Arrogance of the only superpower

واحدسپرپاورکاگھمنڈ

:Share

میں اس خوفناک لمحات سے بھی واقف ہوں جب ایٹمی بریف کیس کابٹن دبانے کی مکمل طاقت رکھنے والے امریکی صدرٹرمپ کے بارے میں ایک مشہورزمانہ امریکی ماہرنفسیات بھرپوردلائل کے ساتھ عالمی میڈیاپرببانگ دہل ٹرمپ کی دماغی صحت پر اپنے شک وشبہ کا اظہارکرتے ہوئے اپنے خدشات کااظہار کررہی تھی جس سے تمام دفاعی اورسیاسی تجزیہ نگاروں میں ایک خوف کی لہردوڑگئی تھی۔ماہرنفسیات ڈاکٹرکاکہناتھاکہ ٹرمپ نے جب سے امریکی صدر کا منصب سنبھالا ہے تب سے وہ ایسا بہت کچھ کررہے ہیں جوامریکاکوایک عظیم طاقت بنانے والے عوامل کے خلاف اوردنیاکومکمل تباہی کی طرف دھکیل سکتاہے۔انہوں نے قدم قدم پرایسی باتیں اورحرکتیں کی ہیں جوان کے منصب کے تقاضوں سے کسی بھی طورمیل نہیں کھاتیں ۔ان کی کوشش رہی ہے کہ جو کھلنڈراپن ان کے مزاج میں پایاجاتاہے وہ امریکی صدرکے منصب میں بھی دکھائی دے۔امریکاکو ایک عظیم طاقت میں تبدیل کرنے والے اصولوں،طریقوں اورخواص کوانہوں نے نشانے پرلینے کی بارہاکوشش کی ہے اوریہ بات اب بیشتر امریکی زیادہ شدت سے محسوس کرتے ہیں۔

عالمی سیاست کے حوالے سے کوئی بھی پیش گوئی انتہائی دشوار کام ہے۔حالات اتنی تیزی سے بدلتے ہیں کہ ہرپیش گوئی خطرے میں پڑجاتی ہے۔ ٹرمپ کامعاملہ تواب اوربھی پیچیدہ ہوگیاہے۔ اس نے اپنے دورِ صدارت کے پہلےایک سال کے دوران ایسابہت کچھ کیاجس کی بنیادپران کے بارے میں پورے یقین سے کچھ کہناانتہائی دشوارتھا۔پیش گوئی کرنے والوں کوبھی اندازہ تھاکہ وہ اگر کچھ کہیں گے توٹرمپ اس کے خلاف کچھ نہ کچھ کرکے انہیں ناکامی وذلت سے دوچارکرنے میں لمحہ بھرکی تاکیرنہیں کرے گا۔ تاہم یہ بات البتہ پورے یقین سے کہتے رہے کہ مورخین جب ٹرمپ کے ادوارکے بارے میں لکھیں گے تواس نکتے پرضرورزور دیں گے کہ اس نے اپنے کھلنڈرے مزاج سے وہ نظم وضبط تباہ کردیاجوامریکی صدر کیلئے لازم قراردیاجاتاتھا۔یقیناًاپنے دورِ صدارت میں اس نے بہت کچھ اپنی خواہش کے اصول کی بنیادپرکیا،افغانستان میں روائتی بموں کی “ماں”جیساخطرناک بم گرانے میں شرم محسوس نہ کی اور پھربرملاعالمی میڈیاکے سامنے افغانستان پرایٹم بم گرنے کی دہمکیاں بھی دیں،کبھی نئے سال کی آمدپرخطے میں اپنے سب سے اہم اتحادی پاکستان کے خلاف ٹوئیٹرمیں نازیباالفاظ پرمشتمل ہرزہ سرائی سے بھی بازنہ آیاجس کے نتیجے میں امریکاکوکئی معاملات میں بہت سبکی کابھی سامناکرناپڑا۔تاہم دنیابھرکے سنجیدہ افرادکویہ تشویش ضرورلاحق ہوگئی ہے کہ ٹرمپ امریکاکاپہلا صدرہے جس کے پاس اپناکوئی وژن نہیں۔ اسی لئے وہ اپنے پورے دورِ اقتدارمیں کوئی ایسی’’گرینڈ اسٹریٹجی‘‘تیارکرنے میں کامیاب نہ ہوسکاجس کی بنیاد پرکہاجاسکے کہ وہ امریکی معاشرے اور قیادت کے ڈھانچے کوکوئی باضابطہ نئی شکل دیکراسے عالمی بحرانوں سے نکالناچاہتاتھا۔اس حوالے سے ٹرمپ کی سنجیدگی کاگراف خاصا نیچارہا۔

کسی بھی ملک کیلئے یہ ممکن ہی نہیں ہے کہ اس کی کوئی واضح اوربڑی حکمت عملی نہ ہو۔اس مرحلے سے گزرے بغیرکوئی بھی ریاست ترقی توکیا کرے گی،اپناوجودبھی برقرارنہ رکھ پائے گی۔امریکاکوئی عام ملک نہیں،اسےواحدعالمی طاقت ہونے کا گھمنڈہے۔اس کیلئے توقیادت کے ڈھانچے کامضبوط ہونااوربیشتربین الاقوامی معاملات میں واضح حکمت عملی کاہونالازم ہے۔ امریکامیں ایک زمانے سے عظیم،ہمہ گیرحکمت عملی اپنانے کارجحان رہاہے اوریہ رجحان محض اپنی پسندکانہیں بلکہ مجبوری اورلازم ہے۔امریکاسپرپاورہے۔اسے کئی ممالک سے خصوصی تعلقات استواررکھناپڑتے ہیں۔ہرخطے پرنظررکھناپڑتی ہے۔کسی بھی صدرکیلئے یہ ممکن ہی نہیں کہ وہ ملک کی’’گرینڈاسٹریٹجی‘‘سے ہٹ کرکچھ کرے۔وہ اگرنمایاں حدتک بصیرت سے محروم ہواورمستقبلِ بعیدکے بارے میں سوچنے اوراس حوالے سے کوئی واضح منصوبہ تیارکرنے کااہل نہ ہوتب بھی اسے حکمت عملی کے حوالے سے بہت سے معاملات میں غیرمعمولی دلچسپی لیناہی پڑتی ہے۔ٹرمپ بظاہربصیرت کاحامل نہیں تھامگراس کیلئے بھی گرینڈاسٹریٹجی کونظراندازکرناممکن نہیں تھایااس سے مطابقت رکھنے والے اقدامات سے گریزکرتا۔لیون ٹراٹسکی نے خوب کہا ہے کہ اگرکوئی صدرگرینڈاسٹریٹجی میں زیادہ دلچسپی نہ بھی لے،تب بھی گرینڈاسٹریٹجی تواس میں دلچسپی لیتی ہی ہے یعنی پیچھے ہٹنے کی گنجائش نہیں،صرف بڑھنے کاآپشن ہے۔

اگرامریکی تاریخ کاجائزہ لیں تویہ نکتہ کسی بھی طورنظراندازنہیں کیاجاسکتاکہ ٹرمپ نے ایک ایسے اہم موقع پرامریکا کی صدارت سنبھالی جب اس کے انتخاب سے پہلے کے70برسوں میں امریکانے دوسری عالمی جنگ عظیم کے بعدسے ایک ایسی طاقت کاکرداراداکیاتھاجوپوری دنیاکوایک نئے سانچے میں ڈھالنے کابھرپورعزم اورتوانائی رکھتی تھی۔امریکی جبرنے کئی خطوں کواپنی مرضی کے مطابق تبدیل کیا۔متعدد ممالک کوتعمیروترقی کی نئی جہتوں سے آشناکیااوردوسری طرف کئی ممالک امریکا کے ہاتھوں بربادی کاشکارہوئے۔1990ءمیں سرد جنگ کے خاتمے کے بعدامریکاچونکہ واحدسپرپاورتھا، اس لیے اس کی ذمہ داریاں بھی بڑھ گئیں۔تقریباًتین عشروں پرمحیط اس مدت کے دوران امریکانے اچھاکم اوربُرابہت زیادہ کیاہے۔بعض مواقع پر صاف محسوس کیاگیا کہ امریکا کیلئے معاملات الجھے ہوئے ہیں اوروہ جوکچھ بھی کررہاہے،اس کی پشت پریاتوبدحواسی ہے یاپھرکچھ اداروں کادباؤ اور خوف۔

امریکی دفاعی تجزیہ نگاروں کے مطابق یہ حقیقت بھی نظراندازنہیں کی جاسکتی کہ ٹرمپ ایک ایسے وقت امریکاکاصدرمنتخب ہواجب چین اپنی پوری قوت کے ساتھ ابھرکرسامنے آچکاتھا۔چین ایک ایسابڑاچیلنج بن گیاجس سے نمٹنے کیلئے امریکاکواپنی ’’گرینڈ اسٹریٹجی‘‘تبدیل کرنا پڑگئی۔ایک طرف جہاں چین نے امریکاکی عسکری ومعاشی بالا دستی کیلئے بہت بڑے چیلنج کی حیثیت اختیار کرلی وہاں خطے میں پاکستان جیسااہم اتحادی جس نے امریکاکو دنیاکی واحدسپرپاوربننے میں اہم کرداراداکیاتھا،اب چین کے ساتھ شانہ بشانہ کھڑانظرآیاجس کے جواب میں امریکی آشیربادپرآئے دن پاکستانی سرحدوں پربھارتی جارحیت جیسا ماحول،سرحدپارسے پاکستان میں دہشتگردی جیسے واقعات،کشمیرمیں جاری ظلم وستم کی بناء پربھارت کے ساتھ انتہائی کشیدہ تعلقات اس پر مستزادٹرائیکاکامختلف اندازمیں بلاوجہ دباؤڈالنے کی غلط پالیسی اختیارکرنے کی بناء پرامریکاکواس خطے میں سخت دھچکالگاہے اور ردّ ِعمل میں خطے میں چین، پاکستان،روس اورایران کا ایک مضبوط بلاک بھی تشکیل پارہاہے۔

ایک طرف چین نے امریکاکی عسکری ومعاشی بالادستی کیلئے بہت بڑے چیلنج کی حیثیت اختیارکی ہے اوردوسری طرف مشرق وسطیٰ میں بھی صورتِ حال بہت تیزی سے تبدیل ہورہی ہے جوامریکا کیلئے مشکلات پیداکررہی ہے۔یہ نکتہ بھی ذہن نشین رہے کہ دنیابھرمیں جمہوریت کوبہترطرزِحکمرانی کی حیثیت سے قبول نہ کرنے کارجحان پروان چڑھ رہاہے۔عام آدمی یہ سوچنے پر مجبورہے کہ اگرآمریت اس کے مسائل حل کردے تو جمہوریت کی کیاضرورت ہے؟

کئی عشروں سے امریکاعالمی سیاست ومعیشت پربلاشرکتِ غیرے متصرّف رہاہے۔اس نے یورپ کوساتھ ملاکراپنی مرضی کے فیصلے کیے ہیں اوران فیصلوں کاپھل بھی کھایاہے مگراب بہت کچھ بدل گیاہے۔کئی ممالک تیزی سے مضبوط ہوکرابھرے ہیں۔ یورپ نے اپنی راہ بہت حد تک الگ کرلی ہے۔چین،روس،برازیل،جنوبی افریقااوردوسرے بہت سے ممالک تیزی سے مستحکم ہوئے ہیں۔ان کااستحکام امریکی بالا دستی کیلئے واضح خطرے کی شکل میں ابھراہے۔یہ سوال امریکامیں بھی جڑپکڑچکاہے کہ عالمی سیاست ومعیشت میں اب امریکاکیلئے کیارہ گیاہے۔گزشتہ صدارتی انتخاب میں جہاں دیدہ سیاست دان جوبائیڈن منتخب ہوکر جب وائٹ ہاؤس میں براجمان ہوئے توان کیلئے بھی سب سے اہم سوال یہی تھاکہ کہ عالمی سطح پر امریکاکو برتر حیثیت برقرار رکھنے کے قابل کس طوربنایاجائے۔وہ ان چیلنجزکامقابلہ کرتے ہوئے اب اگلی انتخابی مہم میں داخل ہوچکے ہیں جہاں انہیں یقیناًاپنے سیاسی فیصلوں کے نتائج کاسامناکرناہے۔حقیقتاًان کیلئےچیلنجزبڑھ چکے ہیں۔حکمت عملی میں غیر معمولی تبدیلیاں ناگزیر ہیں۔

جوبائیڈن نے اب تک ایساکچھ نہیں کیاجس سے اندازہ لگایا جاسکے کہ وہ امریکاکونئی بلندیوں پر لے جانے کی بھرپور صلاحیت رکھتے تھے۔وہ بھی ٹرمپ کی طرح بظاہر اس سیاسی بصیرت سے محروم دکھائی دیئے جو کسی امریکی صدر کیلئے لازم سمجھی جاتی تھی مگراس کا یہ مطلب بھی ہرگز نہیں کہ وہ اپنی شخصیت کاکوئی تاثرچھوڑنے میں مکمل ناکام رہے ہیں۔چند ایک معاملات میں انہوں نے”ٹرمپ بڑھک”سے ہٹ کرعمل کے میدان میں اعتدال پسندی کاثبوت دیاہےمگرمجموعی طورپر وہ اپنے اقوال واعمال سے امریکی فکرکومتاثرکرنے میں تھوڑے بہت کامیاب ضرورہوئے ہیں۔یہ بات محسوس کی جارہی ہے کہ امریکانے جن اصولوں اورطریق کارکواپناکراب تک عالمی سیاست ومعیشت میں اپنی بالادستی کسی نہ کسی طوربرقراررکھی ہے اُنہیں جوبائیڈن نے متاثر کرنے کی کوشش کی ہے اورکسی حد تک کامیاب رہے ہیں جبکہ ٹرمپ کادعوٰی تھاکہ جوکچھ وہ سوچتااورکرتاتھا،اس سے امریکا کی طاقت اوردولت میں غیر معمولی اضافہ ہوااورعالمی سیاست ومعیشت میں امریکی بالا دستی برقراررہی مگردرحقیقت ٹرمپ کی پالیسیوں سے امریکاکو مجموعی طورپرخاصانقصان پہنچا۔پالیسی سازاب یہ بات شدت سے محسوس کررہے ہیں کہ دراصل ٹرمپ کے آنے کے بعدسے امریکا کی سب سے بڑی طاقت والی حیثیت متاثر ہوئی ہے اورجوکچھ وہ کہتارہا،اُس کے وہ اثرات رونما نہیں ہوئے جو ہونے چاہیے تھے۔امریکیوں کواچھی طرح اندازہ ہوگیاکہ ٹرمپ کی پالیسیوں سے عالمی سطح پرامریکا کی پوزیشن قابل ذکرحد تک متاثرہوئی اوراب ایسے شخص کودوبارہ ایسی اجازت نہیں دی جاسکتی۔

امریکی پالیسی سازیہ دعویٰ بھی کرتے ہیں جس سے بڑی حدتک واضح اختلاف کیاجاسکتاہے کہ امریکانے چارنسلوں تک دنیاکو ایک ایسانظام دیاہے جس نے امن،خوش حالی،استحکام اور جمہوریت کی راہ ہموارکی ہے۔یہ بات دیگرنظام ہائے سیاست سے موازنے کی صورت میں کہی جارہی ہے۔امریکانے عالمی سیاست ومعیشت پرجوبالادستی پائی وہ اس کی’’سخت قوت ‘‘کانتیجہ تھی۔امریکاکے پاس بے مثال قوت تھی اوراس قوت کوبھرپوراندازسے بروئے لانے پربھی خاطرخواہ توجہ تودی گئی لیکن اپنی ظاالمانہ پالیسیوں کے سبب اپنے اردگردنفرتوں کے پہاڑبھی کھڑے کرلئے۔

دوسری جنگ عظیم کے بعدامریکانے باضابطہ عالمی طاقت کی حیثیت اختیارکی۔ایسانہیں کہ سردجنگ کے زمانے میں سابق سوویت یونین کے ہوتے ہوئے امریکا کی عالمی حیثیت اتنی مضبوط تھی جسے چیلنج نہ کیاجاسکتا تھاتاہم دنیا دوواضح عالمی قوتوں کے درمیان تقسیم تھی۔بظاہرامریکانے غیرمعمولی عسکری قوت کے ذریعے پوری دنیاکواپنی مٹھی میں رکھنے کی پوری کوشش کی لیکن سردجنگ کے خاتمے کے بعدامریکاکی عسکری قوت مزیدبڑھ گئی۔ عالمی معیشت میں بھی اس کا حصہ اس قدر بڑھ گیاکہ ایک مرحلے پر امریکی خام قومی پیداوارعالمی خام قومی پیداوار کاپچیس فیصدتھی۔دنیانے کسی ایک ملک کوباقی دنیا کے مقابلے میں اس قدرطاقتورکبھی نہیں دیکھالیکن امریکاکویہ مقام کبھی نہ ملتااگرسوویت یونین افغانستان میں جارحیت کی غلطی نہ کرتا اورپاکستان جیسااتحادی امریکاکی بھرپورمددنہ کرتالیکن امریکانے اپنی سابقہ تاریخ دہراتے ہوئے پاکستان کے ساتھ وہی سلوک کیاکہ جونہی سابقہ روس شکست وریخت سے دوچارہوا،امریکاوعدہ خلافی کرتے ہوئے پاکستان اورافغانستان کوبیچ منجدھار میں چھوڑکرفوری طورپرپاکستان کے مخالف کیمپ کوگلے لگالیاکیونکہ بھارت نے بھی پانچ دہائیوں سے ایک وفادارساتھی روس سے آنکھیں پھیرکرامریکاکے قدموں میں پناہ لیکراپنی برہمنی روایت کوقائم رکھاجس کاحال روسی وزارتِ خارجہ نے بھرپورگلہ کااظہاربھی کیاہے۔

لیکن قسمت کی ستم ظریفی دیکھئے کہ مکافاتِ عمل نے چندبرسوں کے دوران امریکی بالا دستی کیلئے بہت سے خطرات پیداکر دیئے ہیں۔اب چین،روس اوردیگرممالک ابھرکرسامنے آئے ہیں مگراس کےباوجودامریکاسمجھتاہے کہ اس کی عسکری اورمعاشی قوت اب بھی اس قدرہے کہ وہ عالمی سیاست ومعیشت پرنمایاں حد تک متصرف ہے اورامریکی قیادت اب بھی دنیا بھرمیں معاملات کو الٹنے اورپلٹنے کی بھرپورصلاحیت رکھتی ہے۔دوسری جنگ عظیم کے خاتمے پرامریکاچاہتاتو ایسی حکمت عملی ترتیب دے سکتاتھاجوصرف اس کیلئے کارگرہوتی اور اسے زیادہ سے زیادہ عسکری ومعاشی قوت سے ہمکنارکرتی مگرپالیسی سازوں نے ایک ایسابین الاقوامی نظام ترتیب دینے پرتوجہ دی جس کے ذریعے صرف امریکابھرپوراستحکام سے ہمکنارنہ ہوبلکہ مجموعی طورپرتمام خطے ترقی کریں،خوشحالی پائیں اورخاص طورپرہم خیال ممالک زیادہ مستفیدہوں۔اس بین الاقوامی نظام کوچلانے کیلئے ادارے معرض وجودمیں لائے گئے، پروگرامز ترتیب دیے گئے۔یوں اب تک بین الاقوامی نظام کے معاملے میں امریکاعالمی راہنماکی حیثیت اختیارکیے ہوئے ہے۔امریکانے عسکری اتحاد تشکیل دیے۔کوشش کی گئی کہ بین الاقوامی تجارتی راستوں کوزیادہ سے زیادہ محفوظ بنایاجائے۔یہ سب کچھ عالمی سطح پر امن برقراررکھنے کی خاطرکیاگیا،مگردرحقیقت امریکایہ چاہتاتھاکہ ایک ایسی دنیاتشکیل دی جائے جس میں وہ خودزیادہ آسانی سے ترقی واستحکام سے ہمکناررہ سکے۔

دوسری جنگ عظیم کے خاتمے پرامریکاچاہتاتوایسی حکمت عملی ترتیب دےسکتاتھاجوصرف اس کیلئے نہیں بلکہ اس کے قریبی اتحادیوں کیلئے بھی کارگرہوتی اورامریکازیادہ سے زیادہ عسکری ومعاشی قوت سے ہمکنارہوتامگر پالیسی سازوں نے ایک ایسا بین الاقوامی نظام ترتیب دینے پرتوجہ دی جس کے ذریعے صرف امریکانہ صرف بھرپوراستحکام سے ہمکنارہواوراس کے اتحادی مجموعی طورپرخطے میں ترقی اورخوشحالی کیلئے اس کی بالادستی قبول کریں اور خاص طور پرہم خیال ممالک اس کی ہرپالیسی میں اس کے ہمنوا ہوں جس طرح مشرقِ وسطیٰ میں مسلم ممالک اورافغانستان کی تباہی میں اس کے تمام اتحادیوں نے اس کابھرپورساتھ دیا۔اس بین الاقوامی نظام”ورلڈ آرڈر”کوچلانے کیلئے ادارے معرض وجودمیں لائے گئے،پروگرامزترتیب دیے گئے، یوں اب تک بین الاقوامی نظام کے معاملے میں امریکاعالمی رہنما کی حیثیت اختیارکرنے کے راستے پرگامزن ہے۔امریکا نے عسکری اتحاد تشکیل دیے اورکوشش کی گئی کہ بین الاقوامی تجارتی راستوں کواپنے مفادات کیلئے زیادہ سے زیادہ محفوظ بنایا جائے۔یہ سب کچھ عالمی سطح پرامن برقراررکھنے کے نام پرکیاگیالیکن اب اقوام عالم یہ سمجھ چکے ہیں کہ درحقیقت امریکا یہ چاہتاتھاکہ ایک ایسی دنیا تشکیل دی جائے جس میں وہ خودزیادہ آسانی سے ترقی واستحکام سے ہمکناررہ سکے۔

دوسری جنگ عظیم کے بعدکی دنیاکواپنی مرضی کے سانچے میں ڈھالنے کی امریکی مساعی درحقیقت صرف اس مقصدکے تحت تھیں کہ عالمی سیاست و معیشت میں اس کی بالادستی قائم ہواورمسقل بغیرکسی چیلنج کے برقراررہے۔اسی لئے کویت عراق جنگ کے بعدجارج بش اوّل نے یہودی نژاد ہنری کسینجرکے تشکیل کردہ ”نیو ورلڈآرڈر”پروگرام کومتعارف کرانے کے بعدامریکانے جوعالمی نظام پراس قدرزوردیاتواس کابنیادی سبب یہ ہے کہ وہ معیشت،عسکری قوت اورسفارت کاری کے میدان میں اپنی پوزیشن زیادہ سے زیادہ مستحکم رکھناچاہتاہے۔اس کیلئے وہ جودنیاتشکیل دینے میں مصروف ہے،اس کاواحدمقصد اکیلے ہی اس سے بھرپوراستفادہ مقصودہے تاکہ عالمی معیشت کواپنی مرضی کے مطابق چلاکرامریکا اپنی طاقت میں بے پناہ اضافہ کرکے عالمی بالادستی کویقینی بنائے۔

یہ نکتہ نظراندازنہیں کیا جاناچاہیے کہ امریکا نے عالمی سیاست ومعیشت میں اب تک جو بھی مرضی کے فیصلے کیے ہیں ان کے حوالے سے اپنے اتحادیوں کیلئےزیادہ طاقت استعمال نہیں کی۔وہ اگرچاہتاتواپنی طاقت کے ذریعے غیر معمولی حدتک اپنی مرضی کے فیصلے کرسکتاتھامگراس کے بجائے کم استحصالی اندازاختیارکرکے امریکانے ان تمام ممالک کومجوزہ مفادات میں کچھ حصہ ضروردیاجوعالمی نظام کے حوالے سے اس کے تصورات کوقبول کرنے کیلئے تیارتھے۔دیگرسپرپاورز کے مقابلے میں امریکانے طاقت کے ذریعے بات منوانے پرکم توجہ دی۔امریکاکے بہت سے شراکت داراس امرکابرملا اعتراف کرتے ہیں کہ وہ کسی بھی معاملے میں امریکاکی بالادستی سے اتنانہیں ڈرتے جتنااس بات سے ڈرتے ہیں کہ کہیں امریکامعاملات سے الگ تھلگ نہ ہوجائے اورپھران ممالک کودیگرقوتوں کے ساتھ بھی سردجنگ کاسامناکرنا پڑے!

ہرحال میں سب سے پہلے امریکاکانعرہ امریکی سیاست ومعیشت کیلئے بنیادی حیثیت رکھتاہے۔امریکا نے کبھی اپنے مفادات کو کسی بھی صورتِ حال کے تابع نہیں کیا۔وہ صورتِ حال کواپنے مفادات کے تابع کرنے پر یقین رکھتاآیاہے۔ایک یورپی سفارت کار کاکہناہے کہ یورپ نے سترسال تک امریکا کی ڈفلی پررقص کیاہے۔ویتنام سے نکاراگواتک لوگ اس بات کے گواہ ہیں کہ اپنے ملک کے مفادات کوہرحال میں تقویت بہم پہنچانے کیلئے امریکی حکام نے غیرمعمولی تشدد اورظلم وجبرکی راہ پرچلنے سے کبھی گریزنہیں کیا۔معیشت اورسیاست سے ہٹ کربھی کئی معاملات میں امریکی اندازِقیادت بہت اہم رہاہے۔دوسری جنگ عظیم کے بعدسے امریکانے عالمی سطح پرامن اوراستحکام کے حوالے سے غیرمعمولی کرداراداکرنے کی یہ وجہ بھی تھی کہ اس وقت دنیا سرمایہ داری اورکیمونزم نظام میں واضح طورپرتقسیم تھی اورامریکاکے اتحادی یہ سمجھتے تھے کہ امریکاعسکری امورمیں کمٹ منٹ کے مطابق کام کرنے اورڈلیور کرنے کی بھرپورصلاحیت رکھتاہے اوریہ کہ ایک انتہائی خطرناک دنیامیں حقیقی استحکام پیداکرنے اوربرقراررکھنے کی صلاحیت اگرکسی میں پائی جاتی ہے تووہ امریکاہے۔

امریکی صدوراس امرکیلئے کوشاں رہے ہیں کہ دنیابھرمیں ایسی جمہوریت اوربنیادی حقوق کی پاسداری کویقینی بنایاجائے جو امریکی قیادت کے تابع رہے اوراس کی واضح مثال ہمیں پہلے الجزائراوربعدازاں مصرکی مرسی حکومت کاتختہ الٹنے سے ملتی ہے۔امریکی قیادت یہ سمجھتی ہے کہ عالمی سطح پربالادستی برقراررکھنے میں یہ بات بھی کلیدی حیثیت رکھتی ہے کہ اخلاقی سطح پرامریکا کیسی دنیادیکھناچاہتاہے۔امریکانے اپنی اخلاقی بالادستی بھی یقینی بنانے کیلئے دنیابھرمیں کھلے معاشرے معرض وجودمیں لانے اورلبرل ازم کوبھرپورتقویت بہم پہنچانے کی کوششیں جاری رکھی ہیں۔

سابق امریکی وزیرخارجہ جارج شلزنے ایک بارکہاتھاکہ امریکانے زیادہ مستحکم تعلقات ان ممالک سے استوار رکھے ہیں جہاں ایسی جمہوریت کی جڑیں گہری اورمضبوط ہیں جوامریکی اوراس کے اتحادیوں کی پالیسیوں سے مکمل آہنگی اوریکجہتی کا اظہارکریں۔یہ محض اتفاق نہیں۔امریکاجن ممالک میں حقیقی جمہوریت اورسیکولر لبرل روایات دیکھناچاہتاہے ان کی طرف زیادہ جھکتاہے ۔امریکی قیادت انہی ممالک سے بہترسیاسی اورمعاشی روابط کوفروغ دینے پرآمادگی ظاہرکرتی ہے جہاں کی سیاسی روایات امریکی اوراس کے اتحادیوں کی سیاسی روایات سے ہم آہنگ ہوں ۔معاملات محض لین دین کی سطح سے کہیں بلندہوکر ورلڈآرڈرکے حقیقی نظریہ اور ثقافتی ہم آہنگی مفادات تک تابع ہوں۔

ایسانہیں ہے کہ امریکانے صرف’’سخت قوت‘‘(معاشی وعسکری) پرمداررکھا ہے۔وہ اپنی بات منوانے کیلئے اوراپنی نمبرون پوزیشن برقراررکھنے کیلئے دنیابھرمیں سوفٹ امیج بھی پھیلاتا ہے۔امریکیوں نے ہردورمیں چاہاہے کہ دنیاان کے ملک کودیکھ کرصرف خوفزدہ نہ ہوبلکہ متاثرہوکرمتوجہ بھی ہو۔ آج دنیابھرمیں امریکاکوسخت ناپسندیدگی کی نظرسے دیکھاجاتاہے مگراس کے باوجوددنیاکے ہرملک کے باشندے چاہتے ہیں کہ انہیں کسی نہ کسی طور امریکا میں داخل ہونے کاموقع مل جائے۔جن ممالک سے امریکاکے تعلقات اچھے نہیں اورجہاں کے لوگ امریکا سے شدید نفرت کرتے ہیں وہاں بھی لوگ اس بات کے منتظررہتے ہیں کہ امریکی ویزا لگ جائے یعنی مجموعی طورپرکہاجاسکتاہے کہ امریکا کی’’سخت قوت‘‘کوتقویت بہم پہنچانے میں ’’نرم قوت‘‘نے بھی کلیدی کرداراداکیاہے۔ ناپسندیدہ ہوتے ہوئے بھی امریکا میں دنیابھرکے لوگوں کیلئے غیرمعمولی کشش پائی جاتی ہے لیکن صدافسوس کہ پہلی مرتبہ ٹرمپ کی نئی امیگریشن پالیسی نے امریکاکے برسوں سے قائم اس تاثرکوبری طرح نہ صرف مجروح کیابلکہ خودامریکی اعلی عدالت نے مداخلت کرکے ٹرمپ کی اس پالیسی کومستردکردیاتھا۔

ٹرمپ نے اپنے دورِ اقتدارمیں جوکچھ کہاوہ اس امرکاغمازتھاکہ وہ بنانے پرکم اوربگاڑنے پرزیادہ توجہ دیتارہا۔(ڈین ایچیسن کیلئے یہ بات بہت اہم تھی کہ وہ امریکاکی تخلیق کے وقت تھے)۔خودامریکی اورمغربی سیاسی تجزیہ نگاروں کے مطابق ٹرمپ کی بڑھکیں دیکھتے ہوئے یہ بات بلاخوفِ تردید کہی جاے گی کہ انہیں شاید کل کویہ بات قابل فخرمحسوس ہوکہ وہ امریکاکی تباہی کے وقت موجودتھے۔ٹرمپ نے اپنی انتخابی مہم کے دوران ایسا بہت کچھ کہاجس سے پتہ چلاکہ اسے بنیادی امریکی اقدارکی پاسداری کاذرابھی خیال نہیں تھا۔اس نے آزاد تجارت کے بجائے اپنے مفادات کوہرحال میں مقدم رکھنے کی تجارت پرزوردیا۔ٹرمپ نے جمہوریت کیلئے اب تک ویسی پسندیدگی کااظہارنہیں کیاجیسی ان کے پیش رَوبیان کرتے آئے اورسب سے بڑھ کر یہ کہ انہوں نے جمہوریت کے مقابل پیوٹن کیلئے پسندیدگی کااظہارکیاجومطلق العنانیت کوبنیادی سیاسی قدرقراردے کرتمام اختیارات اپنی ذات میں سمیٹنا چاہتا ہے۔امریکانے پانچ چھ عشروں میں جوکچھ بھی پایا، اُسے ٹرمپ نے ٹھکانے لگانے میں تاخیرنہیں کی۔اس کاخیال تھا کہ امریکانے جنگ کے بعدکے زمانے میں جوخارجہ پالیسی اپنائی وہ بہت سے معاملات میں مخالفین کواس قدررعایتیں دیتی رہی ہیں کہ اب وہ منہ دینے کاسوچ رہے ہیں۔امریکانے دوسری جنگ عظیم کے بعدکی دنیا میں عالمی معیشت کو اپنی مرضی کے مطابق چلانے کی کوشش ضرورکی ہے مگراس کوشش میں اس نے اپنی مصنوعات اورٹیکنالوجی دنیابھر کودی ہے۔اس بات کو ٹرمپ جیسے لوگ پسندنہیں کرتے۔ان کاخیال یہ ہے کہ امریکاکواپنی ٹیکنالوجیزاورجدید ترین مصنوعات ساری دنیا میں پھیلانے سے گریزکرناچاہیے۔

ٹرمپ نے امریکی فوج کو قیدیوں پرتشددڈھانے کی اجازت دیتے ہوئے یہ بھی کہاتھاکہ دہشتگردی ختم کرنے کی خاطراگرجنگی جرائم کاارتکاب بھی کرناپڑے توایساکرنے میں کچھ ہرج نہیں۔اس سے اندازہ لگایاجاسکتاہے کہ امریکا نے کسی نہ کسی طوراپنی بالادستی کوبرقراررکھاہے مگرٹرمپ اسے ٹھکانے لگانے کے لئے بے تاب رہے۔ایسانہیں ہے کہ جوکچھ ٹرمپ نے صدرکی حیثیت سے کہاتھاوہ جذباتیت کی طرح پرہے۔وہ ایک زمانے سے کئی امریکی شراکت داروں پرشدید نکتہ چینی کرتے آئے ہیں۔انہوں نے 1980ءکے عشرے میں جاپان اور کویت کوشدید نکتہ چینی کانشانہ بناتے ہوئے کہاتھاکہ ان دونوں ممالک سے امریکاکوملاکم ہے اورامریکا نے دیازیادہ ہے۔اسی طورانہوں نے2015ءاور2016ء میں جرمنی اورمیکسیکوپرشدید نکتہ چینی کرتے ہوئے کہاکہ ان دونوں ممالک نے امریکا کیلئے طفیلی کاکرداراداکیاہے۔اپنی انتخابی مہم کے دوران انہوں نے امریکا کے بعض شراکت داروں کے بارے میں جن خیالات کااظہار کیا وہ ان کے دوڈھائی عشروں کے خیالات ہی کاعکاس تھے۔

اس کامطلب یہ ہے کہ ٹرمپ نے صدر کی حیثیت سے امریکاکے بعض اتحادیوں اوراتحادیوں کے بارے میں جو کچھ کہاتھا،وہ محض بڑھک نہیں، جذباتیت کی سطح پرنہیں بلکہ وہ واقعی کچھ کرناچاہتاتھایعنی وہ امریکاکے بعض اتحادیوں کوایک طرف ہٹانے اورنئے تعلقات استوارکرنے کی راہ پرگامزن ہونے کیلئے بے تاب رہتاتھاچاہے اس کیلئے امریکاکوکتنی ہی بھاری قیمت کیوں نہ چکانی پڑے۔لیکن خودامریکاکے خیر خواہ اوران کے اتحادی ٹرمپ کی ان پالیسیوں کے اجراء کی کبھی بھی کھل کرحمائت نہ کرسکے کیونکہ اس سے امریکاتیزی کے ساتھ تنہائی کاشکار ہوجاتالیکن افسوس تواس بات کا ہے کہ ٹرمپ ایک مرتبہ پھراسے سے کہیں زیادہ شدت پسندنعروں کی گونج میں وائٹ ہاؤس پہنچنے کی تیاریوں میں بڑاپرامیدہے اورایساہی حال ہمارے ملک کی سیاست کابھی ہوچکاہے کہ ہرروزکسی نہ کسی کابیان آجاتاہے کہ عمران کے ساتھ بیک ڈورچینل پربات چیت جاری ہے اورناکامی کامنہ دیکھتے ہی اس کی تردیدکردی جاتی ہے۔ عجیب اتفاق ہے کہ یہ دونوں کردارایسے ہم مزاج ہیں کہ ایک دوسرے کی تعریفوں کے پل باندھنے میں کبھی بخیلی سے کام نہیں لیتے۔
؎اپنابھی کچھ خیال کر،اے دل بجزلحاظ
موقع ملے توجھاڑکبھی آستین کے سانپ

اپنا تبصرہ بھیجیں