ہرعہدکی پیشانی پرکچھ سوال وقت کی آگ میں کندہ ہوتے ہیں،سوال جوصرف زخم نہیں ہوتے،سمت کاتقاضاہوتے ہیں۔جب قومیں خواب بھول بیٹھیں، جب ملتیں نقشِ پاکی بجائے زنجیروں کاتعاقب کرنے لگیں،اورجب دل ایمان کے بجائے قومیتوں میں تقسیم ہوجائیں،توتب ایک صدااٹھتی ہے جورگِ جاں میں لرزہ پیداکرتی ہے۔
یہ تحریرایسی ہی ایک صداہے،تاریخ کے سینے میں گونجتی ہوئی،شعورِاُمت کوجھنجھوڑتی ہوئی۔یہ محض الفاظ کامجموعہ نہیں،بلکہ اس خواب کی تجدیدہے جو بدرکی خاک پرابھرکرمکہ کوجھکاگیا،جو اندلس کے ساحلوں سے نکل کردجلہ وفرات میں بہا،جو قسطنطنیہ کی فصیلوں سے ٹکراکروقت کی کروٹ بدل گیا۔
یہ وہ بیانیہ ہے جوامتِ محمدیہﷺکومحض ماضی کے فخرمیں نہیں،مستقبل کی تعمیرمیں یکجادیکھناچاہتاہے۔یہ وہ دستک ہے جو دروازے پرنہیں،دلوں پردی جارہی ہے۔یہ وہ پکارہے جوہراس فردکومخاطب کرتی ہے جواپنے سینے میں ایمان کی آخری چنگاری محسوس کرتاہے،خواہ وہ عالم ہویاعامی،نوجوان ہویابزرگ ،مشرق میں ہویامغرب میں۔
یہ تحریرایک اعلانِ عہدہے،ایساعہدجوکانفرنسوں کی رسمی قراردادوں سے نہیں،دلوں کی گہرائی سے نکلاہے۔ایساعہدجو”امتِ واحدہ” کے اس خواب کو تعبیردیناچاہتاہے جسے صدیوں سے سازشوں،جنگوں اورتفرقوں کی دھول نے ڈھانپ رکھاہے۔
یہ تمہیداس مضمون کیلئے ہے جوآنے والے وقتوں میں صرف ایک تحریرنہیں،ایک فکری کارواں کی ابتداثابت ہوسکتی ہے،اگرہم چاہیں،اگرہم جاگیں۔یہ ایک صداجوتاریخ کی دیواروں سے ٹکرارہی ہے۔
تاریخ کی بھری پُری شاہراہ پرجب کبھی سلطنتیں لرزیں اورجمہوریتیں متزلزل ہوئیں،تویہ زوال اکثرنعرہ ہائے جمہوریت سے نہیں، بلکہ شمشیروسنان کی جھنکارسے ہوا۔آج جب بھارت میں انتخابات کاشوربلندہے،اورقوم پرستی کی آگ بھڑک رہی ہے،ایک اوربھیانک ارتعاش سنائی دے رہاہے—وہی جسے ہم جنگ کاپیش خیمہ کہتے ہیں۔وزیراعظم نریندرمودی،جوسیاست کوتماشہ بنانے میں یدطولیٰ رکھتے ہیں،اس بارنہ صرف ووٹ،بلکہ اقتدارکی خاطر،ایٹمی کھیل کو سڑک پرلانے کوآمادہ نظرآتے ہیں۔
یادرہے،یہ کوئی روایتی سیاسی ہتھکنڈہ نہیں؛یہ تاریخ سے انحراف،اخلاقی انکار،اورکروڑوں جانوں کے مقدرسے ظالمانہ کھلواڑہے۔ بھارت اورپاکستان—دونوں ایٹمی قوتیں،اوردونوں کے دامن میں ماضی کی تلخیاں۔اگریہ آتشیں کھیل واقعی بھڑک اٹھا،تواس کی تپش صرف سرحدوں تک محدود نہیں رہے گی،بلکہ تہذیب کی بنیادیں بھی اس میں جھلس جائیں گی۔
جب جمہوریت کاہجوم میدانِ جنگ میں تبدیل ہوجائے،اورووٹوں کاتماشاتوپوں کے دہانے سے سجادیاجائے،تویہ صرف سیاست کی تذلیل نہیں بلکہ انسانیت کی بربادی کاپیش خیمہ بن جاتاہے۔نریندرمودی کی زیرِقیادت بھارتیہ جنتا پارٹی آج جس راہ پرگامزن ہے،وہ نہ صرف جنوبی ایشیابلکہ عالمی امن کوایٹمی دھوئیں کی لپیٹ میں دھکیلنے کاعندیہ دے رہی ہے۔
تاریخ گواہ ہے کہ فسطائیت جب سیاسی بحرانوں کاشکارہو،توقوم پرستی کے افیون سے عوام کومدہوش کرکے جنگ کانعرہ بلندکرتی ہے۔ہٹلرنے بھی یہی کیا، مسولینی نے بھی یہی راہ اپنائی، اوراب مودی بھی اسی آتش فشاں کے دہانے پرکھڑاغرارہاہے۔مگرفرق صرف یہ ہے کہ آج بھارت اورپاکستان،دونوں ایٹمی طاقتیں ہیں—اوراس بارخون کی ہولی صرف خنجرسے نہیں، تابکاری شعلوں سے کھیلی جائے گی۔
جہاں توپ وتفنگ کی گرج سنائی دیتی ہے،وہاں ایک اورمحاذ خامشی سے قائم ہے—جب پانی کامحاذ—جب دریاہتھیاربن جائیں—تو قوموں کی بربادی کاآغازہوجاتاہے۔سندھ طاس معاہدہ،جوکبھی برصغیر کے عقل مندوں کاشاہکارسمجھاجاتاتھا،اب سیاسی خودغرضی کی بھینٹ چڑھتاجارہاہے۔مودی حکومت،جوداخلی ووٹ بینک کی ہوس میں اندھی ہوچکی ہے،پاکستان کے دریاؤں پرہاتھ ڈالنے کی تیاری میں ہے—گویاکسی قوم کی سانسوں کوبندکر دینا مقصودہو۔یعنی ایٹمی سائے میں ناچتی خنجرکی نوک پرانتخابی مہم کاآغازہے۔
یہ خاموش جنگ بندوق سے نہیں،بلکہ بوندبوندخشک ہوتے کنوؤں،مرجھاتے کھیتوں اوربے رونق گاؤں کی صورت لڑی جارہی ہے۔ کیایہ ستم صرف پاکستان پرہے؟ہرگزنہیں۔یہ وہ آگ ہے جواگربھڑکی،توپوراخطہ اس کی لپیٹ میں آئے گا۔
پاکستان،جوپہلے ہی معاشی،سیاسی اورماحولیاتی بحرانوں سے دوچارہے،اب بھارت کی جانب سے آبی جارحیت کاسامناکررہاہے۔سندھ طاس معاہدہ،جوکبھی عالمی سفارت کاری کی دانشمندی کی علامت سمجھاجاتاتھا،آج مودی حکومت کی تنگ نظرقوم پرستی کی ضدکی نذرہوتاجارہاہے۔یہ محض نہروں کامسئلہ نہیں، یہ پاکستان کی شہ رگ پرہاتھ ڈالنے کی کوشش ہے۔پانی پریہ ایٹمی جنگ—خاموش بربادی کاایساآغازہے جودنیاکوتاریک کرسکتاہے۔
کیاعالمی برادری نہیں جانتی کہ پانی سے زیادہ قیمتی اب کوئی وسیلہ نہیں؟کیااقوامِ متحدہ کے ایوان اتنے بے حس ہوچکے ہیں کہ وہ بھارت کے ہاتھوں خطے کو ایک”ایٹمی واٹروار”کی طرف بڑھتادیکھ کربھی خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں؟
ادھرایک اورگٹھ جوڑتاریخ کے صفحات پرنئی سیاہی سے لکھاجارہاہے—بھارت اوراسرائیل کاباہمی اتحاد۔ایک،مشرق وسطیٰ میں ظلم کااستعارہ؛ دوسرا ، جنوبی ایشیامیں بالادستی کامتمنی۔غزہ میں بچوں کے لاشے گرتے ہیں،اورکشمیرمیں سناٹابولتاہے مگردونوں جگہ یکساں سوچ،یکساں ظلم،اوریکساں جوازسنائی دیتاہے: ’’دہشتگردی کے خلاف جنگ‘‘۔
اسرائیل نہ صرف اپنے اسلحے بلکہ اپنے نظریات کے ساتھ بھارت کے شانہ بشانہ کھڑاہے۔یہ صرف ہتھیاروں کی شراکت نہیں؛یہ اخلاقی زوال کااشتراک ہے—ایک ایسافکری محورجو آزادی کوجرم،اورظلم کوحق سمجھتاہے۔گویاصہیونی سائے تلے دہلی،تل ابیب، واشنگٹن کی نئی شیطانی مثلث وجودمیں آچکی ہے۔عالمی ضمیرکہاں ہے؟اورمغرب؟وہ اقوام جوخودکوانصاف کا علمبردارکہتی ہیں—وہ کہاں ہیں؟جنہوں نے اقوام متحدہ کی چھت تلے قیامِ امن کے عہدباندھے تھے،آج وہ خامشی کی چادرتانے بیٹھے ہیں۔ برک کاوہ جملہ یادآتاہے:شرکی فتح کیلئےاتناہی کافی ہے کہ اچھے لوگ خاموش رہیں”۔
آج وہی خامشی،پورے وقارکے ساتھ، مغرب کے ہونٹوں پرطاری ہے کیونکہ بھارت چین کے مقابلے میں مغرب کیلئےایک تزویراتی مہرہ ہے،اور اسرائیل ان کادیرینہ اتحادی۔لہٰذا اخلاقی قدریں تجارتی مفادات کے نیچے دفن ہوچکی ہیں۔
ایران اورپاکستان،دونوں، اس وقت اسرائیلی جارحیت کی مخالفت میں نمایاں صفوں میں کھڑے ہیں۔اسرائیل جس طرح فلسطین کوخون میں نہلارہا ہے ،اور بھارت کے ساتھ عسکری اتحاد قائم کرکے ہندوصیہونیت کاایک نیاباب رقم کررہاہے،وہ مسلم دنیاکوایک مشترکہ محاذ کی دعوت دے رہاہے—یایوں کہیے،ایک تاریخی ذمہ داری سونپ رہاہے۔جب بھارت،اسرائیلی اسلحہ،اسرائیلی ٹیکنالوجی اوراسرائیلی ذہنیت کے ساتھ سرحدپرآکھڑاہوتاہے،تویہ محض دوہمسایہ ممالک کی چپقلش نہیں رہتی—یہ ایک تہذیبی معرکہ بن جاتاہے،جہاں ایک طرف طاقت کاغرورہے اوردوسری طرف صبر،عقل،اوراصول۔
عالمی طاقتوں کی خاموشی،درحقیقت ایک متعین پالیسی ہے—مشرق وسطیٰ میں تیل اوراسلحے کے سودے،اورجنوب ایشیامیں چین کو گھیرنے کی حکمت عملی،اخلاقیات کے ہراصول کو روندتے ہوئے آگے بڑھتی جارہی ہے۔یہ اقوامِ متحدہ نہیں،اقوامِ مفادات کادورہے اور عالمی طاقتیں اپنے مفادات کیلئے حق،سچ اورصداقت کاآئینہ دیکھنے سے قاصراوراندھی ہوچکی ہیں۔
یہ وہ دورہے جہاں اسرائیل کوغزہ پربمباری کے بعد”اپنے دفاع کاحق”دیاجاتاہے،مگرفلسطینیوں کے بچوں کی لاشوں پرنہ کوئی قرار دادپیش ہوتی ہے نہ تعزیت۔یہی رویہ اب پاکستان اور ایران کے خلاف بھی اپنایاجارہاہے،یہ کوئی نئی بات یاتماشہ نہیں،اس سے قبل پچھلی چاردہائیوں سے افغانستان میں ظلم ودرندگی کاننگاناچ کرنے والی قوتیں کس قدرذلیل ورسواہوکرنکلیں ہیں،اوراب بھی ان کایہی حال ہوگا—گویامظلوم کاجرم صرف یہ ہے کہ وہ مزاحمت کرتاہے۔
ایران،شہیدرجائی کی بندرگاہ کی راکھ سے بصیرت کی قندیلیں روشن کررہاہے۔پاکستان،غزہ اورکشمیرکے زخموں کوسینے میں چھپائے،غیرت وحمیت کی تلوارتھامے کھڑاہے۔ان دونوں ممالک کے درمیان اتحادکی جوپکارآج سنائی دے رہی ہے،وہ وقت کی سب سے اہم صدائیں ہیں۔ایران،افغانستان اورپاکستان میں خاکسترمیں چمکتی روشنی سے انہیں خوف آرہاہے،اسی لئے یہ ان تینوں ممالک کو آپس میں مل بیٹھ کرکسی بھی اتحادمیں رکاوٹ بن کراپنے مفادات کی تکمیل کرناچاہتے ہیں۔
ایران وپاکستان،اس وقت مزاحمت کے پرچم بردارہیں۔تاہم اس تاریکی میں بھی ایک چراغ روشن ہے—تہران واسلام آبادکااتحاد۔ایران، جوصہیونی جارحیت کے خلاف برہنہ تلواربناکھڑا ہے،اورپاکستان،جوآبی دہشتگردی کانشانہ بن رہاہے،آج مشترکہ دکھ،اورمشترکہ دشمن کے خلاف صف آراہیں۔ ان کااتحادمفادکانہیں،ایمان کاہے۔یہ انکارِظلم کاعہدہے۔یہ کربلاکاورثہ ہے—جہاں خون،خنجرسے شکست نہیں کھاتا،بلکہ تاریخ میں اپنامقام بناتاہے۔
وقت آچکاہے کہ ہم صرف مرثیے نہ لکھیں،ہم صرف ماتم نہ کریں،بلکہ ہم تاریخ کارخ بدلنے کیلئےدانش،تدبراوروحدت کے ہتھیاروں سے لیس ہوں۔ ایک سوال،جوتاریخ پوچھے گی،کل جب مورخ قلم اٹھائے گا،وہ یہ سوال ضرورلکھے گا:جب دنیاایٹمی آگ کے دہانے پرتھی،توکیااہلِ دانش،اہلِ قلم،اہلِ اقتدارخاموش تماشائی بنے رہے؟
آج ایٹم کی دہلیزپرسیاست کارقص ہورہاہے—جب مودی کی جمہوریت،تباہی کاانتخاب کرے تواس کولگام ڈالنے کیلئے اقوام عالم کی امن پسندقوتوں کواٹھنا ہو گا۔آج ہمیں فیصلہ کرناہے۔ہمیں دشمن کی جارحیت کوصرف ردکرنے کی بجائے ایک فکری،سفارتی،اورتہذیبی محاذپرشکست دینی ہے۔ہمیں دکھاناہے کہ برصغیرکی جنگ نہ ہندوتواجیت سکتی ہے،نہ بم—بلکہ صرف امن،عقل،اوراتحادہی اس خطے کی تقدیررقم کرسکتے ہیں۔آج بھی وقت ہمارے ہاتھ سے مکمل طورپرنکل نہیں گیا۔ابھی مہلت باقی ہے کہ دنیاکی آوازیں یکجاہوجائیں،کہ صحافت،شاعری اور سفارت،مل کرجنگ کی آگ پرپانی ڈالیں۔
تاریخ صرف وہ واقعات یادنہیں رکھتی جوہوئے؛وہ خاموشیاں بھی یادرکھتی ہے،جنہوں نے ظلم کوجنم دیا۔آئیں،خاموشی توڑیں—نہ نفرت سے،بلکہ شعورسے۔نہ جنگ سے،بلکہ وقارسے ۔تاریخ کی دہلیزپر،ایک لمحہ اختیارکاصدیوں پربھاری ہوتاہے۔کہیں ایسانہ ہوکہ کل کی نسلیں ہم سے سوال کریں کہ”جب دنیاجلنے لگی،تم کہاں تھے؟”
اے ملتِ اسلامیہ!جاگنے کاوقت آپہنچاہے،امتِ مصطفیٰ کے نام ایک پکارہے،ایک چیخ ہے،ایک فریادہے،اک سوال ہے کہ جب کعبہ کی چھاؤں میں اذان گونجی تھی،توقیصروکسریٰ کے ایوان لرزے تھے اورآج، انہی ایوانوں کے وارث—پاکستان،ایران،ترکی،اور افغانستان—غفلت کی دھندمیں گم،اپنی اپنی فصیلوں کے اندردشمنوں کے خنجرگنتے ہیں۔
اے خاکِ حجازکی خوشبوکے امینو!دشمن تمہاری سرزمین کوزرخیزنہیں،بلکہ بے حس دیکھناچاہتاہے ۔مودی،نیتن یاہواورٹرمپ—تین سائے،تین سامری ،تین فتنے—آج تمہارے دریا، تمہارے پہاڑ،تمہاری دانش،تمہاری غیرت،سب کچھ چھین لینے کی سازش میں مصروف ہیں۔پاکستان کے ایٹمی اثاثے ان کی آنکھ کاکانٹاہیں۔ایران کاخوددارسائنسدان ان کے میزائلوں کا نشانہ ہے۔ترکی کی خود مختارپالیسی ان کے مفادات کیلئےخطرہ ہے۔افغانستان کاجغرافیہ ان کی بندوق کی راہ میں رکاوٹ ہے ۔ون ورلڈآرڈر،صیہونی طاقت،اورسامراجی زنجیریں صرف ایک مقصد؟ایک ایساشیطانی خواب ،جس میں نہ اذان ہو،نہ افطار،نہ آزادیِ فکر،نہ غیرتِ عمل۔۔۔۔صرف سودی نظام ۔
یادرکھو!اگرآج بھی ہم نے اخوتِ اسلامی کاپرچم بلندنہ کیاتوکل ہمارے مساجد ومدارس،ہمارے مدرسے ومزار،سب خاک کاحصہ بن جائیں گے۔وہ دن دورنہیں کہ حرم کی دیواریں بھی قرض کے عوض گروی رکھی جائیں گی،اورقبلہ اول کاسایہ،صرف تصویروں میں باقی رہ جائے گا۔
مسلمانو!اب وقت ہے کہ تم زبان،نسل،فرقہ،اورمسلک کے تمام پردے چاک کرکے ایک پرچم تلے جمع ہوجاؤ—وہ پرچم جوبدرکے میدان میں بلندہواتھا ، وہ پرچم جس نے کربلامیں سرکٹوا کربھی گرنے نہ دیا۔آغازپاکستان،ایران،افغانستان اورترکی سے کرو۔یہ چارستون،اگرایک مرکزپرجمع ہوجائیں،توان سے ایک ایسی اسلامی شوریٰ بن سکتی ہے جونہ صرف اپنی قوموں کادفاع کرسکتی ہے،بلکہ امتِ مسلمہ کے باقی ٹکڑوں کوبھی جوڑسکتی ہے۔چین اورروس،اس سازش سے آگاہ ہیں۔عرب دنیا،اگرچہ خوفزدہ ہے،لیکن اس کے دل میں بھی سچ کی دھڑکن باقی ہے۔ان کااعتمادتب بحال ہوگاجب انہیں دکھائی دے گا کہ کوئی اٹھاہے،کوئی بولاہے،کوئی آگے بڑھاہے۔
آؤ،ایک نئی صبح کی بنیادرکھو،ایک ایسی صبح جہاں نہ”مسلم”ایرانی ہونہ پاکستانی،نہ ترک،نہ افغانی ہو،بلکہ صرف امت محمدیﷺہو۔کیا تمہیں وہ دن یاد ہے جب تم نے لبیک اللہم لبیک کہاتھا؟آج وقت ہے کہ اس لبیک کوعمل میں ڈھالو،اپنے ایٹم سے نہیں،اپنے ایمان سے ڈراؤ۔اپنے تیل سے نہیں، اپنے اتحادسے طاقت دکھاؤ۔اپنے وطن کی نہیں،امت کی سرحدیں بچاؤ۔
خداکی قسم!اگرتم نے اخلاص سے قدم اٹھایا،توفرشتے تمہاری صفوں میں اتریں گے،آسمان تمہارے نعرے سن لے گا،اورزمین تمہاری غیرت سے جگمگا اٹھے گی پاکستان، ایران، افغانستان اورترکی،تم ہی ہووہ چارچراغ،جن سے پھرسے روشنی ممکن ہے۔اٹھو!کیونکہ اب بھی وقت ہے،قبل اس کے کہ تاریخ تمہارے ماتھے پرغلامی کاداغ ثبت کرے۔غورسے سنو، امتِ مسلمہ کے بکھرے ستاروں کوایک کہکشاں بنانے کی صداگونج رہی ہے۔اب وقت ہے کہ ہم دشمن کے ہنستےچہروں کے پیچھے چھپی سازشوں کوپہچانیں۔
اے وہ مسلمانوجن کے اجدادنے اندلس کے ساحلوں پراذانیں بلند کیں،اے وہ وارثانِ اسلام!جن کی تلوارنے قیصروکسریٰ کے تاج روند ڈالے،آج تم کہاں ہو؟کہاں چھپ گئے،وہ لہوجو احداورصفین میں بہے؟تمہیں نیند کیسے آتی ہے جب غزہ کی بیٹیاں دوپٹے کے بغیردفن ہوتی ہیں؟تم کیسے خاموش ہوجب کشمیری بچے ماؤں کے آغوش میں لاش بن جاتے ہیں؟
دشمن نے تمہیں قومیت کے رنگوں میں الجھاکردین کے تاج سے محروم کیا۔تمہیں شیعہ وسنی،فارسی وعربی،ترک وافغان کے خانوں میں بانٹ کر تمہاری “امت”کوخاک کردیا۔آج دشمن کے ہاتھ میں میڈیاہے،معیشت ہے،اسلحہ ہے،اورتمہارے ہاتھ میں صرف بےحسی، انتشار،اورباہمی نفرت۔ مودی،نیتن یاہواوران کے سرپرست سامراجی ایوان—یہ وہ شیاطین ہیں جوخلافتِ عثمانیہ کے ملبے پرجشن مناتے آئے،اوراب نئی صدی میں پاکستان، افغانستان،ایران اورترکی کی قوت کومٹی میں ملانے کی تدبیریں کررہے ہیں۔پاکستان کاقصوریہ ہے کہ وہ ایٹمی طاقت ہے۔افغانستان کی خطایہ ہے کہ وہ غیرت کاآخری قلعہ ہے۔ایران کاجرم یہ ہے کہ وہ جھکتا نہیں۔ترکی کاگناہ یہ ہے کہ وہ خلافت کاوارث ہے۔انہیں علم ہے کہ اگریہ چارقوتیں ایک ہوگئیں،توان کے ون ورلڈآرڈرکی بنیادیں لرز جائیں گی۔
کیاتمہیں معلوم ہے؟اب”تلوار”میزائل کی شکل میں نہیں،اتحادکی حکمت میں ہے۔اب جنگ”بارود”سے نہیں،بیانیے سے جیتی جاتی ہے۔ اوربیانیہ وہی غالب آتاہے جس میں حق، اخلاق،شجاعت،اوربصیرت ہو۔اگرہم صرف نمازکی صف میں کندھے سے کندھاملاسکتے ہیں، توسیاست،معیشت، سائنس ،ٹیکنالوجی،سفارت،اورعسکری حکمت میں کیوں نہیں؟امت کے سرپرایک قیادت کیوں نہیں؟او آئی سی کے اجلاسوں سے آگے کب قدم بڑھے گا؟
پاکستان کوقرضوں کے شکنجے میں کساجارہاہے،اورافغانستان کے آسمان پرڈرون اب بھی منڈلارہے ہیں۔آج ایران کے بازاروں پر پابندیاں ہیں،ترکی کی معیشت کودبوچاجارہاہے،یہ سب ایک سازش ہے کہ کہیں یہ قومیں پھرسے صلاح الدین پیدانہ کرلیں،کہیں پھر سے خالدبن ولیدکی روح نہ جاگ اٹھے، کہیں پھرسے علامہ اقبالؒ،محمدعلی جناحؒ،امام خمینیؒ،ارطغرل، امیرتیمور، احمدشاہ ابدالی جیسے رہنمانہ ابھرآئیں۔
دنیاکی معیشت تمہارے تیل پر،دنیاکی سائنس تمہارے دماغوں پر،دنیاکاجمال تمہاری ثقافت پر،اوردنیاکامستقبل تمہاری جوان نسل پرکھڑا ہے اورتم ہوکہ فرقوں،جماعتوں،قومیتوں میں بٹے ہوئے ہو؟
اے نوجوانواٹھو!سوشل میڈیاپرایک دوسرے کوگرانے کی بجائے دشمن کے پروپیگنڈے کوبےنقاب کرو۔
اے علماومفکرین!اب منبرسے صرف وعظ نہ دو—امت کواتحاداورمحبت کامنشوردو۔
اے سیاستدانو!اب صرف اپنے ملک کاجھنڈانہ اٹھاؤ—امت کی چادرسنوارو۔
دنیاکی طاقتیں اپنے مفادکیلئےبلاک بناتی ہیں،توکیاامت محمدیہﷺایک مقصدالٰہی کیلئےبلاک نہیں بناسکتی؟اگریورپی یونین،نیٹو،ورلڈ بینک،جی7، جی20 وجودمیں آسکتے ہیں تو”اتحادامت بلاک”کیوں نہیں؟ایک مشترکہ دفاع،مشترکہ کرنسی،مشترکہ عدالت،مشترکہ بیانیہ کیوں نہیں؟کیوں نہ ہم ایسامعاہدہ کریں جومکہ،اسلام آباد،کابل،قم اورانقرہ کے میناروں کوایک آوازمیں باندھ دے؟کیوں نہ ہم ایسانظام بنائیں جس میں نہ سنی ہو،نہ شیعہ—صرف “عبداللہ ” ہو؟
یادرکھو اللہ نے وعدہ کیاہے کہ اگرتم میری مددکروگے،میں تمہاری مددکروں گا۔توآؤ،اپنی صفوں کودرست کریں،اپنے دلوں کوجوڑیں، اورایک نئے سورج کااستقبال کریں۔ورنہ تاریخ ہمیں معاف نہیں کرے گی،اورنسلِ نوہمیں لعنتوں کے طوق میں یادکرے گی۔
آئیے!آج ہم ایک عہد اتحادامت پرجمع ہوجائیں جہاں ہم اپنے رب کوحاضرناظرجان کرامتِ محمدیہﷺکے مابین اتحادواتفاق کے ابدی میثاق کارسمی اعلان کریں کہ ہم،پاکستان، ایران، افغانستان،اورترکی کے مسلمان—دین،غیرت،علم،اورعدل کیلئےایک ساتھ کھڑے ہونے کاعہدکرتے ہیں۔۔۔
ہم،خطۂ عالمِ اسلام—پاکستان، افغانستان،ایران،ترکی—کے وہ فرزندانِ ملتِ اسلامیہ،جو لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللہُ مُحَمَّدُ رَّسُولُ اللہ ﷺکے کلمے پریک جان،یک دل اوریک عہد ہیں،آج کے دن اس تاریخ سازلمحے میں عہدِاتحادِامت کااعلان کرتے ہیں،ایک ایساعہدجوخون سے زیادہ گہرا، عقیدے سے زیادہ مقدس،اورتاریخ سے زیادہ پائندہ ہے۔
ہم سب مل کریہ عہدکرتے ہیں کہ:ہم وحدتِ امت کیلئے فرقہ، قوم،زبان،نسل یاجغرافیہ کی بنیادپرامت کے اندرتفرقے کی ہرشکل کو مستردکرتے ہیں۔ہم صرف امتِ واحدہ کے امین وپاسبان ہیں۔
دفاعِ مسلمین کیلئے پاکستان کی ایٹمی صلاحیت،ایران کی علمی پیش رفت،ترکی کی عسکری وسیاسی بیداری اوافغانستان کی غیرتِ دینی—ان سب کوامت کی مشترکہ ڈھال تصورکیاجائے گا۔ان میں سے کسی ایک پرحملہ، امتِ مسلمہ کے قلب پرحملہ سمجھاجائے گا۔
چاروں ممالک کے درمیان مشترکہ دفاعی کونسل،خارجہ پالیسی کامشاورتی پلیٹ فارم،اور اسلامی بلاک آف پاورکے سیاسی اتحاد کی بنیادرکھی جائے گی۔
معاشی وعلمی یکجہتی کیلئے مشترکہ کرنسی،تجارت،تعلیمی وظائف،علمی وتحقیقی اداروں کانیٹ ورک،اورمیڈیا بیانیے کا اتحاد قائم کیا جائے گاتاکہ امت کافکری قبلہ ایک ہو۔
قبلہ اول اورمظلومین عالم کیلئے فلسطین،کشمیر،یمن،شام،لیبیا،برمااوردنیابھرکے مظلوم مسلمانوں کے دفاع کواسلامی فرض قراردیا جائے گا۔ان کی حمایت، ہرمسلمان پرواجب اورہرحکومت پرلازم ہوگی۔
ہم عہد کرتے ہیں کہ نہ ہماری زبانیں ایک دوسرے کی تحقیر کریں گی، نہ ہمارے منبر نفرت کا بیج بوئیں گے، نہ ہمارے حکمران دشمنوں کے در کے محتاج ہوں گے، نہ ہماری غیرت مغرب کی کرسیوں پر نیلام ہو گی۔
ہم عہدکرتے ہیں کہ امت کاغم ہماری اولین ترجیح،اس کی عزت ہمارااولین فخر،اوراس کادفاع ہماری سب سے بڑی ذمہ داری ہوگا۔
اے اللہ ہم تیرے وہ بندے ہیں جوتیرے دین کی سربلندی کیلئےیک جاہورہے ہیں۔ہماری صفوں میں اخلاص پیدافرما،ہمارے دلوں کوجوڑدے،ہمارےدشمنوں کو ذلیل کردے،اورہمیں وہ حوصلہ،وہ حکمت،اوروہ وحدت عطافرماجوفتح مکہ،یومِ بدراورصلح حدیبیہ میں ہمیں دکھائی گئی تھی۔
یہ عہدنہ کسی کانفرنس کارسمی اعلامیہ ہے،نہ کسی حکومت کی وقتی مصلحت،یہ امت کے زندہ دلوں کاخون میں ڈوباہواوعدہ ہے جو کربلاسے لے کرالقدس تک،اسلام آبادسے لیکرسرینگرو جموں وکشمیرتک،غزہ سے لے کرکابل تک،اورمدینہ سے لے کرمشہدوقونیہ تک، ایک ہی صدابن کرگونجے گا:
اِنَّمَاالْمُؤْمِنُوْنَ اِخْوَةٌ۔۔۔۔۔ بے شک مسلمان آپس میں بھائی بھائی ہیں۔