The Water Problem: Diplomatic Solution or Confrontation?

پانی کا مسئلہ: سفارتی حل یا تصادم؟

:Share

پاکستان اور ہندوستان کے درمیان پانی کا تنازع کئی دہائیوں پر محیط ہے، اور ماہرین کا خیال ہے کہ مستقبل میں پانی کی قلت اس خطے میں کشیدگی کو مزید بڑھا سکتی ہے۔ جنوبی ایشیا میں دریاؤں کے نظام کی پیچیدہ نوعیت، آبادی میں تیزی سے اضافہ، موسمیاتی تبدیلی، اور سیاسی اختلافات اس تنازعے کو مزید سنگین بنا رہے ہیں۔ پاکستان اور ہندوستان کے پانی کے تنازعے کی جڑیں تقسیمِ ہند سے جڑی ہیں۔ 1960 میں سندھ طاس معاہدہ کے تحت دریائے سندھ اور اس کی معاون ندیاں (دریائے جہلم، چناب، سندھ، راوی، بیاس، اور ستلج ) دونوں ممالک کے درمیان تقسیم کی گئیں۔ معاہدے کے مطابق مشرقی دریاؤں (راوی، بیاس، ستلج) کا کنٹرول ہندوستان کو دیا گیا۔ مغربی دریاؤں مغربی دریاؤں (جہلم، چناب، سندھ) پر پاکستان کا حق تسلیم کیا گیا، لیکن ہندوستان کو محدود مقدار میں “غیر استعمالی” مقاصد (جیسے ہائیڈرو الیکٹرک پروجیکٹس) کیلئےپانی استعمال کرنے کی اجازت دی گئی۔ یہ معاہدہ عالمی سطح پر کامیاب سمجھا جاتا ہےکیونکہ اس نے 1965 اور 1971 کی جنگوں کے باوجود دونوں ممالک کو پانی کے تنازعات پر بات چیت کا پلیٹ فارم فراہم کیا۔

سندھ طاس معاہدہ 19ستمبر 1960ء کو پاکستان اور بھارت کے درمیان طے پایا تھا، جس میں عالمی بینک نے ثالث کا کردار ادا کیا۔ اس معاہدے کا مقصد دریائے سندھ اور اس کی معاون دریاؤں کے پانی کے تنازعے کو حل کرنا تھا۔ اس معاہدے کے تحت دریاؤں کے پانی کی تقسیم کی گئی تھی جس کے مطابق مشرقی دریاؤں دریائے راوی، بیاس، اور ستلج ہندوستان کے حصے میں اور مغربی دریاؤں ،دریائے سندھ، جہلم اور چناب کے پانی پر پاکستان کو مکمل اختیار حاصل ہو گیا اور اس طرح طاس سندھ معاہدہ کی بنیاد رکھی گئی۔ معاہدے کے مطابق، بھارت مغربی دریاؤں کے کچھ پانی کو مخصوص مقاصد کیلئےاستعمال کر سکتا ہے، لیکن وہ پاکستان کیلئےمختص پانی کو روکنے کا مجاز نہیں ہے۔

ہندوستان کو مشرقی دریاؤں (راوی، بیاس، ستلج) پر مکمل کنٹرول دیا گیا۔ وہ ان دریاؤں پر بند بنا سکتا ہے، پانی ذخیرہ کر سکتا ہے، یا زرعی استعمال کر سکتا ہے ۔ مغربی دریاؤں (سندھ، جہلم، چناب) پر ہندوستان کو محدود استعمال کی اجازت دی گئی تھی ، جیسے آبپاشی، پن بجلی اور گھریلو ضروریات کیلئے، بشرطیکہ اس سے پاکستان کے حصے میں پانی کی مقدار متاثر نہ ہو۔، مثلاً بجلی پیدا کرنے کیلئے”رن آف دی ریور” ہائیڈرو پاور منصوبے، لیکن پانی کو روک کر ذخیرہ کرنے کی اجازت نہیں۔ جبکہ مغربی دریاؤں پر پاکستان کا مکمل حق ہے۔ ہندوستان ان دریاؤں کے بہاؤ میں رکاوٹ نہیں ڈال سکتا۔ تنازعات کو حل کرنے کیلئےسنیارٹی کمیشن قائم کیا گیا۔ اگر یہ کمیشن مسئلہ حل نہ کر سکے تو عالمی عدالت انصاف یا ثالثی عدالت سے رجوع کیا جا سکتا ہے۔

ہندوستان کی طرف سے پاکستانی دریاؤں کے پانی کا موڑنے کے دعوے کے مطابق ہندوستان نے مشرقی دریاؤں (راوی، بیاس، ستلج) پر اپنے حقوق کا استعمال کرتے ہوئے متعدد ڈیم اور نہری نظام بنائے ہیں، جس کی وجہ سے پاکستان تک پانی کی مقدار کم ہوئی ہے۔ تاہم، ہندوستان کا یہ دعویٰ ہے کہ یہ اقدامات سندھ طاس معاہدے کے تحت جائز ہیں۔ تاہم، حالیہ برسوں میں بھارت نے مغربی دریاؤں پر متعدد ڈیم اور بیراج تعمیر کیے ہیں، جن میں کشن گنگا اور راتلے ہائیڈرو پاور پراجیکٹس شامل ہیں۔ پاکستان کو ان منصوبوں پر تحفظات ہیں اور وہ سمجھتا ہے کہ یہ معاہدے کی خلاف ورزی ہیں اور اس سے اس کے پانی کے حقوق متاثر ہو سکتے ہیں۔

بھارت کا دعویٰ ہے کہ ہندوستان کو مشرقی دریاؤں (راوی، بیاس، ستلج) پر مکمل کنٹرول دیا گیا ہے۔ وہ ان دریاؤں پر بند بنا سکتا ہے، پانی ذخیرہ کر سکتا ہے، یا زرعی استعمال کر سکتا ہے۔ مغربی دریاؤں (سندھ، جہلم، چناب) پر ہندوستان کو محدود استعمال کی اجازت ہے، مثلاً بجلی پیدا کرنے کیلئے”رن آف دی ریور” ہائیڈرو پاور منصوبے، لیکن پانی کو روک کر ذخیرہ کرنے کی اجازت نہیں۔ جبکہ مغربی دریاؤں پر پاکستان کا مکمل حق ہے۔ ہندوستان ان دریاؤں کے بہاؤ میں رکاوٹ نہیں ڈال سکتا۔ تنازعات کو حل کرنے کیلئےسنیارٹی کمیشن قائم کیا گیا۔ اگر یہ کمیشن مسئلہ حل نہ کر سکے تو عالمی عدالت انصاف یا ثالثی عدالت سے رجوع کیا جا سکتا ہے۔

موجودہ تنازعات کے محرکات میں سب سے اہم ہندوستان کے ہائیڈرو الیکٹرک منصوبے ہیں۔ ہندوستان دریائے چناب اور جہلم پر متعدد ڈیمز اور ہائیڈرو پاور پلانٹس بنا رہا ہے، جنہیں پاکستان معاہدے کی خلاف ورزی قرار دیتا ہے۔ نمایاں مثالوں میں شامل ہیں۔

ہندوستان نے دریائے چناب پر بگلیہار ڈیم بنا کر معاہدے کی خلاف ورزی کی۔ پاکستان نے اعتراض کیا کہ ڈیم کی تعمیر معاہدے کی خلاف ورزی ہے کیونکہ اس کے ذریعے بھارت پانی کو کنٹرول کر سکتا ہے۔ عالمی ثالثی عدالت نے فیصلہ دیا کہ بھارت ڈیم بنا سکتا ہے لیکن اسے پاکستان کیلئےپانی کے بہاؤ میں رکاوٹ پیدا نہیں کرنی چاہیے جس پر 2007ء میں ثالثی عدالت نے ہندوستان کو ڈیم کی اونچائی کم کرنے کا حکم دیا۔اس کے ساتھ ہی بھارت نے معاہدے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے دریائے جہلم پر کشن گنگا ہائیڈرو پاور پراجیکٹ دریائے نیلم (جسے بھارت میں کشن گنگا کہا جاتا ہے) پر تعمیر کیا گیا۔

پاکستان کا مؤقف ہے کہ کشن گنگا ہائیڈرو پاور پراجیکٹ منصوبہ دریائے جہلم کے بہاؤ کو روک کر اس کے زرعی نظام کو متاثر کر رہا ہے۔ اور پاکستان نے یہ بھی اعتراض کیا کہ اس منصوبے سے دریائے نیلم کے بہاؤ میں کمی واقع ہو سکتی ہے، جو آزاد کشمیر اور پنجاب کے علاقوں کو متاثر کرے گی۔ پاکستان نے عالمی بینک سے رجوع کیا،2013ء میں ثالثی عدالت نے ہندوستان کو منصوبہ جاری رکھنے کی اجازت دی، لیکن پانی کی ایک خاص مقدار پاکستان کو فراہم کرنے کی شرط عائد کی۔ تاہم، بھارت نے یہ منصوبہ مکمل کر لیا، اور پاکستان کو پانی کے بہاؤ میں کمی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔

کے خلاف بھی کیس دائر کر رکھا ہے۔یہ ڈیم دریائے چناب پرتعمیرکیاجارہاہے، پاکستان نے عالمی بینک کی ثالثی کورٹ میں بھارتی رتل ہائیڈرو الیکٹرک اور پاکستان کو خدشہ ہے کہ اس سے پانی کی مقدار کم ہو سکتی ہے۔ بھارت کا موقف ہے کہ یہ منصوبہ سندھ طاس معاہدے کے تحت جائز ہے، جبکہ پاکستان اسے معاہدے کی خلاف ورزی سمجھتا ہے۔

بھارت نے دریائے راوی اور بیاس کے پانی کو انڈرا گاندھی نہر کے ذریعے اس کے پانی کا رخ راجستھان کی طرف موڑ دیا ہے اور دریائے ستلج پربھاکڑا ڈیم میں پانی کا ذخیرہ کرتے ہوئے اس کی تعمیر کرکے معاہدے کی خلاف ورزی کی ہے۔ اس کے علاوہ مغربی دریاؤں پر ہندوستان نے کئی متنازعہ منصوبے شروع کیے ہیں جو پاکستان کے خدشات کا باعث بنے ہیں، مثلاً:
٭ ہندوستان کا مؤقف ہے کہ اس نے مشرقی دریاؤں (راوی، بیاس، ستلج) کا پانی اپنی طرف موڑا ہے، جو معاہدے کے تحت جائز ہے اور مغربی دریاؤں (سندھ، جہلم، چناب) پر ہندوستان کے منصوبوں کو معاہدے کی خلاف ورزی نہیں سمجھا جاتا، البتہ پاکستان مسلسل ان پر اعتراضات کرتا رہا ہے۔

٭ پاکستان کا موقف ہے کہ ہندوستان کی طرف سے ڈیمز کی تعمیر سے دریاؤں کے “بہاؤ کی مقدار اور وقت” متاثر ہوتا ہے، جو معاہدے کی روح کے خلاف ہے۔ سندھ طاس معاہدے کے تحت ہندوستان نے تین دریاؤں (راوی، بیاس، ستلج) کا پانی مکمل طور پر اپنے استعمال میں لے لیا ہے، جس کو وہ قانونی طور پر جائز سمجھتا ہے۔ اورمغربی دریاؤں پر ہندوستان کے منصوبوں کو معاہدے کی خلاف ورزی نہیں سمجھا جاتا، لیکن سندھ طاس معاہدے کے تحت پاکستان انہیں اپنے مفادات کیلئےخطرہ قرار دیتا ہے۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ مستقبل میں پانی کے وسائل پر کشیدگی میں اضافہ ہو سکتا ہے، جس کی وجوہات درج ذیل ہیں:
٭ ہمالیائی گلیشیئرز تیزی سے پگھل رہے ہیں، جس کی وجہ سے پانی کی قلت پیدا ہو رہی ہے۔ موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرنے بھی گلشیئرز کے پگھلنے، غیر یقینی بارشوں، اور شدید گرمی کی لہروں نے دریاؤں کے بہاؤ کو غیر مستقل بنا دیا ہے۔ مثال کے طور پر، دریائے سندھ کا 80% پانی ہمالیہ کے گلیشیئرز سے آتا ہے، جو موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے تیزی سے پگھل رہے ہیں۔ یہ صورتحال دونوں ممالک میں پانی کی دستیابی کو غیر یقینی بنا رہی ہے۔
٭بھارت کی جانب سے دریاؤں پر مزید ڈیم بنانے کی حکمت عملی پاکستان میں پانی کے شدید بحران کا سبب بن سکتی ہے۔
٭پاکستان کا انحصار مغربی دریاؤں پر ہے، اس لئے اگر بھارت پانی روکنے کی پالیسی اپناتا ہے تو پاکستان میں زرعی پیداوارشدیدمتاثرہوسکتی ہے جومعیشت اور خوراک کی دستیابی کیلئےخطرہ بنے گی۔
٭پاکستان اور بھارت کی بڑھتی ہوئی آبادی پانی کی طلب میں اضافے کا باعث بن رہی ہے۔ آبادی اور زراعت کے دباؤ کی وجہ سے پاکستان دنیا کا چوتھا سب سے بڑا پانی کا “اسٹریسڈ” ملک ہے، جہاں فی کس پانی کی دستیابی 1,000 کیوبک میٹر سالانہ سے بھی کم ہو چکی ہے۔ ہندوستان میں بھی 60 کروڑ افراد پانی کی قلت کا شکار ہیں۔ زراعت (جو دونوں ممالک کی معیشت کا 20-25% ہے) کیلئےپانی کی مسلسل طلب تنازعات کو ہوا دے رہی ہے۔
٭پاکستان بار بار ہندوستان پر سندھ طاس معاہدے کی خلاف ورزی کا الزام لگاتا ہے۔
جیو پولیٹیکل تناؤ یعنی کشمیر تنازعہ اوربھارتی دہشتگردی کے معاملات پر تعلقات کشیدہ ہونے سے پانی کے معاملات پر بات چیت مشکل ہو گئی ہے۔
٭کچھ تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ ہندوستان پانی کو ہتھیار کے طور پر استعمال کرکے پاکستان کی طرف جانے والے پانی کے بہاؤ کو کنٹرول کر کے پاکستان پر دباؤ ڈالنے کی کوشش کر رہا ہے۔

سوال یہ ہے کہ سندھ طاس معاہدہ جو 21ویں صدی کا سب سے طویل المدتی اور کامیاب معاہدہ سمجھا جاتا تھا، کیا سندھ طاس معاہدہ ناکام ہو چکا ہے اور موجودی چیلنجز سے نمٹنے کیلئے تیار نہیں؟
٭ڈیٹا شئیرنگ کے فقدان کی بناء پر دونوں ممالک دریا کے بہاؤ کے اعداد و شمار کو شفاف طریقے سے شیئر نہیں کرتے۔
٭موسمیاتی تبدیلیوں کے عدم احتساب کی بناء پر بھی معاہدے میں گلوبل وارمنگ یا گلیشیئرز کے پگھلاؤ جیسے عوامل شامل نہیں۔
٭ہندوستان معاہدے کے مطابق تمام متنازعہ مسائل کے حل کی ثالثی کیلئے ورلڈ بینک کی بجائے دو طرفہ مذاکرات پر زور دے رہا ہے جس کی بناء پر ان مجوزہ مسائل کے حل میں تاخیر ہو رہی ہے جس کیلئے بھارت مکمل ذمہ دار ہے۔ معاہدے میں گلوبل وارمنگ یا گلیشیئرز کے پگھلاؤ جیسے عوامل شامل نہیں ۔

دونوں ممالک کے درمیان تنازعات کا حل معاہدے کے تحت موجود طریقہ کار سے ہی ممکن ہے اور مسئلے کے ممکنہ حل کیلئے فوری طور پر ان عوامل پر عمل کرنا ہو گا:
٭دونوں ممالک کو سندھ طاس معاہدے کا جدید جائزہ لیتے ہوئے معاہدے کے پرانے نکات پر نظرِ ثانی کر کے بدلتے حالات کے مطابق اسے اپڈیٹ کرنا ہوگا۔
٭پاکستان کو مزید ڈیم اور آبی ذخائر تعمیر کرنے ہوں گے تاکہ پانی کے ذخیرے کو بڑھایا جا سکے۔ بین الاقوامی فورمز پر آبی تنازعات کو بہتر سفارتکاری کے ذریعے حل کیا جائے
٭دونوں ممالک کو پانی کے مؤثر استعمال، جدید زراعتی نظام اور پانی کی بچت کی پالیسیوں کو اپنانا ہوگا۔
٭موسمیاتی تبدیلیوں، ڈیٹا شیئرنگ، اور نئی ٹیکنالوجیز کو معاہدے میں شامل کیا جائے۔
٭ڈرپ ایریگیشن، اسمارٹ واٹر گرڈز، اور واٹر ریسائیکلنگ پلانٹس جیسی جدید ٹیکنالوجی سے پانی کے استعمال میں کارکردگی بڑھائی جا سکتی ہے۔

اگر دونوں ممالک پانی کے انتظام کو جیو پولیٹکس سے بالاتر رکھنے میں ناکام رہے، تو یہ تنازعہ کشیدگی میں تبدیل ہو سکتا ہے۔ عالمی بینک کے مطابق2050
تک پاکستان میں پانی کی دستیابی موجودہ سطح سے 50% کم ہو جائے گی، جو صورتحال کو مزید سنگین بنا دے گی جو ایک خطرے کی گھنٹی ثابت ہو سکتی ہے۔

مزید برآں، بھارت نے حال ہی میں سندھ طاس معاہدے میں ترامیم کا نوٹس جاری کیا ہے، جس میں موجودہ حالات کے پیش نظر معاہدے پر نظرثانی کی بات کی گئی ہے۔ پاکستان نے اس نوٹس پر باضابطہ ردعمل ظاہر نہیں کیا، لیکن یہ معاملہ دونوں ممالک کے درمیان آبی تنازعات کو مزید پیچیدہ بنا دیا ہے ۔ ان حالات میں، پاکستان اور بھارت کے درمیان آبی تنازعات کے حل کیلئےمؤثر مذاکرات اور بین الاقوامی ثالثی کی ضرورت ہے تاکہ دونوں ممالک کے درمیان پانی کی منصفانہ تقسیم اور معاہدے کی پاسداری کو یقینی بنایا جا سکے۔

سوال یہ ہے کیا پانی کے نام پر جنگ ہو سکتی ہے؟ پانی کی قلت اور اس پر کنٹرول کے باعث دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی میں اضافہ ہو سکتا ہے۔ تاہم ، براہِ راست جنگ کے امکانات کم ہیں، ، لیکن پانی کی بڑھتی ہوئی قلت اور آبی وسائل پر کنٹرول کی کشمکش مستقبل میں تنازعات کو شدت دے سکتی ہے۔ ۔کیونکہ سندھ طاس معاہدہ اب بھی فعال ہے، اور اس کی پاسداری بین الاقوامی دباؤ کے تحت کی جاتی ہے۔ بین الاقوامی ثالثی کے راستے موجود ہیں ، جن کے ذریعے تنازعات کو حل کیا جا سکتا ہے۔ اس بحران کو روکنے کیلئےسفارتی اور تکنیکی حل ناگزیر ہیں، تاکہ پانی کے وسائل کو منصفانہ اور پائیدار طریقے سے استعمال کیا جا سکے۔ جوہری طاقت ہونے کے ناطے پاکستان اور بھارت کے درمیان کسی بھی تصادم کے سنگین نتائج ہو سکتے ہیں، اس لیے دونوں ممالک جنگ سے گریز کریں گے۔ البتہ، اگر پانی کی قلت مزید بڑھتی ہے اور سفارتی حل تلاش نہ کیا گیا، تو مستقبل میں خطے میں آبی تنازعات مزید شدت اختیار کر سکتے ہیں اور یہ عین ممکن ہے کہ پانی کا مسئلہ ان دونوں جوہری طاقتوں کے درمیان ایسی جنگ کا سبب بن جائے جو نہ صرف اس خطے کو بلکہ دنیا کو تاریکی کی طرف لے جا سکتا ہے۔

پانی کی جنگ کا خطرہ حقیقی ہے، لیکن یہ ناگزیر نہیں۔ جنگ سے بچنے کا واحد راستہ یہی ہے کہ دونوں ممالک کو یہ سمجھنا ہوگا کہ دریائے سندھ کا نظام ایک مشترکہ اثاثہ ہے، جسے تباہ کرنے کی بجائے سنبھالنا ضروری ہے۔ جیسا کہ موہن داس گاندھی نے کہا تھا کہ پانی کی لڑائی جیتنے سے کہیں بڑھ کر، اسے بانٹنے کی ضرورت ہے۔ کیا ہندوستان اپنے قومی باپ کی نصیحت پر کان دھرنے کو تیار ہے؟

اپنا تبصرہ بھیجیں