میں پچھلے کئی برس سے یہ بری طرح محسوس کررہاہوں کہ و اقعی کوئی زورداربد دعاہما رے تعاقب میں ہے کہ نہ پو ری امتِ مسلمہ اوربالخصوص قوم کی دعائیں رنگ لارہی ہیں اورنہ ہی تہجد گزاروں کاگریہ نیم شب کام آرہاہے۔مایوسی ساون کی ہریالی کی طرح وطن عزیزمیں اپنازوربڑھاتی جارہی ہے۔بے دلی اوربیزاری جسم وخوں میں اس طرح گھل مل گئی ہے کہ زندہ رہنے کی امنگ اورآس ختم ہو تی جارہی ہے۔موجو دہ سیاستدانوں اورمقتدراشرافیہ کی پا لیسیوں کے ردِعمل میں بے یقینی کی آکا ش بیل ذہن وفکرکواپنی لپیٹ میں لے رہی ہے اورناامیدی کازہریلا شیش ناگ دن میں کئی مرتبہ آپ کے خوابوں کوڈستاہے۔دن اور رات جیسے آگ کے الاؤمیں بھسم ہوکررہ گئے ہیں لیکن اس کے باوجودکچھ دوست اب بھی امیدکی قندیل جلائے کسی صلاح الدین ایوبی کاانتظارکررہے ہیں۔
امیداندھی ہوتی ہے،یقین بھی دلیل نہیں مانگتا۔ہم بھی کہہ دیتے ہیں کہ سب ٹھیک ہوجائےگااورانشا اللہ حالات بھی ٹھیک ہوجائیں گے لیکن حالات کی حقیقت سے آنکھیں چراکر ہم اپنے آپ کودھوکاتودے سکتے ہیں لیکن ان خطرات کوٹال نہیں سکتے۔صرف بارش کی امیدسے دہکتی تمازت بھری دھوپ کی اذیت ناکی سے توبچ نہیں سکتے۔اس دوردیس میں بھی و طن کی مٹی نے اس قدراپنے حصارمیں جکڑرکھاہے کہ شب وروزاس کے محتاج ہوکررہ گئے ہیں حالانکہ ہرروزخوابوں کی جواں مرگی کی اطلاع موصول ہوتی ہے۔پاکستان جووجودکاایک قیمتی حصہ ہے،جہاں ہماری آبروکوتحفظ اورسروں کی سلامتی کی ضمانت ملی تھی اب خاک میں ملانے کی تدبیریں ہورہی ہیں(خاکم بد ہن)۔
افغانستان کے معاملے میں پہلے فاسق کمانڈونے کوجرم عظیم کاارتکاب کیا،وہ بھی تاریخ کاایک حصہ رہے گالیکن بعدازاں اس کا کفارہ بھی ہمیں ایسے ادا کرناپڑاکہ اب تک اس کاخمیازہ بھی بھگت رہے ہیں جبکہ مصائب سے جان چھڑانے کیلئے خودقصرِ سفیدطالبان کی شرائظ کومان کرگھٹنے بھی ٹیک چکاہے لیکن ہمیں کسی طوربھی ان مصائب سے جان چھڑانے کیلئے مذاکرات کی اجازت نہیں اورقصرسفید کے فراعین افغانستان کی شکست کی رسوائی کابدلہ لینے کیلئے درپردہ اب بھی سرگرم ہے۔۔اس سے پہلے ہم نے جب بھی مزاحمت کا روں کو مذاکرات کی دعوت دیکرکسی امن معاہدے کی طرف قدم بڑھانے کی کوشش کی تو فوراایک ہرکارہ کان مروڑنے کیلئے بے دھڑک ہمارے سروں پرکھڑاہوکرغراناشروع کردیتاہے لیکن منافقت کایہ عالم ہے کہ میڈیا میں بھرپورپاکستان کاساتھ دینے کابرملااعلان ہوتاہے لیکن درپردہ ہم سب جانتے ہیں کہ مودی کی پشت پناہی پرکون کھڑا ہے۔
ادھر دوسری طرف ہمارایہ عالم ہے کہ ان داتاکاحکم مانتے ہوئے ہم فوراًاس امن معاہدے سے منہ موڑلیتے ہیں جس کے جواب میں ہندوؤں کے ہاتھ میں کٹھ پتلی بننے والوں نے اپنی توپوں کارخ اپنی پو ری طاقت کومجتمع کرکے ہما ری سیکورٹی فورسز کی طرف پھیررکھاہےاورگاہے بگاہے اپنادا ئرہ کارخود کش حملہ آوروں کی شکل میں شہروں میں منتقل کرتے رہتے ہیں اور ان دنوں وہ پوری کوشش کررہے ہیں کہ کسی طورچین اورپاکستان میں استواررشتے ختم کردیئے جائیں جس کی حالیہ مثال چینی ماہرین کی ایک بس پرخودکش حملہ اس کی بدترین مثال ہمارے سامنے ہے۔
