عصائے کلیمی

:Share

کہاں ہیں وہ سیاسی پنڈت،عا لمی مخبر،بین البراعظمی تجزیہ نگار اورمقا می دانشورجووحشت ناک موسموں کی داستانیں بیان کرنے میں یدطولیٰ رکھتے ہیں اورروزانہ اپنے خوفناک پروپیگنڈے سے لبریززبان سے شعلے اگلتے رہتے تھے ۔صرف چارسال قبل دنیا کے کسی بڑے اخباریارسالے کو اٹھا لیں،کسی عالمی حالات حاضرہ کے ماہرکامضمون پڑھ لیں یاپھرکسی ملکی تجزیہ نگارکی گفتگو ملاحظہ کریں،یہ سب ایک آنے وا لے خوف اورگھروں پردستک دینے والی آفت کی نشاندہی کرتے نہیں تھکتے تھے۔نیٹو افواج کا پاکستان میں گھسنے کاپروگرام،مشرقی سرحدپرہندوستان کی گولہ باری، بلوچستان میں دونوں اطراف سے سوچے سمجھے منصوبے کے تحت مداخلت،کراچی کو جناح پورکانام دیکرنیاہانگ کانگ بنانے کاخواب،فاٹااورملحقہ علاقوں کوعملاً نو گوایریااورسوات اورمالاکنڈپرقبضے کے بعداسلام آبادپریلغارکاخواب اورباقی ملک کےکئی حصوں میں دہشتگردی اورخودکش حملوں کاعذاب، این آراوکے نام پرنام نہادسیاسی سیٹ اپ کے ذریعے ملکی دولت کی بے دریغ لوٹ کھسوٹ نے مملکت خدادادکی چولیں تک ہلاکررکھ دیں تھیں ۔وہ جوکل تک اس مملکت خداداد پا کستان کےمطلق العنان حکمرانوں کوامریکاکاساتھ دینے پرشاباش دیاکرتے تھے ان کی دہشتگردی کے خلاف جنگ میں پالیسیوں کوسراہا کر تے تھے،آ ج ان کی زبانیں بھی ایک لفظ بولتی پھرتی ہیں”ہم عالمی طا قتوں کی دہشتگردی کے خلاف جنگ میں حلیف نہیں رہے اورضربِ عضب نے توکایاہی پلٹ دی ہے۔
یہ سیاسی پشین گوئیاں کوئی آج شروع نہیں ہوئیں۔مغرب کودیکھا جائے تومدتوں بڑے بڑے انسٹیوٹ اورتھنک ٹینک حکومتی پیسوں اور خصوصی مالی امدادسے میرے ملک کے مستقبل کے بارےمیں اپنی ترجیحات بناتے رہے،منصوبہ بندیاں کر تے رہے اورموٹی مو ٹی رپورٹیں مرتب کر تے رہے۔کوئی۲۰۲۰ء،کوئی ۲۰۲۰ء،کوئی۲۰۱۵ء اورکوئی ۲۰۱۰ء تک اس نازک اندام مملکت کامستقبل دیکھتا رہاتو کسی نے خوبصورت نقشوں میں رنگ بھرکراس ملک کاجغرافیہ مرتب کیا ۔اسے نقشے پراپنی مرضی سے ایسے تقسیم کیا جیسے سا لگرہ کا کیک کاٹاجاتاہے۔ اپنے منصوبہ کواپنی خواہشوں اور اپنے خوابوں کوعمل کی صورت دینے کاوقت آیاتوجوان منصوبوں اور سکرپٹ میں مرکزی کردارتھے انہوں نے ریہرسل کے طورپراپنی اپنی لائنیں دہرانا شروع کردیں ۔کسی نے جغرا فیہ تبدیل ہونے کی دہمکی دی،تو کسی نے اس دہمکی پراپنی جوابی تقریر میں سردھنا،کھل کرداددی لیکن وہ جنہیں آنے والے دنوں کی سنگینی کااندازہ تھاان کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں۔ ان کی راتیں اضطراب اور دن بے چینی سے گزررہے تھے،جوتنہائیوں میں اپنے رب کے حضورسربسجوداپنے شہداء کے خون کا واسطہ دیکر ملک کی سلامتی کیلئے گڑگڑارہے تھے،وہ اب بھی اپنے رب سے مناجات میں مصروف ہیں!
لیکن وہ کہ جن کے بارے میں میرے رسول مخبرصادق ۖنے کہاتھا کہ’’مومن کی فراست سے ڈرو،اس لئے کہ وہ اللہ کے نور سے دیکھ رہاہوتا ہے‘‘ا نہوں نے مہینوں پہلے اس سا نحے سے آگاہ کردیاتھالیکن انہیں ایک بات کایقین تھاکہ سب کچھ ہماری بہتری کیلئے ہونے والاہےلیکن زندگی سے محبت اورموت کاخوف رکھنے وا لے مجھ پرٹوٹ پڑے جب میں نے اس مردِدرویش کی بات کھول دی لیکن کیاکو ئی سیدالانبیاکی اس حد یث کوجھٹلاسکتاہے ۔آپ ۖ نے فرمایا’’ایساہوگا کہ دنیا کی قومیں تم سے لڑنے کیلئے اکٹھی ہوجا ئیں گی اورایک دوسرے کو ایسے بلا ئیں گی جیسابھوکے ایک دوسرے کوکھانے پربلا تے ہیں”۔ایک شخص نے عرض کیا کہ یہ اس لئے ہوگا کہ ہم تعداد میں کم ہوں گے اوردشمن زیادہ؟ فرمایا’’نہیں،مسلمان تواس وقت بہت ہوں گے مگرایسے ہوجائیں گے جیسے دریا کے بہا ؤپرپڑاہواکوڑاکرکٹ،دریا جدھربہتاہے ادھرہی بہہ
جا ئے،تمہارے دشمنوں کے دلوں سے تمہا ری ہیبت نکل جائے گی اورتم”وہن”کاشکارہو جاؤگے”۔کسی نے پوچھا کہ”وہن”کیاہوتاہے؟ آپ ۖ نے فرمایا کہ”دنیاکاعشق اورراہ حق میں موت کوناخوش جاننا اوراس سے بھا گنا”۔
میرے رسول مخبرصادق ۖکی صداقت پرایما ن کی حدتک یقین کرنے والےجانتے ہیں کہ ہم اس بیماری کاشکارہیں۔وہ خوف جس سے ہم نائن الیون کے موقعے پر اپنی غیرت، حمیت،وقاراورعزت وناموس بیچ کرنکلے تھے کہ ہماراتورا بورانہ بن جائے،ہم نے سا ت سال کی جس مہلت میں کامیابیوں کے ڈنکے بجائے،اس کی بنیادوں میں کتنے بے گناہوں کاخون تھا ہمیں شایدیادتک نہ ہو؟لیکن وہ تواس وقت بھی بھوکے بھیڑیوں کی طرح ہم پرچڑھ دوڑنے کاارادہ رکھتے تھے،اپنے مضمونوں میں،اپنی رپورٹوں اور تبصروں میں ہمارامقدمہ کھول کھول کربیان کرتے پھرتے تھے کہ اسی سر زمیں سے ۷۵ہزارپروازیں ہوئیں اور افغانستان کے بے گناہ اور مظلوموں کے جسموں کے پرخچے اڑادیئے گئے۔چھ سوسے زیادہ خطرناک افرادپکڑکردشمنوں کے حوالے کئے گئے لیکن اس ساری مہلت میں جومیرے ملک پرگزری اس کی داستان کوئی بیان نہیں کرتا؟ واناوزیرستان سے لیکرسوات تک اورکراچی سے لیکربلوچستان تک گرتی تڑپتی لاشوں کاکوئی تذکرہ نہیں کرتا؟لاکھوں بے گناہ بے گھرقبائلیوں کاکوئی ذکرکسی انسا نی حقوق کی رپورٹ میں موجود نہیں۔وہ جواپنی جان سے گئے،بے گھر ہوئے،دربدرہوئے،وہ جن کے گھربموں کی زدمیں رہے،جن کے پیارے لاپتہ ہو گئے،وہ ڈومہ ڈولہ کے مدرسہ میں قرآن پڑھنے والے معصوم اوربیشتر یتیم بچے جن کاتورابورابنادیاگیا،ان کیلئے کسی مغربی انسا نی حقوق کی تنظیموں کے ماتھے پرشکن تک نہیں آئی،ان کیلئے امریکی افواج بھی آجاتیں تواس سے زیادہ کیابرا کرتیں لیکن اب تو ان ظالموں کی مہلت ختم ہواچا ہتی ہے جوان چند برسوں سے اس بات پرخوش تھے کہ ہماری دانشمندی نے ہما رے مال اسباب، شان و شوکت اورعیش و عشرت کوبچالیا،اب سعودی عرب کے توسط سے ملاقات کے خواہاں تھے لیکن سخت مایوس ہوکراپنے اسی آقاکے آگے جبینِ نیازجھکانے کیلئے پہنچ گئے ہیں جنہوں نے این آراوکا چراغ جلاکرواپسی کاموقع فراہم کیاتھا۔ ضربِ عضب کے بعداب مو ت کا خوف اورزندگی سے محبت انہیں چین سے جینے نہیں دے رہی لیکن صاحبان نظر مطمئن ہیں کہ انہیں علم ہے کہ اس قوم کے دل سے مو ت کاخوف نکالنا اورراہ حق میں جان دینے کی محبت ہی ان کا علاج ہے۔
آج سے ایک سال پہلے کوئی کہتا کہ ہم کمزورہیں،امریکاطاقتورہے تومیں یقین کرلیتالیکن میرے اللہ پریقین اورموت سے محبت کی ایک داستان اس وقت رقم ہوئی جس نے سیاسی اورجنگی پنڈتوں کے تمام اندازے ملیامیٹ کردیئے۔صرف سا ڑھے تین ہزارحزب اللہ کے جانثارجن کی زبان پرصرف اللہ اکبراور دل موت کے خوف سے آزاد،انہوں نے ایک ایسی قوت کوشکست فاش دی جس کے بارے میں امریکی جنگی ماہرین کہتے ہیں کہ ہمارادفاعی نظام بھی ایساہی مضبوط ہونا چاہئے۔ان کے تین شہر خالی ہوگئے۔ان کے پانچ لاکھ لوگ بے گھرہوگئے،شکست بلکہ طاقت اورامریکا کی مکمل حمائت ومددکے باوجودذلت آمیز شکست مقدربن گئی۔افغانستان میں بھی رسوائیاں سمیٹنے کے سواکچھ ہاتھ نہ آیااوراب ہارٹ آف ایشیاکا نفرنس کاانعقادکامقصدبھی یہی تھا کہ کس طرح اس کمبل سے جان چھڑائی جائے ۔
کیسے مان لیاجائے کہ مشیران قومی سلامتی کی بنکاک میں ملاقات،سشماسوراج کادورۂ پاکستان میں کمپری ہنسیومذاکرات کااعلان،آئندہ پاکستان میں منعقدہونے والی سارک کانفرنس میں شرکت کااعلان،افغانستان میں شعلے اگلنے کے بعد چند گھنٹوں کیلئے مودی کی لاہورآمد،یہ سب کچھ پیرس میں ڈیڑھ منٹ کی ملاقات کا فوری نتیجہ ہے؟دراصل صاحبان نظرمطمئن ہیں کہ اس قوم سے موت کاخوف اترنے کے دن آرہے ہیں اورجنہیں زندگی سے محبت ہے ان کاانجام بھی قریب۔ جب ایسا وقت اورایسی کیفیت کسی قوم پراترتی ہے تو وہ بڑی سے بڑی عالمی طاغوتی طاقتوں کاقبرستان بن جاتی ہے۔میرے رسول اکرم محمد ۖ کواسی لئے تو اس خطے سے ٹھنڈی ہواآیاکرتی تھی۔
سجنو!میرے اللہ کی طاقتوں کاکوئی شریک نہیں۔ایک یقین کی توبات ہے جوبھی بڑھ کراس یقین کی لاٹھی کوپکڑلے اسی کیلئے عصائے کلیمی ہے۔

خلقِ خداہے اورتقاضائے مصلحت
سب جانتے ہیں اورکسی کوخبرنہیں

اپنا تبصرہ بھیجیں