یہ تاریخ کاایک نادرباب ہے کہ جہاں کل تک ہندی چینی بھائی بھائی کی صدائیں گونج رہی تھیں،آج وہاں تمام موسموں کے فولادی بھائیوں کی داستان رقم ہوچکی ہے۔یہ محض سیاسی تقرب کانتیجہ نہ تھابلکہ وقت کی سوئیوں کے ساتھ رواں بین الاقوامی مفادات، خطے کی حرکیات،اورعالمی قوتوں کی چالوں کاوہ پیچیدہ تاناباناتھا،جس نے دوایسے ممالک کوایک دوسرے کے پہلوبہ پہلولاکھڑا کیا،جواپنے خمیرمیں یکسرمختلف،مگراپنے مقاصدمیں ہم آہنگ ہوگئے۔ہمالیہ کی گھاٹیوں سے فولادی بھائیوں تک اورہندی-چینی بھائی چارے سے چین-پاکستان اشتراک کی داستان کاایک ایساآغازہواجس نےآسمانوں کی بلندیوں اوروسعتوں،سمندروں کی گہرائی سے بھی کہیں زیادہ کی مثالیں سچ ثابت کردیں۔
دنیاکی سیاست میں کچھ تعلقات ایسے ہوتے ہیں جوبظاہرحالات کے جبرسے بنتے ہیں،مگروقت انہیں ایسی پائیداری عطاکرتاہے کہ وہ نسلوں تک نظیربن جاتے ہیں۔چین اورپاکستان کے درمیان موجودہ تعلق کواگرفولادی بھائی چارہ کہاجائے تواس کی بنیادصرف مشترکہ مفادات پرنہیں بلکہ اُس تاریخ پرہے جو مغرب کی بچھائی ہوئی سرحدی بساط،سامراجی میراث،اورسردجنگ کی سفارتی دھند سے جنم لیتی ہے۔1950ءکی دہائی کے آغازمیں بیجنگ کادل دہلی پر مائل تھامگراگلی دہائی کے آتے آتے یہ دیوانگی سردپڑگئی،اور پاکستان،جواُس وقت امریکاکاقریبی اتحادی تھا،چین کیلئےایک غیرمتوقع مگرموزوں رفیق بن گیا۔
مابعدِنوآبادیاتی عہدمیں جہاں نئی ریاستیں اپنی شناخت کیلئےکوشاں تھیں،وہیں چین،ایک عظیم الشان انقلابی تحریک کے بعد1949میں عوامی جمہوریہ کے طورپرابھرا۔بیجنگ کی اولین ترجیحات میں بھارت نمایاں تھا۔پچاس کی دہائی کے افق پراگرچین کی نظریں محبت ومفاہمت کے آئینے میں کسی چہرے کوتلاش کررہی تھیں تووہ چہرہ بھارت کاتھا،جس کے ساتھ پنچ شیل کے اصول اورافہام و تفہیم کی نویدسنائی جارہی تھی۔کمیونزم کی نئی حکومت بیجنگ میں منصہ شہودپر آئی،تواس نے امریکاکے مخالف کیمپ سے خودکو جوڑنے کیلئےسوویت اثرونفوذکے سائے میں بھارت کوزیادہ قابلِ اعتبارشراکت دارپایا۔اس وقت تک بھارت غیروابستہ تحریک کا علمبرداراورسوویت روس کیلئےایک قابلِ اعتمادتوازن تصورہوتاتھا۔چین اوربھارت نے پنچ شیل معاہدے(1954)پردستخط کیے اور دنیانے ایک نئے بھائی چارے کاجشن منایا۔
اس وقت کے اخبارات،جلسے،اورپالیسی بیانات’’ہندی چینی بھائی بھائی‘‘کے نعروں سے گونج اٹھے۔چین نے اپنی سفارتی زبان میں پہلی بار’’ایشیاکی مشترکہ تقدیر‘‘کاتصورپیش کیا،جس میں بھارت کوایک فطری ساتھی کی حیثیت دی گئی لیکن اندرونِ خانہ خاموشی سے ایک اورکہانی لکھ رہی تھی۔اکسائی چن اور اروناچل پردیش پرپُرانی برطانوی لکیریں جھوٹے جغرافیائی خوابوں کی بنیادبن چکی تھیں۔چین کے نزدیک یہ خطے تاریخی طورپرتبت یاسنکیانگ کاحصہ تھے ، جبکہ بھارت انہیں کشمیراوراپنے شمال مشرقی صوبے کا لازمی جزوگردانتارہا۔
اُس وقت پاکستان امریکاکی جھولی میں تھا،سیٹواورسنٹوکاوفاداررکن،اوراس کی خارجہ پالیسی میں امریکاکاسایہ ایسامحیط تھاجیسے صحرامیں کہیں دوردھندمیں لپٹاہواسراب لیکن کسی کومعلوم نہیں تھاکہ جلدہی یہ منظرنامہ بدلنے والاتھاجب دوست دشمن ہوجائے گا اوردشمن دوست بن جائے گااورایک خواب کی تعبیراورتعبیرکی بربادی کاسفراس طرح شروع ہوجائے گاکہ ہندی چینی بھائی بھائی کا نعرہ لگانے والے”بغل میں چھری اورمنہ میں رام رام کہنے” والوں کااصلی چہرہ سامنے آجائے گا۔
پرانے محاورے ہیں کہ’’دُنیاکاکوئی تعلق ابدی نہیں‘‘اور’’سیاست میں مستقل دشمنی یادوستی کوئی شے نہیں،صرف مفادات مستقل ہوتے ہیں۔‘‘یہی وہ اصول ہے جس پرآنے والی دہائی نے مہرِتصدیق ثبت کی۔ہندی-چینی دوستی کی نرم چادرپر پہلی خراش1959کے بعد نمایاں ہوئی جب تبتی رہنمادلائی لامانے بھارت میں پناہ لی۔دلائی لاماکی بھارت میں پناہ گزینی، چین کیلئےسفارتی چوٹ تھی۔اُس وقت چین کی قیادت نے محسوس کیاکہ جس بھارت کووہ بھائی سمجھتارہا،وہ درحقیقت اُس کے داخلی معاملات میں مداخلت کامرتکب ہوکر منافق بن چکا ہے اورہندی چینی بھائی بھائی کی قبرکی بے حرمتی کرنے والا مکاربرہمن اب مکمل طورپر چین کے سامنے ننگا ہوچکاتھا۔
اکسائی چن کاسرحدی تنازع،مکماہون لائن پراختلاف،اروناچل پردیش پرچین کے دعوے—ان تمام قضیوں نے چین وبھارت تعلقات میں وہ دراڑڈالی جواب بڑھتے ہوئے دیوارچین بن چکی ہے۔اس کے بعداچانک بھارت کی طرف سے سرحدی جھڑپیں معمول بن گئیں جوجلدہی1962کی جنگ پرمنتج ہوئی۔اس مختصرمگرشدیدجنگ نے ہندی-چینی بھائی چارے کی تدفین کردی۔اس جنگ نے جہاں نہ صرف برصغیرکے جغرافیائی توازن کوہلاکررکھ دیا، اور چین کے سیاسی مزاج کوبھی نئی جہت دی بلکہ ہمارے حکمران ایوب خان بھی امریکی دھوکہ میں آکر پلیٹ میں پڑے کشمیرکوحاصل نہ کرسکے گویا”لمحوں کی خطا،صدیوں کی سزا”میں تبدیل ہوگئی۔
یہی وہ ایک لمحہ تھاجب چین کواحساس ہواکہ بھارت نہ صرف اس کے جغرافیائی مفادات کیلئےخطرہ بن چکاہے بلکہ سردجنگ کے تناظرمیں امریکاسے بھی قریب ہوتاجارہاہے۔یوں چین نے متبادل ساتھی کی تلاش میں پاکستان کی طرف رخ کیا۔چین نے فیصلہ کرلیا کہ اگربھارت غیرقابلِ اعتمادہے،توپاکستان، جس سے بھارت کی ازلی رقابت ہے،قابلِ غوردوست ہوسکتا ہے۔اسی نکتے نے پاکستان اور چین دوستی کی سمت کاتعین کردیا۔
یہاں سوال اٹھتاہے کیایہ دوستی چین کی پیش رفت تھی یاپاکستان کی سیاسی فہم وفراست کی بدولت؟حقیقت یہ ہے کہ دونوں طرف سے یہ قربت تدریجاً، لیکن پختگی سے پروان چڑھی۔پاکستان نے چین کوجلدی پہچان لیا—1951میں پاکستان،چین کوتسلیم کرنے والا پہلامسلم ملک بناجس نے چین کوسفارتی طورپرتسلیم کیاتھاحالانکہ پاکستان سیٹواورسنٹوجیسے امریکی معاہدوں کا رکن بننے کے باوجود،جنرل ایوب خان کی قیادت میں ایک”متوازن خارجہ پالیسی”کا آغازہوا،جس میں چین کورفتہ رفتہ ایک اسٹریٹجک پارٹنرکے طورپرجگہ دی گئی۔جلدہی تجارت،ثقافت، سفارت،اوربالآخرعسکری وجغرافیائی اشتراک کا ایساسلسلہ شروع ہواجس کی گونج آج تک جاری ہے۔اینڈریوسمال کی کتاب“دی چائنا پاکستان ایکسز،ایشیانیوجیوپالیٹکس”(چین پاکستان محور:ایشیاکی نئی جغرافیائی سیاست)میں یہی نکتہ اٹھایاگیاکہ1950کی دہائی میں بیجنگ کے خوابوں میں دہلی تھالیکن حقیقت کی بیداری نے اسے اسلام آبادکی طرف مائل کر دیا۔
1963ءمیں پاکستان اورچین کے درمیان سرحدی معاہدہ طے پایا،جس کے تحت پاکستان نے چین کوشکسگم ویلی(تقریباً5,180مربع کلومیٹرعلاقہ) دیا،جو گلگت بلتستان اورسنکیانگ کے درمیان واقع ہے۔اس معاہدے نے جہاں چین کوایک محفوظ زمینی راستہ فراہم کیا وہاں پاکستان کوایک عظیم دوست طاقت کی قربت حاصل ہوگئی۔گویاجہاں پاک چین اشتراک کی بنیادیں استوارہوناشروع ہوگئیں وہاں یہ معاہدہ بھارت کیلئے چونکانے والاتھا۔اس وقت کی بھارتی حکومت نہ صرف اسے سفارتی جارحیت قراردیابلکہ پاکستان نےاس کو خطے میں ایک بڑی جغرافیائی تبدیلی کاآغازبھی قراردے دیااوریوں انڈیاکیلئے پاک چین دوستی ایک مشترکہ دشمن قرارٹھہری۔
1971کے بعداقوام متحدہ میں پاکستان نے چین کی نمائندگی کوتسلیم کروانے میں مرکزی کرداراداکیا۔1974میں جب بھارت نے ایٹمی دھماکہ کیا،چین نے نہ صرف اسے”عدم توازن”قراردیا بلکہ پاکستان کے خدشات کو”جائز”کہاجس کے بعدچین نے پاکستان کے جوہری پروگرام کی بھی بالواسطہ معاونت کی۔
کشمیر—جہاں تین دیوتاؤں کے خواب ٹکراتے ہیں۔کشمیرکاتنازع ہمیشہ پاکستان اوربھارت کے درمیان کشیدگی کی بنیادسمجھاگیالیکن جغرافیائی حقیقت یہ ہےکہ مسئلہ کشمیراب ایک سہ فریقی الجھن بن چکاہے اوراب چین بھی اس جھگڑے کاایک اہم فریق بن چکاہے۔ رونگ شنگ گوؤکے مطابق،کشمیرکا 45.62 فیصد حصہ بھارت،35.15فیصدپاکستان،اور19.23فیصدچین کے زیرانتظام ہے۔
مایرامیکڈونلڈاپنی کتاب”وائٹ ایزدی شراؤڈ”(کفن کی طرح سفید)میں لکھتی ہیں کہ اکسائی چن پربرطانوی سرحدی پالیسی کبھی واضح نہ تھی اوریہ خطہ برطانوی نقشوں میں بھی مبہم حیثیت رکھتاتھا۔یہی ابہام آج بھی تینوں ممالک کے درمیان کشیدگی کاسبب ہے۔مایرا میکڈونلڈاوررونگ شِنگ گوؤجیسے ماہرین کی تحقیقات ہمیں بتاتی ہیں کہ کشمیرکاتنازع محض پاکستان اور بھارت تک محدودنہیں،بلکہ چین کی خطے میں موجودگی بھی اس کی جغرافیائی پیچیدگی کالازمی حصہ ہے۔
چین کے قبضے میں موجوداکسائی چن،بھارت کے دعوے کے مطابق لداخ کاحصہ ہے۔پاکستان کے زیرانتظام آزادکشمیراورگلگت بلتستان،بھارت کے نقشے میں ابھی تک اس کے دعوے کاحصہ ہیں،جبکہ چین اروناچل پردیش کو’ژانگنان‘یعنی جنوبی تبت کاحصہ گردانتاہے۔آئی ایس پی آرلیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چودھری،اب کھلے عام کہتے ہیں کہ کشمیر”تین ملکوں” —بھارت،پاکستان،اورچین — کے درمیان ایک بین الاقوامی مسئلہ ہے،جومسئلہ فلسطین کی طرح عالمی ضمیرکی آزمائش بھی ہے اوراس اعتراف نے بین الاقوامی منظرنامے میں ایک نیازاویہ پیداکردیاہے۔
19ویں صدی میں جب برطانوی حکمران برصغیرمیں اپنی جڑیں مضبوط کررہے تھے،اُن کی توجہ مشرقی سرحدوں کی بجائے تجارتی شاہراہوں اورداخلی استحکام پرمرکوزرہی۔ تبت،سنکیانگ اور لداخ کے بیچ کی بنجروادیاں انہیں تو اس قدربے سودمحسوس ہوئیں کہ کئی متنازع خطوط—ارداغ-جانسن لائن، میکارٹنی-میکڈونلڈلائن—تجویز ہوئیں،مگربین الاقوامی حیثیت کبھی نہ پاسکیں ۔تاریخ کی دھندمیں گم سرحدیں اپناسراغ پانے کیلئے بے تاب ہوچکی ہیں۔
انگریزوں کی بے فکری اورسیاسی ابہام،ایک ایسی الجھی ہوئی میراث چھوڑگئے جس کاخمیازہ آج تین ممالک بھگت رہے ہیں۔چین، جس کی کمیونسٹ حکومت نے1949میں اقتدارسنبھالا ، صاف کہہ چکی تھی کہ”ہمارے کسی عہدیدارنے کسی بھارتی نمائندے سے سرحدکاکوئی معاہدہ نہیں کیا،لہٰذاہمارے لیے یہ لکیریں کاغذی حیثیت رکھتی ہیں”۔
جہاں مفادات باہم ہوں،وہاں نظریات پیچھے رہ جاتے ہیں۔پاکستان اورچین کی دوستی کاآغازنظریاتی ہم آہنگی سے نہیں ہوابلکہ ایک ایسے سیاسی خلامیں ہوا جہاں بھارت کاسامراجی مزاج، امریکاکی محدودپالیسی اورسوویت یونین کاابہام—تینوں نے راستہ ہموارکیا۔یہ وہ دوستی تھی جوسیاست کی پگڈنڈی سے شروع ہوکرمعیشت،دفاع،سفارت اوراب سی پیک جیسے بین الاقوامی منصوبوں تک جا پہنچی ہے۔آج چین-پاکستان تعلقات سی پیک کی شکل میں ایک نئی بلندترین سطح پرپہنچ چکے ہیں۔یہ60ارب ڈالرسے زائدکامنصوبہ،محض اقتصادی راہداری نہیں،بلکہ چین کی عالمی حکمتِ عملی بیلٹ اینڈروڈانیشی ایٹوکا مرکزی سنگِ میل ہے جودنیاکاسب سے بڑاتجارتی اورتعمیری پراجیکٹ ہے جس پرڈھائی ٹریلین ڈالرکی لاگت متوقع ہے اور یہ دنیاکے52مماممالک کوایک تجارتی لڑی میں پُروکر رکھ دینے کاوہ پراجیکٹ ہے جس کاچین نے نہ صرف خواب دیکھابلکہ عملی طورپراس کی تعبیرکافائدہ بھی اٹھانے کیلئے تیارہے کہ اس نے برسوں پہلے یہ کہا تھا کہ دنیاکوطاقت سے نہیں بلکہ تجارتی دوستی کے ساتھ فتح کریں گے۔پاکستان کیلئے بھی یہ اقتصادی بقاء،توانائی کاتسلسل،اورعلاقائی رسائی کاراستہ ہے،جبکہ چین کیلئےگوادرسے خنجراب تک کازمینی راستہ، مشرق وسطیٰ اورافریقاتک رسائی کی کلیدہے۔
تاریخ کاپہیہ رکنے والانہیں،لیکن اس کے نشانات کبھی مٹتے نہیں۔جودوستی کبھی پنچ شیل کی بنیادپراٹھی تھی،وہ زمیں بوس ہوئی،اور جومفاہمت،مفادات اوراخلاص کی فصل پرپروان چڑھی،وہ آج بھی قائم ہے—فولادکی طرح مضبوط،اورموسموں کی طرح ہم آہنگ۔ابتدا میں یہ سوال تھاکہ کیاچین نے پہل کی یاپاکستان نے؟توتاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ پہل ضرورت نے کی،قدم چین نے بڑھایا،اوردستِ تعاون پاکستان نے تھاما۔دشمن کادشمن جب دوست بن جائے تویہ سیاست کی سادہ حکمت کہلاتی ہے،مگرجب یہ دوستی دہائیوں تک قائم رہے، تو اسے تاریخ کی دانائی کہاجاتاہے۔
چین اورپاکستان کارشتہ اب مفادات سے کہیں آگے،نظریاتی ہم آہنگی اورجغرافیائی ہم نصیبی کارشتہ بن چکاہے۔جس دوستی کی بنیاد سرحدی تبادلے پررکھی گئی،آج وہ عالمی اسٹیج پرمشترکہ بیانیہ،دفاعی اشتراک،اورسفارتی ہم آہنگی میں ڈھل چکی ہے۔اس طرح ایک نکتۂ آغازسے ایک نظریاتی ہم آہنگی تک کایہ سفرفولای دوستی میں تبدیل ہوا۔
اب سوال یہ ہے کہ اب اس خطے پاک چین دوستی نے مودی اوراس کے اتحادیوں کی رات کی نیندیں اوردن کاچین کیوں بربادکردیا ہے؟اس کی سب سے بڑی وجہ پہلے تو قوم پرست مودی اورآرایس ایس کاوہ نظریہ ہے جواکھنڈبھارت بنانے کاخواب دیکھ رہے ہیں کہ جہاں جہاں بحرہندکاساحل لگتاہے،وہ اکھنڈ بھارت کاحصہ ہے اوردوسری طرف گریٹراسرائیل کاخواب جواب ایک نقشے کی صورت میں نصف درجن مسلم مملکتوں کی سرزمین پرمشتمل ہوگااور یہودو ہنودمملکتوں کی سرحدی آپس میں مل جائیں گی اورسابقہ یہودی امریکی وزیرخارجہ سیکرٹری ہنری کیسنجرکاتخلیق کردہ ورلڈآرڈرجیساناپاک منصوبہ معرضِ وجودمیں آئے گا۔
یہ دنیاہمیشہ سے طاقت کے ترازومیں تولی جاتی رہی ہے۔کبھی سلطنتوں کے خیمے لہراتے تھے،اب کرسی کی چمک آنکھوں کوخیرہ کرتی ہے۔ماضی میں بھی بادشاہوں نے اپنی رعایاکو” جنت نشین”کہا،اورآج جمہوریت کے عَلم برداراُنہیں”قوم پرست”کہہ کرجھانسہ دیتے ہیں۔مگرکھیل وہی ہے،مہرے بدل گئے ہیں،چالیں باقی ہیں۔
اب جنگ کانیاچہرہ وجودمیں آچکا”سیاست کابازارآج بھی گرم ہے،فرق صرف اتناہے کہ تلواروں کی جگہ اب ٹی وی اسکرینوں پرنعرے گونجتے ہیں۔”بارودسے زیادہ بیانیہ کی گونج سنائی دے رہی ہے۔مکارمودی نے اپنی راج نیتی کومستقل کرنے کیلئے ملکی میڈیاکواپنے دام میں پھانسنے کیلئے ملکی خزانے کابے دریغ استعمال کرتے ہوئے ان کوخریدلیاہے کہ اب یہ ساری دنیامیں”گودی میڈیا “(مودی کی گودمیں)کے نام سے رسواہورہاہے۔
کہتے ہیں جنگ کبھی ختم نہیں ہوتی،صرف اس کامفہوم بدلتارہتاہے۔آج کی جنگیں وہ نہیں رہیں جن میں سپاہی نیزے لیکرصف بندی کیا کرتے تھے۔آج ہتھیارپہلے تیارہوتے ہیں، پھر اُن کیلئے محاذتراشے جاتے ہیں۔ہتھیاروں کی منڈی اب صرف میدانِ جنگ نہیں،سیاسی میدان کاآلہ بن چکی ہے۔ملٹری انڈسٹریل کمپلیکس،وہ آکٹوپس ہے جس کی ہرشاخ کسی نہ کسی قوم کے بجٹ،کسی نہ کسی جوان کی جان،اورکسی نہ کسی ماں کے بیٹے سے چمٹی ہوتی ہے۔یہ جنگی مافیا وہ درندہ ہے جوجنگ سے نہیں جیتا،جنگ کے نام پرجیتاہے۔ میرے ایک انتہائی محترم انگریزدانشوردوست کایہ فقرہ اکثرمجھے یادرہتاہے کہ دنیامیں سب سے زیادہ طاقتورجنگی مافیاہے جس کی مرضی سے دنیاکی حکومتیں ٹوٹتی اورقائم ہوتی ہیں۔
اگرسیاست کسی عظمت کانام ہے توپھراسے جھوٹ کے کاندھوں پرکیوں سوارکیاجاتاہے؟مودی جیسے قائدین کیلئے”نیشنل ازم”ایک مقدس لبادہ ہے،جس کے نیچے وہ اپنے اقتدارکے ناپاک ارادوں کوچھپاتے ہیں۔مکارہندوسیاست کاگُروچانکیہ کی سیاست کایہ پہلااصول ہے کہ جب معاشی گراف نیچے جائے،تو جنگی گراف بلندکردو—مودی اس کابہت بڑاپیروکارہے جو اسی اصول پرکام کرتے ہوئے اپنے اقتدارکودوام دینے کی کوشش کررہاہے۔مودی جانتاہے کہ بیروزگاری کے مارے ہوئے،تعلیم سے محروم،صحت سے مایوس لوگ اگرسوچنے لگیں،تو حکومت کے تانے بانے بکھرجائیں۔اس لیے ان کے سامنے ایک نیادشمن کھڑاکرو—کبھی پاکستان،کبھی چین،کبھی نیپال۔بس دشمن رہے،تاکہ سوال نہ رہے۔
اسی لئے مودی اپنے سیاسی گُروچانکیہ کے اصولوں پرعمل کرتے ہوئے”آتشِ سیاست میں سلگتی جنتاکیلئے جنگ،اقتداراورمیڈیاکی سہ رخی تثلیث”کابھرپور استعمال کررہاہے۔اس نے ملک بھرکے میڈیاکومنہ مانگی قیمت پرخریدرکھاہے اورجب بھی کوئی حکومتی کارکردگی پرسوال کرتاہے تویہ گودی میڈیاسوال کرنے والے کوغدارکہہ کربدنام کرناشروع کردیتے ہیں:جب کوئی نوجوان سوال کرے روزگارکہاں ہے؟کوئی مائیں پوچھیں،ہسپتال کیوں خالی ہیں،کوئی مزدورفریادکرے،روٹی کیوں مہنگی ہے؟توگودی میڈیاانہیں فوراًیاد دلاتاہے ملک خطرے میں ہے!ملک بچے گاتوسب کچھ ملے گا۔
یہ میڈیا،جوکبھی خبردیتاتھا،اب حکومت کی ترجمانی کرتاہے۔جنگی ترانے،حب الوطنی کے نعروں،اورمخالف آوازوں کو”غداری”کا تمغہ دینے والے ٹاک شوزاب سچ کے دروازے پرپہرہ دے رہے ہیں۔سچ کہنے والوں کو”ٹکڑے ٹکڑے گینگ”،”شہریت کے غدار”،یا “دیش دروہی”کہاجاتاہے۔
جب کسی قوم کے پاس بھوک مٹانے کاوسیلہ نہ ہو،تواسے قربانی کے جنگی گیت گانے پرلگادو۔”ہم بھوک پیاس برداشت کرلیں گے، مگرجھکیں گے نہیں!” — یہ نعرہ نہیں،مایوسی کا منشورہے۔مودی حکومت کہتی ہے،ملک رہے گاتوسب ہوگامگربھوکی ننگی عوام کہتی ہے ملک توہے،ہم ہی نہیں ہیں۔گویامودی اپنے اقتدارکے دوام کیلئے اپنی جنتاکوقربانی کانعرہ لگانے کیلئے مجبورکررہاہے لیکن عوام کی ٹھنڈے چولہے اب ایسے اقتدارکوآگ لگانے کیلئے بلبلارہے ہیں۔ قومی غیرت کانعرہ خوبصورت ہے،مگرجب اس کی آڑمیں بنیادی حقوق کوکچلا جائے،تویہ نعرہ ایک زنجیربن جاتاہے۔یہ زنجیرعوام کے پاؤں میں،اورطاقت کے ایوانوں کی سیڑھی بن جاتی ہے جبکہ اس کے مقابلے میں اسلامی تعلیمات کی روشنی میں حکومت کی ذمہ داری صرف سرحدیں بچانانہیں،انسانی حرمت، انصاف،تعلیم، صحت،اورمعیشت کاقیام بھی ہے۔قرآن ہمیں سکھاتاہے:
(وہی رب جس نے انہیں بھوک سے نجات دی اورخوف سے امن دیا۔)
جب حکمران قوم کو نہ روٹی دے سکیں،نہ تحفظ،اورنہ سچ بولنے کی آزادی،تووہ”حاکم”نہیں رہتے،بارِامانت کے خائن بن جاتے ہیں۔
سیاست اگرخدمت ہے،توسوالوں سے نہیں ڈرتی۔اگرحکمرانی صداقت سے ہے،توسچ بولنے والوں کوقیدنہیں کیاجاتا۔گودی میڈیاکاسہارا لیکرحکومت کو چلایانہیں جاتا، یادرکھیں!اگرحکومت نعرے سے چلتی ہے،توپھروہی قوم جھوٹ کاایندھن بن جاتی ہے۔عوام کومہنگائی کے ہاتھوں بھوکاپیاسارہنے پرمجبور کرکے جوحکومتیں اتراتی ہیں ،انہیں تاریخ کانٹوں پرلٹادیتی ہے۔گودی میڈیایہ جان لے کہ جہاں میڈیا اپنی جانبداری اورسچ بولنے کی قیمت وصول کرکے مصلحت کا،سیاست نعرے کا،اورعوام خاموشی کاشکارہوچکی ہوتووقت کاکوڑہ میدان میں اپنا جوہر دکھانے پہنچ جاتاہے اوریہ مکافاتِ عمل ہے کہ جب غریب کابچہ بھوکاسوتاہے،تواس کے آنسونظام کوبہالے جاتے ہیں۔
پچھلی سات دہائیوں سے زائدبے گناہ کشمیریوں کے لاشے،جوان بیوائیں،معصوم یتیم بچے اوراجتماعی قبریں اپناحساب بے باق کرنے کیلئے ایساتاریخی میدان سجانے والے ہیں،جہاں سے کسی بھی ظالم کیلئے راہِ فرارنہیں ہوگا۔
مودی جان لے کہ سچ وہی ہے جووہاں کی مجبورومقہورعوام کہہ رہی ہے،اوروہ سچ نہیں جواقتدارکی گرفت میں گودی میڈیاکہہ رہا ہے۔