یہ صورت حال آخرکب تک چلے گی،یہ مزاحمت کارآپ سے سنبھا لے جاتے ہیں نہ قصرسفیدکافرعو ن آپ کی بات سنتاہے۔ امریکااپنے اتحادیوں کے توسط سے اس جنگ کوہما ری سرحدوں سے ہما رے ملک کے اندرلانے کیلئے بے تاب بیٹھاہے اور امریکاکے نمک خوارسرخ استقبالی قالین لئے بے چینی سے انتظارکی گھڑیاں گزاررہے ہیں۔وہ اپنے ایجنٹوں کے ذریعے سلطنت ِنمرود کی گود میں بیٹھ کر آئے دن ان غداروں کے ذریعےملک کو جلانے کا سامان تیارکرکے جلتی پرتیل ڈال رہے ہیں۔ آپ کے پاس ان تمام خطرات سے بچانے کی عملی تدا بیرنہیں،حکمت عملی یاسٹریٹجی موجود نہیں،صرف اپنی حاکمیت اعلٰی کی دہا ئی دے رہے ہیں جوکب کی مضروب اورزخموں سے چورہوکرقصرسفیدکے فرعون اورنمرودکے قدموں میں دم توڑچکی ہے۔
ان دنوں عوامی مینڈیٹ کے افق سے طلوع ہوتے سلطانی جمہورکے آفتاب و ماہتاب کی نما ئندگی کرنےوالی پاکستانی حکمرانوں کووزارت داخلہ کاقلمدان بھی طشت میں رکھ کرایسے فرد محسن نقوی کے حوالے کرناپڑاجواس انتخابی عمل سے کوسوں دور تھالیکن بعدازاں اپنے اس فیصلے کی توثیق کیلئے اسے سینیٹر بنوادیا۔اب ان کی گفتگو سنیں تویہی پیغام ملتاہے کہ اس بد نصیب پا کستانی قوم کی کم نصیبی کا سفرابھی ختم نہیں ہوابلکہ ابھی توموسم گل کی آمدمیں کافی دیرہے۔
مجھے وہ دن بھی یاد ہےجس دن اس بدنصیب پاکستانی قوم کاوزیرخارجہ شاہ محمودقریشی پہلی مرتبہ وا شنگٹن میں شہزادی کو نڈالیزارائس کے دربارمیں شرف باریابی حاصل کرکے باہرنکلاتھا تو پہلاخوشامدی بیان اپنی حاکمیت اعلٰی کے دفاع کی بجا ئے مذاکرات کوبہت بے تکلفانہ،دیانتدارانہ اورحقیقت پسندانہ قراردیکراپنی غلامی کی سندحاصل کررہاتھاحالانکہ وزیرخارجہ کو شہزادی کونڈا لیزارائس سے ملا قات سے قبل امریکی سرپر ستی میں نیٹوافواج کے اس مکروہ حملے کی اطلاع دی جاچکی تھی جس کااعلان پاکستانی سپاہ کے ترجمان میجرجنرل اطہرعباس دنیاکے ذرائع ابلاغ کے سامنے کرچکےتھے کہ امریکی حملہ میں پاکستانی علا قے انگوراڈہ کی فوجی چوکی پرپاکستانی سپاہ کےکم ازکم چھ سیکورٹی اہلکارشدیدزخمی کردیئے ہیں جبکہ نیٹوکی افواج کے پاس غلطی اورلاعلمی کی گنجائش اس لئے نہیں تھی کہ نیٹوکی افواج کواس علاقے میں قا ئم تمام پاکستانی چوکیوں کے قیام کی نقشوں کے ذریعے پیشگی اطلاع دی جاچکی تھی۔
