سن توسہی……

:Share

بالآخرحامدکرزئی اپنی صدارت کے آخری سال کھل کرامریکاکے سامنے آگئے ہیں اورانہوں نے تمام دنیاکی کوششوں کے باوجودچارماہ قبل لویہ جرگہ کی منظوری دینے کے باوجود معاہدے پردستخط سے صاف انکارکردیاہے اورامریکی سابق وزیردفاع رابرٹ گیٹس کی کتاب میں کرزئی کوگزشتہ انتخابات میںشکست سے دوچارکرنے،ان کو ہٹانے اورپوری دنیا کو ان کے خلاف کرنے میں انکشافات اورپھریہ کہ پاکستان نے یہ تمام منصوبہ ناکام بنایا،کرزئی سخت طیش میں آگئے ہیں۔انہوں نے فوری ردعمل میں بگرام جیل کوبندکرنے کا اعلان کرتے ہوئے وہاں پرقید ۸۸کمانڈروں کورہا کرنے کااعلان کرتے ہوئے ۶۵کمانڈروں کو رہابھی کردیاہے جبکہ باقی ۱۳قیدیوں کوبھی انتخابات سے قبل رہاکردیاجائے گا۔ انہوں نے ایک سال قبل بگرام جیل کوبندکرنے کاجواعلان کیاتھااب اس پربھی عملدرآمدکرنے جارہے ہیں۔
حامد کرزئی کے امریکاکے خلاف کھل کرسامنے آنے کے بعدطالبان اورحزب اسلامی نے کرزئی کے خلاف اپنی پالیسیوں میں تبدیلی پیداکرنا شروع کردی ہے۔طالبان اورحزب اسلامی کے دواعلیٰ رہنماؤں نے جومشرقی افغانستان میں اس وقت امریکاکے خلاف کمانڈکررہے ہیں،نے کہا کاش کرزئی یہ کام پانچ سال پہلے کرلیتے توآج افغانستان کانقشہ ہی تبدیل ہوتااوروہ افغانستان کے مستقل حکمران ہوتے لیکن اس وقت کرزئی نے امریکی اورغیرملکیوں کے لالچ اوردباؤ میں آکرخودکودھوکہ دیا،اب بھی ہم کرزئی کے عزم کوسراہتے ہیں۔ کرزئی کی جانب سے ان قیدیوں کی رہائی کے اعلان کے بعد امریکانے کرزئی کومتنبہ کیاہے کہ ان طالبان کمانڈروں کی رہائی سے امریکاکی سلامتی کوشدیدخطرہ ہے تاہم کرزئی نے کہاہے کہ بگرام جیل طالبان بنانے کی فیکٹری ہے ،اس لئے وہ اس فیکٹری کوبندکرناچاہتے ہیں اوروہ طالبان اوردیگر مزاحمت کاروں کے ساتھ مل کر افغانستان میں قیام امن کیلئے بات چیت شروع کرناچاہتے ہیں۔یادرہے کہ طالبان نے مذاکرات کیلئے بگرام جیل سے اپنے تمام کمانڈروں کی رہائی کامطالبہ کیا تھا۔
حال ہی میں کرزئی نے امریکاکی جانب سے اس دہمکی کے بعدکہ اگرانہوں نے دستخط نہیں کئے توامریکاافغانستان سے چلاجائے گاکرزئی نے کہاکہ امریکاجب چاہے جا سکتاہے ، افغانستان کوامریکاکی کوئی ضرورت نہیںہے کیونکہ افغانستان امریکاکے بغیربھی قائم ودائم رہے گا۔کرزئی نے گزشتہ دنوں برطانیہ کے ایک معروف اخبار کواپنے انٹرویومیں امریکا کی اپنے ملک میں موجودگی کوافغانستان کیلئے خطرناک قراردیااورپہلی بارکہاکہ امریکا نے یہاں اپنے مفادات کیلئے کام کیاہے جبکہ افغان عوام کوبے یارو مددگارچھوڑدیا۔فوج اورپولیس کی تربیت کی بجائے قبائلی لشکرتشکیل دیئے جس سے بدامنی اورڈکیٹیوں کوفروغ ملااورافغانوں پرایک نفسیاتی جنگ مسلط کی گئی۔انہوں نے کہاکہ طالبان اوردیگرمزاحمت کارافغان ان کے بھائی ہیں ۔وہ گزشتہ بارہ سال سے امریکاکویہ سمجھاتے سمجھاتے تھک گئے کہ لوگوں کے ساتھ اچھابرتاؤ کیاجائے لیکن امریکانے یہ سب کچھ نہیں ہونے دیا اور افغانوں پرایسی جنگ مسلط کی کہ افغانوں نے اپنی ساری دولت بیرونِ ملک منتقل کردی۔امریکانے افغانستان میں صرف اپنے ایجنٹوں کوپروان چڑھایااورباقی آبادی کومحرومی اورغصے میں چھوڑدیا۔
انہوں نے پہلی مرتبہ انکشاف کیاکہ برطانیہ نے افغانستان اورپاکستان کے درمیان تعلقات بہتربنانے میں مددکی جبکہ مغربی ممالک اورامریکاپاکستان کے ساتھ تعلقات خراب کرتے رہے جس سے افغانستان کوشدیدنقصان ہوا۔انہوں نے کہاکہ افغانوں کے نزدیک پیسہ ہی سب کچھ نہیں ہے اور افغان غیریقینی صورتحال کی بجائے غربت میں زندگی گزارنے کوترجیح دے رہے ہیں۔حامدکرزئی کاکہناتھاکہ روس کے خلاف بھی افغان عوام نے غربت میں زندگی گزارکرکسی کی دولت کی پرواہ نہیں کی ۔کابل کے اہم تجزیہ نگارکایہ کہنا ہے کہ کرزئی کاامریکاپرغصے کابنیادی مقصدان کے بھائی قیوم کرزئی کی مددنہ کرناہے کیونکہ کرزئی چاہتے تھے کہ امریکاان کے بھائی قیوم کرزئی کوصدربنانے میں مددکرے جبکہ امریکاچاہتاہے کہ کرزئی پہلے معاہدے پردستخط کریں تاکہ آئندہ صدرکیلئے قومی سطح پرکوئی مشکلات نہ ہوں۔
امریکاایک تیرسے دوشکارچاہتاہے کہ کرزئی دستخط کردیں تاکہ آئندہ منتخب صدرکیلئے مقامی طورپر مشکلات ختم کی جائیں اورکرزئی آخری وقت میں یہ بدنامی اپنے سر لینے کوتیارنہیں کیونکہ اس وقت امریکاسابق وزیر تعلیم اشرف غنی احمدزئی کی کھل کرحمائت کررہاہے اورکابل سے ملنے والی اطلاعات کے مطابق بارہ صدارتی امیدواروں میں اصل مقابلہ اس وقت اشرف غنی احمدزئی اورسابق وزیرخارجہ عبداللہ عبداللہ کے درمیان ہے اورامریکاکی کوشش ہے کہ اشرف غنی کوکامیاب بنائے جبکہ افغان صدر چاہتے ہیں کہ ان کے بھائی قیوم کرزئی کی پوزیشن اس وقت انتہائی کمزورہے اوران کے اپنے قبیلے کے بیشترافرادبھی ان سے ناراض ہیں تاہم اگر افغان صدرامریکی تحفظات کے باوجود۸۸طالبان کورہاکرنے کے بعدطالبان اور حزبِ اسلامی کوساتھ ملانے میں کامیاب ہوگئے توان کے بھائی قیوم کرزئی کی کامیابی یقینی ہے دوسری جانب عبداللہ عبداللہ اس وقت خودکوبھارت سے دوررکھ رہے ہیں اوروہ ایرانی دوستوں کے ذریعے پاکستان سے بہترتعلقات استوارکرنے کی کوشش کررہے ہیں۔
عبداللہ عبداللہ پاکستان کوزیادہ سے زیادہ سہولیات دینے کیلئے رضامنددکھائی دے رہے ہیں۔ذرائع کے مطابق عبداللہ عبداللہ نے اپنے قریبی دوستوں کوبتایاہے کہ اگر وہ کامیاب ہو گئے اورپاکستان نے ان کی مددکی تووہ افغانستان میں بیٹھے ہوئے بلوچ لبریشن آرمی کے لوگوں کوپاکستان کے حوالے کردیں گے کیونکہ عبداللہ عبداللہ کی بلوچستان میںکوئی دلچسپی نہیں ہے جبکہ اس کے مقابلے میں اشرف غنی ایسانہیں کرسکتے ہیں کیونکہ احمد زئی قبائل کی بلوچستان میں دلچسپی ہے تاہم امریکاکی کوشش ہے کہ وہ اشرف غنی کوکسی نہ کسی طرح کامیاب بنائے تاہم بعض ذرائع کے مطابق حامد کرزئی قبائلی سرداروں کے ذیعے ان کوششوں میںمصروف ہیں کہ اگرطالبان اور حزبِ اسلامی نے ان کے بھائی کوکامیاب بنانے میں ان کی مددکی تووہ طالبان اورحزبِ اسلامی کے ساتھ ایک بڑے معاہدے کیلئے تیارہیںتاہم اس حوالے سے ابھی تک کرزئی کوکوئی مثبت جواب نہیں ملاہے۔
دوسری جانب ایک معروف بین الاقوامی نشریاتی ادارے کونیٹوکے سیکرٹری جنرل فوراسموسن نے کہاہے کہ” حامدکرزئی امریکاکے ساتھ معاہدہ پر دستخط نہ کرکے آگ سے کھیل رہے ہیں۔ نیٹوکی اتنی قربانیوں کے بعدہمیں افغان حکومت سے تشکرکی امیدتھی لیکن کرزئی نے سب امیدوں پر پانی پھیردیاہے۔ انہیں امیدہے کہ اب نئے صدرہی معاہدے پردستخط کریں گے۔ حامدکرزئی نے ان ہزاروں فوجیوں جنہوں نے قربانیاں دی ہیں ان کے خاندانوں کودکھ پہنچایاہے اوروہ ہزاروں فوجی جواس وقت افغانستان میں ہیں،ان کوکرزئی کے بیانات سے سخت دکھ پہنچاہے”۔
کیانیٹوکے سیکرٹری جنرل کوان لاکھوں شہداء کے خاندانوں کے جذبات کاکچھ بھی احساس ہے جن کونیٹو اورامریکانے انسانیت سوزبمباری میں صفحۂ
ہستی سے مٹادیاجوآج یہ اپنے ہی پروردہ کرزئی سے یہ گلہ کررہے ہیں؟

سن توسہی جہاں میں ہے ترافسانہ کیا
کہتے ہیں تجھے کوخلقِ خداغائبانہ کیا؟

اپنا تبصرہ بھیجیں