلے کچلاجائے اورہاں اگرکوئی مقروض ہے،اولادوں کابوجھ ہے،ذمہ داریاں ہیں،قرض اتارناہے تووہ بالکل آزادہے گردہ بیچ ڈالے،اپنالہوفروخت کردے،اپنی ایک آنکھ بیچ دے۔اگر عورت ہے تواپناجسم بیچ دے،عزت وآبروسرِبازارنیلام کردے کیونکہ وہ آزاد وطن کی آزادشہری ہے۔
اگرکوئی نوجوان اپنی ڈگریاں ہاتھوں میں اٹھائے شہرمیں دن بھرآوارہ گردی کرناچاہے توکرسکتاہے،اسے مکمل آزادی ہے۔وہ جب تک اورجتنا چاہے سڑکیں ناپ لے اورجب چاہے جس طرح چاہے خودکشی کرلے۔ریل کی پٹری پرلیٹ جائے،گھرمیں پنکھے سے لٹک جائے،زہرپی لے …… اس پرکوئی پابندی نہیں ہے۔اس کی اپنی زندگی تھی،اپنی موت ہے،وہ آزادہے جس طرح چاہے مرجائے۔ایک اوردلچسپ بات ہے جومیرے تمام فیوڈل ساتھیوں کوپسندآئے گی کیونکہ ہماراایوان زیادہ ترفیوڈلزسے ہی بھراہوا ہے ناں۔ان کی خوشی کیلیےیہ پہلو بھی اجاگرکرنامناسب سمجھتی ہوں کہ ہمارے ہاں ہرطرح کی آزادی ہے،ہم جس کی بہن بیٹی بیوی کوجب چاہیں اورجہاں سے چاہیں اٹھالیں اوراس کے ساتھ جوچاہے سلوک کریں…… . اورپھرجس طرح چاہیں کہانی ختم کرادیں۔،خواہ ہم اسے کاری کہہ دیں اس کوزندہ دفن کردیں،چاہیں تواس کوختم کرنے سے پہلے کتوں سے نچوابھی سکتے ہیں۔ اگران کے اس ظالمانہ سلوک کے خلاف حکومت سے کاروائی کیلئے کہیں تواسمبلی میں بیٹھے ان سرداروں کی طرف سےایک تنبیہ سب پر لرزہ طاری کردیتی ہے کہ خبردار!یہ ہماری روایات ہیں،اس میں مخل ہونے کی کسی کواجازت نہیں۔۔۔۔اورکسی کی مجال نہیں کہ ان درندوں کے خلاف کوئی کاروائی کرسکے کیونکہ انہیں علم ہےکہ ہمیں کوئی کچھ نہیں کہے گا،ہم آزادہیں۔
لوگوں کی یہ بات قطعی غلط ہے کہ ہم پرکوئی چیک لگاسکتاہے اورجوہماراسماج ہے ناں،اس میں تومزید آزادی یہ بھی ہے کہ جب جس کابس چلے وہ دوسری خاتون کوجلادے۔یہ نہیں کرسکتاتوکم ازکم اس پرتیزاب توپھینک سکتاہے ناں۔ہماراقانون ہماری پولیس بھی بالکل آزادہیں،ان کوکوئی کچھ نہیں کہہ سکتا،نہ ہاتھ پکڑسکتاہے نہ پوچھ سکتاہے،وہ جس کوچاہیں مجرم بنادیں اور جس کوچاہیں معصوم۔ اسی آزادی کی وجہ سے آج یہ ایوان وجودمیں آیاہے جس میں صرف مراعات یافتہ لوگ ہی براجمان ہو سکتے ہیں۔مگر جناب اسپیکر!میرے معززاراکین یقیناًاس حقیقت سے واقف ہوں گے کہ آزادی اورجمہوریت کے راگ الاپنے والے تمام لوگ کس طرح ایوان تک پہنچتے ہیں۔حالت جب یہ ہوکہ عوام کے نمائندگان کونمائندگی دینے کافیصلہ بھی ایسے ہوکہ پہلی مرتبہ ایک آزادالیکشن کمشنرکی تعیناتی پرسب نے سکھ کاسانس لیاتھالیکن اس انتخابات میں ہونے والی دھاندلیوں پرہر جماعت کوشدید تحفظات ہیں اورکچھ توان کے خلاف باقاعدہ تحریک چلانے کاعندیہ بھی دے رہی ہیں جبکہ یہ تقرری انہی کے قلم سے منظورہوکراس معراج تک پہنچی تھی۔
جناب اسپیکر!میں پوچھتی ہوں جس ملک میں صابن اور ڈٹرجنٹ سے لے کرتمام کی تمام اشیاصرف غیرملکی کمپنیاں بناتی ہوں اورملک میں روٹی سے لے کرپٹرول اورتیل وگیس کی قیمتیں تک آئی ایم اورورلڈ بینک طے کرتے ہوں اس ملک کوکیاآپ آزاد کہہ سکتے ہیں؟آزادی کسی دیوی پری یاکسی مجسمہ کانام تونہیں ہے کہ وہ آپ نے نصب کردیااورسب نے تالیاں بجا دیں۔اس کے بعدزندگی پہروں میں رہے سانس بھی قیدمیں ہو……..ہم نے صرف لفظ ِجمہوریت کالالی پاپ عوام کوپکڑادیاکہ خوش ہوجائے۔ آزادی تواپنی سرزمین پراپنے عقیدے نظریے کے ساتھ اپنے وسائل کوخود استعمال کرکے اپنی مٹی پرآزادی سے چل کرپیٹ بھر کرروٹی کھانے اورنیندبھرکرسونے کانام ہے۔آزادی میں اپنے حال اورمستقبل کے فیصلے خود کرنے کااختیارہوتاہے۔آزادوطن میں ہرایک اپنانقطہ نظر بیان کرنے اوراپنی مرضی سے جینے میں آزادہوتاہے۔
جمہوری وطن کے لوگوں اوربچہ جمہورامیں بڑافرق ہوتاہے۔کاش یہ ہمارے مظلوم اورپسے ہوئے عوام کوپتاہوتا۔اگروہ یہ جان جائیں توجومنظرآج ہے وہ نہ ہو۔جس آزادی کے راگ ہم اور آپ الاپتے رہتے ہیں وہ اگرحقیقتاًعوام کونصیب ہوتی توہماری اورآپ کی بڑی مشکل ہوجاتی۔ہماری یہ پرتعیش زندگی جس کاہرہرپل غریب عوام کے خون سے نچڑکربناہے،مجھے ان بڑے بڑے ایوانوں لمبی لمبی ائیرکنڈیشنڈ گاڑیوں بلند وبالاسیمینارہالوں سے غریب عوام کے جلے ہوئے خون اوربھنے ہوئے گوشت کی بو آتی ہے۔میرادل لرزتاہے کہ جن کے ٹیکسوں سے ہم نے عیاشی کی،جنہیں مہنگائی کے عذاب نے پیس ڈالا،غریب عوام کی کھال توکیاان کی چربی اورگوشت کی تہہ کوبھی جلاکریہ ساراکاروبارہم نے سجالیاہے،کہیں ایسانہ ہوکہ ایک دن ہم سب اس میں دفن ہوجائیں۔
خالقِ ارض وسماان کابھی رب ہے،آزادی کے نعروں میں جس دن اس نے چاہارنگ بھردیاتوہم اورآپ عوام سے بچ کرکہاں جائیں گے؟اس لیے کہ جس کاخون،جس کاپسینہ جس کا ووٹ اورجس کانوٹ ہے،اس کاکوئی اختیارنہیں۔آپ چاہے بجلی دیں،چاہے نہ دیں اورخودایئرکنڈیشنڈکمروں میں بیٹھ کران کوصبراوراولوالعزمی کادرس دیں،ایسانہیں ہوسکتا۔یہ سب کچھ ہم پرعوام کاقرض ہے جو انہوں نے اپنی کمرتوڑکرہمیں دیاہے،ہمیں یہ لوٹاناہوگا۔ہمارے اکابرین نے اپنی انتھک محنت اوردیانتداری کے ساتھ جس آزادی کو حاصل کیاتھایقیناًاس خواب سے ہم اب بھی کوسوں دورہیں!
جناب سپیکر!آزادی اورغلامی میں کیافرق ہے،اس کااندازہ ہرآئے دن شہیدہونے والے نہتے فلسطینیوں سے پوچھ لیں یاپھران کشمیریوں سے پوچھ لیں جن کاوکیل ہونے کاہم دعویٰ کرتے ہیں۔کشمیریوں پرہونے والے ظلم وستم کااندازہ آپ کیالگائیں گے کہ جس کشمیرکو قائدنے پاکستان کی شہہ رگ قراردیاتھا،اس کوتوہم نے ایک پلیٹ میں رکھ کرمسلم دشمن موذی مودی کوپیش کردیا ہے۔ان ڈیڑھ لاکھ کشمیری شہداءکاخون کیارائیگاں چلا جائے گا،ہزاروں عصمت مآب بیٹیوں پرہونے والے مظالم کاکوئی مداوانہیں ہوگا،ہزاروں نوجوانوں کوبرسوں سے گھروں سے اغواکرکے غائب کردیاگیاہے جن کے منتظرماں باپ اب بھی ہرعید اورتہوار پراپنے گھر کے دروازے پرنگاہیں جمائے پتھرہوگئے ہیں،جن کاقرض اب بھی ہم پاکستانیوں پر واجب ہے جوابھی تک پاکستان کی دیوانہ وارمحبت میں اس قدرسرشارہیں کہ پاکستان کی تکمیل کیلئے اب بھی اپنی جانوں کوہتھیلیوں پرلئے بیٹھے ہیں لیکن ہمارے مقتدرسربراہ قصرسفیدکے فرعون کے حضورسربسجودہوکراپنی اطاعت پرمہرثبت کرکے کشمیریوں کی پشت میں خنجرگھونپ کرآگئے ہیں۔
آپ ان کشمیریوں کوکیاجواب دیں گے جوآج بھی باوجودنامساعدحالات کےعیدالفطر بھی پاکستان کے جھنڈے لہراتے ہوئے مناتے جس کی وجہ سے بھارتی فورسزبہیمانہ ظلم کرتے ہوئے کرفیونافذکرکے گولیوں کی بوچھاڑمیں آزادی کے متوالوں کو روکنے کی ناکام کوشش کرتے ہیں اوریہی عمل وہ 14/اگست کودہراتے ہیں تاکہ پاکستان کایومِ ِ آزادی نہ مناسکیں اور بھارتی یوم آزادی کے دن سیاہ جھنڈے اٹھاکراپنی نفرت کااظہارنہ کرسکیں۔ کیا ہم وہ مناظرفراموش کرسکتے ہیں جب ضعیف العمری اورعلالت کے باوجود جناب سیدعلی گیلانی کشمیریوں کے ایک جم غفیرمیں یہ پرعزم نعرے”ہم ہیں پاکستانی،پاکستان ہماراہے”کہہ کراپنی قوم کاپیغام ہم تک پہنچاتے رہیں ہیں لیکن ہم نے جواب میں ان کے ساتھ کیاکیا؟کیااپنے عشاق کے ساتھ کوئی ایساسفاک سلوک بھی کرتاہے جوہم نے ان کے ساتھ کیا؟اس ظلم کاجواب نہ صرف ہم پرفرض بلکہ قرض ہے جسے چکانے کیلئے شائدخون کے دریا عبورکرنے پڑیں۔
بڑامزہ ہوجومحشرمیں ہم کریں شکوہ
وہ منتوں سے کہیں چپ رہوخداکیلئے
جبکہ ہمارے ایک حکمران نے خودسینے پرہاتھ رکھ کرکشمیرکاوکیل ہونے کادعویٰ کیااورہندوستان کے اس عمل کے خلاف ہرہفتے ایک گھنٹے کے احتجاج کااعلان کرتے ہوئے صرف پہلے دن فقط دس منٹ کیلئے فوٹوسیشن کیااوراس کے بعد آج تک اس کوکشمیریادتک نہیں آیااوردوسرامجرم جودردرجن صحافیوں کی موجودگی میں اپنی بزدلی کااعلان کررہاتھا،آج یہ دونوں کردارکہاں ہیں؟
کیامجھے دوبارہ یادکرواناپڑے گاکہ ایک متکبرعورت اندراگاندھی نے سقوطِ کشمیرکے موقع پرہمارے زخموں پرنمک چھڑکتے ہوئے کہاتھاکہ آج ہم نے دوقومی نظریہ کوخلیج بنگال میں ڈبودیاہے لیکن پاکستان کوتوڑنے والوں سے قدرت کاانتقام دیکھیں کہ سب سے پہلے اس کاجواں سال بیٹاسنجے ہیلی کاپٹرکے حادثے میں جل کرراکھ ہوگیا،خوداندراکو اس کے ذاتی محافظوں نے گولیوں سے چھلنی کردیااوربعدازاں اس کے بیٹے راجیوکوایک تامل خاتون نے خودکش حملے میں ٹکڑے ٹکڑے کردیا۔
دوسرے کردارمجیب کوٹھیک بھارتی یوم آزادی کے دن فوج کے افسروں نے پورے خاندان سمیت گولیوں سے بھون دیااورایک بھارتی مشہورصحافی کے مطابق تین دن تک سیڑھیوں میں پڑی مجیب کی لاش کو آوارہ بلیاں اورکتے نوچ رہے تھے جن کوہٹانے کیلئے باقاعدہ گولی چلانی پڑی۔اس وقت حسینہ واجدبھارت میں مقیم تھی اس لئے بچ گئی لیکن میں سمجھتی ہوں کہ قدرت نے اس کو5/اگست2024ءکوعبرت کیلئے محفوظ کیاتھاکہ خودمودی بھی دیکھ لے کہ دوقومی نظریہ نے کس طرح اسی خلیج بنگال سے ابھرکرخودکومنوایاہے کہ وہاں کی گلیوں میں وہ نوجوان بچے جن کی عمریں بھی سقوط ڈھاکہ سے کم ہیں، سڑکوں پر”پاکستان سے رشتہ کیا”لاالہٰ الااللہ”کے فلک شگاف نعرے لگارہے ہیں اور اوردنیاکاکوئی ملک حسینہ کوسیاسی پناہ دینے کیلئے بھی تیارنہیں جبکہ حسینہ کودوبارہ اپنے مکارہندومودی کے ہاں پناہ لینی پڑگئی ہے۔اس کے ساتھ ساتھ پاکستان میں بھی بھٹوخاندان سمیت اس کی اولاد میں ایک بیٹی کے سواسب غیرفطری موت میں مارے گئے اوریحیٰی خان بھی باقی ساری عمربسترپرایڑیاں رگڑتے اپنے انجام کوپہنچ گیاگویا پاکستان کو توڑنے والے سارے کرداروں سے کسی نے عبرت حاصل نہیں کی۔کیاکشمیرکے شہداء سے ظلم کرنے والے بچ سکیں گے؟
جنابِ اسپیکر!ارضِ پاکستان کے غداروں سے سبق حاصل کرنے کی بجائے ایک مرتبہ پھر9مئی کوپاکستان میں ایک خونی انقلاب لانے کی کوشش کی گئی،خوداعلیٰ فوجی دفاعی تجزیہ نگار انگشت بدنداں ہیں کہ سارے ملک کے اہم اورمخصوص علاقوں کوٹارگٹ کرنے کیلئےایسی منظم پلاننگ توخودفوج نہیں کرسکتی جبکہ ایک خاص پلاننگ کے تحت بلوائیوں کووہاں بھیج کرملک کوتوڑنے کی سازش کی گئی۔ تاکہ اس ایٹمی ملک کے اثاثوں پرقبضہ کرنے کیلئے ٹرائیکاکیلئے کام اسان کردیا جائے۔کیاہم نے ان شیطانی قوتوں کابروقت محاسبہ کیاجن کے شرسے رب کریم نے اس معجزاتی ریاست کوتوبچالیا لیکن وہ ابھی تک ریاست کے سینے پربھاری بوجھ پتھربن کرسانس روکنے کی ہرتدبیرکرنے میں ازادہیں۔
جنابِ اسپیکر!9مئی ہماری قومی تاریخ کاوہ سیاہ دن ہے کہ وہ کام جودشمن پچھلے75برسوں سے کرنے کی جرات نہ کرسکاوہ یہاں سیاست کی چلمن میں چھپ کراقتدارکی ہوس میں چند بھیڑیوں نے سرانجام دینے کی ناکام کوشش کی۔اس جماعت کے رہنماؤں نےبلوائیوں اورفسادیوں کے برملاحملہ آوروں کی پشت پرکھڑے ہوکراپنے لیڈرکے اگ اورشعلے اگلتے ہوئےاحکام پراشتعال انگیزتیل چھڑکے کاکرداراداکیاجس کی ویڈیوزتک ریکارڈکا حصہ بن چکی ہیں لیکن اس کے باوجودریاست نے جوناقابلِ سست روی کااظہارکیاہے،اس کی تلافی کیسے ہوگی؟
اس سازش کی کڑیاں تواسی دن شروع ہوگئی تھیں جب موجودہ فوجی سربراہ نے بطورآئی ایس آئی کے سربراہ کے اس وقت کے وزیراعظم عمران خان کواطلاع دی کہ ملک میں ہونی والی اربوں روپے کی کرپشن خود ان کے اپنے گھرسے ہورہی ہے جس کی سرپرستی ان کی اہلیہ کررہی ہیں۔اس سے پیشتر کہ عمران خان اپنے مزاج کے مطابق کوئی بیان دیتے،ان کے سامنے سارے دستاویزی ثبوت رکھ دیئے گئے تاکہ وہ اپنے گھرکی خبرلیتے ہوئے اس کی تصدیق کرکے اس کاتدارک کریں لیکن انہوں نے فوری طورپرجنرل باجوہ کوجنرل عاصم کونہ صرف اس عہدے سے ہٹانے کیلئے کہابلکہ اسے فوج سے نکالنے اورمقدمہ دائر کرنے کاکہاجبکہ اس وقت جنرل باجوہ اپنے غیرملکی دورے سے واپسی پرجہازمیں محوسفرتھااوراس نے احکام کی تحقیق کا وعدہ کیالیکن خودوزیراعظم اس قدربے تاب تھے کہ خودائیرپورٹ پہنچ گئے اور فوری طورپرکاروائی کامطالبہ دہرانے لگے۔ جنرل باجوہ کے اس غلط اقدام کی حمائت نے ملک کو کس قدرنقصان پہنچایا،اس کامحاسبہ کون کرے گاجنابِ اسپیکر!
وزیراعظم نے اپنی نیم کامیابی پردوسرامجرمانہ قدم یہ اٹھایاکہ پلان کے مطابق جنرل فیض کواس عہدے پرمتعین کرکے ایک لمبا پلان بنایاکہ چین کی طرح آئندہ بیس سال تک اس ملک پرکیسے حکومت کی جائے جس کیلئے ضروری تھاکہ آئندہ کیلئے جنرل فیض کوآرمی کاچیف بنایاجائے لیکن فوجی ضابطے اس کی اجازت نہیں دے رہے تھے جس کیلئے سنئیرترین جنرلزنے سر جوڑ کراس سازش کامقابلہ کرنے کیلئے معاملے کی سنجیدگی سے وزیراعظم کوآگاہ کرنے کی کوشش کی لیکن اقتدارکی ہوس نے انہیں اس قدراندھاکردیاکہ وہ اپنے مذموم ارادوں کی تکمیل میں ہر قانون اورضابطے کویکسرتباہ کرنے کیلئے تل گئے۔
یہی وہ موقع تھاکہ ملک بچانے کیلئے آئینی راستہ اختیارکرتے ہوئے عدم اعتمادکی تحریک لائی گئی لیکن اب نئے چیف کی تقرری کوروکنے اوراپنے من پسندجنرل فیض کونیاچیف بنوانے کیلئے عمران خان اپنی زخمی ٹانگ سمیت عوامی طاقت کا مظاہرہ کرنے کیلئے سڑکوں پرآگئے اورلوگوں کوترکی ماڈل کی طرح فوج کے خلاف انقلاب لانے کی دعوت دینے کااعلان کر دیالیکن اللہ کی قدرت دیکھئے کہ کروڑوں افرادکوجمع کرکے اسلام آبادپردھاوابولنے والاعوام کی عدم شرکت کی وجہ سےلاہور کاراوی پل بھی عبورنہ کرسکااوردل شکستہ ہوکرواپس لوٹ گیا،جس کے بعد باقاعدہ9مئی کامنظم واقع ترتیب دیاگیاجس کے تمام خوفناک مناظرہم سب کی آنکھوں کے سامنے موجود ہیں اورقوم اب اس خوفناک سازش کے عبرتناک اورشرمناک انجام کی منتظرہے۔
جناب اسپیکر!آزادی عوام کے لحاظ سے یہ چند پہلوتھے جومختصرا ًمیں نے آپ کے سامنے رکھ دئیے۔ وقت کی کمی کے باعث اختصاربرتاہے۔آزادی کیاہوتی ہے،کیسی ہونی چاہیے؟آپ تھوڑی دیرکیلیےخودکوعوام یاکشمیری سمجھ کرمحسوس کیجئے پھرہم میں سے کسی کو یہ بتانے کی ضرورت نہیں پڑے گی کہ عوام آزادہیں یانہیں۔میں آزادی اوغلامی کافیصلہ آپ پرچھوڑتی ہوں!
ستم گروقت کاتیوربدل جائے توکیاہوگا
مراسرتراپتھربدل جائے توکیاہوگا
امیروں کچھ نہ دو،طعنے تومت دوان فقیروں کو
ذراسوچواگرمنظربدل جائے توکیاہوگا