ہم اس عہدِپُرآشوب میں جی رہے ہیں جہاں تہذیبوں کاتصادم محض سیاسی یاعسکری معرکہ نہیں،بلکہ تقدیرِاقوام کاحصہ بن چکاہے۔یہ وہ معرکہ ہے جہاں اقوامِ عالم کی بقاء،عقائد کی سرفرازی،اورعدل وانصاف کامعیارامتحان کی سِل پررکھاگیاہے۔یقیناًہم ایسے دور میں جی رہے ہیں جب تہذیبوں کاتصادم محض مفہوم اورنظریہ نہیں بلکہ میدانِ عمل کاحصہ بن چکاہے۔آج ہم اسی معرکے کاحصہ ہیں، جہاں دوراہوں کاسنگم ہے،حق اورباطل،نوراورظلمت،عدل اورجبر آمنے سامنے ہیں۔
آج ہم اس عہد کی طرف بڑھ رہے ہیں،جب تہذیبوں کاتصادم محض مفہوم یانظریہ نہیں،بلکہ میدانِ کارزاربن چکاہے۔یہ تصادم محض تمدنوں کا نہیں،بلکہ اقدار،نظریات،اورایمانی ومادی محاذوں کامعرکہ ہے۔ہم اس عہدکاحصہ بن چکے ہیں،جہاں اسلام اورمغرب،مشرق اوریورپ،عدل اورجبر،ظلمت اورنور کاٹکراؤ،روئے زمین کامقدربن چکاہے۔
تہذیبوں کےتصادم کی اصطلاح سب سے پہلے برنارڈلیوس اوربعدازاں سیموئل ہنٹنگٹن کے قلم سے دنیاکے سامنے آئی۔تہذیبوں کے تصادم کاتصورمحض حال کی ایجادنہیں۔اس کامآخذ تاریخی کشمکش ہے۔برنارڈلیوس اورسیموئیل ہنٹنگٹن نے بیسویں صدی کی آخری دہائی میں اس تصورکوپیش کرتے ہوئے کہاکہ “آنے والادورتہذیبوں کی محاذآرائی کادورہوگا”۔ یہودی نژادہنری کیسنجرنے ون ورلڈ آرڈر(ایک عالمی نظام)کاتصورپیش کیا۔مقصدمحض یہ تھاکہ اسلامی تہذیب کونئے عہدکامرکزی خطرہ قراردیاجائے اوراس کی آڑمیں عالمی طاقتوں کاتسلط باقی رہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس کے پسِ پردہ وہی صہیونی-صلیبی ایجنڈاکارفرماتھاجس کی گتھیاں ہنری کیسنجر،بریژنسکی اوردیگراسٹریٹیجک مفکرین نے بُنی تھیں لیکن اس کامآخذ اس دَورکی مغربی فکر ہے جب سوویت یونین کازوال ہوا،اورمغرب نے نئے دشمن کی تلاش شروع کی۔کیسنجرجیسے اسٹریٹیجسٹ نے ون ورلڈآرڈرکاتصوردیا،تاکہ عالمِ اسلام اوردیگرتہذیبوں کو ایک نظام کاحصہ بنایا جاسکے۔
یہ تصوراس وقت اُبھراجب سوویت یونین شکست کھاچکااورمغرب کونیادشمن درکارتھا۔چنانچہ اسلام کودشمن نمبر1قراردے کرایک فکری،تہذیبی اور عسکری محاذکھولاگیا۔ہنری کیسنجرکا”ون ورلڈآرڈر”دراصل ایک ایساعالمی نظام تھاجس میں طاقت،معیشت اوروسائل پرچندہاتھوں کی گرفت ہو۔عالم اسلام اوردیگرتہذیبیں محض صارف اورتابع رہیں،تہذیبوں کے تنوع کوعالمی امن کی راہ میں رکاوٹ قرار دیاجائے۔
تہذیبوں کاتصادم وہ تصورہے جوسردجنگ کے خاتمے اورسوویت یونین کی شکست وریخت کے فوراًبعدمنظرِعام پرآیا۔اس تصورکا بنیادی نقطہ یہ تھاکہ سرد جنگ کی دوقطبی محاذآرائی ختم ہو چکی،لیکن اس خلامیں نئے تہذیبی محاذجنم لیں گے۔یہ تصورسیموئیل ہنٹنگٹن کی مشہورکتاب”کلیش آف سولائزیشن” (تہذیبوں کاتصادم)کی صورت میں دنیابھرمیں گونجا۔تہذیبوں کاتصادم کاتصورسردجنگ کے خاتمے پراس لیے پیش ہواکیونکہ اس زمانے تک محاذآرائی کامحورمحض نظریہ(کمیونزم بمقابلہ سرمایہ داری)تھا۔سردجنگ کی راکھ سے ایک نیاتصورپھوٹاکہ مستقبل میں ساری دنیاپرکیسے حکومت کی جاسکتی ہے۔
کیسنجراورون ورلڈآرڈرکابانی،اس فکرکابانی تصورکیاجاتاہے۔کیسنجراوردیگرعالمی معماروں نے یہ تصورپیش کیاکہ آئندہ تنازعات سیاسی واقتصادی محاذوں تک محدودنہیں رہیں گے،بلکہ تہذیبی، ثقافتی اورمذہبی محاذوں تک پھیل جائیں گے۔اس تصورکامقصدمحض دانشورانہ مباحث تک محدودنہیں تھابلکہ اس کا حصہ اسٹریٹجک مقاصداورعالمی بالادستی کاایجنڈاتھا۔
کیسنجراوردیگرمغربی مفکروں نے اس تصورکواس لیے پیش کیاکیونکہ وہ اس دورکی پیش بینی کرچکے تھے جب مغرب اورعالمِ اسلام، نیزدیگرتہذیبی گروہ (ہندو،چینی،سلاووغیرہ)نئی محاذآرائی میں آئیں گے۔ہنٹنگٹن کی تھیوری محض دانشورانہ بحث نہیں تھی،بلکہ امریکی اسٹریٹیجک پالیسی کاحصہ تھی۔اس تھیوری کامقصدعالمِ اسلام اوردیگرتہذیبوں کو“حریف”قراردے کرامریکااور مغرب کی عسکری اور اقتصادی برتری کاجوازپیش کرناتھااورجونہی وہ ان مقاصدمیں کامیاب ہوجائیں گے تواسے کیسے صہیونیت کی جھولی میں ڈال دیاجائے گامگراللہ کافرمان ہے:
یہ چاہتے ہیں کہ اللہ کانوراپنی پھونکوں سے بجھادیں،حالانکہ اللہ اپنے نورکوکامل کیے بغیررہنے والانہیں،خواہ کافروں کوکتناہی ناگوار ہو۔(التوبۃ:۳۲)
نورخداہے کفرکی حرکت پہ خندہ زن
پھونکوں سے یہ چراغ بجھایانہ جائے گا(ظفر علی خان)
آئیے اب اس کے سیاسی پس منظرپرنگاہ ڈالتے ہیں:
کون نہیں جانتاکہ امریکانے سوویت یونین کے خلاف پاکستان کواگلے مورچے کی حیثیت دی،افغان مجاہدین کواپنا”کارندہ”بنایا۔افغانستان میں سوویت یونین کی شکست محض افغان مجاہدین کاکارنامہ نہیں تھابلکہ اسلامی عزم وایمانی ولولے کاجیتاجاگتاثبوت تھا۔اس فتح کا مقصدخطے کوآزادی اورسکون عطاکرناتھامگرجیسے ہی ریچھ کاتنِ مردہ(یعنی سویت یونین)گرا،امریکی عہدشکنی کا سورج طلوع ہوگیا۔ افغانستان میں سوویت یونین کی شکست اوراس کاچھ حصوں میں بٹ جانا امریکا کی فتح تھی لیکن اس فتح کافوری اثرپاکستان اورافغانستان پریہ ہواکہ امریکانے“استعمال کرواور پھینک دو”کی پالیسی اپنائی۔لیکن جیسے ہی مقصدپوراہوا، امریکانے وعدے توڑے۔پاکستان اور افغانستان سے کیے گئے وعدے بھلادیے گئے۔یہ وہی روایت تھی جوامریکانے دوسری جنگ عظیم میں یورپ،کوریا، ویتنام،اورمشرق وسطیٰ میں اپنائی”استعمال کرواورپھینک دو”۔یہ محض سفارتی بے وفائی نہیں،بلکہ امریکی سیاسی رویے کاحصہ ہے،جواس محاورے پرمبنی ہے یعنی جودوست بنے،انہیں مقصدتک استعمال کرو۔مقصدنکل جائے توبے دردمالک کی طرح چھوڑدو۔
حقیقت یہ ہے کہ امریکاکی یہ پالیسی کئی دہائیوں سے یہی چلی آرہی ہے لیکن اس کے باوجودہمارے ہاں اقتداربچانے کیلئے ملک کو قربان کردینے کی شرمناک مثالیں بھی موجودہیں،مجھے امیدہے آپ میرایہ اشارہ بخوبی سمجھ گئے ہوں گے۔ہم نے1965ءکی جنگ اورسقوطِ ڈھاکہ سے کچھ نہ سیکھااورنائن الیون میں انہوں نے ہمیں ایک مرتبہ پھراستعمال کیااوریقیناًاستعمال سے قبل ہی ان کی یہ پالیسی تیارہوچکی تھی کہ امریکااپنے مفادات کے حصول کے بعدکیاکاروائی کرے گااورہمارے ساتھ وہی ہوایعنی ابھی افغانستان سے سوویت یونین کی واپسی کوچندگھنٹے گزرے تھے کہ قصرسفید میں بیٹھے فرعون بش جونئیرنے بھارت کے ساتھ سول نیوکلیر ٹیکنالوجی کامعاہدہ کرنے کاعندیہ دے دیااوربالآخر18جولائی2005میں اس سے باقاعدہ معاہدہ کرلیا،یوں پاکستان کی پیٹھ میں خنجر گھونپا ۔ تاکہ پاکستان کا تزویراتی توازن بگاڑا جائے، خطے میں بھارت کو چودھری بنایا جائے اور بعد ازاں بھارت کو چین کے خلاف استعمال کیا جائے۔
گویاافغانستان میں سوویت یونین کوشکست دینے کے فوراًبعدامریکانے”کل کادوست،آج کادشمن”والامحاورہ برتا۔پاکستان اورافغانستان کو تنہاچھوڑدیا گیا۔ اس خطے کی قربانیوں کاصلہ محض بے وفائی،دھوکے اورزہریلےخنجرکی صورت میں دیاگیا۔پاکستان کی پیٹھ میں گھونپا گیاخنجروہ”سول نیوکلیر معاہدہ” تھاجو بھارت اورامریکاکے مابین طے پایا۔یوں پاکستان کواس تاریخی جدوجہدکاحاصل محض زخم اور بے اعتنائی کی صورت ملاجبکہ اس ساری جنگ میں امریکاکو دنیا کااکیلاسپرپاوربنانے میں بھارت کاکوئی حصہ نہیں تھالیکن امریکاکا بھارت سے سول نیوکلیرمعاہدہ،پاکستان کی جغرافیائی اورعسکری اہمیت کوکم کرنے کاحصہ تھا۔اس کامقصدخطے میں بھارت کو اسٹریٹیجک ہم پلہ بنانااورپاکستان کودباؤکاشکاررکھناتھا۔
گویایہ تاریخ کاایک شرمناک باب ہمیشہ آئندہ انے والی امریکی نسلوں کویاددلاتا رہے گاکہ ان کے آباؤاجدادنے افغان محاذپرمسلمانوں کو استعمال کیا۔ فتح حاصل ہوتے ہی سوویت یونین توچھ ٹکڑوں میں بٹ گیالیکن امریکاکامحسن بننے والاپاکستان فوراًہند-امریکامعاہدے کا شکاربن گیالیکن میرے لئے امریکاکی بے وفائی کوئی تعجب کی بات نہیں کہ امریکااب تک دنیامیں تین درجن سے زائدممالک میں جارحیت کامرتکب ہوچکاہے اورکسی ایک ملک میں بھی فتح حاصل نہیں کرسکااورہرملک سے ذلیل ورسواہوکرنکلاہے لیکن ہم یہ بھول گئے کہ سامراج کادستور ہے کہ دوستوں کاانتخاب عارضی اوردشمنیوں کامعیاردائمی ہوتا ہے۔
مئی کی پاک بھارت جنگ میں امریکانے ابتدامیں”لاتعلقی”کارویہ اپناتے ہوئے کہا،”ہمارااس سے کوئی لینادینانہیں۔”مگرجیسے ہی اسرائیلی آپریٹڈڈرونزنے پاکستان پرحملے کیے۔پاکستان نے بھرپورجوابی کارروائی کی۔پاکستانی شاہینوں نے بھارت اوراسرائیل دونوں کو پیغام دیاکہ جس مقام سے یہ حملے کئے گئے ہیں،وہ ہماری دسترس میں ہیں،اسرائیلی آپریٹرمارے گئے۔اسرائیل کی معاونت کاپردہ چاک ہوا،امریکی پالیسی میں زلزلہ آگیا۔اسرائیلی ہاروپ ڈرونزاورآپریٹرزکی ہلاکت نے واشنگٹن کویہ احساس دلایاکہ پاکستان کی صلاحیت محض روایتی محاذتک محدودنہیں۔امریکانے سیزفائرکی دوڑاس لیے لگائی کیونکہ پاکستان کاممکنہ حملہ اسرائیل تک پھیل سکتاتھا۔ واشنگٹن جانتاتھاکہ پاکستان کی میزائل صلاحیت محض بھارت تک محدودنہیں۔امریکاکویہ بھی علم تھاکہ پاکستان اسرائیل پرناقابلِ تصور تباہی مسلط کرسکتاہے چنانچہ ٹرمپ نے فوراًسیزفائرکی دوڑدھوپ شروع کی۔
مئی کی جنگ میں اسرائیلی(ہاروپ ڈرون)کابھارت کی مددکوآنا،امریکاکاابتدائی طورپرغیرجانبداری کاڈرامہ،پاکستان کی جوابی کارروائی پرسیزفائرکی بھاگ دوڑ یہ ظاہرکرتاہے کہ تہذیبوں کا تصادم محض تصوراتی نہیں،زمینی حقیقت بن چکاہے۔حالیہ پاک بھارت جنگی محاذ محض پاکستان اوربھارت تک محدودنہیں تھا۔ اسرائیلی ڈرونزاورآپریٹرزکامیدانِ کارزارمیں شامل ہونااس امرکا ثبوت ہے کہ تہذیبی محاذ آرائی اس خطے تک پھیل چکی ہے۔امریکاکااسرائیل اوربھارت کی حمایت میں دوہرامعیاراس بات کاعکاس ہے کہ امریکااس محاذمیں محض تماشائی نہیں بلکہ حصہ دارہے۔
حالیہ ایران اسرائیل جنگ میں امریکاکودپڑاہے۔فردو،نطنزاوراصفہان کی جوہری تنصیبات پرامریکی حملے جہاں اس بات کااعلان ہیں کہ جب تک اسرائیل کی سلامتی کاضامن امریکاہے، اسے کوئی گزندتک نہیں پہنچاسکتاگویاتہذیبوں کاتصادم نئے باب میں داخل ہوچکاہے۔ امریکامیں برنی سینڈرزاوردیگرسیاسی رہنماؤں نے اس جارحانہ اقدام کی سخت مذمت کی۔سینڈرزکا کہنا تھاکہ”امریکانے آئین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے ایران پرحملہ کیا”۔گویاامریکانے ایران کی جوہری تنصیبات پرحملہ کرکے تہذیبوں کی جنگ کومزیدمہمیزدی ہے۔
امریکاکاایران کی جوہری تنصیبات پرحملہ محض ایران کی عسکری صلاحیت کومفلوج کرنے کاعمل نہیں تھا۔اس کامقصدایران اور امریکا،اسرائیل کی محاذآرائی کونئے عروج تک پہنچاناتھا۔یہ حملہ اس امرکاعکاس ہے کہ امریکابیک وقت دومحاذوں (روس اورچین)پر عسکری چیلنج کامتحمل نہیں۔اس لیے مشرقِ وسطیٰ میں اسرائیل اور ایران کی محاذ آرائی کواستعمال کرتے ہوئے خطے کاتوازن بگاڑاجا رہاہے۔
حیرت کی بات یہ ہے کہ اوآئی سی نے ایران کی حمایت کااعلان محض24گھنٹے قبل کیا لیکن امریکا نے اس اجلاس کی سیاہی خشک ہونے سے قبل حملہ کرکے اسلامی ممالک کو پیغام دیاکہ تمہاری قراردادوں اوربیانات کی حیثیت صفرہے۔اوآئی سی اجلاس اوراس کے بعدامریکاکاحملہ جہاں مسلم دنیاکی سیاسی کمزوری کاثبوت ہے وہاں ان ملکوں میں بسنے والے مسلمانوں کو بھی اپنی اس بے بسی کا علاج سوچناہوگاکہ ہم موجودہ حکمرانوں کے تسلط میں کب تک اس قعرمذلت میں اپنی غلامانہ روش پرقائم رہیں گے۔
مسلم امہ کی تزویراتی ناکامی کایہ سب سے زیادہ بزدلانہ فعل ہے کہ وہ محض قراردادوں اورنعروں تک محدودہے۔ایران،پاکستان اور دیگرمسلم ریاستوں کا جغرافیائی،اقتصادی اورعسکری مرکز بننے کاتصورمحض کتابی نعروں تک محدودہوکررہ گیاہے۔ادھرترکی نےاسرائیل کوامن کی راہ کاسب سے بڑاروڑا قرار دیا،اوراس حملے کو”مذاکرات کوسبوتاژکرنے”کی سازش قراردیا۔یہ حملے ایران اور امریکامذاکرات کوسبوتاژکرنے کی دانستہ کوشش ہے،حقیقت یہ ہے یہ محض بیانات کادورہے۔مسلمانوں کارویہ بے بسی اورمصلحت کا شکارہے۔مجھے آج عالم اسلام کے ایک عظیم مفکرمولانا مودودیؒ کایہ قول بری طرح ستارہاہے کہ جہاں طاقت اوراصول کامعرکہ ہو، وہاں محض گفتارکاحصہ کبھی تاریخ نہیں بن سکتا۔
چین کیلئےمشرق وسطیٰ سستاتیل اورتجارتی راستوں کی ضمانت ہے۔چین،تجارتی راہداریوں اورمصلحتوں کی سیاست میں الجھاہواہے۔ کھلی جنگ چین کی معاشی راہداریوں کیلئےخطرہ ہے،اس لیے وہ محض بیانات تک محدودہے۔سوال یہ ہے کہ سستاتیل اورمشرقِ وسطیٰ کی تزویراتی راہداریاں چین کی محض اقتصادی فکر تک محدودرہیں گی،یابیجنگ میدانِ عمل میں اترے گا؟روس اورچین کامحض الفاظ تک محدودرہنااس امرکاغمازہے کہ وہ سردجنگ جیسی محاذآرائی کاحصہ بننے کوتیارنہیں۔روس اورچین کامحض بیانات تک محدودرہنا اس امرکاعندیہ ہے کہ طاقت کی سیاست میں محض الفاظ کی کوئی حیثیت نہیں۔یقیناًچین مشرقِ وسطیٰ میں سستاتیل اورتجارتی روٹس کی حفاظت کاخواہاں ہے۔اس لیے وہ امریکااوراسرائیل سے محاذآرائی کرنے کی بجائے مصالحانہ رویہ اپنائے ہوئے ہے۔امریکا نے ایران پرحملہ کرکے چین کویہ پیغام دیاہے کہ اس خطے کاسیاسی،اقتصادی اور عسکری کنٹرول واشنگٹن کے ہاتھ میں ہے۔
پاکستان کیلئے اب سب سے بڑاچیلنج امریکا-بھارت-اسرائیل گٹھ جوڑہے۔مودی،نیتن یاہواورٹرمپ کاتکون،پاکستان کومحاصرے میں لینا چاہتاہے۔امریکی پالیسی یہ ہے کہ اسرائیل اور بھارت کوپاکستان کیخلاف کھلی چھٹی دے دی جائے۔پاکستان کامؤقف تاریخی،سیاسی اور ایمانی تناظر میں یوں ہے کہ پاکستان،مسلم دنیاکی واحدذمہ دارایٹمی طاقت ہے۔اس حالیہ پاک بھارت جنگ میں پاکستان نے یہ ثابت بھی کردیاکہ پاکستان کنونشنل جنگ میں بھی بھارت اوراسرائیل کے ساتھ نمٹ سکتاہے اس لئے دشمن ٹرائیکانے ایک اوراوچھاوارکیاہے۔
ہندوستان کے وزیرخارجہ نے سندھ طاس معاہدے کوتوڑدینے کااعلان کردیاہے اوردہمکی دی ہے کہ پاکستان کوایک قطرہ پانی بھی نہیں دیاجائے گاجبکہ پاکستان اس عمل کواعلانِ جنگ قرار دے چکاہے۔یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ تہذیبوں کایہ تصادم جنوبی ایشیاتک پھیلنے والاہے۔مودی کاٹرمپ کی دعوت پرامریکاآنے سے معذرت،پاک امریکاتعلقات اورنئے محاذ کی طرف اشارہ ہے۔کیاامریکااس نازک مرحلے پرپاکستان کاساتھ دے گایابھارت اوراسرائیل کی پشت پناہی کرتے ہوئے پاکستان کومحض مہرہ بنائے گا؟گویاٹرائیکااپنی اس سازش سے پاکستان کومفلوج کردیناچاہتاہے۔حقیقت میں یہ محاذمحض سرحدی جنگ نہیں،بلکہ تہذیبوں کامعرکہ ہے۔
بھارتی وزیرخارجہ کابیان پاکستان کی بقاءاورآزادی کاچیلنج ہے۔بھارت کاجارحانہ رویہ پاکستان کونئے محاذوں پرالجھانے کی کوشش ہے۔ہم سب جانتے ہیں کہ پاکستان کی ایٹمی صلاحیت اور اس کی جغرافیائی حیثیت امریکا،انڈیااوراسرائیل تینوں کی آنکھ کاکانٹاہے۔نیتن یاہوکابیان امریکا کے دہرے میعارکاعندیہ ہے۔ نیتن یاہوکابیان کہ”ایران کے بعدپاکستان کاایٹمی پروگرام ہمارا ہدف یہ سب اس بات کااعلان ہے کہ پاکستان اب براہِ راست ہدف پرہے۔جنرل عاصم منیرکی پذیرائی اورمودی کاٹرمپ کوملنے سے انکاراس بات کی دلیل ہے کہ امریکابھارت اور اسرائیل کی پشت پرکھڑاہے۔ابھی حال ہی میں جنرل عاصم منیرکادورہ امریکامحض روایتی عسکری سفارت کاری نہیں تھابلکہ اس کامقصداس بات کااندازہ لگاناتھاکہ امریکاپاکستان کی ایٹمی صلاحیت کوکس نظرسے دیکھتاہے۔
“غزوہ ہند”کا تذکرہ کئی احادیث میں ملتاہے۔یہ محض ماضی کاقصہ نہیں،بلکہ حال اورمستقبل کاحصہ ہے۔امتِ مسلمہ کی روایات اور احادیث میں غزوہ ہندکا تذکرہ ہے۔احادیث میں ہے کہ امام مہدی کاخروج اورحضرت عیسیٰ کانزول اس دورکاحصہ ہوں گے۔یہ وہ معرکہ ہے جومشرق کی سرزمین سے شروع ہوگا اوراسلام کاعلم دوبارہ بلندکرے گا۔روایات میں ہے کہ اس دورمیں اسرائیل کاخاتمہ اوربیت المقدس کی آزادی کاباب رقم ہوگا۔اس معرکے میں کامیابی پانے والالشکرجنت کاحق دارہوگا۔امام مہدی کی آمداورحضرت عیسیٰ ابن مریم کانزول، اسرائیل کی تباہی اوربیت المقدس کی آزادی کاپیش خیمہ ہے۔یَقیناًآخری معرکہ،حق وباطل کاہوگااوراس میں اللہ کاوعدہ سچاہے۔
حضرت ثوبانؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺکی پیشین گوئی ہے کہ دوگروہ ایسے ہیں جن کواللہ دوزخ کی آگ سے نجات دے گاایک گروہ ہندپرچڑھائی کرے گااوردوسراگروہ عیسی بن مریمؑ کے ہمراہ ہوگا۔امام مہدی اورعیسیؑ کی آمدکامقصد،اسلام کاعلم بلندکرنا،اسرائیل کاخاتمہ اوربالآخراسرائیل کے ظلم کا مٹ جانا،تہذیبِ مغرب کاجنازہ،حضرت عیسیٰ کاشام میں نزول ،دجال کاقتل اوراس کی تکمیل،اسلامی خلافت کااحیاءاوریاجوج ماجوج کاخروج،یہ سب کچھ احادیث کی کتب میں موجودہے۔حقیقت یہ ہے کہ ہم کسی نئے دورکی طرف نہیں جارہے،بلکہ اس عہدکی طرف جارہے ہیں جہاں عدل اورظلم،نوراورتاریکی کامعرکہ برپاہے۔یہاں اللہ کا فرمان حرفِ آخرہے فَٱنصُرْنَاعَلَى الْقَوْمِ الْكَـٰفِرِينَ۔(البقرہ:286)پس ہماری مددکر،اس کافرقوم پر۔
آج ہم ایسے دورِتاریخ میں جی رہے ہیں جہاں محض تہذیبوں کاتصادم نہیں،حق وباطل،عدل وظلم،نوروظلمت کامعرکہ ہے۔یہ محض اقوام کی محاذآرائی نہیں ،بلکہ نوراورظلمت،عدل اور جور کا معرکہ ہے۔تہذیبوں کاتصادم محض علمی بحث یاتاریخی پیش گوئی نہیں۔یہ عہدِحاضرکی اٹل حقیقت ہے۔اس میں امریکااور اس کے اتحادی اس محاذآرائی کواپنے تسلط اوروسائل کی حفاظت کاحصہ بنائے ہوئے ہیں۔مسلم امہ کی بقاء،اس محاذآرائی کاادراک کرنے اوراس کاتوحید،عدل اورعزم کی طاقت سے سامناکرنے میں مضمرہے۔پاکستان،افغانستان،ایران،ترکی اوردیگراسلامی مملکتوں کواس میدانِ کارزارمیں ہمہ جہت تیاری کامظاہرہ کرناہوگا۔یہ دورمحض بے خبری کانہیں،بلکہ جاگنے اورجگانے کاہے۔
یہ تصادم محض تہذیبوں کانہیں بلکہ ایمان والحاد،عدل وجور،نوروظلمت کاتصادم ہے۔پاکستان اورعالم اسلام کافرض ہے کہ فکری وحدت، عسکری تیاری، سفارتی حکمت اوراقتصادی خود انحصاری کے ساتھ اس تصادم میں اپنی حیثیت منوائیں۔اس لئے میری آپ سے گزارش ہے کہ اے اہل ایمان!تم وہ امت ہوجس کی پشت پرتاریخ کاقافلہ ہے اورسامنے مستقبل کے معرکے۔تم پرلازم ہے کہ اپنے وجودکوشعلۂ یقین سے روشن کروکہ اب دنیافیصلے کی دہلیزپرہے۔
یہ وہ دورہے جب امتِ مسلمہ کوبیدارہوکرایمانی،علمی،سیاسی اورعسکری محاذوں پرمضبوطی کامظاہرہ کرناہوگا،توحیدکی رسی مضبوطی سے تھام کر،اپنے کردار اوراسلحے کوہمہ وقت تیاررکھناہوگا۔یہ دوریہ فیصلہ کرے گاکہ ہم غلامی کی زنجیروں میں رہیں گے یاآزادی کاسورج طلوع کرنے والوں میں شامل ہوں گے۔ یادرکھیے،تہذیبوں کایہ تصادم محض مادی محاذپرفتح یاشکست کاباب نہیں،بلکہ اللہ کی تقدیرکاحصہ ہے۔جوملت اس محاذمیں ایمانی حمیت اورتاریخی بصیرت سے ہمکنارہوگی،وہی عروج پائے گی۔
آج کاعہدمحض تماشہ بینی کاعہدنہیں۔یہ دورمصلحت کانہیں،مقابلے اورمزاحمت کادورہے۔عزم،بصیرت اورایمانی جدوجہدکادامن تھام کراپنے فیصلے کرنا ہوں گے کہ:
تمہاراماضی صلاح الدین ایوبی اورٹیپو سلطان کی جرأت کاگواہ ہے،تمہاراحال اقبال کی بیداری،محمدعلی جناح کی مستقل مزاجی اور مودودیؒ کی فکروجرأت کاوارث ہے،تمہارامستقبل امام مہدی اورحضرت عیسٰی کی بشارت کامنتظرہے۔ایمانی وحدت، تہذیبی بیداری، تزویراتی استقلال اورسیاسی جرأت،آج کا تقاضہ ہے۔
یادرکھیے:
یہ اس لیے کہ ایمان لانے والوں کاحامی وناصراللہ ہے اورکافروں کاحامی وناصرکوئی نہیں،یعنی اللہ اہلِ ایمان کاکارسازہے۔جہاں عزم ہو،جہاں توکل ہو،وہاں فتح ہے۔جہاں فتح ہو،وہاں ایمانی تہذیب کی سربلندی ہے۔(محمد:11)