Echo of Bagram

بگرام کی بازگشت

:Share

تاریخ کے اوراق پرکبھی کبھی ایسے باب کھلتے ہیں جن میں زمانے کے زوال وعروج کے مناظرایک ساتھ جمع ہوجاتے ہیں۔تاریخ اپنی جولانگاہ میں عجیب تماشے دکھاتی ہے۔کبھی ایک شکستہ قلعہ عالمی طاقتوں کامسکن بنتاہے،اورکبھی ایک ویران گوشہ سلطنتوں کی سیاست کامرکز۔ایک ہی قلعہ کبھی کسی سلطنت کافخرہوتاہے اورکبھی کسی سامراج کی شکست کی علامت۔بگرام ایئربیس کی کہانی بھی کچھ ایسی ہی ہے،جہاں زمانے کے نشیب وفرازنے اپنے اپنے وقت کی جارح قوتوں کوباری باری خیمہ زن ہوتے دیکھا۔

بگرام ایئربیس بھی اسی نوعیت کاایک باب ہے—جہاں سوویت یونین نے اپنے لوہے کے بازوپھیلائے،جہاں امریکانے اپنی عسکری برتری کے نعرے بلندکیے،اورآج پھرایک بار وہاں عالمی طاقتوں کی نگاہیں مرکوزہیں۔یہ محض ایک فوجی اڈہ نہیں،یہ تاریخ کی عدالت ہے جہاں ہرمتکبرطاقت کی آزمائش ہوئی اورہرسامراجی غرورخاک میں مل گیا۔قرآن حکیم کی صداآج بھی گونج رہی ہے:یہ دن ہم لوگوں کے درمیان گردش میں رکھتے ہیں۔(آل عمران140)

یعنی طاقتوں کاعروج وزوال کوئی حادثہ نہیں بلکہ خدائی سنت ہے۔آج بگرام ایئربیس پرجوکشمکش جاری ہے،وہ دراصل اسی ازلی اور ابدی قانون کی ایک تازہ تفسیرہے۔اس منظرنامے میں سوال یہ ہے کہ پاکستان،مسلم دنیااورامتِ اسلامیہ اپنی ذمہ داری کوکس بصیرت سے نبھائیں گے؟

ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے سوشل میڈیاپلیٹ فارم پراعلان کیااگرافغانستان نے بگرام ایئربیس اس کے اصل معماریعنی امریکاکے حوالے نہ کیاتواس کے سنگین نتائج برآمدہوں گے۔یہ جملہ محض ایک سیاسی دھمکی نہیں بلکہ اس امرکاغمازہے کہ امریکاآج بھی افغانستان کے قلب میں اپنی واپسی کے خواب بُن رہاہے ۔یہ بیان محض ایک سیاسی نعرہ نہیں بلکہ امریکاکی اندرونی کمزوری اوربیرونی عزائم دونوں کاپتہ دیتاہے۔ٹرمپ نے برطانیہ کے دورے میں بھی اپنے اس دہمکی کودہراتے ہوئے اسے بریکنگ نیوزبھی قراردیاہے۔اس لئے یہ بیان محض دھمکی نہیں بلکہ اس حقیقت کااظہارہے کہ امریکاآج بھی وسطی ایشیامیں اپنی واپسی کے درپے ہے۔بگرام کوامریکااپنے”حق” کے طورپردیکھتاہے حالانکہ اس کے انخلاکے بعداب وہ افغان اقتدارکاحصہ ہے۔

امریکی صدر نے لندن میں برطانوی وزیراعظم سرکیئرسٹارمرکے ہمراہ نیوزکانفرنس میں اعتراف کیاکہ امریکابگرام ایئربیس واپس لینے کی کوشش میں ہے ۔گویاکہ جودروازہ بائیڈن انتظامیہ نے خود بندکیاتھا،اب اسی کودوبارہ کھٹکھٹایاجارہاہے۔اس سے ظاہرہے کہ موجودہ حکومت بھی سابقہ پالیسیوں سے پیچھانہیں چھڑاپارہی۔یہ اعلان اس تضادکوظاہرکرتاہے کہ ایک طرف انخلاکوکامیابی کہاگیا، دوسری طرف اسی مقام پردوبارہ لوٹنے کی خواہش ظاہرکی جارہی ہے۔انخلاکوفتح قراردینے والے آج واپسی کی منصوبہ بندی پر مجبورہیں۔

ٹرمپ نے دلیل دی کہ بگرام چین کے جوہری ہتھیاروں کے مراکزسے محض ایک گھنٹے کی مسافت پرہے۔اس کے پس پردہ یہ پیغام واضح ہے کہ امریکا کی اصل فکر افغانستان نہیں بلکہ چین ہے۔بگرام ایک اسٹریٹیجک نکتہ ہے جسے امریکاچین کے خلاف مستقبل کے معرکوں کیلئےاستعمال کرناچاہتاہے۔گویااصل ہدف افغانستان نہیں بلکہ چین کا بڑھتا ہوااثرورسوخ ہے۔یوں محسوس ہوتاہے کہ بگرام ایئر بیس مستقبل کی اس گریٹ گیم کاپیش خیمہ بننے جارہاہے جس میں چین کے ایٹمی منصوبے امریکی فکرکااصل محور ہیں۔ٹرمپ بارہایہ کہہ چکے ہیں کہ امریکا کو افغانستان سے نکلتے وقت بگرام بیس نہیں چھوڑناچاہیے تھا۔یہ بیان دراصل ان کی عسکری پالیسی کی ناکامی کااعتراف ہے جوامریکی تاریخ میں ایک ’’سقوط کابل‘‘کے نام سے درج ہوگئی ہے۔یہ ندامت ایک ایسی اسٹریٹیجک غلطی کی طرف اشارہ ہے جس نے امریکی وقارکوطالبان کے ہاتھوں پامال کردیا۔

بگرام محض ایک فوجی اڈہ نہیں بلکہ ایک شہرہے جو77مربع کلومیٹرپرپھیلاہواہے۔اس کے بیرکس اوررہائش گاہیں ایک وقت میں دس ہزارفوجیوں کوپناہ دینے کی صلاحیت رکھتاہے۔اس حیثیت سے یہ خطے کاسب سے بڑافوجی مرکزرہاہے۔یہی وجہ ہے کہ یہ بیس دو دہائیوں تک القاعدہ اورطالبان کے خلاف امریکی جنگ کااصل مرکزرہا۔

بگرام کی اہمیت کااندازہ اس سے لگائیے کہ تین امریکی صدور(جارج بش،براک اوبامااورڈونلڈ ٹرمپ)اس کے مہمان رہ چکے ہیں۔جو بائیڈن بھی2011 میں یہاں بطورنائب صدرآچکے ہیں ۔ اس سے ظاہرہے کہ یہ اڈہ محض عسکری نہیں بلکہ سیاسی علامت بھی ہے۔یہ بیس1950کی دہائی میں سوویت یونین نے پروان صوبے میں قائم کیا۔1980کے عشرے میں یہ سوویت سامراج کاسب سے اہم مرکزاور بڑاگڑھ سمجھاجاتاتھالیکن تقدیرنے دیکھاکہ جس قلعے سے سوویت طاقت نے دنیاکوللکاراتھا،وہی قلعہ اس کے زوال کاپیش خیمہ بنا۔ لیکن تقدیرکی ستم ظریفی کہ وہی اڈہ بعدمیں نہ صرف امریکیوں کے ہاتھ میں آگیابلکہ اسی اڈے سے امریکی تابوت کاایک برا سلسلہ اورانخلاء جیسی تذلیل کاذکم بھی ان کے قلب وجگرکاحصہ بن گیا۔اورآج پھر عالمی سیاست کاکونابن گیا ہے۔اس تقابلی مطالعے سے پتہ چلتا ہے کہ یہ اڈہ ہر سامراجی قوت کیلئےافغانستان کا دروازہ رہا ہے۔

سوویت یونین نے یہاں سے اپنی عسکری طاقت کامظاہرہ کیالیکن آخرکارشکست کھائی۔امریکانے اسے دہشتگردی کے خلاف جنگ کا مرکزبنایا، جدید ٹیکنالوجی اوروسائل کے باوجود طالبان سے شکست کھائی مگربالآخررسوائی کے ساتھ انخلاکیا۔اب امریکی توجہ کا اصل مرکزچین ہے اوربگرام کواس کے خلاف استعمال کرنے کی خواہش کھل کرسامنے آرہی ہے۔اب چین کے ابھرتے ہوئے کردار کے خلاف یہ اڈہ مستقبل کامورچہ بن سکتاہے۔یوں ایک بارپھرعالمی طاقتوں کاقبرستان ثابت ہونے والاافغانستان ایک مرتبہ پھرعالمی سامراج کے میدان کااکھاڑہ بننے جارہاہے۔

سوال یہ ہے کہ کیاٹرمپ کے حالیہ بیان کے بعدپاکستان پردباؤبڑھے گاکہ وہ بگرام پرقبضے کیلئےامریکاکوزمینی راستہ فراہم کرے؟ قوی امکان ہے کہ پاکستان کوایک بارپھرعالمی دباؤکی چکی میں پیساجائے لیکن سابقہ تجربہ ثابت کرتاہے کہ افغانستان کے ساتھ لاکھ کشیدگی کے باوجودپاکستان اب کبھی امریکاکے فریب میں نہیں آئے گالیکن کیاپاکستان امریکاکوانکارکرکے خطے میں ایک نئی کشمکش کامقابلہ کرنے کیلئے تیارہے؟

پاکستان نے حالیہ کشیدگی میں کابل حکومت کودوٹوک پیغام دیاہے کہ یاٹی ٹی پی کاساتھ چھوڑویاپاکستان کودشمن نہ بناؤ۔اس کے پس منظرمیں یہ سوال اہم ہے کہ کیاامریکااور بھارت اس تنازع کے پردے میں اپنی شطرنج بچھارہے ہیں؟اس تناظرمیں بھارت کے کردار پرسوال اٹھتاہے کیونکہ وہ ٹی ٹی پی کوپراکسی کے طورپراستعمال کررہاہے۔ٹی ٹی پی کے دہشتگردی کے شواہداوراس میں انڈین”را” کے ملوث ہونے کے عملی ثبوت عالمی اداروں تک پہنچائے جاچکے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیاامریکابھی اس کھیل میں شریک ہے یا صرف تماشائی؟اوریہ امر پاکستان کے خدشات کوحقیقت کے قریب لے جاتاہے۔

ان حالات کے پیشِ نظریہ سوال اہم ہے کہ کیاامریکابگرام کی واپسی کیلئےپاکستان کوزمینی تعاون پرمجبورکرے گا؟پاکستان کی جغرافیائی پوزیشن اسے پھرعالمی طاقتوں کی آنکھ کاکانٹابناسکتی ہے۔ٹرمپ کے بیان کے بعدیہ سوال اہم ہے کہ کیاپاکستان پردباؤبڑھے گاکہ وہ امریکاکوزمینی رسائی دے؟پاکستان کی جغرافیائی حیثیت اسے عالمی طاقتوں کے کھیل میں ایک ناگزیرفریق بنادیتی ہے۔ اگرپاکستان نے امریکاکوراستہ دیاتواندرونی اورعلاقائی مسائل بڑھ سکتے ہیں،اوراگرانکارکیاتودباؤاوربڑھ جائے گا۔

پاکستان اورسعودی عرب کے درمیان نئے دفاعی معاہدے کوامریکا،اسرائیل اوربھارت اپنی پالیسیوں کیلئےخطرہ سمجھتے ہیں ۔یہ تینوں قوتیں خطے میں ایک ایساتوازن چاہتی ہیں جومسلم دنیاکی باہمی وحدت کوپارہ پارہ کرے تاکہ خطے میں طاقت کا توازن اپنے حق میں رکھا جا سکے۔ سوال یہ ہے کہ کہیں بگرام بیس پردوبارہ قبضے کی سازش اسی تناظرمیں تونہیں؟ممکن ہے بگرام بیس کی بحالی کے پس پردہ یہی مثلث(ٹریکا)کارفرما ہو؟

ممکن ہے کہ اقوام متحدہ کے آئندہ اجلاس میں پاک امریکاملاقات کے دوران بگرام بیس پرگفتگوہو۔عالمی سفارتکاری اکثرایسے ایجنڈوں کوبندکمروں میں زیرِبحث لاتی ہے جنہیں عوامی سطح پر بیان نہیں کیاجاتا۔عالمی سازش اکثرآہنی بند دروازوں کے پیچھے لکھی جاتی ہے۔عالمی سیاست کادستورہے کہ اصل فیصلے بندکمروں میں ہوتے ہیں اورایجنڈے کبھی عوام کے سامنے نہیں آتے۔

امریکانے بلوچستان میں معدنیات کی تلاش پربھاری سرمایہ کاری کااعلان کیاہے۔بلوچستان میں امریکی سرمایہ کاری پاکستان کیلئے ایک نیاامتحان ہے۔لیکن ساتھ ہی یہ سوال کھڑاہوتاہے کہ جب بھارت کی سرپرستی میں بلوچستان میں دہشتگردحملے جاری ہیں تویہ سرمایہ کاری کس مقصدکیلئےہے؟معدنیات کی تلاش کے معاہدے کے باوجودپاکستان پردباؤبڑھنے کاامکان ہے۔ممکن ہے امریکااس سرمایہ کاری کودباؤکے طورپراستعمال کرے۔یہاں سوال یہ ہے کہ کیاامریکااپنی سرمایہ کاری کے بہانے پاکستان کومجبورکرے گا کہ وہ اپنے دفاعی اورعلاقائی فیصلے امریکی مفادات کے مطابق ڈھالے؟

زمینی حقائق تویہ ہیں کہ پڑوس میں ایک ایسی عالمی طاقت سوویت یونین جس نے یورپ کے کئی ممالک کوگھنٹوں میں گھٹنے ٹیکنے پرمجبور کر دیااوربرسوں وہاں اپنی مسلط کردہ حکومتوں کے بل بوتے پریورپ کو خوفزدہ رکھا لیکن خوفناک عسکری طاقت کے باوجودافغانستان میں ناکام رہااوربری طرح ہزیمت کاایساشکار ہواکہ اسے اپناوجودسنبھالنامشکل ہوگیااوراس کے بطن کے چھ ٹکڑے ہو گئے۔روس کے ٹکڑوں میں تقسیم ہونے کے بعدامریکااکیلاعالمی طاقت کے تکبر میں ایسامبتلاہواکہ اسی افغانستان کواپنی اگلی جارحیت کا نشانہ بنالیااوربرسوں اپنے جدید اسلحے اور وسائل میں ٹریلین ڈالرزآگ میں پھونک کربھی ایک تاریخی شکست سے دوچارہوکرراہِ فرار حاصل کرناپڑی۔ٹرمپ نے اپنے پہلے دورِاقتدارمیں”تمام بموں کی ماں”جیساخطرناک بم استعمال کرنے کابدنام ِ زمانہ عمل بھی اپنے نام کیا۔یہاں ضروری ہے کہ قارئین کواس ظالمانہ عمل کی مختصرتفصیل سے آگاہ کیاجائے:

13/اپریل2017کوامریکی افواج نے افغانستان کے مشرقی صوبے ننگرہارکے عچن ضلعی علاقے میں ایک بڑے،کنونشنل بم —جسے عوامی زبان میں”تمام بموں کی ماں”کہاجاتاہے—کو ایک سرنگی/غاروں کے جال پرگرایا۔یہ اس ہتھیارکاپہلی مرتبہ میدانِ جنگ میں استعمال تھا۔یہ بم باضابطہ طورپربطورایک خطرناک ترین مہلک ہتھیارسمجھاجاتاہے۔اس کاوزن تقریباﹰ 21,600پاؤنڈ(تقریباً9.8 ٹن)کے آس پاس تھااور یہ سب سے بڑاروایتی(غیر جوہری)فضا سے پھینکاجانے والادھماکہ خیزبم تھا۔اس کامقصداوپرسے ہوامیں پھٹ کروسیع رینج میں کُنکَش جھٹکااوردباؤپیداکرناہوتاہے،تاکہ گہری سرنگیں،غاراور مضبوط دفاعی احاطے متاثرہوں۔

امریکی کمانڈ کے مطابق ٹارگٹ وہ غاروں اورسرنگی جال تھے جوداعش کے جنگجواستعمال کررہے تھے—ایسی جگہیں جہاں روٹین بم یازمینی فورس آسانی سے داخل نہیں ہوسکتیں۔امریکی حکام نے کہاکہ یہ اس نوعیت کاہتھیارانہی خاص اہداف کیلئےموزوں تھاتاکہ زمینی اہلکاروں کے خطرے کوکم کیاجاسکے اورزیرِ زمین دفاعی ڈھانچوں کوختم کیاجاسکے۔

امریکی فریق نے آپریشن کوانجام دینے کی اطلاع دی اورصدرٹرمپ نے فوراًاس کارروائی کی تعریف کی؛ساتھ ہی انہوں نے کہاکہ انہوں نے اپنی افواج کومکمل اختیاردیاہواہے—البتہ مختلف میڈیارپورٹس میں یہ بحث موجودرہی کہ آیاصدرنے ذاتی طورپرہرتفصیل پر باقاعدہ’منظوری’دی یاکمانڈچین کے اندرممکنہ طورپراعلیٰ فوجی قیادت نے عملی حکم جاری کیا۔خبری وتجزیاتی حلقوں نے اس پہلوپر سوال اٹھائے کہ کتنافیصلہ وائٹ ہاؤس کی سطح پرطے پایا۔

ابتدائی طورپرافغان فوجی حکام نے دعویٰ کیاکہ حملے میں کئی درجن جنگجوہلاک ہوئے؛بعد ازاں مختلف اعدادوشمار سامنے آئے— بعض رپورٹوں میں36کا ذکرآیا،جبکہ بعدمیں بعض افغان حکام نے90کے قریب ہلاک ہونے کی بات کی۔تاہم صحافتی اورتحقیقی جائزوں نے نشاندہی کی کہ حقیقی انسانی لاگت اور تباہی کااندراج مقامِ واقعہ پرسائنسی اورآزادمعائنوں کے بغیرقطعی طورپر طے کرنا مشکل ہے،اورمقامی آبادی نے دھماکے کی شدیدآوازاورخوفناک اثرات کی رودادسنائی۔اس حملے نے بین الاقوامی برادری میں اخلاقی وقانونی بحث بھی بھڑکادی:بعض نے اسے دہشتگردوں کے خلاف ضروری قدم قراردیااوربعض نے کہا کہ اتنے بڑے روایتی ہتھیارکا استعمال انسانی سیکیورٹی اورشہری حفاظت کے اصولوں کے مدِنظرمتنازع ہے۔

“تمام بموں کی ماں”جیساخطرناک بم کومخصوص طریقے سے طیارہ پرلاداجاتاہے اورپھر وہ مخصوص ائرڈراپ کے ذریعے گرایا جاتاہے۔بعدازاں افسران نے اشارہ دیاکہ یہ بم خاص آپریشنل یونٹس کے جہازسے روانہ ہوا—رپورٹس میں اس نوعیت کے بم کو سی /130طرزکے کارگوطیارے کے ذریعے ڈیلیورکیاجاتاہے اورمخصوص ڈراگ پیراشُوٹ وغیرہ کی مددسے ریلیزکیاجاتاہے۔

دراصل ٹرمپ نے امریکی طاقت کے غرورمیں اس بم کوگراکرعالمی وعلاقائی تسلط کوثابت کرنے کیلئے یہ سٹریٹیجک پیغام دیاکہ امریکااپنے عسکری اپشنز کواستعمال کرنے میں تاخیرنہیں کرے گااورجنگجوؤں کوہراس زدہ کرنے اورمیڈیامیں طاقت کی نمایاں نمائش کانفسیاتی پیغام دیالیکن اس کے ساتھ ہی بہت سے انسانی حقوق کے گروپس اوربین الاقوامی اداروں کے سوالات اٹھانے پراپنی اخلاقی وقانونی حیثیت کوبحال رکھنے کیلئے یہ جواب دیاکہ اتنابڑابم مقامی آبادی اورشہری ڈھانچے کیلئے خطرناک نہیں تھا۔آئی سی آر سی اوردیگرکیس سٹڈی”نے اس استعمال کی اخلاقی اورقانونی جہتوں پربحث کرکے مطمئن کرنے کی ناکام کوشش بھی کی۔

عملی طورپراس ایک ضرب نے داعش کے مخصوص ٹھکانوں کونشانہ بنایااورعارضی طورپران کے رکاوٹیں کم کی گئیں؛مگر افغانستان میں وسیع سیاسی اور عسکری پیچیدگیاں برقراررہیں۔اس ضرب کابڑااثرعلاقائی سیاست یاجنگ کے مجموعی توازن میں دیرپا تبدیلی لانے میں محدودرہا—یعنی اس نے میدانِ جنگ کی سمتی حرکات کووقتی طورپرمتاثرکیامگرطویل المدت پائیدارامن یااستحکام کا ضامن ثابت نہ ہوا،اورمیدان عمل میں امریکاکوشکست سے بچانہ سکا۔

تاریخ کے اس پل پرجب ہوانے شعلوں کی کیفیت بھری اورپہاڑوں نے گونجناشروع کیا،تویہ منظرمحض عسکری کاروائی نہیں تھابلکہ طاقت کی ایک نمایشی لہربھی تھی۔”بم ماں”نے اس لمحے اپنی دھمک دکھائی—ایک نشانِ اِرادہ کہ جدیدامپیریل قوتیں اب بھی صفِ اوّل پراپنی ہوابازی اوردھماکہ خیزی کے ذریعے سیاست بولتی ہیں۔مگرتاریخ کاتقاضایہ بھی ہے کہ جوفوجی دھماکے بڑے ہوں،ان کے سیاسی،اخلاقی اورانسانی اثرات بھی بڑے ہوتے ہیں—اوریہی وہ سوال ہے جواس واقعے نے عالمِ انسانی کے ضمیرمیں چھوڑا۔

امریکابہادر2021-2001ءتک افغانستان پراپنے اتحادیوں سمیت ظلم وستم ڈھاتارہااوراب ایک مرتبہ پھر2025ءمیں برطانیہ کے دورے پرٹرمپ نے چین کواپنااصل ہدف قراردیتے ہوئے بگرام بیس پردوبارہ قبضے کی بریکنگ خبرسے اقوام عالم کوآگاہ کیاہے جبکہ تین سابقہ ادوارظاہرکرتے ہیں کہ افغانستان عالمی طاقتوں کاقبرستان رہاہے،مگرہرنئی طاقت پھربھی اس وادی میں قدم رکھنے کومجبور نظرآتی ہے۔یہ تقابلی اورزمینی حقائق تاریخ کاحصہ ہیں کہ طاقتیں آتی جاتی ہیں،لیکن افغان سرزمین کسی کیلئےہمیشہ کی جاگیرنہیں بنی۔

کمزونہ پڑواورغم نہ کرو،تم ہی غالب رہوگے اگرتم ایمان والے ہو(آلعمران:139)۔ یہ آیت اہلِ ایمان کویاددلاتی ہے کہ دنیاکی بڑی بڑی قوتیں آتی جاتی رہتی ہیں ،مگراصل قوت ایمان اورعزم میں ہے۔اللہ تعالیٰ نے فرمایا:وہ اپنی تدبیریں کرتے ہیں،اوراللہ اپنی تدبیرکرتاہے،اوراللہ ہی سب سے بہترتدبیر کرنے والاہے (الأنفال:30)۔یہ آیت ہمیں بتاتی ہے کہ عالمی طاقتوں کے جال خواہ کتنے ہی پیچیدہ ہوں،اللہ کی تدبیرسب پرغالب ہے۔

اس لئے پاکستان کیلئے انتہائی ضروری ہے کہ اپنی خارجہ پالیسی میں امریکاکوراستہ دینے سے گریزاورخطے میں متوازن تعلقات پر بھرپورتوجہ دی جائے۔ سعودی عرب اوردیگرمسلم ممالک کے ساتھ معاہدوں کومزیدمستحکم کرنے کیلئے دیگرمسلمان ممالک(ایران، ترکی اورخلیجی ممالک)کوبھی شامل کرنے کیلئے شب وروزکام کیاجائے۔

بلوچستان اورسرحدی علاقوں میں بھارتی پراکسی نیٹ ورک کوختم کرنے کیلئے یقیناًسفارتی تعلقات کواولیت دی جائے اورایک مرتبہ پھرچین جیسے مخلص دوست کوشامل کرکے یہ واضح کیا جائے کہ بگرام کے معاملے میں ٹرمپ کے واضح اعلان جس میں چین کو ہدف قراردیاگیاہے،اب پاک افغان کشیدگی کاایک واضح اورمستقل سنجیدہ حل درکارہے جس میں انڈین پراکسیزکا باقاعدہ دوسرے ذرائع سے جواب دینابھی ایجنڈے میں شامل کیاجائے۔

بگرام ایئربیس کی کہانی دراصل عالمی سیاست کے عروج وزوال اورتاریخ کے فیصلوں کی کہانی ہے۔بگرام ایئربیس کی داستان ہمیں بتاتی ہے کہ طاقتورقومیں ہمیشہ کمزوروں کے وسائل پر نظریں جماتی ہیں،لیکن تاریخ کی بارگاہ میں کوئی زبردست بھی ہمیشہ کیلئے زبردست نہیں رہتا۔سوویت یونین ہویاامریکا،سب نے یہاں اپنی سلطنت کے خواب دیکھے مگریہ خواب افغان خاک میں دفن ہوگئے—ہر طاقت نے یہاں اپنے خواب بُننے چاہے،مگرانجام وہی ہواجوتاریخ کے فیصلوں میں لکھاجاچکاتھا۔آج پھرایک نئی بازی سجنے جا رہی ہے۔ سوال یہ ہے کہ پاکستان کس بصیرت اورحکمت سے اس شطرنج کی بساط پراپنی چال چلے اورمستقبل کے اس نئے خطرناک منظرنامے کاسامنا کرے؟

بگرام کی داستان محض ایک فوجی اڈے کی تاریخ نہیں،بلکہ یہ اس عظیم اصول کی گواہی ہے کہ دنیا کے بڑے بڑے فراعین اورقیصر و کسریٰ اپنی تدبیروں کے باوجوداس سرزمین پرشکست کھاچکے ہیں۔سوویت یونین اپنے ٹینکوں کے شورکے ساتھ آیا،مگراس کاانجام ٹوٹے ہوئے بتوں کی طرح ہوا۔امریکااپنے جدید ترین اسلحے اوراتحادیوں کے جتھوں کے ساتھ آیا،مگررسوائی اس کے حصے میں آئی۔ اورآج جب وہ پھرپلٹ کردیکھ رہاہے توگویااپنی شکست کی راکھ میں چنگاریاں تلاش کررہاہے۔

پاکستان اورمسلم دنیاکیلئےیہ لمحہ ایک عظیم آزمائش بھی ہے اورایک روشن موقع بھی۔اگرہم نے حکمت،بصیرت اورایمان کے ساتھ اپنی راہیں متعین کیں تویہ خطہ ہماری عزت اوروقارکامیناربن سکتاہے۔اللہ کافرمان ہے:اگرتم اللہ کی مددکروگے تواللہ تمہاری مددکرے گااورتمہارے قدم جمادے گا۔(محمد:7)
یہی وہ عہدہے جوہمیں تاریخ سے سیکھناہے۔بگرام کی اینٹوں اوردیواروں میں دفن عبرت ہمیں یہ پیغام دیتی ہے کہ وقت کادھارابدل سکتاہے،سامراجی تخت ہل سکتے ہیں،مگرایمان اورحکمت سے لیس قومیں ہمیشہ باقی رہتی ہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں