“پہنچی وہی پرخاک جہاں کاخمیرتھا”کے مصداق بشارالاسدکوروسی صدرپوٹن نے گودلے لیااورپہلی مرتبہ بشارالاسدکاٹیلی گرام اکاؤنٹ پرپیغام نشر ہواہے کہ ان کاملک چھوڑنے کاکوئی ارادہ نہیں تھاتاہم انہیں اپنی فوج کی پسپائی اختیارکرنے کے بعدایساکرنا پڑا۔ابھی یہ کہنامشکل ہے کہ اس اکاؤنٹ کاکنٹرول کس کے ہاتھ میں ہے یایہ بیان بشارالاسدنے خودلکھابھی ہے یا نہیں۔بشارالاسد سے منسوب یہ بیان انگریزی اورعربی دونوں میں شیئرکیا گیا ہے اوراس میں8دسمبرکے واقعات کی تفصیل دی گئی ہے کہ کیسے وہ روسی اڈے پرپھنس گئے تھے۔
خیال رہے9دسمبرکومخالف گروہوں نے دارالحکومت دمشق کاکنٹرول سنبھالاتھااوربشارالاسداوراس کے باپ کے ظلم وجبر، رعونیت اورفرعونیت کا53 سالہ اقتداراپنے اختتام پرپہنچاتھا۔بشارالاسدسے منسوب بیان میں کہاگیاہے کہ جس وقت دمشق باغیوں کے کنٹرول میں گیا،وہ اس وقت لاطاقیہ میں ایک روسی فوجی اڈے پرموجودتھے تاکہ”فوجی آپریشن کی نگرانی”کرسکیں لیکن اس وقت تک شام کی فوج اپنی پوزیشن چھوڑکرپیچھے ہٹ چکی تھی ۔روسی ہوائی اڈے حمیمیم پربھی”شدیدڈرون حملے”ہورہے تھے اوراسی وقت روس نے انہیں ماسکو لے جانے کا فیصلہ کیاتھا۔
دراصل جب ہوائی اڈے سے نکلنے کاکوئی راستہ باقی نہیں بچاتوروس نے درخواست کی کہ8دسمبر،اتوارکی شام کوفوراًاسے خالی کیاجائے اوروہاں موجود لوگوں کوروس پہنچایاجائے۔یہ سب دمشق کے(باغیوں کے)کنٹرول میں آنے کے ایک دن بعدہواجب شامی فوج نے اپنے ٹھکانوں کوچھوڑدیااوراس کے نیتجے میں تمام ریاستی ادارے مفلوج ہوگئے۔اس بیان میں مزید کہاگیاہے کہ”ان واقعات کے دوران میں نے کسی بھی موقع پرصدارت چھوڑنے یاپناہ لینے پرغورنہیں کیاتھااورنہ ہی کسی فردیافریق نے اس وقت تک مجھے ایسی پیشکش کی تھی لیکن جب ریاست دہشتگردوں کے ہاتھ میں آگئی اورمیری معنی خیزکردارادا کرنے کی صلاحیت ختم ہوگئی توپھرمیری وہاں موجودگی بھی بےمعنی ہوگئی تھی”۔سوال یہ ہے کہ کیابشارالاسدجواپنے اہل وعیال کے ساتھ روس فرارہو گئے ہیں،کیاوہ فوجی نگرانی کیلئے اپنے اہل وعیال کوساتھ لیکرچلتے ہیں؟کوئی بھی ذی شعوراس بہانے کوتسلیم کرنے کوتیارنہیں ہوگابلکہ بشارالاسداپنے ظلم وستم کی بناءپراپنے انجام سے بخوبی واقف تھا،اس لئے گزشتہ چنددنوں سے وہ شامی خزانے پرہاتھ صاف کرتاہوافرارہواہے۔
جب ہیئت تحریرشام کی قیادت میں باغیوں نے صرف12دنوں میں شامی شہروں اورصوبوں پرقبضہ کیاتوبشارالاسدکہیں نظرنہیں آئے تھے تاہم اس وقت یہ قیاس آرائیاں ہورہی تھیں کہ بشارالاسد ملک چھوڑگئے ہیں۔یہاں تک کہ جب ہیئت التحریراوران کے دیگر ساتھی دمشق میں داخل ہوئے تو اس وقت بشارالاسدکے اپنے وزیرِاعظم ان سے رابطہ کرنے سے قاصرتھے ۔اتوارکوعلی الصبح جب مخالف فورسزدمشق شہرمیں بغیرکسی مزاحمت میں داخل ہورہے تھے توہیئت تحریراوراس کے اتحادیوں نے اعلان کیاکہ “ظالم بشارالاسد(شام)چھوڑگئے ہیں”۔اس دوران دوسینیئرشامی فوجی افسران نے بھی تصدیق کردی تھی کہ بشارالاسدسیریئن ایئر کے ایک طیارے میں سوارہوکردمشق ایئرپورٹ سے اتوارکی صبح روانہ ہوگئے تھے۔
اس سوال کاایک سادہ ساجواب تویہی ہے کہ2011میں شروع ہونے والی خانہ جنگی کے دنوں میں روس بشارالاسد کااہم اتحادی بن کرسامنے آیاتھا اور کریملن کے مشرق وسطیٰ کے اس ملک میں دواہم فوجی اڈے بھی ہیں۔2015میں روس نے بشارالاسدکی حمایت میں فضائی حملے شروع کیے جس سے ملک میں جاری جنگ کاحتمی نتیجہ بشارالاسدکے حق میں نکلااوران کے خلاف برسر پیکارگروپوں کوپے درپے شکست کاسامناکرناپڑاجس کے بعدبشار الاسد حکومت نے اپنے مخالفین کابڑے پیمانے پرصفایاکرنے کیلئے ظلم وستم کے تمام ریکارڈتوڑدیئے۔برطانیہ میں قائم گروپ کے مطابق روس کی طرف سے کی جانے والی کارروائیوں میں نوبرس میں21,000سے زائدافرادہلاک ہوئے جن میں8700عام شہری بھی شامل تھے۔تاہم روس کی توجہ یوکرین میں بٹی ہونے کی وجہ سے روس یاتواب بشارالاسدسے تعاون کرنے پرآمادہ نہ تھایاپھروہ اس قابل ہی نہیں تھاکہ نومبرکے آخرمیں وہ بشارالاسد کے خلاف باغیوں کے حملوں کوروک پاتا۔
بشارالاسدکے روس اورخاص طورپرماسکوسے گہرے روابط کسی سے ڈھکے چھپے نہیں ہیں۔2019میں فنانشل ٹائمزکی تحقیقات میں یہ بات سامنے آئی تھی کہ شام میں خانہ جنگی کے دوران ملک سے کروڑوں ڈالرباہرلے جانے کی غرض سے بشارالاسدکے خاندان نے روس کے دارالحکومت ماسکومیں 18انتہائی پرتعیش اپارٹمنٹس خریدے ہیں۔گزشتہ ہفتے روس کے ایک مقامی اخبارکی خبرکے مطابق بشارالاسدکے22برس کے بڑے بیٹے حافظ الاسد ماسکوسے اس وقت پی ایچ ڈی کررہے ہیں۔دمشق میں افراتفری کے دوران روس کے سرکاری ٹی وی چینل نے یہ خبردی کہ روسی حکام اس وقت شام میں مسلح اپوزیشن سے ملک میں موجوددوروسی فوجی اڈوں اورسفارتی عملے کی حفاظت کویقینی بنانے سے متعلق رابطے میں ہیں۔
اس وقت شامی باغی گروہ ملک میں ایک عبوری حکومت تشکیل دے رہے ہیں۔ملک کاسب سے طاقتورگروہ ہیئت تحریرشام2011 میں جبھۃ النصرہ کے نام سے منظرِعام پرآیاتھااور اس نے اسی برس القاعدہ سے منسلک ہونے کااعلان کیاتھاتاہم اس تنظیم نے 2016میں القاعدہ سے تعلق توڑدیااورمختلف دیگرگروہوں کے ساتھ مل کرہیئت تحریرشام کی بنیادرکھ دی۔تاہم اقوامِ متحدہ،امریکا، برطانیہ اوردیگرمتعدد ممالک تاحال اسے ایک دہشتگردگروہ تصورکرتے ہیں۔
تنظیم کے سربراہ احمدالشرع(ابومحمدالجولانی)کی جانب سے اعلان کیاگیاہے کہ وہ شام میں دیگرمذہبی گروہوں اوربرادریوں کیلئے برداشت کامظاہرہ کریں گے۔تاہم ان کے گروہ کاایک جہادی ماضی بھی ہے جس کے سبب کچھ افرادان کے وعدوں کوشک کی نگاہ سے دیکھ رہے ہیں۔اقوام متحدہ کے نمائندے گئیرپیڈرسن نے اتوارکواحمدالشرع سے ملاقات کی تھی اوران کاکہناہے کہ شام میں ایک”مستند”تبدیلی کاآناضروری ہے۔
قطرنے13برس قبل شام میں اپناسفارتخانہ بندکردیاتھالیکن اب اس کی حکومت کی جانب سے ایک وفددمشق بھیجاگیاہے تاکہ ملک میں سفارتی سرگرمیاں دوبارہ شروع کی جاسکیں۔مغربی ممالک نے شام میں سفارتخانے کھولنے کااعلان تونہیں کیالیکن امریکااور برطانیہ کاکہناہے کہ گزشتہ دنوں ان کے ہیئت تحریرشام سے رابطے ہوئے ہیں۔تاہم برطانوی حکومت نے یہ بات واضح کردی ہے کہ”سفارتی رابطے”شروع ہونے کے باوجودہیئت تحریرشام کی بطوردہشتگردگروہ حیثیت برقرارہے۔دوسری جانب یورپی یونین کی خارجہ پالیسی کی سربراہ کایاکلاس نے کہاتھاکہ روس اورایران کا”شام کے مستقبل میں کوئی کردارنہیں ہوناچاہیے۔
ادھرامریکی وزیرخارجہ انتونی بلنکن نے ہیئت التحریرالشام(ایچ ٹی ایس)کے ساتھ براہ راست رابطے کی تصدیق کی ہے کہ بشار الاسدکی حکومت کے خاتمے کے بعدملک کاکنٹرول سنبھالنے والے ہیئت التحریرالشام سے انہوں نے پہلابراہِ راست رابطہ کیاہے۔ واضح رہے کہ ایچ ٹی ایس کوامریکانے دہشتگردتنظیم قراردیاہواہے اورشام کے نئے حکمران گروپ کوابھی تک اس فہرست سے نکالانہیں گیاہے۔انتونی بلنکن نے اپنی بریفنگ کے دوران صحافیوں کوبتایاکہ اس رابطے کابنیادی مقصدلاپتہ امریکی صحافی آسٹن ٹائس سے متعلق دریافت کرناتھا۔
وزیرخارجہ انتونی بلکن نے اس رابطے کی تصدیق اردن میں متعدد عرب ممالک،ترکی اوریورپ کے نمائندوں سے اس ملاقات کے بعدکی جس میں شام کے مستقبل کے حوالے سے معاملات پرغورکیاجارہاتھا۔اجلاس میں شریک حکام نے شام میں اقتدارکی پرامن منتقلی کے عمل کی حمایت کرنے پراتفاق کیا۔اس موقع پراردن کے وزیرخارجہ نے کہاکہ علاقائی ممالک شام کومزیدانتشار کاشکارہوتے نہیں دیکھناچاہتے۔اس اجلاس کے بعدایک مشترکہ بیان بھی جاری کیاگیاجس میں کہاگیاکہ شام میں ایک ایسی جامع حکومت کی حمایت کی جائے گی جواقلیتوں کے حقوق کا احترام کرے اورساتھ ہی ساتھ دہشتگردگروہوں کواپنی سرزمین استعمال کرنے کی اجازت نہ دے۔
حالیہ ہفتوں میں شام میں ہونے والی ڈرامائی تبدیلیوں اورہنگامہ خیزواقعات کے بعداب شام کے اندراورباہربات چیت کامحورایک ایسی نئی حکومت کے قیام کی اہمیت پرہے جوشام کے عوام کی نمائندگی کرسکے۔یادرہے کہ حیئت تحریر الشام کااردن میں ہونے والے اجلاس میں کوئی نمائندہ موجودنہیں تھا۔اس اجلاس میں عراقی وزیرخارجہ فوادحسین نے مشرق وسطیٰ اوردیگرعلاقوں میں شام کے مستقبل کے بارے میں پائی جانے والی گہری تشویش کا اظہارکرتے ہوئے کہاکہ خطے کے ممالک شام کولیبیاجیسی صورتحال کاشکارنہیں دیکھناچاہتے۔
یادرہے کہ عرب جمہوریہ لیبیاکے کرنل معمر قذافی طویل ترین عرصے تک برسراقتداررہنے والے عرب رہنماتھے تاہم2011میں تیونس سے شروع ہونے والے استعماری عرب عوامی بیداری کاسیلاب کرنل معمر قذافی کوبھی بہالے گیاتھا۔”عرب بیداری”کے نام پراس خطے میں جن استعماری قوتوں نے تباہی مچائی،ان کے عزائم بھی کسی سے ڈھکے چھپے نہیں رہے اوراپنے مفادات کی تکمیل کیلئے جوبے دریغ انسانی خون بہایاگیا،وہ بھی تاریخ کاایک حصہ بن چکاہے مگرانتہائی پرامن ملک لیبیاجہاں کی عوام ریاستی آسائشوں اورمراعات سے اپنی ترقی کاراستہ طے کررہی تھی،وہاں اپنی من پسندحکومت لانے کیلئے جوہرحال میں ان کے احکام کی تعمیل کرے،اس پُرامن لیبیاکوجنگ کے خوفناک شعلوں کے حوالے کردیاگیااورآج تک لیبیاکرنل قذافی کے اقتدارکے خاتمے کے بعدشدیدافراتفری کاشکارہے اوریہی استعماری قوتوں کاپلان ہے کہ مسلم افریقی لیبیاکے تمام قدرتی وسائل پرقبضہ کر لیاجائے اور عرب بہارکے نام پرمسلم افریقی ممالک پریکطرفہ یورش کے بعدوہ اپنے مقاصد میں کامیاب ہوچکے ہیں۔
تاہم اب اردن کے اجلاس میں ترکی کے وزیرخارجہ حکان فیدان نے اپنے مؤقف میں کہاکہ”شام کے موجودہ اداروں کومحفوظ رکھنااوران میں اصلاحات لانا،اس وقت سب سے ضروری ہے۔شام میں اقتدارکی منتقلی کے دوران دہشتگردی کوفائدہ اٹھانے کا موقع نہ دیاجائے۔ہمیں ماضی کی غلطیوں سے سبق سیکھنے اوراپنے اقدامات کومربوط کرناہوگا”۔اردن میں ہونے والی بات چیت میں شام کاکوئی نمائندہ موجودنہیں تھا۔برس ہابرس تک بشارالاسدکی حکومت کے حمایتی ایران اورروس کی بھی اجلاس سے غیر حاضری تھی۔اجلاس میں موجود8عرب ممالک کے وزرائے خارجہ نے کہاکہ وہ چاہتے ہیں کہ شام متحدرہے اورفرقہ واریت کی بنیادپرتقسیم نہ ہو۔
اسرائیل کی حکومت نے شام میں بشارالاسدکی حکومت کے خاتمے کے بعدگولان کی پہاڑیوں پریہودی آبادکاری کووسعت دینے کا فیصلہ کیاہے۔نتن یاہوکے مطابق شام کی سرحدپرایک نیامحاذکھل جانے کے بعد”یہ قدم اٹھاناضروری تھااوراسرائیل کوباغیوں کے حملوں سے محفوظ رکھنے کیلئے یہ اسرائیل کی جانب سے اٹھایاگیاایک عارضی قدم ہے”۔یادرہے کہ اسرائیل کی یہ تاریخ ہے کہ اس نے اب تک اپنی جارحیت کے سبب تمام علاقوں پرقبضہ کرتے ہوئے یہی مؤقف اختیارکیاتھااوراب تک ان تمام علاقوں پر قابض ہے۔
اسرائیلی وزیر اعظم نے گولان کی پہاڑیوں پر،جہاں1967کی جنگ کے دوران قبضہ کیاتھا(اوربین الاقوامی قانون کے تحت یہ غیر قانونی تصورہوتاہے ) یہودی آبادی کی تعداددگنی کرنے کی خواہش کااظہارکیاہے۔واضح رہے کہ چند دن قبل ہی اسرائیلی فوج نے گولان کی پہاڑیوں پرقائم ایک غیرفوجی بفرزون سمیت شام کی سرحدی حدودمیں موجودچنداہم پوزیشنزپرقبضہ کرلیاتھا۔نیتن یاہو نے ایک بیان میں یہ بھی کہاکہ اسرائیل شام کے ساتھ تنازع میں دلچسپی نہیں رکھتااورزمینی حقائق کودیکھتے ہوئے شام کی جانب پالیسی طے کی جائے گی۔ان کے اس اعلان پرسابق اسرائیلی وزیراعظم ایہود اولمرٹ نے تنقیدکرتے ہوئے کہاہے کہ”گولان کی پہاڑیوں میں آبادکاری کووسعت دینے کی کوئی وجہ سمجھ نہیں آتی۔نیتن یاہو نے کہاکہ ہم شام سے تنازع
نہیں چاہتے اورامیدکرتے ہیں کہ شام پرکنٹرول سنبھالنے والے باغیوں سے لڑنانہیں پڑے گاتوپھرہم مکمل الٹ کام کیوں کررہے ہیں؟”
یہ پیش رفت ایک ایسے وقت میں سامنے آئی ہے جب شام کے نئے رہنماابومحمدالجولانی نے شامی ٹی وی سے بات کرتے ہوئے شام پراسرائیلی حملوں کی مذمت کی ہے۔یہ حملے خطے میں کشیدگی بڑھاسکتے ہیں۔شام کسی ہمسائے کے ساتھ تنازع نہیں چاہتا۔ طویل جنگ کے بعدحالات کسی نئے تنازع کی اجازت نہیں دیتے۔برطانیہ میں موجود شامی آبزرویٹری برائے انسانی حقوق کے اعدادوشمارکے مطابق8دسمبرکے بعدسے اب تک ملک میں تقریباً 450 فضائی حملے ہوچکے ہیں۔یادرہے کہ گولان کی پہاڑیوں پر اسرائیل کی30آبادیاں موجود ہیں جہاں تقریباً20ہزارافرادرہتے ہیں۔بین الاقوامی قانون کے تحت یہ آبادیاں غیرقانونی ہیں۔تاہم اس علاقے میں20ہزارشامی بھی آبادہیں جواسرائیلی قبضے کے باوجوداب تک وہی مقیم ہیں۔
دوسری طرف اسرائیل نے خطے کے ممالک کی مذمت کے باوجود شام پرمزیددرجنوں فضائی حملے کیے ہیں۔ان حملوں کی تصدیق وارمانیٹرزکی جانب سے کی گئی ہے۔اسرائیل اس سے قبل یہ کہہ چکاہے کہ وہ ان”سٹریٹجک صلاحیتوں”کے خاتمے کے لیے یہ کارروائیاں کررہاہے جواس کیلئے خطرے کاسبب بن سکتی ہیں۔اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل نے بھی شام میں اسرائیل کے سیکڑوں فضائی حملوں پرگہری تشویش کااظہارکیاہے۔
بشارالاسدکی حکومت کاخاتمہ13سالہ خانہ جنگی کے بعدہوا۔شام کی ایک دہائی سے زیادہ جاری خانہ جنگی اس وقت شروع ہوئی تھی جب انہوں نے جمہوریت نوازمظاہروں کے خلاف طاقت کااستعمال کیاتھا۔اس جنگ میں5لاکھ سے زائد لوگ مارے گئے تھے جبکہ لاکھوں بے گھرہوئے۔اس دوران شام بین الاقوامی طاقتوں اوران کے پراکسی گروہوں کی جنگ کامیدان بن کررہ گیاتھا۔وہ تمام ممالک جوشام کی خانہ جنگی میں کسی نہ کسی طرح شامل رہے اب اس ملک کے مستقبل پران کابھی گہراکردارشامل ہوگا۔اگر شامی عوام کوحالیہ ہفتے میں حاصل ہونے والی آزادی کومضبوط بنیادوں پرقائم رکھنا ہے تویہاں کے نئے حکمرانوں کوملک کے اندراورباہرمکمل یکجہتی پیداکرنی ہوگی۔اس کے ساتھ ہی خطے کے دیگرمسلم ممالک کوبھی اسرائیل اوراس کے اتحادیوں کے ممکنہ امکانات کوبدلنے کیلئے عملی طورپرمیدانِ عمل میں اترناہوگاوگرنہ”عرب بہارکاعفریت”گریٹراسرائیل کی شکل میں ان کو نگلنے کیلئے پوری رفتارسے بڑھ رہاہے۔اس کیلئے ضروری ہے کہ امت مسلمہ تمام مفادات سے بالاترہوکراپنے تمام وسائل کو بروئے کارلاتے ہوئے یکجہتی کااظہار کرتے ہوئے شام کی تقسیم کوروکے اورشام کے موجودہ زمینی حقائق کوتسلیم کرتے ہوئے وہاں پرامن ماحول پیداکرنے میں مکمل معاونت کرے۔