Possible Consequences of an Israeli Attack on Iran's Nuclear Targets

ایران کے جوہری اہداف پر اسرائیلی حملے کے ممکنہ نتائج

:Share

اسرائیل پرایرنی بیلسٹک میزائلوں کے بعدبڑھتی ہوئی خاموشی کے طوفان میں حیرت انگیزتلاطم جاری ہے اورخطے میں ممکنہ ردِٓعمل کے بارے میں خطرناک قسم کی خبریں بھی گونج رہی ہیں کہ آیایہ حملہ کیسااورکس نوعیت کاہوگا؟فریقین اب ایک دوسرے کوشدیدترین اورحیران کن جوابات کی دہمکیاں بھی دے رہے ہیں۔اسرائیلی وزیردفاع یوو گیلنٹ نے دہمکی دیتے ہوئے کہاکہ جب اسرائیل کی طرف سے جوابی کارروائی کی جائے گی تویہ “باقاعدہ ہدف بناکرکی جائے گی اورایسی مہلک ہوگی کہ ایران اس کا اندازہ نہیں لگاپائے گا۔گویاخطے میں ان خطرناک جوابی حملوں کیلئے الٹی گنتی شروع ہوچکی ہے۔سوال یہ ہے کہ کیادنیاکے طاقتورممالک اس دنیاکوتاریک کرنے کی اجازت دیں گے؟

ایرانی حکومت کے مطابق اس کے بیلسٹک میزائل حملے اسرائیل کی طرف سے حزب اللہ کے رہنما حسن نصر اللہ اورحماس کے سیاسی رہنمااسماعیل ہنیہ کے قتل کاجواب تھا،گویایہ ایران کی طرف سے جنگ بندی کابھی پیغام تھالیکن اسرائیل کی طرف سے لبنان اورغزہ میں حملے جاری رہنے کی وجہ سے حزب اللہ نے جوابی وارکرتے ہوئے شمالی اسرائیل میں حیفہ کےجنوب میں تقریباً33کلومیٹرکے فاصلے پرایک قصبے ایک اہم فوجی آدے بنیامین پر ڈرون حملے میں4/اسرائیلی فوجی کے مرنے اور60سے زائدشدیدزخمی ہونے کی تصدیق خود(آئی ڈی ایف) اسرائیل کی دفاعی ادارے نے تصدیق کردی ہے۔حزب اللہ کے میڈیاآفس نے اسرائیلی فوجی اڈے پرہونے والے اس حملے کی ذمہ داری قبول کی ہے جس کے بارے میں کہاگیاہے کہ اس نے تل ابیب اورحیفہ کے درمیان واقع علاقے میں اسرائیلی دفاعی افواج(آئی ڈی ایف) گولانی بریگیڈکے تربیتی کیمپ کونشانہ بنایاگیاہے اوریہ حملہ جمعرات کوجنوبی لبنان اور بیروت میں اسرائیلی حملوں کے جواب میں کیاگیاہے۔

ادھرامریکی وزیردفاع لائیڈآسٹن نے اسرائیل کے وزیردفاع سے ٹیلیفونک رابطہ کرتے ہوئے کہاہےکہ لبنان میں”اقوام متحدہ کے امن فوج کے دستوں کی حفاظت”کویقینی بنائے۔10ڈاؤننگ سٹریٹ کے ایک ترجمان نے بھی ان رپورٹس پرشدید حیرانگی کاظہار کیاہےکہ اسرائیل نے جان بوجھ کرجنوبی لبنان میں اقوام متحدہ کے امن مشن کی ایک چوکی پرفائرنگ کی ہے۔یورپی یونین سمیت سری لنکانے بھی لبنان میں امن فوج کے دستوں کو نشانہ بنانے کے واقعے کی مذمت کی ہے۔اسرائیل نے قبل ازیں تسلیم کیاتھاکہ اس کی فوج کی گولیوں سے جنوبی لبنان میں دوامن فوجی زخمی ہوئے ہیں ۔یادرہے اس سے قبل یونیفیل اپنے بیان میں کہہ چکاہے کہ ایساکوئی بھی جان بوجھ کرحملہ بین الاقوامی انسانی قانون کی سنگین خلاف ورزی ہے۔ان بگڑتے حالات کے پیشِ نظرایران نےاسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات رکھنے والی خلیجی ریاستوں کوخبردارکرتے ہوئے کہا کہ وہ اسرائیل کے ممکنہ جواب میں اپنی فضائی حدودکواستعمال کرنے کی اجازت نہ دیں کیونکہ اسرائیل کی مددکرنے والابھی ایرانی ردعمل کاہدف ہوگا۔

یہ صرف کچھ ایسے عوامل ہیں جن پرامریکااوراسرائیل کے درمیان اسرائیلی ردعمل کے حوالے سے غورکیاجارہاہے۔واشنگٹن پہلے ہی اعلان کرچکاہے کہ وہ ایران کی جوہری تنصیبات کے خلاف کسی بھی اسرائیلی اقدام کامخالف ہے۔امریکا میں5نومبر2024ء کوصدارتی انتخاب ہورہے ہیں اورایسی صورتحال میں وائٹ ہاؤس ایرانی تیل کی تنصیبات پرکسی بھی ایسے حملے کاخیرمقدم نہیں کرے گاجس کااثرتیل کی قیمتوں پرپڑسکتاہے اورنہ ہی وہ مشرق وسطیٰ کی ایک اورجنگ میں گھسیٹا جاناچاہے گا۔ادھردوسری طرف اسرائیل کے اتحادیوں نے رواں برس اپریل میں اسرائیل پرایرانی حملے کے بعد تحمل کے مظاہرے پرجس طرح زوردیاتھاوہ اس مرتبہ دکھائی نہیں دے رہااورمکمل پراسراخاموشی کاسلسلہ چل رہاہے۔اسرائیل کے لبنان ،غزہ، یمن اورشام میں اپنے تمام دشمنوں کاایک ساتھ مقابلہ کرنے کی دہمکیوں کے بعدلگتاہے کہ نتن یاہوکی حکومت پیچھے ہٹنے کاارادہ نہیں رکھتی۔

امریکی سیٹلائٹ انٹیلیجنس اورایران میں موسادکے جاسوسوں کی مدد سے ، اسرائیلی فوج کے پاس انتخاب کرنے کیلئےایران میں وسیع اہداف موجود ہیں جنہیں چاردرجوں میں تقسیم کیاجاسکتا ہے۔
٭اسرائیل کاپہلااوراہم اہداف ایران کے وہ اڈے ہوں گے جہاں سے ایران نے اسرائیل پرحالیہ بیلسٹک میزائل برسائے گویاایرانی لانچ پیڈ، کمانڈاینڈکنٹرول سینٹرز،ایندھن بھرنے والے ٹینک اور بنکروں میں بنے گودام کونشانہ بنایاجائے گا۔
٭اسرائیل اس کے علاوہ پاسدارانِ انقلاب کے اڈوں کے ساتھ ساتھ فضائی دفاع کے نظام اوردیگرمیزائل بیٹریوں کوبھی نشانہ بناسکتا ہے۔وہ ایران میں اپنے جاسوسوں کے ذریعے بیلسٹک میزائل پروگرام میں شامل اہم افرادکوقتل کرنے کی کوشش بھی کرسکتاہے۔
٭اسرائیل ایران کے اقتصادی اہداف کونشانہ بناتے ہوئےایران کے پیٹروکیمیکل پلانٹس،اس کی بجلی کی پیداوارکے کارخانے اور ممکنہ طورپراس کے جہازرانی کے شعبوں پربھی حملہ کر سکتاہے۔تاہم یہ ایرانی عوام کی نظرمیں ایک انتہائی غیرمقبول اقدام ہو گاکیونکہ اس سے عام لوگوں کی زندگیوں کوفوج پرکسی بھی حملے سے کہیں زیادہ نقصان پہنچے گاجویقیناًایران کوغیرروایتی حملے کی جانب لے جاسکتاہے۔
٭کیااسرائیل ایران کے جوہری پروگرام پرحملہ کرکے دنیاکواک نئی عالمی جنگ کی طرف کے جانے کی جرأت کرے گا،یہ سب سے بڑااوراہم قدم ہوگا۔اقوام متحدہ کاجوہری نگراں ادارہ اس معروف حقیقت کی تصدیق کرچکاہے کہ ایران سول نیوکلیئر پاور کیلئےدرکار20فیصدسے کہیں زیادہ یورینیم افزودہ کررہاہے۔اسرائیل اوردیگرکوشبہ ہے کہ ایران اس”بریک آؤٹ پوائنٹ” تک پہنچنے کی کوشش کررہاہے جہاں سے وہ بہت قلیل مدت میں جوہری بم بنانے کے قابل ہوسکے۔اسرائیل کی ایرانی جوہری اہداف کی ممکنہ فہرست میں ایران کے فوجی جوہری پروگرام کامرکزپارچین،تہران میں بوناب اوررامسرمیں ریسرچ ری ایکٹرزکے علاوہ بوشہر،نتنز،اصفہان اورفردومیں اہم جوہری تنصیبات شامل ہیں۔

لیکن سوال یہ ہے کہ اسرائیل کے ان اقدامات کے بعدیقیناًایرانی ردعمل بھی اس سے کہیں زیادہ شدیدہوگااوریقیناًاسرائیل اوراس کے اتحادی ایرانی ردعمل کاناکام بنانے کیلئے بھی سر جوڑکربیٹھیں ہوں گے کہ اس خطرناک عمل کاردعمل دنیاکوتاریک بھی کرسکتاہے۔مغرب اورامریکامیں ان خطرناک حالات کے بارے میں سخت تشویس کاعمل شروع ہوچکاہے اورکثرت رائے کایہ مانناہے کہ ایرانی مؤقف کوتسلیم کرناچاہئے کہ اس کی جانب سے اسرائیل کے فوجی اہداف پرداغے گئے بیلسٹک میزائلوں کے بعد اب حساب برابرہوچکاہے لیکن اگر اسرائیل نے مزید کارروائی کی تووہ پھرجوابی حملہ کرے گا۔

ایران کے صدرمسعودپیزشکیان کایہ بیان کہ یہ ہماری صلاحیتوں کی صرف ایک ہلکی جھلک ہے۔پاسدارانِ انقلاب نے اس پیغام کو تقویت دیتے ہوئے کہاکہ”اگرصیہونی حکومت نے ایران کی کارروائیوں کاجواب دیاتواسے کچل دینے والے حملوں کاسامناکرنا پڑے گا”۔عالمی دفاعی تجزیہ نگاروں کے مطابق ایران اسرائیل کوفوجی طورپرشکست نہیں دے سکتا۔اس کی فضائیہ پرانی اور خستہ حال ہے،اس کا فضائی دفاع غیرمحفوظ ہے اوراسے گزشتہ کئی برسوں سے سخت مغربی پابندیوں کامقابلہ کرناپڑاہے لیکن اس کے پاس اب بھی بیلسٹک اوردیگر میزائلوں کے ساتھ ساتھ دھماکہ خیزموادسے لدے ڈرونزاورمشرق وسطیٰ میں متعدداتحادی ملیشیاز(عسکریت پسند گروہ)بھی موجودہیں۔اس کے میزائل اگلی بارفوجی اڈوں کی بجائے اسرائیلی رہائشی علاقوں کوباآسانی نشانہ بناسکتے ہیں۔2019میں سعودی عرب کی تیل تنصیبات پرایران کی حمایت یافتہ ملیشیاکے حملے نے ثابت کردکھایاتھاکہ ایران کیلئےپڑوسیوں پرحملہ کرناکتناآسان ہے۔

پاسدارانِ انقلاب کی بحریہ جوخلیجِ فارس میں کام کرتی ہے،کے پاس چھوٹی مگرتیزی سے میزائل حملے کرنے والی کشتیوں کے بڑے بیڑے ہیں جوممکنہ طورپرامریکی بحریہ کے پانچویں بحری بیڑے کوایک مربوط حملے میں مغلوب کرسکتے ہیں۔اگراسےایساکرنے کاحکم دیاگیاتووہ آبنائے ہرمزمیں بارودی سرنگیں بچھانے کی کوشش بھی کرسکتی ہے،جس سے دنیامیں روزانہ کی بنیادپر تیل کی20فیصدبرآمدات میں شدید ترین خلل پڑسکتاہے،جس کاعالمی معیشت پرتباہ کن بُرااثرپڑے گا۔اورپھرکویت سے عمان تک خلیج فارس کے عرب کنارے پراوپراورنیچے امریکی فوجی اڈے موجودہیں۔ایران نے متنبہ کیاہے کہ اگراس پرحملہ کیاگیاتو وہ صرف اسرائیل پرہی جوابی حملہ نہیں کرے گا بلکہ وہ اس حملے کی حمایت کرنے والے کسی بھی ملک کونشانہ بنائے گا۔
یہ صرف کچھ ایسے منظرنامے ہیں جن پرتل ابیب اورواشنگٹن کے دفاعی منصوبہ سازاب غورکررہے ہوں گے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں