تاریخ انسانوں کی محض داستان نہیں،یہ اقوام کی روح اورملتوں کی تقدیرہے۔جب کبھی ہم پاک امریکاتعلقات پرنظرڈالتے ہیں تو یوں محسوس ہوتاہے جیسے صدیوں پرانی کوئی رودادہے جونئے کرداروں کے ساتھ بارباردہرائی جارہی ہے۔یہ وہی سرزمینِ پاکستان ہے جو اللہ کے نام پروجودمیں آئی،جہاں کے باشندے”لاالٰہ الااللہ”کے قافلے کے سپاہی ہیں۔مگرافسوس! عالمی سیاست کی شطرنج پریہ قافلہ اکثرطاقتوروں کے مہرے بنادیاگیا۔قرآن یاددلاتاہے:کمزورنہ پڑو،غمگین نہ ہو،تم ہی غالب رہوگے اگرایمان والے ہو۔
مگرافسوس!عالمی سیاست کی شطرنج پریہ قافلہ اکثرطاقتوروں کے مہرے بنادیاگیاہے۔کبھی ٹرمپ کے الزامات کاطوفان، کبھی دوستی کے دعوے،کبھی سرمایہ کاری کی مسکراہٹ اورکبھی جنگ وامن کے فیصلے۔یہ ہمیں یاددلاتاہے کہ ملتیں جب اپنی بنیاد بھول جائیں توان کے ساتھ وہی کچھ ہوتاہے جوکبھی اندلس میں ہوا،کبھی بغدادکی گلیوں میں،اورکبھی دہلی کے کوچوں میں۔اقبال کی صداآج بھی ہمیں جھنجھوڑتی ہے:
؎ اپنی دنیاآپ پیداکراگرزندوں میں ہے
سرِآدم ہے،ضمیرِکن فکاں ہے زندگی
پاکستان کایہ سفرمحض سیاسی معاہدوں کانہیں بلکہ اپنی اصل،اپنی بقااوراپنی عظمت کی بازیافت کاسفرہے۔اوریہی سوال ہے جس کے جواب پرآنے والی نسلوں کی تقدیر لکھی جائے گی۔
آج بھی ہمارے سامنے وہی سوال ہے:کیاہم اپنی تقدیرکے معماربنیں گے یاپھردوسروں کی کٹھ پتلی؟کبھی ٹرمپ کے الزامات کاطوفان،کبھی دوستی کے دعوے،کبھی سرمایہ کاری کی مسکراہٹ،اورکبھی جنگ وامن کے فیصلے۔یہ سب کچھ ہمیں یاد دلاتاہے کہ ملتیں جب اپنے اصول بھول جائیں توتاریخ ان پر وہی کھیل دہراتی ہے جوکبھی اندلس میں ہوا،کبھی بغداد میں ، اور کبھی دہلی کی گلیوں میں۔پاکستان کایہ سفرمحض سیاسی معاہدوں کانہیں بلکہ اپنی اصل،اپنی بقااوراپنی عظمت کی بازیافت کاسفرہے۔اوریہی سوال ہے جس کے جواب پرآنے والی نسلوں کی تقدیرلکھی جائے گی۔
اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی میں وزیرِاعظم پاکستان شہبازشریف نے اپنی تقریرکاآغاز تلاوتِ کلامِ پاک سے کیا۔یہ آغازمحض روایتی نہ تھابلکہ اس نے پوری دنیاکویاددلایاکہ پاکستان کی اصل بنیاد “لاالٰہ الااللہ”پرہے،اورہماری سیاسی وسفارتی گفت وشنیدبھی اسی روحانی سرچشمے سے جُڑی ہے۔
حالیہ پاک-بھارت جنگ کے پس منظرمیں پاکستان کی تاریخی فتح نے جنرل اسمبلی کے ایوانوں کوایک نئی فضابخشی۔بھارتی طیارے جب آسمان پرملبے کے ڈھیرمیں تبدیل ہوئے تویہ منظر محض عسکری کامیابی نہ رہا،بلکہ ایک عہدکی تبدیلی کااعلان تھا۔اسی لمحے ہال”پاکستان زندہ باد”کے نعروں سےگونج اُٹھا:یہ نعرہ محض حب الوطنی کااظہارنہ تھابلکہ ایک زخمی ملت کی روح کاابھرتاہواترانہ تھا۔چین کے وزیرِاعظم نے شہباز شریف کی تقریرکی کھل کرتعریف کی۔ گویامشرقِ بعیدکی ایک بڑی طاقت نے اس اعلان کوسراہاکہ پاکستان اب محض ایک ملک نہیں بلکہ عالمی توازن میں ایک فیصلہ کن قوت ہے۔
کبھی یہی امریکاتھاجب ٹرمپ پاکستان کودہشتگردوں کی پناہ گاہ قراردیتاتھا،اورکبھی یہی ٹرمپ اپنے پہلے دورِصدارت میں عمران خان کو”دوست”کے لقب سے نوازتاتھامگرجونہی تاریخ کی بساط پرمہرے بدلے، صدارت کی کرسی کارنگ بدلا، جوبائیڈن کی باری آئی،اورایک بارپھر دونوں ملکوں کے رشتے سرد مہری کے برف زار میں جا پہنچے۔ نہ وائٹ ہاؤس میں ملاقات ہوئی، نہ فون کی گھنٹی بجی—گویادوقافلے ایک ہی راہ پرچلتے ہوئے بھی اجنبی رہ گئے اور پاکستان وامریکا کے بیچ وہی پرانا بگڑاہواسازپھربجنے لگاجس میں نہ ملاقات کی لے تھی نہ گفتگوکی تان۔
لیکن جمعرات کادن ایک نیاورق لے کرآیا۔ٹرمپ نے شہبازشریف اورفیلڈمارشل عاصم منیرکو”عظیم رہنما”اور”بہترین شخصیتیں”کہہ کرگویاوہ قفل کھولاجوبرسوں سے خاموشی کے زنگ سے بندپڑاتھا۔وہ یخ بستہ برف کوتوڑڈالاجوعرصوں سے ان تعلقات پرجمی ہوئی تھی۔بعدازاں وائٹ ہاؤس میں ان کی ملاقات ہوئی جسے تاریخ ایک نیاموڑقراردے گی۔
ٹرمپ نے اس ہفتے مسلم ممالک کے رہنماؤں سے ایک خصوصی نشست بھی رکھی،جسے انہوں نے یادگارکہا۔انہوں نے اسرائیل کے رویے پرکھل کر مایوسی کااظہارکیا—ایک ایسا اعتراف جوکسی امریکی صدرکے لبوں سے بہت کم سننے کو ملاہے۔اس موقع پرٹرمپ نے مسلم رہنماؤں کے سامنے مشرقِ وسطیٰ اورغزہ کیلئے21نکاتی امن منصوبہ پیش کیا۔اس منصوبے میں جنگ بندی،انسانی امدادکی فوری فراہمی، غزہ میں خودمختارانتظامیہ کی تشکیل،مقبوضہ علاقوں میں اسرائیلی توسیع پسندی کی روک تھام،بیت المقدس کی حیثیت پرمذاکرات،فلسطینی قیدیوں کی رہائی،اوراقوامِ متحدہ کی زیر نگرانی امن فوج کی تعیناتی جیسے نکات شامل تھے۔یہ منصوبہ بظاہرامن کاپیغام ہے،مگراس کے سیاسی اثرات آنے والے برسوں تک مشرقِ وسطیٰ کے نقشے پرثبت ہوں گے۔
ملاقات کے بعدوزیرِاعظم ہاؤس کی طرف سے جوپیغام آیاوہ سرمایہ کاری کی خوشبوسے لبریزتھا۔امریکی کمپنیوں کوپاکستان کے کھیتوں کی زرخیزی،پہاڑوں کے خزانے اورتوانائی کے دریاؤں میں سرمایہ کاری کی دعوت دی گئی۔یوں لگتا ہے کہ پاکستان اپنے دروازے کھول رہاہے،مگرسوال یہ ہے کہ ہواکارُخ کس طرف ہے؟کیایہ دعوت ہمارے لیے نعمت ثابت ہوگی یا آزمائش؟
اس محفلِ گفتگومیں صرف دولت کاذکرنہ تھا،بلکہ خطے کے حالات اوردہشتگردی کے خلاف تعاون پربھی زوردیاگیا۔امن کا چراغ بھی روشن کیاگیا۔گویایہ نشست ایک ایساوعدہ تھی جہاں گویاامن کی شمع کوبجھنے نہ دینے کاعزم پھرسے دہرایاگیا۔ جس میں امن کی خوشبو اورمفادات کی بودونوں شامل تھیں۔
تاریخ کاپنہاں باب یہ بھی ہے کہ رواں برس مئی میں پاک وہندکے درمیان جب جنگ کے بادل چھاگئے توٹرمپ نے اس آندھی کوتھامنے کاسہرااپنے سرباندھااورپاکستان کے رہنماؤں نے بھی ان کی اس کوشش کو”مین آف پیس”کہہ کرتسلیم کیا۔مگرحقیقت کی زمین پریہ ملاقات کیامعنی رکھتی ہے اوراس ملاقات کاحاصل کیاتھا؟دونوں ممالک ایک دوسرے کی ضرورت کوبخوبی جانتے ہیں۔دونوں ملک ایک دوسرے کی ضرورت کے اسیرہیں،اورہرایک اپنی غرض کے چراغ جلائے ہوئے ہے۔
ٹرمپ کی نظردنیاکی نایاب معدنیات پرہے اوراس کی آنکھوں میں معدنیات کی چمک اس کی دوستی کاسبب ہے۔ دنیا کی نایاب دھاتیں ان کیلئےوہ خزانہ ہیں جن کے حصول میں وہ اپنی طاقت جھونک دینے کوتیاررہتے ہیں اورپاکستان کادعویٰ ہے کہ اس کے دامن میں یہ خطیردولت موجود ہے۔ حال ہی میں امریکی کمپنی یوایس ایم ایم نے50کروڑڈالرکی سرمایہ کاری کے کاغذپردستخط کرکے اپنی دلچسپی کوحقیقت کاجامہ پہنادیاہے مگرتاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ معدنیات کی کان کھلتی ہے تودولت باہرنکلتی ہے مگرمقامی آبادی کے ہاتھ خالی رہ جاتے ہیں۔خاص طورپربلوچستان کاشورش زدہ خطہ اس المیے کاسب سے بڑاگواہ ہے۔جو دہائیوں سے شورش کاگہوارہ ہے،ایک بارپھراس شطرنج کی بساط میں قربانی کاپیادہ بن سکتاہے۔
پاکستان نے بھارت کوبارہامذاکرات کی پیشکش کی ہے اورامریکاسے ثالثی کی امیدباندھی ہے۔کچھ مبصرین کہتے ہیں کہ اگرپاکستان وامریکاکی قربت بڑھی تواس کی بازگشت صرف جنوبی ایشیاہی نہیں بلکہ مشرقِ وسطیٰ تک سنائی دے گی۔ لیکن دہلی کی سیاست ایسی ہے کہ وہ کسی غیرملکی کردارکواپنے اورپاکستان کے معاملات میں قبول کرنے سے انکاراور گریزاں ہے۔دوسری طرف خودامریکااوربھارت کے رشتے بھی اس وقت کشیدگی کاشکاراورریت کی دیوارکی طرح ہیں۔روسی تیل خریدنے پرامریکانے بھارت پرپچاس فیصدٹیرف عائدکیاہے۔اب سوال یہ ہے کہ ٹرمپ کے دل کے پردوں میں کون سا منصوبہ چھپاہوا ہے اوردماغ میں کیاچل رہاہے؟؟
پاکستان کی مشرقی سرحدکے جھگڑوں سے ہٹ کرمغربی محاذپرامریکاکواپنی ضرورت نظرآتی ہے۔پاکستان جانتاہے کہ اس کی مشرقی سرحدپرجھگڑے کبھی ختم نہیں ہوں گے۔شاید اسی لیے امریکاکواس کی ضرورت مغربی محاذپرزیادہ دکھائی دیتی ہے۔ایران کامسئلہ امریکاکیلئےسلگتی ہوئی چنگاری نہیں بلکہ بھڑکنے والاانگارہ ہے اوروہ چاہتاہے کہ پاکستان کے ساتھ مل کراس کاکوئی حل تلاش کرے۔اگرپاکستان ساتھ دے توشایدیہ خطرناک آگ بجھائی جاسکے،اوراس کے بدلے میں پاکستان کوبلوچستان اورقبائلی شورشوں میں مددمل سکتی ہے۔
اسرائیلی وزیرِاعظم نیتن یاہونے جب جنرل اسمبلی سے خطاب کیاتومتعدد ممالک کے وفوداحتجاجاًایوان سے نکل گئے۔یہ منظربتارہاتھا کہ اسرائیل کی جارحانہ پالیسیوں کواب عالمی برادری مزید برداشت کرنے پرآمادہ نہیں۔غزہ میں قتلِ عام کے پس منظرمیں یورپی فٹ بال تنظیم”یوئیفا”نے اسرائیل کی رکنیت معطل کرنے کاعندیہ دیاہے۔اگریہ قدم اٹھایاگیاتویہ اسرائیل کے عالمی کھیلوں کے محاذپرایک بڑی شکست ہوگی۔
یورپی ملک سلووینیانے اسرائیلی وزیرِاعظم نیتن یاہوپرسفری پابندیاں عائدکردی ہیں۔یہ اعلان گویایورپ کے ضمیرکی پہلی بیداری ہے، ایک اشارہ کہ اب عالمی برادری اسرائیل کے خلاف عملی اقدامات کی طرف بڑھ رہی ہے۔اسی دوران اسرائیلی فوج نے یمن کے دارالحکومت صنعاءپرشدیدبمباری کی۔یہ بمباری مشرقِ وسطیٰ میں آگ کومزید بھڑکانے کے مترادف ہے اوریہ سوال جنم لیتی ہے کہ کیاعالمی امن منصوبے اس شعلے کوبجھاپائیں گے یانہیں؟
مشرقِ وسطیٰ کے تذکرے میں پاکستان کاذکرگویاناگزیرہے۔سعودی عرب اورپاکستان کاحالیہ دفاعی معاہدہ امریکاکی نظر سے پوشیدہ نہیں،اس نے امریکا کو متوجہ کیاہے۔یہی وجہ ہے کہ ٹرمپ عرب ممالک سے گفتگوکے ساتھ ساتھ پاکستانی رہنماؤں سے بھی بات چیت کرتے ہیں توصاف ظاہرہوتاہے کہ ٹرمپ کاعرب دنیااورپاکستان دونوں سے گفتگوکرنااس حقیقت کی دلیل ہے کہ واشنگٹن خطے میں پاکستان کی حیثیت کوایک ناگزیرکھلاڑی سمجھتاہے اورخاص اہمیت دیتاہے۔
فیلڈمارشل عاصم منیروہ پہلے پاکستانی رہنماہیں جنہوں نے وائٹ ہاؤس کے دروازے پرقدم رکھااورٹرمپ سے براہِ راست ملاقات کی۔ان کے حالیہ دورے —خواہ وہ خلیجی ممالک ہوں، وسطی ایشیاہویاشنگھائی تعاون تنظیم—سب اس بات کی غمازی کرتے ہیں کہ پاکستان کی خارجہ پالیسی میں عسکری قیادت اب محض پس پردہ کردارنہیں بلکہ اگلی صف کی علم بردارہے اور یہ اعلان ہے کہ پاکستان کی خارجہ پالیسی میں فوج کاکرداراب پردے کی اوٹ نہیں بلکہ روشن اسٹیج پرہے۔ جولائی کی کورکمانڈرکانفرنس میں عاصم منیرنے ان دوروں کوکامیاب سفارت کاری قراردیاہے۔وزیرِاعظم شہبازشریف اورفوجی قیادت کے اشتراک کودنیانے ایک ذمہ دارسفارت کاری کانمونہ قراردیاہے جس نے دنیاکو یہ باورکرایاکہ پاکستان ایک ذمہ دارریاست کے طورپرابھررہاہے۔
مبصرین بھی مانتے ہیں کہ خارجہ پالیسی کی لگام اورخارجہ پالیسی کے تمام اہم ہتھیاروں پرفوج کی گرفت پہلے سے زیادہ مضبوط ہے اوروزیرِ اعظم اس کھیل کے جونیئرپارٹنراورمحض شریکِ سفرہیں۔یہ بھی واضح ہے کہ فیلڈمارشل عاصم منیر ڈرائیونگ سیٹ پرہیں اورسویلین حکومت ان کی معاون ہے۔وزیرِ اعظم کے ہمراہ ان کے غیرملکی دورے فوج کے بڑھتے ہوئے عوامی وسفارتی کردارکی گواہی دیتے ہیں اورباہم تعاون کی عکاسی کرتے ہیں۔یہ وہ مقام ہے جہاں سول اورملٹری قیادت کی ہم آہنگی کھل کرسامنے آتی ہے۔سیاسی مبصرین بھی اس بات سے اتفاق کرتے ہیں کہ فوج ہی پاکستان میں بالخصوص خارجہ پالیسی کی اصل ڈورسنبھالے ہوئے ہے۔اب اس میں کوئی راز نہیں کہ پاکستان میں خارجہ پالیسی کاساز فوج کے ہاتھ ہی بجاتاہے۔
فیلڈمارشل عاصم منیراپنے پیش روؤں سے زیادہ محتاط اورپُراعتماددکھائی دیتے ہیں۔ان میں وہ توانائی ہے جومئی کی جھڑپ کے بعداوربھی نمایاں ہوئی ہے۔ دوسری طرف ٹرمپ کی سیاست کسی ایک دھارے پرنہیں بہتی۔کبھی مودی کو “دوست”کہااور پھربھارت پرٹیرف کی تلوارچلادی۔کبھی پوتن سے رشتہ جوڑااورپھریوکرین پران پرتنقیدکے تیروں کی بارش کردی ۔ٹرمپ کی پالیسی کامداران ذاتی روابط پرہے جوانہیں فائدہ پہنچاسکیں۔ٹرمپ کاپیمانہ ذاتی تعلقات ہیں۔وہ انہی کے ساتھ چلتے ہیں جوان کے وعدوں کونبھاتے ہیں۔پاکستان کیلئےیہی پیغام ہے کہ اپنی قدروقیمت کوسنبھالے رکھے،اور اپنی وقعت کو برقراررکھے۔ورنہ امریکاکی تاریخ یہی کہتی ہے کہ اس کارویہ بدلتے لمحوں کی طرح ہے اورامریکاکے رویے میں تبدیلی آناًفاناً آتی ہے—نہ کل کی دوستی کی ضمانت دیتاہے،نہ آج کی قربت کوکل تک پہنچاتاہے۔
پاکستان اورامریکاکے تعلقات اس قافلے کی مانندہیں جوکبھی سرسبزوادیوں سے گزرتاہے اورکبھی سنگلاخ صحراؤں کی ریت پربکھرکرٹھٹک جاتاہے۔آج دونوں رفاقت کے ایک نئے موڑپر کھڑے ہیں۔سوال یہ ہے کہ کیاپاکستان اس موڑپراپنی خودمختاری کوبرقراررکھتے ہوئے دنیاکی بڑی طاقتوں کے ساتھ توازن قائم کرسکے گایاپھرطاقتورکی راہ میں اپناسازبجا کرایک اورباب تاریخ کے اوراق میں چھوڑدے گا؟یاپھریہ داستان بھی ماضی کی طرح عہدِ دوستی اور دوری کے نشیب و فرازکی کتاب میں ایک اورباب کااضافہ بن جائے گی؟
اے اہلِ پاکستان!تاریخ کی گواہی سنو۔یہ وہ سرزمین ہے جوکلمہ طیبہ کے نام پربنی تھی،اوریہ وہ قوم ہے جسے اللہ نے اسلام کے پرچم کوبلند کرنے کی ذمہ داری دی ہے۔لیکن کیاہم نے اپنی اس ذمہ داری کوپوراکیا؟کیاہم نے اس مددکوپانے کے لائق عمل کیا؟یا اپنے فیصلوں کوکبھی واشنگٹن اورکبھی دہلی کے ایوانوں کے رحم وکرم پرچھوڑدیا؟ قرآن کہتاہے: إِن يَنصُرْكُمُ اللّهُ فَلا غَالِبَ لَكُمْ:اگر اللہ تمہاری مدد کرے تو کوئی تم پر غالب نہیں آ سکتا۔
یاد رکھو!قومیں سرمایہ کاری یامعاہدوں سے زندہ نہیں رہتیں،وہ اپنے ایمان، اپنی غیرت اوراپنے وقارسے زندہ رہتی ہیں۔ اگرہم نے اپنی خودداری کوسنبھالا ،اگرہم نے اللہ کے دین کواپنا سہارابنایاتودنیاکی کوئی طاقت ہمیں جھکانہیں سکے گی لیکن اگرہم نے تاریخ کے سبق فراموش کیے توہمارے حصے میں صرف غلامی کی زنجیریں رہ جائیں گی۔
آج پاکستان اورامریکاکے تعلقات ایک نئے موڑپرکھڑے ہیں۔یہ موڑصرف سفارت کاری کاامتحان نہیں بلکہ ہماری روح اور ہماری ملت کی آزمائش ہے۔ فیصلہ ہمیں کرناہے:کیاہم اپنی خودی کوپہچان کراقبال کے شاہین بنیں گے یاپھر دوسروں کے دسترخوان کے ٹکڑوں پرپلنے والے پرندے بن جائیں گے؟؟ اقبال نے ہمیں یہی سبق دیا تھا:
؎ ہواگرخودنگروخودگروخودگیرخودی
یہ بھی ممکن ہے کہ توموت سے بھی نہ مرسکے
اے پروردگارِعالم!توہی ہے جوقوموں کے دل بدل دیتاہے،اورتوہی ہے جوسلطنتوں کی تقدیررقم کرتاہے۔ہماری کشتی وقت کے طوفانوں میں گھری ہوئی ہے،کبھی مشرق کے طوفاں اسے دہلاتے ہیں اورکبھی مغرب کی ہوائیں اسے بہالے جانے کی کوشش کرتی ہیں۔اے رب!ہمیں وہ حکمت عطافرماجس کے بغیرطاقت محض ریت کاقلعہ ہے،اورہمیں وہ استقلال دے جو ایمان کے چراغ سے جلتاہے۔
یہ رپورٹ محض واقعات کی ترتیب نہیں،بلکہ ایک عہدکی گواہی ہے۔یہاں سفارت کاری محض کاغذی بیانات سے آگے بڑھ کرایک تاریخی موڑپرکھڑی ہے —جہاں پاکستان کے کردارکونئی مرکزیت مل رہی ہے،اورجہاں دنیااسرائیل کے مظالم پرکھل کرسوال اٹھانے لگی ہے۔
اے اللہ!پاکستان کواپنی پناہ میں رکھ،اس کوغلامی کی زنجیروں سے بچا،اوراس کے حکمرانوں کووہ جرات دے کہ وہ تیرےدین کوسہارابنائیں اورتیرے کلمے کوبلندکریں۔
اے مالک الملک!ہمیں وہ بصیرت عطافرماجس سے ہم پہچان سکیں کہ کون سی دوستی خیرہے اورکون سا تعلق محض دھوکہ۔
(اے ہمارے رب!ہمارے دلوں کوٹیڑھانہ کردینابعداس کے کہ تونے ہمیں ہدایت دی اورہمیں اپنی طرف سے رحمت عطا فرما،بے شک توہی بڑاعطاکرنے والا ہے)۔