China's growing presence in Europe

یورپ میں چین کی بڑھتی موجودگی

:Share

جنوری2018ءمیں برسلزکاشانداربوزارتھیٹرتاریخی لمحات سے متعلق عوامی جمہوریہ چین کی ویڈیوکابیک ڈراپ تھا۔یہ موقع تھاچینی نئے سال کے جشن کا۔ ایک گلوکارفن کامظاہرہ کررہاتھا اوراس کی پشت پرچلائی جانے والی ویڈیو میں چین کی کامیابیوں کونمایاں طور پر پیش کیاجارہاتھا۔ویڈیومیں چین کے پہلے جوہری دھماکے،عالمی تجارتی تنظیم میں شمولیت،پہلے طیارہ بردار جہاز کی تیاری اوردیگر معاملات سے دنیاکوآگاہ کیاجارہاتھا۔حاضرین میں موجود سفارت کار،فوجی نمائندے اوردیگر حکام دم سادھے یہ سب کچھ دیکھ رہے تھے۔سوال یہ نہیں تھاکہ وہ چین کی کامیابیوں کودیکھ کرمتاثر ہورہے تھے یا نہیں۔ہوسکتا ہے کہ متاثرہوبھی رہے ہوں مگراِس سے کہیں بڑھ کروہ حیرت زدہ بھی تھے اورتشویش میں بھی مبتلاتھے۔چین کی بڑھتی ہوئی عسکری قوت، معیشت کے پنپتے ہوئے حجم اورٹیکنالوجی میں پیش رفت نے یورپ کے بہت سے پالیسی سازوں کوخوابِ غفلت سے جگادیاہے۔ یورپی یونین ایک زمانے سے غیراعلانیہ طورپر، مشنری اندازسے چین کے بارے میں سوچتی آئی ہے۔چین کے مستقبل کے حوالے سے مختلف اندازے لگائے جاتے رہے ہیں مگراب اندازہ ہوتاہے کہ بیشتر اندازے خام خیالی یا خوش فہمی پرمشتمل تھے۔

چین کی معاشی وعسکری قوت میں غیرمعمولی اضافے کے ساتھ بیجنگ،واشنگٹن اوربرسلزکی اسٹریٹجک تکون میں بھی تبدیلیاں رونماہوئیں۔ٹرمپ کی صدارت کے دوران امریکانے چین کو اسٹریٹجک مدمقابل کے روپ میں زیادہ دیکھاہے۔یورپ کے بیشتر قائدین ٹرمپ کسی بھی وقت کچھ بھی کہہ دینے کی وجہ سےاُن پرمکمل بھروسہ نہیں کرتے تھےجس کے نتیجے میں بیشتر یورپی ممالک نے حکمت عملی کے حوالے سے زیادہ خودمختاری کاراستہ اختیار کیا۔ٹرمپ نے افغانستان اور شام سے فوج نکالنے کااچانک اعلان کرکے امریکاکی17سالہ ملٹری ڈاکٹرائن کے حوالے سے یو ٹرن لیکرجیمزمیٹس نے کواستعفیٰ دینے پرمجبورکردیااوربعدازاں یورپ کی سلامتی کے حوالے سے معاملات کوپریشان کن کرنے میں بھی ٹرمپ کے بیانات کابڑاعمل دخل رہا ہے۔ایک مرتبہ پھرچارسال تک ڈونالڈٹرمپ دونوں ایوانوں میں اکثریت کے ساتھ وائٹ ہاؤس میں براجمان ہوں گے،کیایہ اپنے انتخابی وعدوں کے مطابق دنیاکوامن کاگہوارہ بناسکیں گے،اس کاجواب آنے والے پروقت پرموقوف ہے۔

دسمبر2018ءمیں بیجنگ نے یورپی یونین سے تعلقات کے حوالے سے وائٹ پیپرشائع کرتے ہوئے بتایاکہ کس طرح چین نے یورپی طاقتوں کے ساتھ مختلف شعبوں میں مل کرکام کیا بالخصوص ہائی ٹیکنالوجی کے شعبے میں۔ اب بیجنگ تائیوان اور تبت کے مسئلے پربرسلزسے کیاامیدرکھتاہے اورکس طور چین نے اظہاررائے کی آزادی کیلئےخطرہ بننے والی جعلی اورمن گھڑت خبروں کے سدباب کیلئےبھی یورپی یونین کے ساتھ مل کرکام کیاہے۔وائٹ پیپر میں یہ بھی درج ہے کہ امریکاکے یکطرفہ اقدامات کے آگے بند باندھنے کیلئےیورپ کوچین کاساتھ دیناچاہیے۔چینی قیادت نے اس وائٹ پیپرمیں یہ عندیہ بھی دیاکہ جہاں کہیں بھی امریکاکے انخلاسے خلاپیداہوگا،وہاں وہ اپناکرداراداکرکے خلاپُرکرنے کوتیارہے۔جرمی رفکن کے مطابق چین نے مابعدِجدیدیت کے لمحاتِ سعیدمیں دوعشروں تک’’یورپی خواب‘‘کوشرمندۂ تعبیرکرنے کی کوشش کی ہے۔یورپی یونین کے بعض حکام کہتے ہیں کہ یورپی یونین جیوپالیٹکس نہیں کرتی اورجوکچھ بھی یورپی یونین کرتی ہے،اُس کے سیاسی عواقب برآمد نہیں ہوتے۔یوں یورپی یونین اپنے علاقے کوبڑی طاقتوں کیلئےپلے گراؤنڈ کے طورپرپیش کرتی ہے۔یورپ نے خاصی مشقت سے جوخُوئے اطاعت پروان چڑھائی ہے،اُس نے چین کوبھی کھل کرکھیلنے کے زیادہ سے زیادہ مواقع فراہم کیے ہیں۔روس نے یوکرین کے حوالے سے طاقت کاغیر معمولی مظاہرہ کیااوریوکرین سے جُڑے ہوئے چند اوریورپی ممالک کوبھی کسی حدتک متاثرکیامگریورپی یونین کے مجموعی ماحول پراس کا کچھ خاص منفی اثرمرتب نہیں ہوا۔

یورپی یونین کے حکام بھلے ہی کہتے رہیں کہ یورپی یونین کے اقدامات کے سیاسی نتائج برآمد نہیں ہوتے مگر حقیقت یہ ہے کہ اب بعض یورپی ممالک نے انفرادی سطح پراوریورپی یونین نے اجتماعی سطح پرچین کوایک بڑے حریف کے روپ میں دیکھنا شروع کردیاہے۔چین کی’’میڈاِن2025ء‘‘حکمت عملی نے یورپ کی ہائی ٹیک انڈسٹری کیلئےبیداری کاکردارادا کیا ہے۔ یورپ اوربھارت دونوں ہی چین کوسنجیدگی سے لے رہے ہیں۔دونوں کیلئےچین کی بڑھتی ہوئی سیاسی،عسکری اورمعاشی قوت نے ویک اپ کال کی سی حیثیت اختیارکرلی ہے۔ایسے میں ایک اہم سوال یہ ہے کہ کیابھارت کا’’یواشکتی‘‘ آدرش اوریورپین ڈریم متصادم ہوں گے؟دسمبر2018ءمیں یورپین کونسل نے’’ای یو اسٹریٹجی آن انڈیا‘‘کے حوالے سے اخذ کیے جانے والےخیالات کو قبول کیا۔کیااِس سے یورپی یونین اوربھارت کے تعلقات کاایک نیادورشروع ہوا؟اب تک عام خیال یہ تھاکہ یورپی یونین نے چین کو زیادہ اہمیت دی ہے اوربھارت کومجموعی طورپرنظراندازکیاہے۔بھارت کے حوالے سے نئی حکمت عملی اپنانے سے یہ تاثر ابھرے گا کہ یورپی یونین بھارت کو بھی ساتھ لے کر چلنا چاہتی ہے اورساتھ ہی ساتھ ایک ایسے نئے عالمی نظام کو پروان چڑھانے کے حق میں ہے،جواصولوں کی بنیادپرکام کرتاہو۔علاوہ ازیں یورپی یونین سلامتی سے متعلق سیٹ اپ کوبہتر بنانے کی بھی کوشش کررہی ہے لیکن مودی سرکارکی طرف سے کینیڈاکے علاوہ دیگرممالک میں خفیہ ایجنسی”را”کے دہشتگردی میں ملوث ہونے کے بعدیورپی یونین کی سلامتی کے اداروں نے انڈیاسے فی الحال اپنے کئی تحفظات کااظہارکردیا ہے ۔ دوسری طرف ابھی یہ دیکھناباقی ہے کہ اس وائٹ پیپرکے مندرجات کی بنیادپرچینی قیادت کس نوعیت کے اقدامات کی راہ ہموارکرتی ہے۔

فروری2017ءمیں فرانس،اٹلی اورجرمنی نے یورپی یونین سے کہاکہ وہ یورپ میں براہِ راست بیرونی سرمایہ کاری کی اسکریننگ سے متعلق سفارشات مرتب کرنے کیلئےکمیشن قائم کرے ۔ تینوں یورپی طاقتوں نے اگرچہ کسی ملک کا نام نہیں لیا تاہم یہ بات طے ہے کہ وہ چینی باشندوں کی طرف سے کی جانے والی براہِ راست سرمایہ کاری کے حوالے سے غیر معمولی تشویش میں مبتلا تھے۔یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ یورپ کے بعض ممالک میں چینیوں کی سرمایہ کاری اِتنی زیادہ ہے کہ فرانس،اٹلی اورجرمنی کی تجویزپرکھل کربحث نہیں کی جاسکی۔یورپی کونسل،یورپی کمیشن اوریورپی پارلیمان…تینوں ادارے اس حوالے سے باضابطہ مذاکرات اوربحث کی منزل سے دوررہے۔ناقدین کہتے ہیں کہ اس حوالے سے پائی جانے والی موجودہ دستاویزمیں ذرابھی دم نہیں کیونکہ اُس کی ساری طاقت ختم کردی گئی ہے۔

یورپ میں براہِ راست بیرونی سرمایہ کاری کی اسکریننگ کے حوالے سے تجویزایسے وقت سامنے آئی ہے،جب یورپی یونین کے بہت سے رکن ممالک کے لوگوں کویہ شکایت ہے کہ یورپی ممالک میں توبراہِ راست بیرونی سرمایہ کاری کی اجازت ہے تاہم اس کے مقابلے میں چین میں سرمایہ کاری کی گنجائش دی جاتی ہے نہ کھلی منڈی تک رسائی ہی دی جاتی ہے ۔چین کے بیشتر کاروباری ادارے دراصل ریاستی مفادات کے تابع ہوتے ہیں۔یورپ میں چینیوں کی سرمایہ کاری2008ءمیں 70کروڑڈالرتھی۔ 2017ءمیں یہ 30؍ارب ڈالرکی منزل تک پہنچ چکی تھی۔یونان کی بندرگاہ پیراس میں چینیوں کی سرمایہ کاری اصل بلغراداور بڈاپیسٹ سے ہوتے ہوئے باقی یورپ تک راہداری کومعرضِ وجودمیں لانے کیلئےتھی،مگراب صاف محسوس ہوتاہے کہ اس سرمایہ کاری کے شدیداثرات یونان اورہنگری محسوس کررہے ہیں۔ویسے چینیوں کی بیشترسرمایہ کاری جرمنی،فرانس اوربرطانیہ میں ہے اورزوراس بات پرہے کہ جوٹیکنالوجی امریکاسے حاصل نہ کی جاسکتی ہووہ یورپ سے حاصل کرلی جائے۔دوطرفہ سرمایہ کاری کے حوالے سے معاملہ اُس وقت زیادہ اُجاگر ہواجب جرمنی کے معروف روبوٹکس میکر”کوکا”کوچینی ملکیت کےادارے”میڈیا”نے خریدا۔تجزیہ کاروں کومعلوم ہواکہ جرمن انجینئراب پیپلز لبریشن آرمی کیلئے روبوٹکس تیارکرتے ہیں۔یہ کوئی اچھاسودانہیں تھا۔

اب جرمنی نے بھی براہِ راست بیرونی سرمایہ کاری پرگہری نظررکھناشروع کردی ہے۔اس بات کوسمجھنااب کچھ دشوارنہیں کہ چینی قیادت اورپوری قوم چینی خواب کوشرمندۂ تعبیرکرنے کی راہ پرگامزن ہے۔یورپ کے اپنے آنگن کے نزدیک بحیرۂ اسود اوربحیرۂ روم میں روس کے ساتھ جنگی مشقوں کےپروگرام اورساتھ ہی ساتھ بحیرۂ بالٹک میں بھی مشقوں کےپروگرام،جس کےنتیجے میں متعدد یورپی ریاستیں بھی لرزش محسوس کیے بغیرنہ رہ سکیں ۔یورپی یونین کے حکام بھی اس بات کومحسوس کررہے ہیں کہ چین اب روس کے ساتھ مل کریورپ کومتاثرکرنے والے ماحول میں کام کررہاہے۔ فروری2018ءمیں جرمنی کے دوتھنک ٹینکس نے بھی اپنی رپورٹس میں بتایاکہ چین اب یورپ کےمعاملات پرغیر معمولی حدتک اثراندازہونے کی بھرپورکوشش کررہاہے۔یہ سب کچھ اس قدرواضح ہے کہ یورپی یونین کے پالیسی سازاسے کسی طورنظراندازنہیں کرسکتے۔

جرمن چانسلرنے بلقان کے خطے میں چین کے بڑھتے ہوئے اثرورسوخ کے حوالے سے تشویش کااظہارکیاہے۔میونخ سیکورٹی کانفرنس2018ءمیں جرمن وزیرخارجہ سگمار گیبریل نے چینی صدرشی جن پنگ کے پیش کردہ بیلٹ اینڈ روڈمنصوبے پرتشویش کا اظہارکرتے ہوئے کہاتھاکہ چین ایک ایسانظام تیارکررہاہےجوہمارے نظامِ جمہوریت، انسانی حقوق اورآزادی کے اصولوں کی بنیادپراستوارنہیں۔بہرکیف،چین نے اپنی بھرپور معاشی قوت کوبروئے کارلاکر یورپ میں اختلاف رائے پیدا کردیاہے۔اب بہت سے معاملات پرتمام یورپی طاقتیں ہم آہنگ ہوکربات نہیں کر رہی،مثلاًمارچ 2017ء میں ہنگری نے ایک ایسے مشترکہ خط پردستخط سے انکارکیاجوزیرحراست وکلاپرتشددکے حوالے سے تھا۔جون2017 ء میں یونان نے اقوام متحدہ میں ایک ایسے بیان کی راہ مسدود کر دی،جس میں چین کے انسانی حقوق کے ریکارڈ کی مذمت کی گئی تھی۔ جولائی2016ء میں یورپی یونین کے ایک ایسے بیان کو ہنگری،یونان اورکروشیانے ویٹوکیا،جس میں بحیرۂ جنوبی چین میں چین کے ملکیتی دعوؤں پرتنقید کی گئی تھی۔ان تمام مثالوں سے یورپی یونین کی پالیسیوں پراثرانداز ہونے سے متعلق چین کی صلاحیت کابخوبی اندازہ لگایاجاسکتاہے۔

کئی شعبے ایسے ہیں جن میں یورپ اب بھی واضح طورپربرتری کاحامل ہے۔نئی ہائی ٹیکنالوجی کے حوالے سے یورپ اپنی برتری برقراررکھنے پرپوری تندہی سے کام کررہاہے اوریورپ سمجھتاہے کہ ایساکرناترقی اورسلامتی کے حوالے سے مستقبل کومحفوظ بنانے کی خاطرلازم ہے۔ٹیکنالوجی کی منتقلی کے حوالے سے یورپ بہت زیادہ محتاط ہے۔5۔جی ٹیکنالوجی کے حوالے سے یورپ نے واضح حکمتِ عملی تیارکررکھی تھی اوراس پرمکمل طورپرکنٹرول برقرار رکھے ہوئے تھے لیکن شنیدہے کہ چین اس کامتبادل تیارکرنے میں نہ صرف کامیاب ہوچکا ہے بلکہ اس کی صلاحیت اس سے کہیں زیادہ ہے۔

یورپی یونین پرگہری نگاہ رکھنے والے سیاسی تجزیہ نگاروں کے مطابق ہوسکتاہے کہ یورپی یونین کے حکام کواپنے آپشن بہت زیادہ پرکشش محسوس نہ ہوتے ہوں مگروقت آگیاہے کہ وہ محض تماشائی بنے رہنے کی روش ترک کریں اورمیدانِ عمل میں نکلیں۔یورپ کواب طے کرناپڑے گاکہ مابعدِ جدیدیت کے دورمیں سلامتی اورترقی دونوں حوالوں سے مل جل کرکام کرنے کا طریقہ درست تھایایہ طریقہ ترک کرناپڑے گااوریہ بھی دیکھناپڑے گاکہ یورپی طاقتوں کامل جل کرچلنانئے عالمی نظام کوکسی حدتک بہتربناسکے گایانہیں۔

تاہم چین نے یہ طے کررکھاہے کہ مستقبل میں دنیامیں سپرپاورکہلانے کیلئے جنگ اورجارحیت کی بجائے صلح جوئی سے تجارتی منڈیوں کواپنے حق میں استعمال کرناانتہائی ضروری ہے،اس کیلئے چینی صدرنے2014ء میں یورپی یونین کے صدردفتر کادور کرکے چین اوریورپی یونین کے مابین چاراہم شراکت داریاں قائم کرنے کی ٹھوس تجاویزپیش کرتے ہوئے اپنے مستقبل وژن کاتعارف کروایاجس پروہ آج بھی سختی سے قائم ہے۔گزرتےوقت نے چینی صدرکی پیش کردہ تجاویزکودرست ثابت کردیااور موجودہ حالات میں اس کی عملی اہمیت اوربھی اہم ہوگئی ہے۔

افغانستان سے انخلاء کے فوری بعدچین نے اپنی تجاری دانشمندی سے اس خلاءکوبڑی تیزی کے ساتھ پُرکیاہے اوراب اس خطے میں پاکستان،ایران، افغانستان کے ساتھ تمام ملحقہ ریاستوں میں اپنی تجارتی راہداری قائم کرکے ان ملکوں کی منڈیوں میں اپنا مضبوط مقام بنالیاہے جبکہ امریکانے ایک بارپھریوکرین کے ذریعے روس کونیچادکھانے کیلئے اپنے کچھ یورپی اتحادیوں کی مددسے ایک نئی جنگ کاآغازکردیاہے لیکن جن مقاصدکے حصول کیلئے امریکاپرامیدتھا،وہ فی الحال خاک میں ملتے دکھائی دے رہے ہیں اورخودبین الاقوامی مالیاتی ادارے روس کی معیشت کوپہلے سے بہترقراردیتے ہوئے زمینی حقائق سے متفکرنظرآرہے ہیں جبکہ یوکرین کی جنگ کے آغازمیں سارے یورپ کوروس کی طرف سے گیس کی بندش کی سپلائی کاخدشہ لاحق ہو گیاتھااور یہی وجہ ہے کہ یورپ کھل کرامریکاکاساتھ دینے سے گریزاں نظرآتاہے۔

ادھردوسری طرف آج دنیامیں غیریقینی اورعدم استحکام بڑھتاجارہاہے جس کی وجہ سے چین اوریورپی یونین کے درمیان قریبی رابطے اوراس کےنتیجے میں باہمی تجارتی فوائداورمستقبل کے عالمی چیلنجوں سے نمٹنے کیلئےزیادہ توجہ دی جارہی ہے اورچینی صدرکی دس سال قبل دی گئی تجاویزاورچینی وژن نے ثابت کردیاہے کہ باہمی اتفاق اورتعاون اورملکی ترقی کیلئے اپنے ممالک کے عوام کیلئے خوشحالی کے نئے باب کھولے جاسکتے ہیں جس کیلئے غیر ضروری خدشات سے گھبرانے کی ضرورت نہیں۔یہی وجہ ہے کہ اب چین یورپی یونین کے سب سے اہم تجارتی شراکت داروں میں سے ایک ہے، اوراس کے برعکس عالمی تجارتی مندی کے منفی اثرات کے باوجودچین اوریورپی یونین کے مابین مجموعی تجارتی حجم2023میں783بلین ڈالرتک جا پہنچا ہے جس میں دوطرفہ سرمایہ کاری کااسٹاک250بلین ڈالرسے تجاوزکرچکاہے۔یورپی یونین کا چین کے ساتھ تجارتی خسارہ ہے، چین سے درآمدات برآمدات سے بہت زیادہ ہیں۔ 2023 میں، یورپی یونین نے چین سے 515.9 بلین یورو درآمد کیے، جبکہ 223.6 بلین یورو برآمد کیے تھے اور جاری سال میں اس میں اضافہ کی خبریں آ رہی ہیں۔

چین نے ثابت کیاہے کہ وہ کاروباری تعاون،سائنس اورٹیکنالوجی میں تعاون اورسپلائی میں یورپ کاقابل اعتماد،کلیدی،ترجیحی اورصنعتی شراکت دار بننے کیلئے تیارہے کیونکہ دونوں فریقین باہمی کامیابی اورمشترکہ خوشحالی حاصل کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں اوردونوں کے مابین تعاون ڈیجیٹل معیشت ،سبزترقی اورماحولیاتی تحفظ،نئی توانائی اورمصنوعی ذہانت جیسے ابھرتے ہوئے شعبوں میں تیزی سے آگے بڑھنے کی مکمل صلاحیت ہے۔یورپی یونین چیمبر آف کامرس ان چائنا (ای یوسی سی سی)کی جانب سے جاری کردہ بزنس کانفیڈنس سروے2023ء کے مطابق سروے میں شامل 90 فیصدسے زائد یورپی کمپنیاں چین کواپنی سرمایہ کاری کی منزل بنانے اورسروے میں شامل 80 فیصدسے زیادہ چینی کمپنیاں یورپ میں اپنے کاروبارکو بڑھانے کاہوم ورک مکمل کرچکی ہیں۔

ابھی یورپ اورچین میں اس مساوی نطام کوقابل عمل بنانے کیلئے بات چیت چل رہی تھی کہ اچانک بلومبرگ نیوزمیں خبرشائع ہوگئی کہ چین کی کرنسی یوآن نے روس میں اپناسکہ جماتے ہوئے امریکی ڈالرکوپیچھےچھوڑدیاہے۔2022میں یوکرین پرحملہ کرنے کے بعدروس نے چینی یوآن کوزیادہ ترجیح دیناشروع کردی ہےاوراس سال روس نے زیادہ تربین الاقوامی تجارت ڈالرکے مقابلے یوآن میں کی ہے۔مغربی ممالک کی جانب سے روس پرعائد اقتصادی پابندیوں کی وجہ سے روس کی بڑی کمپنیوں نے غیر ملکی تجارت کے لیے دیگر کرنسیوں پر انحصار بڑھا دیا تھا اور اس میں یوآن نے بازی مار لی ہے۔

یہی نہیں چین نے آگے بڑھ کر روسی اشیا کے لیے اپنی مارکیٹیں کھول دی ہیں تاکہ غیر ملکی کرنسی کے تبادلے میں کوئی پریشانی نہ ہو۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا چین کا یوآن جسے رینمنبی بھی کہا جاتا ہے اب امریکی ڈالر کو برابری کی ٹکر دینے کی تیاری کر رہا ہے؟ یوآن کی ترقی کا تجزیہ کرنے سے پہلے یہ سمجھنا ضروری ہے کہ غیر ملکی کرنسیوں کا دنیا پر غلبہ کب، کیوں اور کیسے ہوا۔

آسان الفاظ میں، کسی بھی ایک غیر ملکی کرنسی کی مقبولیت کا انحصار اس بات پر ہوتا ہے کہ اسے جاری کرنے والے ملک کی معاشی اور سٹریٹجک حالت کتنی اچھی ہے اور عالمی تجارت میں اسے کیا مقام حاصل ہے۔ظاہر ہے کہ جب کوئی غیر ملکی کرنسی مضبوط ہوتی ہے تو دوسرے ممالک کے مرکزی بینک بھی اسے اپنی ’ریزرو کرنسی‘ کے طور پر رکھیں گے۔امریکن انسٹیٹیوٹ فار اکنامک ریسرچ کے پیٹر ارل کے مطابق ’1450 کے بعد سے دنیا نے ’ریزرو کرنسی‘ کے چھ بڑے ادوار دیکھے ہیں، جن میں 1530 تک پرتگال کی کرنسی غالب تھی۔ اسے سپین کی کرنسی نے پیچھے چھوڑ دیا۔

17 ویں اور 18 ویں صدیوں میں نیدرلینڈز (ڈچ) اور فرانس کی کرنسیوں نے عالمی تجارت پر غلبہ حاصل کیا، جسے برطانوی سلطنت کے عروج نے سمیٹ دیا۔ پہلی جنگ عظیم تک برطانوی پاؤنڈ سٹرلنگ زیادہ تر ممالک کی ’ریزرو کرنسی‘ ہوا کرتی تھی۔ لیکن سنہ 1930 کی دہائی کے بعد سے امریکی معیشیت اور عسکری قوت نے اپنی دھاک جمانی شروع کر دی اور ڈالر نے عالمی تجارت میں پاؤنڈ کو پیچھے دھکیل دیا، جو آج تک برقرار ہے۔ اعداد و شمار کے مطابق سال 2008 سے 2022 تک دنیا کی تقریباً 75 فیصد تجارت صرف امریکی ڈالر میں ہوئی ہے اور آج بھی دنیا بھر کے 59 فیصد ممالک کے پاس امریکی ڈالر بطور ’ریزرو کرنسی‘ ہے۔

اگرچہ امریکی ڈالر عالمی تجارت میں آگے بڑھ رہا ہے، بہت سے ممالک نے اپنی غیر ملکی تجارت یا قرض کے لیے دوسرے آپشنز تلاش کرنا شروع کر دیے ہیں۔برازیل کی وزارت خزانہ میں بین الاقوامی امور کی سیکریٹری تاتیانا روسیٹو کے مطابق ’دنیا کے 25 ممالک اس وقت چین کے ساتھ اپنی تجارت یوآن میں کر رہے ہیں‘۔برازیل کی جانب سے تجارت کے لیے امریکی ڈالر کے بجائے یوآن کو غیر ملکی کرنسی کے طور پر استعمال کرنے کے فیصلے کے بعد ہی اس کے پڑوسی ارجنٹائن نے بھی چین کے ساتھ تجارت میں ڈالر کے بجائے یوآن کو استعمال کرنے کا اعلان کیا ہے۔

چین دنیاکاسب سے بڑاترقی پذیرملک ہے اوریورپ کسی بھی دوسرے براعظم کے مقابلے میں زیادہ ترقی یافتہ ممالک کاخطہ ہے۔چین اوریورپی یونین دونوں بکھری ہوئی عالمی معیشت اورتحفظ پسندی کی بڑھتی ہوئی لہرکے سامنے محتاط رہ کرکھلے پن کے ساتھ منصفانہ مسابقت اورآزادتجارت کوبرقرار رکھنے کے لئے ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کررہے ہیں ۔ سلامتی کے تصورکو بڑھاچڑھاکرپیش کرنے سے گریزکی پالیسی اختیار کرتے ہوئے گلوبلائزیشن کے خلاف مشترکہ مزاحمت کے لئے تیاری کے مراحل میں ہیں۔یہی وجہ ہے کہ چین بیلٹ اینڈ روڈانیشی ایٹواورگلوبل ڈیویلپمنٹ انیشی ایٹوکے حصول کے لئے مشترکہ ہدف کے تعاقب میں یورپی یونین اوردیگریورپی ممالک کی فعال شرکت کابھی خیرمقدم کررہاہے اوریورپی یونین کی گلوبل گیٹ وے حکمت عملی کے ساتھ ہم آہنگ ہونے کے لئے بھی تیار نظر آتاہے تاکہ ترقی پذیر ممالک ترقی کے اپنے سفرکو تیز کرنے میں مدد کے لئے متعلقہ طاقتوں سے فائدہ اٹھا سکیں۔بدلتی ہوئی اورغیرمستحکم بین الاقوامی صورتحال کے پیش نظرچین اوریورپ کومزیدتعاون کی ضرورت ہے۔ دونوں فریقوں کوکثیرالجہتی پرعمل کرنے،کھلے پن اورترقی کی وکالت کرنے اورتہذیبوں کے درمیان مکالمے کو آسان بنانے کے لئے مل کرکام کرناہو گا۔انہیں مشترکہ طور پر ایک مساوی اورمنظم کثیرقطبی دنیاکی تعمیرکرناہوگی اورعالمی سطح پرفائدہ مند اورجامع اقتصادی عالمگیریت کوفروغ دیناہوگا۔

قدرت نے پاکستان کوایک بارپھرایک سنہری موقع دیاہے کہ وہ اپنے جغرافیائی وجودکی وجہ سے ان فوائدکوسمیٹ سکے اوراب تک سی پیک پراجیکٹ کی تکمیل میں مجرمانہ تاخیرکافوری ازالہ کرتے ہوئے ایسے ہنگامی اورانقلابی اقدامات اٹھائے تاکہ برادرعرب ممالک کی طرف سے آنے والی سرمایہ کاری کوبھی ایک ایسارخ میسرآجائے جس کے بعدیورپی ممالک کی سرمایہ کاری بھی پاکستان کارخ کرے۔اس کے لئے ضروری ہے کہ ملک میں سیاسی افراتفری اوربدامنی کوختم کرنے کاسازگارماحول پیداکیاجائے اورتمام سیاسی جماعتیں کم ازکم ملکی معیشت پراتفاق کرتے ہوئے ایک ایساباہمی لائحہ عمل تیارکریں کہ ملک میں جوبھی حکومت آئے لیکن ان معاشی اہداف کوکبھی بھی سیاست کی بھینٹ نہیں چڑھایاجائے گا۔
بابااقبال یادآگئے:
اندازبیاں گرچہ بہت شوخ نہیں ہے
شایدکہ اترجائے ترے دل میں مری بات
یاوسعت افلاک میں تکبیرِمسلسل
یاخاک کے آغوش میں تسبیح ومناجات
وہ مذہب مردان خودآگاہ وخدامست
یہ مذہب ملاوجمادات ونباتات

اپنا تبصرہ بھیجیں