اُس وقت بھی عام توقع تویہ تھی کہ شاہ محمودقریشی عظیم الشان واضح عوامی مینڈیٹ کے افق سے طلوع ہونے وا لے نئے جمہوری پاکستان کی ترجمانی کرتے ہوئے اس توہین آمیزامریکی رویے پربھرپوراحتجاج کرکے مشترکہ اعلامیہ کے ذریعے اپنا بھرپوراحتجاج سامنے لائیں گے اورپاکستانی اورغیر ملکی ذرائع ابلاغ کے نمائندے بڑی شدت سے منتظرتھے کہ وزیرخارجہ کا تعلق ایک عوا می جذبات اوراحساسات کی علمبردارجماعت سے ہے،اس لئے وہ دبنگ لہجے میں صدائے احتجاج بلندکریں گے اورامریکی ایوانوں کومطلع کریں گے کہ اب یہ مشرف کانہیں بلکہ کروڑں باغیرت پاکستانیوں کی سرزمین ہے جواپنی خود مختاری کی حفاظت کاسلیقہ جانتی ہے۔اگرایساحملہ ہواتو وہ اس نام نہاد”وارآن ٹیرر”جوہمارے 68ہزارپاکستانیوں کی جانیں نگل چکی ہے اور 65اربڈالرکاخطیرنقصان اپنے کندھوں پربرداشت کرچکی ہے،کوخیربادکہتے ہوئے اس دھوکےسے نکل آئیں گے اوراپناراستہ اپنی آزادانہ مرضی سے چنیں گے لیکن اس55منٹ کی ملا قا ت کے بعدپاکستانی وزیرخارجہ جب اس نمک کی کان سے باہرتشریف لائے تونمک بن چکے تھے۔
شاہ محمودقریشی نے شہزادی کونڈا لیزارائس کے سا تھ اپنی ملاقات کوجب بہت بے تکلفانہ،دیانتدارانہ اورحقیقت پسندانہ قراردیا توپاکستانی اورغیرملکی ذرائع ابلاغ کے نما ئندوں نے پاکستانی علاقے انگوراڈہ کی فوجی چوکی پر6پاکستانی سیکورٹی اہلکاروں کے شدیدزخمی ہونے کو”غیردوستانہ”اقدام”سے تعبیر کیاتوقریشی نے فوری طو رپراپنے فدویانہ بیان میں شیرینی کی حلاوت گھو لتے ہوئے اس کی تصحیح فرمائی کہ اس طرح کے(سخت)ا لفاظ استعمال نہ کریں۔شا ئدوہ پاکستانی سیکورٹی اہلکاروں کے شہدا اورشدیدزخمی ہونے کے عمل کودوستانہ چھیڑچھاڑ،بے تکلفانہ ہنسی مذاق یامحبوبانہ نازواندازسے تشبیہ دیناچا ہتے تھے۔پھراس بزدلانہ رویے کی بناء پریہ سلسلہ ایسادرازہواکہ کہ سلالہ چوکی پرامریکی بے رحمانہ حملے نے ہمارے24سپوت کوادھیڑکررکھ دیا اورہمیں کچھ دیرکیلئے افغانستان کاامریکی روٹ بندکرناپڑالیکن نجانےدرپردہ کیامعاملات طے ہوئے کہ اسی تنخواہ پردوبارہ کام شروع کردیاگیا۔
اس تایخی ہزیمت کودہرانے کامقصدیہ ہے کہ کیااب بھی ہم اسی تنخواہ پرکام کررہے ہیں اورملک میں ہونے والی دہشتگردی کے جواب میں سہمے ہوئے ہیں اوراب چین جیسے دوست کوہم سے الگ کرنے کی جوسازش تیارہوچکی ہے،اس کے جواب میں ایم آئی ایف کے نئے دباؤاورمزیدامریکی سرمایہ کاری کے لالچ کاطوق گلے میں ڈالنے کیلئے اپنی رضامندی کا اظہار کرنے جارہے ہیں۔اگریادہوتواس وقت بھی قصر سفید کے فرعون بش نے ا پنی پا لیسی ساز ادارے میں تقریرکرتے ہوئے صاف صاف کہا تھاّآئندہ اصل چیلنج عراق اورافغانستان کی بجا ئے پاکستان ہوگا”اورانہی دنوں مزیددباؤبڑھانے کیلئے امریکی طیارہ بردارجہازابراہام لنکن”کوخلیج سے بحیرہ عرب کی طرف بڑھنے کاحکم بھی دے دیاگیاتھا۔
کیااب بھی وہ وقت نہیں آیاکہ قومی اسمبلی کاہنگامی اجلاس بلاکرپاک چین دوستی کوسبوتاژ کرنے والوں کووا ضح پیغام دیاجائے اوراگرایساکرنے کی ہمت نہیں توپھرہمارے تمام مقتدرحلقوں کواس اعتراف کے سا تھ قوم کوبتادیناچاہئے کہ وہ بھی انہی بتوں کے سا منے سجدہ ریزہوگئے ہیں جہاں اس سے پہلے کے تمام حکمران اپناسب کچھ قربان کرچکے ہیں۔
اگرچہ بت ہیں جماعت کی آستینوں میں
مجھے ہے حکم اذاں لاالہٰ الااللہ