پچھلے کئی برسوں سے سننے میں آرہاتھاکہ دنیابدل رہی ہے لیکن ہرکوئی اس کی تشریح سمجھنے سے قاصرتھالیکن افغانستان سے امریکی انخلاء کے بعددنیامیں اس تبدیلی کے آثارمحسوس ہوناشروع ہوگئے۔عالمی مالیاتی اداروں میں ڈالرکی گرفت ڈھیلی پڑتی گئی اوردنیاکے کئی ممالک نے ڈالرپرانحصارکی پالیسی سے منہ موڑنا شروع کردیااوردنیاکے کئی ممالک نے آئندہ تجارتی لین دین میں صرف ڈالرپرانحصارپربتدریج کمی کاعندیہ دیتے ہوئے تجارتی لین دین کیلئے دوسرے ذرائع کواستعمال کرناشروع کردیااوریہ واضح ہوگیاکہ یہ دنیاکاکام ہی بدلتے رہناہے اوروسیع تراندازمیں عالمی مالیاتی ماہرین کامانناہے کہ ایک بہت بڑی تبدیلی وقوع پذیرعمل میں آچکی ہے۔ مختلف ادوارمیں دنیاکوچلانے کی ذمہ داری قدرت نے مختلف اقوام کوسونپی ہے اوریہ ذمہ داری اسی قوم یامعاشرے کو ملتی ہے جو وقتی تقاضوں کواپنے حق میں بہتراندازمیں استعمال کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں اورجوقوت اپنے حصے کاکام پوری ایمانداری اوردیانتداری سے نہیں کرپائی، تو وقت تبدیلی کافیصلہ صادرکردیتاہے اورپھراس تبدیلی کوروکناممکن نہیں رہتا۔
ظہورِاسلام کے وقت دنیاپرمسیحی اورمجوسی راج کررہے تھے۔روم اورفارس کی سلطنتوں نے دنیاکوآپس میں بانٹ رکھاتھا۔ان دونوں عالمی طاقتوں کیلئے قدرت نےمسلمانوں کے ہاتھوں شکست وہزیمت لکھ دی۔مسلمانوں کے عروج کے دورمیں یورپ جہالت اورپس ماندگی کے گڑھے میں گراہواتھا۔ پھر جب مسلمانوں سے دنیاکی امامت واپس لی گئی تب یورپ کی باری آئی۔گزشتہ پانچ صدیوں کے دوران یورپ اورامریکانے مل کردنیاپرحکومت کی ہے اورتمام ہی شعبوں میں حتمی نوعیت کی ایجادات و اختراعات ممکن بنائی ہیں۔ امریکااور یورپ ہی نے مل کر عالمی نظام تیارکیاہے جس کے تمام اجزاءان کے ہاتھ میں ہیں۔عالمی نظام کے تحت کام کرنے والے اداروں سے امریکاویورپ کے مفادات کوزیادہ سے زیادہ مستحکم کرنے کاکام لیاجاتارہاہے۔
بیسویں صدی کے اوائل ہی سے عالمی سیاست ومعیشت میں امریکاکاکردارکلیدی ہوچکاتھا۔یورپی طاقتیں کم وبیش ساڑھے تین سوسال تک دورونزدیک کے خطوں کوجی بھرکرلوٹنےکے بعدتھک چکی تھیں،ان میں مزیدکچھ مدت تک انتہائی کھچاؤکی حالت میں رہنے کی سکت بھی باقی نہیں رہی تھی۔یورپی اقوام رقبے اورآبادی کی کمی کے باعث کسی ایسے پارٹنرکی تلاش میں تھیں جس کے ساتھ مل کروہ دنیاکواپنی مٹھی میں لے سکیں،یہ کمی امریکانے پوری کردی۔
امریکا نے عالمی مالیاتی نظام کواپنی مرضی کے مطابق ترتیب دیااورعالمی سطح پرکی جانے والی سرمایہ کاری اورتجارت پرایسا تصرف حاصل کرلیاکہ اب بہت کمزور پڑجانے پربھی وہ اس کے ثمرات بٹوررہاہے۔امریکی کرنسی”ڈالر”کوایک صدی کے دوران اس قدرمضبوط کیاگیاہے کہ باقی تمام کرنسیاں ایک طرف رہ گئی ہیں۔برطانوی پاؤنڈ، یورپی یونین کا یورو، چین کا یوآن، جاپان کا ین اورتیل کی دولت سے مالامال عرب ریاستوں کی کرنسیاں بھی ڈالرکی اجارہ داری ختم کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکیں۔ہاں،اب کچھ مدت سے چین،روس اوردوسری ابھرتی ہوئی معیشتیں اس بات کی کوشش کررہی ہیں کہ ڈالرکی اجارہ داری ختم کرنے کیلئے اپنی اپنی کرنسیوں کوزیادہ مقبولیت سے ہمکنارکریں اورتجارت بھی اپنی اپنی کرنسی میں کریں۔
ڈالرکی اجارہ داری ختم کرنے میں راتوں رات کامیابی حاصل نہیں ہوسکتی،اس کابنیادی سبب یہ ہے کہ امریکانے عالمی مالیاتی نطام کے کم وبیش ہرمعاملے میں اپنی کرنسی کوپھنسارکھاہے۔ڈالرکومستحکم کرنے کیلئے کئی عشروں تک توجہ دی گئی ہے۔اس کے نتیجے میں ڈالرکومضبوط توہوناہی تھا،اب ڈالرکے پنجے عالمی مالیاتی نظام میں گڑے ہوئے ہیں۔عالمی مالیاتی نظام کوڈھنگ سے چلانے کیلئے مضبوط کرنسیون کی ضرورت پڑتی ہے اوریہ کرنسیاں انتہائی مضبوط ممالک ہی کی ہوسکتی ہیں،جن پرباقی دنیاکو بھروسہ ہواورجوکسی بھی بحرانی کیفیت کے تمام اثرات کابخوبی سامناکرسکتی ہوں۔امریکا،برطانیہ،جرمنی، فرانس، جاپان،چین اور سعودی عرب کی کرنسی کوغیرمعمولی اعتبارحاصل ہے۔مضبوط کرنسیوں کے ذریعے چلایاجانے والاعالمی مالیاتی نظام بہترنتائج ممکن بناتاہے مگر اب معاملہ یہ ہے کہ واحدسپرپاورہونے کافائدہ اٹھاتے ہوئےامریکاعالمی مالیاتی نطام کے تمام فوائدبٹوررہاہے۔ معاشی اعتبارسےکمزورہوجانے پربھی وہ نظام پرمتصرف ہونے کی بدولت بہت سے ممالک سے امتیازی سلوک یقینی بنارہاہے۔چین غیرمعمولی حدتک مضبوط ہے مگرعالمی مالیاتی وتجارتی نطام میں اس کی پوزیشن ابھی تک بہت کمزورہے۔یورپ کے ساتھ مل کر امریکااس کی راہ میں دیواریں کھڑی کرتاآرہاہے۔
یہ بات تواب طے ہے کہ یوکرین پرروسی لشکرکشی سے عالمی سیاسی ومعاشی نظام پردوررس اثرات مرتب ہورہے ہیں۔بہت کچھ بدل چکاہے اورمزیدبہت کچھ بدلنے جارہاہے۔بین الاقوامی تعلقات پربھی اس کے اثرات مرتب ہورہے ہیں،جنگ دوملکوں کے درمیان ہے مگردنیابھرمیں فوڈسیکورٹی کامسئلہ پیداہوگیا ہے ،توانائی کابحران بھی جنم لے چکاہے۔اس کابنیادی سبب یہ ہے کہ جنگ تودوملکوں کے درمیان ہے لیکن دنیااس کی وجہ سے تقسیم ہوچکی ہے۔ امریکا ، برطانیہ اوریورپ نے روس کے سامنے ایک مضبوط محاذکھڑا کردیاہے اورباقی دنیاکوبھی مجبورکیاجارہاہے کہ تمام زمینی حقائق کوبھول بھال کران کاساتھ دیں۔ ترکی اورایران بھی محتاط ہیں،وہ کسی بھی زمینی حقائق کونظراندازنہیں کرسکتے،پاکستان کیلئے بھی یہ بہت مشکل وقت ہے۔امریکاویورپ کی طرف سے ہم پربھی دباؤہے کہ یوکرین کے بحران میں واضح مؤقف اپناتے ہوئے روس کاساتھ نہ دینے کااعلان کریں،اورہمارامعاملہ یہ ہے کہ روس اور یوکرین کے درمیان سرد جنگ کے آخری لمحات میں سابقہ وزیراعظم عمران خان نے روس کادورہ کیاجوامریکاویورپ کوپاکستان کا یہ عمل پسندنہیں آیا۔
یوکرین پرروس کی لشکرکشی کے بعدجب توانائی کابحران پیداہواتب امریکی صدرجوبائیڈن نے عرب اورخلیجی ممالک کے سربراہان مملکت وحکومت سے رابطہ کرنے پرتوجہ دی مگرمتعددممالک نے ان کی کال وصول کرنے سے انکارکرنے کوترجیح دی،یہ امریکا کیلئے خطرے کی گھنٹی ہے۔وہ اب بھی واحدسپرپاورہے مگر دنیابھرمیں یہ تاثرعام ہے کہ امریکامیں اب وہ پہلاساطنطنہ نہیں رہا۔ یوکرین کے تنازعہ پرامریکاومغرب نے جوطرزِعمل اختیارکیا،اس سے باقی دنیاکومعلوم ہوگیاکہ ان تِلوں میں اب تیل نہیں۔متعدد ممالک میں اقتدارکی کشمکش بھی شروع ہوچکی ہے،حکومتیں کمزورپڑتی جارہی ہیں اوراپوزیشن والے زورلگاکران کوہٹانے کی کوششوں میں مصروف ہیں اوراب یہ لڑائی محض عسکری نہیں بلکہ معاشی بھی ہوچکی ہے۔
امریکاکی خواہش ہے کہ یوکرین پرحملہ کرنے کی سزاکے طورپرروس بربادہوجائے،چین کااپناپوشیدہ ایجنڈہ ہے۔چین اس صورت حال سے فائدہ اٹھاکرعالمی مالیاتی نطام میں ڈالرکونیچادکھانے اوراپنے آپ کوحقیقی سپرپاورکے طورپرمنوانےکی راہ پرگامزن ہے۔یوکرین پرروس کی لشکرکشی سے سفارتی،سیاسی اور معاشی سطح پر غیرمعمولی تبدیلیاں دکھائی دے رہی ہیں۔ایسالگتاہے کہ ایک نیا نظام ابھر رہاہے،امریکاکی بے بسی بھی دکھائی دے رہی ہے کہ اس نے روس پرپابندیان توعائدکردیں لیکن یوکرین کیلئے فوجی نہیں بھیج سکا۔ امریکاکے ساتھ برطانیہ اوریورپی یونین بھی ہیں،وہ یوکرین کواسلحہ تومہیاکررہے ہیں مگروہ یوکرین کوعسکری مدد کرنے سے قاصر ہیں۔دنیانے دیکھ لیاکہ یورپی یونین اورنیٹوروس کے خلاف باتیں توبہت کرتے ہیں لیکن وہ یوکرین کے خلاف جاری لڑائی میں شامل ہوکر روس نے دوبدودودوہاتھ کرنے کی ہمت نہیں کررہے۔یوکرینی صدرامریکاومغرب کے اس دہرے کردارکاشکوہ کرچکے ہیں۔
یوکرین کے بحران نے چین کیلئے غیرمعمولی نوعیت کےامکانات پیداکردیئے ہیں۔چین دنیاکی دوسری بڑی معیشت ہے اوراسے دنیاکی سب سے بڑی فیکٹری بھی قراردیاجاتاہے۔چین نے کھل کرروس کاساتھ دیاہے۔روس کی طرح چین میں بھی امریکاکوسفارتی،عسکری اورمعاشی طورپرچیلنج کرنے کی بھرپور سکت پائی جاتی ہے۔یہ بھی ہوسکتاہے کہ روس کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے چین بھی تائیوان اورتبت پرقبضہ کرنے کاسوچے۔بھارت اورپاکستان کے درمیان بھی سرحدی تنازعات ہیں۔پاکستان کی چین سے دوستی ہے،بھارت کیلئے پاکستان دشمن ہے مگرروس اورچین کی اچھی دوستی ہے اوراب روس اور پاکستان میں بھی پہلے سے بہتردوستی ہے۔ادھرروس اوربھارت پرانے حلیف ہیں اوراب تک روس اور بھارت میں اسلحے کی کئی ڈیل چل رہی ہیں ۔ بھارت ایک طرف توچین کاہوادکھاکر امریکااورمغرب کی گودمیں بیٹھ کرسارے مفادات سمیٹ رہاہے جس کو روس اورچین بھی بخوبی سمجھتے ہیں۔جب معاملات یہ ہوں تو مستقبل قریب میں دوستی ودشمنی کی نوعیت کیاہوگی،یہ توآنے والاوقت بتائے گالیکن اب مغرب اورامریکامیں بھارت کے اس دہرے کردارپر انگلیاں اٹھناشروع ہوگئی ہیں اوربھارت پرمسلسل دباؤبڑھناشروع ہوگیاہے کہ وہ یوکرین کے معاملے پرغیر جانبدارنہیں رہ سکتا۔
یوکرین کے بحران کے دوران کم وبیش ہرملک نے صرف اپنے مفادکے بارے میں سوچاہے۔روس قدرتی وسائل اوران کی مددسے تیار کی جانے والی اشیاء کا چوتھابڑابرآمدکنندہ ہے۔بعض اشیاءکے معاملے میں پورایورپ اوردوسری بہت سی اشیاءکے حوالے سے متعددممالک روس پرانحصارکررہے ہیں۔یوکرین میں بھی بہت کچھ پیدااورتیارکیاجاتا ہے،روس اوریوکرین کی سرحدیں بحیرہ اسودسے جڑی ہوئی ہیں اوریہ ایشیااوریورپ کوملانے والاسب سے پراناسمندری راستہ ہے، ایسے میں توانائی،اشیائے خوردونوش اوردھاتوں کیلئے متعددممالک اپنی اپنی چالیں چل رہے ہیں۔
بین الاقوامی سودوں میں ڈالرکی برتری کیلئے ایک بڑاحقیقی خطرہ روس کی طرف سے بھی ہے کیونکہ وہ عالمی تجارت میں بڑے حصے کامالک ہے۔قدرتی وسائل کی پیداواراوربرآمدمیں روس نمایاں ہے۔پیلڈیم کی پیداواراوربرآمدمیں روس کاحصہ43فیصدہے۔یہ دھات ہائیدروجن اورالیکٹرک کار،دانتوں کی نگہداشت کے آلات اورزیورات کی تیاری میں استعمال کی جاتی ہے۔دنیابھرمیں 32فیصد ہیرے روس برآمدکرتاہے۔عالمی ضرورت کا2/4فیصدایلومینم روس سے آتاہے۔خام تیل کی رسدمیں روس کاحصہ4/8فیصد،قدرتی گیس کی کل رسدمیں روس کاحصہ2/6فیصدجبکہ گندم کی برآمدمیں اس کاحصہ 5 فیصدہے۔
2019ءتک کے اعدادوشماربتاتے ہیں کہ 88فیصدمالیاتی معاملات میں ادائیگی کابنیادی ذریعہ ڈالرتھا۔اس وقت متعددممالک کے پاس زرِ مبادلہ کے جو ذخائر ہیں،ان کا60فیصدڈالرپرمشتمل ہے۔20فیصدذخائریوروکی شکل میں ہیں۔بین الاقوامی مالیاتی فنڈنے بھی تسلیم کیاہے کہ ڈالرپربہت سون کااعتمادمتزلزل ہوا ہے اوراسے محفوظ ذخائرکی شکل میں رکھنےکارحجان تھوڑاکمزورپڑاہے۔20سال قبل دنیابھر میں زرِ مبادلہ کے ذخائرکا72فیصدڈالرکی شکل میں ہواکرتا تھا۔پندرہ بیس سال پہلے تک عالمی تجارت امریکااوریورپ کے درمیان تھی ،اب کئی بڑے اورمضبوط کھلاڑی میدان میں ہیں۔امریکااوریورپ سے ہٹ کر اسٹاک مارکیٹ،بانڈمارکیٹ اوربازارہائے زرمیں سرمایہ کاری بڑھی ہے۔ڈالرکے کمزورپڑنے کاایک بنیادی سبب یہ بھی ہے کہ دنیابھرمیں مرکزی بینک اثاثوں کانظم ونسق کرنے والے اداروں میں تبدیل ہوئے ہیں۔اب زیادہ سے زیادہ منافع کمانے کی نیت کے ساتھ سرمایہ کاری کی جاتی ہے تاکہ معیشت کو مضبوط بنایاجاسکے۔ دوعشروں کے درمیان امریکایورپ میں سودکی شرح صفرکے نزدیک رہ گئی ہے۔دیگرکرنسیوں کی صورت میں زیادہ منافع ملتاہے تاہم “ڈالر”کو بچانے والی قوتیں بھی میدان میں اترآئی ہیں اورڈالرپرعدم اعتماد کی تحریک کوختم کرنے کیلئےدنیاکویہ تاثردیاجارہاہے کہ مالیاتی تصفیوں میں آج بھی ڈالر”کنگ میکر” ہے اوراس کی اس پوزیشن کوفی الحال کوئی حقیقی خطرہ لاحق نہیں۔
اب آئیے اس سوال کی طرف کہ روس اورچین مل کرڈالرکوپچھاڑسکتے ہیں؟معاشی معاملات کی ادائیگی کی عالمی تنظیم”سوئفٹ”نے حال ہی میں روس کونکال دیاہے۔اب اگرکسی روسی کمپنی کوکسی سے وصولی یاادائیگی کرنی ہوتوایساکرناممکن نہیں۔یوکرین پرجنگ مسلط کرنے کی پاداش میں روس پرعائدکی جانے والی اقتصادی پابندیوں کے باعث روسی کرنسی”روبل”کی قدرمیں نمایاں کمی ہو چکی ہے۔روس اورچین میں تجارت جاری ہے،روس روبل میں ادائیگی اورچین یوآن کواستعمال کررہاہے۔روس سے تجارت کے معاملات میں بھارت بھی اب ادائیگوں کامتبادل نظام تلاش کررہاہے۔روسی حکومت نے روسی خام تیل اورگیس خریدنے والوں سے کہاہے کہ اب انہیں صرف روبل میں ادائیگی کرناپڑے گی۔ڈالرکوایک طرف ہٹاکرعالمی سودوں کی ادائیگی کامتبادل نظام لانے کے حوالے سے صرف روس اورچین ہی کے درمیان بات چیت نہیں ہورہی بلکہ سعودی عرب اورچین کے درمیان بھی اس حوالے سے رابطے بڑھے ہیں۔ چینی صدرشی جن پنگ اورسعوی ولی عہدمحمدبن سلمان کے درمیان کامیاب بات ہوچکی ہے۔سعودی عرب اور امریکاکی مضبوط دوستی ہے۔خام تیل بیچ کر کمائی ہوئی دولت ہی سے عرب دنیامیں چمک دمک دکھائی دے رہی ہے۔اگرسعودی عرب تیل بیچ کریوآن میں ادائیگی وصول کرے توامریکاسے اس کے تعلقات متاثرہوسکتے ہیں۔
اس وقت روبل اوریوآن اس لئےخبروں میں ہیں کہ روس متعدداہم اشیاءکابرآمدکنندہ ہے۔یورپ کواپنی ضرورت کی70فیصدگیس اور50 فیصدکوئلہ اورخام تیل روس سے ملتاہے۔اتنے بڑے سودوں کی ادائیگی اگرروبل میں کی جانے لگی توعالمی مالیاتی منڈی میں امریکی ڈالرکی پوزیشن خاصی متاثرہونے سے کوئی نہیں بچاسکتا۔چین درآمدکم اوربرآمدزیادہ کرتاہے۔جدیدترین ٹیکنالوجیزسے تیارکی جانے والی اشیاءکی تیاری اوربرآمدمیں چین پہلے نمبرپرہے۔آبادی کے لحاظ سےدنیا کاسب سے بڑاملک ہونے کے حوالے سے چین سب سے بڑی منڈی بھی توہے۔ڈونلڈٹرمپ کےعہدِصدارت میں امریکااورچین کے درمیان تجارتی جنگ چھڑگئی تھی۔ٹرمپ نے الزام لگایاتھاکہ چین اپنی کرنسی یوآن کی قدرمستحکم رکھ کردنیاکے خرچ پراپنے لئے راحت وچین کااہتمام کر رہا ہے۔اگرسعودی عرب اوریوآن والی بات درست ہوتوڈالرکی برتری کوواقعی خطرہ سے کوئی نہیں بچاسکتااورڈالرکی یہ پسپائی امریکی ریاستوں کے درمیان علیحدگی یعنی امریکاکے کئی ٹکڑے ہونے میں معاون ہوسکتی ہے۔