غزہ کی پرعزم جوانیاں

:Share

یحییٰ سِنوارشاید اس وقت فلسطین کی سب سے بااثرشخصیت ہیں۔انہوں نے اپنی 56سالہ زندگی کابڑاحصہ جیل میں گزارا،چاہے وہ اسرائیلی جیل ہویاغزہ جیسی کھلی جیل۔اسرائیل کی جانب سے غزہ اوراسرائیل کی سرحدپر60 فلسطینی مظاہرین کو ہلاک کیے جانے کے دو روز بعد 16 مئی کو غزہ کے باسی یہ جاننے کیلئے ٹیلی ویژن کے گرد جمع تھے کہ کیا اشتعال اور تشدد کی نئی لہر انھیں ایک اور جنگ کی طرف دھکیل دے گی؟وہ نہ تو فلسطینی صدر محمود عباس کو سن رہے تھے اور نہ ہی حماس کے رہنما اسماعیل ہانیہ کو، بلکہ وہ غزہ میں حماس کے رہنما یحییٰ سنوار کو سن رہے تھے جو آنے والے وقت میں پورے فلسطین کی نمائندگی کریں گے۔یحییٰ سنوار پر عسکریت پسندوں کی جانب سے ہلاک شدگان کا بدلہ لینے کیلئے دباؤ ڈالاگیا۔لیکن اس کے باوجود انھوں نے الجزیرہ پر اعلان کیا کہ حماس پُر امن عوامی مزاحمت کو جاری رکھے گی۔یحییٰ سنوار کی جانب سے ایسا بیان آنا بہت حیران کن تھا۔
یحییٰ سنوار غزہ کے خان یونس کیمپ میں پیدا ہوئے، وہ حماس کے اولین ارکان میں سے ہیں۔انھوں نے حماس کی خفیہ پولیس بنانے میں بھی مدد کی جس کا کام اسرائیل سے تعاون کرنے والے فلسطینیوں کی نشاندہی کرنا تھا۔یحییٰ سنوار کو1988ء میں اسرائیلی عدالت نے انھیں چار دفعہ عمر قید کی سزا سنائی۔حالات نے اس وقت ایک اہم موڑ لیا جب اسرائیل نے حماس کی قید میں موجود اپنے فوجی کی رہائی کیلئے قیدیوں کا تبادلہ کیا۔ اسرائیل نے مذاکرات کیلئے یحییٰ سنوار کا استعمال کیا۔ انھیں حماس کے رہنماؤں سے بات چیت کی اجازت تھی جو اسرائیلی فوجی کے بدلے اپنے ایک ہزار سے زائد افراد کی رہائی چاہتے تھے۔اسرائیل نے کچھ کے علاوہ تمام نام تسلیم کر لیے جن میں یحییٰ سنوار کا نام بھی شامل تھا۔2011 ء میں وہ قید سے رہا ہو گئے۔اسرائیل میں کچھ لوگ اس فیصلے پر پچھتائے جب انھوں نے یحییٰ سنوار کو حماس کے عسکری بازو القسام بریگیڈ کا کمانڈر بنتے دیکھا۔
1980ء میں اپنے قیام سے ہی حماس اپنے سیاسی افراد اور القسام بریگیڈ کے جنگجوؤں کے درمیان منقسم رہی۔ یہ تقسیم 2014ء میں حماس اسرائیل تیسری لڑائی کے بعد مزید گہری ہو گئی۔ یحییٰ سنوار کے ماضی اور اسرائیلی جیلوںمیں کئی سال گزارنے کی وجہ سے حماس کے عسکری حلقے میں ان کا کافی اثر ورسوخ موجود ہے۔جن اسرائیلی تجزیہ کاروں کی رائے یہ تھی کہ یحییٰ سنوار کو سیاسی معاملات میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا ،ان کی تمام آراء غلط ثابت ہوئیں،گزشتہ برس جب غزہ کا انتظام سنبھالنے کیلئے یحییٰ سنوار کا انتخاب کیا گیا تو نہ صرف اسرائیلی بلکہ فلسطینی شہری بھی یحییٰ سنوار کی قیادت کے حوالے سے شکوک و شبہات میں گھرے ہوئے تھے۔اسرائیلی آرمی چیف کا کہنا تھا کہ یحییٰ سنوار کی تقرری نے حماس کے سیاسی اور عسکری ونگ میں فرق ختم کردیا ہے۔غزہ کے باسی اس خوف میں مبتلا تھے کہ جس شخص نے کئی سال اسرائیلی جیل میں گزارے ہو ں وہ جارحانہ اور متلون مزاج کا حامل ہو گا۔ یحییٰ سنوار کے اسرائیلی تفتیش کار کا اُن کے بارے میں کہنا ہے کہ وہ ایک انتہائی سخت گیر اورعملی شخصیت ہیں۔ سابق فلسطینی سکیورٹی چیف محمد دحلان بھی اُن کے بارے بارے یہی رائے رکھتے تھے۔
یحییٰ سنوار نے فلسطین کے باہر موجود حماس کے رہنماؤں کا کردار محدود کر دیا ہے۔انہوں نے وقتی طور پر غزہ میں موجود سخت گیر آوازوں کو بھی خاموش کروادیا ہے۔حماس نے سالوں کی کوششوں سے زیر زمین سرنگوں کا جال قائم کیا تاکہ وہ اپنے جنگجوؤں کو سرحد پار بھیج کر اسرائیلی علاقوں پر قہر ڈھا سکے۔لیکن 2016ء سے اسرائیلی فوج کسی خفیہ ٹیکنالوجی کی مدد سے ان سرنگوں کا سراغ لگا کر انھیں تباہ کر رہی ہے۔ القسام بریگیڈ کے سربراہ محمد الضیف چاہتے تھے کہ جلد سے جلد ان سرنگوں کا استعمال کر لیا جائے لیکن یحییٰ سنوار نے اس بات کو مسترد کر دیا۔
لیکن یہ سب کچھ کسی بنیادی تبدیلی کو ظاہر نہیں کرتا۔بلکہ حماس کا پر امن طریقہ کار اختیار کرناایک حکمت عملی ہے۔یہاں تک کہ غزہ کے جنگجو بھی یہی سمجھتے ہیں کہ ان کے ہتھیار اور اسلحے کا معمولی ذخیرہ اسرائیل کو کوئی خاطر خواہ نقصان نہیں پہنچا سکتا۔حماس کے حقیقت پسند لوگ یہ بات سمجھتے ہیں کہ اسرائیل کے ساتھ مزید کوئی لڑائی غزہ کیلئے تباہ کن ثابت ہو سکتی ہے۔یحییٰ سنوار نے غیر ملکی صحافیوں سے اپنی پہلی ملاقات میں کہا کہ ’’سب سے خطرناک بات یہ ہے کہ نوجوانوں کے اندر غزہ میں ایک پُر وقار زندگی کی امید ختم ہوتی جارہی ہے،جس پرفوراً توجہ دینے کی ضرورت ہے وگرنہ ان نوجوانوں کوظلم کے خلاف اپنی جونوں کی قربانی دینے کے جذبے کوروکنابہت مشکل ہوگا‘‘۔
دوسری طرف اسرائیلی تفتیش کار اورحکومتی عہدیداراپنی مکارانہ سیاسی چالوں کامسلسل استعمال کرتے ہوئے یہ پروپیگنڈہ کررہے ہیں کہ یحییٰ سنوار بہت پر عزم شخص ہیں۔ وہ محمود عباس کے مقابلے میں زیادہ بہتر رہنما نظر آتے ہیں۔ لیکن اگر یحییٰ سنوار فلسطین کی قیادت کرنے کے خواہش مند ہیں تو وہ ایسا کسی مسلح گروہ کے ساتھ رہ کر نہیں کر سکتے۔ دنیا حماس کو اس وقت تک تسلیم نہیں کرے گی جب تک اس کی جانب سے تشدد کا راستہ ترک نہیں کر دیا جاتا۔یحییٰ سنوار ماضی قریب کے کسی بھی حماس رہنما کے مقابلے میں زیادہ طاقتور ہیں۔اب انھیں فیصلہ کرنا ہوگا کہ وہ کس حد تک حقیقت پسند بن سکتے ہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں