خودمختارکشمیرکی سازش

:Share

27فروری کومودی نے امریکاواسرائیل کی بھرپورمددسے جس جارحیت کا آغازکیا،اس سے اگلے ہی دن ان تمام پاکستان دشمن قوتوں کوپاکستانی کی دفاعی اورجوابی حملے  نے سب کو نہ صرف ششدرکردیابلکہ سب کوپتہ چل گیاکہ پاکستان بھارت سے کہیں زیادہ مضبوط ہے اوراس واقعے کے بعد بھارت کو عالمی جگ ہنسائی کااوررسوائی کاسامناالگ کرناپڑا مگرسوال یہ ہے کہ بھارت نے یہ جنگ کیوں چھیڑی؟کیامودی کے موذی پن نے اپنے انتخابات جیتنے کیلئے اس خطے کی تباہی کیلئے یہ خطرناک قدم اٹھایا یااور کچھ بھی اس کے ساتھ بین الاقوامی بساط پرہے۔کسی بھی کھیل یاکاروائی کے پیچھے یہ دیکھاجاتاہے کہ اس کاکس کوکیافائدہ ہوا؟پاک بھارت جھڑپوں کے فائدے کی بات کریں توبات یہ بنتی ہے کہ نقصان فریقین کاہوااورفائدہ امریکا کاہوا۔جنگ کے دعوؤں کی اوٹ میں قصرسفیدکے فرعون ٹرمپ کابیان آیاکہ جلدہی پاکستان وبھارت سے اچھی خبرکی امید ہے،اوراس طرح یہ اچھی خبردنیاکوموصول ہوئی کہ پاکستان نے ”الدعوہ” فلاح انسانیت جیسی رفاعی تنظیم کے فنڈز منجمد کرکے ان پرپابندی کانوٹیفکیشن جاری کردیا۔ کالعدم تنظیموں کوایک مرتبہ پھرکالعدم قراردیکرانہی دشمنوں کوخوش کرنے کاپیغام دے دیاگیاہے۔
کالعدم جیش محمدکوایک مرتبہ پھرکالعدم قرددیکران کے مدرسے کواپنی تحویل میں لیکر68/جن میں اظہرمسعودکے بھائی مفتی عبدالرؤف اوران کے بیٹے حماد اظہربھی شامل ہیں اوردوسری طرف مقبوضہ کشمیرمیں بھارتی درندوں کی جارحیت میں اضافے سے شہادتوں کاسلسلہ تیزہو گیا ہے۔پاکستان میں کالعدم تنظیموں کے خلاف کریک ڈاؤن کی آڑمیں بھارت مقبوضہ کشمیرمیں خون کی ہولی کھیلنے میں جس قدر آزادہوتاجائے گا،وہ اسی قدرامریکاکوپیغام بھیجے گاکہ ”رام تیرابھلا کرے”۔اس دوطرفہ صفائی کے عمل کے ساتھ ہی اب کشمیرکامسئلہ حل کراکر بھارت تنازع کوختم کرکے ان دونوں ملکوں میں امن کی آشا کے نام پرایٹمی قوت سے پاک وصاف کردیاجائے گاکہ جب تنازع ہی نہیں رہاتو ایٹمی ہتھیاروں کی بھی ضرورت نہیں۔اس کیلئے ایک نیا منصوبہ ترتیب دیاگیا ہےکہ کنٹرول لائن جوعبوری سرحدکادرجہ رکھتی ہے،پاک بھارت کی ایک محدودجنگ کروادی جائے جوبین الاقوامی سرحدکی خلاف ورزی کی زدمیں نہیں آتی اورنہ ہی بین الاقوامی سرحدوں کومتاثر کرے گی۔
کنٹرول لائن کی صورتحال آؤٹ آف کنٹرول ہونے کی صورت پرامریکا،یورپی ممالک اوراقوام متحدہ مداخلت کرکے کشمیرکی خودمختاری کے نام پراسے عارضی کنٹرول میں لیکرجنوبی سوڈان کی طرزپرعالمی فوج کے سپردکردیاجائے گا،اس طرح یہ ریاست کشمیرامریکاکے تابع ہوگی جس طرح انڈونیشیامیں مشرقی تیمورکی بنیادرکھی گئی۔خودمختارکشمیر،گلگت،بلتستان،آزادکشمیراور جموں کے سوا پورامقبوضہ کشمیرشامل ہوگا۔بھارت کوجموں انعام میں دے دیاجائے گا۔یہ وہی منصوبہ ہے جو1964ء میں پنڈت جواہرلال نہرونے کشمیری لیڈرشیخ عبداللہ کے توسط سے صدر ایوب کو بھجوایا تھا جسے ایوب خان نے مستردکردیاتھا۔اس محدودجنگ سے چین کامحاصرہ بھی فول پروف ہوجائے گا۔ وسطی ایشیامیں امریکی اثرات اور تسلط مزید مضبوط ہوجائے گااور افغانستان سے اٹھنے والے اخراجات پربھی نظررکھی جاسکے گی۔چین امریکاکے اس ناپاک منصوبے کوبھانپتے ہوئے پاک بھارت جنگ کی بجائے ان دونوں جوہری طاقتوں کے درمیان مفاہمت چاہتاہے۔
گلوبل ٹائمزمیں شائع ایک مضمون میں بیجنگ کاایک پیغام شائع ہواہے جس میں اس نے کہاہے کہ ”اسے پاک بھارت دونوں کامفادعزیزہے لہنداچین کیلئےان دونوں ممالک میں سے کسی ایک کی کی طرف داری ممکن نہیں”۔اس دوسطری پیغام میں دونوں ممالک کوجنگ کی بجائے سلامتی کاراستہ اپنانے کامشورہ دیتے ہوئے کہاگیاہے کہ کوئی بھی ملک کسی خوف یا آسرے میں جنگ کانہ سوچے جومکمل تباہی کاسامان  ہواکرتی ہے۔چین کے ادارہ بین الاقوامی تعلقات سے وابستہ تحقیق کار فیوزیاؤ کیانگ نے کہاہے کہ دونوں ممالک کے درمیان مصالحت کرانے یاثالث کا کردارادا کرناچین کیلئے موجودہ صورتحال میں بھی مشکل ہوگا۔
یہ بات پریشان کن اورامریکی منصوبہ کا حصہ ہی سمجھی جارہی ہے کہ”اوآئی سی” کے وزرائے خارجہ کے46ویں اجلاس کے اختتام پرجوپچاس نکاتی اعلامیہ جاری کیاگیااس میں کشمیر کاسرے سے کوئی تذکرہ نہیں کیاگیا اور بھارتی وزیرخارجہ اس اجلاس میں مہمان خصوصی کے طورپرشریک ہوئیں بلکہ انہوں نےاجلاس  سے خطاب بھی کیا۔اعلان ابوظہبی میں نکتہ 13/14/15میں فلسطین کاذکرتوکیاگیالیکن مسئلہ کشمیر کواسلامی تنظیم کے وزارتِ خارجہ سے یکسرباہرکرکے پاکستان کویہ پیغام دیاگیاکہ یہ اب ان کا مسئلہ نہیں اور یوں پاکستان جو اس تنظیم کانہ صرف بانی رکن ہے بلکہ اس تنظیم کی تشکیل میں بھی اس کااہم کرداررہا،اس کی تنہائی کے احساس کواجاگرکرکے خودمختارکشمیرکے منصوبہ ساز کوبتایاگیاکہ ہم اس بارے میں پاکستان کے ساتھ نہیں اوربھارتی پائلٹ کی رہائی کوسراہتے ہوئے توقع ظاہرکی گئی کہ اس سے خطے میں موجودہ کشیدگی کے خاتمے میں مددملے گی۔
امریکانے پرویزمشرف کے دورمیں بھی اسی نہرومنصوبے 1964ء کوآگے بڑھایاتھاجس پر پرویز مشرف نے آگرہ کادورۂ کیا۔ واجپائی اورمنموہن سے گفتگوجاری رہی مگرممبئی حملوں نے سارے منصوبوں پرپانی پھیردیا۔نہرومنصوبے کے بعدبھارت نے 1965ء کی جنگ چھیڑکربزورمعاملہ نمٹاناچاہامگروہاں بھی بھارت کوناکامی اورشرمندگی ہوئی  اوراب معاشی لڑائی شروع کردی گئی ہے اوراب امریکااپنے مفادات کیلئے خطے میں بھارتی بالادستی کاخواب دیکھ رہاہے۔پہلے امریکا بھارت کولگام دینے کیلئے پاکستان پرانتہائی مہربان تھامگراب چین کی معاشی قوت کی بالادستی کوکنٹرول کرنے کیلئے بھارت کواس خطے کی بالادستی کیلئے شب وروزکام کررہاہے یایوں کہہ لیں کہ اپنے مفادات کیلئے بھارت کی قربانی درکارہے اورپاکستان نے جس نے امریکاکوچین تک راہداری فراہم کی تھی ،اب وہ ناپسندیدہ ہے کہ وہ خودمختارنہ بنے اوراسلامی ریاست کاتصوربھی چھوڑدے۔
اب پاکستان میں ہونے والے اقدامات بتارہے ہیں کہ کل خیرنہیں ہے اورتبدیلی کاعمل بتارہاہے کہ کچھ کھچڑی پک رہی  ہے اورموجودہ حکومت، مدینہ کی ریاست بنانے کوجودعویٰ کر رہی ہے ،وہ رسول اللہ ۖکی ہجرت سے پہلے والامدینہ توہوسکتاہے مدینتہ الرسول ہرگزنہیں۔اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ بات بڑھ کرنظریہ پاکستان پرحملہ آورہوچکی ہے۔شہہ رگ پاکستان کشمیرکودبوچنے کی عالمی سازش پنپ رہی ہے اورایٹمی اثاثے خطرے میں ہیں۔امریکا،ایران،انڈیااوراسرائیل سب اس معاملے پرمتفق نظرآرہے ہیں۔ایران اسرائیل کے درمیان تنازعہ بالکل ایسانظرآتاہے جیسے ہمارے ہاں نوازشریف اورزرداری اختلافات ہیں اورامریکاکاکردارمولانافضل الرحمان جیساہے۔ دشمن اپنی چالیں چل رہاہے مگراللہ کی اپنی چال ہے جوغالب ہونے کیلئے ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں