A test of faith and interests in the paths of politics

سیاست کی راہوں میں ایمان اورمفادکاامتحان

:Share

جنوبی ایشیاکی تاریخ ایک طویل پردہ ہے جس پرطاقت،مصلحت اورایمان کے رنگ ایک دوسرے میں ملتے اوربکھرتے آئے ہیں ۔ اس پردے کے سائے میں جب بھی کسی نئے باب کاآغازہوتاہے توصدائے ماضی کی بازگشت کچھ ایسے بلندہوتی ہے جیسے صحرائے ہیران پراچانک ہواکاجھونکا—خاموشی کوچیرتا ہوا،ریت کے بادل بلندکردیتاہے۔آج ہم اسی بازگشت کوسن رہے ہیں نئی دہلی اور کابل کے درمیان جوقربت نمودارہورہی ہے، وہ محض دوسفارتی ملاقاتیں یاکاغذی معاہدے نہیں، بلکہ ایک طویل کہانی کانیامنظرنامہ ہے— ایک ایسی کہانی جس میں نظریات جھک گئے،مفادات پہچان بن گئے،اورقومیں اپنے وجود کے سوال کاجواب ڈھونڈتی رہ گئیں۔ افغانستان کے بارے میں،خوداُن کے مورخ اورتجزیہ نگارصریح وروشن کہتے ہیں: تم افغانوں کوخریدنہیں سکتے،مگر اپنے مفادات کیلئےکرایہ پرلے سکتے ہو۔

یہ تلخ مگرحقیقت پسندانہ قول اس خطے کی سفارتی فلسفہ کی عکاسی کرتاہے—ایک قوم کی آزادیِ ارادہ کی قیمت کم نہیں،مگرجب مصلحتیں اورضرورتیں مِلاپ کرتی ہیں توعارضی اتحادوجود میں آتے ہیں۔اسی مصلحت کی کڑوی داستاں نئی دہلی اورکابل کے حالیہ رشتوں میں محفوفِ رازہے؛ایک طرف غالبِ وقت کی عملیت پسندی اوردوسری طرف تاریخ کی ناگفتہ بہ حکایات۔

یہ رپورٹ اسی پس منظرمیں اُبھرنے والی فکری دستاویزہے—جہاں زمانے کے مفکرین کی تمکنت،زبان وبیان کی چاشنی، اوراسلامی سوجھ بوجھ ایک ساتھ جلوہ گرہیں۔یہاں قصہ صرف ریاستوں کے درمیان سرحدی معاہدوں کانہیں؛بلکہ یہ ایک تہذیبی،نظریاتی اور اخلاقی امتحان بھی ہے کہ کیامفادِحیات کو کبھی ایمان وانصاف کے مول پرتولاجاسکتاہے؟یایہ صدائیں ہمیں ہرباریہی بتاتی رہیں گی کہ طاقت کے کھیل میں ضمیراکثرمسکین رہ جاتاہے؟قرآن کی وہ صداجوہمیں احتیاط اورحکمت اورمحتاط رہنے کاحکم دیتی ہے آج بھی مربوط ہے: یہ محتاطی ہی وہ رہ نما ہے جوخطےکواندیشوں سے نکال سکتی ہے؛ورنہ مفادات کی عارضی قربتیں جلد ہی زخم و خون کی راہوں پر پھسل سکتی ہیں۔

دنیاکی سیاست کبھی اصولوں پرنہیں،مفادات پرچلتی ہے۔وہی انڈیاجوکل تک طالبان کوشدت پسندیکی علامت سمجھتاتھا،آج انہی کے ساتھ عملی اشتراک کی راہ پرگامزن ہے۔بظاہریہ تعلق چراغ تلے اندھیراکی مانندایک تضادمعلوم ہوتاہےمگر دراصل یہ تضاد اس حقیقت کاعکاس ہے کہ وقت کے دھارے میں نظریات اکثرعملیت کی بھٹی میں پگھل جاتے ہیں۔یادرہے کہ سیاست میں مستقل دشمنی یادوستی ناممکن ہے،مستقل چیزصرف مفادہے۔مودی حکومت کی اسلام مخالف روش اورطالبان کی مذہبی حکومت—یہ دونوں جب باہم قریب آئیں تویہ مفاہمت کسی عقیدتی ہم آہنگی کی نہیں بلکہ عملی ضرورتوں کی اولادہے ۔ جیساکہ قرآن کریم میں ارشادہے :اوریہ دن ہم لوگوں کے درمیان گردش دیتے رہتے ہیں ۔دنوں کی یہ گردش ہی ہے کہ ماضی کے مخالف،حال کے شریکِ مصلحت،دہلی اورکابل آج ایک دوسرے کے قریب آرہے ہیں۔

سفارت کاری کے اس کھیل میں مسکراہٹیں اکثرخنجروں کی نوک پررقص کرتی ہیں۔انڈیااورطالبان کے حالیہ بیانات میں جونرمی نظر آتی ہے،اس کے پیچھے منافقانہ سیاست کاوہ سخت گیر حساب پوشیدہ ہے جوطاقتورہمیشہ کمزورسے لیتاہے۔انڈیاطالبان کوپاکستان پر دباؤڈالنے کاذریعہ بناناچاہتاہے،جبکہ طالبان دہلی کوپاکستان سے مزیدرعایتیں حاصل کرنے کیلئےایک شطرنجی مہرا بنارہے ہیں۔یہ تعلق دراصلمفادات کی تجارت ہے،ایمان یانظریے کی شراکت نہیں۔ایسے ہی موقع پرشائدیہ کہاگیا کہ جہانِ سیاست میں کوئی چیزابدی نہیں،نہ دشمنی نہ دوستی،فقط مفاد ہی مفہوم ہے۔انڈین میڈیاکی مکارانہ مسکراہٹیں اورطالبان کی سفارتی لچک دونوں اپنے اپنے مفادکے اسیرہیں۔یہی وہ مقام ہے جہاں حقیقت،نظریہ سے سبقت لے جاتا ہے۔

نواکتوبرتاچودہ اکتوبر2025،یہ چنددن جنوبی ایشیاکی تاریخ کے ایک نئے باب کاعنوان بن چکے ہیں۔طالبان کے وزیرِخارجہ مولوی امیرخان متقی کادورۂ دہلی،محض ایک سفارتی ملاقات نہیں ،بلکہ بیانیے کی شکست ہے۔وہ بیانیہ جودہلی کوکفراورکابل کوجہاد کاعلمبردارقراردیتاتھا،آج مصلحت کے فرش پردست بستہ بیٹھانظرآتاہے۔انڈیاکاپرتپاک استقبال دراصلپالیسی کی تبدیلی نہیں ،بلکہ پالیسی کے نقاب کی تبدیلی ہے۔یہ وہی دہلی ہے جس نے کل تک طالبان کو دہشتگرد کہا،اورآج ان کیلئےاپنے دروازےتعاون کے نام پرکھول دیے۔یہ منظرتاریخ کے طمانچے جیسا ہے جوبتاتاہے کہ اقتدارکے دروازے پرنظریہ ہمیشہ زنجیرمیں جکڑاہوتاہے۔

کابل اوردہلی کی قربت،اسلام آبادکیلئےایک نئی تشویش کاباعث بن گئی ہے۔متقی کادورہ دہلی دراصل اسلام آبادکے ریجنل ڈائیلاگ کے صرف دس دن بعدہوا،جہاں طالبان مخالف افغان شخصیات جمع ہوئیں۔یہ سیاسی بساط کچھ اس اندازسے بچھائی گئی ہے کہ ہرفریق دوسرے کومات دینے کیلئےاپنے مہرے قربان کرنے پرآمادہ ہے۔اسلام آبادمیں ہونے والااجلاس پاکستان کیلئےسفارتی دفاع کی کوشش تھی،جبکہ دہلی میں طالبان کااستقبال جوابی حملۂ کی بھرپور سازش۔یہ سب کچھ ایسے وقت میں ہواجب پاکستان اورطالبان کے درمیان سرحدی جھڑپیں جاری تھیں،اورپاکستان وانڈیاکی فضاؤں میں گولیوں کی گونج ابھی خاموش نہیں ہوئی تھی۔یہ لمحہ گویابتارہا ہے کہ امن،طاقت کے ایوانوں میں نہیں،توازن کے ایوانوں میں جنم لیتاہے۔

طالبان کے وزیرِخارجہ کے دورۂ دہلی نے جہاں ایک نئے سفارتی دورکاآغازکیاہے وہاں اس نے اپنے محسنوں کوبھی یہ پیغام دیا ہے کہ وہ وقت آنے پر بھارت جیسے ملک جوطالبان کے خون کے پیاسے تھے،ان سے بھی ہاتھ ملانے سے گریزنہیں کرے گا۔نئی دہلی کیلئےیہ موقع اپنےاسٹریٹجک مفادات کے احیاءکاہے چاہے اس کیلئےنظریاتی تضادات کوقربان ہی کیوں نہ کرناپڑے۔طالبان کیلئےیہ تعلق محض سیاسی بقاکاوسیلہ ہے مگربھارت کی چانکیہ سیاست کہ دشمن کے دشمن کواپنادوست بناکردونوں سے انتقام لیاجائے۔انڈیاکامقصدافغانستان میں اپنا اثرورسوخ بحال کرکےپاکستان اورچین کے بڑھتے کردار کو متوازن کرناہی مقصودنہیں بلکہ چین پاکستان کے سی پیک کونقصان پہنچانے کی امریکی سازشوں کی تکمیل بھی ہے۔مگرافسوس کہ یہاں صلح کاتصورایمان کے رشتے سے نہیں، مفادکے بندھن سے جڑاہواہے۔

چندسال پہلے تک جس منظرکاتصوربھی بعیدازقیاس تھا،آج وہ حقیقت کی صورت میں سامنے ہے۔طالبان اوربھارت کے مابین بڑھتی قربتیں وہ طمانچہ ہیں جو وقت نے نظریاتی استقامت کے چہرے پرماراہے۔پاکستان،جس نے کابل پرطالبان کے قبضے کواسلامی فتح سمجھ کرخیرمقدم کیاتھا،آج اسی طالبان حکومت کی دہلی سے قربت پرانگشت بدنداں ہے۔یہ منظراس خطے کے بدلتے سیاسی توازن کی گواہی دے رہاہے کہ جنہیں تم اپنے خیمے کے چراغ سمجھتے تھے،وہی اب آندھیوں کے رفیق بن چکے ہیں۔طالبان اورانڈیاکی قربت محض دوحکومتوں کی بات نہیں،بلکہ دودہائیوں پرمحیط تلخی،بے اعتمادی اورنظریاتی فاصلوں کی شکست ہے۔ اب یہ قربتیں پاکستان کیلئےسیاسی دھچکانہیں بلکہ سفارتی زلزلہ ہیں۔

تحریکِ طالبان کے قیام(1994ء)سے اب تک بھارت ہمیشہ طالبان کوپاکستانی پراکسی کے طورپردیکھتاآیاہے۔اسی بنیادپربھارت نے ایران اورروس کے ساتھ مل کرشمالی اتحادکی پشت پناہی کی،تاکہ کابل سےطالبان کاسایہدوررکھاجاسکے۔2001ءمیں جب امریکانے افغانستان پرحملہ کیا،بھارت نے غنی حکومت کابڑاحمایتی بن کرطالبان کے خلاف اپنی سرمایہ کاری کی۔ان20برسوں میں طالبان اوربھارت کی نفرت ایک مسلمہ حقیقت تھی لیکن وقت وہ استاد ہے جوسب سے زیادہ سخت سبق دیتاہے۔اب وہی بھارت ، جس کے میڈیا میں طالبان کانام سن کرتلخی چھاجاتی تھی،انہی طالبان کواپناعلاقائی پارٹنرکہنے لگا ہے۔یہ ہے وہ لمحہ جسے”تغیراحوال” کہاگیاتھاجب حق پسپانہ ہو،مگراہلِ حق مصلحت میں الجھ جائیں،توباطل کوموقع ملتا ہے کہ وہ دوستی کے پردے میں اپنی دشمنی بیچے۔

فروری2020ءمیں قطرکے شہردوحہ میں جب امریکااورطالبان کے مابین امن معاہدہ ہوا،تو بھارت کیلئےیہ خبرکسی زلزلے سے کم نہ تھی۔اس معاہدے نے افغانستان سے غیرملکی افواج کے انخلاکی راہ ہموارکی،مگربھارت کیلئےیہ خارجہ پالیسی کابحران تھا۔15اگست2021کوجب طالبان نے کابل پرقبضہ کیا،بھارت کے سفارت خانے خالی اوربندہوگئے،اوردہلی نے افغانستان کے شہریوں سے نظریں چرالیں۔طالبان نے اسےدھوکہ دہی قراردیا،اور دہلی نے اسےسکیورٹی کی مجبوری کابہانہ بنایا۔یہی وہ لمحہ تھاجب اعتمادکا درخت جڑسے اکھڑگیالیکن سیاست وہ مالی ہے جوایک ہی زمین پرنئے بیج لگادیتاہے۔چندہی برسوں میں بھارت نے اسی طالبان سے رابطے استوارکر لیے جنہیں وہ کل تک غیرمہذب،خونی اور وحشی قراردیتاتھا۔ سیاست کی راہوں میں کل کادشمن ، آج کاحلیف بن جاتاہے؛یہ وہ میدان ہے جہاں اصول نہیں،مقاصد فیصلہ کرتے ہیں۔

یہ وہی طالبان تھے جوکبھی اسلامی اخوت کے نام پرپاکستان کی قربت کے قائل تھے،مگراب اپنے سیاسی مفادکیلئےخودمختار پالیسی کاعلم اٹھائے ہوئے ہیں۔ طالبان نے انڈیاکویہ باور کرانے کی بھرپورکوشش کی کہ ان کی خارجہ پالیسی کسی تیسرے ملک کی تابع نہیں۔ یہ تیسراملک واضح طورپرپاکستان تھا۔دونوں ممالک اپنے اپنے مفادات کی تکمیل کیلئے ایک دوسرے کے گلے لگنے کیلئے تیارہوگئے اور ہی وہ مقام ہے جہاں انڈیا نے موقع دیکھااورکابل کے دروازے پراحترام کے لباس میں مفادکاپیغام لے کرپہنچ گیا۔جبکہ قرآن نے واضح فرمایاہے :اے ایمان والو!احتیاط اختیارکرو۔لیکن طالبان جوخودکواسلام کاسفیر کہتے ہیں،اب یہی دھوکہ اورمفادکی سیاست دونوں کی سفارت کاری کامحوربن چکی ہے۔

اگریادہوتوجون2012میں طالبان نے ایک غیرمتوقع بیان میں انڈیا کی تعریف کی،کہ اس نےافغانستان میں امریکی فوجی کردارکو مستردکیا۔یہ تعریف محض ایک بیان نہیں تھی،بلکہ دہلی کے دروازے پرنرم دستک تھی۔یہ وہ وقت تھاجب امریکااپنے انخلا کی منصوبہ بندی کر رہا تھا،اورانڈیاسے چاہتاتھا کہ وہ افغان سکیورٹی میں زیادہ فعال کرداراداکرے۔طالبان نے چالاکی سے انڈیاکوغیرجانبدارملک کے طور پرسراہا،اورکہاکہ امریکاکوخوش کرنے کیلئےانڈیاکا تباہی میں ملوث ہوناغیرمنطقی ہوگا۔یہ سفارتکاری کاپہلا بیج تھاجس کی فصل آج نئی دہلی میں لہلہارہی ہے۔راقم نے طالبان کے اس بیان کے اگلے دن ہی “پلٹ ترادھیان کدھرہے”کے عنوان سے اپنے اداروں اوروزارتِ خارجہ کوخبرداربھی کیاتھالیکن وائے افسوس،اس طرف دھیان نہیں دیاگیا ۔یادرہے کہ سیاست وہ علم ہےجس میں زبان سے زیادہ خاموشی بولتی ہے اور خاموشی ہی تمام زبانوں کی مرشدہوتی ہے۔یہی خاموشی انڈیااورطالبان کے درمیان نئے باب کی بنیاد بن گئی۔

15/اگست2021کوطالبان کے دوبارہ اقتدارمیں آنے کے بعد،انڈیاکے ساتھ ان کے تعلقات میں سفارتی گرمی آنے لگی۔ابتدامیں صرف بیانات کا تبادلہ ہوا،پھرپیغامات،اوررفتہ رفتہ رابطے،یہی وہ تدریجی عمل تھاجو اعتماد کی بنیاد بنا۔انڈیانے سمجھ لیاکہ اگروہ کابل سے کنارہ کشی اختیار کرے گاتوپاکستان اورچین دونوں وہاں اپنااثربڑھالیں گے۔مودی نے یوں اپنے مربی امریکاکے مشورہ پرنرم قوت کے ذریعےاپنا کرداردوبارہ زندہ کرنے کی راہ نکالی۔یہ وہی تدریج ہے جسےسیاست کی فنکاری کہاجاتاہے یعنی جوبات تلوارسے نہ منوائی جاسکے،وہ تبسم سے منوائی جاسکتی ہے۔انڈیانے یہی تبسم اختیارکیا—اورطالبان نے دروازے کھولنے میں دیرنہ کی اوراپنے مفادات کیلئے محسنوں کی گردن پرپاؤں رکھنے کی پالیسی اختیارکرلی۔

جون2022میں انڈیا کی وزارتِ خارجہ کے وفدنے،جے پی سنگھ کی قیادت میں،کابل کاباضابطہ دورہ کیا۔ یہ ایک نیاآغازتھا۔ایک نئی شروعات جسے طالبان نے خیرسگالی کامظہرقراردیا۔یہی وہ لمحہ تھاجب سفارت کاری کے جمودمیں پہلی دراڑپڑی۔کابل نے دہلی سے کہاہم آزادہیں،اپنے فیصلوں کے مالک مگراپنے مفادات کیلئےاوردہلی نے جواب میں مسکراکرکہاہم بھی آزاد ہیں،مگراپنی مصلحتوں کے تابع ۔یہ ملاقات گویاباہمی مفادات کی پہلی اینٹ تھی۔ اس کے بعد جو دیوارکھڑی ہوئی،وہ ایک دوسرے کواستعمال کرنے کےمفادات، تجارت اور علاقائی سیاست کے پردےکی اینٹوں سے بنی۔

جنوری2025 کی خلیجی ہواؤں نے ایک نئی خبراپنے دامن میں چھپا رکھی تھی۔دبئی کے پرتعیش کمروں میں طالبان کے وزیرِخارجہ امیر خان متقی اورانڈیاکے نائب وزیرِخارجہ وکرم مصری کی ملاقات ہوئی۔یہ وہ لمحہ تھاجب سیاست نے ایک بارپھرنظریے پرغلبہ حاصل کیا۔یہ ملاقات محض رسمی نہیں تھی؛یہ اعتماد سازی کی وہ پہلی اینٹ تھی جودہلی اورکابل کے درمیان ایک نئے پل کی بنیاد بن گئی۔بیرونی دنیاکواس ملاقات کاعلم بعدمیں ہوا،مگرسفارتی دنیاکےاندر اس کی گونج بہت پہلے سنائی دے گئی۔یہی وہ دبئی تھاجہاں کبھی طالبان کے سیاسی دفتر سے بھارت اور امریکاکے خلاف بیانات جاری ہوتے تھے،اورآج وہی دبئی دہلی سے تعلقات کے قیام کی بنیادبنا۔یہی تاریخ کاطنزہے—کہ جہاں کل نفرت کی دیوارکھڑی تھی،آج وہیں مصلحت کادرکھل گیا۔

چارماہ بعد،مئی2025میں،ایک اورباب رقم ہوا۔طالبان کے وزیرِخارجہ امیرخان متقی اوربھارتی وزیرِخارجہ سبرامنیم جے شنکرکے درمیان ٹیلی فونک رابطہ ہوا۔یہ رابطہ کسی اعلامیے سے زیادہ معنی خیزتھا۔یہ وہ لمحہ تھاجب دہلی اورکابل کے درمیان فاصلے لفظوں میں نہیں،لہجوں میں گھلنے لگے۔اگرچہ دنیانے اسے روٹین کال کہا،مگردرحقیقت یہ مصلحتوں کادوسرازینہ تھا۔یہی سیاست کاوہ نازک موڑہے جہاں گفتگو خاموش معاہدوں کاپیش خیمہ بن جاتی ہے۔ دنیامیں سب سے پُراثرصلح وہ ہے جوزبانوں سے پہلے دلوں میں ہوجاتی ہے لیکن یہ دلوں کی نہیں ، مصلحتوں کی صلح تھی جس کے آثارابھی ظاہری اعلان سے دور تھے۔

وقت کے ساتھ تعلقات کی ٹھنڈی راکھ میں حرارت آنے لگی۔ انڈیا نے طالبان کے ارکان، اہلکاروں اور ان کے خاندانوں کو سرکاری ملاقاتوں،تربیت، اور علاج کیلئے ویزے جاری کیے۔یہ عمل بظاہرانسانی بنیادوں پرتھا،مگردرحقیقت یہ چانکیہ سفارت کاری کاوہ حربہ تھا جس سے دہلی نے اپنی شبیہ کوخطے میں بظاہر نرمی اوردوستی کے رنگ میں ڈھالنے کی کوشش کی۔یہی وہ لمحہ تھاجب مفادنےانسانیت کا لباس پہنا،اورسیاست نے ہمدردی کے پردے میں اپنے قدم آگے بڑھائے۔ طالبان نے خاموشی سے اس پیشکش کوقبول کیا،اور یوں باہمی اعتماد کادائرہ وسیع ہونے لگا۔ یہ عمل گویااس قرآنی حقیقت کی جھلک تھاکہ:وہ تدبیر کرتے ہیں،اور اللہ بھی تدبیرکرتاہے،اوراللہ بہترین تدبیرکرنے والاہے۔دہلی اورکابل تدبیروں کے فریب میں رہے مگرنتائج کافیصلہ وقت کے ہاتھ میں رہا۔

نومبر2024وہ مہینہ جب انڈیانے ممبئی میں افغان قونصل خانہ طالبان کے مقررکردہ نمائندے کے حوالے کردیا،اورچندماہ بعدحیدرآباد میں بھی یہی عمل دہرایا گیا۔یہ وہ واقعہ تھاجس نے دہلی اورکابل کے تعلقات کوغیررسمی سے نیم رسمی سطح پرپہنچادیا۔اگرچہ انڈیا نے طالبان حکومت کوباضابطہ تسلیم نہیں کیا، لیکن دہلی میں افغان سفارت خانے میں طالبان کے مقررکردہ سفارت کاروں کوقبول کر کے نئی دہلی نے ایک خاموش مگرفیصلہ کن اعتراف کیا۔یہ وہی دہلی ہے جوکبھی طالبان کوغیرقانونی قوت قراردیتی تھی،اورآج ان کے نمائندوں سے ہاتھ ملارہی ہے۔ یہ وہی منظرہے جسے تاریخ کے آئینے میں دیکھ کرفوری یہ خیال گونجتا ہے سیاست کے منافقانہ امتحان واقعی اوربھی باقی ہیں خاص طورپرجب ہرملک اپنے وجودکومفادکی صلیب پرقربان کرنے پرآمادہ ہو۔

