گزشتہ کچھ ماہ سے جہاں دنیاکوروناکی وباپرقابوپانے میں مصروف ہے،وہیں مودی جنتااپنے ہمسایہ ممالک کے خلاف عسکری کاروائیوں میں مصروف رہی اوراس مرتبہ ڈوکلام کے بعدلداخ میں چین افواج سے جھڑپوں میں کافی ہزیمت اٹھانی پڑی۔ان فوجی کاروائیوں کے بعدمودی جنتانے ایشیائی ممالک کے ساتھ ساتھ امریکامیں بھی چینی خطرے کی گھنٹیاں بجائیں۔جس ہفتے چین اور بھارت کے درمیان سرحدی کشیدگی جاری تھی،اُسی ہفتے جاپان نے بھی ایک چینی آبدوزکی بحری حدود کی خلاف ورزی کی شکائت کی۔تائیوان نے بھی یہ اطلاع دی ہے کہ ہر روزچین کے جنگی طیارے اس کی فضائی حدود میں دخل اندازی کرتے رہتے ہیں۔تاہم خطے میں چین کے یہ اقدامات اس کے اعتماد اورفوجی صلاحیتوں کے عکاس ہیں۔اگرچہ چین کادعویٰ ہے کہ اس نے یہ اقدامات اپنے دفاع میں کیے ہیں۔بھارت یہ واویلاکررہاہے کہ ان عسکری کارروائیوں سے خطے میں جنگ کاخدشہ بڑھ رہاہے۔ 15جون کوچینی اور بھارتی فوجیوں کے درمیان ہونے والی جھڑپ1967ءکے بعدہونے والی شدید ترین جھڑپ تھی لیکن بھارت اقوام عالم کے سامنے اپنی اس شرمندگی وخجالت کوچھپانہیں سکاکہ کہ یہ چینی فوج کی جوابی کاروائی تھی۔
ادھرچائناپالیسی سینٹرکے ڈائریکٹرایڈم نی کاکہناہے کہ خطےکے دیگرممالک کےمقابلے میں چین کی طاقت میں تیزی سے اضافہ ہو رہاہے۔اس وجہ سے چین نے اس خطے میں اپنے مفادات کے تحفظ کیلئے زیادہ آسانی سے اپنے جارحانہ ایجنڈے کوآگے بڑھانے کافیصلہ کرچکاہے۔اس سال چین نے اپنی عسکری سرگرمیوں کو1990ءکی دہائی میں شروع ہونے والے فوج کی تجدیدِ نوکے پروگرام سےمنسلک کردیاہے۔یہ پروگرام چینی سربراہ شی جن پنگ کے دورمیں مزیدتیزہواہے۔انہوں نے فوج کے بدعنوان اورکم وفادارافسران کی چھٹی کردی۔اس کے علاوہ انہوں نے فوج کی توجہ صرف زمینی جنگوں سے ہٹاکرمشترکہ آپریشن کی طرف کردی ہےجس میں برّی،بحری اورفضائی اورخاص طورپرسائبر ہتھیاروں کااستعمال ہو۔شی جن پنگ نے کوروناکے دوران بھی فوج کوخاص اہمیت دیے رکھی۔ایک اعلان کے مطابق اس سال چینی فوج کابجٹ6ء6فیصداضافے کے ساتھ تقریباً180/ارب ڈالر ہو جائے گا۔یہ اعلان ایک ایسے وقت میں سامنے آیاہے جب چین عالمی معاشی حالات کے سبب اپنے اخراجات کم کرنے کے بارے میں سوچ رہاہے جبکہ اس کے مقابلے میں بھارت نے دیوقامت فوجی بجٹ کااعلان کیاہے۔
ایک عام خیال ہے کہ چینی افواج امریکی افواج کے مقابلے میں بہت پیچھے ہیں لیکن یہ خیال مکمل طورپردرست نہیں ہے۔ چین اپنی بحری قوت اورخاص طورپرجنگی بحری جہازاورطیارہ شکن میزائلوں میں امریکاکابخوبی مقابلہ کرسکتاہے۔امریکی کانگریس کی رپورٹ کے مطابق اس سال کے اختتام تک چین کے پاس335بحری جنگی جہازموجودہوں گےجبکہ امریکاکے پاس 285بحری جنگی جہازہیں۔رپورٹ میں یہ بھی کہاگیاہے کہ مغربی بحرِاوقیانوس میں امریکی بحریہ کے کنٹرول کیلئےچین اب ایک خطرہ بن گیاہے۔
اسی رپورٹ میں یہ بھی بتایاگیاکہ چین نے تائیوان کے قریب بھی اپنی سرگرمیاں جاری رکھی ہوئی ہیں۔پہلی مرتبہ اپریل کے مہینے میں چین کاایک بحری بیڑہ تائیوان کی سمندری حدودکے انتہائی قریب آگیاتھا۔گزشتہ ماہ چینی جنگی طیاروں نے کئی بارتائیوان کی فضائی حدود میں پروازکی۔تجزیہ کاروں کے مطابق یہ تائیوان کے دفاعی نظام کوجانچنے کیلئےکیاگیاتھا۔اپریل میں ہی چینی کوسٹ گارڈزکے ایک جہازنے ویتنام کے مچھلی پکڑنے والے جہازکوسمندری حدودکی خلاف ورزی کرنے پرڈبو دیاتھا،اسی ماہ چین کے ایک تحقیقی جہازنے ایک تیل بردارجہازکاپیچھاکیاجس کے ردِّعمل میں امریکااورآسٹریلیانےاپنے چارجنگی جہازصورت حال پر نظررکھنے کیلئےروانہ کیے۔امریکی فضائیہ کے ایک اعلیٰ عہدے دارنے کہاہے کہ چین نے خطے میں اپنی فضائی سرگرمیاں بھی بڑھادی ہیں۔
حالیہ عسکری کارروائیوں میں چین کی برّی فوج اب تک شامل نہیں ہوئی تھی۔بھارتی فوجیوں کے ساتھ ہونے والی جھڑپ چین کی بری فوج کیلئےامتحان تھا۔اگرچہ اس جھڑپ کی تفصیلات آزادذرائع سے حاصل نہیں ہوسکیں تاہم بھارت نے بھی اپنی ہزیمت کو چھپاتے ہوئے اپنے نقصان کوانتہائی کم بتایا لیکن بھارت کے بعض سیاستدانوں نے مودی پرکڑی تنقیدکرتے ہوئے پارلیمان میں اس واقعے پراپنی تشویش کااظہارکرتے ہوئے جب مجبورکیاتومودی نے اپنی قوم کومطمئن کرنے کیلئے غلط بیانی سے کام لیتے ہوئے چینی فوجیوں کی ہلاکت کاتذکرہ کیاتوپھرچینی فوجی ترجمان اس واقعہ کی مکمل تفصیلات دنیا کے سامنے لے آئےاوربھارت کو آئندہ کیلئے سخت سرزنش کاانتباہ کیا۔
اگرچہ بھارت کے ساتھ جاری کشیدگی بھی چین کیلئےاہم ہےتاہم چینی فوج کی اوّلین ترجیح چین کے اطراف میں امریکی جارحیت سے نمٹناہے۔امریکانے بھی اس خطے میں اپنی عسکری کارروائیوں میں اضافہ کردیاہے۔امریکانے چین کواشتعال دلانے کیلئے تائیوان کی فوجی امداد میں اضافہ کردیاہے اورساتھ ہی ساؤتھ چائناسی میں اپنے جنگی بحری جہازبھی بھیجے ہوئے ہیں ۔دوسری طرف چین خطے میں کشیدگی کی ذمہ داری امریکاپرڈالتاہے۔چین کاکہناہے کہ امریکاہمارے خطے میں جہاں بھارت کوتیارکررہا ہے وہاں خودبھی کھلی مداخلت کررہاہےجبکہ ہمارے خطے میں ایسی کاروائی کااس کوکوئی حق نہیں ہے۔ ایک چینی تجزیہ کارکا کہناہے کہ امریکاصدارتی انتخابات قریب آتے ہی ایسے اقدامات کرنے کی پوری کوشش کرے گاجس سے امریکی اورچینی افواج کے درمیان تصادم کے امکانات میں بھی اضافہ ہوگا۔یادرہے کہ پچھلے دنوں وائٹ ہائوس نے امریکی صدارتی انتخاب میں روس اورچین ک سائبرمداخلت کاالزام بھی لگایاہے جبکہ ان دونوں ملکوں نے اسے امریکاکااپنی داخلی کمزوریوں پرپردہ ڈالنے کی ایک بھونڈی کوشش قراردیاہے۔