یوں لگتاہے کہ پاکستان میں تمام مسائل حل ہوگئے ہیں،غریبی کانام ونشان باقی نہیں رہا،اب کوئی بھی مہنگائی کے ہاتھوں خود کشی کی واردات سننے یاپڑھنے کونہیں رہی،کوئی بچہ تعلیم سے محروم نہیں اوراب بلاتخصیص علاج معالجہ کی سہولتیں بھی سب کودستیاب ہیں لیکن صرف اپنے لیڈر کوبغاوت اوربرطانیہ سے واپس کی گئی منی لانڈرنگ کے مسائل باقی ہیں، جس کوحل کرنے کے بعداس ملک میں دودھ اورشہدکی نہریں بہنا شروع ہوجائیں گی جس کیلئے موجودہ اپوزیشن شب و روزاپنی تونائیاں صرف کرکے عوام کے سامنے سرخروہونے کیلئے بے تاب ہیں۔کبھی اُس مولانافضل الرحمان کے درپر حاضری دی جاتی ہے جس کوبرسوں ایسے برے القابات سے پکاراگیاکہ جس کے جواب میں مولانانے بھی وہی اندازاپنایا اورلیکن آج دونوں طرف کے سیاستدان اپنے مفادات کی تکمیل کیلئے ایک مرتبہ پھرقوم پریہ احسان فرمارہے ہیں کہ ملک کے موجودہ نازک حالات اورقوم کی بہترخدمت کیلئے یہ اقدام اٹھائے جا رہے ہیں لیکن بے یقینی اوربے اعتباری کایہ عالم ہے کہ ادھرملاقات ختم ہوتی ہے تومولانااپناسیاسی قدبڑھانے کیلئے حکومتی سربراہوں سے بھی گلے مل رہے ہوتے ہیں۔ آج یہی عوام اس سیاسی قلابازی پراپنے حافظے پرشک کررہی ہے کہ آئندہ کس کااعتبارکیاجائے۔
ہماری سیاسی جماعتوں کواپنی سیاسی دوکان چمکانے کیلئے میڈیاکابھی مکمل تعاون حاصل ہے کہ میڈیاکوبھی اپنے چینل کوچلانے کیلئے ایک معقول بہانہ ہاتھ لگ گیاہے۔سوشل میڈیادن رات الگ سے جلتی آگ پرتیل پھینکنے کاکام جاری رکھے ہوئے ہے۔کبھی درپردہ مزاکرات کاغلغلہ اور اگلے چنددن میں سوشل انقلاب کے احیاءکے نعرے بلندکئے جاتے ہیں،جس کیلئے حال ہی میں ایک جلسہ منسوخ کرنے کیلئے علی الصبح جیل کے دروازے کھول کرمشاورت جاری ہوجاتی ہے اور اس سے اگلے دن ہی مخالفین کو”وقت کاشمر”قراردیکراپنے ماننے والوں کوحوصلہ دیاجاتا ہے ۔کبھی سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کی مدت ملازمت میں توسیع پرواویلاشروع ہوجاتاہے اوران دنوں ججزکی تعدادمیں توسیع پرایک دوسرے کوعوامی عدالت میں گھسیٹاجارہاہے۔
حیرت یہ ہے کہ حکومت اوراپوزیشن دونوں اس کواپنی فتح قراردے رہے ہیں۔پارلیمنٹ میں میدان سجاہواہے،ساری قوم یہ تماشہ دیکھ رہی ہےکہ سیاسی رہنماءکس طرح ایک دوسرے کے کپڑے تارتارکررہے ہیں لیکن کیااس ڈرامےکے بعدقوم کے حالات سنورنے کی کوئی امید ہے؟یہ ایک عام شکایت ہے کہ سیاستدانوں کاطرززندگی ان کے منتخب کرنے والے عوام سے بہت زیادہ مختلف ہوتاہے لیکن کل کی بات ہے کہ دنیا کے ایک چھوٹے سے ملک یوراگوائے کے سابقہ صدرنے ایک ایسی مثال قائم کردی ہے کہ اگر ہمارے حکمران اس سے کوئی سبق حاصل کرتے توآج ان کانام بھی بڑے فخرکے ساتھ دنیامیں لیاجاتااورپانامالیکس کے علاوہ دیگرکرپشن کے سمندرکی غلاظت سے محفوظ رہتے .
یوراگوائے میں ایسانہیں ہے۔یہاں کے سابق صدرسے ملئے یہ یوراگوائے کے سابق صدر ہوزے موہیکا کی رہائش گاہ ہے جن کاطرززندگی دنیا کے دوسرے زیادہ تررہنماؤں سے یکسر مختلف ہے۔جوآج بھی ایک چھوٹے اورٹوٹے پھوٹے گھرمیں رہتے ہیں۔اپنے دورِصدارت میں اپنی تنخواہ کازیادہ ترحصہ خیرات کردیتے تھے۔ان کے کپڑے دھونے کی جگہ ان کے گھر کے باہرہے۔پانی وہ گھرکے قریب موجودکنویں سے حاصل کرتے ہیں جہاں جنگلی پھول اگے ہوئے ہیں۔دوران صدارت صرف دوپولیس اہلکاراورتین پالتوکتے ان کے گھرکے باہر رکھوالی کیلئے تعینات تھے جبکہ آج انہوں نے اقتدارسے ہٹتے ہی یہ سہولت بھی حکومت کوواپس کردی ہے کہ اب ان کایہ استحقاق نہیں اورانہیں اس کی ضرورت بھی نہیں۔صدر موہیکا نے دورانِ اقتداریوراگوائےحکومت کی جانب سے مراعات سے بھرپوررہائش گاہ کوردکردیااوردارالحکومت کی ایک سڑک کے کنارے اپنی بیوی کے گھرمیں رہناپسندکیا۔وہ ان کی اہلیہ دورانِ اقتداربھی خودکھیتوں میں کام کرکے پھول اگاتے میں فخر محسوس کرتے رہے۔
صدرموہیکا کایہ طرزِزندگی اوران کی تنخواہ کانوّے فیصدحصہ جوبارہ ہزارامریکی ڈالر کے برابرتھا،غریبوں میں بانٹ دیتے تھے اوراسی عمل نے انہیں دنیاکے سب سے غریب صدرکااعزازبخشا۔اپنے باغیچے میں پڑی پرانی کرسی پربیٹھے وہ میڈیاکوبتارہے ہیں کہ میں نے اپنی زیادہ ترزندگی ایسے ہی گزاری ہے۔جوکچھ میرے پاس ہے،میں اسی کے ساتھ اچھی طرح رہ سکتا ہوں۔ان کی تنخواہ کابڑاحصہ غریبوں اورچھوٹے تاجروں کی مدد کیلئےمختص ہونے کے بعدان کی بقیہ تنخواہ ایک یوراگوائے کے ایک عام باشندے کے برابررہ جاتی تھی جو775ڈالرماہانہ تھی۔ ملکی قانون کے مطابق جب انہوں نے2010ءمیں اپنی سالانہ آمدنی ظاہرکی تووہ 18سو ڈالرتھی۔یہ رقم ان کی1987ءمیں خریدی گئی گاڑی کی قیمت کے برابرتھی۔اقتدارسنبھالنے سے قبل انہوں نے اپنی اہلیہ کے اثاثے بھی ظاہرکیے جن میں زمین،ٹریکٹرزاورایک گھر شامل تھااوران سب کی قیمت دولاکھ پندرہ ہزارڈالرکے قریب تھی۔یہ رقم بھی ملک کے نائب صدرکی ظاہرکی گئی دولت کادسواں حصہ بنتی تھی۔
صدر موہیکا2009ءمیں یوراگوائے کے صدرمنتخب ہوئے۔وہ ساٹھ اورسترکی دہائی میں یوراگوائے کی بائیں بازوں کے مسلح گروپ گوریلا ٹوپا مسروس کاحصہ رہے۔انہیں چھ مرتبہ گولی لگی اور وہ چودہ سال جیل میں رہے۔ان کی سزاکازیادہ تروقت سخت حالات اورتنہائی میں گزرا۔ 1985ءمیں جمہوریت کی بحالی کے بعدانہیں رہائی ملی۔سابق صدر موہیکاکے مطابق قیدکے انہی برسوں نے ان کی زندگی کی حالیہ شکل کو ترتیب دیاہے۔وہ بڑے مطمئن اندازمیں کہتے ہیں کہ مجھے غریب ترین صدرکہاجاتاہے لیکن مجھے توغربت کاقطعی احساس نہیں ہوتا۔غریب تووہ ہوتے ہیں جومہنگاطرززندگی اپنانے کیلئےکام کرتے ہیں اورہمیشہ مزیدسے مزید کی خواہش کرتے ہیں۔ان کامزیدکہناہے کہ یہ آزادی کا معاملہ ہے۔اگرآپ کے پاس بہت زیادہ املاک نہیں ہیں توآپ کواپنی تمام عمر انہیں قائم رکھنے کیلئےکام نہیں کرناپڑتااوراس طرح آپ کے پاس اپنے لیے زیادہ وقت ہوتاہے۔وہ کہتے ہیں ہوسکتاہے کہ میں ایک عجیب بوڑھاشحض لگتا ہوں لیکن یہ میراآزادانہ انتخاب ہے۔یوراگوائے کے رہنمانے ایسی ہی باتیں ری او پلس ٹوئنٹی ممالک کے اجلاس میں کہی تھیں۔انہوں نے کہاتھاہم ساری سہ پہر قابلِ تائیدترقی کی باتیں کرتے رہے ہیں،عوام کوغربت سے نکالنے کی باتیں،لیکن ہم کیاسوچ رہے ہیں؟کیاہم امیرممالک کی ترقی اورکھپت کواپناناچاہتے ہیں؟
میں آپ سے پوچھتاہوں اگرتمام بھارتی باشندوں کے پاس بھی اتنی ہی گاڑیاں ہوں جتنی جرمن باشندوں کے پاس ہیں تواس سیارے کاکیاہوگا ؟ ہمارے پاس کتنی آکسیجن رہ جائے گی؟کیا اس سیارے پراتنے وسائل ہیں کہ سات یاآٹھ ارب لوگوں کو یکساں کھپت اوراخراج ملےجیسا کے اس وقت امیرمعاشروں میں دیکھاجاسکتاہے؟یہ کھپت کی زیادتی ہی ہے جواس سیارے کونقصان پہنچارہی ہے۔یوراگوائے کے محقق لگنیسوزو ینسبرکاکہناہے کہ کئی لوگ صدرموہیکاسے ان کے اندازِ رہائش کے باعث ہمدردی کرتے ہیں لیکن اس کی وجہ سے ان کی حکومت کی کارکردگی پرتنقیدبندنہیں ہوئی۔2009ءمیں انتخاب کے بعدصدرموہیکاکی شہرت میں پچاس فیصد کمی واقع ہوئی اوریوراگوائے کے صدر دو متنازعہ اقدامات کے باعث تنقیدکا نشانہ بھی بنے۔یوراگوئے کی کانگرس نے ان کے دورِاقتدارمیں ایک قانون بھی منظورکیاجس کے مطابق 12ہفتے کے حمل کوگرائے جانے کوقانونی قراردیاگیالیکن صدرموہیکانے اس کیلئے ووٹ نہیں کیاتھا۔کیاہم اپنے ملک میں اس کاتصور بھی کر سکتے ہیں؟
انہوں نے قنب کی کھپت سے متعلق ایک قانونی بحث کی بھی حمایت کی جس کے مطابق قنب کی تجارت میں حکومت کو اجارہ داری حاصل ہوگی ۔ان کاکہناتھاقنب کی کھپت زیادہ پریشان کن بات نہیں،اصل مسئلہ منشیات کی تجارت ہے۔تاہم اپنی مقبولیت کی کمی کے باعث انہیں زیادہ پریشانی اس لیے نہیں ہوئی کیونکہ انہوں نے2014ءکے انتخابات میں دوبارہ حصہ لینے سے انکارکردیاتھاجبکہ ان کے جیتنے کے امکانات 70 فیصدسے زائدتھے۔وہ77سال کی عمرمیں سیاست سے ریٹائر ہوگئے۔اپنی ریٹائرمنٹ کے بعد انہیں ریاست کی جانب سے جوپنشن مل رہی ہے،اپنے محدودخرچ کے بعدانہیں کسی مشکل کا سامنانہیں اوروہ اب بھی اپنے کچھ غریب دوستوں کی خاموشی سے مددکررہے ہیں۔
سوال یہ پیداہوتاہے کہ آخرہمارے تمام سیاستدان بخوبی جانتے ہیں کہ ملک کی معاشی حالات کاکون ذمہ دارہے اوران کااپنا کردارکیاہے؟ بیرونِ ملک ان کے محلات اورآف شورکمپنیوں میں ان کے ساری دنیامیں پھیلے ہوئے کاروبارکی تفصیلات بھی موجودہیں۔پانامامیں آف شور کمپنیوں میں249پاکستانیوں کے نام شامل تھے لیکن مقدمہ صرف نوازشریف کے خلاف ہی سامنے آیااورقوم توباقی افرادکے ناموں سے بھی اب واقف نہیں۔اس وقت بھی یہ مطالبہ کیاگیاتھاکہ حکومت اوراپوزیشن کااحتساب ایک ساتھ شروع کیاجائے لیکن اپوزیشن نے شدید مخالفت کی،آخرکیوں؟
پانامالیکس کی تحقیقات کیلئے جوڈیشنل کمیشن کاقیام اپوزیشن کاہی متفقہ مطالبہ تھا،بالکل اسی طرح سب سے پہلے نواز شریف اوران کے اہل خانہ کااحتساب بھی اپوزیشن کامتفقہ مطالبہ تھا جس کے بعددوسروں کے خلاف تحقیقات کی جانی چاہئے تھی۔اس سلسلے میں پارلیمنٹ میں حزبِ مخالف کی جماعتوں کےدومئی کے مشترکہ اجلاس میں وزیراعظم کے مستعفی ہونے پر تواتفاق نہ ہوسکالیکن اگلے دن ایک متفقہ ٹرمزآف ریفرنس میں تین ماہ میں وزیر اعظم اوران کے تمام خاندان کے احتساب اوراپوزیشن کے افرادکیلئے ایک سال کاوقت کامطالبہ کیاگیا جوکہ یقیناعوام کوبھی ایک دھچکالگاکہ آخرملکی دولت کولوٹنے والوں کیلئے دوہرامعیارکیوں؟
کوئی اعتزازاورفاروق نائیک جیسے قانون دانوں سے یہ توپوچھے کہ ان کی پارٹی کے سربراہ آصف علی زرداری کے پاس اٹھارہ بلین سے زائدکے اثاثے کیسے آئے؟سرے پیلس سے مکمل لاتعلقی اوربعدازاں برطانیہ کی عدالت میں اس کی فروخت کے موقع پراس کی ملکیت کادعویٰ، نیب کے مفرورواجدشمس الحسن کوبرطانیہ میں سفیرمقررکیاجس نے حق نمک ادا کرتے ہوئے سوئٹزرلینڈسے زرداری کی کرپشن کاتمام ریکارڈ حکومت کے نمائندے کے طورپرموصول کرکے غائب کردیا۔ان مقدمات پرقومی خزانے سے کروڑوں روپے اٹھ گئے لیکن کیاکسی نے اس کا حساب پوچھا؟کیاآج وہی ہمارے حکمران نہیں جواربوں روپے کاقومی خزانے کوچانالگانے کے الزامات میں مقدمات کاسامناکررہے تھے اور جونہی حکومت میں آئے توسب سے پہلے نہ صرف اسمبلیوں سے وہ قانون منظورکروائے جس سے ان تمام مقدمات یکسرختم ہو گئے بلکہ قومی خزانے سے کھربوں روپے لوٹنے والوں کوایوانِ صدربلاکرہلال قائداعظم جیسے میڈل پہنائے گئے۔قوم کوبتایاگیاکہ تمام کابینہ کوہرقسم کی مراعات ختم کردی گئی ہیں لیکن اب بھی چاردرجن گاڑیوں کےپروٹوکول میں اسی عوام کے درمیان سے گزرتے ہیں جن کی خدمت کرنے کا دعویٰ کرتے ہیں۔غربت،مہنگائی اوربجلی کے بلوں کے ہاتھوں لوگ خودکشیاں کررہے ہیں اوریہاں ایوانِ صدرسے منسلک چہل قدمی کے باغات کابجٹ سالانہ6کروڑروپے مختص کر دیا گیا ہے۔
بجٹ میں ایوان صدراور صدر ہاؤس کیلئے1ارب11کروڑ23لاکھ 42ہزار،وزیراعظم ہاؤس اورپبلک سیکرٹریٹ کیلئے 31کروڑ32لاکھ51 ہزارروپے اضافہ کردیاگیا۔صدرکی تنخواہ میں اضافہ نہیں کیاگیا، وزیراعظم کی سالانہ تنخواہ میں 5لاکھ روپے اضافہ کیا گیا۔پارلیمنٹ سے منظوری کے بعدوزیراعظم کی تنخواہ 2لاکھ46ہزار750روپے ہوگئی ہے،اس مدمیں29لاکھ61ہزارروپے بجٹ مختص کیا گیا۔ایوان صدرو ہاؤس کیلئے کل2ارب28کروڑ1لاکھ 5ہزارروپے،وزیراعظم آفس وہاؤس کیلئے1ارب65کروڑ42لاکھ62ہزاربجٹ مختص کیاگیا۔
پانامالیکس کے بارے میں سب سے زیادہ احتجاج کرنے والے عمران خان کاخودبرطانیہ میں ایک آف شور کمپنی کی ملکیت کااعتراف اورزمان پارک میں اپنے آبائی وسیع و عریض گھررکھنے کے باوجود2/اپریل1987ءکواسی نوازشریف سے اپنے ذاتی گھرکیلئے درخواست گزارہوکر پلاٹ حاصل کیا،اپنی ہی پارٹی کے افرادکی آف شورکمپنیوں پرشورمچانے کی بجائے ستائش کی۔کل کاناقدعمران خان آج ملک کے سب سے بڑے پراپرٹی ٹائیکون ملک ریاض کی برطانیہ کی طرف سے منی لانڈرنگ کی مدمیں 190ملین پاؤنڈکی وصولی کے جواب میں ملک ریاض سے عبدالقادرٹرسٹ کے نام پرزمین حاصل کرنے کے مقدمے کاسامناہے؟اب سپریم کورٹ نے بھی عمران خان کی درخواست پرفیصلہ سنادیا ہے کہ درخواست اورسپریم کورٹ کافیصلہ آئین کے مطابق نہیں،موجودہ مقدمے میں بھی ترامیم غیرآئینی ہونے کے حوالے سے ہم قائل نہیں ہوسکے،ان ترامیم میں سے بہت سی ترامیم کے معمارعمران نیازی خودتھے،بانی پی ٹی آئی نے نیک نیتی سے درخواست دائرنہیں کی۔
یادرکھیں کہ دنیاکے بڑے لوگ اورلیڈراس لئے عظیم کہلائے کہ انہوں نے مواقع پانے کے باوجوددولت بنانے سےگریز کیا اورذاتی مفادات کی بجائے عوامی مفادات کوترجیح دی اور غربت کی زندگی گزارکراپنی قوم کے مستقبل کوروشن کردیا۔ آخرہمارے موجودہ حکمران اوراپوزیشن یوراگوئے کے سابق صدرسے سبق حاصل کیوں نہیں کرتے کہ انہیں لیڈربنناہے یاڈیلر؟
اے مرے دیس کے لوگو!شکائت کیوں نہیں کرتے؟
تم اتنے ظلم سہہ کربھی بغاوت کیوں نہیں کرتے؟
یہ جاگیروں کے مالک اورلٹیرے کیوں چنے تم نے؟
تمہارے اوپرتم جیسے ہی،حکومت کیوں نہیں کرتے؟
یہ بھوک،افلاس تنگ دستی تمہاراہی مقدرکیوں؟
مقدرکوبدلنے کی جسارت کیوں نہیں کرتے ؟