پاکستان کے ساتھ سرحدی تنازعات اورتجارتی رکاوٹوں نے اسے بحری راستوں سے محروم کردیاہے۔ افغان حکام برسوں سے شکوہ کرتے آئے ہیں کہ پاکستان اکثرکراچی بندرگاہ اورواہگہ بارڈر کوسیاسی دباؤکیلئےاستعمال کرتاہے۔افغانستان کی معیشت گزشتہ دودہائیوں سے زخم خوردہ ہے اوریہ زخم خودان کے اپنے ہاتھوں سے لگائی ہوئی فصل سے کاٹنے پڑرہے ہیں۔اس زہریلی فصل کوکاشت کوختم کرنے کی بجائے طالبان حکومت نے انڈیا کے ساتھ تجارت کیلئے نئے راستے کوپاکستان پربطوردباؤاوربلیک میلنگ کیلئے استعمال کرنے کاراستہ اپنالیا۔انڈیا کیلئےبھی یہ موقع تھاکہ وہ معاشی دروازے کے بہانے پاکستان کے خلاف اپنے مفادات کی سیاسی کھڑکی کھول لے۔یوں کابل اوردہلی کے درمیان تجارت کے ذریعے سفارت کاری کی بنیادرکھی گئی۔یہی وہ لمحہ ہے جہاں مفاد نے نظریے کو شکست دی،اوراقتصادنے عقیدہ پرغلبہ پایا۔ قرآن نے فرمایا: زمین میں یقین رکھنے والوں کیلئے نشانیاں ہیں۔ واقعی،کابل کی خاک میں آج یقین نہیں،مفاد کی نشانیاں بکھری پڑی ہیں۔

افغانستان صدیوں سے طاقتوں کی کشمکش کا میدان رہا ہے۔انڈیااورپاکستان دونوں اسے اپنے اثرورسوخ کامرکزسمجھتے ہیں۔1994ء سے 2001ءتک طالبان کےپہلے دورمیں پاکستان کاجھکاؤ کابل کی طرف تھا،مگر اب تاریخ نے کروٹ لی ہے،طالبان کے دوسرے دورِحکومت میں یہی تعلقات تیزی سے بگڑچکے ہیں ۔دونوں ملکوں کے درمیان سرحدی جھڑپوں نے حالات کومزید کشیدہ کردیا۔یہ وہ نیاموڑہے جہاں پاکستان کواحساس ہورہاہے کہ جس قوت کواس نے کبھی تزویراتی گہرائی سمجھا تھا،وہی اب تزویراتی خطرہ بن چکی ہےبلکہ سیاسی مصلحت کی محتاج ہو چکی ہے۔کابل اوردہلی کی قربت اسلام آبادکیلئےسفارتی تنہائی کی ایک نئی گھنٹی ہے جس پرفوری توجہ کی اشدضرورت ہے۔

جب سیاست کے سمندرمیں مفادات کے بھنوراُٹھتے ہیں توالزامات کی لہریں لازماًتیزہوجاتی ہیں۔پاکستان آج طالبان حکومت پر الزام عائد کرتا ہے کہ وہ تحریکِ طالبان پاکستان کواپنی سرزمین سے کارروائیاں کرنے دیتی ہے۔یہ وہی فتنہ الخوارج الہندہیں جس نے پاکستان میں بے شمارخونریز واقعات کی ذمہ داری قبول کی۔پاکستان کامؤقف ہے کہ کابل کی خاموشی دراصل بھارتی اثرورسوخ کا نتیجہ ہےکہ دہلی افغانستان کے راستے بلوچ علیحدگی پسندوں اورپاکستان مخالف گروہوں کی مددکررہاہے۔یہ دعوے صرف سیاسی نہیں، بلکہ ان کے ثبوت بھی پیش کیے جاچکے ہیں۔

یہ منظرخطے کی اس تلخ حقیقت کوبے نقاب کرتاہے کہ جوملک اپنے ہمسائے پربھروسہ نہیں کرتا،وہ خودبھی شک کے حصارمیں قید ہوجاتاہے۔پاکستان کیلئے یہ معاملہ محض دفاعی نہیں، بلکہ وجودی مسئلہ بن چکاہے اورکابل کیلئےیہ سوالِ بقاہے کہ وہ دہلی کے ساتھ قربت میں اسلام آبادکی ناراضی کوکس حد تک برداشت کرسکتاہے۔

طالبان کی مصلحت آمیزخاموشی ایک طوفان کوجنم دے چکی ہے۔ پاکستان بارہا افغان حکومت کو شواہد کے ساتھ کہہ چکا ہے کہ سرحدپارسے حملے روکے جائیں ،مگرجواب میں محض وعدے اورتاویلات ملیں۔یوں لگتاہے جیسے اسلامی اخوت کارشتہ سیاست کے ریگزارمیں گم ہوگیاہو۔طالبان کے بعض حلقے ان بھارتی فتنہ گروہوں کوکھلی چھوٹ دے رہے ہیں،اورپاکستان مجبور ہوکرجوابی کارروائیوں کررہاہے کہ اسے ہرحال میں اپنے فوجیوں اور شہریوں پرحملوں کوجواب دیناپڑتاہے۔یہی وہ موڑہے جہاں دواسلامی ہمسائے ایک دوسرے کے خلاف صف آراء ہیں اوردشمن تماشائی بن کرقہقہے لگارہاہے۔قرآن کی وہ صدا آج پھر گونجتی ہے:اورآپس میں جھگڑانہ کرو،ورنہ تمہارازورجاتارہے گا۔افسوس!آج یہ آیت صرف تلاوت کیلئےرہ گئی، عمل کیلئے نہیں

طالبان کے پاکستان سے تعلقات جس سرعت سے خراب ہوئے،اسی رفتارسے ان کے بھارت کے ساتھ روابط مستحکم ہوتے گئے۔یہ تبدیلی اتنی غیرمتوقع تھی کہ نہ اسلام آبادکواس کا اندازہ تھا،نہ دہلی کواس کی امید۔تاریخ کے اس موڑپرپاکستان کے40سالہ میزبانی اورحمایت کی محنت گویارائیگاں چلی گئی۔طالبان اب دہلی کے ساتھ سیاسی، تجارتی،اورسفارتی سطح پرروابط بڑھارہے ہیں اوریہی وہ لمحہ ہے جب تزویراتی گہرائی کاخواب تزویراتی تنہائی میں بدل گیا۔یہ سب کچھ اس حقیقت کو آشکارکرتاہے کہ ریاستوں کے تعلقات دل سے نہیں،مفاد سے جڑتے ہیں اورمفادکبھی کسی ایک درپروفادارنہیں رہتا ۔طالبان اب اسلامی برادری کی جگہ علاقائی توازن کے اصول پرکھیل رہے ہیں،اوریہی سیاست کاسب سے مہلک جادوہے جودشمن کو دوست اوردوست کواجنبی بنادیتاہے۔طالبان کے اس رویے نے لاکھوں نہیں کروڑوں ان مسلم نوجوانوں کے دلوں کومجروح کردیاہے جوشب وروزان کی کامیابیوں کیلئے دامے درمے سخنے تیاررہتے تھے۔

مودی حکومت کیلئےیہ قربت محض خارجہ پالیسی کا معاملہ نہیں،بلکہ داخلی بحران سے نجات کاذریعہ بھی ہے۔ کشمیر میں مزاحمت کی تحریکیں،بھارت کے 32سے زائد علاقوں میں علیحدگی کی آوازیں،اورمذہبی منافرت کی آگ یہ سب مودی سرکارکواندرسےکھارہی ہیں۔چنانچہ دہلی نے پاکستان دشمنی کاایک پراناہتھیارپھراٹھایا،جب عوامی اضطراب بڑھ جائے، توخارجی دشمن کی تصویردکھاکران کے غصے کارخ باہرموڑدیاجاتاہے۔ طالبان کے ساتھ تعلقات اس بڑے منصوبے کا حصہ ہیں تاکہ اسلام آبادکودباؤمیں لاکراندرونی ناکامیوں کوچھپایاجاسکے۔یہی وہ موقع ہے جس پراقبال کی صداگونجتی ہے:
تمہاری تہذیب اپنے خنجرسے آپ ہی خودکشی کرے گی
جو شاخِ نازک پہ آشیانہ بنے گا، ناپائدار ہوگا۔
مودی کی حکومت اسی شاخِ نازک پربیٹھ کرخطے کے امن کوداؤپرلگاچکی ہے۔

اگرچہ کابل اوردہلی کے روابط میں گرمی آئی ہے،لیکن دونوں اب بھی منافقت بھری احتیاط کے پردے میں چل رہے ہیں۔طالبان جانتے ہیں کہ کھلی شراکت پاکستان کیلئےاشتعال انگیز ہوگی،اوردہلی بھی جانتاہے کہ طالبان پرمکمل اعتماد ابھی ممکن نہیں۔چین،روس اورایران کی موجودگی میں افغانستان ایک بارپھرعلاقائی بساط بن چکاہے،جہاں ہرطاقت اپنی چال چل رہی ہے۔انڈیا پیچھے نہیں رہناچاہتا، مگرآگے بڑھنے سے پہلے زمین کی سختی کوپرکھ رہاہے۔یہ تعلقات ابھی امتحان کے مرحلے میں ہیں،جہاں ہر فریق دوسرے کے خدوخال دیکھ رہا ہے۔
قدم قدم پہ نگہبان ہیں مصلحت کے چراغ،
ابھی سفر میں ہے رات، ابھی سحر باقی ہے

آخرمیں یہ کہنابے جا نہ ہوگاکہ مودی آج شکست کے خوف اورانتقام کی آگ میں جل رہاہے۔کشمیرمیں پسپائی،سفارتی محاذوں پر ناکامی،اوراندرونی شورش نے اس کے اقتدارکولرزادیاہے۔اب وہ طالبان کی دوستی کے پردے میں پاکستان پردباؤبڑھانے کی کوشش کررہاہےمگر اس کی سیاسی نفسیات انتقام سے عبارت ہے،امن سے نہیں۔یہی وہ کیفیت ہے جس سے خطہ ایک نئی جنگ کے دہانے پرکھڑا ہے۔پاکستان کیلئےاب لازم ہے کہ وہ صرف دفاعی پالیسی پر نہیں،بلکہ فکری اورسفارتی جوابی حکمتِ عملی پرتوجہ دے۔

کیونکہ تاریخ گواہ ہے جو قوم اپنی پالیسی میں تاخیر کرتی ہے،وہ دوسروں کی پالیسی کاحصہ بن جاتی ہے۔مودی اپنے اقتدار کے دوام کیلئے خطے کے امن کو قربان کرسکتاہے،مگرامن کی دعا ابھی بھی اسی کے ہاتھ میں ہے جوانصاف پرقائم ہو۔ قرآن کا وعدہ اٹل ہے:بیشک اللہ ایمان والوں کی خود حفاظت کرتا ہے۔

آج جب ہم اس تحریری سفرکے اختتام پرکھڑے ہوتے ہیں تومنظرکچھ یوں ہوچکاہے کہ ایک طرف خطے کے قدآورمسائل ہیں— سرحدی تنازعات،بے اعتمادی،اقتصادی ضرورتیں اور داخلی سیاسی اضطراب—اوردوسری طرف سفارتی رویوں کی وہ نئی لہرجوکہ جزوی مفادات کوعارضی وقاردیتی ہے مگردیرپا امن کامعیارنہیں۔نئی دہلی اورکابل کی حالیہ نزدیکی محض دوملکوں کامعاملہ نہیں؛یہ اس بات کاآئینہ دارہے کہ جنوبی ایشیاکے امن واستحکام کادارومدارکس قدرنازک اورناہموارہے۔

تاریخ کی قیمت،ضمیرکی قیمت،اورقوم کی خودداری کے حساب پرمبنی ایک افغان تجزیہ کارکاتلخ شدہ قول یادآرہاہے کہ تم افغانوں کو خریدنہیں سکتے مگراپنے مفادات کیلئےکرایہ پرلے سکتے ہو جوزیادہ قیمت لگائے گا،بازی جیت جائے گا۔قوتیں وقتی فائدے کے لالچ میں عوام کی امیدوں کو بیچ دیتی ہیں تونتیجہ خون اوربربادی کے سواکچھ نہیں ہوتااوراگرمفادات پرمبنی یہ تعلقات کسی بڑے تصادم کی راہ ہموارکریں تواس کاخمیازہ صرف دویاتین ریاستوں تک محدود نہیں رہے گا؛یہ پورے خطے کوجھلسادے گا۔ہمیں آج ضرورت ہے حکمتِ عمل کی—ایسی خارجہ و داخلی پالیسی کی جوتاثرنہ دے کہ امن صرف مفادات کا سوزش زدہ منافع ہے، بلکہ ایسی حکمتِ عملی جوانصاف،اعتماد،اوردیرپاشراکت داری کی بنیادرکھے۔قرآن وسنّت کی روشنی میں بھی ہمیں بارہایہ پیغام ملتاہے کہ عدل وانصاف کی بنیادی ضرورات کے بغیرامن محض کاغذی سرخیاں رہ جاتاہے۔اوراقبال کی صداہمیں یاددلاتی ہے کہ خودی کی بلندی وہی قوم حاصل کرتی ہے جوتقدیرکے امتحان میں اصول اورمستقل مزاجی کادامن نہیں چھوڑتی۔

آخر میں،اگرنئی دہلی اورکابل واقعی میں خطے کے مستقبل کوامن کی راہ پرڈالناچاہتے ہیں توانہیں اس مصلحت کے بازارسے نکل کر اخلاقی اورانسانی فلاح کے بازارمیں قدم رکھناہوگا۔ورنہ افغانستان وہ کرائے کی کرنسی بن کررہ جائے گاجس کی قدروقت کے ہاتھوں جھٹک دی جائے گی،اورجنوبِ ایشیاپھرایک نئے محاذ پربھڑک اٹھے گاجس کاانجام تاریخ پہلے بھی لکھ چکی ہے

یہ تمام بیانیہ جنوبی ایشیا کی اس بدلتی حقیقت کو نمایاں کرتا ہے کہ اب نظریات نہیں،عملیت پسندی بین الاقوامی تعلقات کی بنیاد بن چکی ہے۔کابل اوردہلی کی قربتیں،اسلام آبادکیلئےتنبیہ ہیں کہ سیاست صرف جذبات نہیں،بلکہ تدبیراورتدبرکانام ہے۔طالبان کیلئےبھی یہ سبق چھپاہے کہ اسلامی دعوے کاوزن صرف اس وقت باقی رہتاہے جب عمل میں صداقت ہو،اور تعلقات میں دیانت۔
ہزاردام سے نکلاہوں ایک جنبش میں،
جسے غرورہو،طالع کی آزمائش کا
تاریخ کے اس نازک موڑ پر جنوبی ایشیا کی بساط نئے رنگ لے رہی ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ کیا یہ تعلقات امن کی راہ کھولیں گےیامفادکے خنجرسے ایک نئی تباہی تراشی جائے گی۔خدا کرے کہ یہ علاقہ انصاف،حکمت اورصبر کی راہوں کواپنائے— تاکہ آنے والی نسلوں کیلئے ہم خونی تلواروں کی بجائے روٹی، کتاب، اورعلم کی میراث چھوڑکرجائیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں