انسانوں کااُس لبرل کہانی پرسے اعتباراٹھتاجارہاہے،جس نے حالیہ دہائیوں میں عالمی سیاست پرحکمرانی کی ہے۔یہی وہ وقت بھی ہے جب بائیوٹیک اور انفوٹیک کا اتصال سب سے بڑاچیلنج بن کرہمارے سامنے آکھڑاہواہے۔حقائق،شماریات یاتسویہ کی نسبت،انسان قصہ کہانیوں کے اندازمیں زیادہ سوچتے ہیں،یہ آسان اوربہترلگتا ہے۔ہرشخص،گروہ اورقوم کی اپنی اپنی کہانیاں اور دیومالائی داستانیں ہیں مگربیسویں صدی کے دوران عالمی اشرافیہ نے نیویارک،لندن،برلن اورماسکومیں بیٹھ کرتین عالمی کہانیاں وضع کیں،جن میں ماضی کی مکمل وضاحت کادعویٰ کیاگیااورپوری دنیاکے مستقبل کی پیش گوئی کی گئی،یہ کہانیاں ہیں: فاشسٹ کہانی،کمیونسٹ کہانی اورلبرل کہانی۔ دوسری عالمی جنگ نے فاشسٹ کہانی کاخاتمہ کردیا،پھر چالیس کی دہائی کے اواخر سے 80کی دہائی کے آخرتک دنیالبرل ازم اورکمیونزم کی دوکہانیوں کامیدان جنگ بنی رہی۔پھرکمیونسٹ کہانی بھی تمام ہوئی اورصرف لبرل کہانی واحد مقتدرقوت رہ گئی،جوعالمی اشرافیہ کی نظرمیں،ماضی کی رہنمااور مستقبل کی اٹل قوت خیال کی گئی تھی۔(ایک وقت وہ آئے گاجب کمیونزم خودماسکومیں اپنے بچاؤ کیلئےپریشان ہوگا۔سرمایہ دارانہ ڈیموکریسی خود واشنگٹن اور نیویارک میں اپنے تحفظ کیلئےلرزہ براندام ہوگی۔مادّہ پرستانہ الحادخودلندن اورپیرس کی یونیورسٹیوں میں جگہ پانے سے عاجزہوگا۔نسل پرستی اورقوم پرستی خود برہمنوں اورجرمنوں میں اپنے معتقدنہ پاسکے گی اوریہ آج کادورصرف تاریخ میں ایک داستانِ عبرت کی حیثیت سے باقی رہ جائے گا۔(“سید ابوالاعلیٰ مودودی شہادتِ حق30دسمبر1946ء)
لبرل کہانی میں آزادی کی قدراورطاقت کی بھرپورتوانائی ہے۔یہ کہتی ہے انسانوں نے ہزاروں سال ظالم حکمرانوں کے جبرتلے زندگی بسرکی،جہاں برائے نام سیاسی حقوق ،معاشی مواقع، شخصی آزادی تھی،اورجہاں فرد،فکراورسامانِ ضرورت کی نقل و حرکت پرکڑی پابندیاں عائدتھیں۔مگرپھرلوگ اپنی آزادی کیلئےلڑے،اوریوں قدم بہ قدم، آزادی حاصل کی۔ظالم آمریتوں کی جگہ جمہوریتوں نے سنبھال لی۔فردمعاشی پابندیوں سے آزادہوا۔ لوگوں نے متعصب پادریوں اورتنگ نظرروایتوں کے بجائے،اپنے دماغوں سے سوچناشروع کیا،اوراپنے دلوں کی ماننے لگے۔سڑکوں،پُلوں اورہوائی اڈوں نے فصیلوں،خندقوں اورخاردارباڑوں کی جگہ لے لی۔لبرل کہانی نے یہ تسلیم کیاکہ دنیامیں سب کچھ اچھانہیں ہے،اوریہ سب اچھاکرناہے۔ ابھی بہت سی رکاوٹیں طے کرنی ہیں۔ہمیں انسانی حقوق کی حفاظت کرنی ہے۔منڈیاں آزادکروانی ہیں۔بش، اوبامااورٹرمپ جیسے رہنماتھوڑے بہت فرق سے دنیاکویقین دلاتے رہے کہ لبرل سیاسی اورمعاشی نظام کوفروغ دیناہے،عالمگیربناناہے،یہاں تک کہ پوری دنیامیں امن اورترقی کا بول بالاہو ۔ 1990 ءاور2000ءکی دہائی میں یہ کہانی عالمی منترابن چکی تھی۔برازیل اوربھارت تک بہت سی حکومتوں نے لبرل کہانی کایہ نسخہ اپنایا اورتاریخ کی اس پیشرفت کاحصہ بنناچاہا۔جوایساکرنے میں ناکام ہوئے،انہیں گزرے ہوئے وقتوں کی بوسیدہ ہڈیاں سمجھاگیا۔1997ءمیں کلنٹن نے چین کواس بات پر لتاڑاکہ وہ لبرل سیاسی اقدارکیوں نہیں اختیارکرتا!وہ(چین)تاریخ کے غلط رخ پرکھڑاہے۔
تاہم 2008ءکے مالی بحران نے دنیابھرکے لوگوں میں لبرل کہانی کومشکوک بنادیا۔امیگریشن پرپابندیاں لگنے لگیں۔تجارتی معاہدے بڑھنے لگے۔ جمہوری حکومتیں عدالتی نظام کی آزادی پراثراندازہونے لگیں۔ذرائع ابلاغ کی آزادی خواب وخیال ہونے لگی۔ہرقسم کی بغاوت غداری قراردی جانے لگی۔روس اورترکی کے طاقتور حکمرانوں نے لبرل جمہوریتوں کے ایسے تجربے کیے،جوواضح طورپرآمریتیں تھیں۔آج،ایسے چندہی لوگ ہوں گے، جوکہہ سکیں کہ چین تاریخ کے غلط رخ پرکھڑاہے!
برطانیہ میں بریگزٹ ووٹ سال2016ءکااہم واقعہ ہے،یہی وہ سال ہے جب ٹرمپ جیسے شخص کوامریکامیں عروج حاصل ہوا، یہ دونوں واقعات ایسے تھے،جنہوں نے لبرل کہانی کومغربی یورپ اورامریکامیں مزیدکمزورکردیاجبکہ چندہی سال قبل یہی یورپ اورامریکاگن پوائنٹ پرلیبیااورعراق میں لبرل ازم نافذ کروارہے تھے،اب صورتحال یہ ہے کہ کینٹکی اوریارک شائرکے لوگ لبرل وژن کویکساں طورپرناگواراورناقابل حصول سمجھتے ہیں۔کچھ نے قدیم روایتی دنیامیں پناہ لی،کچھ نسلی اور قومی وابستگیوں سے چمٹ گئے جبکہ دیگرنے یہ باورکیاکہ لبرل ازم اورعالمگیریت محض اکثریت پراقلیتی اشرافیہ کی حکمرانی کا عنوان ہے،یوں اچانک دنیاکی کوئی کہانی باقی نہ رہی،یہ ہولناک صورتحال تھی۔کچھ سمجھ نہیں آرہاتھا،بالکل اسی طرح جب سوویت یونین کی اشرافیہ،اورلبرل دنیاکے دانشورنہ سمجھ پائے تھے،کہ تاریخ کس طرح سوچے سمجھے رستے سے انحراف کرگئی!(اشارہ جہاد افغانستان میں سوویت یونین کی شکست پرکریملن کی نظریاتی کمزوری اورلاچارگی،اوراس کے بعد تاریخ کے اختتام کی خام خیالی،اورپھرتہذیبوں کے تصادم کی جانب ہے)۔اسے تاریخ کی ناکامی سمجھاگیااورسب جیسے آرمیگاڈون کی جانب دھکیلے جانے لگے۔
لبرل سیاسی نظام صنعتی دورمیں وضع کیاگیاتھا،تاکہ اسٹیم انجن،آئل ریفائنری،اورٹی وی سیٹ کی دنیاکاانتظام کیاجائے۔تاہم آج یہ لبرل سیاسی نظام انفارمیشن ٹیکنالوجی اوربائیوٹیکنالوجی میں آنے والے انقلابات نہیں سمجھ سکاہے۔سیاستدان اورووٹرجومشکل ہی سے نئی ٹیکنالوجی کی کوئی سمجھ رکھتے ہیں،وہ کیسے ان کی حیرت انگیز قوتوں کااندازہ لگاسکتے ہیں!90کی دہائی سے انٹرنیٹ نے دنیابدل کررکھ دی ہے اوریہ انقلاب سیاستدان نہیں بلکہ انجینئرز نے برپاکیاہے۔کیاآپ نے کبھی انٹرنیٹ کے حق میں کوئی ووٹ دیاہے؟جمہوری نظام اب تک یہ سمجھنے کی سعی کررہاہے کہ کس چیزنے اسے دھچکاپہنچایا ہے،اوراب تک مشکل ہی سے اس نے مزیددھچکوں سے نمٹنے کی کوئی تیاری کی ہے،جیسے کہ مصنوعی ذہانت اوربلاک چین کاانقلاب وغیرہ۔
پہلے ہی کمپیوٹرمالیاتی نظام کواتناپیچیدہ بناچکے ہیں کہ جسے کم ہی لوگ سمجھ سکتے ہیں۔جیسے جیسے مصنوعی ذہانت (آرٹیفیشل انٹیلی جنس)میں بہتری آرہی ہے،انسان کی مالی واقتصادی معاملات میں سوجھ بوجھ کم ہوتی جارہی ہے۔سوچیے!پھر یہ مصنوعی ذہانت سیاسی نظام کے ساتھ کیاکچھ نہیں کرے گی؟کیا آپ ایسی حکومت کا تصورکرسکتے ہیں،جوٹیکس اصلاحات اوربجٹ کی منظوری کیلئےمؤدبانہ اندازمیں ایلگوریتھم (algorithm)کی منظوری کی منتظر ہو؟اورجب بلاک چین (انفوٹیکنالوجی)کے جوڑے نیٹ ورکس کی صورت میں سارامالیاتی نظام ہی بدل کررکھ دیں؟اس سے بھی بہت زیادہ اہم بات یہ ہے کہ انفو ٹیک اوربائیو ٹیک کاجڑواں انقلاب معاشیات اورمعاشروں کوازسرنومنظم اورتعمیرکریں،یہاں تک کہ ہمارے جسموں اوردماغوں کوبھی!
ماضی میں انسانوں نے خارجی دنیاپرحکمرانی کی ہے لیکن داخلی دنیاپربہت ہی کم کنٹرول رہاہے۔۔۔اگرمچھر نیندمیں تنگ کریں توہم جانتے ہیں کہ کیسے مارنا ہے، مگرکوئی فکریاخیال نینداڑادے، توہم میں سے اکثرنہیں جانتے کہ کیسے اس خیال کوکچلاجائے۔بائیوٹیک اورانفوٹیک انقلابات خارجی دنیاکے ساتھ ساتھ داخلی دنیاپر بھی قابوپاسکے گا۔ہم انسانی زندگی کو انجینئراورمینوفیکچرکرنے کے قابل ہوسکیں گے۔ہم جان سکیں گے کہ کس طرح دماغ کوڈیزائن کرناہے،زندگی کی مدت بڑھانی ہے اورفکروپریشانی کوکس طرح ختم کرناہے۔کوئی نہیں جانتا،ان تجربات کے کیانتائج ہوں گے!ہم آلات کی ایجادات میں بہتر، مگراستعمال میں غیردانش مندرہے ہیں انتہائی خوفناک اورغیرانسانی صورتحال ہے۔
پروفیسرہراری نظریہ ارتقاکے بھرپورمعتقد ہیں،اورمستقبل کی ممکنہ تاریخ پراپنی کتابHomo Deusکے نئے انسانی ایجنڈے میں اس پرتفصیل سے اپناتصورانسان پیش کر چکے ہیں۔یہ سمجھتے ہیں کہ نشہ آورادویات انسان کے روحانی ونفسیاتی مسائل میں معاون ومددگارہوں گی۔امریکی سی آئی اے پوسٹ ٹرامااسٹریس کے مریض فوجیوں پرایسی ادویات استعمال کرتی رہی ہے،اس کے علاوہ خود کش حملوں کیلئےنشہ آور انجکشن کاکثرت سے استعمال سامنے آچکاہے۔پروفیسر ہراری جسے بائیوٹیک انقلاب فرمارہے ہیں،یہ انسانی تہذیب کیلئےزہر قاتل ہے۔یہ زہرمغرب اورمغرب زدہ دنیامیں عام ہورہاہے،خودکشی اورنفسیاتی بیماریاں تیزی سے بڑھتی جا رہی ہیں۔انسانوں کی مجموعی فلاح بائیو ٹیک کی منفی سرگرمیوں سے انتہائی محتاط رہنے میں ہے)مگرانجینئراورسائنسدان انفو ٹیک اوربائیو ٹیک میں جوانقلاب لائے ہیں،وہ نہ صرف خارجی دنیاپرقابوپاسکے گا،بلکہ انسانوں کی داخلی دنیابھی بدل کررکھ دے گا!یہی وجہ ہے کہ انسانوں کی اکثریت سال2018ءسے خودکوعالمی معاشرتی نظام سے لاتعلق ہوتامحسوس کررہی ہے۔لبرل کہانی عام لوگوں کی کہانی تھی۔یہ سائی بورگز اور ایلگوریتھم نیٹ ورکس کی دنیا میں کس طرح چل سکتی ہے؟یہی وجہ ہے کہ آج انسانوں کی اکثریت لاتعلقی کے بحران میں گھرتی جارہی ہے۔شاید اکیسویں صدی میں اشرافیہ کے معاشی استحصال کے خلاف بغاوتوں کی بجائے، ایسی اشرافیہ کے خلاف بغاوتیں ہوں،جنہیں لوگوں کی ضرورت ہی نہ رہی ہو،جوان سے بے پرواہوچکی ہو۔
ایساپہلی بارنہیں ہواکہ لبرل کہانی پراعتمادکابحران آیاہو۔جب سے اس کہانی نے عالمی اثرورسوخ حاصل کیا،یعنی انیسویں صدی کے دوسرے نصف سے،یہ بحرانوں کی زَدمیں رہی۔لبرلائزیشن اورعالمگیریت کاپہلادورپہلی عالمی جنگ کے کشت وخون پرہی تمام ہوگیاتھا۔عالمی طاقتیں لبرل اقدارکی بجائے استعماری پالیسیوں پر عمل پیرارہیں۔سب زیادہ سے زیادہ دنیاپرقبضہ کی دوڑمیں لگ گئے۔انسانوں نے بدترین قتل وغارت کامشاہدہ کیا۔ استعماریت کی ہولناک قیمت چکانی پڑی۔ پھرہٹلر کاعہدآیا،اورفاشزم ناقابل شکست لگنے لگا۔۔۔اس مرحلے پرکامیابی بھی محض اگلے محاذپرلے گئی، پچاس سے سترکی دہائیوں تک”چی گوویرا”جدوجہد کازمانہ تھا، مستقبل کمیونزم کالگ رہاتھامگرپھربالآخرکمیونزم زمین بوس ہوگیا۔۔۔ لبرل سرمایہ دارانہ نظام نے استعماریت،فاشزم، اورکمیونزم کوشکست دی۔1990تک مغربی مفکرین اورسیاستدان تاریخ کی اس مبینہ تکمیل پررطب اللسان تھے۔بڑے اعتمادسے کہاجارہاتھاکہ ماضی کے سارے سیاسی ومعاشی سوالوں کے جواب حاصل کرلیے گئے ہیں،سرمایہ دارانہ لبرل جمہوریت نے انسانوں کی ساری ضرورتیں پوری کردی ہیں۔تمام حقوق اداکردیے گئے،تمام سرحدیں کھول دی گئیں،تمام رکاوٹیں ہٹادی گئیں اور بنی نوع انسان کوآزادعالمی برادری میں ڈھال دیاگیاہے۔
مگرتاریخ ختم نہیں ہوئی۔ٹرمپ موومنٹ آگئی۔اس بارلبرل ازم کاسامناکسی نظریہ یاکلیہ سے نہیں تھا(پروفیسرہراری کایہ دعویٰ درست نہیں۔جس ٹیکنالوجی کے انقلاب کی یہ بات کررہے ہیں،اس کی جڑیں خالص سائنس پرستی اورنظریہ ارتقامیں گہری ہیں، یوں یہ مادہ پرستی کی وہ بدترین صورت ہے،جس میں عالمی اشرافیہ کے استعماری اوراستحصالی عزائم واضح ہیں،طویل عرصہ سے جدید ترین ٹیکنالوجی مسلسل تباہ کن ہتھیاروں کی تیاری پرکام کررہی ہے)،اس باریہ بحران تباہ کن ثابت ہواہے،لبرل ازم بے حقیقت ہوکررہ گئی۔ٹرمپ نے دنیاکوکسی لبرلائزیشن اورعالمگیریت کی پیشکش نہیں کی بلکہ اس نے پیغام دیاکہ دنیاکو کوئی عالمگیروژن دیناامریکاکا کام نہیں۔بالکل اسی طرح بریگزٹرزکے سامنے یورپ کے مستقبل کا کوئی منصوبہ نہیں ہے۔ انہیں ووٹ دینے والوں کی اکثریت کاعالمگیریت پرسے ایمان اٹھ چکاہے بلکہ وہ اس بات کے حامی ہوچکے ہیں کہ سرحدوں پر دیواریں اٹھادی جائیں، تاکہ غیرملکیوں کاداخلہ روکاجاسکے۔چین،روس،اسلامی خلافت اوردیگر نظریات بھی بادی النظرمیں عالمگیریت کی اہلیت نہیں رکھتے۔
اب ہم سوائے اس کے کچھ نہیں کرسکتے کہ دنیا کی نئی کہانی تخلیق کریں۔ بالکل اسی طرح،جیسے صنعتی انقلاب نے بیسویں صدی کیلئےنت نئی صنعت و حرفت متعارف کروائی تھیں۔چنانچہ ہمارے سامنے انفارمیشن ٹیکنالوجی اوربائیوٹیکنالوجی ہیں، جونئے وژن تشکیل دے رہی ہیں۔آئندہ چنددہائیاں شاید نئے سیاسی اور معاشرتی نمونے سامنے لائیں۔کیااس صورت میں بھی لبرل ازم خودکوازسرنوقابل استعمال بناسکے گا؟جیساکہ اس نے 1930 اور 1960 کے بعدکیاتھا؟کیاپہلے سے زیادہ پرکشش ہوسکتاہے؟کیا روایتی مذاہب اورقوم پرستی ان سوالوں کے جواب مہیاکرسکے گی، جولبرل ازمسے حل نہ ہوسکیں گے؟اورکیایہ قدیم علم و دانش کے سہارے کوئی نیاتصوّرجہاں پیش کرسکیں گے؟یاپھروقت آگیاہے کہ ماضی سے یکسرتعلق توڑدیاجائے اور بالکل نئی کہانی لکھی جائے جونہ صرف پرانے خداؤں اوراقوام پرستی سے ماوراہوں،بلکہ آزادی اوربرابری کی جدیداقدارسے بعیدتربھی ہوں؟اس وقت ،بنی نوع انسان ان میں سے کسی بھی سوال کے جواب پراتفاق رائے سے محروم ہے۔
پھراگلی کہانی کیاہوگی؟سب سے پہلاقدم یہ ہوناچاہیے کہ خوف اوربے یقینی کی حالت سے نکلاجائے۔انفارمیشن ٹیکنالوجی اور بائیوٹیکنالوجی کاجڑواں انقلاب ابتدائی مرحلے میں ہے،اوریہ بھی فی الحال متنازع فیہ ہے کہ لبرل ازم کے موجودہ بحران میں اس کاکتناکردارہے۔آج بھی برمنگھم،استنبول، ممبئی،اورسینٹ پیٹرس برگ میں اکثرلوگ مصنوعی ذہانت اوراس کے انسانی زندگیوں پرگہرے اثرات سے واقف نہیں ہیں۔یہ بھی یقینی ہے کہ آئندہ چنددہائیوں میں ٹیکنالوجیکل انقلابات ظاہرہو جائیں گے،اور بنی نوع انسان کیلئےاب تک کی سب سے بڑی آزمائشیں لائیں گے۔اب انسانوں میں وہی کہانی چل سکے گی،جوانفو ٹیک اوربائیو ٹیک کامقابلہ کرنے کی اہل ہوگی۔اگرلبرل ازم،قوم پرستی،اسلام یاکوئی بھی نیاعقیدہ یانظریہ2050کی نئی دنیا تشکیل دیناچاہے گا، تواس کیلئےنہ صرف یہ ضروری ہوگاکہ مصنوعی ذہانت (Artificial Intelligence)،بگ ڈیٹاایلگوریتھم، اور بائیو انجینئرنگ کی سمجھ بوجھ حاصل کرے بلکہ انہیں ایک بامعنی بیانیے میں ڈھال بھی سکے۔
درپیش ٹیکنالوجیکل چیلنج کی نوعیت سمجھنے کیلئے،شایدبہترین آغازروزگارکی منڈی ہوگی۔ کیونکہ ٹیکنالوجیکل انقلاب شاید اربوں انسانوں کوبے روزگار کردے گا اورایک بہت بڑابے کارطبقہ وجودمیں لے آئے گا۔جوبہت بڑے سیاسی اورمعاشرتی و سماجی بحران کا سبب ہوگا،جس سے نبٹنے کیلئےاس وقت کوئی نظریہ تیارنہیں۔ اس وقت ٹیکنالوجی اورنظریہ کی یہ بات عجیب اورموجودہ حالات کے سیاق وسباق سے باہرمحسوس ہو،مگردرحقیقت اس وقت درپیش خدشہ ممکنہ بیروزگاری کاہے، جس سے کسی کوبھی استثنیٰ حاصل نہ ہوگا۔
ہمیں یہ تسلیم کرناہوگاکہ دنیامیں مسلمانوں کے عمومی زوال کابڑاسبب اپنے سرچشمۂ حیات سے رشتہ کی کمزوری ہے اورہم نے اس قانونی نظام کوسرد خانے میں ڈال دیاہے،جونہ صرف ان کی زندگی وتشخص کوضمانت فراہم کرتاہےبلکہ ساری انسانیت کی حیات وارتقاء کارازبھی اس میں پوشیدہ ہے لیکن مسلمان اپنامقام بھول گئے، انہیں اپنی حقیقت کاعرفان نہ رہا،انہیں یادنہ رہا کہ وہ کس منصبِ ربّانی اور خدائی نظام کولیکراس انسانی دنیامیں آئے ہیں؟ بلکہ وہ دنیاکی دوسری قوموں کی طرح مادہ پرستی، دنیاطلبی کے میدان میں کودپڑے اور ابلیسی نظام یہی چاہتاہے کہ دوسروں کوجگانے والی قوم خودسو جائے۔ضرورت اس امر کی ہے کہ مسلمان پھراپنے گھرکی طرف پلٹیں ،اپناکھویاہواخزانہ واپس لیں،انہیں ایسی آنکھ نصیب ہوکہ وہ ہیرے موتی اور کنکرپتھرمیں فرق کرسکیں اوروہ پوری بصیرت کے ساتھ جان سکیں کہ انسانوں کابنایاہوامصنوعی نظام کبھی خالق کائنات کےعطا کردہ قانونی نظام کاہم پلّہ نہیں ہوسکتا،پھریہ کیسی نادانی ہے کہ خالق کاآستانہ چھوڑکردنیامخلوق کے پیچھے دوڑرہی ہے۔ارشادباری تعالیٰ ہے:’’دنیاوالے آگ کی طرف بلارہے ہیں اوراللہ تمہیں جنت کی طرف پکاررہاہے‘‘۔(سورۃالبقرہ)
جرم وسزا کااسلامی فلسفہ اوراسلامی قانون معاشرے میں عدل ومساوات اورامن وسلامتی کاضامن ہے۔اسلامی شریعت اور اسلامی قانون ہردوراور ہرعہد کے مسائل کاحل پیش کرتے ہیں،موجودہ دورمیں انتہاپسندی،بدامنی،دہشتگردی اورلاقانونیت کی بنیادی وجہ اسلامی شریعت سے انحراف اور اسلامی قانون پرعمل نہ کرناہے۔” اللہ کسی شخص کو اس کی طاقت سےزیادہ تکلیف نہیں دیتا۔ اچھے کام کرے گا تو اس کو ان کا فائدہ ملے گا برے کرے گا تو اسے ان کا نقصان پہنچے گا (البقرہ:286) اس نے تم کو برگزیدہ کیا ہے اور تم پر دین کی (کسی بات) میں تنگی نہیں کی۔ ‘‘۔(سورۃ الحج)’’اللہ نہیں چاہتا کہ تمہیں کسی دشواری میں مبتلاکرے،بلکہ اس کا مقصد تمہیں پاک وصاف کرناہےتاکہ تم شکر کرو ‘‘۔(سورۃ المائدہ)
انسانی قانون قوت نفاذکے لحاظ سے بھی کمزورواقع ہواہے،اسے اپنے افرادپرمکمل قابونہیں ہوتااورنہ تنہاقانون جرائم کے انسدادکیلئے کافی ہوتاہے،اسے اپنے کسی بھی قانون کے عملی نفاذ کیلئے مضبوط معاونین کی ضرورت ہوتی ہے،اسی لئے اس قانون میں مجرموں کے بچ نکلنے کے بہت سے امکانات موجود ہوتے ہیں۔اس کے برخلاف اسلامی قانون کاآغازہی فکرآخرت اورحلال وحرام کے احساس سے ہوتاہے،وہ انسانی ضمیرکی تربیت کرتاہے اوراس کے ظاہروباطن کو قانون کیلئے تیارکرتا ہے،وہ اپنے ہرشہری کے دل ودماغ میں یہ احساس راسخ کرتاہے کہ تم میں سے ہرشخص ذمہ دارہے اورہرایک سے اس کی متعلقہ ذمہ داری کے بارے میں بازپُرس ہوگی۔
صدیوں سے انسان قانون سازی کے میدان میں کوشش کررہاہے،اگرچہ اس میں الٰہی قوانین سے بڑی حد تک استفادہ کیاگیاہے ، لیکن اس کے باوجود ابھی تک کوئی ایسا مکمل قانون وضع نہ کیا جاسکا، جسے ناقابلِ ترمیم قرار دیا جائے اور انسانی جذبات وافعال کا مکمل آئینہ دار اسے کہا جاسکے۔ یہ صرف اسلامی قانون ہے جواپنے آپ کوکامل ومکمل بھی کہتاہے اورناقابل تنسیخ بھی قراردیتاہے۔’’آج میں نے تمہارے لئے تمہارادین مکمل کردیا،تم پراپنی نعمتیں تمام کردیں اوربحیثیت دین،اسلام کوپسند کیا‘‘۔ (سورۃ المائدہ)’’اورہم نے آپ پرکتاب نازل کی جس میں ہرچیزکاواضح بیان اور مسلمانوں کیلئے ہدایت ورحمت وبشارت موجود ہے‘‘۔(سورۃ الاعراف)
قرآن ایسے اصول وکلّیات سے بحث کرتاہے جن پرہرزمانے اورہرخطّے میں پیش آنے والی جزئیات کومنطبق کیاجاسکتاہے اورہردور کے حالات وواقعات میں قرآنی نظائرو امثال سے روشنی حاصل کی جاسکتی ہے،قرآن کایہ دعویٰ واقعات وتجربات کی روشنی میں بالکل درست ہے۔’’اورہم نے اس قرآن میں لوگوں کیلئے ہرطرح کی مثالیں بیان کردی ہیں‘‘۔(سورۃ الزّمر:54)اس حقیقت کااعتراف مغربی ماہرین نے بھی کیاہے کہ شریعتِ اسلامی میں زندگی کے تمام مسائل ومشکلات کے حل کی پوری صلاحیت موجود ہے۔
اب اصل سوال یہ رہ جاتاہے کہ اُس پائدارحصولِ سکون اورقیام امن وسلامتی کی بہترین شکل کیاہے؟قرآن حکیم تمام انسانی مسائل کاحل یہی بتاتاہے کہ یعنی اسلام میں پورے کے پورے داخل ہوجاؤ۔’(البقرہ-208) سِلْم‘ سلامتی سے ہے،یعنی اس دینِ سلامتی(اسلام) کے حقائق پرایمان لاکراپنی پوری زندگی کواللہ کے رنگ میں رنگ لو :اللہ کا رنگ اختیارکرواس کے رنگ سے اچھااورکس کارنگ ہوگا؟اورہم اسی کی بندگی کرنے والے لوگ ہیں(البقرہ-138)چونکہ اللہ تعالیٰ سراسر’السّلام‘ یعنی سلامتی ہی سلامتی ہے: وہی اللہ ہے جس کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں۔ بادشاہ (حقیقی) پاک ذات (ہرعیب سے)سلامتی امن دینے والانگہبان غالب زبردست بڑائی والا۔اللہ ان لوگوں کے شریک مقررکرنے سے پاک ہے(الحشر-23)
قرآن حکیم کی دونوں بنیادی اصطلاحیں یعنی”ایمان واسلام”امن وسلامتی ہی کے مشتقات ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے پسندیدہ نظام زندگی کیلئے”اسلام”کی اصطلاح تجویزکیا جانابھی اس کی عظیم حکمتوں میں سے ہے چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: یقیناًاللہ تعالیٰ کے نزدیک(پسندیدہ) دین تواسلام ہی ہے۔(آل عمران-19) اسی طرح اس دین کو ماننے والا “مؤمن”کہلاتااورمؤمن کے لغوی معنٰی”امان دینے والا”ہے۔اللہ تعالیٰ کاایک صفاتی نام بھی”المؤمن”ہے۔کیااب بھی آپ کائنات کے خالق کے بتائے ہوئے نظام کونہیں آزمائیں گے جس میں اس دنیاکے صدفیصد فلاح کاپیغام اورپروگرام آپ کو ہرمشکل سے نجات کی دعوت دے رہاہے۔