Heavy Agenda Tough Challenge

بھاری ایجنڈہ،مشکل چیلنج

:Share

پاکستان کے مختلف حلقوں میں یہ سوال کیاجارہاہے کہ جنرل باجوہ کی ریٹائرمنٹ کے بعدنئےآرمی چیف جنرل سیدعاصم منیر پاکستان کے سامنے اہم ترین چیلنجزکیا ہیں؟سب سے پہلاسوال ذہن میں یہ ابھرتاہے کہ ادارہ کومکمل طورپرآئینی کردارکے تابع کیسے کیا جائے؟پاکستان ایک پارلیمانی جمہوریت ہے اوراس کا آئین فوج کوسیاسی معاملات میں مداخلت کی اجازت نہیں دیتالیکن قانونی حدود کے برعکس فوج کی تاریخ مارشل لا،بالواسطہ مداخلت اورپس پردہ سیاسی انجینیئرنگ کی مثالوں سے بھری ہوئی ہے۔ جنرل باجوہ نے بطورآرمی چیف اپنے آخری خطاب میں دعویٰ کیاتھاکہ گذشتہ سال فروری میں عسکری قیادت نے بڑے غورو خوض کے بعداجتماعی طورپرفیصلہ کیاکہ ادارہ آئندہ سیاسی معاملات میں کبھی مداخلت نہیں کرے گا۔

انہوں نے یہ بھی کہاکہ”میں آپ کو یقین دلاتاہوں کہ ہم(فوج)اس پرسختی سے کاربندہیں اوررہیں گے۔انہیں حیرت ہے کہ قوم کیلئےقربانیاں دینے کے باوجود پاکستان کی فوج کواکثرتنقیدکانشانہ کیوں بنایاجاتاہے اورانہوں نے یہ تسلیم کیاکہ یہ فوج کے70سال کے سیاسی کردارکی وجہ سے ہے جوکہ “غیرآئینی”تھا۔اس اعتراف کے بعدیہ سب سے بڑاچیلنج ہوگاکہ وہ فوج کواس کے روایتی متنازع کردارسے آئینی کردارکی طرف کیسے منتقل کریں گے ۔اب متنازع کردارسے آئینی کردار کی طرف منتقلی کے حوالے سے دوجہتیں ہیں۔ایک توفوج کے اعلیٰ حکام کاسیاست میں عدم مداخلت کی پالیسی اپنانا اوراس کوبرقراررکھنے کافیصلہ ہے۔اس پر عمل درآمدکافوج اعادہ کررہی ہے لیکن سوال یہ ہے کہ کیافوج مکمل طورپرسیاست سے الگ رہ سکتی ہے؟

میرے خیال میں فی الحال ایساممکن دکھائی نہیں دے رہاکیونکہ اس معاملے کی دوسری جہت کے مطابق فوج کے کارپوریٹ مفادات،جوکہ اب کافی بڑھ چکے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ کچھ سیاسی طاقت اپنے پاس رکھنا فوج کی مجبوری بن چکی ہے تاکہ وہ اپنے مالی مفادات کاتحفظ کرسکے۔لہٰذا فوج سے مکمل طورپر غیرجانبدارانہ کردارکی توقع رکھناغلطی ہوگی تاہم اگرفوج سیاست دانوں کومائیکرومینیج کرنابندکردے اورملک میں آئندہ شفاف انتخابات میں مکمل غیرجانبدارہوجائے،جس کے بعد حالات یقیناًبہت بہترہوسکتے ہیں۔

تاہم تبدیلی ایک بتدریج عمل ہے اوریہی وہ چیزہے جسے نئے آرمی چیف کویقینی بناناہوگاکہ ان کی قیادت میں فوج کاادارہ اس عہد پرقائم رہے جواس نے کیاہے ۔فوج کے خلاف عمران خان حالیہ بیان بازی اورموجودہ حکمران اتحادکے خلاف ان کی ایک سخت مہم کی وجہ سے سیاسی تقسیم بھی اس وقت عروج پرہے۔ عوام ناراض اوررائے عامہ دوانتہاوں پربٹی ہوئی ہے،بڑھتی ہوئی معاشی مشکلات،سیاسی ابتری اورعمران خان کی طرف سے فوج پرامریکا کے دباؤپران کی حکومت گرانے کے الزام نے صورتحال کو اورگھمبیرکررکھاہے۔عمران خان نے فوج پرجس طرح سے براہ راست اوربالواسطہ طورپرتنقید کی ہے اس کی ماضی میں مثال نہیں ملتی۔عمران خان نے فوج کے خلاف جوبیانیہ بنایاہے اس کی وجہ سے ایک بحرانی کیفیت ہے۔فوج کواس بحران سے نکالنا نئے چیف آف آرمی سٹاف کیلئےدوسرابڑاچیلنج ہوگا۔ہمیں یہ نہیں بھولناہوگاکہ عمران خان کے حامی جنرل عاصم منیرکوکھلم کھلا نشانہ بناتے رہے ہیں اوران کی تقرری کومتنازع بنانے کی ہرممکن کوشش بھی کی۔

اب نظریں جنرل عاصم نصیرپرہوں گی کہ وہ خودکوکس طرح آگے بڑھائیں گے،کہ جس کی وجہ سے ان پریہ الزام نہ لگے کہ فوج کاادارہ ایک سیاسی جماعت کے ساتھ یادوسری کے خلاف کھڑاہے۔عمران خان اس وقت پاکستانی سیاست کے مقبول لیڈربن چکے ہیں،اگروہ مستقبل میں وزیراعظم بن جاتےہیں توجنرل عاصم منیرکوان کے ساتھ دوبارہ کام کرناہے۔عاصم منیرکی بھی عمران خان کے ساتھ تاریخ ہے۔انہیں مبینہ طورپرعمران خان کےاصرارپربحیثیت ڈی جی آئی ایس آئی اپنی تقرری کے آٹھ ماہ بعدہی عہدے سے ہٹادیاگیاتھا۔یہ دورانیہ کسی بھی ڈی جی آئی ایس آئی کامختصرترین دورانیہ ماناجاتاہے تاہم عمران خان نے کبھی اس معاملے پرکوئی ردِّعمل نہیں دیا۔

عمران خان کاواحد مطالبہ قبل ازوقت اورشفاف انتخابات ہیں،اگرعمران دباؤ بڑھانے میں کامیاب ہوگئے توملک میں جاری سیاسی عدم استحکام کوختم کرنے کیلئےنئے آرمی چیف نیوٹرل کردارکی بناء پرموجودہ حکومت کوجلد انتخابات کی ایڈوائس دینے سے گریزکریں گے کیونکہ ادارے کوکسی اورتنازع میں لائے بغیراس صورتحال سے محفوظ طریقے سے نکلنااورتوازن برقرار رکھنا نئے سربراہ کیلئے دوسرابڑاچیلنج ہوگا۔

پاکستانی فوج اپنی مؤثرامیج بلڈنگ کیلئےجانی جاتی ہے۔گزشتہ چندبرس میں آئی ایس پی آرکے ارتقاوتوسیع اورمیڈیاپراس کااثرو رسوخ کسی سے ڈھکاچھپا نہیں۔آئی ایس پی آرنے فوج کی اس امیج بلڈنگ میں اہم کرداراداکیاہے اوراس کیلئےبے پناہ وسائل خرچ ہوئے ہیں تاہم پچھلے چندماہ میں پی ٹی آئی کے ووٹرزاورسپورٹرزکی سوشل میڈیاپرفوج مخالف مہم نے ادارے کے امیج کوکافی داغدارکردیاہے۔مسلسل تنقیداورفوج مخالف سیاسی بیانیے نے فوج کے اندرمورال کوبری طرح متاثرکیا ہے ۔کچھ ریٹائرڈفوجی افسران کی تنظیمیں کھل کرعمران خان کی حمایت بھی کرتی رہی ہیں اورجنرل باجوہ پرکھل کرتنقید کررہی ہیں۔موجودہ حالات میں فوج کے اندر بے چینی کوختم کرنا،ہم آہنگی کوبہتربنانااورفوج کے مورال اورامیج کی بحالی نئے فوجی سربراہ کیلئےکافی اہم ہو گی۔مسلسل تنقیدادارے کواندرسے نقصان پہنچارہی ہے اورچونکہ فوج صرف اپنے لوگوں کی عقیدت اوراحترم پرہی پھلتی پھولتی ہے،اس لیے اس وقت ادارے کے اندراس پریشانی کوختم کرنانئے فوجی سربراہ کی ترجیح ہو گا۔

پہلے پاکستان کی سکیورٹی کامحورصرف انڈیاتھاتاہم اب افغانستان کے ساتھ مغربی سرحدبھی کافی حساس ہے۔افغانستان پرطالبان کے قبضے کے بعدسے پاکستان میں تحریک طالبان پاکستان متحرک ہوئی ہے اوراس کے حملوں میں تیزی آئی ہے۔جس کی وجہ سے پاکستان ایک مرتبہ پھرکئی اندرونی خطرات سے گھراہواہے۔ خیبر پختونخوا میں عسکریت پسندوں کے دوبارہ سراٹھانے کی اطلاعات ہیں اورملک پرمذہبی انتہاپسندی کے خطرات بھی منڈلارہے ہیں ۔بلوچستان میں عسکریت پسندوں کی کارروائیوں میں اضافہ ہواہے اورایسی صورت میں سرحدوں کے اندرشدت پسندی سے نمٹنابھی نئے آرمی چیف کیلئےاہم ہوگا۔

پاکستان کی فوج بلوچستان میں شورش،خیبرپختونخوااورافغانستان کے سرحدی علاقوں میں عسکریت پسندی ایک کامیاب آپریشن کرچکی ہے اوردوبارہ ان خطرات سے نمٹنابھی ایک چیلنج ہے۔فوج کس طرح ان معاملات پر پالیسی کو آگے بڑھائے گی کہ اس پر تنقید میں کمی آسکے اورعالمی سطح پراس کا امیج اور بہترہو سکے،یہ بھی ایک چیلنج رہے گا۔جنرل عاصم منیرکیلئےایک بھاری ایجنڈہ ہے،اوران سبھی معاملوں کوایک ایک کرکے ڈیل کرنے میں کچھ وقت لگے گا۔جنرل عاصم منیر کیلئےمسلسل بدلتے ہوئے خطرات کے ماحول میں پاکستان کے دفاع کومضبوط بنانابھی بڑاچیلنج رہے گا۔ تاہم پاکستان کی فوج کی قیادت سنبھالتے ہی ملکی سیاست ، جنوبی ایشیا میں تزویراتی استحکام اور امریکا اور چین کی دشمنی بھی ایک فوری آزمائش ہوگی۔

اپنا تبصرہ بھیجیں