پہلگام کے سائے میں ہندوپاک کی نئی داستاں
جب تاریخ قلم اٹھاتی ہے،تومحض واقعات کاردیف قافیہ مرتب نہیں کرتی،بلکہ زمانے کے دھڑکتے ہوئے نبضوں کوالفاظ کے قالب میں ڈھالتی ہے۔جب تاریخ کی زلفِ پریشاں میں خون کی مہک بسی ہواورسیاست کی پیشانی پربارودکی لکیرابھرآئے،تب ایک معمولی واقعہ بھی تاریخ کارُخ موڑدیتاہے۔پہلگام حملہ،جس نے دونوں ملکوں کوکشیدگی کے نازک پل پرلاکھڑاکیا، محض ایک عسکری جھڑپ نہیں بلکہ اس کے پس منظرمیں کئی تہیں چھپی ہیں۔پہلگام کے دھماکہ خیزلمحے نے ایک بارپھربرصغیرکے دوایٹمی ہمسایوں—بھارت اور پاکستان—کواس موڑپرلاکھڑاکیاجہاں ایک لفظ،ایک گولی یاایک پرچم کی جنبش پوری دنیاکے امن کولرزاسکتی ہے۔یہ صرف سرحدوں کی گرج نہیں تھی،بلکہ دلوں کے دھڑکنے،ذہنوں کے جلنے اوربیانیوں کے بننے بگڑنے کاموسم تھا۔گزشتہ دنوں ایک ٹل جانے والی قیامت کاہرنکتہ نہ صرف حالیہ تناظرکااحاطہ کرتاہے بلکہ ماضی کی گواہی بھی ساتھ لیے ہوئے چیخ چیخ کرعبرت دلا رہاہے۔
مئی2025ءکے آغازپرہونے والے اس چارروزہ تنازع میں پاکستانی فوج نے نہ صرف اپنے دشمن کومنہ توڑجواب دیابلکہ یہ یقین بھی دلادیاکہ وہ اب محض دفاعی قوت نہیں بلکہ حکمتِ عملی سے لیس ایک مربوط عسکری ادارہ ہے۔یہ مظاہرہ پہلی بارنہیں تھا۔1965اور 1999کی جنگیں اس حقیقت کابین ثبوت ہیں کہ پاکستانی فوج،عددی لحاظ سے بڑے دشمن کےخلاف بھی مؤثردفاع کرسکتی ہے۔
اس باربھی،بھارت کوجس برق رفتاری،ٹیکنالوجی،اورغیرمتوقع ردِعمل کاسامناکرناپڑا،وہ عسکری اصطلاح میں جنگی مہارت میں “حیران کن کارکردگی” ثابت ہواہے جس سے پاکستانی فوج کے عسکری اعتمادنے جہاں بھارت اوراسرائیل کوناکوں چنے چبوائے وہاں اس کے اتحادیوں کیلئے بھی حیران کن ثابت ہواہے۔
پاکستانی عسکری قوت نے اس جھڑپ میں وہ کچھ دکھایاجوبسااوقات عسکری نظریے کی نصابی کتابوں میں بھی صرف تصورہی کی حدتک موجودہوتاہے۔ فوجی توازن کے عالمی پیمانوں پراگرچہ پاکستان کوعددی برتری حاصل نہیں،مگرجس جرأت،چابکدستی اور حکمت عملی سے اُس نے بیک وقت کئی محاذوں پراپنی موجودگی کااحساس دلایا،وہ بھارت کیلئےناقابلِ تصورتھی۔اس عسکری رسوخ نے داخلی طورپربھی ایک نئی جہت کوجنم دیا۔
جنرل عاصم منیر،جوکبھی سیاسی پس منظرکی دھندمیں تنقیدکے نشترسہہ رہے تھے،آج اسی فوجی کامیابی کے صدقے ایک مقبول قومی علامت کے طورپر ابھرے ہیں۔اُن کی قیادت میں پاکستانی افواج نے نہ صرف دشمن کی عسکری پیش قدمی کوروکنے میں کامیابی حاصل کی،بلکہ عالمی سطح پرپاکستان کے مؤقف کواجاگرکرنے کی مہم میں بھی پیش پیش رہی۔
ادھردوسری طرف چین کی خارجہ پالیسی کی بنیادی روح”توسیع نہیں،تسلط”پرمرکوزہے۔ وہ براہِ راست مداخلت کی بجائے اپنے اتحادیوں کے ذریعے طاقت کامظاہرہ کرتاہے۔پاکستان اس پالیسی میں اس کاسب سے بڑاتزویراتی ہتھیارہے۔اس واقعہ کے جغرافیائی اثرات محض دہلی اور اسلام آباد تک محدود نہیں رہے۔ چین،جوپہلے ہی لداخ کے دُھندلکوں میں بھارت سے نبردآزماہے،اب پاکستان کی دفاعی کارکردگی کواپنے حق میں ایک مظبوط دلیل کے طورپر دیکھ رہاہے۔لداخ میں بھارت سے تناؤ،تائیوان میں امریکی حمایت یافتہ خودمختاری کی تحریک،اوربحیرہ جنوبی چین میں نیوی کی مشقیں—ان تمام محاذوں پر چین اب ایک نئی”ملٹری ٹیکنالوجیکل پاور”کے طورپر ابھررہاہے۔
چین،جوخطے میں اپنی بالادستی کے خواب کوحقیقت میں ڈھالنے کیلئےکوشاں ہے،پاکستان کی عسکری مستعدی کواپنے لیے تقویت سمجھتاہے۔لداخ اور گلوان میں بھارت کے ساتھ پہلے ہی اس کاتناؤجاری ہے۔ایسے میں پاکستانی فورسزکاحوصلہ،بہادری،تجربہ کاری کا دفاعی ردعمل چین کیلئےجہاں ایک تزویراتی اتحادی کی حیثیت رکھتاہے وہاں چین کی قوت کوتقویت اور عالمی طاقتوں کی نئی صف بندی کے وکٹری سٹینڈپربرتری کے درجے پرکھڑاکردیاہے۔پاکستان کی دفاعی حکمتِ عملی،چین کے اس مفروضے کوتقویت بخشتی ہے کہ جنوبی ایشیامیں بھارت کی عسکری بالادستی اب ایک خوابِ نیم شب ہوچکی ہے۔
بیلٹ اینڈروڈمنصوبہ ہویاسی پیک،چین کی سوچ معاشی راستوں سے فوجی راہداری تک جاپہنچی ہے۔اس حالیہ تنازع میں پاکستان کی مستعدی نے چین کوایک ایسادفاعی”کلیمور”فراہم کیا ہے جونہ صرف بھارت کی توسیع پسندی کوچیلنج کرتاہے بلکہ امریکاکوبھی یہ پیغام دیتاہے کہ ایشیااب یک قطبی نہیں رہا۔یہ وہی مثلث ہےجو1971میں امریکا،چین اورپاکستان کے درمیان دکھائی دی تھی،جب ہنری کسنجرنے پاکستان کے ذریعے چین کا دورہ کیاتھا۔آج بھی وہی رشتہ نئی شکل میں قائم ہے۔یوں یہ تنازع صرف دوہمسایہ ممالک کے درمیان ایک وقتی کشیدگی نہیں،بلکہ عالمی طاقتوں کی صف بندی کاایک آئینہ بھی ہے۔
یادرہے کہ بھارت نے گزشتہ کئی برسوں میں پاکستان سے سفارتی فاصلہ رکھنے کی پالیسی اختیارکی تھی لیکن حالیہ کشیدگی نے اسے ایک بارپھراس دائرے میں کھینچ لیاہے جہاں اسے پاکستان کوبراہ راست جواب دیناپڑتاہے۔یہ خارجہ پالیسی کی وہ لغزش ہے جس کااندازہ نہروکے دورمیں بھی ہواتھاجب1962کی چین-بھارت جنگ میں بھارت کوعالمی حمایت حاصل کرنے کیلئےعجلت میں فیصلے کرنے پڑے۔
سیاست میں لفظ بھی ایک ہتھیارہے،اوربیانیہ وہ میزائل جودلوں اوراذہان کونشانہ بناتاہے۔اس کشمکش میں جہاں بھارت کے وزیراعظم نریندر مودی اپنی تقریروں میں”سندور”کی قسم کھاکرقوم پرستی کے دیوتاکوپکاررہے تھے،وہیں پاکستان نے اقوامِ عالم کے سامنے اپنا مؤقف پیش کیاکہ دہلی خودخطے کوجنگ کے دہانے پرلارہاہے۔مودی کایہ کہناکہ”میری رگوں میں سندوربہتا ہے “ایک مذہبی علامت سے زیادہ،سیاسی اسلحہ تھاجس سے بھارت کی داخلی سیاست کو گرمایاگیالیکن سوال یہ ہے کہ کیاقومی مفادات کے محافظین کے ہاتھ میں جذبات کی شعلہ بیانی ایک محفوظ ہتھیارہے؟
نریندرمودی کاانتخابی جلسے میں وہ بیان کہ”میری رگوں میں سندوربہتاہے…سکھ چین سے روٹی کھاؤورنہ میری گولی توہے ہی، صرف ایک سیاسی نعرہ نہیں بلکہ خطے کی ایٹمی سلامتی کے منہ پرایک کھلاطمانچہ ہے جس کے ذریعے مذہبی جذبات کوہوادے کر قوم پرستی کاپرچم بلندکیاگیالیکن نہ تویہ طرزِخطاب تاریخ میں نیانہیں بلکہ اس کاشرمناک انجام بھی تاریخ نے محفوظ کر رکھاہے تاکہ دنیااس سے عبرت حاصل کرے۔اس طرح کی دہمکی آمیز،بازاری اورمعاندانہ زبان نہ صرف بین الاقوامی آدابِ سیاست کی توہین ہے بلکہ اقوامِ متحدہ کے چارٹرکی روح کی بھی منافی ہے۔ایسی زبان،ایسی سنگینی،ایک ایسے وقت میں جب خطہ پہلے ہی کشیدگی کے شعلوں میں گھراہو،غیرمعمولی تشویش کاباعث بن گئی ہے۔عالمی میڈیا،سفارتی حلقے،اورامن پسند قومیں اس طرزِبیان پرحیران ہیں کہ ایک ایٹمی ریاست کاوزیراعظم کس بے باکی سے جنگی ترانے گاتاہے۔
تاریخ میں اگرچہ سیاست دانوں نے جرات آمیزالفاظ کہے ہیں،مگرکبھی بھی اس حدتک شخصی انتقام کی آگ کوانتخابی ایندھن نہیں بنایاگیا۔اندراگاندھی نے1971میں مشرقی پاکستان کے خلاف جنگ سے قبل بھی اسی قسم کی تقاریرکی تھیں اور1971میں اندراگاندھی نے بنگلہ دیش کے تناظرمیں تلخ بیانات ضروردیے تھے،مگرایسی دہمکی آمیززبان استعمال کرنے سے انہوں نے بھی گریزکیاتھا۔مودی کی تقاریر،اس کے برعکس،ہندوتوانظریے،نفرت،اورذاتی غرورکاپرچاربن چکی ہیں۔انتخابات جیتنے کیلئے مودی کایہ نیاڈرامہ کوئی نیا نہیں،اس سے قبل بھی وہ گجرات کے قصاب کے نام سے مشہورہے جب اس نے بطورانڈین گجرات کے وزیراعلیٰ ہوتے ہوئے مسلمانوں کے قتل عام کانہ صرف حکم دیابلکہ ایک سازش کے تحت اب بھی انڈیامیں مسلمانوں کے خاتمے کیلئے کھلم کھلابیان بازی کرتارہتاہے۔
مودی کی گولی والی دھمکی نہ صرف اسی سیاسی سکرپٹ کاحصہ ہے بلکہ اس کی مکاری اورذہنی بیماری کی نشاندہی بھی کرتی ہے کہ ایٹمی ملک کے ایسے شدت پسند سربراہ سے دنیاکوکس قدر شدیدخطرات لاحق ہوسکتے ہیں۔بھارت کے اندرکانگریس جیسی جماعتیں اس موقع پربی جے پی کی خارجہ پالیسی کوتنقیدکانشانہ بناتے ہوئے اس ساری صورتحال کو بی جے پی کی خارجہ پالیسی کی ناکامی سے تعبیرکررہی ہیں۔وہ یہ دعویٰ کررہی ہیں کہ بھارت کی سفارتکاری،جوکبھی ایک عالمی مثال ہوا کرتی تھی،آج ردِعمل اوراشتعال انگیزی کی راہوں پرگامزن ہے اوربھارت کی جارحانہ پالیسی درحقیقت اس کے عالمی تنہائی کاباعث بن رہی ہے۔یہ احتجاج اس بات کی گواہی دیتاہے کہ معاملہ صرف عسکری یاسفارتی نہیں،بلکہ داخلی سیاسی حرکیات کابھی عکاس ہے۔خارجہ پالیسی کاناکام ہونا درحقیقت اندرونی سیاسی کشمکش کااظہارہے۔2002 میں گجرات فسادات کے بعدبھی بھارت کو سفارتی سطح پرمشکلات کاسامناکرناپڑاتھااورآج تک بھارت کے چہرے کی بدترین کالک کے طورپرتاریخ میں رقم ہوچکاہے۔
پاکستان اوربھارت دونوں جوہری طاقتیں ہیں اوران کے درمیان بڑھتی ہوئی کشیدگی دنیابھرکیلئےلمحۂ فکریہ ہے۔کارگل جنگ کے دوران بھی عالمی برادری نے بروقت مداخلت کی تھی تاکہ دوایٹمی ریاستیں کسی حماقت میں نہ پڑجائیں۔کیاہم آج بھی اُسی دہلیزپر کھڑے ہیں؟کیابرصغیرایک بارپھرتاریخ کی بھٹی میں جھونکاجائے گا؟
رافال”بمقابلہ”جے10سی”کا موازنہ دراصل صرف طیاروں کانہیں بلکہ دونظریات کاہے۔فرانس سے حاصل کیے گئے رافال اورچین سے لیے گئے جے10سی اس بات کی علامت ہیں کہ دونوں ممالک ٹیکنالوجی کے میدان میں اپنے اپنے اتحادیوں کے ساتھ وابستہ ہیں۔ جہاں ایک طرف”رافال”بمقابلہ”جے10سی” کی ہوائی جھڑپوں پردنیا کی نظریں مرکوز ہیں،وہیں سوال یہ بھی جنم لیتاہے کہ آیایہ سب ایٹمی جنگ کے دہانے کی طرف پیش قدمی ہے؟کیابرصغیرکی فضاؤں میں گونجتی ہوئی جنگی گرج مستقبل کی امن فاختاؤں کوہمیشہ کیلئےخاموش کردے گی؟
پاکستان میں گرائے گئے اسرائیلی ساختہ ہاروپ کامی کازڈرون ہویابراہموس میزائل کاراستہ بھٹک جانا—یہ سب نئی جنگی حکمتِ عملی کاحصہ ہیں،جہاں انسان کم اورمشینیں زیادہ بولتی ہیں ۔یہ دراصل چوتھی نسل کی جنگ(فورتھ جنریشن وارفیئر)ہے جہاں دشمن کا چہرہ دھندمیں چھپاہوتاہے اورحملہ خاموش ہوتا ہے ۔ہاروپ ڈرون اب محض جاسوسی نہیں کرتے بلکہ وہ “لوئٹیرنگ ایمونیشن”جیسے خفیہ ہتھیاروں میں تبدیل ہوچکے ہیں جوفضامیں شکارکی تلاش میں گردش کرتے ہیں۔یہ حکمتِ عملی نہ صرف دفاع بلکہ نفسیاتی برتری کابھی ایک آلہ بن چکی ہے ۔ان ڈرونزکے ناقابل تسخیرہونے کے اسرائیلی جنگی مافیاکو شدید دھچکاپہنچاجب اس کاساراجنگی غرورخاک میں مل گیااورپاکستان نے نہ صرف درجنوں ڈرون مارگرائے بلکہ نصف درجن ڈرونزکو جام کرکے زمین پراتارلیاگیااور اب ان کے ماتھے پرخطرات کاپسینہ خشک ہونے کانام نہیں لے رہاکہ اس طرح ان کی یہ ٹیکنالوجی بھی پاکستان کے ہتھے لگ گئی ہے۔
اسرائیل اوربھارت تویہ سمجھتے تھے کہ یہ ڈرون دشمن کوناقابل تلافی نقصان پہنچاکراسے لاغرکردیتاہے لیکن اسرائیل کایہ دعویٰ بھی اقوام عالم کے دفاعی تجزیہ نگاروں کیلئے مذاق کانشانہ بن گیاہے۔پاکستان کی جانب سے گرائے گئے اسرائیلی ساختہ ڈرونز، براہموس میزائل کابھٹک جانا،اورفضائی حدود کی خلاف ورزیاں صرف عسکری معاملات نہیں،بلکہ جدیدٹیکنالوجی کی اس جنگ کاحصہ ہیں جومستقبل کے محاذوں کی نقشہ کشی کررہی ہیں۔عسکری سائنس میں اب یہ ممکن ہے کہ کسی فضائی حملے یادراندازی کوالیکٹرانک سگنیچرسے پرکھاجائے۔یہ طریقہ کارنیٹو افواج نے1991کی خلیجی جنگ میں استعمال کیاتھا۔پاکستان اوربھارت کے دعوے اسی جدیداصول پرپرکھے جارہے ہیں۔
یادرہے کہ پاکستانی فضائیہ نے بالاکوٹ کی فضائی ڈاگ فائٹ کے بعدنہ صرف ایک مرتبہ پھرنئی فضائی تاریخ رقم کی،بلکہ عالمی میڈیاکی توجہ کامرکزبن گئی۔ اس سے قبل بالاکوٹ کی جھڑپ میں پاکستانی فضائیہ نے نہ صرف بھارتی فضائیہ کے دواہم طیارے مار گرائے تھے بلکہ اپنی فضائی حدودمیں واضح برتری کاعملی مظاہرہ بھی کیا۔آزادذرائع،سیٹلائٹ فوٹیج اورآزاد مبصرین کی رپورٹس نے تصدیق کی تھی کہ بھارت کوبھاری نقصان اٹھانا پڑا۔
اب ایک مرتبہ پھربھارت کوپہلے سے بھی کہیں زیادہ نقصان اٹھاناپڑاہے۔مودی مسلسل اپنے گودی میڈیاپراپنی جھوٹی فتح کے نعرے لگواتارہا،کبھی لاہورپر مکمل فتح اورکراچی کی بندرگاہ پرقبضہ کی خبریں نشرکرواتارہااورکبھی بلوچستان کی علیحدگی اورپاکستانی فوج کے سربراہ سمیت موجودہ حکومت کے اہم سرکردہ سیاستدانوں کی گرفتاری کی خبریں چلائی گئیں لیکن جب اس سے اگلے دن پاکستانی حملے نے مودی کے پروپیگنڈے کے غبارے کوپھوڑکررکھ دیااوررافیل سمیت دوسرے جہازوں کی ارتھی اسی کی سرزمین پرسجادی تومودی اوراسرائیل کواپنے آقاامریکی صدرٹرمپ کے پاؤں پکڑنے پڑے توتب جاکرخود رافیل کمپنی کوبھی اپنے جہازوں کی تباہی کوتسلیم کرناپڑا۔
اس مبینہ ڈاگ فائٹ پرانڈین حکام نے تاحال کوئی تبصرہ نہیں کیاجبکہ پاکستانی فضائیہ کے ڈپٹی چیف آف ایئرآپریشنزایئروائس مارشل اورنگزیب کاکہناتھا کہ “یہ ایک بی وی آر(بیونڈویژیول رینج)لڑائی تھی جس میں انڈیاکے70جنگی طیاروں اورپاکستان کے40جنگی طیاروں نے حصہ لیا،یعنی کل100سے زیادہ طیارے تھے جوکہ ہوابازی کی تاریخ میں پہلی بارہواہے۔پاکستانی فضائیہ کی طرف سے اس کارروائی میں جے ایف17اورجے10طیاروں نے حصہ لیاتاہم انہوں نے اس حوالے سے تبصرہ نہیں کیاکہ آیاپاکستان نے چینی ساختہ پی ایل15استعمال کیا۔
ان کاکہناتھاکہ پاکستان کافضائی دفاعی نظام بہت مؤثرہے اور”ایک کِل اسی(زمین سے فضامیں مارکرنے)کی بدولت ممکن ہوا”۔انہوں نے دعویٰ کیاکہ یہ کارروائی ایک گھنٹے تک جاری رہی۔انڈین طیاروں کے رونماہونے کے بعدپاکستانی فضائیہ نے’اپناملٹی ڈومین آپریشن شروع کیا”۔انہوں نے دعویٰ کیاکہ6مئی کی شب ایک گھنٹے تک جاری رہنے والی اس ڈاگ فائٹ میں انڈین فضائیہ کے72طیاروں میں سے14رفال طیاروں کی الیکٹرانک نشاندہی کی گئی تھی جبکہ پاکستان نے اس آپریشن میں42جنگی طیارے استعمال کیے۔ان کاکہنا تھاکہ’لاہور،اسلام آباداوردیگرفضائی حدودمیں سویلین ایئرٹریفک کی حفاظت کیلئےاس کاراستہ تبدیل کروایاگیا۔‘
ایئر وائس مارشل اورنگزیب احمدکے مطابق جیسے ہی انڈین طیاروں نے اپنے ہتھیاراستعمال کیے توپاکستانی فضائیہ کے طیاروں نے “ہوامیں رولزآف دی گیم تبدیل کرلیے”۔”انڈیانے پچھلی بارکہاتھاکہ اگران کے پاس رفال ہوتے تونتیجہ کچھ اورہوتا۔توہم نے رفال طیاروں کونشانہ بنایا۔ہمارے پاس مزیدنمبرزہوسکتے تھے مگرہم نے تحمل دکھایا۔”
پاکستانی فضائیہ نے دعویٰ کیاکہ تین رفال طیارے بھٹنڈہ،جموں اورسرینگرکے قریب مارگرائے گئے جبکہ مگ29اورسو30کوسرینگر کے پاس مارگرایاگیا۔بعدازاں عالمی میڈیاپران کی تباہی کے ویڈیونے انڈین گودی میڈیاکومنہ بندرکھنے پرمجبورکیا۔دلچسپ امریہ ہے کہ خودبھارتی ایئرچیف مارشل کی سطح پراس نقصان کااعتراف کیاگیا۔ ان کاکہناتھا”ہمیں کچھ نقصانات ضرورہوئے ہیں جن پرنظرثانی کی جارہی ہے۔”یہ اعتراف گویااس خفت کاعکس تھاجوانڈین فضائیہ کوبالاکوٹ کے بعدپہلے ہی برداشت کرناپڑاتھا۔اُس وقت بھی پاکستان نے نہ صرف دوبھارتی جہاز گرائے تھے بلکہ ونگ کمانڈرابھی نندن کوزندہ گرفتارکرکے عالمی سطح پراخلاقی وعسکری برتری حاصل کی تھی۔
یادرہے،بالاکوٹ کے بعدہی انڈیانے یہ شکوہ کیاتھاکہ اگرہمارے پاس رافیل طیارے ہوتے تونتیجہ مختلف ہوتامگرآج،رافیل کی موجودگی کے باوجودنتائج وہی رہے،بلکہ اس بارپاکستانی جے- 10سی طیاروں نے نہ صرف مقابلہ کیابلکہ فضائی حدودمیں دشمن کے عزائم کو ملیامیٹ کردیا۔یہ نئی کامیابی پاکستانی فضائیہ کیلئےایک ایساتمغہ ہے جس نے1965کے ایم ایم عالم کے کارنامے کی یادتازہ کردی۔بین الاقوامی دفاعی جریدے”جینزڈیفنس ویکلی”اور”دی نیو یارک ٹائمز ” سمیت عالمی اداروں نے تسلیم کیاکہ اس ڈاگ فائٹ میں پاکستان نے عسکری،تزویراتی اورٹیکنالوجیکل اعتبار سے بازی اپنے نام کی۔
امریکاجنوبی ایشیا میں ہمیشہ سے ایک متذبذب نگران کاکرداراداکرتاآیاہے۔امریکاکی آئندہ حکمتِ عملی یقیناًہمارے سامنے ہے اور امریکاکی سلامتی کونسل میں اسرائیلی مظالم کوروکنے کیلئے سلامتی کونسل میں جوقراردادلائی گئی،اس کوامریکانے ویٹوکرکے مستردکردیاجس کی ساری دنیامیں مذمت کی جارہی ہے اوراس وقت انڈیاکواسرائیل کی مکمل پشت پناہی حاصل ہے بلکہ دوسرے لفظوں میں وہ انڈیامیں آکرپاکستان کاہمسایہ بن چکاہے تاہم موجودہ حالات میں واشنگٹن کی توجہ تائیوان،یوکرین اورمشرقِ وسطیٰ کی جانب بھی منقسم ہے۔اس کامطلب یہ ہے کہ خطے میں اس کاکرداراب محض ثالث یاتماشائی کانہیں رہے گابلکہ وہ چین کے خلاف “اسٹریٹجک کنٹینمنٹ”کے تحت بھارت کودفاعی ہتھیار،سیٹلائٹ ڈیٹااورعسکری تعاون فراہم کرے گااوراسرائیل بھی انڈیاکوجدیداسلحہ فروخت کرکے اپنامال بھی بناتارہے گا۔
یہی حکمت عملی سردجنگ کے زمانے میں پاکستان کے ساتھ اپنائی گئی تھی،اورآج وہی نکتہ نظربھارت کے ساتھ دہرایاجارہاہے۔ امریکاچین کوروکنے کیلئے بھارت کی عسکری مضبوطی کو ضروری سمجھتاہے،مگراس کانتیجہ یہ بھی ہوسکتاہے کہ پاکستان مکمل طورپرچین کے بلاک میں چلاجائے۔یوں خطہ ایک نئی سردجنگ کے دہانے پرآکھڑاہواہے۔
یہ سوال ہنوزقائم ہے:کیابرصغیراپنی تاریخ کے المیوں سے کچھ سیکھ پائے گا؟یاماضی کی طرح پھرکوئی لمحہ،کوئی سیاست،کوئی فقرہ ایک ایسی جنگ کوجنم دے گاجس کاکوئی فاتح نہ ہوگا؟تاریخ کی راہوں پرجب قومیں اپنے نظریات،عسکری بصیرت،اورتہذیبی شعورکے ساتھ چلتی ہیں،توصرف جنگ نہیں جیتی جاتیں ،بلکہ نسلیں محفوظ ہوتی ہیں۔یہ تنازع ہمیں ایک بارپھریاد دلاتا ہے کہ طاقت صرف بندوق کی گرج میں نہیں،دانش کی گہرائی اورگفتارکی بلاغت میں بھی پنہاں ہوتی ہے۔
یہ خطہ،جوکبھی شاعروں کی نغمگی،صوفیوں کی نرمی اورمفکرین کی حکمت کاگہوارہ رہا،کیادوبارہ خون کی چھینٹوں سے لت پت ہو گایاامن کی امیدبن کر جگمگائے گا؟جواب ہمارے بیانیے میں ہے،ہماری قیادت میں ہے،اورہماری دعامیں ہے۔وقت کاتقاضا ہے کہ دشمنی کے خیمے لپیٹے جائیں اورامن کے دیئے روشن کیے جائیں۔مودی اگرسندورمیں خون گھول دے،توامن کی ہردعاردہوجاتی ہے۔
انتخاب ہمارا باقی ہے۔ اب سوال یہ نہیں رہا کہ جنگ کون جیتے گا؟ بلکہ، “اسے روکنے کی ہمت کون کرے گا؟اس سرزمین کی تقدیر کا اگلا باب، غصہ نہیں، حکمت کو لکھنے دیں، لیکن مجھ جیسے لاتعداد امن پسندوں کو اس بات کا خوف کیوں ہے کہ امن کے بدنام زمانہ دشمنوں سے اس خوبصورت دنیا کو چھڑانے کی امیدیں دم توڑ رہی ہیں؟ لیکن سوال یہ ہے کہ یہ امن دشمن اپنی آنے والی نسلوں کے لیے کیا پیغام چھوڑ کر جائیں گے؟