Drones in the nuclear zone: The new reality of war technology

جوہری خطے میں ڈرونز: جنگی ٹیکنالوجی کی نئی حقیقت

:Share

ٹرمپ کے دوبارہ صدرمنتخب ہونے کے بعدان کی کابینہ کی اہم نامزدگیوں کے پیشِ نظریہ بات آسانی سے سمجھ آرہی ہے کہ وہ اس مرتبہ پھرچین پر تجارتی پابندیوں کے علاوہ اس کی بڑھتی ہوئی معاشی ترقی پرقدغن لگانے کیلئے جاری امریکی پالیسیوں کو بڑھاوادیں گے اورخطے میں چین کے محاصرے کیلئے”کواڈ”جیسے اتحادپرتیزی سے کام شروع کریں گے۔خطے میں چین کے بڑھتے ہوئے اقدامات کوروکنے کیلئے مودی اپنی جغرافیائی حیثیت کابھرپور فائدہ اٹھاتے ہوئے کرائے کے سپاہی کے طورپرکردار اداکرنے کیلئے تیار بیٹھاہے اوران دنوں اپنے جنگی جنون میں مبتلادنیابھرسے اسلحے کے ڈھیرلگا کر پڑوسیوں کومرعوب کرنے کی کوششوں میں مصروف ہے۔ یہی وجہ ہےکہ انڈیاان دنوں عسکری ڈرونزکی تعدادمیں اضافہ کررہاہے اوریقیناً ان حالات میں پاکستان ایک خاموش تماشائی بن کرنہیں رہ سکتا۔اب دونوں ممالک کی جانب سے نہ صرف کئی غیرملکی ڈرونزخریدے گئے ہیں بلکہ خودبھی اس ٹیکنالوجی کو تیارکیاجارہاہے جوبِناپائلٹ کے دشمن پرنگرانی،جاسوسی یااہداف کونشانہ بنانے کی صلاحیت رکھتی ہے۔

ایشیاکی تین پڑوسی اورجوہری طاقتوں پاکستان،انڈیااورچین کی طرف سے اپنی جنگی صلاحیت بڑھانے کیلئےبِنا پائلٹ ڈرونزکے استعمال میں تیزی یقیناًان دیکھی قیامت کی آمدکی نشاندہی کرتی ہے۔کیونکہ افواج میں وسیع پیمانے پرڈرونزکی شمولیت نے جنوبی ایشیامیں جنگ کاطریقہِ کاربدل دیاہے اورآئندہ کسی بھی تنازع یاجھڑپ کی صورت میں ڈرون کااستعمال کہیں زیادہ ہوگا۔ان تینوں ملکوں میں بڑے پیمانے پرڈرون کی موجودگی اورایک دوسرے کے خلاف جاسوسی اورنگرانی میں ان کابڑھتاہوااستعمال مستقبل قریب میں ٹکراؤاورکشیدگی کاسبب بن سکتاہے۔

آخریہ خطرناک حد تک جنگی صلاحیتیں کیاہیں،ان کے مضمرات دنیاکے امن کوکس طرح نگل کراندھیروں میں تبدیل کرسکتے ہیں ،آئیے اس تحریرمیں ہم یہ جاننے کی کوشش کرتے ہیَں کہ روایتی حریف سمجھے جانے والے پڑوسی ممالک انڈیااورپاکستان کے پاس کیا ڈرون صلاحیتیں ہیں اورحالیہ عرصے میں دونوں نے کِن ان مینڈایریئل وہیکلز(یواے ویز)کااضافہ کیاہے۔

دراصل عسکری مقاصد کیلئےاستعمال ہونے والے ڈرونزانتہائی اونچائی پردیرتک پروازکرنے اورریڈارمیں آئے بغیرزمین پرفوج کی سرگرمیوں،ان کی تعیناتیوں،اہم تنصیبات،نئی تعمیرات اورفوجی ٹھکانوں وغیرہ کی مؤثرنگرانی اورمخصوص ہدف کوتباہ کرنے میں زبردست مہارت رکھتے ہیں۔
دفاعی ماہرین کے مطابق ایک فوجی ڈرون تین بنیادی کام کر سکتا ہے:
٭نگرانی کرنااورحریف کی سرگرمیوں پرنظررکھنا
٭جاسوسی کرنا،یعنی یہ دیکھناکہ دوسری طرف اسلحہ یافوجی کہاں تعینات ہیں
٭ہدف کی نشاندہی اوراسے تباہ کرنا

کئی ڈرونزیہ تینوں کام کرتے ہیں مگربعض کی صلاحیت محدودہوتی ہے۔اگرہم ڈرونزکے لحاظ سے انڈیااورپاکستان کی عسکری صلاحیتوں کاموازنہ کریں تویہ معلوم ہوتاہے کہ دونوں حریف ممالک نے ماضی قریب کے دوران اس میں اضافہ کیاہے۔انڈیااور پاکستان دونوں ہی ڈرونزکی تعدادمیں اضافہ کررہے ہیں۔ایک اطلاع کے مطابق آئندہ دو،چاربرس میں انڈیاکے پاس تقریباً5ہزار ڈرونزہوں گے جبکہ پاکستان کے پاس تعدادمیں توانڈیاسے کم ہیں لیکن پاکستان کے پاس موجود ڈرونزانڈیاسے کہیں بہتراورمختلف صلاحیتیں رکھنے والے ہیں اوریہ10سے11 مختلف ساخت کے ہیں۔

اگرہم انڈیاکی مثال لیں تومودی نے رواں سال اکتوبرمیں امریکی دورے کے دوران امریکا سے ساڑھے تین ارب ڈالر مالیت کے31″پریڈیٹر”ڈرون خریدنے کامعاہدہ کیاہے جوکہ بلندی پرکام کرتے ہیں جسے”ہائی الٹیٹیود لانگ انڈیورینس” ڈرون کہتے ہیں انڈین دفاعی امورکے ماہرکے مطابق انڈیا کے پاس اس طرح کے ڈرونزکاکوئی مقامی طورپرتیارکردہ متبادل نہیں ہے اورنہ ہی اسے بنانے کیلئے کسی دوسرے ملک کے ساتھ کوئی شراکت داری ہے۔جہاں تک اس کی نگرانی کی صلاحیتوں کاتعلق ہے،یہ ڈرون اب تک کاسب سے بہترڈرون ہے۔نگرانی کے علاوہ اس میں ہدف کونشانہ بنانے کی صلاحیت ہے۔انڈیانے ان کے ساتھ500ملین ڈالرکے ان ڈرونزکے ذریعے ہدف کوتباہ کرنے میں استعمال ہونے والے بم اورلیزر گائیڈڈمیزائل بھی خریدے جائیں گے۔امریکاکے یہ پریڈیٹرڈرونزانتہائی مہنگے ہیں۔انڈین کرنسی میں ایک ڈرون کی قیمت تقریباً950کروڑروپے ہے۔31میں سے 15 ڈرون انڈین بحریہ میں شامل کیے جائیں گے اورباقی16بری فوج اورفضائیہ میں برابرتقسیم ہوں گے۔جموں ایئربیس پر2021کے ڈرون حملے کاحوالہ دیتے ہوئے وہ کہتے ہیں، جموں کے بعدہم نے بہت سے ڈرون شکن ڈرونزتیارکیے ہیں جومجھے یقین ہے کہ انڈین فضائیہ نے تعینات کردیے ہیں۔

پریڈیٹرڈرونزدنیاکے سب سے کامیاب اورخطرناک ڈرون تصور کیے جاتے ہیں۔ان کااستعمال افغانستان،عراق،شام،صومالیہ اور کئی ديگرملکوں کے ٹھکانوں اوراہداف کوتباہ کرنے میں کیاگیاتھا۔انڈیااس سے پہلے اسرائیل کے”ہیرون”خریدچکاہے اوراسرائیل ایروسپیس ایجنسی سے لائسنس کے تحت وہ اب یہ ڈرون خودانڈیامیں بنارہاہے۔

مئی2020میں لداخ میں چین کے ساتھ سرحدی ٹکراؤکے بعدڈرون اوریواے ویزکی اہمیت انڈیامیں بہت بڑھ گئی ہے۔اس وقت انڈیا میں بحریہ پرزیادہ توجہ دی جارہی ہے کیونکہ بحر ہند میں چینی بحریہ اورانڈین بحریہ کے جہازسرگرم ہیں اورانڈیاکی توجہ اس خطے پرکافی زیادہ ہے۔امریکابھی انڈیاسے یہی چاہتاہے کہ وہ اس خطے میں چینی بحریہ کی سرگرمیوں پرنظررکھے۔اب دیکھنایہ ہے کہ ان حالات میں انڈیا اور پاکستان کی افواج میں ڈرون کی شمولیت اوراس کے اثرات کیاہوں گے!

آئیے! ان حالات میں انڈیااورپاکستان کی افواج میں ڈرون کی شمولیت اوراس کے اثرات کاجائزہ لیتے ہیں!
انڈیاکے ڈرون پروگرام کاایک اہم پہلوسوارم ڈرونزکی شمولیت ہے۔یہ ان آرمڈایریئل وہیکل ہے اوریہ بڑی تعداد میں اکھٹے اُڑتے ہیں۔یہ پیچیدہ مشن پرکام کرنے کیلئے بنائے گئے ہیں ۔انہیں انڈیاکی دفاعی حکمت عملی،خاص کرپاکستان کی طرف سے کسی خطرے کوناکام بنانے کااہم حصہ تصورکیاجاتا ہے ۔ اسے انڈیاکی فرم نیوسپیس ریسرچ اینڈٹیکناوجیز نے تیارکیاہے۔یہ ڈرون دشمن کے دفاعی نظام کوناکارہ بناکرجوہری بم لانچ کرنے والے پلیٹ فارموں کوتباہ کرنے سمیت بہت سارے ڈرون سے ایک ساتھ حملہ کر کے کئی اہداف کوبربادکرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔

ڈرون یابغیرپائلٹ کے چھوٹے جہازجنہیں”یواے وی”کہاجاتاہے،نسبتاًسستے ہوتے ہیں،ان کااستعمال کرناآسان ہوتاہے اور ان میں ایسی صلاحیتیں ہیں جوروایتی جنگی حکمت عملی کوپوری طرح الٹادیتی ہیں۔اگرچہ خمیم ایئربیس پرحملے کیلئے استعمال کیے گئے ڈرون ڈیزائن کے اعتبارسے بنیادی قسم کے تھے لیکن وہ جنگ کے ایک ایسے مستقبل کی علامت تھے جس میں ایک سے زیادہ ڈرون ایک دوسرے کے ساتھ تعاون اورہم آہنگی میں ہدف پرحملہ کرتے ہیں اور لمحہ بہ لمحہ انسانی مداخلت کے بغیرخودمختاراندازاورغیرمعمولی تیزی رفتاری سے کام کرتے ہیں۔

دفاعی زبان میں اس طرح کے ڈرونزیا”یواے وی”کو”سوارم ڈرون”کہاجاتاہے جس میں ڈرونزکاایک گروہ،جس میں10 یا100یا1000سے زیادہ ڈورنزایک ساتھ پروازکرتے ہوئے ہدف کونشانہ بناتے ہیں۔اس میں ہرڈرون آزادانہ طورپرکام کرنے کے ساتھ ساتھ گروہ کے باقی ڈرونزکے ساتھ اس طرح سے ہم آہنگ ہوتاہے کہ ہرلمحے انسانی آپریٹرکی مداخلت کے بغیریہ اپناکام مؤثرطریقے سے انجام دیتاہے ۔انڈین فضائیہ کیلئے سوارم ڈرون تیارکرنے والی کپمنی کے بانی کے مطابق”سوارم ڈرون ہی جنگ کا مستقبل ہیں اورانڈیابھی اس میں حصے داری لینے کی کوشش کر رہا ہے۔انڈیاکی ڈرونزکی صلاحیت،چاہے وہ مقامی سطح پر تیار ہو یا درآمد کیا گیا ہو ، بنیادی طورپرکم اوردرمیانی اونچائی تک جانے والے ڈرونزتک محدود ہے۔بلندی پرپرواز کرنے کی صلاحیت والے جدیدڈرونزکیلئے انڈیاکودوسرے ممالک پرانحصار کرنا پڑتاہے۔فوج نے ان کی کمپنی کے ساتھ بلندی پر پروازکرنے والے اورعمودی پروازکرنے والے ڈرونزفراہم کرنے کے کئی معاہدے کیے ہیں جوسرحدی علاقوں کی نگرانی میں فوج کیلئے ایک مفید ہتھیار ثابت ہوسکتے ہیں۔یہ ڈرونز ممکنہ طورپرانتہائی بلندی پرمنفی درجہ حرارت میں بھی پروازکرسکتے ہیں اورآسمان پرطویل عرصے تک بغیر ’ٹریس‘ہوئے اپنا کام انجام دے سکتے ہیں۔ کمپنی کے ڈرونزکوشہری مقاصد کے ساتھ ساتھ کشمیرمیں مجاہدین آزادی کا پتہ لگانے کیلئے استعمال کیاجا چکاہے۔

جبکہ دوسری طرف پاکستان ترکی اورچین سے ڈرونزدرآمدکرتاہے جبکہ اس نے جرمنی اوراٹلی سے بھی ڈرون خریدے ہیں۔ پاکستان کے پاس ترک ساختہ جدید”بیراکتر”ڈرونزٹی بی ٹواورایکنجی ہیں جبکہ اس نے چین سے”وینگ لونگ ٹو”اور”سی ایچ 4″ جیسے ڈرون بھی حاصل کیے ہیں۔تاہم پاکستانی ماہرین نے براق اورشہپرجیسے بعض ڈرونزخودبھی بنائے ہیں۔2022کے دوران پاکستان نے فلیگ شپ ڈرون”شہپرٹو”کی نمائش کی تھی جس کے بارے میں بتایاگیاکہ یہ ایک ہزارکلومیٹرتک پروازکرکے ہدف کو نشانہ بناسکتاہے۔یہ اپنے ہدف کولیزربیم سے لاک کرکے اس کومیزائل کی مددسے تباہ کرسکتاہے۔پاکستان آرڈیننس فیکٹری کی جانب سے پہلے”ابابیل”کے نام سے سرویلنس ڈرونزبنائے گئے تھے جنہیں جنگی مقاصدکیلئےمسلح کیاگیا تھا۔
جدید لڑاکاڈرون شاہپرتھری اہم حربی خصوصیات اورہتھیاروں سے لیس ہے،درمیانی پروازکے ساتھ جدیدہتھیاروں اورنظام سے لیس یہ ڈرون30 گھنٹے تک طویل فاصلہ طے کرنے کی صلاحیت رکھتاہے۔شاہپرڈرون1650کلوگرام وزنی ہتھیارلےجاسکتاہے جب کہ اس میں مقامی طورپرتیارکردہ خصوصی ایویونکس اورجدید فلائٹ کنٹرول سسٹم نصب ہے۔واضح رہے کہ ملک کادفاعی مصنوعات کاادارہ گلوبل انڈسٹریل اینڈ ڈیفنس سلوشن اس سے قبل شاہپرون اورٹوبھی متعارف کراچکاہے۔

یادرہے کہ پاکستان کی فضائیہ ڈرون اورروایتی ذرائع کے اشتراک سے انڈیاکے ایس400اورپرتھوی کے جدید فضائی دفاعی نظام کومؤثرطریقے سے ٹارگٹ کرکے انڈیاکے فضائی دفاعی نظام کومفلوج کرسکتی ہے۔عالمی دفاعی تجزیوں کے مطابق پاکستان دنیا میں چوتھاڈرون پاورماناجاتاہے۔ان کے پاس بہت جدیدقسم کے ڈرون ہیں اوران کے ڈرون فضائیہ،فوج اورکچھ حدتک بحریہ میں بھی شامل کیے گئے ہیں۔پاکستان کی ڈرون صلاحیت بڑھ رہی ہے اوراس کافوکس اس صلاحیت میں مسلسل اضافہ کرنے پرہے اور خودانڈین دفاعی تجزیہ نگارپاکستان کی اس برتری کااعتراف کرچکے ہیں اورپاکستانی ماہرین مسلسل اپنی ان صلاحیتوں میں اضافہ کرنے میں مصروف ہیں۔

ان کاکہناہے کہ”ان ڈرونزکی پروازکرنے کی صلاحیت تقریباً50گھنٹے تک کی ہے۔جنگی جہازانہیں تباہ نہیں کرسکتے کیونکہ یہ ان کی پروازکی اونچائی کی حدسے بہت اوپراڑتے ہیں۔ان جدید ڈرونزکے باعث پاکستان کوکافی حدتک”سٹریٹیجک اورٹیکٹیکل سبقت ملتی ہے”۔اس رپورٹ کے مطابق”جنوبی ایشیامیں جدیدڈرون کی بڑی تعدادمیں شمولیت”خطے کے عسکری استحکام کیلئےخطرہ پیدہ کررہی ہے۔جیسے جیسے ڈرون فوجی حکمت عملی کاکلیدی حصہ بنتا جارہاہے ویسے ویسےعسکری ٹکراؤسے بچانے اورجنگی توازن کے روایتی نظام کے بکھرنے کاخطرہ بڑھتاجا رہاہے۔جوہری جنوبی ایشیا میں جوہری ٹھکانوں اوراثاثوں سمیت عسکری اہداف پر ٹارگٹڈحملے کرنے کی ڈرون کی مؤثرصلاحیت نے کسی جنگ کی صورت میں تباہی کے امکانات کووسیع کردیاہے”۔

عسکری امورکے جریدے “فورس”کے ایڈیٹرکے مطابق”ابھی جوڈرونزہیں وہ یاتوزمین سے گائیڈکیے جاتے ہیں یاپھروہ فضایعنی سٹیلائٹ سے گائیڈ کیےجاتے ہیں۔اگردشمن کے پاس مواصلات کوجام کرنے کی صلاحیت ہوتووہ ڈرونزکوغیرمؤثرکرسکتاہے اور پاکستان کے پاس یہ صلاحیت موجودہے ۔ یہ بالکل اسی طرح ہے جیسے انڈیانے جب بالاکوٹ سٹرائیک کی تھی توپاکستان کے پاس فضائی مواصلاتی نظام کوجام کرنے کی صلاحیت تھی۔پاکستان نے انڈین پائلٹ کے مواصلاتی نظام کوجام کردیاتھا۔یہی وجہ تھی کہ پاکستان نے ان دونوں جنگی طیاروں کومارگرایااوران کاپائلٹ بھی گرفتارکرلیاگیاتھا ۔ پاکستان نے اس سے اگلے دن ہی اعلانیہ جوابی حملہ کرکے اپنی صلاحیتوں کالوہامنوالیاجس کے بعدانڈیااوراس کے اتحادی بالخصوص امریکاکو بھی اپنے لنگڑے گھوڑے کی حیثیت کاپتہ چل گیا۔

دوسری طرف “چین بھی ملٹری ٹیکنالوجی میں بہت آگے نکل چکاہے۔عالمی دفاعی تجزیہ نگاروں کے مطابق پاکستان اورچین ایک دوسرے کے ساتھ ڈرون بنانے کی ٹیکنالوجی پرمل کر کام کررہے ہیں۔پاکستان کے پاس آج بہت زیادہ صلاحیت ہے۔ان کی فضائیہ بہت مضبوط ہوگئی ہے اوراس میں بہت بڑاکردارچین کاہے۔چین گزشتہ15برس سے ملٹری ٹیکنالوجی پرکام کررہاہے۔5اگست 2019کے بعدچین اورپاکستان کے درمیان فوجی اشتراک بہت مضبوط ہواہے جس کامنہ بولتاثبوت پاکستان میں مکمل طورپرتیار ہونے والاجنگی طیارہ”جے ایف تھنڈر17″دنیامیں اپنی کارکردگی کالوہامنواچکاہے اورپاکستان نہ صرف اس ٹیکنالوجی میں خود کفیل ہوچکاہے بلکہ کئی دیگرممالک کویہ طیارے فروخت کرنے کے معاہدے بھی کرچکاہے”۔

جے ایف17تھنڈربلاک تھری ایک ایکٹوالیکٹرونکلی سکینڈایرے(اے ای ایس اے)ریڈاراورلانگ رینج بی وی آرسے لیس4.5 جنریشن کاملٹی رول لڑاکا طیارہ ہے جومختلف قسم کے جنگی مشنزمیں حصے لینے کی صلاحیت رکھتاہے۔لاک تھری کے جے ایف17طیارے سب سے زیادہ ایڈوانس ماڈل کے ہیں اوراس کی مددسے پاکستان ایئرفورس کوعلاقے میں بدلتی ہوئی صورتحال میں مزاحمت کی قوت میں توازن برقراررکھنے میں مدد ملتی ہے۔بلاک تھری جے ایف17کااگلاورژن ہے۔جس میں نئے ریڈارلگائے جائیں گے،اس ورژن کاجہازنئے اورجدید ہتھیاروں اورمیزائلوں سے بھی لیس ہوگا۔ الیکٹرانک وارفیئرکی صلاحیت کوبھی بڑھایا جائے گااورہرزاویے سے اس میں بہتری لائی جائے گی”۔

تاہم اب جووارفیرہے اس میں فزیکل فیلڈمیں یعنی جہاں جہاں لڑائی میں انسان کام کرتے تھے،وہ اب انسان سے مشین کی طرف شفٹ ہورہی ہے۔ فزیکل کامطلب زمین،سمندر، آسمان،زیرسمندراورخلا،ان سب میں ڈرون کااستعمال بڑے پیمانے پرہونے جارہاہے۔ یہ مختلف ملکوں میں ان کی ٹیکنالوجی کی مناسبت سے الگ الگ سٹیجزمیں ہورہاہے۔ابھی ڈرون پوری طرح مواصلات کے ذریعے کنٹرول کیے جارہے ہیں۔یہ کوئی ڈرون کی ریس نہیں ہے بلکہ یہ وارفیئرمیں ہونے والی تکنیکی تبدیلی کااشارہ ہے۔دنیااب ڈرون وارفیئرکے مرحلے میں ہے اورڈرون وارفیئرموجودہ وقت اورمستقبل کا وارفیئرہے۔

یوکرین اورغزہ کی جنگوں میں ڈرونزکابہت استعمال ہورہاہے۔ڈرونزان جگہوں پرزیادہ کارگرثابت ہوتے ہیں جہاں جس فریق پر حملہ ہورہاہوان کے پاس فضائی دفاعی نظام بہت کمزورہو۔ڈرونز کاجواستعمال آپ غزہ اورکئی دوسری جگہوں پردیکھ رہے ہیں، وہاں جن پرحملہ ہورہاہے،ان کے پاس ایئر ڈیفنس سسٹم،یاآرمڈائیرفورس جوکہ ڈرون سے زیادہ باصلاحیت ہو،موجودنہیں لیکن اگر آپ انڈیااورچین کی مثال لیں توچین کے موجودہ جدید ڈرونز انڈیاکے انہیں علاقوں میں کارگرثابت ہوں گے جہاں کوئی ایئرفورس نہ ہو،یاجنگی جہازنہ ہوں۔باقی جگہوں پروہ کامیاب نہیں ہوں گے۔

پاکستان،چین یاانڈیامیں فضائی دفاعی نظام مثلاًریڈار،کنٹرول اینڈکمانڈسسٹم(جوکہ ایئرسپیس کوکنٹرول کرتے ہیں)اورفضائیہ بہت مضبوط ہے۔یہاں تک کہ ڈرونزبھی دشمن کے ڈرون کوروک سکتے ہیں۔یہاں ان کارول بنیادی طورپرفضامیں بہت اونچائی پر پروازبھرکے دشمن کے مخصوص علاقوں پرنظررکھنے اورمخصوص ٹارگٹ کی جاسوسی کرنے اوراہم تصاویرحاصل کرنے تک محدودرہے گا۔

گذشتہ آٹھ دس برس میں جنگوں کی نوعیت تبدیل ہوئی ہے اورڈرون اب ان کاایک اہم حصہ ہیں۔ڈرون اب روایتی جنگ کے بڑے پلیٹ فارم جیسے ٹینک،آرٹیلری وغیرہ کوکافی حد تک نقصان پہنچاسکتاہے۔اس پردونوں ممالک کافی حد تک توجہ مرکوزکررہے ہیں۔انڈیااورپاکستان کے درمیان اس جنگی ڈرون کی دوڑبڑھتی ہوئی نظرآرہی ہے جومودی کاوہ جنگی جنون اور برہمنی چانکیہ سوچ ہے جووہ اس خطے میں پڑوسیوں پردھاک بٹھانے کیلئے جاری رکھے ہوئے ہے۔

ریموٹ کنٹرول وارفیئربڑھے گاکیونکہ آنے والے دنوں میں ٹیکنالوجی کے ساتھ مشین انسان کی جگہ لے لے گی۔تاہم اس میں کوئی دورائے نہیں کہ پاکستان اورانڈیاکیلئےعسکری ڈرونزکا بڑھتااستعمال”خوفناک خطرہ پیداکرسکتاہے”کیونکہ اس میں”غلطی کاامکان ہے”۔ دونوں جوہری ممالک ہیں اور اگر”غلطی سے بھی کوئی ڈرون کسی جوہری تنصیب کے اوپرآگیاتویہ خوفناک غلطی گمبھیر مسئلہ پیداکردے گی جس کے نتائج ماسوائے مکمل انسانیت کی بربادی کے سواکچھ نہیں ہوگا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں