برصغیرکی زمین نے نجانے کتنے ہی لشکروں کے نقوش اپنے دامن پرسجارکھے ہیں۔کبھی خنجرکی جھنکارنے امن کی فضاکو چیرڈالا، اورکبھی الفاظ کی تاثیر نے خونریزی کے طوفان کوروک لیا۔آج جب تاریخ ایک اورموڑپرکھڑی ہے،سوال یہ ہے کہ آیا ماضی کاخوں آشام سایہ پھرہمارے حال پرمنڈلا رہا ہے؟
ہندوستان اورپاکستان کے درمیان کشیدگی نہ صرف ایک علاقائی تنازع ہے بلکہ جنوبی ایشیاکے امن،ترقی،اوربقاء کیلئےایک مسلسل خطرہ بن چکاہے۔ پہلگام کے فالس فلیگ آپریشن کے بعد یہ بات واضح ہوگئی ہے کہ موجودہ طاقت کاتوازن کہاں کھڑاہے، بھارت کن داخلی بحرانوں میں گھراہواہے، اور مودی ہمیشہ کی طرح اب بھی اپنی عوام کوپاکستان اورچین کی طرف سے شدید خطرات کامنظرنامہ دکھاکراپنے آئندہ انتخابات میں جیتنے کیلئے فالس فلیگ جیسے ڈراموں کاسہارالیکراس خطے کومیدانِ جنگ بنانے پرتُلاہواہے۔مستقبل میں جنگی تبدیلیوں کاکیامنظرنامہ ممکن ہوسکتاہے،تاریخی ودستاویزی حقائق اورعالمی ردعمل پرمبنی شواہد قارئین کے سامنے رکھنے کی کوشش کررہاہوں۔
تاریخ کے صفحات اگرچہ خون سے ترہیں،مگروہ ہمیں ہرصفحہ پرامن کاسبق بھی دیتے ہیں۔موجودہ حالات میں،دونوں ممالک کے بیانات اوراقدامات اگرچہ مخاصمت کی بُورکھتے ہیں،مگریہ کہناقبل ازوقت ہوگاکہ جنگ یقینی ہے۔ہاں،تصادم کاخدشہ ضرورموجود ہے۔سرحدوں پربڑھتی ہوئی کشیدگی، سفارتی سطح پرتلخ بیانی اورعسکری مشقیں ایک نئے محاذکی پیش خیمہ ہوسکتی ہیں ۔ سوال یہ ہے کہ کیاپاکستان اوربھارت میں ایک اورتصادم متوقع ہے؟
عقل سلیم گواہی دیتی ہے کہ جنگ کوئی کھیل نہیں،اورتصادم محض تلواروں کے جُھپٹنے کانام نہیں،بلکہ دوقوموں کی بقاء،معیشت اورتہذیب کافیصلہ کن لمحہ ہوتاہے۔موجودہ حالات میں بارودکی بُوفضامیں رچی بسی محسوس ہوتی ہے،جیسے خاموش دریاکے نیچے تندوتیزلہریں چھپی ہوں۔اگرمتعصب ہندومودی نے عقل وتدبرکوترک کیااورجذبات کوسازشوں کے ہاتھ گروی رکھ دیا تو یہ تصادم بعیدنہیں۔
اقبال نے کیاخوب فرمایاتھا:
سفینۂ اُمیدکوساحل نہ ملا،شاید
کہ موجِ حوادث سے کوئی طوفان نکلے
بھارتی حکمرانوں کی طرف سے تند وتیزبیانات کے بعدیقیناًیہ سوال اٹھتاہے کہ کیابھارت اپنی شکست کابدلہ لینے کی تیاری کررہا ہے؟نہ صرف سیاسی بیانات،بلکہ دفاعی بجٹ میں اضافہ اوراسرائیل وامریکاسے اسلحہ کی خریداری اس امرکی دلیل ہیں کہ بھارت خطے میں بالادستی کاخواب دیکھ رہاہے۔ تاریخ شاہدہے کہ زخم خوردہ اناجب عقل پرغالب آتی ہے توبسااوقات اقوام کوہلاکت کے دہانے پرلاکھڑاکرتی ہے۔تاریخ کاسبق یہی ہے کہ جوطاقت شکست سے دوچارہو،وہ خاموش نہیں رہتی،بلکہ انتقام کی آگ میں اندر ہی اندرجلتی ہے۔بھارت کا عسکری تیور،اسرائیل کے ساتھ دفاعی معاہدے، اور پاکستان کے خلاف مسلسل بیان بازی یہ ظاہرکرتی ہے کہ وہ پھرسے آزمانے کے درپے ہے لیکن قومی غیرت کاتقاضایہ ہے کہ پاکستان ہوشیار،تیار اور پُرامن رہے،مگرفوری جواب میں کمزوری ہرگزنہ دکھائے۔
جفاجوعشق میں ہوتی ہے وہ جفاہی نہیں
ستم نہ ہوتومحبت میں کچھ مزاہی نہیں
امریکی صدرٹرمپ اپنے سرپرسیزفائرکاسہراسجائے ساری دنیامیں یہ اعلان کررہے ہیں کہ مئی کے اوائل میں دونوں ممالک ایٹمی جنگ کے دہانے پر پہنچ چکی تھیں،میں نے فوری مداخلت کرتے ہوئے ایٹمی جنگ سے اس خطے کوبچالیا،کیاواقعی ایسا ہی ہے جیساکہ وائٹ ہاؤس کے نئے فرعون کابیانیہ ہے؟
جوکچھ ہوا،وہ صرف عسکری تصادم نہ تھا،بلکہ خطے کے مستقبل کوایٹمی دھویں میں لپیٹ دینے کی سنگین علامت تھا۔ایک غلطی،ایک ناقص فیصلے کانتیجہ کروڑوں زندگیاں ہوسکتی تھیں۔اگرچہ سفارتی ذرائع نے وقتی طورپرآگ بجھائی،مگرراکھ میں چنگاری باقی ہے۔
یقیناًجو لمحہ گزرا،وہ صرف تاریخ کاایک صفحہ نہیں،بلکہ انسانیت کی پیشانی پرلکھاوہ سیاہ دھبہ ہے،جسے اگردوبارہ دہرایاگیاتو نہ تاریخ بچے گی،نہ پیشانی۔ دونوں ممالک ایک دوسرے کے خلاف جنگی تیاریوں میں تھے اورجوہری ہتھیاروں کے سائے تلے ہم سب ایستادہ تھے۔یہ لمحہِ عبرت تھا،مگرافسوس کہ سیکھنے والے کم اوردہرانے والے زیادہ ہیں۔
اُٹھ کہ اب بزمِ جہاں کااورہی اندازہے
مشرق ومغرب میں تیرے دورکاآغازہے
اقوامِ عالم،بالخصوص اقوامِ متحدہ،امریکا،چین اورروس نے فوری طورپرکشیدگی میں کمی کی اپیل کی مگران بیانات میں سنجیدگی کم،سفارتی رسمیّت زیادہ دکھائی دی۔گویادنیابرصغیرکومیدانِ جنگ بننے سے روکناچاہتی ہے،مگرسنجیدہ ثالثی کیلئےقدم پیچھے کھینچ لیتی ہے۔لیکن جونہی پاکستان نے بھارتی جارحیت کاجواب دیاتوفوری طورپرگھنٹیاں بجنے لگیں اورفوری سیزفائرکیلئے بے تابی بڑھ گئی۔عالمی تجزیہ نگاربھی تسلیم کرچکے ہیں کہ سیزفائرکیلئے امریکااوربرطانیہ میں سیزفائرکیلئے فوری سنجیدگی کے پیچھے کئی اورعوامل بھی پنہاں تھے کہ وہ امریکاجس نے اعلانیہ اس جنگ سے لاتعلقی کااظہارکیامگرپاکستانی جواب کے بعد اس سرعت کے ساتھ کیوں حرکت میں آگیااوراس سیزفائرمیں اب مسئلہ کشمیر کاایک مرتبہ پھرذکرکرکے پاکستان کولالی پاپ سے بہلانے کی لالچ بھی دی گئی۔
ہم سب جانتے ہی کہ بھارتی جارحیت پرعالمی طاقتیں وہ خاموش تماشائی بن گئیں،جیسے کوئی ظالم فلم کاناظرہو،اوراس کاضمیر محض”تشویش”کے بیانات دے کرمطمئن ہوجائے۔اقوامِ متحدہ نے چندرسمی جملے اداکیے،مگرموثراقدام ندارد۔صرف پاکستان سے دوستی نبھانے والے چین،ترکی اورچنددیگر ممالک پہلے دن سے پاکستان کے ساتھ کھڑے ہوگئے تھے اوراس سلسلے میں پاکستان کی سفارتی کارکردگی کے چرچے بھی شروع ہوگئے گویا:
زمانہ کہتاہے کس کاہے یہ فسانۂ درد
کوئی نہیں جوکہے:یہ انسانیت کازخم ہے
دنیاکوچاہیے تھاکہ ثالثی کافعال کرداراداکرتی،مگراکثرطاقتور،امن کونفع کے ترازومیں تولتے ہیں۔اگرآئندہ ایٹمی خطرہ پیداہوگیاتو دنیاکے ہاتھوں میں صرف مذمتی بیانات ہوں گے اورزمین پر لاشیں ۔ایٹمی جنگ کی لپیٹ میں آنے والے صرف لاہوریادہلی نہیں ہوں گے،بلکہ اس کازہر ہواؤں میں گھل کرلندن، نیویارک،ماسکوتک پہنچے گا۔
گرنہ ہوارض وسمامیں کوئی تدبیرِامن
خاک ہوجائے گاانسان کاشرف بھی کہیں
اگرخدانخواستہ آئندہ ایٹمی خطرہ درپیش ہوتودنیا کی خاموشی ایک مجرمانہ غفلت تصورکی جائے گی۔عالمی برادری کوچاہیے کہ محض“تشویش”کااظہار کرنے کی بجائے“تدبیر”اختیارکرے۔یہ وقت ہے کہ دنیافیصلہ کرے:خاموش رہناہے یاضمیرکوبیدارکرنا ہے؟
پانی حیات کی علامت ہے اورجب یہی آبِ حیات کوہتھیاربنادیاجائے تویہ ظلمِ عظیم ہے۔سندھ طاس معاہدے کی خلاف ورزی پاکستان کی زراعت، معیشت اورخودمختاری پروارکے مترادف ہے۔بھارت کی یہ روش نہ صرف معاہداتی اصولوں کی پامالی ہے بلکہ یہ پانی کوایک نئی جنگ کامحرک بنانے کی کوشش ہے۔جیسا کہ سب جانتے ہیں کہ پانی زندگی ہے،اورزندگی کابہاؤروک دینا ظلمِ عظیم ہے۔بھارت کی جانب سے سندھ طاس معاہدے کی خلاف ورزی صرف قانونی نہیں،اخلاقی اورانسانی جرم بھی ہے۔ پاکستان کی زراعت،صنعت،اورخودمختاری کادارومدارانہی دریاؤں پرہے۔پانی کی جنگ، بارود سے زیادہ خوفناک ہوسکتی ہے۔
درِنیل سے فرات تک،وطن کی یہ صداہے
کہ قطرہ قطرہ پانی بھی امانت ہے خداکی
کیاپاکستان اوربھارت کے مابین طاقت کاتوازن یہی رہے گایااس میں تبدیلیاں متوقع ہیں؟اس سوال کاجواب یہ ہے کہ قوتِ مردانہ صرف شمشیر وسنان کا نام نہیں،بلکہ قومی عزم،داخلی استحکام،سائنسی ترقی اوراقتصادی خودکفالت وہ عناصرہیں جوحقیقی طاقت کاسنگ بنیادرکھتے ہیں۔آج اگرچہ عسکری توازن قائم ہے،مگرطاقت کاتوازن اب صرف توپ اورٹینک پرنہیں بلکہ معیشت،ابلاغ اورعلم پرمنحصرہے۔یہ توازن محض میزائلوں اورٹینکوں پر نہیں،بلکہ معاشی بچت،ٹیکنالوجی اورسفارت پربھی منحصرہے۔مستقبل قریب میں اگرپاکستان نے اقتصادی مضبوطی اورسفارتی پختگی،سائنسی ترقی ، معاشی استحکام حاصل کرلیا،اوربین الاقوامی سفارت کومضبوط کیا،تویہ توازن پاکستان کے حق میں ہوسکتاہے۔یہی وقت ہے کہ پاکستان تدبیر اختیار کرے ، اورطاقت کی بنیادصرف جذبے پرنہیں بلکہ حکمت پررکھے۔
بھارت اگرچہ ظاہری عسکری لحاظ سے خطے کی ایک بڑی قوت،دنیاکاچوتھاسب سے بڑااسلحہ رکھنے والاملک بن چکاہے – مگراس کایہ توازن اس کے داخلی بگاڑ،غربت،اورانتشارکی دیمک سے کھوکھلاہوتاجارہاہے۔حقیقی طاقت کاتعین صرف ہتھیاروں سے نہیں،بلکہ داخلی استحکام،معاشی صحت،اورانسانی ترقی کے اشاریات سے کیاجاتاہے۔
زمینی حقائق یہ ہیں کہ ورلڈ بینک کی2024ءرپورٹ کے مطابق بھارت میں تقریباً25کروڑافرادخطِ غربت سے نیچے زندگی بسر کررہے ہیں۔یواین ایف پی اے کی2023ءکی رپورٹ کے مطابق زچگی میں اموات کی شرح دنیامیں سب سے زیادہ بھارت میں ہے۔ یواین ایڈزکی رپورٹ کے مطابق ڈھائی ملین سے زائدایڈزکے مریض صرف بھارت میں موجودہیں،جبکہ کئی دیہاتوں میں مکمل آبادی متاثرہے اوران گاؤں کے باہرجلی الفاظ میں بورڈ آویزاں ہیں کہ اس گاؤں میں داخلہ ممنوع ہے۔30سے زائدعلیحدگی کی تحریکیں چل رہی ہیں جیسے(ناگالینڈ، خالصتان،آسام،منی پور)وغیرہ اورکئی علاقوں میں علیحدگی پسندوں کی باقاعدہ حکومتیں قائم ہیں اورخودمودی سرکاران علاقوں سے اپنی ٹرین گزرنے کاباقاعدہ بھتہ دیتے ہیں۔ایسی داخلی خرابیوں کے ساتھ بھارت کی عسکری چمک ایک ظاہری فریب ہے،جسے میڈیاکے ذریعے سجایاگیاہے۔پاکستان کوچاہیے کہ طاقت کاتوازن صرف فوجی انداز میں نہیں بلکہ معاشی وفکری سطح پربھی قائم کرے۔ اقبال کے الفاظ یادآتے ہیں:
فطرت افرادسے اغماض بھی کرلیتی ہے
کبھی کرتی نہیں ملت کے گناہوں کومعاف
حقیقت یہ ہے کہ بھارت کی جی ڈی پی میں عسکری اخراجات کاتناسب غربت سے نبردآزماہونے کی سکت چھین رہاہے۔کروڑوں افرادآج بھی خطِ غربت سے نیچے زندگی بسرکررہے ہیں ۔ ایڈز، زچگی میں اموات، اور صحت کے شعبے میں بے بسی–یہ سب ایسی آفات ہیں جوکسی بھی بڑے عسکری ملک کی پائیداری کوکھاجاتی ہیں۔یہ تمام عوامل نہ صرف بھارت کی قوت کے توازن کو متاثرکرتے ہیں،بلکہ تیسری دنیا کے ان تمام ممالک کوبھی یہ پیغام دیتے ہیں کہ وہ صرف جنگی تیاریوں پرنہیں بلکہ علمی،سائنسی ، سوشل و اقتصادی استحکام پرتوجہ دیں تاکہ ایک حقیقی توازن پیداہو۔
عمل سے زندگی بنتی ہے جنت بھی جہنم بھی
یہ خاکی اپنی فطرت میں نہ نوری ہے نہ ناری ہے
جنگ اب”بندوق بمقابلہ بندوق”کی کہانی یاکھیل نہیں رہی،بلکہ مصنوعی ذہانت، سائبروار، ڈرون حملے،نیٹ ورک بلاکیڈ،اور “ڈیجیٹل بلیک آؤٹ ” جیسے تصورات سے مزین ہوچکی ہے۔اب جنگ محض توپوں کی گھن گرج نہیں،پراکسیز کے ذریعے لڑی جاتی ہے۔
بھارت کی عسکری حکمت عملی اقوامِ عالم کے بھی سامنے ہے،اس کادفاعی نظام،اسرائیل سے ہاروپ ڈرون اورمیزائل،فرانس سے رافیل طیارے، روس سے ایس400طیارے،یہ سب اس امرکے گواہ ہیں کہ بھارت ایک “حملہ آورحکمت عملی”اپنارہاہے۔دراصل بھارت اپنی غربت،بیماری، افلاس اوراندرونی بغاوتوں سے دنیاکی توجہ ہٹانے کیلئےبھارت پاکستان کوہدف بنارہاہے،تاکہ عالمی برادری اسے”امن کادعویدار”اورپاکستان کو “خطرہ”تصورکرے۔
مغرب کے دفاعی ادارے بھارت کومحض ایک منڈی سمجھتے ہیں۔وہ انسانیت نہیں،نفع کودیکھتے ہیں۔مشرق ومغرب کے اسلحہ سازادارے اس نئے میدان میں اپنے ہتھیاروں کی نمائش کررہے ہیں۔یہ مقابلہ خالصتاًسرمایہ دارانہ حرص کامظہرہے،جوخطے کو تختہ مشق بنائے ہوئے ہے۔یہ مقابلہ دراصل ایک شیطانی منڈی ہے،جہاں امن بک رہاہے اورہتھیار سجائے جارہے ہیں۔اسلحہ ساز ادارے،خواہ مشرق کے ہوں یامغرب کے،اس جنگ کوایک”تجارتی سودے”کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔اس دوڑمیں صرف بھارت نہیں،چین، امریکا،فرانس،اسرائیل،سب شریک ہیں۔
پاکستان کیلئےچیلنج یہ ہے کہ وہ اس جنگی جنون کامقابلہ صرف جنگی تیاری کے ساتھ ساتھ سفارت،تدبیراورسچائی سے کرے کیونکہ آج کے سوداگرانِ خون کایہ دستوربن گیاہے کہ بازارِجنگ گرم رہنا چاہئے چاہے اس کیلئے انسانیت سسکتی رہے،گاہے بگاہے اس انسانیت کے سانسیں بحال کرنے کیلئے چندٹکڑے ان کے کاسہ گدائی میں اس نیت سے ڈال دیں تاکہ پھرسے اپناخون جلا کران کے کارخانوں کاایندھن بن سکیں۔
یہ عقل کافسادہے یاہوس کی غلامی
کہ ہے بارودکاساماں بڑھ کرروٹی
مودی کے جنگی جنون کااس بات سے اندازہ لگایاجاسکتاہے کہ وہ خطے میں تھانیداربننے کیلئے ملکی وسائل کواپنی عوام کی غربت،علاج معالجہ اوربنیادی سہولتیں مہیاکرنے کی بجائے ایک کثیر زرمبادلہ اسلحہ کی خریداری پرخرچ کررہاہے۔بھارت ایک مرتبہ پھرفرانس سے رافیل طیاروں کے جدیدماڈل، روس کاایس400میزائل سسٹم،اسرائیل سے ہاروپ ڈرون اوراسپائک میزائل کے علاوہ اپنے دفاعی پروجیکٹس کیلئے نیابحری بیڑہ اورخلائی عسکری منصوبوں پرملکی وسائل کوجنگ کی آگ میں جھونک رہا ہے جبکہ ہم سب جانتے ہیں کہ عالمی اسلحہ سازکمپنیاں( لاک ہیڈ مارٹن،ڈی سالٹ ایوی ایشن، رافیل ایڈوانسڈڈیفنس سسٹم )امن کی نہیں،جنگ کی خریدارہوتی ہیں۔بھارت جیسے ملک کووہ صرف ایک گاہک سمجھتے ہیں۔علامہ اقبال ایک بارپھر یادآ گئے :
نہ ہوطُغیانِ شمشیروسناں میں کچھ اگرپیدا
فقیری میں بھی ہے اک شانِ قیصری پنہاں
جنونی مودی کے مقابلے میں پاکستان کیلئے اہم سبق یہ پنہاں ہے کہ سائنسی،ٹیکنالوجیکل،اورسائبرمہارت کواولین ترجیح دی جائے۔ تعلیمی ادارے دفاعی تحقیق میں مشغول ہوں۔دفاعی معیشت پرانحصاربڑھایاجائے تاکہ خودکفالت حاصل ہو۔یقیناًحالیہ پاک بھارت جنگ میں پاکستان نے جس صلاحیت کا مظاہرہ کیاہے،اس کے بعدرافیل کمپنی کےحصص کی تنزلی اورجے ایف17تھنڈرکے عالمی مارکیٹ میں حصص کی بڑھتی ہوئی قیمت اوردرجن سے زائد ممالک کی پاکستانی اسلحے میں دلچسپی کوملک کی معاشی صورتِ حال کیلئے اللہ کی ایک خاص نعمت سمجھ کراس کی نہ صرف قدرکی جائے بلکہ اس پرہنگامی بنیادوں پرفوری توجہ دی جائے۔
پانی صرف ایک قدرتی وسیلہ نہیں،بلکہ قومی سلامتی،زراعت،روزگاراورانسانی بقاءکاِلازم جزوہے۔بھارت نے پانی کی راہ روکی، اورگویایہ پیغام دیاکہ “جنگ کے بغیربھی جنگ کی جاسکتی ہے،میں صرف جنگ سے نہیں،پانی سے بھی تمہیں زیرکرسکتاہوں”۔ اوربھارت کا آبی جارحیت اسی کی ایک مثال ہے۔یہ اقدام بظاہرسادہ،مگرحقیقتاً ایک معاشی وجغرافیائی حملہ ہے۔سیزفائرکے باوجود پانی روکنابین الاقوامی قوانین کی کھلی خلاف ورزی ہے۔یہ پیغام دراصل پاکستان کوغیرعسکری طریقے سے زیرکرنے کی کوشش ہے۔قطرہ جوسمندربن جائے،وہ کبھی روکانہیں جاسکتا،مگراگربندہوجائے،تو ساری زمین پیاسی ہوجاتی ہے۔یہ پیغام امن کے دعوے کی نفی،اورجارحیت کاعملی مظاہرہ ہے۔
بھارت نے گنگاکشن ڈیم سے پانی روک کرنہ صرف سندھ طاس معاہدے کی روح کومجروح کیابلکہ ایک خاموش جنگ چھیڑدی۔ بھارت کی طرف سے گنگا کشن ڈیم سے دریاؤں کاپانی روکنا گویا اعلانِ جنگ کے مترادف ہے،اگرچہ الفاظ میں امن کالبادہ اوڑھ رکھاہے۔اس عمل کامقصد پاکستان کے زرعی خطوں کوبنجربنانا،معاشی وماحولیاتی دباؤپیداکرنا،سندھ طاس معاہدے کوایک بے معنی دستاویزبنادینااس کی مکروہ منزل کاپتہ دیتی ہے۔یاد رکھیں کہ وہ جودریابہتاہے،وہ خون کی مانندہے اورجواُسے روکتاہے،وہ خنجرتھامے ہوئے ہے۔اس سے یہ بھارتی روش کاپتہ چلتاہے کہ بھارت کی عسکری تیاری اور آبی جارحیت میں مکمل مطابقت ہے۔جس ہاتھ میں میزائل ہے،اسی ہاتھ میں پانی کاکنٹرول، اوریہ دونوں خطرناک ہیں۔
1960ءمیں سندھ طاس معاہدہ عالمی بینک کی ضمانت سے طے پایاتھاکہ بھارت تین مشرقی دریاؤں(بیاس،راوی،ستلج)کامالک ہے، اورپاکستان تین مغربی (سندھ،جہلم،چناب)کا،لیکن اب بھارت مغربی دریاؤں میں بھی رکاوٹیں ڈال رہاہے۔یہ اقدام واضح طورپر پاکستان کی زرعی معیشت کونشانہ بناناہے۔یادرہے کہ دریاجوروکاجائے،توزخم صرف زمین کونہیں لگتا،قوم کی روح بھی سسکتی ہے۔پاکستان کیلئے ضروری ہے کہ عالمی بینک سے فوری رابطہ کرکے اسے ملوث کیاجائے اوربھارت کی ہٹ دھرمی کے خلاف بین الاقوامی عدالتِ انصاف میں مقدمہ دائرکیاجائے۔اقوام متحدہ میں سندھ طاس معاہدے کی خلاف ورزی کے ممکنہ نتائج سے آگاہ کرتے ہوئے ان کوبتایاجائے کہ یہ پاکستان کی حیات وموت کاسوال ہے اوراس پرکسی بھی قسم کے انحراف کی اجازت نہیں دی جاسکتی اوراس عمل پرپاکستان اپنافوری ردعمل کااظہارکرنے کاپابندہے۔علاوہ ازیں فوری طورپرنئے متبادل آبی ذخائر کی منصوبہ بندی کی جائے اورکالاڈیم کی مخالفت کرنے والوں کی بھی اب آنکھیں کھل جانی چاہئیں کہ انہوں نے نہ صرف ملک بلکہ اپنے علاقوں کی زرعی ترقی پرکس ظالمانہ طریقے سے کاری وارکئے ہیں۔
جنوبی ایشیا،خصوصاًپاکستان،پچھلی کئی دہائیوں سے دہشتگردی کے شدیدخطرے کاسامناکررہاہے،مگرحالیہ برسوں میں بھارت کی جانب سے پاکستان کے اندردہشتگردانہ کارروائیوں میں واضح اضافہ دیکھنے میں آیاہے۔بھارتی خفیہ ایجنسی رانہ صرف پاکستان کے اندرحملوں کی منصوبہ بندی میں ملوث ہے بلکہ بلوچستان میں علیحدگی پسندگروپوں کی مالی اورعسکری معاونت بھی کررہی ہے۔اس کامقصدپاکستان کواندرونی طورپرغیرمستحکم کرناہے۔
بھارت بلوچستان میں کئی دہائیوں سے بدامنی کوہوادے رہاہے۔بھارتی پراکسیزکی کارروائیوں میں معصوم شہریوں اوراسکولوں کے بچوں پرحملے،مساجد، مارکیٹوں اورریل گاڑیوں کونشانہ بنایاگیا ہے ۔حالیہ واقعہ جعفرایکسپریس پرحملہ بھی انڈین دہشتگردی کا شاخسانہ ہے،جس میں متعددبے گناہ مسافرشہید ہوئے۔یہ واقعہ ریاستی دہشتگردی کی ایک سفاک مثال ہے،جس میں عام شہریوں کو دانستہ نشانہ بنایاگیا۔
پاکستان نے متعددبارعالمی اداروں کے سامنے یہ شواہدرکھے کہ بھارت کس طرح سے علیحدگی پسند تنظیموں کواسلحہ،رقم،اور تربیت فراہم کررہاہے۔ بھارتی نیوی کے حاضرسروس افسرکلبھوشن یادیوکی گرفتاری اس ریاستی مداخلت کاواضح ثبوت ہے۔یادیو نے اعتراف کیاکہ وہ ایران کے راستے بلوچستان آیااورمختلف گروپوں کومسلح بغاوت پراکسارہاتھا۔ابھی حال ہی میں ایک مرتبہ پھرانڈین”را”کی سازش کے تحت بلوچستان کی بس میں شہیدہونے والے چھ معصوم بچے دنیاکے ضمیرپرایک سوالیہ نشان ہیں۔ معصوم بچوں کی شہادت ایک ایسازخم ہے جوصرف ایک علاقے کانہیں،پوری انسانیت کاہے۔پاکستانی فوج کے شعبہ تعلقات عامہ نے عالمی میڈیاکے سامنے بھارتی دہشتگردی کے ثبوت پیش کیے،جن میں گرفتاردہشتگردوں کے اعترافی بیانات،اسلحہ،نقشے، بھارتی کرنسی،اوردیگرموادشامل ہیں۔یہ ثبوت اقوام متحدہ سمیت دیگرعالمی اداروں کوبھی فراہم کیے جاچکے ہیں۔پاکستان نے جوشواہدپیش کیے،وہ محض الزامات نہیں ،حقائق کی وہ شمعیں ہیں جوظلم کی تاریکی کوچیرسکتی ہیں۔اب امریکااور برطانیہ کی غیر جانبداری کا امتحان ہے۔حق بات کوچھپانا،غیروں کاوتیرہ ہےاگرہم بھی چھپائیں،توکیا فرق باقی رہے گا؟
پاکستان نے جوشواہدعالمی برادری کوپیش کیے،ان پراب تذبذب نہیں،اقدام کی ضرورت ہے۔اگر اقوامِ عالم اب بھی خاموش ہیں تویہ خاموشی مجرمانہ ہے۔بلوچستان میں بین الاقوامی قوانین کی روح اس بات کی متقاضی ہے کہ سٹیٹ اسپانسرڈٹیررزم کے خلاف فوری اورمؤثراقدامات کیے جائیں۔ بھارت کی پراکسیزکے ذریعے اندرونی عدم استحکام کی کوششیں عالمی قانون کی صریح خلاف ورزی ہیں۔اقوامِ متحدہ کی خاموشی ایک مجرمانہ چشم پوشی بن چکی ہے۔امریکااوربرطانیہ،جوسیزفائرکے داعی ہیں،اگربھارت کے خلاف کوئی مؤثرقدم نہیں اٹھاتے توان کی غیرجانبداری پرسوالیہ نشان اورانصاف ایک عالمی مذاق بن جائے گا۔
قتلِ طفلانِ جُوں گل ہے اگرخاموش دنیا
تویہ عالم بھی کسی قیامت سے کم نہیں
بھارت کی دہشتگردانہ سازشیں محض عسکری نوعیت کی نہیں بلکہ ایک منظم ہائبرڈ وارہے جس میں میڈیاپروپیگنڈہ،سائبرحملے، معاشی دباؤ،سفارتی محاذپرپاکستان کوتنہا کرنے کی کوشش شامل ہیں ۔اس کامقصدپاکستان کوعالمی سطح پرکمزورکرنااوراندرونی خلفشارپیداکرناہے۔
حالیہ پاک بھارت جنگ میں اسرائیل پاکستان کے خلاف جنگی طورپرسرگرم ہوگیاہے،اسرائیلی ہاروپ ڈرون اورمیزائل حملے ناقابلِ برداشت اقدامات ہیں،اسرائیل کے اتحادیوں کیلئے یہ وضاحت ضروری ہے پاکستان اس امرکوبراہِ راست پاکستان پرحملہ سمجھتا ہے توپاکستان کونہ صرف دفاع کاقانونی حق حاصل ہے بلکہ امتِ مسلمہ کی غیرت بھی اس کاتقاضاکرتی ہے کہ وہ اپنے دفاع میں ہرممکن اقدام کرے۔اوراگرعالمی برادری نے خاموشی اختیارکی، تو اس خاموشی کی قیمت پوری دنیاکوچکانی پڑے گی۔اب وقت ہے کہ پاکستان نہ صرف آوازبلندکرے بلکہ اپنے دفاع میں جرات وحکمت کامظاہرہ بھی کرے ۔
ہزاروں سال نرگس اپنی بے نُوری پہ روتی ہے
بڑی مشکل سے ہوتاہے چمن میں دیدہ ورپیدا
بھارت اورپاکستان دونوں ایٹمی طاقتیں ہیں۔اگربھارتی دہشتگردی اورپاکستان کے اندرمداخلت کاسلسلہ نہ رکاتو یہ تصادم مکمل جنگ میں بدل سکتاہے، جس کاانجام ایٹمی تصادم کی صورت میں ہوسکتاہے۔یہ جنگ صرف دونوں ممالک کیلئےنہیں بلکہ پوری دنیاکیلئےتباہ کن ثابت ہوگی۔
اقوام متحدہ کے چارٹرکے مطابق،کوئی بھی ریاست دوسرے ملک کی سالمیت میں مداخلت نہیں کرسکتی۔اقوام متحدہ کوبھارت کے خلاف آزادانہ تحقیقات کرانی چاہیے اورشواہدکی بنیادپر بھارت پرپابندیاں عائدکرنی چاہئیں۔مزیدبراں جنوبی ایشیا میں پائیدار امن کیلئے عالمی طاقتوں امریکا،چین، روس،برطانیہ کوثالثی کاکرداراداکرناچاہیے۔ان ممالک کودوہرامعیارترک کرکے انصاف پرمبنی خارجہ پالیسی اپناناہوگی۔اگردنیادہشتگردی کے خلاف ہے تواسے ریاستی دہشتگردی کے خلاف بھی اتناہی سخت مؤقف اپناناہوگا جتناغیرریاستی عناصرکے خلاف اپنایاجاتاہے۔
یہ وقت ہے کہ پاکستان محض ردعمل کی پالیسی سے نکل کرفعال حکمتِ عملی اپنائے۔دشمن صرف سرحدوں پرنہیں بلکہ میڈیا، پانی،فکر،اورمعیشت پر حملہ آورہے۔اس کے جواب میں صرف بندوق نہیں بلکہ قلم،عقل،اورصداقت کی ضرورت ہے۔اگرپاکستان بین الاقوامی فورمزپرمؤثراندازمیں مقدمہ لڑے توعالمی برادری بھارت کی عسکری وآبی جارحیت کوسنجیدگی سے لے سکتی ہے۔ بھارت کی داخلی بدحالی اگرشدت اختیارکرے توعالمی برادری کواپنی پالیسی پرنظرِثانی کرنی پڑے گی۔
پاکستان اپنی سابقہ روش کوتبدیل کرتے ہوئے اپنی پالیسی سازی میں تدبرمگردفاعی تیاری میں کوئی کوتاہی نہ ہونے دے۔علم و معیشت کوترجیح دی جائے تاکہ دشمن کوصرف ہتھیارسے ہی نہیں،بلکہ فکروفراست سے شکست دی جائے۔سفارت کاری کوفعال اورحقیقت پسندبنایاجائے تاکہ بیرونِ ملک پاکستان کے بیانئے کواس کے صحیح تناظرمیں سمجھاجائے کہ خطے میں بھارت عالمی امن کاسب سے بڑادشمن ہے۔امریکا،برطانیہ،فرانس نے زیادہ تر بیانات تک خودکومحدودرکھاہے۔روس کی غیرجانبداری سے بھارت کو خاموش حمائت ملی ہے کیونکہ بھارت اب بھی روسی اسلحہ کاایک بڑاخریدارہے اوربالخصوص یوکرین کی جنگ میں مغربی پابندیوں کے باوجودروس سے ایک بڑی مقدارمیں پٹرول کابھی خریدارہے۔
ان حالات میں پاکستان کواپنی علمی،سائنسی،اورسفارتی طاقت بڑھانے کی فوری ضرورت ہے۔بھارت کی عسکری جارحیت کو جہاں مکمل اورمضبوط عسکری تیاری کے ساتھ بلکہ فکری مزاحمت،معاشی استحکام،اورعالمی قانون کے ذریعے بھی روکا جائے ۔میڈیااورسفارت کاری کے میدان میں بھارت کے جھوٹ کاپردہ چاک کرناضروری ہے۔قومی بیانیے کوصرف جنگی نہیں،تعلیمی، تحقیقی اوراخلاقی بنیادوں پربھی استوارکیاجائے تاکہ حالیہ پاک بھارت کشیدگی میں جس طرح پاکستانی قوم ایک سیسہ پلائی ہوئی دیواربن کرسامنے آئی ہے،اس جذبے کومستقل بنیادوں پراستوارکرنے کیلئے سیاسی انارکی کوختم کرنے کیلئے عملی اقدامات کئے جائیں۔ اقبال نے کیاخوب فرمایاہے:
افرادکے ہاتھوں میں ہے اقوام کی تقدیر
ہرفردہے ملت کے مقدرکاستارہ
جہاں جنگ کی صدائیں سنائی دے رہی ہوں،وہاں امن کی صداسب سے بلندہونی چاہیے۔عالمی طاقتوں کافرض ہے کہ بھارتی قیادت کودوٹوک پیغام دیاجائے کہ نفرتوں کے دھوئیں سے باہرنکل کرعقل وتدبرکے نورسے کام لے کہ اس کی ہٹ دھرمی کی بناءپر جہاں اس کوتاریخ کاقلم اورآنے والی نسلیں کبھی بھی اسے معاف نہیں کریں گی وہاں اسے عالمی پابندیوں میں جکڑکرسخت سزا دی جائے،یقیناًاس عمل کے بعدوہ کبھی بھی دنیاکے امن کوغارت کرنے کی جرات نہیں کرے گا۔یادرہے کہ بھارت سے امن اورعلم دوستی کی امیدرکھنافی الحال خودکودھوکہ دینے کے مترادف ہے۔ ایسا دشمن جواپنے ہی شہریوں کی بھوک،افلاس،بیماری اوراحتجاج کوبندوق سے دباتاہے،اس سے کوئی کیسے امیدرکھ سکتاہے کہ وہ علم،امن اورمحبت کی زبان بولے گا؟
جس قوم کے فقیہ کی معراج ہوسیاست
وہاں نہ علم بچے گا،نہ عشق،نہ حکمت
ان حالات میں ضروری ہے کہ:
بھارت کی ریاستی دہشتگردی کی آزاد بین الاقوامی تحقیقات کرائی جائیں۔
اقوام متحدہ بھارت کوبازرکھنے کیلئے پابندیاں عائدکرے۔
عالمی میڈیا کوحقائق کی درست تصویر پیش کی جائے۔
پاکستان کواپنی سفارتی سرگرمیوں کومزیدمتحرک اورمربوط بناناہوگا۔
جنوبی ایشیامیں امن کیلئے بین الاقوامی کانفرنس بلائی جائے۔