Israel: America's mercenary

اسرائیل:امریکاکاکرائے کاسپاہی

:Share

یہ سوچ بہت عام ہے کہ یہودی یااسرائیلی اس قدرچالاک اورذہین قوم ہے کہ امریکاجواس وقت دنیاکی واحدسپرپاورہے بظاہر اسرائیل کی مرضی کے کچھ بھی نہیں کرتایاکرسکتا۔پوری دنیاکی معیشت پریہودیوں کاقبضہ ہے۔میڈیاپرکوئی موضوع یاخبران کی مرضی کے بغیرچل نہیں سکتی۔امریکامیں کوئی شخص کانگریس کاممبریاامریکاکاصدریہودی لابی کے پیسے اورسیاسی مددکے بغیرنہیں بن سکتا،یہ تاثرات اس وقت اورمضبوط ہوجاتے ہیں جب امریکامشرق وسطیٰ میں اسرائیل کی حمایت میں نہ توکسی مخالفت کی پرواکرتاہے اورنہ ہی اپنے بنائے ہوئے اصولوں کوتوڑنے میں شرم محسوس کرتا ہے،اس کےعلاوہ فری میسنزکی کہانیاں،اسرائیل کی خفیہ ایجنسیوں،فوج اورکمانڈوزکی طاقت کے قصے ایساتاثرپیداکردیتے ہیں کہ یہ یقین ہونے لگتاہے جیسے دنیاکی اصل طاقت توایک چھو ٹی سی قوم یہودہے جس نے امریکایورپ اوردنیاکی تمام بڑی قوموں کوقابوکررکھاہے۔دنیامیں جوبھی فسادہوتا ہے اس کے پیچھے یہودکاہاتھ ہوتاہے اورمسلمانوں پرہونے والے تمام مظالم کے ذمہ داریہودی ہیں۔اس تاثرکے نتیجے میں مسلمانوں میں یہ خیال جڑپکڑلیتا ہے کہ اصل برائی امریکایااس کااستعماری نظام سرمایہ داریت نہیں بلکہ اسرائیل یایہودہیں۔اگران کی طاقت کاخاتمہ کردیاجائے تومسلمان اپنی کھوئی ہوئی عظمت رفتہ دوبارہ بحال کرلیں گے۔

مسلمان پراللہ نے یہ لازم کیاہے کہ وہ دین اسلام کوتمام ادیان پرغالب کریں، “وہ اللہ ہی ہے جس نے اپنے رسول کو ہدایت اور دین حق کے ساتھ بھیجا ہے تاکہ اس کو پوری جنس دین پر غالب کر دے اور اس حقیقت پر اللہ کی گواہی کافی ہے”۔﴿ؕالفتح:28﴾ اس عمل کی انجام دہی کیلئےضروری ہے کہ ہم دنیاکی سیاست کوسمجھیں، طاقت کے مراکزاورمسائل کی جڑکی صحیح نشاندہی کریں۔اگرہم نے اپنے دشمن کاصحیح تعین نہ کیاتوہماری توانائی غلط ہد ف پرضائع ہوجائے گی اورحقیقی دشمن مزید طاقتورہوجائے گا۔یہ بات ہرشخص جانتاہےکہ سپر پاوراس ملک کو کہاجاتاہے جس کی مرضی کے مطابق دنیاکےتمام یابیشتر معاملات چلتے ہوں۔اس وقت امریکاکودنیاکی واحد سپرپاوراس لیے کہا جاتاہےکہ دنیاکے کسی بھی معاملے میں اس کی مرضی کوچیلنج کرنے والی کوئی دوسری طاقت موجود نہیں ہے۔امریکاکی معیشت دنیاکی معیشت کا17فیصدہے۔امریکاکادفاعی بجٹ روس چین،برطانیہ اورفرانس کے کل دفاعی بجٹ سے زیادہ ہوتا ہے۔یہاں یہ سوال پیداہوتاہے کہ کس طرح اسرائیل جوکہ سپرپاورنہیں اپناتحفظ امریکی فوجی اورسیاسی مددکے بغیرکرنہیں سکتا،جس کی معیشت ہر سال امریکی امدادکی محتاج ہووہ کس طرح امریکاکواپنے اشاروں پرچلنے پرمجبورکرسکتاہے؟یاپھریہ کہ اسرائیل کی طاقت کے تمام قصے بے بنیادہیں۔

عموعی طورپریہ سمجھاجاتاہے کہ امریکاکی مشرق وسطیٰ سے متعلق پالیسی اسرائیل کی مرضی کے تابع ہوتی ہے۔امریکا مشرق وسطیٰ میں اسرائیل کو مضبوط کرنے یااپنے مفادات حاصل کرنے کیلئےفوجی بغاوتوں اورآمرحکمرانوں کی حمایت کرتاہے اور کبھی جمہوری قوتوں کی،کسی ملک کے خلاف پابندیاں لگاتاہے توکسی ملک کوامداددیتاہے،کبھی اقوام متحدہ اور بین الاقوامی قوانین نافذ کروانے کیلئےسیاسی اورفوجی اثرورسوخ استعمال کرتا ہے توکبھی اقوام متحدہ اوربین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی کرتاہے،اب امریکاکے ان اعمال کایہ جوازپیش کرناکہ ایسا وہ صرف اورصرف اسرائیل کے دباؤکی وجہ سے کرتاہے،غلط ہوگا۔ہم یہ دیکھ سکتے ہیں کہ امریکاافریقی ممالک لاطینی امریکااورمشرق بعید میں بھی اپنے مفادا ت کے حصول کیلئےاایسے ہی تمام اقدامات اٹھاتا ہے جیساکہ وہ مشرق وسطیٰ اورجنوبی ایشیامیں کرتاہے۔اگرامریکامشرق وسطیٰ کے علاوہ دنیاکے دوسرے حصوں میں بھی ایسے ہی اقدامات کرتاہے جہاں کوئی اسرائیلی مفادنہیں تواس کا مطلب یہ ہے کہ امریکااتنی طاقت رکھتاہے کہ وہ اپنی من مانی مرضی سے پالیسیاں بناتاہے چاہے جن سے دوسرے اتفاق نہ کرتے ہوں۔

اس کے علاوہ ہم دیکھتے ہیں کہ امریکاکئی بین الا قوامی امورمیں جن کااسرا ئیل کی سلامتی یامفادات سے کوئی تعلق نہیں ہوتا، پوری دنیاکی رائے کی مخالفت کرتاہے چاہے اس وجہ سے اس کوپوری دنیامیں شدیدتنقیدکانشانہ ہی کیوں نہ بنناپڑے ۔ پوری دنیانے زیرزمین بارودی سرنگوں کے خاتمےبین الا قوامی عدالت برائے جنگی جرائم کے قیام اوردنیامیں بڑھتے ہوئے درجہ حرارت کو روکنے کیلئےان پردستخط کیےلیکن امریکانے ان معاہدوں کوتسلیم کرنے سے انکارکردیا۔اس تجزیے سے ہم یہ نتیجہ اخذکرسکتے ہیں کہ امریکامشرق وسطیٰ میں بھی ایسے اقدامات اس لیے کرتاہے کیونکہ بنیادی طورپریہ اس کے مفادمیں ہوتے ہیں نہ کہ اس وجہ سے کہ اس پراسرائیل کاکوئی دباؤہوتاہے۔

ایک خیال یہ بھی ہے کہ امریکامیں موجود تمام یہودی اسرائیل کی حمایت میں ایک ہوکرامریکاپردباؤڈالتے ہیں۔یہ تصورمعلومات کی کمی کانتیجہ ہے جہاں امریکامیں یہودیوں کی ایک بڑی تنظیم”امریکااسرائیل پبلک افیئرزکمیٹی”اوراس سے منسلک درجنوں ایسی یہودی تنظیمیں ہیں ،ان میں ایسی معروف تنظیمیں(امریکنزفارپیس ناؤ،اسرائیل پالیسی فورم،برٹ زیڈک وی،شیڈو )ہیں جوامریکی کانگرس پراسرائیل کےحق میں پالیسیاں بنانے کیلئےدباؤڈالتی ہیں جوبظاہراسرائیل کے وجودکے خلاف تونہیں ہیں لیکن اسرائیل کی یہودی آباد کاروں کے حوالے سے پالیسی،نئے علاقوں پرقبضہ کرنے،دیوار کھڑی کرنے اورامریکاکی اسرائیل کی ہرحال میں حمایت کی شدیدمخالفت بھی کرتی ہیں۔اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ کانگریس کے اراکین کی بہت بڑی اکثریت کواپنے حلقوں سے جیتنے کیلئےنہ تویہودی ووٹوں کی ضرورت ہوتی ہے اورنہ ہی ان کے پیسوں کی۔

ایسے تمام اراکین کانگرس جوکہ اسرائیلی پالیسیوں کی مکمل حمایت کرتے ہیں ان کاتعلق ان علاقوں سے ہوتاہے جوان کے محفوظ ترین حلقے ہوتے ہیں اوروہ وہاں سے کئی دہائیوں سے جیتتے آرہے ہوتے ہیں مثلاامریکی اسپیکرکانگریس نینسی پلوسی جوکہ اسرائیل کی کھل کرحمایت کرتی تھی،ہر دفعہ80 فیصد سے زائد ووٹ لےکر منتخب ہوجاتی تھیں۔یہ کہناکہ یہودی لابی بہت مالدارہے اورپیسے استعمال کرکے امریکی اراکین کانگرس پردباؤڈالتے ہیں ، بالکل غلط مفروضہ ہے پیسوں کے لحاظ سے سب سے طاقتور لابی امریکامیں دفاعی یااسلحہ بنانے والے اداروں، تیل کی کمپنیوں اورادویات بنا نے والے اداروں کی ہےصرف “اے آئی پی اے سی”اور”لاک ہیڈمارٹن”اپنے اداروں کی لابنگ پر”نارتھ گرومین اور”جنرل الیکٹرک بوئنگ”کے مقابلے میں بالترتیب سات اور پانچ گنازیادہ خرچ کرتے ہیں اسی طرح کی لابنگ کاخرچہ اوردوسرے ایسے کئی اداروں سے بہت کم ہے جودفاعی صنعت سے منسلک ہیں۔

امریکامیں یہودیوں کی آبادی5فیصد سے بھی کم ہے اس میں سے بھی جب ایک معقول تعداداسرائیل کی ہرحال میں حمایت کی مخالفت کرتی ہو۔یہودی ووٹ امریکاکے99فیصدسے زیادہ حلقوں میں کوئی اہمیت نہ رکھتے ہوں،دولت کی بنیادپر یہودیوں سے زیادہ مضبوط لابیزموجودہوں توہم اس بات کو سمجھ سکتے ہیں کہ دویاتین فیصدیہودی امریکاانتظامیہ پرکتنازورڈال سکتے ہیں؟ان تمام حقائق کے باوجوداگرہم اب بھی یہ سمجھتے ہیں کہ امریکااسرائیل کی مرضی کے خلاف کچھ بھی نہیں کرتاتو میں یہاں کچھ مثالیں پیش کرتاہوں تاکہ یہ بھی خیال ہمیشہ کیلئےختم ہو جائے۔

کسی بھی امریکی صدرنے جب یہ دیکھاکہ اسرائیل لابی کی طرف سے جس پالیسی کواپنانے کیلئےدباؤڈالاجارہاہے وہ امریکی مفاد میں نہیں توامریکی صدر نے ہمیشہ اسرائیل کومجبورکردیاکہ وہ امریکی پالیسی کواختیارکرے۔1956ءمیں جب اسرائیل برطانیہ اور فرانس نے نہرسوئزپرقبضہ کرنے کیلئےجنگ کاآغازکیاتواس وقت کےامریکی صدرآئزن ہاورنے اس جنگ پرشدیدناراضی کااظہار کیااوراسرائیل کودھمکی دی کہ اگراس نے مصری علاقوں سے قبضہ ختم نہ کیاتوامریکامیں اسرائیلی بونڈزاورنجی طورپراسرائیل بھجوائی جانے والی،رقوم پرٹیکس کی چھوٹ ختم کردی جائے گی۔امریکی صدرآئزن ہاور نے اسرائیل کویہ دھمکی اس وقت دی تھی جب صرف چندہفتوں بعدامریکامیں صدارتی انتخابات ہونے جارہےتھے۔امریکی صدرآئرن ہاورکی اس دھمکی کے نتیجے میں اسرائیل نے چندمہینوں میں تمام مصری علاقے خالی کردئیے۔

اسی طرح جب1978ءمیں جب اسرائیل نے لبنان پرحملہ کیااوردریائے لیتانی تک آگیاتوامریکی صدرجمی کارٹرنے اسرائیل کوامداد بندکرنےکی دھمکی دیکرمجبورکردیاکہ وہ لبنان کی سرحدمیں چند کلومیٹرتک محدودرہے۔اس کے بعداگلے امریکی صدررونالڈ ریگن نے1981ءمیں”اے آئی پی اے سی”کے بھرپوردباؤکومستردکرتے ہوئے فوکس طیارے سعودی عرب کوبیچے۔اس کے 10 سال بعدبش سنئیرنے”اے آئی پی اےسی”کے بھرپوردباؤکاکامیابی سے مقابلہ کیااوراسرائیل کی ناک رگڑتے ہوئے10/ارب کاقرضہ جاری نہیں کیاجب تک مشرقِ وسطیٰ میں امریکی امن منصوبے کی راہ میں رکاوٹ”یزٹحاک شمیر”کوشکست نہیں ہوگئی کیونکہ یہ امریکی منصوبے میں رکاوٹ تھا۔

2004ءمیں بش جونیئرنے اسرائیل کونہ صرف چین سے اس معاہدے کوتوڑنے پرمجبورکردیاجس کے تحت اسرائیل نے طیاروں کوجدیدبنایاتھا بلکہ اسرائیلی وزارت دفاع کےڈائریکٹرجنرل “آموس یارون”کوبھی استعفیٰ دیناپڑا۔اسی طرح اسرائیل پچھلے کئی سالوں سے امریکاکوایران پر حملے کیلئے آمادہ کرنے کی کوشش کررہاہے لیکن نہ صرف یہ کہ امریکا اس کی اس خواہش کوپورا نہیں کررہابلکہ امریکانے اسرائیل کوبھی سختی سے ایران پرکسی بھی قسم کے حملے سے روک دیاہے۔

ان تمام حقائق کے باوجودآخرامریکاکیوں اسرائیل کی اس قدرحمایت کرتاہے۔سب سے پہلے تواس بات کوذہن نشین کرلیناچاہیے کہ امریکاایک نظریاتی ریاست اوردنیاکی واحدسپرپاور ہے ۔امریکا جوبھی فیصلے کرتاہے اپنی ضرورت اور مفادات کو سامنے رکھ کر کرتاہے۔مشرق وسطیٰ کاعلاقہ کئی اعتبارسے اہمیت رکھتاہے۔ دنیا کے تمام تجارتی بحری قافلے اس کے بحری علاقوں سے گزرتے ہیں،دنیاکے66فیصدسے زائد تیل و گیس کے ذخائراس علاقے میں موجود ہیں اوران تما م باتوں سے بڑھ کریہ علاقے مسلم اکثریتی آبادی رکھتے ہیں۔

مشرق وسطیٰ کی اہمیت کو واضح کر نے کیلئے سابق برطانوی وزیر اعظم ہنری کیمپ بل (بینرمین ) کاایک ہی تبصرہ کافی ہے:
“یہاں پروہ لوگ(مسلمان )رہتے ہیں جواس زبردست علاقے اوراس زمین میں موجود ذخائرکوکنٹرول کرتے ہیں۔ان کی زمین انسانی تہذیب اور مذاہب کاگہوراہ ہے،ان لوگوں کاعقیدہ زبان ، تاریخ اورجذبات ایک سے ہیں۔کوئی قدرتی رکاوٹ ان لوگوں کو ایک دوسرے سے جدانہیں کرسکتی اوراگرکبھی جداہوبھی جائیں تویہ دوبارہ ایک مملکت میں ضم ہوجائیں گے۔پھریہ دنیاکی قسمت کو اپنے ہاتھ میں لے لیں گے اور یورپ کوباقی دنیاسے کاٹ دیں گے۔ان وجوہات کوسنجیدگی سے لیاجائے توضروری ہے کہ ایک بیرونی اکائی کواس قوم کے دل میں پیوست کردیاجائے تاکہ اس قوم کی صلاحیتوں کوکبھی نہ ختم ہونے والی جنگوں میں ضائع کر دیاجائے۔یہ بیرونی اکائی مغرب کیلئےایک ایسے پلیٹ فارم کاکام بھی کرے گی جہاں سے وہ اپنے خفیہ منصوبوں کوانجا م دے سکے گا”۔

یہ ہیں وہ بنیا دی وجوہات جن کی بناپرپہلی جنگ عظیم کے بعداس وقت کی سپرپاوربرطانیہ نے مشرق وسطیٰ کے علاقے میں یہودی مملکت کی کوششوں کا آغازکیااورپھردوسری جنگ عظیم کےبعدجب امریکاسپرپاوربن گیاتواس کے مفادکاتقاضہ بھی یہی تھا کہ اسرائیل کی ریاست قائم کی جائے اوراس کو مضبوط بنایاجائے۔اسرائیلی ریاست کے ذریعے اس علاقے کو مسلسل جنگوں میں مبتلارکھاجاتاہے جس سے ایک طرف امریکی اسلحے کی فیکڑیاں چلتی رہتی ہیں تودوسری طرف ان ممالک کی کمزوری کے سبب امریکاان ممالک میں اپنے اثرورسوخ کوبڑھاتااور برقراررکھتاہے۔

دنیاکی واحدسپرپاورامریکاہے جوسرمایہ داریت کے نظریے کاعلم بردارہے۔مسلمانوں اوراسلام کاحقیقی دشمن یہودی یا اسرئیلی ریاست نہیں بلکہ امریکا اورسرمایہ داریت کانظام ہے، اسرائیل تومحض امریکی مفادات کوپوراکرنے والاایک کھلا ڑی ہے۔اس کھلاڑی کی یہ جرأت اورطاقت نہیں ہوسکتی کہ وہ وقت کی واحدطاقت کواپنے مفادات کے مطابق چلاسکے۔اسرائیل کی اس حقیقت کوایک اسرائیل استاداورامن کیلئےکام کرنے والے کارکن نے اس طرح سے بیان کیاہے:اسرائیل اپنے قبضوں کواس لیے برقراررکھ پاتاہے کیونکہ وہ مغرب خصوصاًامریکاکے استعماری مفادات کوپوراکرنے کیلئے تیار رہتاہے اورحقیقت میں اب اسرائیل امریکاکا ایک آزمودہ سپاہی بن چکاہے۔سابق امریکی وزیرخارجہ الیگزینڈرہیگ نے اسرائیل کے متعلق بڑااہم بیان دیاتھا:اسرائیل امریکاکا واحدسب سے بڑابحری وہوائی بیڑہ ہے جوڈوب نہیں سکتا۔

تاریخی اعتبارسے یہوداپنی سازشوں،مال واسباب اورسیاسی اثرورسوخ کے باوجودکبھی بھی اپنے سیاسی اہداف بغیرکسی بیرونی طاقت کی مددکے بغیر حاصل نہیں کرسکے۔پچھلے چودہ سوسال میں یہودعباسی خلافت،عثمانی خلافت،اسپین کی اموی حکومت، یورپ اورامریکامیں معاشی لحاظ سے ہمیشہ خوش حال رہے ہیں لیکن کبھی بھی کسی علاقے میں یہودکوئی قابل ذکرسیاسی مقام نہیں بناسکے۔ریاست مدینہ میں بنوقریضہ،بنوناصر،بنوقینوقاہ اورخیبرکے یہوداپنی معاشی سیاسی اور فوجی قوت کے باوجودکبھی بھی مدینہ کی ریاست کوبراہ راست چیلنج نہیں کرسکے بلکہ ہمیشہ قریش مکہ کی مددکاانتظارکرتے تھے اورآخرمیں اپنی سازشوں اوروعدہ خلافیوں کی بناءپران کوبے دخل ہوناپڑا۔

یہودیورپ میں ہمیشہ دوسرے درجہ کے شہری رہے اورجب کسی حکمران نے ان پرظلم وستم کرناچاہاتوان کی معاشی طاقت کبھی کام نہ آئی۔جب عثمانی خلافت اپنے کمزورترین دورسے گزررہی تھی تویہودیوں نے خلیفہ عبدالحمید دوئم کواس بات کی پیش کش کی کہ اگرانہیں فلسطین کی زمین دے دی جائے توخلافت عثمانہ کے تمام قرض وہ اداکردیں گے لیکن اپنی معاشی قوت اورخلافت کی کمزوری کے باوجودیہوداپنے مقصدمیں کامیاب نہیں ہوسکے۔

وہ قوم جوپچھلے ڈھائی ہزارسال سے اپنی تمام ترسازشی ذہنیت اورمال واسباب کے باوجوددربدرتھی،بالآخربرطانوی وزیراعظم ہنری کیمپ بل کی وفات کے چالیس سال بعداس کے مشورے پر عمل کرتے ہوئے برطانیہ عربوں کے سینے میں خنجرگھونپ کرفلسطین میں اسرائیل مملکت قائم کرنے میں کامیاب ہوگیا۔خطے میں اسرائیل کاقیام اس وجہ سے ضروری تھاکہ مسلمانوں کوہمیشہ کیلئے منقسم رکھنے اورخطے میں اپنے مفادات کے مستقل حصول کیلئےیہ ضروری ہے کہ یہودکوایک ریاست کی شکل میں طاقت دی جائے۔اللہ سورہ آل عمران میں یہودکیلئے فرماتے ہیں۔”یہ تمہاراکچھ بگاڑنہیں سکتے،زیادہ سے زیادہ بس کچھ ستاسکتےہیں۔اگریہ تم سے لڑیں گے تومقابلہ میں پیٹھ دکھائیں گے، پھر ایسے بے بس ہوں گے کہ کہیں سے ان کومددنہ ملے گی۔یہ جہاں بھی پائے گئے ان پرذلت کی مارہی پڑی،کہیں اللہ کے ذمّہ یا انسانوں کے ذمّہ میں پناہ مل گئی تویہ اوربات ہے۔یہ اللہ کے غضب میں گھرچکے ہیں،ان پرمحتاجی ومغلوبی مسلط کر دی گئی ہے،اوریہ سب کچھ صرف اس وجہ سے ہواہے کہ یہ اللہ کی آیات سے کفرکرتے رہے اورانہوں نے پیغمبروں کوناحق قتل کیا۔یہ ان کی نافرمانیوں اورزیادتیوں کاانجام ہے۔﴿111۔112﴾

اللہ نے قوم یہودپرہمیشہ ہمیشہ کی ذلت مسلط کردی ہے۔یہودسیاسی،معاشی اورفوجی لحاظ سے کبھی بھی مسلمانوں کے ہم پلہ نہیں رہے،آج اگریہود مسلمانوں پرغالب ہیں توصرف اپنے استعماری آقاامریکاکی قوت کی وجہ سے۔ہم مسلمانوں کویہ سمجھناچاہیے کہ امریکادانستہ اس نظریے کوفروغ دیتا ہے کہ یہودی لابی اس قدرطاقتورہے کہ امریکاجیسی طاقت بھی اس کے آگے مجبورہوجاتی ہے،اس بات کوفروغ دینے سے امریکادوفائدے حاصل کرتاہے۔

1۔وہ مسلمانوں کی امریکاسے نفرت کارخ یہودکی طرف موڑدیتاہے۔
2۔مسلمان اسرائیل کواپنااصل دشمن سمجھ کرصرف اسرائیلی قوت کوختم کرنے کی کوششو ں میں لگ جا تے ہیں،اس طرح نہ تو امریکاختم ہوتاہے اورنہ ہی اسرائیل،امریکاغدارمسلم حکمرانوں کے ذریعے اس بات کوممکن بناتاہے کہ اسرائیل کے مقابلے میں مسلمانوں کی فوجی قوت منشتررہے اورپھریہ مسلم افواج آپس میں بھی قومیت اوروطنیت کی کفریہ بنیادوں پرلڑتی رہیں، مسلمانوں کوجان لیناچاہیے کہ جب تک وہ اپنی گردنوں پرمسلط غدارامریکی ایجنٹ حکمرانوں سے نجات حاصل نہیں کرتے امریکااوراس کے سرمایہ داری نظام سے چھٹکارانہیں پاسکتے۔

یہاں یہ بتانابھی بہت ضروری ہے کہ یہاں امریکااوراسرائیل حکومتوں کی طرف اشارہ ہے۔جس طرح اسلامی حکومتیں مسلم عوام کی خواہشات کی علمبردارنہیں بلکہ اسی طرح مغرب اور امریکاکی حکومتیں بھی یہاں کے عوام کی مکمل خواہشات کی آئینہ دار نہیں۔اس کی مثال یوں سمجھ لیں کہ جب امریکا،برطانیہ اوران کے دیگراتحادیوں نے عراق پرحملہ کرنے کا اعلان کیاتو یورپ کی تاریخ کاسب سے بڑا”ملین افراد”کامظاہرہ برطانیہ میں ہواجہاں ہرمکتبہ فکرکےافرادنےاس حملے کی بھرپور مخالفت کی اورآج بھی آئے دن برطانیہ،یورپ اورامریکامیں ہزاروں افرادسڑکوں پربے گناہ فلسطینیوں کے قتل عام روکنےکیلئے سراپااحتجاج ہیں لیکن یہاں بھی سب سےبڑی رکاوٹ اس سرمایہ داری نظام کی پیداکردہ جمہوری نظام ہے جس کیلئے ضروری ہے کہ دنیامیں جاری اس ظلم وستم کے خلاف جوادراک پیداہورہاہے،اس کوفوری طورپربہتراورجاری جمہوری اندازمیں حاصل کرنے کیلئے یہاں کی تمام سیاسی جماعتوں میں عملاً شمولیت اختیار کی جائے اورسیاسی سفرمیں قانون سازاداروں میں پہنچ کرحق وصداقت کیلئے قانون سازی میں اپناکرداراداکیاجائے ۔

یقیناًایک دن ضرورآئے گاکہ جب مظلوم کوانصاف ملے گااوریہی افرادجوآج سڑک پردنیامیں ہونے والے اسرائیلی،امریکی جارحیت کے خلاف اپنااحتجاج ریکارڈ کروا رہے ہیں،وہ آئندہ انتخابات میں اپنے جذبات کی ترجمانی کرتے ہوئے ہرامیدوارسے یہ وعدہ ضرور لیں گے کہ وہ پارلیمنٹ میں جاکرایسی قانون سازی کریں جن کی بنیادپرہرظالم کولگام ڈالی جاسکے۔

یقینارسول اللہﷺکی وہ پیش گوئی بھی پوری ہوگی جس کے تحت مسلمان بیت المقدس پرقابض یہودیوں کوچن چن کرجہنم رسید کریں گے اوروہ ان یہودیوں کے ظلم وستم کاآخری دن ہوگا۔رسول اللہﷺ نے فرمایا۔:مسلمان یہودیوں سے لڑیں گے اورپھران کوقتل کریں گے یہاں تک کہ ایک یہودی کسی پتھریادرخت کے پیچھے پناہ لے گا تووہ پتھریادرخت پکارے گا،اے مسلم اے اللہ کے بندے یہ یہودی میرے پیچھے ہے،آؤاوراسے قتل کرو۔
کچھ بھی تونہیں رہے گا،کچھ بھی تونہیں،بس نام رہے گااللہ کا!

اپنا تبصرہ بھیجیں