کابل کے بعد کشمیر؟ کشمکش کی داستاں کا اِک نیا آغاز ہے

:Share

امریکہ میں قصر سفیدکے مکین صدراوبامہ نے افغانستان سے جولائی سے اپنی قابض سپاہ کے انخلا کاوعدہ کیاتھالیکن آثار وقرائن سے لگتا ہے کہ یہ اعلان فی الحال ایک طمع خام بنی رہے گی کیونکہ امر یکہ اب یہ کہنے لگا ہے کہ چونکہ صدر کرزئی نے ابھی تک معاہدہ انخلا پر دستخط نہیں کئے ہیں اس لئے اعلان موخر سمجھا جا ئے ۔ بایں ہمہ غیور افغانوں کے ہاتھوں شکست کھا کر آج نہیں تو کل واشنگٹن کو برطانیہ اور روس کی طرح یہاں سے دم دبا کر جان کی امان میں فرار ہو نا ہوگا ۔ چنانچہ امر یکہ کے اتحادی ابھی سے اپنے فوجیوں کوواپس لے جانے میں انتہائی مستعدی کامظاہرہ کر رہے ہیں۔ آسٹریلیااورپولینڈکے فوجیوں کی واپسی کے ساتھ ہی دیگرممالک کے فوجی بھی کابل سے رختِ سفرباندھناشروع کرچکے ہیں جب کہ طالبان اور حزب اسلامی (حکمت یار حزب اسلامی (یونس خالص) اورسلفی گروپوں نے اپنے علاقوں کو واپس قبضے میں لیناشروع کر دیاہے ۔ افغان فوج اور پولیس کے اہلکاربھی طالبان کے ساتھ مل مشتر کہ دشمن کے خلاف کاروائیاں کررہے ہیں اور مقامی آبادی طالبان کی ان علاقوں میںواپسی پرانتہائی خوشی ظاہرکر رہے ہیں ۔ طالبان نے جنوب مشرقی افغانستان کے صوبہ ہلمند اورحزب اسلامی نے صوبہ کنڑمیں کئی اضلاع کاکنٹرول پہلے ہی سنبھالا ہوا ہے۔طالبان اوردیگرمزاحمت کارگروپوں نے انخلا میں ابھی پانچ ماہ کا وقفہ حائل ہو نے کے باوجود کابل کاگھیراو شروع کردیاہے ۔
دسمبر میں کابل پرکئی بڑے حملے کئے گئے جب کہ گزشتہ دنوں کابل خوست شاہراہ پرطالبان کاقافلہ روکنے پرطالبان نے بھارتی فوج کے زیر نگرانی کام کرنے والی بارڈرز روڈ کنسٹرکشن کمپنی (بی آرسی سی)کے چودہ اہل کاروں پر حملہ کرکے انہیں موقع پر ہی ڈھیر کر دیا، مرنے والوں میں چھ بھارتی فوجی انجینئر بھی شامل تھے۔اس کے بعد کابل کے پوش اور سیکورٹی زون والے علاقے وزیراکبرخان میں بھی طالبان نے کاروائی کرکے لبنان سے تعلق رکھنے والے غیرملکیوں کے ریسٹورنٹ جہاں پر شراب کااستعمال کھلے عام ہوتاتھا، پر حملہ کرکے ۱۳غیرملکیوںسمیت۲۲ افرادکوبھی ہلاک کر دیاہے۔ ہلاک ہونے والوں میں آئی ایم ایف کے لبنانی عہدیددارسمیت سی آئی اے کے انتہائی چھ اہم عہدیداربھی شامل تھے جو پاکستان میں کاروائی کرنے والے بلیک واٹرکوکنٹرول کرتے تھے،طالبان نے کاروائی امریکہ کی جانب سے پروان میں بمباری میں بے گناہ افرادکی ہلاکت کابدلہ قراردیا۔ طالبان نے اس حملے کے لئے بہت پہلے منصوبہ بندی کی تھی اورفدائی محاذکاکہناہے کہ لبنانی ریسٹورنٹ پرحملہ جلال الدین حقانی کے بیٹے نصیرالدین حقانی کابدلہ ہے اور یہ کہ وہ مزیدحملے کریں گے۔ فدائی محاذکے مطابق وہ کابل پرقبضے جمانے کے لئے دیگرمزاحمت کار گروپوں کے ساتھ بھی بات چیت کررہے ہیں اوران کی کوشش ہوگی کہ کابل پرقبضے کے دوران مزاحمت کار ایک دوسرے کے خلاف لڑنے کی بجائے مشترکہ حکمت عملی پر عامل ہوں۔ آئندہ چند دنوں میں اس سلسلے میں پیش رفت متوقع ہے۔ اسی دوران طالبان کی قیادت نے دیگرمزاحمتی گروپوں کے ساتھ مذاکرات کرنے کافیصلہ کیاہے جب کہ افغانستان کے طول و عرض میں سردیوں میں بھی حملے کرنے کی ہدایت جاری کی گئی ہے تاکہ افغان پولیس اور فوج ان کے ساتھ تعاون کر نے کے لئے مجبورہو جائے۔طالبان ذرائع کے مطابق اس بات پربھی غورکیاجارہاہے کہ اگرافغان پولیس اورفوج طالبان کے خلاف نہ لڑیں اورصرف مقامی امن قائم رکھنے پرتوجہ دیں تو ان پرحملے نہیں کئے جائیں گے ۔ اتناہی نہیں بلکہ طالبان نے بارہ برس میں پہلی بار
جنوب ،جنوب مشرقی اورمشرقی افغانستان میں یکم اپریل سے شروع ہونے والے تعلیمی سال کے موقع پرلڑکیوں کواسکول جانے کی اجازت دے دی ہے جس سے والدین میں خوشی کی لہردوڑ گئی ہے ۔ ان اداروں کوبھی تعلیمی میدان میں کام کرنے کی اجازت مل گئی ہے جوافغان اوراسلامی اقدار کے مطابق لڑکیوں کی تعلیم میں مدددیں گے۔افغان صدرکے قریبی ذرائع نے تصدیق کی ہے کہ طالبان نے یکم اپریل سے لڑکیوں کی تعلیم کی اجازت دی ہے اورحکومت اس کے لئے بڑے پیمانے پرتیاری کررہی ہے تاکہ ان علاقوں میں لڑکیوں کے اسکولوں کونہ صرف دوبارہ فعال کیا جائے بلکہ ان کو کتب ودیگرتعلیمی سہولیات بھی فراہم کی جائیں ۔باور کیا جا تاہے کہ صدر کرزئی اس امرکواپنے بھائی کی کامیابی کے لئے استعمال کرنا چاہتے ہیں۔
طالبان کی جانب سے بم حملوں کے بعد کابل سے کئی طبقے دوبئی اوردیگرملکوں میں نقل مکانی کے بارے میں سوچنا شروع کردیاہے کیونکہ انہیں یقین ہے کہ جونہی ایساف کی ایک لاکھ سے زائدافواج۳۱ دسمبر۲۰۱۴ تک انخلا مکمل کرلے گی تو کابل خود بخود پکے پھل کی مانند طالبان اوردیگرمزاحمت کاروں کے زیر تسلط آ ئے گا۔ طالبان کاکہناہے کہ وہ بزورطاقت کابل پر قبضہ کرنے کی اہلیت رکھتے ہیں، تاہم وہ کابل پرقبضہ کے لئے دیگرگروپوں کے ساتھ مل کر مشترکہ منصوبہ بندی کرناچاہتے ہیں۔ طالبان چاہتے ہیں کہ کابل پرقابض ہونے کے بعد حزب اسلامی اوران کے درمیان شراکت اقتدارہوکیونکہ طالبان کے اہم رہنما جنہوں نے طالبان حکومت چلائی تھی ، انہیں امریکانے ٹارگٹ کلنگ کانشانہ بنایاہے اورطالبان کے پاس جنگجو کمانڈرتوہیں لیکن حکومت چلانے والی شخصیات ناکافی ہیں جب کہ حزب اسلامی کے پاس سیاسی قوت اور تجربہ حکمرانی زیادہ ہے۔
دریں اثنا اپنی قوت کا لوہا منوانے کے ضمن میں طالبان نے تیر بہدف حملوں کاپروگرام بناکر پل محمودمیں واقع چرخی جیل سے اپنے ساتھیوں کانکالنے کی پلاننگ کی ہے۔اس سلسلے کی ایک کڑی کے طور ۲۸جنوری کی صبح کو طالبان کے ایک فدائی نے بارودسے بھری ایک گاڑی قندھارکے ضلع ژری میں واقع امریکی فوجی اڈے سے ٹکرادی تھی جس کے بعد ۱۲فدائیوں نے غیر ملکی عسکری اڈے میں داخل ہوکر بارہ گھنٹہ طویل خون ریز جھڑپ میں اڈے کی اینٹ سے اینٹ بجادی اورخودبھی کام آئے ۔اس خوفناک حملے کے نتیجے میں درجنوں فوجی گاڑیاں ، ٹینک اور بہت سارا قیمتی جنگی سازو سامان تباہ وبربادہونے کے ساتھ ساتھ دس سے زائدامریکی فوجی ہلاک اوردرجنوں شدیدزخمی ہوگئے تھے۔طالبان کی جانب سے سردیوں کے باوجود شدید حملوں کے حوالے سے کابل میں مقیم غیرملکی مبصرین اس خدشے کااظہارکرنے لگے ہیں کہ موسم سرماختم ہونے میں دوماہ رہ گئے ہیں جب کہ نیٹوسپلائی کی طورخم کے راستے بندش سے اتحادی افواج کوشدیدمشکلات کاسامناہے ۔جونہی موسم سرماختم ہو گا ، طالبان کی جانب سے کابل ،قندھاراورجلال آبادپربڑے فیصلہ کن حملوں کا امکان برا برموجود ہے ۔
زمینی حالات کے اسی تناظر میں پولینڈکے فوجیوں نے کابل چھوڑ دیاہے ،یہ فوجی مختلف علاقوں میں تعینات رہے تاہم طالبان کی جانب سے مزاحمت بڑھنے اور دیگر ممالک کے انخلا ء کے اعلان کے بعدپولینڈ نے اپنے فوجیوں کوجان کے خوف سے غیراعلانیہ طورپرکابل سے نکال باہر کر لیاہے ۔ پولینڈکے فوجیوں نے اپنی حکومت سے کہاتھاکہ امریکی انخلاء کے بعدان کازندہ افغانستان سے نکلناناممکن ہوجائے گا،اس لئے امریکی انخلا سے قبل ہی ہمیں یہاں سے نکل جاناچاہئے ۔اسی طرح کئی دیگر ممالک نے بھی غیراعلانیہ طورپراپنے فوجیوں کوافغانستان سے نکالنے کی تیاری مکمل کرلی ہے اورموسم ٹھیک ہوتے ہی قازقستان کے راستے ان فوجیوں کافوری انخلا شروع ہو جائے گا۔کابل میں کئی بین الاقوامی این جی اوزنے تسلیم کیا ہواہے کہ وزیراکبرخان تک طالبان کی رسائی کاواضح مطلب یہ ہے کہ طالبان اوردیگرمزاحمت کار جو کابل کے اردگردجمع ہورہے ہیں ،وہ کسی بھی وقت کابل پر دھاوا بول دیں گے جس سے ایک طرف توامریکہ تنہاہوتا جا رہاہے تودوسری جانب سے اتحادیوں نے بھی ساتھ چھوڑناشروع کردیاہے۔ افغانستان میں نیٹو افواج کے ساز وسامان کے انخلا کا بھاری مرحلہ پورے زور و شور سے جاری ہے۔ اس مقصد کے لئے زمینی، سمندری اور فضائی تمام ذرائع بروئے کار لائے جا رہے ہیں۔ چنانچہ یہاں موجود سینکڑوں فوجی اڈوں، ہزارہا گاڑیوں اور لاکھوں ٹن پر مبنی ہتھیاروں اور دیگر سامان حرب وضرب کو صندوقوں میں بند کر کے متعلقہ ممالک کو واپس بھیجا جا رہا ہے۔ اس سال مارچ اور دسمبر کے درمیان تقریبا دو لاکھ ۱۸ہزار گاڑیوں اور فوجی ساز و سامان سے بھرے کنٹینروںکو افغانستان سے نکالا جانے کا پروگرام طے ہے۔ اب تک نیٹو اس جنگ زدہ ملک سے ۸۰ ہزار گاڑیاں یا کنٹینر نکال چکا ہے۔برطانیہ ۳۱ دسمبر تک اپنی تین ہزار سے زائد گاڑیاں، ہیلی کاپٹر اور دیگر ساز و سامان افغانستان سے واپس اپنے ملک لے جانے کا ارادہ رکھتا تھا لیکن وہ اب تک دو ہزار سے زائد ٹرکوں کے برابر کا سامان اور ایک سو سے زیادہ گاڑیاں فروخت کر چکا ہے ۔ امریکہ اب تک تقریبا ۳۰۰ ہزار ٹن کے آلات جنگ افغانستان سے نکال چکا ہے، لیکن وہ بھی برطانیہ کی طرح اپنا تمام ساز و سامان واپس نہیں لے جاسکے گا بلکہ اسے فروخت یا ناکارہ قرار دیتے ہوئے افغانستان میں ہی گلو خاصی حاصل کر لے گا۔ نیٹو کے استعمال میں رہنے والی فوجی چوکیاں اور فعال فوجی اڈے بند کئے جا رہے ہیں اور انہیں افغان سیکورٹی فورسز کے حوالے کیا جا رہا ہے تا کہ وہ سیکورٹی کی ذمہ داری اپنے ہاتھ میں لے لیں۔مشہور جریدے ڈیفنس انالیسس کا کہنا ہے کہ عراق سے انخلا کے مقابلے میں افغانستان سے فوجی انخلا بہت زیادہ پیچیدہ اور کٹھن مرحلہ ہے۔ جریدے کے مدیر فرانسِس ٹوسا کے بقول وہ(نیٹو افواج)یک ایسے ملک میں ہیں جس کا کوئی سمندری راستہ نہیں اور دیگر ذرائع مواصلات بھی بہت برے ہیں۔ عراق کے مقابلے میں جہاں آپ کے پاس کویت کی بندرگاہ تک جانے کے لئے کئی بڑی سڑکوں کی سہولت تھی، افغانستان ایک بھیانک خواب ہے۔ افغانستان سے امر یکہ اور اس کے عسکری ا تحادیوں کا انخلا سے خطے کی جیو پولیٹکل اسٹر ٹیجی پروررس اثرات مر تب ہو نے کی توقع ہے ۔ یہ اسی کا بلیغ اشارہ ہے کہ ایک جانب پاکستان کی وفاقی حکومت تحریک طالبان پاکستان کے ساتھ سیاسی گفت وشنید میں لگی ہے اور دوسری جانب انڈیا امر یکہ کاکابل سے رفو چکر ہو نے کے بعد کی صورت حال سے پر یشان ہے ۔ کل پرسوں بھارتی وزیر خارجہ سلما ن خورشید کا دورہ ٔکابل اسی بات کاواضح ثبوت ہے ۔ کہنے کو وہ افغانستان میں انڈیا کی مدد سے تعمیر کی گئی زرعی یونیورسٹی کا افتتاح کرنے گئے مگر اس دورے کے شروع میں دلّی نے کابل کو ہیلی کواپٹروںکی کھیپ دینے کاا اعلان کر کے بزبان قال کہہ دیا کہ امر یکہ کے فوجی انخلا میں ہماری خیر نہیں کیونکہ ممکنہ طور مسلح افغان مزاحمت کاروں کااگلا پڑاؤ کشمیر ہوسکتا ہے ۔ادھرہر سال کی طرح ۵ فروری کو پاکستان میں یوم یکجہتی کشمیر منایا گیا۔ اس روز پاکستانی حکومت اور سیاسی تنظیمیں مختلف تقاریب کا اہتمام کرکے کشمیریوں کی تحریک آزادی کے ساتھ تجدید عہد کیا مگر سید علی گیلانی نے پاکستان کی کشمیر پالیسی پر تحفظات کا بر ملااظہار کیا ۔ موقع کی مناسبت سے سید علی گیلانی کا کہنا تھا کہ پاک حکومت اور وہاں کی سیاسی پارٹیوں کو بھارت کے حوالے سے کسی خوش فہمی میں مبتلا نہیں ہونا چاہیے،انہیں سمجھنا چاہیے کہ کشمیر جس طرح ہمارا بنیادی مسئلہ ہے اسی طرح ان کے ملک کا بھی کور ایشو ہے۔ لبریشن فرنٹ کے چیئر مین محمد یاسین ملک اور میرواعظ عمر فاروق نے بھی کشمیر کاز کے حوالے سے یہی کہا کہ کشمیریوں کو مذاکرات شامل نہ کیا جا نا یا آلو پیاز کی تجارت میں کھو جانا یہ سب کچھ سعی لاحاصل ثابت ہوگا ۔ دلچسپ بات ہے کہ کشمیر کے وزیراعلی عمر عبداللہ نے دعوی کیا کہ اس سال افغانستان سے امریکی افواج کے انخلاء کے بعد کشمیر میں جو بھی صورتحال ابھرے گی اس کا دارومدار پاکستانی حکومت اورتحریک طالبان پاکستان کے درمیان مذاکرات کے نتائج پر ہوگا۔قابل ذکر ہے کہ وزیراعلی عمرعبداللہ پاکستان سے کئی بار یہ مطالبہ کرچکے ہیں کہ کشمیریوں کی وسطی ایشیا تک رسائی کو ممکن بنایا جائے کہ وسطی ایشیا کے ساتھ کشمیریوں کے تاریخی، تجارتی ، تمدنی اور مذہبی رشتے ہیں۔بھارت کے زیر نگرانی انتخابات کی حامی جماعت عوامی اتحاد پارٹی کے سربراہ انجینئرعبدالرشید کہتے ہیں کہ پاکستان کا عدم استحکام کشمیریوں کے مفاد میں نہیں ہوسکتا ہے ،اس لئے تمام حلقوں کو اپنا اپنا اثرورسوخ استعمال کرکے طالبان اور پاک حکومت کے مذاکرات کو کامیاب بنانا چاہیے۔ حالات وواقعات کے اس کنواس کو سمجھ کر پاکستانی وزیراعظم میاں نوازشریف کواب اپنے عمل سے ثابت کرناہوگاکہ ان کواس بات کا فہم وادراک ہے کہ امریکی اور نیٹو کے انخلا میںجاری درپیش مشکلات کے ازالے میں اسٹیک ہولڈروں سے مسئلہ کشمیر کے دائمی حل ڈھونڈنے کے کام میں لگانے کا زریں موقع آن پہنچا ہے ۔ ان کو چاہیے کہ اس نازک گھڑی میں نہ مشرف کی طرح وہ قوم کو شرمندہ کر نے والی ہزیمتیں دیں اورنہ بھارت اورچین کی جنگ میں ایوب خان کی تاریخی غلطی کااعادہ کر یں ۔ یہ ان کے فہم وتدبر کا امتحان ہے ۔

اپنا تبصرہ بھیجیں