From imagination to reality: Pakistan's silent journey

تخیل سے حقیقت تک: پاکستان کا خاموش سفر

:Share

جدیدجنگ کاافق اب توپ وتفنگ کے دھویں سے نہیں،بلکہ نادیدہ لہروں،خاموش پروازوں،اورمصنوعی ذہانت کی خلوتوں سے روشن ہوچکاہے۔جب اقوامِ عالم زمینی حدودکے جھگڑوں سے ماوراہوکرافلاک کی وسعتوں میں برتری کیلئےصف آرا ہوں،تویہ نہ صرف عسکری ترجیحات کااشاریہ ہوتاہے بلکہ تہذیبی،فکری اورسیاسی خودشعوری کااعلان بھی۔ ایک دورتھاجب جنگ کافیصلہ فوج کی تعدادپرہوتاتھا،پھرزمانہ آیاکہ ہتھیاروں کی نوعیت نے بازی پلٹی۔آج ہم اس عہدمیں داخل ہوچکے ہیں جہاں”نظرنہ آنے والی قوت”ہی سب کچھ ہے ۔ یہی فلسفہ ہے”ففتھ جنریشن سٹیلتھ فائٹرجیٹس”کا—وہ طیارے جوخودکوچھپاتے ہیں مگردشمن کوڈھونڈلیتے ہیں۔

آج پاکستان اورہندوستان کے مابین جوکچھ ہورہاہے،وہ تلواروں کی جُھنجناہٹ نہیں بلکہ چپ چاپ موت بانٹنے والے’’خاموش قاتلوں‘‘ کی دنیاہے—سٹیلتھ ٹیکنالوجی سے مزین ففتھ جنریشن طیاروں کی دوڑ،جونہ صرف ریڈارکی آنکھ کوچکمہ دیتے ہیں بلکہ دشمن کی نیندیں بھی چرالیتے ہیں۔جے-35 طیارے فقط ہتھیارنہیں،بلکہ جدید جنگی فلسفے کے عکاس ہیں،جودشمن کودکھائی دیے بغیرمارگرانے کی قدرت رکھتے ہیں۔یہ ایک ایسی قوت ہے جوخاموشی سے اپناکام کرتی ہے،گویاسناٹا ہی اس کی آوازہے۔چین کی پاکستان کوجے35 طیاروں کی پیشکش بظاہرایک فوجی سودہ سہی مگردراصل اس میں چھپی ہے ایک بین الاقوامی دوستی کی گونج کہ ہم تمہارے ساتھ ہیں،نہ صرف زمینی محاذپربلکہ فلک پربھی تمہارے آزمودہ ساتھیوں کی طرح محوِپروازرہیں گے اوریہ ہے ہمسایہ چین دوست کی پیشکش جوہمالیہ کی چوٹیوں پرسنائی دے رہی ہے۔

پاکستان اوربھارت کے درمیان چارروزہ گولہ باری فقط بارودکادھواں نہیں تھی،بلکہ اس میں ایک غیرعلانیہ پیغام پنہاں تھا—ہم تیار ہیں،لیکن تم بھی محتاط رہو۔اب بات چوکوں اور مورچوں سے نکل کردفترِخارجہ کی میزپرآچکی ہے،جہاں فائلیں ہی فصیلیں ہیں اور بیانات،میزائلوں کے متبادل۔جنگی تبادلوں کے بعددفاعی اپ گریڈکی سفارتی بازگشت تیزی کے ساتھ اپنی منزل کی جانب بڑھ رہی ہے۔ چین کی پاکستان کوجے35سٹیلتھ طیاروں کی پیشکش نہ صرف ایک دفاعی معاہدہ ہے بلکہ ایک سیاسی بیانیہ بھی۔چین کایہ پیغام صاف ہے:”ہم تمہارے دفاعی شراکت دارہیں۔”جے-35وہ پرندہ ہے جودشمن کی نظر سے اوجھل رہتاہے،مگراس کے قلب پرکاری وارکرتا ہے ۔ پاکستان کیلئےیہ پیشکش مستقبل کی فضائی حکمت عملی کی نوید ہے۔

یہ حقیقت اب آشکارہوچکی ہے کہ چین نے پاکستان کوجے35ففتھ جنریشن سٹیلتھ جیٹس کی پیشکش کی ہے لیکن اسے صرف عسکری سودے بازی سمجھنا، سیاسی سادہ لوحی کے سواکچھ نہیں۔چین کی بروقت اوراہم پیشکش،محض سوداگری نہیں، بلکہ ایک تہذیبی اشارہ ہے۔یہ درحقیقت اُس دوستی کاعملی استعارہ ہے جسے وقت کی آزمائشوں نے”آہنی بھائی چارہ”بنادیا۔یہ طیارے نہ صرف جدیدتکنیکی کمالات کامظہرہیں بلکہ پاکستان کے دفاعی نظریے میں ایک خاموش مگرگہری تبدیلی کااشارہ بھی دیتے ہیں۔

چارروزہ جھڑپیں دراصل خاموش سفارتی چیخیں تھیں،جوبندوق کی نالی سے نکل کراقوام عالم اوراقوام متحدہ کے بہرے کانوں میں گونجیں۔اب دونوں ممالک جان چکے ہیں کہ جنگ جیتنے کیلئےصرف فوج نہیں،ٹیکنالوجی بھی درکارہے۔یہی وجہ ہے کہ اب پاک وہند کے درمیان سفارتی تناؤکے ساتھ عسکری اپ گریڈکے معاملات کوہرچیزپرفوقیت حاصل ہوگئی ہے۔بالخصوص انڈین چیف آف ڈیفنس کا ایک غیرملکی میڈیاکے سامنے رافیل اور دیگر جہازوں کی تباہی کے جواب میں”نمبراہم نہیں،وجوہات اہم ہیں”ایک ایساکھلااعتراف ہے جودراصل شکست کے اعتراف سے کہیں بڑھ کرہے۔

یہ بیان دراصل ایک عسکری فلسفے کی تبدیلی ہے۔یہ کہناکہ’’کیاغلطیاں ہوئیں‘‘،ایک ایسی سیاسی تکبرکی شکست فاش ہے جوپاکستان کوایک کمزورریاست سمجھتے ہوئے ہروقت آنکھیں دکھاتا رہتاتھااوراب،جب انڈین چیف آف ڈیفنس سٹاف جنرل انیل چوہان نے پہلی بار طیارے گرائے جانے پرلب کشائی کی،تویہ محض اعتراف نہیں،بلکہ اپنے عسکری تجزیے کاایک خوداحتسابی پہلوتھا۔اہم سوال یہ ہے کہ”وہ کیوں گرائے گئے؟”—اوریہ سوال عددی کامیابی سے زیادہ فکری گہرائی کاطالب ہے۔یہاں اس بات کاتذکرہ بھی کرناضروری ہے کہ اس جنگ سےقبل خودبھارتی اخبار”ہندو”میں شائع ہونے والاایک حاضر سروس بھارتی جنرل کامؤقف اب بھی ایک مضبوط فکری اوراخلاقی معیارکے طورپریادرکھا جارہاہے کہ جنگ کے مستند اثرات،سفارتی حکمت،اورذمہ دارانہ سوچ کاایک زندہ ثبوت ہے جس میں جنرل منوج مکندناروانے نے جنگ کے تباہ کن اثرات پرروشنی ڈالتے ہوئے کہاتھا:جنگ کوئی رومانوی تصور نہیں، نہ ہی یہ کسی بالی ووڈ فلم کی طرح ہوتی ہے۔یہ تباہی،اذیت،اوربے گناہ جانوں کانقصان لاتی ہے۔اسے ہمیشہ صرف آخری حل کے طورپر سوچاجاناچاہیے، جب تمام سفارتی وپُرامن راستے ناکام ہوچکے ہوں لیکن وائے افسوس کہ متکبرمودی طے کرچکاتھا کہ وہ پہلگام فالس فلیگ آپریشن کوکیش کرواکے صوبہ بہارمیں انتخاب جیت جائے گالیکن پاکستانی شاہینوں اورزمینی مجاہدوں کے ایک ہی جھٹکے نے مودی گجراتی قصاب کوساری دنیاکے سامنے ننگاکرکے اسے زمینی حقائق کی خاک چاٹنے پرمجبورکرتے ہوئے عملی دنیاکی طرف لوٹنے پرمجبورکردیا۔

مئی کے مہینے میں جب چاردن تک پاکستان اوربھارت ایک دوسرے کے خلاف گرجتے برستے رہے،تب ہوامیں فقط بارودکی بونہیں، بلکہ تاریخ کے نوحے بھی بلندہوئے۔ایسے میں اگرکسی نے کان دھرا،تووہ سفارتی محاذپرگونجتی وہ گفتگوتھی جس میں محض الزامات نہیں،بلکہ اگلے معرکوں کی تیاری کاعندیہ بھی چھپاتھا۔

اب توپ کارخ،دشمن کی چال پرنہیں،اپنی فضائی قوت کی بساط پرمرکوزہے۔ہرملک چاہتاہے کہ اس کے فضائی دستے نہ صرف محفوظ ہوں،بلکہ چوتھی نسل سے پانچویں نسل کی چھلانگ ماریں—ایسی چھلانگ جودشمن کوپیچھے چھوڑدے،اورحلیفوں کومتاثر کرے۔اب اقوام عالم میں گفتگوکانیامحورفضائی صلاحیتوں کی طرف مرکوزہوگیاہے۔عسکری دوڑمیں تہذیبی فہم کابھی چرچا جاری ہے۔

یہ وقت ہے جب فضاؤں کی جنگ،زمین پرقوموں کے مزاج اورفکرکی جھلک دکھارہی ہے۔بھارت جہاں اپنی دفاعی صلاحیتوں کوخود انحصاری کی راہ پرڈالنے کیلئےمقامی سطح پرففتھ جنریشن طیارے تیارکرنے کاعندیہ دے چکاہے،وہیں امریکایاروسی ٹیکنالوجی کی خریداری پربھی غورجاری ہے۔اس کے مقابلے میں پاکستان نے چین کی پیشکش کوقبول کرنے کے آثارظاہرکیے ہیں—یہ فقط عسکری سودانہیں،بلکہ نئی عالمی صف بندیوں کااعلان ہے۔یہ وہ لمحہ ہے جب تہذیبوں کی سمت کاتعین ہوتاہے—بھارت اگرروس کی جانب جھکتاہے تووہ مشرقی اتحادیوں کی صف میں شامل ہوتاہے،اوراگر امریکاکا رخ کرتاہے، تو مغربی بلاک کی چھتری تلے آجاتاہے۔طیاروں کی خریداری فقط تکنیکی فیصلہ نہیں،بلکہ تہذیبی وابستگی کی علامت بھی ہے۔

خاموش قاتل،ففتھ جنریشن سٹیلتھ طیاروں کی حقیقت آخرہے کیاکہ پاک وہندہی نہیں بلکہ دنیابھرمیں اس طیاروں میں دلچسپی بڑھتی جا رہی ہے۔دراصل یہ طیارے”خاموش قاتل”کہلاتے ہیں—نہ دکھائی دیتے ہیں،نہ آسانی سے روکے جاسکتے ہیں،اورنہ ہی ان کی نقل و حرکت کوآسانی سے سمجھاجاسکتاہے۔ جدیدترین خوبیوں نے اس طیارے کوپانچویں نسل کی فضائی بالادستی کانشان بنادیاہے۔یادرہے کہ ففتھ جنریشن اورسٹیلتھ طیارہ اس وقت”ففتھ جنریشن” کہلاتاہے جب وہ سٹیلتھ ہو،سپرکروزکرے،نیٹ ورکڈ ہو،ملٹی رول ہو اورایویانکس میں ہم آہنگی ہواورسب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ سٹیلتھ اس وقت معتبر ہے جب دشمن کوطیارہ دیکھنے سے پہلے مارکھا جائے۔

اس کی پہلی خوبی اس کی سٹیلتھ صلاحیت ہے جواسے ریڈارسے اوجھل اوردشمن کے ہرقسم کے نظاموں سے چھپادیتی ہے۔دوسری اہم خوبی یہ ہے کہ اس کی سپرکروزپروازہے یعنی آوازکی رفتارسے بھی کہیں زیادہ تیز،کم ایندھن کے ساتھ طویل فاصلہ طے کرنے کی صلاحیت موجودہے۔تیسری خوبی ایویانکس اور سینسر فیوژن کی ہے،تمام سسٹمزکاہم آہنگ ہونایعنی جیسے انسان کی پانچوں حواس ایک مرکب شعورمیں ڈھل جائیں،ویسے ہی یہ طیارے اپنے تمام نظاموں کوہم آہنگ کرکے دشمن پرکاری ضرب لگاتے ہیں۔چوتھی خوبی اس کی سپرکروزیعنی بغیر ایندھن کے ضیاع کے تیزرفتاری سے ہدف کوتباہ کرنے کی صلاحیت ہوتی ہے اورپانچویں خوبی نیٹ ورکڈوارفئیرکی ہے تمام فضائی وزمینی نظام سے ربط باقی رہتاہے جیسے ہرمشین، ہر ڈرون،ہرریڈارکے ساتھ جڑے، گویافضامیں ایک جال بچھادیاہو۔

فضائی توازن کی نئی بساط میں اس وقت دنیامیں محض پانچ اقوام کے پاس ایسے طیارے موجود ہیں۔امریکاکے ایف22ریپٹراورایف 35،روس کاایس یو57، اورچین کے جے20اورجے 35ہیں۔ان کے بعدکی قطارمیں برطانیہ،اٹلی،جاپان،ترکی،فرانس،جرمنی اوراسپین کے تیارکردہ طیارے ہیں جوابھی تیاری کے مراحل میں ہیں—جیسے”ٹیمپسٹ”،”ایف سی اے ایس “اور”کے اے اے این”لیکن پاک چین کے اشتراک سے بنے طیاروں نے حالیہ پاک وہندکی جنگ میں جونمایاں کامیابیاں حاصل کی ہیں،اس کے بعدپاکستان کی فضائی کارکردگی کے ساتھ ساتھ پاکستان کی تکنیکی مہارت نے بھی اپنالوہامنوالیا ہے۔

عالمی میڈیاکے مطابق پاکستان نے جہاں میدان جنگ میں فتوحات حاصل کی ہیں وہاں کامیاب سفارتی کوششوں سے میدان مارلیاہے جس کی واضح مثال جے35، ایچ کیو19،کے جے 500کے حصول اورقرضوں میں نرمی کی شرائط سے ملتی ہے ۔ وزیراعظم شہباز شریف کی زیر قیادت چین سے مؤخرادائیگی جیسے معاملات فقط فوری عسکری فائدے نہیں بلکہ ایک طویل المیعادحکمت عملی کی علامت ہیں۔یہ وہ مقام ہے جہاں عسکری فیصلے،اقتصادی وسعت،اور سفارتی بصیرت ایک مثلثی توازن میں داخل ہوچکے ہیں۔یہ کامیابیاں اس امرکی بھی غمازہیں کہ پاکستان اب سفارت کاری کوفقط بیانات تک محدودنہیں بلکہ3.7 ارب ڈالرقرض کی موخرادائیگی بھی پاک چین دوستی تعاون کی ایک علامت ہے—یہ وہ کامیابیاں ہیں جوصرف مذاکراتی میزپرممکن ہوئیں،میدان جنگ میں نہیں۔ موجودہ حکومت کے یہ سفارتی اقدام اسے معاہدات،نظام اوراس سے کہیں بڑھ کردفاعی بندوبست تک لے گیاہے۔پاکستان نے اب یہ فیصلہ کرلیاہے کہ وقتی ضرورت کواہمیت دیتے ہوئے دیرپاپالیسیوں پرعملدرآمدضروری ہے اوریہ نئی پالیسی کی پہلی قسط ہے— جس میں تلوارکی دھاراورقلم کی نوک،دونوں شریک ہیں۔

جب پاکستان نے چینی دفاعی سامان خریدنے کاعندیہ دیا،توپاکستان کی چینی اسلحہ میں گہری دلچسپی نے چینی معیشت میں زبردست قسم کی جنبش پیداکردی بلکہ بیجنگ کی دفاعی صنعت “ایوک”میں زندگی کی لہردوڑگئی۔یہ اقتصادی جھٹکادراصل ایک سیاسی ارتعاش تھا۔گویاپاکستان کی عسکری پسندیدگی نے چین کی اسٹاک مارکیٹ کے بازارِحصص کو جھنجھوڑڈالابلکہ جھومنے پر مجبورکردیااور حالیہ پاک بھارت جنگ کے بعداقوام عالم کے کئی ممالک نے مغربی اسلحہ سے مشرق کے اسلحہ کوخریدنے کیلئے انتہائی سنجیدگی سے دلچسپی لیناشروع کردی ہے۔

جب ایوک شینیینگ ایئرکرافٹ کمپنی کی قیمتوں میں9.3٪اضافہ ہوا،تواس کے پیچھے فقط ایک معاشی حقیقت نہیں،بلکہ ایک عالمی اعتمادکی جھلک تھی—یہ سرمایہ دارانہ دنیاکاوہ لمحہ تھاجب جنگی تیاری نے معیشت کونئی روح بخشی اورچینی اسلحہ اورجہازوں کی سٹاک ویلیومیں اضافہ دیکھنے کوملا۔چینی اسلحہ سازکمپنی ایوک کے حصص میں اضافہ اس بات کی دلیل ہے کہ دفاع صرف میدان جنگ کامعاملہ نہیں،بلکہ بازارِمعیشت کی دھڑکن بھی ہے۔

اگرچہ چہ مگوئیاں برسوں سے جاری تھیں،مگرپاکستان کی باضابطہ لب کشائی،جوایک نئے دورکے آغازکاپتہ دیتی ہے،پاکستانی حکومت کی پہلی باضابطہ تصدیق نے ان افواہوں کوایک رسمی شکل دیتے ہوئے اپنے قومی عزم کااعلان کرتے ہوئے فیصلہ سنادیاکہ ہم نے خاموشی کوترک کرکے اپنی ملکی دفاعی تیاری کوترجیح دی ہے اورہم وطنِ عزیزکیلئے ہرقسم کی جدید تیاری کواولیت اور فوقیت دیتے ہوئے سٹیلتھ ٹیکنالوجی کے حصول کواپنی منزل قراردے دیاہے۔

اب سوال یہ ہے کہ آخرسٹیلتھ ٹیکنالوجی سے مزین ان طیاروں میں خاص کیابات ہے؟سٹیلتھ ٹیکنالوجی کیوں ضروری ہے؟دنیاکی جنگیں اب میدانِ کارزارمیں نہیں بلکہ اسکرینوں اور سینسرز پرلڑی جارہی ہیں۔سٹیلتھ ٹیکنالوجی دشمن کی آنکھ میں دھول جھونکنے کا فن ہے۔جس کے پاس یہ صلاحیت نہیں،وہ گویارات کے اندھیرے میں چراغ جلائے جنگ لڑنے نکلے،بے وقت ،بے فائدہ،اورخطرناک۔یہ سوال فقط تکنیکی تجسس نہیں،بلکہ اس عہدکا استفسارہے جس میں جنگ زمینی نہیں رہی۔یہ طیارے دشمن کی آنکھ سے اوجھل،اس کے ریڈارسے پوشیدہ،اوراس کے دماغ سے پہلے حملہ آورہوتے ہیں—گویاہواسے باتیں کرتے ہیں،لیکن دشمن کوسننے بھی نہیں دیتے۔ جدیدجنگ میں کامیابی کارازچھپنے اوردیکھنے کی طاقت میں ہے۔جودکھائی دے،وہ ماراجائے۔سٹیلتھ اسی فلسفے کاعملی اظہارہے۔

دنیامیں صرف تین ممالک—امریکا،روس،اورچین—ایسے ہیں جنہوں نے اس نایاب ٹیکنالوجی کوعملی جامہ پہنایا۔یہ وہ اقوام ہیں جونہ صرف عسکری برتری رکھتی ہیں،بلکہ عالمی سیاست میں بھی اونچابولتی ہیں۔مستقبل میں سٹیلتھ ٹیکنالوجی میں مہارت حاصل کرنے کیلئے برطانیہ،یورپ،اورترکی کی کاوشیں بھی منظرعام پرآرہی ہیں۔اس کے علاوہ برطانیہ،جاپان،اٹلی مستقبل کے طیارے”ٹیمپسٹ” کی تیاری پرکام کررہے ہیں اورفرانس،جرمنی،اسپین مستقبل کے ایف سی اے ایس طیاروں کی تیاری کیلئے بڑی سرگرمی سے کام کر رہے ہیں اور مسلمان ملک ترکی بھی”کان”نامی طیارے کی تیاری میں آپریشن جاری رکھے ہوئے ہے۔یادرہے کہ ترکی واحدمسلمان ملک ہے جس کے تیارکردہ ڈرونزکی بڑی تعدادکے خریدارروس اور چین ہیں۔گویااس طرح مستقبل کی جنگوں کی تیاری میں آنے والی صدی کی فضائی شہنشاہی کی بنیادیں ڈالنے کاعمل جاری ہے۔

آنے والے وقتوں میں جنگ کامطلب ہوگافضا کی وہ خاموش آندھی جوکسی کی آنکھ کونظرنہ آئے مگربستی اجاڑجائے۔پاکستان جیسے ملک کیلئےایسی ٹیکنالوجی کاحصول محض عسکری نہیں،بلکہ قومی سلامتی،تہذیبی وقار،اورخودانحصاری کی علامت ہے۔جب مکار دشمن آپ کاپڑوسی ہرقسم کی جارحیت کیلئے متکبرانہ اندازمیں دہمکیاں دیکرمرعوب کرنے کی احمقانہ کوششوں میں مبتلاہو تو ان حالات میں ضروری ہوگیاہے کہ پاکستان بھی موجودہ ففتھ جنریشن طیاروں کے نہ صرف حصول بلکہ چین کے اشتراک سے اسٹیلتھ ٹیکنالوجی کارخ کرے۔اس وقت امریکاکے ایف35 لائٹننگ،ریپٹراورایف22،روس کاایس یو 57 ففتھ جنریشن طیاروں کی تمام خوبیوں کا دعویٰ کررہے ہیں لیکن چین کاجے35اورجے20طیارے جونسبتاًنئے ہیں،مگرانتہائی خطرناک اورقیمت میں معتدل ،یعنی موزوں ہیں اورپاکستاان جے35میں اپنی دلچسپی لے رہاہے تاکہ مستقبل میں چین کے اشتراک سے جے ایف17تھنڈرکی طرح اسے بھی خودتیارکرکے خود کفالت کی طرف قدم بڑھاسکے۔

ففتھ جنریشن اسٹیلتھ ٹیکنالوجی سے مزین طیارے یہ فقط دفاع نہیں،بلکہ نکتہ آغازہے جوپیشگی حملہ کی صلاحیت رکھتے ہوئے دشمن کے جہازوں کواڑان بھرتے ہی دبوچ لینے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔یہ کم خرچ کے ساتھ زیادہ نفسیاتی دباؤکی تکنیک سے دشمن کی مکمل بصارت پرپردہ ڈال کران کوتباہ کرنے پر قدرت رکھتاہے۔حالیہ پاک بھارت جنگ میں پاکستانی شاہینوں کی یہی پالیسی نے اس کے رافیل اورروسی طیاروں کواپنے ملکی حدودسے ہی بھارتی سرزمین پر تباہ کرکے دنیاکودنگ کردیاتھا۔اب سٹیلتھ کی ضرورت اس لئے ضروری ہوگئی ہے کہ جدید جنگ میں جودکھائی دیا،وہ ماراگیا۔جوچھپارہا،وہ جیتا۔سٹیلتھ ٹیکنالوجی،گویاغارِحراکی خلوت کی مانند،خامشی سے اپنی تاثیردکھاتی ہے۔

مستقبل کی فضائی جنگ گویاایک ایسی ہولناک جنگ ہوگی جہاں پائلٹ ہویانہ ہو،مگرطیارہ خوداپنے ہدف کونہ صرف تلاش کرکے مار گرانے کی صلاحیت رکھتا ہوگابلکہ دشمن کے راڈارکوبھی چکمہ دیکرآنکھوں سے اوجھل ہوکراپنے ٹارگٹ کوتباہ کرکے واپس اپنی منزلِ مقصودپرلوٹ آئے گا۔فضامیں خاموشی ہوگی ، مگرزمین پرشوربرپاہوگا۔دشمن کوپتہ بھی نہ چلے گا،اوراس کادفاعی نظام ناکارہ ہو چکاہوگا۔مستقبل کی جنگ کی جھلک کااس بات سے اندازہ لگالیں کہ مصنوعی ذہانت،بغیرپائلٹ کے جہاز،اورنیٹ ورک پرمبنی لڑائی ہوگی گویامستقبل کی جنگ میں فضا خاموش ہوگی،مگرموت کی آہٹ تیزترہوجائے گی اورپتہ بھی نہ چل سکے گاکہ ساراعلاقہ پلک جھپکتے ہی راکھ کامنظرپیش کررہاہوگا۔

پاکستان کایہ فیصلہ کہ وہ جے35جیسے جدید طیارے حاصل کرے،ایک نئی دفاعی حکمت عملی کی بنیادہے۔یہ فقط عسکری طاقت نہیں،بلکہ سفارتی حکمت، اقتصادی فائدے اورعالمی سیاسی نقشے پرمقام حاصل کرنے کی کاوش ہے۔آنے والاوقت بتائے گاکہ پاکستان اس فضائی دوڑمیں محض تماشائی رہے گایامعرکہ آرائی کاعلمبردار۔

یادرکھیں جب قوموں کی فکری سطح بلندہوجائے،توان کی توپیں بھی تدبرسے گولہ داغتی ہیں۔ پس،وقت آگیاہے کہ ہم فضاؤں کی جنگ کومحض جنگ نہ سمجھیں،بلکہ تہذیبوں کے مکالمے کاایک باب جانیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں