غزہ فلسطین کاایک چھوٹاساساحلی علاقہ ہے جس کی سرحدیں اسرائیل،مصراوربحیرۂ روم سے ملتی ہیں۔اس کی آبادی تقریباً23لاکھ ہے اوریہ دنیاکے سب سے گنجان آباداورمحروم علاقوں میں شمارہوتاہے۔2007سے غزہ پرحماس کی حکمرانی ہے،جواسرائیل کے ظلم وسستم کے خلاف جدوجہدآزادی میں مصروف ہے۔
اکتوبر2023میں حماس اوراسرائیل کے درمیان شروع ہونے والی جنگ کے بعدغزہ ایک شدید انسانی بحران کاشکارہوگیا۔اسرائیل کی سکیورٹی کابینہ نے مئی2025میں ایک نئی پالیسی کی منظوری دی جس میں غزہ پرقبضہ،حماس کوختم کرنے کیلئےبھرپور کارروائیاں،اورانسانی امدادپرکنٹرول جیسے نکات شامل تھے۔یہ پالیسی داخلی سیاسی عوامل اوربین الاقوامی سفارتی چیلنجزکے بیچ میں متوازن ہونے کی بجائے تنازع کومزیدگہراکررہی ہے۔منصوبہ کے مطابق غزہ میں فوجی کارروائیوں میں شدت، علاقے پر کنٹرول حاصل کرنا، حماس کو مکمل طور پر کمزور کرنا اور انسانی امداد کی فراہمی کے راستے بند کرنا شامل ہے۔ اس منصوبے کو دنیا بھر میں سخت تنقید کا سامنا ہے اور یہ بین الاقوامی قوانین، انسانی حقوق اور موجودہ سفارتی کوششوں کیلئےایک بڑا چیلنج بن چکا ہے ۔
2005میں اسرائیل نے غزہ سے فوجی انخلاکیاتھالیکن اس کے بعد بھی وہ غزہ کی بری،بحری اورفضائی ناکہ بندی جاری رکھے ہوئے ہے۔درآمدات، برآمدات،بجلی اورپانی کی فراہمی پر مکمل اسرائیلی کنٹرول ہے۔پچھلی سات دہائیوں سے زائد اسرائیلی بربریت کے خلاف اکتوبر2023 میں حماس کے ایک بڑے حملے کے بعداسرائیل نے غزہ پربھرپورفوجی حملے شروع کیے ۔اس کے نتیجے میں ہزاروں فلسطینی شہری شہیداورلاکھوں بے گھرہوگئے۔ اسرائیلی فوج نے غزہ کے بڑے حصوں پرزمینی حملوں میں درجنوں اسرائیلی شہریوں کویرغمال بنالیا۔
اب مئی2025میں اسرائیلی سکیورٹی کابینہ نے ایک نئی پالیسی کی منظوری دی ہے جس میں غزہ کاطویل المدتی فوجی کنٹرول، حماس کوانسانی امدادسے محروم کرنے کی کوشش اورمکمل فوجی تسلط اورقبضہ شامل ہے۔یہی پالیسی اب بین الاقوامی توجہ اور مخالفت کامرکز بن چکی ہے۔
کیااسرائیل غزہ پرقبضہ کرسکتاہے؟بین الاقوامی قوانین کے مطابق چوتھے جنیواکنونشن(1949)اورہیگ ریگولیشنز(1907)کے مطابق،کسی علاقے پر”فوجی قبضہ”صرف عارضی ہوسکتاہے۔کسی بھی ملک کودوسرے علاقے پرطویل مدتی قبضہ کرنے کی اجازت نہیں ہے،جب تک کہ یہ قبضہ دفاعی نوعیت کانہ ہواورجبری الحاق کاارادہ نہ رکھتاہو،اگرچہ عارضی فوجی کنٹرول ممکن ہے،لیکن غزہ جیسے علاقے پرمستقل قبضہ،جہاں اسرائیل پہلے ہی2005 میں فوجی انخلاکااعلان کرچکاہو،ایک جارحانہ عمل سمجھا جائے گا۔مقامی آبادی کے حقوق کااحترام کرنالازم ہے۔
بین الاقوامی عدالت انصاف نے2004میں فلسطینی علاقوں پراسرائیلی قبضے کو”غیرقانونی”قراردیاتھا،جس میں غزہ بھی شامل تھا۔تاہم اسرائیل نے 2005میں غزہ سے اپنی فوجی موجودگی ختم کردی تھی،جس کے بعدسے اس کے قانونی مؤقف میں تبدیلی آئی۔2007 سے غزہ پرحماس کاکنٹرول ہے ، جبکہ اسرائیل نے زمینی،بحری،اورفضائی محاصرہ جاری رکھاہواہے۔بین الاقوامی تنظیمیں اسے “بلاکڈ”یا”محدودخودمختاری”والاعلاقہ قراردیتی ہیں۔ اگراسرائیل دوبارہ غزہ میں فوجی آپریشنزکے ذریعے براہ راست کنٹرول حاصل کرتاہے،تو یہ بین الاقوامی قانون کے تحت”غاصبانہ قبضہ”شمارہوسکتا ہے،جس کیلئےخاص شرائط اورذمہ داریاں عائدہوتی ہیں۔
شہریوں کواجتماعی سزادیناغیرقانونی ہے۔خوراک،ادویات اورطبی سہولتوں کوروکناانسانیت کے خلاف جرم ہے۔اگراسرائیل مستقل قبضے کی جانب بڑھتا ہے تویہ استعماری تسلط کی ایک شکل ہوگی اوراسرائیلی اقدام کی حیثیت غیرقانونی تصورکی جائے گی۔بین الاقوامی فوجداری عدالت اوراقوام متحدہ کی سابقہ رپورٹس میں بھی غزہ میں اسرائیلی اقدامات کوممکنہ”جنگی جرائم”اور”اجتماعی سزا”کے زمرے میں رکھاگیاہے۔اقوام متحدہ نے اس سے قبل مغربی کنارے میں بستیوں کوغیرقانونی قراردیاہے۔غزہ میں بھی ایسا قبضہ قانونی طورپرتسلیم نہیں کیاجائے گا۔
جنگ بندی کی کوششوں کے باوجوداسرائیل کی جانب سے غزہ پرحملے جاری رکھنانیتن یاہوکی ایک سیاسی وعسکری مکارانہ حکمت عملی کاحصہ ہے۔نیتن یاہو سیاسی دباؤ (کرپشن کے مقدمات،داخلی احتجاج،دائیں بازوکے دباؤاورعدالتی الزامات کے پس منظر میں)سے نمٹنے کیلئےجنگ کوطول دیناچاہتاہے۔ نیتن یاہوگزشتہ کئی برسوں سے سیاسی دباؤکاسامناکررہاہے،جن میں کرپشن کے الزامات،احتجاجی مظاہرے اورداخلی اختلافات شامل ہیں۔جنگ کوجاری رکھ کراس نے ان مسائل سے توجہ ہٹائی ہے۔اندرونی دباؤ سے بچنے کیلئےنیتن یاہو نے جنگ کو سیاسی ڈھال بنالیاہے۔اس کے حامیوں اوردائیں بازوکے حلقوں میں یہ تاثرپھیلایاجارہاہے کہ جب تک حماس کومکمل طورپرنیست ونابودنہ کیاجائے،امن ممکن نہیں۔
نیتن یاہواپنے انتخابی بیانیے کومضبوط کرنے اورجاری مقدمات سے جان چھڑانے کیلئے اسرائیلی عوام کوحماس کاخطرہ بتاکرقوم کوایک مشترکہ دشمن کے خلاف متحد کرکے احتجاجی تحریکوں کو خاموش کرناچاہتاہے۔یہی وجہ ہے کہ نیتن یاہوکے بیانات میں بار بارایسے الفاظ ملتے ہیں جیسے ہماری اولین ترجیح حماس کومکمل ختم کرنا،غزہ کوغیرمسلح کرنااوراپنے مقاصدکی کامیابی کیلئے ہم فتح تک لڑیں گے۔یہ بیانیہ عوامی جذبات کوابھارنے اورسیاسی حمایت برقراررکھنے کی کوشش ہے،چاہے اس کی عسکری حقیقت کچھ بھی ہو۔اس کے بیانات اوراقدامات سے واضح ہوتا ہے کہ وہ حماس کی مکمل شکست کواپنی سیاسی بقاسے جوڑ چکاہے۔اورجنگ کومزیدطویل کرتے ہوئے اسے ممکنہ سیاسی کامیابی کے طورپردیکھتاہے۔حماس کے قبضے میں موجودیرغمالی ایک پیچیدہ مسئلہ ہے۔
یرغمالیوں کی رہائی اورحماس کی فوجی شکست۔تاہم،دونوں مقاصدایک دوسرے سے متصادم ہیں۔حماس یرغمالیوں کی رہائی کو اسرائیلی فوج کے انخلاسے مشروط کرتاہے،جبکہ نیتن یاہوفوجی دباؤبڑھاکرحماس کوکمزورکرناچاہتے ہیں۔اس کشمکش کانقصان غزہ کے شہریوں کوہورہاہے۔اسرائیل کی داخلی سیاست میں نیتن یاہوپردائیں بازوکے گروہوں کادباؤبھی ہے،جوغزہ پرمکمل کنٹرول کے بغیرکوئی سمجھوتہ قبول کرنے کوتیارنہیں۔
ادھردوسری طرف بین الاقوامی دباؤکے تحت امریکی حکومت کی جانب سے ایک نیاامن منصوبہ پیش کیاگیاہے،جس میں غزہ کے بعدازجنگ نظم ونسق کیلئےفلسطینی اتھارٹی کومضبوط کرنے کی بات کی گئی ہے۔امریکاچاہتاہے کہ جنگ کے بعدغزہ کانظم ونسق فلسطینی اتھارٹی کے حوالے ہو۔دوریاستی حل کو دوبارہ زندہ کیاجائے لیکن اسرائیل اس منصوبے سے متفق نہیں، تاہم ،اسرائیلی اقدامات اس منصوبے کی نفی کرتے ہیں،کیونکہ وہ غزہ میں مستقل فوجی موجودگی اورمستقل کنٹرول چاہتے ہیں،جوامریکی تجویز کے برعکس ہے۔
امریکا،یورپی یونین اوراقوام متحدہ کی جانب سے جنگ بندی کی اپیلوں کے باوجودنیتن یاہوکی حکومت کارویہ سخت گیررہاہے۔اس کی دووجوہات ہوسکتی ہیں۔ پہلی وجہ وہ موجودہ جنگ سے سیاسی فائدہ اٹھانے کی پوری کوشش کررہاہے،جنگ جاری رکھ کرتنقیدکو”غداری”کے مترادف قرار دیکراسرائیلی عوام کواپنے حق میں برانگیخت کرکے ان کی حمائت حاصل کرنے کی کوششیں کررہاہے،لیکن اس میں کامیابی نظر نہیں آرہی۔وہ فوجی برتری کے یقین سے سمجھتاہےکہ عسکری دباؤسے حماس کوگھٹنے ٹیکنے پرمجبورکیاجاسکتاہے لیکن یاد رکھیں:
یہ حکمت عملی وقتی طورپرمفیدہوسکتی ہے،لیکن یہ اسرائیل کوعالمی سطح پرتنہاکررہی ہے۔جہاں انسانی بحران کوشدت بخش رہی ہے وہاں نیتن یاہوکی موجودہ پالیسیوں سے یرغمالیوں کی واپسی کومشکل تربنارہی ہے۔تقریباً100کے قریب اسرائیلی یرغمالی ابھی بھی حماس کے قبضے میں ہیں۔اسرائیلی عوام میں ان کی واپسی کادباؤشدیدہے۔اگراسرائیل صرف طاقت کااستعمال کرے توحماس ہر قسم کے مذاکرات سے پیچھے ہٹ جائے گی۔یرغمالیوں کی رہائی صرف مذاکرات کے ذریعے ممکن ہے،اورمذاکرات کیلئےحماس کو کچھ یقین دہانیاں درکار ہیں،جیسےاسرائیلی افواج کامکمل فوجی انخلاءاورقیدیوں کی رہائی؛ لیکن اب یہ دونوں اہداف بیک وقت حاصل کرناعملی طورپرناممکن لگتاہے۔
اسرائیل کے دوبڑے اہداف ہیں،اسرائیلی یرغمالیوں کی واپسی اورحماس کی مکمل شکست،تاہم، یہ دونوں اہداف باہم متضادہیں۔ یرغمالیوں کی رہائی صرف اسی صورت میں ممکن ہے جب اسرائیل حماس کے ساتھ کچھ نہ کچھ مفاہمت پرآمادہ ہو،جیساکہ قیدیوں کے تبادلے یافوجی انخلاکے وعدے۔دوسری جانب،اگراسرائیل مکمل عسکری فتح کے راستے پرچلتاہے تووہ حماس کومذاکرات کا کوئی محرک نہیں دیتا۔حماس کیلئےیرغمالی آخری سودے بازی کاپتہ ہیں اوروہ انہیں بغیرکسی بڑے فائدے کے چھوڑنے پرآمادہ نہیں ہوں گے۔
غزہ میں طبی عملے پراسرائیلی فوج نے قریب سے100سے زائدگولیاں چلائیں۔یہ عمل بین الاقوامی انسانی قانون کی کھلی اورسنگین خلاف خلاف ورزی ہے۔جنیوا کنونشن کے تحت طبی ٹیم، ایمبولینس،ہسپتال–سب تحفظ یافتہ ہوتے ہیں۔ان پرحملہ نہ صرف اخلاقی طور پرقابل مذمت ہے بلکہ قانونی طور پربھی جنگی جرم ہے۔انسانی حقوق کی تنظیموں نے اس واقعے کومذموم اور ناقابل قبول قراردیاہے۔ اقوام متحدہ کی ہائی کمشنربرائے انسانی حقوق کی جانب سے بھی اس پرتحقیقات کامطالبہ کیاگیاہے ۔طبی ٹیموں پرفائرنگ واضح جنگی جرم ہے۔
خوراک وادویات کی بندش اورطبی عملے پرحملے کی خبروں سے اب مغربی ممالک کے عوام میں انتہائی بے چینی پیداہوگئی ہے اوراسرائیل کے خلاف میڈیا پربھی شدیدتشویش اوراسرائیل کے خلاف اپنی حکومتوں سے فوری کاروائی کرنے کے مطالبات زور پکڑچکے ہیں۔فلسطینی علاقوں میں ممکنہ جنگی جرائم کی تفتیش پہلے سے جاری ہے۔
بین الاقوامی قانون کے کئی بنیادی اصول اسرائیل کی غزہ میں موجودہ پالیسی سے متصادم ہیں۔چوتھاجنیواکنونشن1949ءشہریوں کے تحفظ سے متعلق ہے۔اس کے مطابق شہری آبادی پرحملے ممنوع ہیں۔طبی عملے،ہسپتالوں،خوراک اورپانی کی رسائی کوبندکرناجنگی جرم تصورہوتاہے کیونکہ اجتماعی سزا غیرقانونی ہے۔ آئی سی سی اس گھناؤنے جرم پربین الاقوامی فوجداری عدالت میں اسرائیل کے خلاف قانونی کاروائی کرسکتی ہے۔
اقوام متحدہ بارہاغزہ کی صورتحال کو”انسانی بحران”قراردے چکی ہے۔سیکریٹری جنرل نے فوری جنگ بندی کامطالبہ کرتے ہوئے کئی مرتبہ اسرائیل کو تنبہ کی ہے۔اگراسرائیل غزہ میں مستقل کنٹرول قائم کرتاہے توفردِجرم عائدہوسکتی ہے۔دیگرریاستوں پربھی ذمہ داری عائدہوتی ہے کہ وہ جنگی جرائم کی حمایت نہ کریں بلکہ انسانیت سوزمظالم پرسفارتی،اقتصادی یاقانونی اقدامات کریں۔
اسرائیل کے مسلسل انسانیت کے خلاف جرائم پربالخصوص اس کے اتحادیوں کاردعمل بھی سامنے آناشروع ہوگیاہے۔برطانیہ، فرانس اورکینیڈانے اسرائیل کی حکمت عملی کوشدیدتنقید کا نشانہ بناتے ہوئے جنگ بندی کامطالبہ کیاہے۔ان ممالک کاکہناہے کہ خوراک کی محدودفراہمی اورفوجی کارروائیوں کاپھیلاؤناقابل قبول ہے۔روایتی اتحادیوں کی مخالفت سے ظاہرہوتاہے کہ اسرائیل بین الاقوامی برادری میں سفارتی طورپرتنہاہوتاجارہاہے۔
تینوں ممالک نے اپنے مشترکہ بیان میں بنیادی پیغام جاری کرتے ہوئے اسرائیلی فوجی آپریشنزکے پھیلاؤکی شدیدمخالفت کی ہے، جس سے مرادغزہ کے مزیدعلاقوں پرقبضہ یافوجی کارروائیوں کی شدت میں اضافہ ہے۔ان کااصرارہے کہ انسانی المیے کی شدت ناقابلِ برداشت ہوچکی ہے،جس میں شہری اموات،طبی سہولیات کاتباہ ہونا،وربے گھرہونے والوں کی بڑھتی ہوئی تعدادشامل ہے۔ تینوں ممالک نے نیتن یاہوحکومت کی جانب سے غزہ میں خوراک کی فراہمی کوناکافی اور انتہائی محدودقراردیاہے۔
بین الاقوامی اداروں کے مطابق،غزہ کی22لاکھ آبادی غذائی قلت،صاف پانی کی کمی،اورادویات کے بحران کاشکارہے۔عالمی فوڈ پروگرام نے خبردار کیاہے کہ غزہ میں قحط نماحالات پیدا ہو چکے ہیں۔اسرائیل کامحاصرہ اورامدادی ٹرکوں کوروکناجنیواکنونشنزکیخلاف ورزی ہے،جوفوجی تنازعات کے دوران شہریوں کوبنیادی ضروریات فراہم کرنے کی ضمانت دیتاہے۔
برطانیہ،فرانس،اورکینیڈاجیسے اتحادی ممالک نے اسرائیلی حکمت عملی کی مخالفت کی ہے اورجنگ بندی کامطالبہ کیاہے۔یہ ممالک اس بات کی نشاندہی کررہے ہیں کہ اسرائیلی اقدامات انسانی المیے کوبڑھارہے ہیں۔اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں بھی اسرائیل کے خلاف قراردادیں پیش کی گئی ہیں،لیکن امریکاکی ویٹوپاورنے انہیں روک دیاہے۔برطانیہ،فرانس اورکینیڈانے اسرائیل کی نئی حکمت عملی کوواضح طورپرمستردکیاہے۔یہی وجہ ہے کہ اپنے اپنے ممالک کے عوام کے شدیددباؤکے بعداسرائیل کے تین قریبی اتحادیوں برطانیہ،فرانس اورکینیڈاکا مشترکہ ردعمل اوربین الاقوامی سفارتی دباؤسامنے آیا ہے جس میں انہوں نے عالمی میڈیاکوایک بیان جاری کیاہے:
“ہم غزہ میں اسرائیلی فوجی آپریشنزکے پھیلاؤکی شدیدمخالفت کرتے ہیں۔وہاں انسانی المیے کی شدت ناقابل برداشت ہوچکی ہے۔ان کا کہناہے کہ ہم غزہ میں اسرائیلی فوجی آپریشنزکے پھیلاؤکی شدیدمخالفت کرتے ہیں۔ہم اسرائیل کی جانب سے انتہائی محدودمقدارمیں خوراک اورادویات کی اجازت کو ناکافی قراردیتے ہوئے فوری جنگ بندی کامطالبہ کرتے ہیں”۔یہ عالمی دباؤاسرائیل کوسفارتی سطح پرمزیدتنہاکرسکتاہے۔یہ تین ممالک اسرائیل کے روایتی اتحادی ہیں۔ان کی مخالفت ظاہرکرتی ہے کہ اسرائیلی پالیسی کواب مغربی حمایت حاصل نہیں رہی۔یہ ایک سفارتی تنہائی کی علامت ہے۔
اسرائیل کی غزہ پرمکمل قبضے کی کوشش بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی ہے اوراس کے سنگین نتائج برآمدہوسکتے ہیں۔ اسرائیل کوحماس کی شکست اوریرغمالیوں کی واپسی میں توازن پیدا کرناہوگاکیونکہ دونوں اہداف بیک وقت حاصل کرناممکن نہیں۔ اسرائیل کی موجودہ پالیسی نہ صرف سیاسی طورپر متنازع ہے بلکہ قانونی اوراخلاقی لحاظ سے بھی خطرناک ہے۔حماس کوکمزور کرنے کی آڑمیں اگرعام شہریوں کونشانہ بنایاجائے،تویہ عالمی سطح پرناقابل قبول ہوگا۔
اقوام متحدہ،یورپی یونین،اورانسانی حقوق کی تنظیموں کوچاہیے کہ وہ صرف مذمت پراکتفانہ کریں بلکہ عملی اقدامات کریں جیسے اسلحے کی فراہمی پرپابندی، تحقیقات کیلئےخصوصی کمیشن،آئی سی سی میں مقدمات کی شروعات سے آغازہوناچاہئے۔عالمی برادری،خاص طورپرمغربی ممالک،کوچاہیے کہ وہ صرف زبانی مذمت کی بجائے ٹھوس سفارتی دباؤڈالیں۔انسانی امدادکی فراہمی فوری طورپربڑھائی جانی چاہیے تاکہ قحط اورطبی بحران سے بچاجاسکے۔
اقوام متحدہ کے چارٹرآرٹیکل2(4)کسی ریاست کو دوسرے علاقے میں طاقت کے استعمال یاقبضے کااختیارنہیں دیتا۔اسرائیل2005 میں غزہ سے فوجی انخلاکرچکاہے،اس لئے اب وہاں دوبارہ قبضہ ایک جارحانہ عمل شمارہوگا۔اگرغزہ پرقبضہ طویل مدتی رہاتویہ استعمارکے زمرے میں آئے گا۔خوراک، پانی،اورطبی امدادپربندش عالمی قانون کے مطابق انسانیت کے خلاف جرم ہوسکتاہے۔غزہ میں قحط جیسی صورتحال اسرائیلی ناکہ بندی کانتیجہ ہے۔
نیتن یاہو کی ظالمانہ حکمت عملی ایک طرف داخلی سیاسی بقااورعسکری فتح کے خواب سے جڑی ہے،جبکہ دوسری طرف یہ بین الاقوامی قانون،انسانی حقوق اورعالمی برادری کے اصولوں سے متصادم ہے۔غزہ پرفوجی قبضہ اورانسانی امدادکی بندش نہ صرف قانونی طور پرناقابلِ قبول ہے بلکہ اخلاقی وانسانی لحاظ سے بھی شدیدتنقیدکے لائق ہے۔اگرعالمی ادارے اورطاقتور ریاستیں فوری اقدامات نہ کریں،تواس بحران کے اثرات علاقائی امن،عالمی ضمیراورقانونی نظام پردیرپانقوش چھوڑسکتے ہیں۔
یورپی ممالک کی جانب سے دباؤبڑھنے سے اسرائیل پربین الاقوامی تنقیدکادائرہ وسیع ہواہے،جس میں جرمنی جیسے قریبی اتحادی بھی شامل ہیں۔ برطانیہ، فرانس،اورکینیڈاکامشترکہ مؤقف اسرائیل کیلئےایک واضح پیغام ہے کہ وہ غزہ میں فوجی توسیع اورانسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پرعالمی حمایت کھورہا ہے ۔تاہم،امریکاکی حمایت اورنیتن یاہوکی سختی کے پیشِ نظرفوری جنگ بندی کا امکان کم ہے۔اگراسرائیل امدادکی راہ میں رکاوٹیں ختم نہیں کرتاتو بین الاقوامی تنہائی اورمعاشی پابندیاں بڑھ سکتی ہیں۔تینوں ممالک کاجنگ بندی کامطالبہ اس لیے بھی اہم ہے کہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل اب تک اس معاملے پرمؤثراقدامات نہیں کرسکی،جس کی بڑی وجہ امریکاکااسرائیل کے خلاف کسی بھی قراردادپرویٹوکرناہے۔
برطانیہ،فرانس،اورکینیڈاجیسے ممالک اگرچاہیں توبین الاقوامی فوجداری عدالت میں اسرائیلی اقدامات کے خلاف مقدمہ دائرکرسکتے ہیں۔عالمی عدالت انصاف پہلے ہی فلسطین میں ممکنہ جنگی جرائم کی تفتیش کررہاہے،اوراسرائیلی رہنماؤں کے خلاف وارنٹ جاری کرنے کااختیاررکھتاہے۔اگروہ ایسانہیں کرتے تویقیناًان کے اپنے عوام آئندہ انتخابات میں ان کامحاسبہ کرکے ان سے جان چھڑاسکتے ہیں۔
یہ بھی یادرکھیں!جہاں خوراک کادانہ اوردواکاقطرہ بھی اسرائیلی ناکہ بندی کے باعث مظلوم فلسطینیوں سے چھین لیاگیا ہو،وہاں مغرب کے عوام کی نیندیں بھی حرام ہوچکی ہیں۔عالمی ادارے چیخ رہے ہیں کہ غزہ کی فضاقحط،پیاس اور بیماری کے اندھیروں سے لبریزہے،جہاں ہردن،یومِ محشرہے،اورہر رات،لیلۃ الاحزان۔
چوتھاجنیواکنونشن،جوشہریوں کے تحفظ کی کتابِ عہدہے،آج اسرائیلی طغیانی کے ہاتھوں تارتارہورہاہے۔اجتماعی سزا، طبی سہولتوں کی بندش،اورخوراک کی قلت، یہ سب وہ جرائم ہیں جن کے خلاف دنیاکی عدالتیں قاصدبن کراُٹھ کھڑی ہوئیں ہیں۔جب برطانیہ،فرانس،اورکینیڈاجیسے قدیم اتحادی بھی اسرائیلی جارحیت کی مخالفت پرآمادہ ہوجائیں،تو یہ اس امرکااعلان ہے کہ اسرائیل ،اب سفارتی تنہائی کے اندھے غارمیں قدم رکھ چکاہے۔ان اقوام کامشترکہ اعلامیہ گویاتازیانہ ہے جونیتن یاہو کی پالیسیوں پربرساہے۔گویا ان ممالک کی زبانِ حال یہ پکاررہی ہے:
اے ظالم نیتن یاہو!رک جا۔تیرے ہتھیارانسانیت کے سینے میں پیوست ہیں۔خوراک،دوا،پانی—یہ جنگ کاایندھن نہیں،مظلوم کی زندگی کاسہاراہیں ۔ اگرتُونہ رُکا،تونہ فقط مظلوم کاخون، بلکہ تاریخ بھی تیراگریبان پکڑے گی۔
ایسامعلوم ہوتاہے کہ عالمِ مغرب کی روایتی حمایت،اب صرف ایک غبارہے جوتندآندھی میں اڑچکی ہے۔اوراقوامِ متحدہ، جن کے ہونٹوں پرامن کانغمہ اوردل میں بے بسی کازخم ہے،جس کوامریکاکی بھڑکتی آگ ویٹونے راکھ کرکے رکھ دیا ہے۔۔۔لیکن کب تک؟کہیں ایسانہ ہوکہ اس اقوام متحدہ کا انجام بھی لیگ آف نیشنزکی طرح ہوجائے اورپھردنیاکسی پراعتبار کرناچھوڑدے۔
یادرکھیں! اگر ہمارے دل میں رمقِ احساس باقی ہے، تو جان لیجئے کہ فلسطین کا ہر معصوم چہرہ، ہر یتیم آنکھ، ہر شہید کی ماں — زمانے کے منہ پر ایک طمانچہ ہے، جو اس وقت تک گونجتا رہے گا جب تک عدل کی ساعت نہ آ جائے، اور باطل، اپنے انجام کو نہ پہنچ جائے۔