یونانیوں اوررومیوں نے تہذیب وتمدن اورعلوم وفنون میں اس قدرترقی کی کہ اس بنیادپربہت سی تہذیبیں اوربہت سے علوم وجودمیں آئے لیکن ان کے ہاں عورت کامقام بہت ہی بے وقعت تھا،عورت کوانسانیت پربارسمجھتے تھے اوراس کامقصدان کے نزدیک سوائے اس کے کچھ نہیں تھاکہ خادمہ کی طرح گھر والوں کی خدمت کرتی رہے۔اہل یونان اپنی معقولیت پسندی کے باوجودعورت کے بارے میں اپنے تصورات رکھتے تھے،ان کاقول تھا:آگ سے جل جانے اورسانپ کے ڈسنے کاعلاج ممکن ہے لیکن عورت کے سترکامداوا محال ہے۔
اسی طرح منفی تعلق دوتہائیوں کے درمیان حرکت کرتارہا۔ایک مرتبہ صرف اسے حیوانی تعلق سمجھاگیا،پھرشیطانی گندگی اور نجاست خیال کیاگیااورپھر دوبارہ حیوانی تعلق خیال کیاگیا۔یہ سب کچھ ہوامگرمغرب کے جاہلی نظام ہائے حیات میں کبھی اس مسئلہ میں ایسا کوئی معتدل رویّہ اختیارنہیں کیاگیاجوانسان کی فطرت کے مناسب ہو۔ان کے یہاں عورت کے بارے میں یہ تصورکبھی بھی نہیں ابھراکہ عورت نفس انسانی کاایک حصہ،جنس بشری کی خالق،بچوں کے کاشانہ زندگی کی محافظ اورانسان کے عناصروجودکی امانت دارہے اورکسی نظام اورعمل کی بہتری کی بجائے اسے انسان کی فلاح وبہبودکے فرائض انجام دیناہے۔ افلاطون نے بلا شبہ مرداورعورت کی مساوات کادعویٰ کیاتھالیکن یہ تعلیم محض زبانی تھی عملی زندگی اس سے بالکل غیرمؤثر، برعکس بلکہ متصادم تھی۔ ازدواج کامقصدخالص سیاسی رکھاگیایعنی یہ کہ اس سے طاقتوراولادپیداہوجوحفاظت ملک کے کام آئے اور یونان کے قانون میں تویہ تصریح موجودتھی کہ کمسن وضعیف شوہروں کواپنی بیویاں کسی نوجوان کے حبالہءعقدمیں دے دینا چاہیے تاکہ فوج میں قوی سپاہیوں کی تعداد میں اضافہ ہو۔
یونانیوں کے بعد جس قوم کودنیامیں عروج نصیب ہواوہ اہل روم تھے،عورت کامرتبہ رومی قانون نے بھی ایک عرصہ درازتک نہایت پست رکھا ۔ افسرخاند ان جوباپ ہوتایاشوہراسے اپنے بیوی بچوں پرپورااختیارحاصل تھااوروہ عورت کوجب،جیساچاہے گھرسے نکال سکتاتھا۔جہیزیادلہن کے والدکونذرانہ دینے کی رسم کچھ بھی نہ ہوتی اورباپ کواس قدراختیارحاصل تھاکہ جہاں چاہے اپنی لڑکی کوبیاہ دے،بلکہ بعض دفعہ تووہ شادی کرکے توڑسکتاتھا۔زمانہ مابعدیعنی دورِ تاریک میں یہ حق باپ کی طرف سے شوہرکی طرف منتقل ہوگیااوراب اس کے اختیارات یہاں تک وسیع ہوگئے کہ وہ چاہے توبیوی کوقتل کرسکتاتھا۔
520ءتک طلاق کاکسی نے نام بھی نہ سنا۔رومی لوگ جب وحشت کی تاریکی سے نکل کرتاریخ کے روشن منظرپرنمودارہوتے ہیں توان کے نظامِ معاشرت کانقشہ یہ ہوتاہے کہ مرداپنے خاندان کاسردارہے،اس کواپنے بیوی بچوں پرپورے مالکانہ حقوق حاصل ہیں بلکہ بعض حالات میں وہ بیوی کوقتل کردینے کا بھی مجازہے۔
یہاں بھی عورت کامقصدخدمت اورچاکری سمجھاجاتا،مرداسی غرض سے شادی کرتاکہ وہ بیوی سے فائدہ اٹھاسکے گاحتیٰ کہ کسی معاملے میں اس کی گواہی تک کااعتبارنہیں کرتاتھا۔رومی سلطنت میں اس کوثانوی طورپرکوئی حق حاصل نہیں تھاالبتہ اس کی طبعی کمزوریوں کی بناءپر اس کوبعض سہولتیں دی گئیں تھی۔
مزیدیہ کہ اس میں شک نہیں کہ بعد کے ادوارمیں رومیوں نے اس کوحقوق بھی دیئے لیکن اس کے باوجودیہ ایک حقیقت ہے کہ اس کو مردکے مساوی درجہ کبھی نہیں ملا۔تہذیب وتمدن کی ترقی کے ساتھ ساتھ اہل روم کانظریہ عورت کے بارے میں بدلتاچلاگیا،اوررفتہ رفتہ نکاح وطلاق کے قوانین اورخاندانی نظام کی ترکیب میں اتناتغیررونماہواکہ صورتِ حال سابق حالات کے بالکل برعکس ہوگئی۔ نکاح محض ایک قانونی معاہدہ بن کررہ گیاجس کا قیام وبقافریقین کی رضامندی پرمنحصرتھا۔ازدواجی تعلق کی ذمہ داریوں کوبہت ہلکا سمجھاجانے لگا۔عورت کووراثت اورملکیت مال کے پورے حقوق دیئے گئےاورقانون نےاسے باپ کے اقتدارسے بالکل آزادکردیا۔ رومی عورتیں معاشی حیثیت سے نہ صرف خودمختارہوگئیں بلکہ قومی دولت کاایک بڑاحصہ بتدریج ان کے اختیارمیں چلاگیا۔وہ اپنے شوہروں کوبھاری شرح سودپرقرض دیتی اورمالدارعورتوں کے شوہرعملاًان کے غلام بن کررہ جاتے۔طلاق کی آسانیاں اس قدربڑھیں کہ بات بات پرازدواج کارشتہ توڑاجانے لگا۔مشہوررومی فلسفی ومدبر سینکاسختی کے سا تھ رومیوں کی کثرت طلاق پرماتم کرتے ہوئے کہتاہے کہ اب روم میں طلاق کوئی شرم کے قابل چیز نہیں رہی،عورتیں اپنی عمرکاحساب شوہروں کی تعدادسے لگاتی ہیں۔
اس دور میں عورت یکے بعددیگر ے کئی کئی شادیاں کرتی تھی بلکہ تیس شوہرسے زائدکی مثالیں بھی موجودہیں۔مارشل(43 تا 104ء)ایک عورت کاذکر کرتاہے جودس شوہرکرچکی تھی اورابھی مزیدبہترشوہرکی تلاش میں تھی۔دینل(60 تا130ء) ایک عورت کے متعلق لکھتاہے کہ اس نے پانچ سال میں آٹھ شوہر بدلے۔ سینت جروم(340 تا430ء)ان سب سے زیادہ باکمال عورت کاحال لکھتاہے جس نے آخری بارتیسواں شوہرکیاتھااور اپنے شوہر کی بھی وہ اکیسویں بیوی تھی۔ اس دورِظلمت میں عورت مردکے غیرنکاحی تعلق کومعیوب سمجھنے کاخیال بھی دلوں سے نکلتاچلاگیایہاں تک کہ بڑے بڑے معلمین بھی زناکوایک معمولی چیزسمجھنے لگے۔”اسلام اورمغرب کے تہذیبی مسائل“کے مصنف لکھتے ہیں کہ کاٹوجس کو184قبل مسیح روم کامحتسبِ اخلاق مقررکیاگیاتھا،صریح طورپرجوانی کی آوارگی کوحق بجانب ٹھہراتاہے“۔
لیکن وقت کے ساتھ ساتھ انسان اورانسانی تہذیب جہاں اپنی فطری کمزوری کے سبب افراط وتفریط کاشکارہوتی ہے وہاں سے معاشرے میں بگاڑپیداہونا شروع ہوگیا۔قدیم جاہلیت نے سارازورمردکی برتری ثابت کرنے پرلگادیااورجدید جاہلیت نے ردِّعمل کاشکار ہوکرعورت کوبرابری کی دوڑمیں شریک کرناچاہالیکن وہ اپنی حیثیت سے ایسی آگے نکلی کہ اب اسے بالمقابل کھڑامردسست لگ رہاہے۔
معاشرے کیلئےعورت کی اہمیت کااندازہ اس بات سے لگایاجاسکتاہے کہ یہاں انبیانے پرورش پائی،صدیقین وشہدانے بھی،مجاہد جرنیلوں اورغازیوں نے بھی…..جوتاریخ میں اپنانام سنہری حرفوں میں ثبت کراگئے،اسی گودمیں پرورش پانے والوں نے چنگیزخان، ہلاکوخان اورہٹلربن کر،تاریخ انسانی میں ظلم کے سیاہ باب بھی رقم کئے۔وہ خواتین جنہوں نے تازہ ادوارمیں افغانستان،کشمیر،چیچنیا،بوسنیا،فلسطین اوراراکان میں محمودغزنوی،صلاح الدین ایوبی،محمدبن قاسم اور ٹیپو سلطان جیسےلاکھوں”دشمن کوبچھاڑنے والے پیداکئے،دشمن کواس فکرمیں مبتلاکرگئیں کہ اگرمسلم خواتین ایسے ہی شیردل تیارکرتی رہیں تو دنیا سے ان کے مقاصدکا بوریابسترگول ہوجائے گاچنانچہ انہوں نے مسلم معاشروں میں جال پھینکنے کاپلان بنایااورخواتین کواحیائے اسلام کے راستے سے دور کرنے کیلئے، انہیں خانہ داری ،بچوں کی تعلیم وتربیت اورمجاہد صفت افراد تیارکرنے کے کاموں سے بیزارکرکے آزادیٔ نسواں کاشوشاچھوڑا۔
ایسی تحریکیں وجود میں آئیں جوعورت کیلئےفطرت کے ودیعت کردہ کاموں کوعورت پرظلم اوراس کااستحصال قراردینے لگیں۔آزادیٔ نسواں کے نام پرتفریخ ونشاط کی محفلیں سجانا شروع کیں،انہیں فیشن پرستی،بے پردگی کے بعدعریانی کی راہ پرگامزں کرناشروع کیا،چادراورچاردیواری کودورِقدیم کی علامت قرار دے کر اس قیدو بندسے باہرآنے کی راہ سجھائی جانے لگی۔وہ علامتیں جوعورت کی صفت وعصمت کی نگہبان تھیں،تہذیب ِجدید میں عورت کی آزادی کے نعروں کے شورمیں ان پرخوب فقرے کسے گئے۔ان کوعورت کی ترقی کی راہ میں رکاوٹ اوردقیانوسیت قراردے کرعورت کوان سے نفرت دلائی گئی، پھر مساواتِ مردوزن کازہرگھول کر،معاشی ذمے داریاں بھی ان کے نازک کاندھوں پر ڈالنے کی کوششوں کاآغاز ہوا۔یہ تہذیبِ ابلیس کاجال تھا،جس نے مسلم عورت کواپنے چنگل میں جکڑلیااورپھرٹی وی،فلم اورڈش ایسے ہتھیارثابت ہوئے جن کی آمدکے بعدتہذیبِ جدیدکےنعرہ مساوات ِمردوزن کوکھل کھیلنے کا موقع ملا۔
مسلم عورت کوگھرسے باہرنکال کرشمع محفل بنانے اورمردکی برابری کی راہ سجھانے میں مغرب کاہاتھ تھا۔اس کاخیال تھاکہ جب تک مسلم معاشروں کی عورت کونہ بگاڑاجائے اُس وقت تک مسلم دنیاکااولاًخاندانی اورثانیاًمعاشرتی نظام نہ بگڑے گااورجب تک مسلم دنیا معاشرتی زبوں حالی اورٹوٹ پھوٹ کا شکارنہ ہوگی اُس وقت تک”نیوورلڈآرڈر”کاخواب شرمندہ تعبیرنہیں ہوسکتاچنانچہ ابتدائی اقدام کے طورپر”خواتین کے حقوق وآزادی”کے درپردہ “خاتون بگاڑ”تحریکیں شروع کی گئیں اورمسلم خاتون کوبھی مغرب کی خاتون کی طرح استحصال کی راہ پرڈال دیاگیا۔اس آوازپر”روشن خیال”بیگمات نے لبیک کہا،عورت سے متعلق قوانین اسلامی پر تنقیدیں کی گئیں ،اپنی مرضی کی تاویلیں ایجادکی گئیں،عورت پرعائداسلامی حدودوقیود(جوحقیقت میں صنف ِنازک ہونے کے ناتے، بعض ذمے داریوں سے اسے عہدہ براکرتے ہیں،اوربعض احتیاطوں کاپابندبناکراسے شرف ومرتبہ عطاکرتے ہیں)کوعورت پرظلم قراردیاگیا،اوراسلامی لبادہ جوخودانہوں نے اتارکردور پھینک دیاتھادیگرخواتین کوبھی اسے اتارپھینکنے کامشورہ دے کرمغرب کے اس پروگرام کوبڑھ چڑھ کرکامیاب بنایا۔مغرب کی جس عورت کی پیروی کی راہ پرمسلم عورت کوگامزن کیاجارہاہے کیاوہ کامیاب ہے؟
یورپ کی خواتین کی آزادانہ سرگرمیوں سے متاثرہوکر،تہذیبِ جدیدمیں آزادیٔ نسواں اورمساوات،مردوزن کے نام پرعوت کوگھرچھوڑ کرباہرکی راہ اختیار کرنے کی جوترغیب دلائی جارہی ہے وہ راہ مغرب کی عورت نے اُس وقت اختیارکی تھی جب وہاں صنعتی انقلاب برپاہوا۔اشیاکی قیمتیں بڑھیں توکم آمدنی والے افراد کیلئےگزارہ کرنامشکل ہوگیا۔اس عالم میں عورت کسبِ معاش میں مردکاہاتھ بٹانے کیلئےمیدان میں نکل کھڑی ہوئی۔ابتدامیں اُس نے محسوس کیاکہ اسے پہلے کی بہ نسبت معاشرے میں حیثیت ومقام حاصل ہوا ہے۔اس نے معاشی کاموں سے مردکوسہارادیناشروع کیااوردوسری طرف معاشرتی سرگرمیوں میں بڑھ چڑھ کرحصہ لینے لگی۔ابتدا کے یہ خوشگوارنتائج جب انتہائی درجے کوپہنچے توان کی صورت انتہائی مسخ ہوچکی تھی،جب عورت نے گھربارچھوڑکر معاش ومعاشرت کوترجیح دیناشروع کی تووہ انتہائی تلخ حقائق سے دوچارہوئی ۔
اب فطرت کے عائد کردہ کام یعنی بچوں کی پرورش اورتعلیم وتربیت تواسے کرناہی تھےمگرجب مردکی برابری اختیارکرکے فطرت کی مشیت کی نفی کی اور معاش جیساکام بھی ازخوداپنے کا ندھوں پراٹھایاتواسے معلوم ہونے لگاکہ اسے مردکی برابری کے دھوکے میں مردکے مقابلے میں دوہری ذمے داریاں ادا کرناپڑرہی ہیں چنانچہ اس کے بعدوہ مادرانہ ذمے داریوں سے گریزکی راہ اختیارکرنے لگی جس کانتیجہ یہ برآمدہواکہ مغربی معاشرہ تتربترہوگیا۔اب مغربی گھرویران مگرسڑکیں، کلب،ہوٹل اوردفاتربارونق ہو گئے،بچے ماؤں کی ممتاسے محروم ہوکرجب بے بسی کی زندگی گزارتے ہیں تووہ”بے حس”تیارہوتے ہیں۔بیماربوڑھے والدین ہمدردی کے دوبول کوترستے ہیں،مشرقی معاشروں کی طرح انہیں”تراشیدہ ہیرا”سمجھ کراہم خاندانی معاملات میں ان سے رائے طلب نہیں کی جاتی،نہ ان کو”قیمتی گوہر”کی حیثیت دی جاتی ہے،بلکہ جوانی میں عیش ونشاط سے بھرپورزندگی گزارکرجب وہ بڑھاپے کی جانب گامزن ہوتا ہے تواسے غیرضروری قراردے کر”اولڈایج ہومز”کی طرف دھکیل دیاجاتاہے۔
خاندانی نظام تلپٹ ہوگیاہے،افرادِخانہ کے مابین محبت والفت کے جذبات کوئی معنی نہیں رکھتے۔گھرکے سکون کوٹھوکرمارکرجب عورت باہرنکلی توہزاروں ہولناک اورہوسناک نگاہوں کاشکارہوئی۔بے حیائی عام ہوئی اورپھرایسی بے حیاتہذیب نے جنم لیاکہ شرافت کالبادہ تار تارہوگیا۔ماد ی ونفسانی خواہشات کی دوڑسے بھرپورمگرالفت ومحبت سے عاری اس جرائم زدہ معاشرے کے بچوں میں خودکشی کی شرح بہت زیادہ ہے۔بچے اپنی تنہائیوں کاغم”منشیات”سے مٹاتے ہیں یاوالدین ان پریہ احسان کرتے ہیں کہ انہیں”چائلڈکیئرسینٹرز”میں داخل کرکے اپنی خلاصی کرلیں۔عورت کسی بھی موقع پرہمدردی کی مستحق نہیں ہوتی۔مغربی مردآج بھی یہی چاہتے ہیں کہ عورت ہرمعاملے میں ان کاصادرکیاہواحکم تسلیم کرے اورہرحال میں گھریلواورمعاشی ذمے داریاں اداکرے۔
مغرب کی معاشرت کاحال یہ ہواکہ عورت نے مساوات کے فریب میں خوداپنے جسم وجان پرظلم کاباب کھولا،جی بھرکے اپنا استحصال کرایااورفطرت نے صنفِ نازک ہونے کی حیثیت میں جن ذمے داریوں سے اس کودوررکھاتھاخودہی ان کاہاراپنے کاندھوں پراٹھایا۔آزادیٔ نسواں اورمردکی برابری کے نعرے نے مغربی معاشرے کوافراتفری وانتشارسے دوچارکیاہے اورعورت کوظلم و استحصال کی منہ بولتی تصویربنادیاہے۔کیامغربی عورت اورمغربی معاشرے کی حالتِ زارایسی ہی قابلِ تقلیدہے کہ مسلم معاشروں کو بھی اسی رخ موڑدیاجائے؟اورمسلم عورت جومعاشرتی نظم وضبط ،حیاکے فروغ،عصمت وعفت کی حفاظت اورخاندانی نظام کے استحکام میں ذمہ دارکرداراداکررہی ہے،اسے آزادیٔ نسواں کے نام پرتفریح ونشاط،فیشن وبے پردگی،کسبِ معاش کاراستہ دکھایا جائے اورہوٹلوں،کلبوں،مخلوط محفلوں،تھیٹروں اورٹی وی کی اسکرین کی رونق بناکراستحصال کی راہ پرڈال دیاجائے؟
حواکی بیٹی کوہرجگہ آزادی وبرابری کے دھوکے میں ظلم واستحصال کاتحفہ ملاہے مگراس کے باوجود اسے اس راہ پرچلانے کا عمل جاری ہے،آزادی وبرابری کے سفرپرحواکی بیٹی کوگامزن کرنے والوں کومغرب کے ٹوٹے پھوٹے معاشرے سے ضرورعبرت پکڑنی چاہئے،وہ معاشرہ جس میں خواتین کی آزادی کی پُرزور حمایتی خواتین،اپنے خیالات پرنظرثانی کرنے پرمجبورہوگئیں۔بی ٹی فریڈن جومغرب میں خواتین کی آزادی کی پرجوش علم بردارتھیں اپنی کتا ب میں لکھتی ہیں:”کیااولاد سے نجا ت حاصل کرکے یا خاندان کے ادارے سے باہرنکل کرعورت حقیقی معنوں میں امن وسکون حاصل کرسکتی ہے؟”آزادیٔ نسواں و مساواتِ مردوزن کا نعرہ لگا نے والی ایک اورخاتون جرمن گریئرکہتی ہیں:”ہمارے سب اندازے غلط ثابت ہوئے،ہمیں ملازمت سے زیادہ گھرکی ضرورت ہے۔”
کائنات میں اللہ رب العالمین نے زندگی کانظام چلانے کیلئےمرد کے ساتھ عورت کوبھی پیداکیا،ان کادائرہ کارمتعین کیااورپھراس نظام زندگی کوچلانے کیلئے مرداور عورت کے حقوق وفرائض متعین کئے جس میں ہرایک صنف اپناحصہ وصول کرنے کے ساتھ ساتھ دوسری صنف کے فرائض بھی ادا کرنے کی پابندہے تاکہ کسی ایک میں بھی احساس محرومی اورردِّعمل پیدانہ ہو۔
یادرکھیں!بییٹاں قوم کی عزت ہوتی ہیں اورجوقوم اپنی بیٹی کوعزت نہیں دے سکتی،وہ ترقی نہیں کرسکتی۔مغربی معاشرے میں عورت کاکوئی مقا م نہیں،18 ملین بچے امریکامیں اپنی شناخت سے محروم ہیں،12.5ملین خواتین ڈپریشن کاشکارہیں،خواتین کواغواکرنا،انہیں قیدکرنا،اس کواپنے بچوں سے ملنے سے محروم کرنا،امریکا کادہرامعیارہے۔مغربی تہذیب کی دلداد ہ آنٹیاں ڈالرزاورمراعات کے عوض مغرب کی آلہ کاربن رہی ہیں،اورمسلم معاشرے کے خلاف علم بغاوت بلند کررہی ہیں،ان کی ساز ش کبھی کامیاب نہیں ہوگی اوراسلامی خاندانی نظام کاتحفظ ہی مسلمان خاتون کی آبروکی ضمانت ہے۔اسلام میں کائنات پرعورت کی عظمت اوراس کا مقام ہرمردکاجزولاینفک بناکردونوں کے درمیان حقوق وفرائض کاجومتوازن نظام تشکیل دیاوہ قابل عمل بنایاگیاجوآج بھی بھٹکی ہوئی انسانیت کیلئےرہنمااصول ہیں۔کیونکہ اسلام ایک مضبوط پائیدارمعاشرہ کی بقاءچاہتاہے۔اس کیلئے خاندان کااستحکام،معاشرہ کااستحکام اورخاندان کی بربادی معاشرہ کی بربادی ہے ۔