Waiting for your turn

اپنی باری کاانتظار

:Share

اس وقت عالمی میڈیاجوبھرپوراسرائیل کواپنے دفاع میں لڑنے والاملک بتاکراس کے ہونے والے مظالم پرپردہ ڈال رہاہے۔وہ سمجھتے ہیں کہ اسرائیل کو مسلم کشی کاٹھیکہ دیکراپنے اپنے ملکوں میں نوجوان نسل کواسلام میں داخل ہونے سے روکاجاسکے کیونکہ جب سے فرانس میں آبادی کے تناسب سے یہ رپورٹیں شائع ہونی شروع ہوئی ہیں کہ2050 تک موجودہ انتخابی عمل کی بناء پر ہی مسلمان فرانس میں اس قدراکثریت میں ہوں گے کہ ان کوحکومت میں آنے سے روکنامشکل ہوجائے گااوراس کے بعد دیگریورپی ممالک میں بھی اس سلسلے کوپھیلنے سے روکناکسی کے بس کی بات نہیں ہوگی۔آج غزہ فلسطین کے بعدلبنان کے معاملے کواسی تناظرمیں دیکھنے کی اشدضرورت ہے ۔

لبنان ایک ایساملک ہے جہاں مشرق وسطیٰ کے دیگرممالک کے مقابلے میں رائے کےاظہارکی کافی زیادہ آزادی ہے جس کی وجہ سے حزب اللہ کی حمایت یا ُس کی مخالفت عوامی اور نجی سطح پرگفتگوکاایک اہم نکتہ رہتی ہے۔حزب اللہ،اُس کے سیاسی اثرو رسوخ اوراُس کے فوجی ہتھیاروں کے بارے میں کوئی گرماگرم مباحثے بھی پڑھنے سننے کوملتے رہتے ہیں لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اس وقت لبنان کی کمزورفوج کے مقابلے میں حزب اللہ ہی ایک ایسی تنظیم ہے جواسرائیل کے خلاف برسرپیکارہے اوراسرائیل کوسب سے زیادہ ٹف ٹائم بھی اسی تنظیم کی طرف سے مل رہاہے۔حزب اللہ کی عسکری طاقت کے بارے میں بہت سے افرادکاخیال ہے کہ ایک کمزورفوج کی وجہ سے حزب اللہ کاطاقتورہونااورطاقت کےمزید حصول کاسلسلہ جاری رہناچاہیے۔

اسرائیل نے لبنان پرسب سے پہلے1982میں حملہ کیاتھاجس کے بعدوہ2000تک جنوبی لبنان کے چندحصوں پرآج بھی قابض ہے۔لبنان میں حزب اللہ کی عسکری فوج وہ واحد قوت ہے جو گذشتہ دہائیوں میں مؤثرطریقے سے اسرائیلی افواج کامقابلہ کرنے میں کامیاب رہی ہے۔لبنانی فوج غیرمنظم ہونے کے ساتھ ساتھ کمزور،پرانےاورمحدودہتھیاروں سےلیس ہے اور اسلحے اورگولہ بارودکیلئے امریکااوردیگرمغربی ممالک پربہت زیادہ انحصارکرتی ہے۔اس صورتحال کے باعث لبنان میں بہت سے وہ لوگ جوعام طورپرحزب اللہ کے ساتھ ہمدردی نہیں بھی رکھتے،وہ بھی اس کی حمایت کرتے ہیں ۔

کچھ عرصہ پہلے تک حزب اللہ کےاہم سیاسی حلیفوں میں سے ایک اُس وقت کی سب سے بڑی مسیحی جماعت،فری پیٹریاٹک موومنٹ تھی۔ گذشتہ کئی برسوں سے حزب اللہ اور فری پیٹریاٹک موومنٹ کے درمیان ایک دوسرے کی حمایت کرنے کامعاہدہ تھا۔ اس سیاسی اتحاد سے جہاں فری پیٹریاٹک موومنٹ کوایک قابل قدرشیعہ سیاسی جماعت کاساتھ ملاوہیں حزب اللہ نے ایک مسیحی سیاسی حمایت حاصل کی،ایک ایسی مسیحی سیاسی جماعت جوحزب اللہ سے فوری طورپرتخفیف اسلحہ کامطالبہ نہیں کررہی تھی ۔ اگرچہ اب دونوں گروہوں کے درمیان یہ سیاسی معاہدہ ختم کروانے میں غیر ملکی قوتوں کابہت بڑاعمل دخل ہے تاکہ حزب اللہ کو مزیدکمزورکرکے لبنان سے اس کے وجودکوختم کیاجاسکے اورلبنان کومذہبی بنیادپرتقسیم کرکے اسے مزیدکمزورکرکےاپنی ایک باجگزارمسیحی ریاست کاقیام وجودمیں لایاجائے لیکن اسرائیلی حملوں کے بعدرونماصورتحال سے یہ بات واضح ہوگئی ہےکہ لبنان میں مختلف گروہ کس طرح مذہبی خطوط پراتحادبناسکتے ہیں اورہرآنے والاقدم حزب اللہ کی حمائت کیلئے نرم گوشہ پیداکررہاہے اوراسرائیل کیلئے ہی نہیں بلکہ اس کے پیچھےعالمی قوتوں کے شیطانی دماغ میں پلنے والامکروہ منصوبہ بھی شکست سے دوچارنظرآتاہے۔

لبنان پرشدیدفضائی حملوں سے نمایاں طورپرلگ رہاہے کہ حزب اللہ کونشانہ بنانے کی آڑمیں لبنان کی تقسیم کے فارمولے پرمزید بڑھاوادینے پرعملدرآمدہورہاہے۔اسرائیلی جیٹ طیاروں نے لبنان کے جنوب اوروادی البقاع پربمباری کی تونیتن یاہونے لبنانی عوام کے نام ایک پیغام میں کہاکہ”اسرائیل کی جنگ آپ کے ساتھ نہیں ہے،یہ حزب اللہ کے ساتھ ہے”۔اب دیکھنایہ ہے کہ کیانیتن یاہوکے اس مکارانہ بیان کے بعدلبنان میں اسرائیل کے مظالم کے پس منظرمیں لبنان میں وجودمیں آنے والافطری اتحادکاردعمل کیاہوتاہے اورحزب اللہ لبنان کے اندرکتنی حمایت برقراررکھ سکتی ہے،اس کادارومداراس ایک اہم عنصرپرہوسکتا ہے کہ آیاسرحد پار بحران بڑھتا یا پھیلتا ہے۔

یہی وجہ ہے کہ لبنان میں ہمدردیوں،دشمنیوں اورسیاسی اتحادوں کاپہلے سے موجودپیچیدہ جال حالیہ تنازع اوربحران کے دوران مزیدتبدیل ہورہاہے تاہم موجودہ صورتحال میں لبنان میں بہت سے لوگوں اورگروہوں نے اپنے اپنے اختلافات کوایک طرف رکھ دیا ہے۔یہاں تک کہ بہت سے افرادجنہوں نے غزہ کی حمایت میں اسرائیل کے خلاف حملے شروع کرنے کے حزب اللہ کے فیصلے پر تنقیدکی تھی اورحزب اللہ پرملک کوایک سنگین بحران میں گھسیٹنے کاالزام لگایاتھا،وہ بھی موجودہ صورتحال میں اظہاریکجہتی کرتے دکھائی دیے ہیں۔

لبنان میں واکی ٹاکیز،پیجراوروائرلیس آلات پھٹنے کے نتیجے میں درجنوں افرادہلاک،زخمی یامعذورہوئے تھے اورحزب اللہ نے اِس کاالزام اسرائیل پرعائدکیاتھاتاہم فی الحال اسرائیل نے اِن حملوں کی ذمہ داری قبول نہیں کی ہے لیکن واضح شواہدکے مطابق اسرائیل ہی اس کاذمہ دارہے۔حزب اللہ کیلئےیہ حمایت جنوبی لبنان اوروادی البقاع پربڑے پیمانے پراسرائیلی فضائی حملے کے آغازکے بعداوربیروت کے ایک بہت پُرہجوم جنوبی مضافاتی علاقے دحیہ کونشانہ بنانے کے بعدمزیدتیزہوئی ہے۔اس کی وجہ سے عام شہریوں کی ہلاکت ہوئی ہےجن میں بہت سے بچے ہیں۔ان حملوں کے بعدبہت سے لوگوں نے وہاں سے نقل مکانی بھی کی ہے یہ حزب اللہ کیلئےایک فطری حمایت ہے۔

حال ہی میں رخصت ہونے والے امریکی صدرجوبائیڈن نے اقوام متحدہ میں اپنی حالیہ تقریرمیں ایک مرتبہ پھرخطے میں دو ریاستی حل کی تجویزپیش کرتے ہوئے اپنی منافقت کااظہارکیاہے لیکن کون نہیں جانتاکہ خطے میں اس بربادی کے پیچھے سب سے بڑاہاتھ خودامریکاکاہے اوراس کے اتحادی بھی امریکاکی ہاں میں ہاں ملانے کواسرائیل کی پشت پرکھڑے ہیں۔اب مغربی استعمارکی بھرپورکوشش ہے کہ ہرحال میں لبنان کودوحصوں میں تقسیم کردیاجائے لیکن خودمغربی تجزیہ نگاراس بات پرزوردے رہے ہیں کہ داخلی تقسیم کوموجودہ صورتحال میں ایک لمحے کے لیے ایک طرف رکھناچاہیے کیونکہ اس کے بعدپیش آنے والی تباہی کوروکنامشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن ہوجائے گا۔خطے میں یہ خطرہ بھی ابھرکرسامنے آرہاہے کہ معاملہ لبنان کی تقسیم پرختم نہیں ہوگابلکہ اس کے فوری بعداردن کی طرف رخ پھیراجائے گااوراسرائیل اپنی برسوں سے طے شدہ توسیع پرعملدرآمدکرتاہوا “گریٹراسرائیل”پرعمل پیراہے۔سوال یہ ہے کہ خطے میں موجوددیگرمسلم ممالک کب تک سیاسی مصلحتوں کاشکاربن کرمغربی ممالک کے لے پالک بدمعاش اسرائیل کونکیل ڈالنے کیلئے اپنی باری کاانتظارکریں گے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں