“اگرپاکستان وجودمیں نہ آتا”توکیاہم دینی،اخلاقی،سیاسی،معاشی طورپر آج سے بہترہوتے،ہم دل جلوں کویہ سوال سن کرشدید دکھ ہوتا ہے۔یہ سوال برعظیم پاک وہنداورخصوصاً پاکستان کے عام مسلمانوں کے ذہن میں پیدا نہیں ہوتا،وہ بیچارے تو سیدھے سادے مسلمان ہیں اور پاکستان کو اسلام کا گھر بلکہ ملجا وماویٰ جانتے ہیں۔ان سادہ لوگوں کے نزدیک پاکستان اللہ تعا لیٰ کا بیش بہا عطیہ ہے۔اللہ تعالیٰ جل شانہ وہ رحیم ذات ہیں جس نے ماہِ رمضان میں قرآن الفرقان نازل فرمایا،اسی خدائے ر حیم و رحمان نے ماہِ رمضان مبارک کی ستائیسویں رات کوپاکستان جیسی عظیم الشان نعمت سے نوازا۔
“اگر پاکستان نہ بنتا؟‘‘یہ الفاظ ہمارکلیجہ جلا دیتے ہیں۔یہ سوال کوئی بھی صاحبِ ایمان بآسانی نہیں سن سکتا اوروہ بھی اس عالم میں کہ پاکستان وجود میں آ چکا،دنیا کے چھوٹے بڑے ممالک کے مقابل خم ٹھونک کر کھڑا ہو چکا۔71سال ہونے کوہیں،پھرایساسوال کیوں؟ کیاپاکستان کے وجودِ مسعودکو مشکوک کرنے کیلئے؟جب تحریکِ پاکستان جاری تھی توخدا پرایمان رکھنے والاعام فردمسلمان جس کے پاس ساراعلم کلمہ طیبہ تک محدودتھا،وہ پورے یقین کے ساتھ اس تحریک کو دینی تحریک سمجھتا تھااورنعرہ زن تھا”لے کے رہیں گے پاکستان ”اور”پاکستان کا مطلب کیا ‘لا الہ الا اللہ۔”ہاں ان سادہ دل مگر قوی الایمان عام مسلمانوں کے مقابل لغت ہائے حجازی کے ہزاروں قارون اپنے علم کلام اوراپنی منطق کے پیچ وخم میں الجھے ہوئے،تماشائے لبِ بام کے اسیر اوررہین تھے،ان کے دماغ روشن تھے ،انہیں قرآن حفظ تھے،ان میں سینکڑوں حفاظ بخاری ومسلم بھی تھے مگر ان کے قلب مقفل تھے ورنہ حقیقت کو کیوں نہ پاجاتے؟
ان علمائے عظام میں مٹھی بھر وہ بھی تھے جن کا دین ان کے قلوب میں جا گزیں تھا، جن کے دلوں کے پٹ کھلے تھے،یہ تھے وہ خوش قسمت علماء امت جو براعظم پاک وہند کے عظیم ترین جہاد میں کود گئے اور سپاہیانہ لڑے مگرعلماء کی اکثریت محروم رہی۔یہ سوال کہ پاکستان کابننا بہتر ہے یامضر،یہ انہی علمائے کرام کاسوال تھا جن کا دین ان کے دماغ کی متاع تھا’ جن کا دین ان کے قلب کا سرمایہ نہ تھا۔قلب تومقفل تھے،قرآن الفرقان کا ارشاد گرامی ہے کہ” آنکھیں اندھی نہیں ہوجاتی،وہ دل اندھے ہوجاتے ہیں جوسینوں کے اندرہیں”۔دوسراگروہ روشن خیال متعلقین کاوہ طبقہ تھا جو خود کواعلیٰ رتبہ ادب وشعرپرفائز سمجھتاتھا،تیسراگروہ وہ کیمونسٹ حضرات کاتھا اور ان کاایک معتدبہ حصہ ادباء و شعراء میں شامل تھامگرعلماء کے سواان دونوں گروہوں کی مسلمانوں کے یہاں کوئی عوامی حیثیت نہیں تھی۔
اگرماضی اورحال کے روابط عقیدت کے بندھن سے آزادہوکر سوچیں کہ آخریہ کیاہواکہ ہمارے علماء مکرمین امت سے کٹ کراور ہٹ کرکھڑے ہو گئے اورکھڑے کھڑے شور مچاتے رہے کہ مسلمانوں کافائدہ متحدہ برعظیم میں ہندوغلبے کے تحت ہے نہ کہ ایک آزاد مسلم مملکت میں،جس کے باعث برعظیم پاک و ہندکے مسلمانوں کی دوتہائی آبادی ہندوکی محکومیت کے عذابِ الیم سے بچ سکتی تھی اور کچھ بھی نہ ہواسہی،کیا اللہ کایہ احسان کم ہے کہ کروڑوں کی مسلم آبادی کوان کاآزادوطن میسرآ گیا؟وہ علماءاس زمانے میں یہ سمجھتے تھے کہ پاکستان میں مسلمانوں کی حکومت کے زیرِسایہ اسلام کانفاذ زیادہ مشکل ہوگا،اس کے برعکس متحدہ ہندوستان میں اسلام کا نفاذ آسان ترہوگایعنی حکومت الہیہ اور نظامِ مصطفیٰ کاقیام حضرت امیرالمومنین والمومنات ،امیرالاحیاوالاموات گاندھی خوش صفات کے زیرِاقتداراوران کے بت پرست دیگرورثاءکے زیرِ حکومت بہترطریق پرعمل میں آسکتاہے۔ گاندھی جی کے ذریعے نظامِ اسلام کانفاذسہل ترجاننے والے کون لوگ تھے؟ وہ علماء اکابرتھے جن کے نزدیک ہندو لیڈروں کی ہر بات حق تھی،مسلمان قائدین کی ہر بات باطل۔ اگرذراغورکرلیں تو ایمان کی خاطرجنگ اورجہاد کرنے والے عام مسلمان تھے جن کاعلم دین محدودتھا،ان کے مدمقابل سیکولرروش کے طالب لغت ہائے حجازی کے قارون تھے،شیوخ القرآن،شیوخ الحدیث،خطبائے اسلام،ائمہ دین متین،حد ہوگئی علماء سیکولر،غیرعلماء مسلمان بنیاد پرست،اسلام کے غلبے پربھرپورایمان کے مالک!
آج اسلامی بنیادپرستی کے معنی تویہی ہے نا ں کہ مسلمان کو اسلام کی حقیقت پریقین ہو۔ اس کامطلب اسلام کا فراواں علم حتماً نہیں،اگر کوئی عالم بھی صاحبِ تصدیق ہوتو الحمدللہ ،مگرعموماً جودیکھاجارہا ہے وہ متوسط طبقہ ہی مرادہے۔اہلِ دین اوراہلِ ایمان کا متوسط طبقہ وہ امت کی ریڑھ کی ہڈی ہیں اس لئے کہ وہ غیرت والے ہیں۔اس متوسط طبقے کوقوم کی اکثریت کثیرہ کابھرپورتعاون حاصل ہے،خداکے فضل سے پاکستانی عوام کا ایمان نہیں ڈولتا،وہ پاکستان کواللہ کی عظیم نعمت جانتے ہیں اورپاکستان کے پروانے ہیں۔مجھے اچانک ایک کتاب یاد آ گئی ہے جس کا نام’’انڈین ڈیسٹنی‘‘(تقدیرِ ہند)،مصنف کانام تھا سرل مودک،مصنف عقیدے کی رو سے ہندو تھا۔اس نے اپنی کتاب میں متحدہ قومیت کے مخالفوں کی خوب کھال کھینچی ہے اور اس نظریے کے حامیوں کو خوب خوب اچھالا ہے۔ ماضی کے بہت سے اکابرمیں شہزادہ داراشکوہ کی بے حدتعریف کی ہے۔ وہی داراشکوہ جس کے بارے میں حضرت علامہ اقبال نے فرمایا تھا۔
تخم الحادے کہ اکبر پرورید
بار دیگر در دل دارا ومید
(الحاد کا بیج جو اکبر نے بویا تھا وہ دوبارہ شہزادہ داراشکوہ کے دل میں پھوٹ پڑا)
اور آپ کوسن کرحیرت ہوگی کہ مسٹرسرل مودک نے اس کتاب میں یہ بھی تحریرکردیاکہ دارا شکوہ کے مقابل ایک تنگ دل اورمتعصب شخص اورنگ زیب تھا اور ہمارے دورمیں دارا شکوہ کاجانشین ابوالکلام ہے اوراورنگ زیب کاجانشین مسٹرجناح۔یعنی اس کتاب میں سیکولرذہن کا جانشین جس شخص کوبتایاگیاتھاوہ امام الہند،خطیب الہند۔ ”اورمتعصب تنگ دل مسلمان بتایا گیامسٹرجناح کو”۔ اور اورنگ زیب اورقائد اعظم کے تعصب اورتشدد کوجن الفاظ میں بیان کیاگیا ہے اس کا مطلب مہذب محاورے کے مطابق بنیاد پرست ہے۔ آپ سوچ لیں کہ یہ بیان ایک ہندواسکالرکاہے اور ساتھ ہی یہ یادرکھیں کہ حضرت علامہ شبیر عثمانی نے قائد اعظم کے جنازے کے موقع پر جو کلمات ارشاد فرمائے ان میں یہ الفاظ بھی تھے کہ قائد اعظم محمد علی جناح حضرت اورنگزیب عالمگیر کے بعد برعظیم کے سب سے بڑے مسلمان تھے۔ ایمان وایقان کاتعلق دل سے ہے۔کلمہ طیبہ کے عربی حروف وہ مشرکین مکہ نہ سمجھ سکے جوابوجہلی گروپ سے تعلق رکھتے تھے،کیاان کوعربی نہیں آتی تھی؟ ان کوعربی آتی تھی اس کے باوجودکلمہ طیبہ کے الفاظ ان کیلئے غیرزبان کے اجنبی الفاظ تھے،بقول حضرت علامہ اقبال:
توعرب ہویاعجم ہو،ترالاالہ الاللہ
لغت غریب جب تک ترا دل نہ دے گواہی
ایمان کامسئلہ قلب سے تعلق رکھتاہے اورکفرکابھی قلب سے۔ باقی رہاتعقل تووہ میان غیاب وحضورسراب یااعراف،وہ تیسری دنیاہے مذکراورمونث کے مابین ایک تیسری دنیا،کبھی امریکااورروس کے مابین ایک تیسری دنیا تھی۔وہ افرادجولغت ہائے حجازی کے قارون تھے وہ ایمان کی منطق کی میزان پر تولتے رہے اور فرمایا:
عشق فرمودہ قاصد سے سبک کام عمل
عقل سمجھی ہی نہیں معنی پیغام ابھی
یہ منطق بازاورتعقل طرازطبقہ اس وقت بھی لبِ بام تھا،آج بھی لبِ بام ہے،لہندا یہ حضرات اس وقت بھی پورے برعظیم میں مسلمانوں کی محکومی کومسلمانوں کے حق میں اللہ کی نعمت جانتے تھے اورمسلمانوں کی ممکنہ آزادی کو،ان کے آزادوطن کو،ان کے اپنے آزاد جھنڈے کو،ان کے اپنے ٹینکوں،اپنی توپوں اوراپنے سکوں کواوران کے اپنے اقتدارو اختیارکوپرخطرجانتے تھے،حیف جب وقتِ جہادآیا تووہ جن کوائمہ مجاہدین بننا تھاان کیلئے گویاآیاتِ جہاد منسوخ ہوگئی تھیں۔ حضرت علامہ اقبال نے بجاہی توکہاتھا:
یہ مصرعہ لکھ دیا کس شوخ نے محرابِ مسجد پر
یہ ناداں گرگئے سجدوں میں جب وقتِ قیام آیا
دسمبر1946ءمیں انگلستان سے لوٹتے وقت حضرت قائد اعظم مصر میں چندروزکیلئے رک گئے تھے،لیاقت علی خان بھی ہمراہ تھے۔مصرمیں وہ موتمر عالم اسلامی کے اجلاس میں شرکت کرنے اورمصرکے اہلِ سیاست واہلِ صحافت کوتحریکِ پاکستان کے مطالب، مقاصداورمفادات سے آگاہ کرنے کیلئے گئے تھے۔جناب زیڈاے شیخ اورمحمدرؤف کی انگریزی تصنیف ”قائد اعظم اوراسلامی دنیا”میں کچھ کلمات درج ہیں جوقائداعظم نے مصر کے اکابرکی خدمت میں ارشادفرمائے تھے۔ قائداعظم نے وزیراعظم مصرنقراشی پاشا اور سابق وزیراعظم اوروفد پارٹی کے قائد نحاش پاشا کی ضیافتوں میں شرکت کی اوراہلِ صحافت کی دعوتوں میں بھی۔اے کاش قائداعظم کے وہ سارے بیانات کوئی اکھٹے کر سکتا جوعربی اورانگریزی اخبارات میں ان دنوں شائع ہوئے۔دسمبر کے نصف آخر کے مصری انگلستانی اخبارات اورہندوستان کے خصوصاً ڈان اخبارکے تراشے ملاحظہ فرمائیں جوآج بھی برٹش لائبریری میں محفوظ ہیں۔
والپرٹ اورزیڈاے شیخ وغیرہ نے جولکھااس میں قائداعظم کااس امرپرزورتھا کہ” تم مصر والے بلکہ سارے مشرقِ وسطیٰ والے اس بات سے واقف نہیں ہوکہ انگریز کے جانے کے بعد جومملکت انگریزی استعمار کی وارث بنے گی وہ کتنی بڑی اورطاقتورہوگی،تم لوگ ایک نئی مصیبت میں مبتلاہو جاؤگے ، تمہاری نہرسویزآج انگریزکے اشارہً ابروپرکھلتی اور بندہوتی ہے توکل ہندومملکت کاحکم نافذہوگا، ہاں!اگرہم وہاں پاکستان حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئے توپھرہندو مملکت کی توجہ کا مرکزہم ہونگے،تم عیش کرنا۔اس لئے یہ امر ذہن نشین رہے کہ ہم ہندوستان میں فقط وہیں کے مسلمانوں کی جنگِ آزادی نہیں لڑرہے ہیں ۔ہم ہندو کی اجتماعی نفسیات کوسمجھتے اورجانتے ہیں،وہ غیرہندوعناصرکواپنےمعاشرے میں زندہ نہیں رہنے دیتے،ہمیں معلوم ہے کہ اگر ہم وہاں ہارگئے توہم نہ صرف از روئے تمدن مٹادیئے جائیں گے بلکہ ازروئے دین بھی نابود ہوجائیں گےاوراگر ہم وہاں مٹ گئے توہمارے ارد گرد کے مسلمان ممالک بھی مشرقِ وسطیٰ سمیت بربادہوجائیں گے۔آپ صفحہ ہستی سے محوہوجائیں گےلہندا یادرکھیں کہ اگرہم ڈوبیں گے تواکھٹے، تیریں گے تواکھٹے ‘‘۔
قائداعظم جوہماری جغادری علماء اوردین کے قیادت کاروں کے نزدیک روحِ دین سے بے بہرہ تھےمحض صاحب بہادرتھے بلکہ فاسق وفاجرتھے،وہ تو سارے عالمِ اسلام کے باب میں پاکستان کی اہمیت سمجھتے تھے اوراس اہمیت کواہلِ مصر کے ذریعے سارے عالمِ عرب کے ذہن نشین کروارہے تھے مگر خودہندوستان میں بیٹھے علماء اکابراس بیچارے کی بات پرکان دھرنے کوتیارنہیں تھے اس لئے کہ وہ ظاہری شکل وصورت کے اعتبار سے زمرہ شیوخ،ائمہ اورخطباءوصلحاءمیں شامل نظرنہیں آتے تھے اورنہ گاندھی کی طرح لنگوٹی باندھتے تھے۔ ظاہر بین حضرات کے نشہ خود بینی اورمرض خودفروشی نے قائداعظم کے قلب کاعالمِ اخلاص ونورنہ دیکھا۔ مرزاغالب نے کیا خوب کہا:
قمری کف خاکستروبلبل قفس رنگ
اے نالہ نشان جگر سوختہ کیا ہے؟
قمری کارنگ خاکستری،بلبل خوشنما رنگوں کامجموعہ،بلبل برعظیم کے باشندوں نے دیکھا ہی نہیں،وہ سرسبزاورسردمنطقوں میں پایاجانے والا خوبصورت پرندہ ہے۔قمری بھی عاشق زاراوربلبل بھی جگرفگار،پھرکون سالباس عشق کی نشانی ہے؟غالب یہ سمجھانا چاہتے ہیں کہ عشق کاتعلق جان ودل سے ہے لباس سے نہیں،عاشق کالباس عاشقی ہے۔
بڑے دکھ کی بات ہے کہ اعلیٰ پائے کے ادباءوشعراء کی اکثریت تحریکِ پاکستان سے الگ رہی۔یہ بڑے شعراءاورادباءعموماً متعقل تھے اورفیشن کے طور پرقومی معاملات سے نفور ،ہندوگانٹھ کاپکاتھاکہ وہ اپنی ہرپارٹی،ہرگروہ اورہرپلیٹ فارم پرہندوتھا۔ہندؤوں میں کیمونسٹ بھی تھے مگر ہندو مفادات کے باب میں وہ بھی فقط ہندوتھے،ہندؤوں میں رائے بہادراور سربھی تھے مگروہ بھی اپنی قومی امنگوں سے ہم آہنگ تھے، خودان کی اپنی قوم نے ان کوہندو جاتی کے مفادات کادشمن کبھی نہ جانا،وہاں کانگرس اورمہا سبھائی معناًایک تھے۔وہ سارے لیڈرقوم کے مشترک لیڈر تھے،وہ مشرک تھے مگر عملاً وحدت پسند، ادھر مسلمان موحدتھے مگرتفرقہ ہی تفرقہ، لہنداعملاًمشرک(قرآن نے امت میں تفرقہ پیداکرنے والوں کو مشرک قرار دیا ہے)۔ تحریکِ پاکستان پھیل کر فقط مسلم لیگ ہی کا مسئلہ نہیں رہ گئی تھی تاہم ہمارے علماء کبار کی بھاری اکثریت کواس میں مسلمانوں کا مفاد نہیں بلکہ فساد نظر آتا تھا،ایسا کیوں تھا؟
سب سے بڑا باعث تو یہ تھا کہ ان کے بلند بام علمی مناصب کے نصاب کا تاریخ سے کوئی تعلق نہیں نہ تاریخ اسلام سے نہ تاریخ ہند سے۔ اپنی معاصرارد گرد کی تاریخ سے بھی نا آگاہ،تاریخ سے بھی ناواقفیت،جغرافیے سے بھی لاعلم،اپنے محل و قوع کا سرے سے ہی علم نہیں ۔1965ء کا ذکر ہے کہ میں میٹرک کاطالبِ علم تھا۔میرے شہرفیصل آباد(لائلپور) کی سب سے بڑی جامع مسجد کے خطیب اعلیٰ اورمدرسہ کے سربراہ ( مسجداور مدرسے کانام بطوراحترام مخفی رکھنے پرمعذرت) نے پوچھا کہ یہ ہٹلرکاوطن جرمل(جرمنی) کہاں ہے؟ میں کیسے بتاتا،لہندامیں نے شہر کے ایک کتب خانے سے دنیا کانقشہ خریدلیا اور مسجد سے ملحق مدرسے کی لائبریری کی دیوارکے ساتھ لٹکادیا۔مدرسے کے سربراہ نے تمام معلمین اور سنئیر طلباء کوبلا لیا۔وہ سب لوگ مجھ سے بے حد محبت اورپیارکرتے تھے، مسجد ومدرسہ کے تمام بزرگ مجھے اپنابیٹا سمجھتے تھے اوراس میں کوئی شک نہیں کہ میں آج بھی ان کواپنامربّی سمجھ کران کوہمیشہ اپنی دعاؤں میں یادرکھتاہوں۔
مدرسہ کی تمام اہم شخصیات،اساتذہ اورطلباء نقشے کے سامنے دائرہ کی شکل میں بیٹھ گئے۔ میری حیرت کی انتہا نہیں رہی جب مجھے معلوم ہواکہ وہ علماءاجل نقشے پرشمال اورجنوب نہیں بتاسکتے تھے۔جغرافیئے کایہ عالم،تاریخ ہندسے بالکل ناواقف، معاصر غیر اقوام کے دھندوں سے قطعاً بے نیازیہ حضرات دینی علوم خصوصاً حدیث شریف اورفقہ میں طاق تھے،منطق میں طراراورصرف ونحومیں طیار.. …!اس مدرسے کاعلمی درجہ ملک بھرمیں ایک نمایاں حیثیت رکھتا تھااوراب بھی ہے۔ یہاں کے فارغ التحصیل آج بھی پاکستان کے ہرعلاقے میں معززعلماء و فضلا اوراہل افتاء میں شامل ہیں اور کچھ توآج پاکستان کی صوبائی اورقومی اسمبلیوں کے اراکین اوروزارت کے مزے بھی لوٹ رہے ہیں۔اس عظیم درسگاہ کا نصاب اگر دیوبندہی کے مطابق تھاتوعیاں ہے کہ دیوبند کے فارغ التحصیل حضرات شائدچندایک کوچھوڑکرحالات گردوپیش سے خواہ وہ معاشی تھے خواہ انتظامی تھے یاسیاسی،کس قدرآگاہ تھے؟ اس کے باوصف اصرارتھاکہ مسلمان اپنے سارے فیصلے سیاسی امورسمیت،فقط علماء حضرات کے حسبِ فرمان کریں۔
بڑے دکھ کی بات ہے کہ اعلیٰ پائے کے ادباء وشعراءکی اکثریت تحریکِ پاکستان سے الگ رہی۔یہ بڑے شعراءاورادباءعموماًمتعقل تھے اورفیشن کے طورپرقومی معاملات سے نفور ،ہندوگانٹھ کاپکاتھا کہ وہ اپنی ہرپارٹی،ہرگروہ اورہر پلیٹ فارم پرہندوتھا۔ہندؤوں میں کیمونسٹ بھی تھے مگرہندو مفادات کے باب میں وہ بھی فقط ہندوتھے،ہندؤوں میں رائے بہادراورسربھی تھے مگروہ بھی اپنی قومی امنگوں سے ہم آہنگ تھے،خود ان کی اپنی قوم نے ان کو ہندو جاتی کے مفادات کادشمن کبھی نہ جانا، وہاں کانگرس اورمہا سبھائی معناً ایک تھے۔وہ سارے لیڈرقوم کے مشترک لیڈر تھے،وہ مشرک تھے مگرعملاً وحدت پسند، ادھرمسلمان موحدتھے مگرتفرقہ ہی تفرقہ،لہنداعملاًمشرک (قرآن نے امت میں تفرقہ پیدا کرنے والوں کومشرک قراردیا ہے) ۔ تحریکِ پاکستان پھیل کرفقط مسلم لیگ ہی کامسئلہ نہیں رہ گئی تھی تاہم ہمارے علماء کبارکی بھاری اکثریت کواس میں مسلمانوں کامفاد نہیں بلکہ فساد نظر آتا تھا،ایسا کیوں تھا؟
میں اس وقت بھی سوچتا تھااورآج بھی سوچتا ہوں،اس وقت بھی اظہارِ خیال کرتا تھااورآج بھی اظہارِخیال کرتا ہوں کہ ہمارے علماء حضرات میں سے کتنے تھے جن کومسجداور مدرسے کی زندگی سے باہر کے امورکاتجربہ تھا،ان میں سے کتنے تھے جن کوکسی معمولی ٹاؤن کمیٹی کے کاروبارکا بھی علم تھا؟کیا انہوں نے ہندوکے ساتھ مل کرکبھی کسی دفتر،تجارتی حتیٰ کہ علمی ادارے میں بھی کام کیاتھا، پھر لازم تھا کہ وہ اپنا کام کرتے جس میں وہ ماہرتھے۔ قائد اعظم یادیگرمسلم لیگی زعماء نے کب کہاکہ علماء حضرات کو عربی نہیں آتی،یاوہ قرآن وحدیث کی عبارات کے معنی نہیں بیان کر سکتے،ہاں!وہ یہ ضرورکہتے تھے کہ حضرات!جس کام کوآپ کوتجربہ نہیں،اس میں آپ ماہرانہ رائے نہ دیں،ہم آپ کے حلقہ علم میں مداخلت نہیں کرتے،ہم فتوے نہیں دیتے،ہم درسِ حدیث کادورہ نہیں کراتے،اس کے اسلوب نہیں بتاتے،یہ اس لئے کہ کسی کو بھی سارے کام نہیں کرنا ہوتے ۔ ”جس کاکام اسی کو ساجھے”۔
لیکن علماء نے پھربھی ہندوستان کے ہندومسلم مسئلے کاحق ان افراد کے سپردنہیں کیاجوتجارت کے میدان میں،بلدیات کے میدان میں،قانون سازی کے میدان میں،کالجوں اوریونیورسٹیوں کے نصابی اورعلمی وتحقیقی میدان میں اورسیاست کے ہر میدان میں ہندوکے ساتھ کام کررہے تھے اوربخوبی جان رہے تھے کہ ہندوجہاں انگریزی استعمارسے نجات کا خواہاں ہے وہیں ساتھ ہی ساتھ کوشاں ہے کہ مسلمانوں کا بہرطریق اس طرح کچومرنکال دے کہ جب انگریز سے آزادی حاصل ہوتو مسلمان من حیث الامت ان کیلئے دردِ سرنہ بن سکیں۔یہ امر بالکل واضح تھالیکن مسجداورمدرسے کے باہرجھانک کرجنہوں نے دیکھاہی نہ تھااورجن کانصاب انہیں برادرانِ وطن کی تاریخ وتہذیب سے آگاہ ہونے ہی نہ دیتاتھا،وہ ہندوقوم کی اجتماعی نفسیات اور مسلمانوں کے بارے میں ان کی نیتوں کو کیاجانتے؟
وہ مسلمان جو ہندوکوہرمیدان میں کارفرمادیکھ رہے تھے وہ بخوبی جان گئے کہ ہندواپنے معاشرے میں کسی غیرہندو معاشرے یاسوسائٹی کوایک متحرک عنصرکی طرح موجود نہیں دیکھ سکتے۔انہوں نے ہندوستان میں آکریہاں کے اصلی باشندوں کوتہس نہس کردیا، قطعاً اچھوت بلکہ چنڈال بناکررکھ دیا،بدھ مت اورجین مت کے پیروؤں کونابودکردیا،بدھ مت والوں نے تقریباًآٹھ سوسال بھارت کے کبھی بیشتراورکبھی کمترحصے پرحکومت کی مگرجب برہمنی نظام دوبارہ مسلط ہواتوبدھ مت والوں کوختم کردیاگیا،وہ کروڑوں تھے مگرمحو محض ہوکررہ گئے۔ وہ آج بھی چین میں ہیں، جاپان میں ہیں، ویت نام، کمبوڈیا،سری لنکااوربرمامیں ہیں مگروہاں نہیں ہیں جوان کا اصلی وطن تھا،جہاں انہوں نے صدیوں حکومت کی تھی، جہاں کاعوامی مذہب بدھ دھرم بن گیاتھالیکن ہمارے علماء کی اکثریت کواس بات کا علم نہ تھااورنہ ہی اس سے غرض۔وہ کہتے تھے پہلے انگریز کو نکالوبعد میں ہندو سے نمٹ لیں گے لیکن ہندو شناس اہلِ نظراورامت کے مستقبل کو ہندوذہن کے آئینے میں دیکھ لینے والے اہلِ اخلاص نے رفتہ رفتہ یہ طے کرلیاکہ ہندواگردومحاذوں پرلڑرہاہے یعنی انگریزوں کے خلاف اور مسلمانوں کے خلاف توہمیں بھی دونوں محاذوں پر یعنی انگریزوں اور ہندوؤں کے خلاف لڑنا ہوگا۔ہندوبھی اتنادشمن ہے جتنا انگریزلہندایہ اہتمام ابھی سے شروع ہوجاناچاہئے کہ جب انگریزجائے توہندوقوم مسلمانوں کومن حیث الامت مغلوب نہ کر لےچنانچہ علامہ اقبال اور مولاناحسرت موہانی نے بہت پہلے یہ امر واضح کردیاپھرمولانا محمدعلی جوہر کانگرس سے جدا ہوگئے۔شوکت علی بھی مولانا ظفر علی بھی، مولوی تمیزالدین بھی،سردارعبدالرب نشتر بھی،خان عبدالقیوم بھی اور مولانا محمد اکرم بھی وعلیٰ ہذاالقیاس قائداعظم تو1923ء میں کانگرس کوپہچان کرالگ ہوگئے تھے ۔
علمائے دین کی بھاری اکثریت اتنی سی بات کونہ سمجھ سکی، چلیں یونہی سہی،البتہ آج کے پاکستانی عوام یہ پوچھنے کا حق ضروررکھتے ہیں کہ ہندو کی ہاں میں ہاں ملانے والے،لہندا انگریزی جمہوریت کے متوالے علمائے دین نے جب یہ دیکھا کہ امت کی بھاری اکثریت نے تحریکِ پاکستان کواپنالیاہے توکیااپنی جمہوریت پسندی کے اصول کی روشنی میں ان کومسلمانانِ برعظیم کی مرضی قبول کرلینی چاہئے تھی یانہیں؟ آج بھی ان علماء کا وہی گروہ پرشکوہ اوراسی طرح دیوبند کے باہر کے دین پسند حلقوں کے وابستگان، جوہر نظام پرخواہ وہ نظام شوریٰ ہی کیوں نہ ہو،مغربی جمہوریت کوترجیح دیتے ہیں،مسلمانانِ برعظیم کے اس واضح جمہوری فیصلے کوقبول کرنے پرکیوں تیارنہیں! اگر علماء کی سیاست ہارتی ہے تو پھران کو ہرانے والی جمہوریت مردود………..امریکا کوہر جمہوریت پسند ہے ماسوا ئے اس جمہوریت کے جس کے ذریعے راسخ العقیدہ مسلمانوں کے برسرِ اقتدار آنے کاخدشہ ہویعنی اپنی اپنی اصول پسندی اوراس کے معیار……الجزائراور مصر میں ہم یہ سب کچھ دیکھ چکے ہیں ۔
مسلمانانِ بر صغیر نے بہ خلوص خاطردینی جہادکیا تھا۔ مسلمانوں کیلئے ایک وطن حاصل کرنے کی خاطراورالحمداللہ کہ مسلمان عوام کی اکثریت کثیرہ کا پاکستان پرایمان قائم ہے۔یہ الگ بات ہے کہ سیکولرعلماءیعنی گاندھی اورنہروکے پیرو کارہندوناشناس حضرات اوران جیسے دیگر متکبر علماء نے اس تحریک کوفراڈقراردیاتھااورقائداعظم کوفراڈِاعظم کا خطاب دیا تھااوران بزرگوں کی عالی قدراولادبھی یہ کہتے ہوئے نہیں شرماتی کہ ہم پاکستان بنانے کے گناہ میں شریک نہیں تھے مصداق “من صادرکوالدہ فما ظلم(جو اپنے باپ پرگیا اس نے کوئی زیادتی نہیں کی)”مگر کیاوہ مسلمانانِ برعظیم کی جدوجہد کو جمہوری نقطہ نظر سے بھی سرآنکھوں پرنہیں رکھتے؟یہ کیا ستم ظریفی ہے کہ ہندوکاجمہوری فیصلہ قبول مگر مسلمانوں کا جمہوری فیصلہ مردود!
خودکودین کاپاسبان اوراسلام کے محافظ اورداعی جاننے والوں نے 1945ءاور1946ءکےانتخابات میں کیارویہ اختیارکیاتھا؟یہی ناں کہ ہمیں اس سے غرض نہیں کہ مسلم لیگ جیتے یاکوئی اورپارٹی،پاکستان معرض وجودمیں آتاہے یاکہ نہیں،ہم کوتوخدمتِ اسلام سے غرض ہے۔ہم خدمتِ اسلام کے مؤقف پرقائم ہیں،وہ لوگ بری طرح ناکام رہے۔آج بھی ان عالیشان حضرات اہلِ ایمان کامؤقف یہی ہے کہ مسلم لیگ جیتے یاہارے،ہمیں غرض نہیں کسی وطن دشمن سیاسی پارٹی کوفتح حاصل ہو،ہماری بلاسے،یہودی اور برہمن اورامریکن مقاصد کو تقویت نصیب ہو،بیشک ہوتی رہے ،ہم خدمتِ اسلام کے مؤقف پرقائم ہیں۔ہمارامؤقف درست ہے اوروہ لوگ دیکھ رہے ہیں کہ ان کے اس رؤیے نے پاکستان پریہودی،قادیانی اور برہمنی گرفت مضبوط ترکردی ہے۔
صاحبِ گنبدِ خضریٰ میں فریادی بن کرآیا ہوں
تاج وتخت ختمِ نبوت بیچ دیا دینداروں نے
یہ ہیں وہ لوگ جویہ منحوس استفسارکرتے ہیں کہ پاکستان نہ بنتاتوکس طرح کاواضح فائدہ میسرآسکتا تھا۔ دینی،اخلاقی، سیاسی اورمعاشی وغیرہ وغیرہ اعتبارات سے۔ ایسے لوگوں کواب اہلِ قادیان کی جماعت بھی بطورمعاون مل گئی ہے،کراچی کی ایک لسانی جماعت بھی جس کاخودساختہ قائدبھارت جاکر قائد اعظم اورعلامہ اقبال کوپاکستان کی دھرتی کو مطعون کرتاہے اورہرصاحبِ اقتدارپارٹی کے ساتھ حکومت کے مزے بھی لیتاہے۔ اس جماعت کاہرفرد تاویل کابادشاہ ہے اورآج ایسی جماعتوں کے سب ہی افرادچھوٹے بڑے، مذکرو مونث،پاکستان کے خلاف عقلی دلیلوں کے انبار لگارہے ہیں۔وہ بڑی جلدی میں ہیں شائدایسی موافق حکومت پھرمیسرنہ آئے یاشائد ایسی مہربان اورہمنواحکومت تادیرنہ رہے۔
قائد اعظم نے 1946ءفرمایاتھا: “آج جولوگ پاکستان کی مخالفت کررہے ہیں ان کی آئندہ نسلوں کواپنی تمام زندگی بھارت سے وفاداری ثابت کرنے میں گزارناپڑے گی” اورمجھے آج یہ کہنے میں کوئی حجاب نہیں کہ چاردہائیوں کے بعدمیراوجدان اس بات کی گواہی دیتاہے کہ دیوبندکے وہ اکابرین جنہوں نے قیامِ پاکستان کی مخالفت میں اپنی پوری توانائی صرف کرکے اس کی مخالفت کی،انہی اداروں سے جب ہندواپنے گھناؤنے انتقام کاآغازکریں گے تب نہ صرف ان اداروں کے موجودہ منتظمین اپنے اکابرین کے اس جرم عظیم کےاعتراف پرنادم ہوں گے بلکہ اسی خطہ پاکستان سے امدادکی دہائی بھی دیں گے اوریہ بھی حقیقت ہے کہ اہالیان پاکستان کھلے دل سے نہ صرف ان کے سابقہ کردارپرچشم پوشی کریں گے بلکہ دل وجاان سے اپنے ان بھائیوں کی مددکیلئے تن من دھن کی قربانی دینے سے بھی گریزنہیں کریں گے کہ “صبح کابھولااگرشام کواپنے گھرلوٹ آئے تواسے بھولا نہیں کہتے”۔
تاہم ہندو نے ابھی تک پاکستان کودل سےتسلیم نہیں کیا۔ہندوسربراہوں کے چیلوں نے بھی اس مملکِ خدادادکو تسلیم نہیں کیا۔یورپی اورمسیحی قومیں خصوصاً انگریز اس برعظیم میں اسلام کے نام پر کسی مملکت کا ظہورقبول کرنے کوتیارنہیں تھے۔ان کے پروردہ قادیانی حضرات اور روحانی صاحب بہادران کا تاحال یہی حال ہے۔کیاجس طرح تحریکِ پاکستان کے دوران میں علماء کبارہندواورانگریزکاخصوصاًماؤنٹ بیٹن اورایٹلی کی حکومت کاروّیہ نہ سمجھ سکے،آج بھی اسی طرح غافل ہیں یادانستہ سیکولرازم کے پرستارہیں،یہ منحوس سوال کہ”اگر پاکستان نہ بنتا توآیاہم اس اعتبارسے اچھے رہتے”اٹھا ہی کیوں؟پاکستانی عوام اس سوال کوان کے ایمان کے خلاف آوازہً مبارزت سمجھتے ہیں،ایسے سوال کووہ اپنی توہین گردانتےہیں، لہندا انہوں نے ایسے سیکولرعناصرکوجومحراب ومنبراورکرسی و دفاترکی زینت ہیں،پائے استحقار سے ٹھکرادیاہے۔اہلِ پاکستان کی اکثریت کثیرہ کاپاکستان پربھرپور ایمان تھااوروہ ایمان قائم ہے اورقیامت تک یہ ایمان قائم رہے گاانشاء اللہ۔علمائے سوء نے اوردین کے ان علم برداروں نے تحریکِ پاکستان کے دوران بھی مسلمانوں کادل دکھایاتھا اورآج بھی انہوں نے وہی اذیت کاری دہرائی ہے۔”خداتوفیق کیش کفربخشد دیں پناہاں را”ہاں اس وقت اوراس وقت میں فرق ہے،تحریکِ پاکستان کے دوران میں امت کوایک قدآورقائد میسرتھا،جس کی بصیرت، اخلاص، ذہانت اورسب سے بڑھ کرامانت داری پر مسلمانانِ ہند کوبھرپوراعتماد تھااورآج ایساکوئی مرکزی فردجونظرگاہِ اعتمادبن سکے، موجودنہیں۔
پروفیسر بینی پرشاد نے لکھا تھا کہ مسلمان ابھی تک اپنی انفرادی ہستی قائم رکھے ہوئے ہیں،ان سے پہلے یہاں آنے والے گروہ اور قومیں ہندو معاشرے میں مدغم ہو گئے۔ساتھ ہی یہ بھی لکھا کہ مسلمانوں پر عیاں ہے کہ وہ بھارت کو ترکی،ایران اور مصر کی طرح اسلامی رنگ نہیں دے سکے جس کی سب سے بڑی وجہ مغل بادشاہ جلال الدین اکبر تھا جس نے ہندو مت کو ہندوستان سے مٹنے سے بچایا وگرنہ اس وقت اورنگزیب کی حکومت ہوتی تو آج ہندوستان کا نقشہ بالکل مختلف ہوتا۔سرل مودک نے کہا کہ مسلمان بھی دیگر غیر ہندو اقوام میں ضم ہو جائیں گے، یعنی نابود ہو جائیں گے۔ڈاکٹر رادھا کشنن نے کہا(وہ ڈاکٹر رادھا کشنن جو بھارت کے فیلسوف صدر تھے) کہ ہندو دھرم نے بدھ مت کوبھائیوں کی طرح بغل گیرہو کرختم کر دیا،سوامی دھرم تیرتھ جی مہاراج نے ارشاد کیا:ڈاکٹررادھا کشنن کچھ بھی ارشاد فرمائیں’حقیقت یہ ہے کہ برہمنی ہندوؤں نے بدھوں کو قتل کیا،ان کے گھرگرائے ،ان کے جانور ہلاک کئے،ان کی فصلوں کو آگ لگا دی،ان کی اکثریت کو علاقہ بدر کر دیا۔شیام پرشاد مکر جی نے قراردادِ پاکستان کے پیش اور پاس ہونے سے تقریباً ایک برس بعد دیاکھیان دیا کہ ”تقسیم کے آوازے ادھرادھرسے سن رہاہوں اگر پاکستان بن گیاتو ہم اسے باقی نہیں رہنے دیں گے”۔
سوامی دیانند جی نے فرمایا کہ بھارت وید دھرم کا وطن ہے اور بھارت کو واپس ویدوں کی طرف جاناہے اوریہاں بسنے والوں کوویدی دھرم کے رنگ میں خودکورنگناہوگا۔آرایس ایس کے بل راج مدھوک نے اظہارِافسوس کیاکہ ہندوقوم نے ایک ہزارسال پہلے محمد (ﷺ) کابت بناکرمسجد مندر منڈی بازاروغیرہ میں کیوں نہ سجادیا؟مسلمان اپنے پیغمبر کوپوجنے آتے توان کے دلوں سے ہمارے بتوں کی نفرت بھی نکل جاتی اوررفتہ رفتہ وہ ہمیں میں گم ہوجاتے جس طرح بدھ مت والے ہوگئے۔ہم نے بدھ مت جی کواوتارمان لیااوران کا بت اپنے بتوں میں شامل کرلیا۔ہمارے سینکڑوں ہزاروں بتوں میں ایک بت کا اضافہ ہو گیا مگر بدھ کہیں کے نہ رہے(حالانکہ بدھوں کو جبراً قہراً ختم کیا گیا تھا جیسا سابقہ سطور میں سوامی دھرم تیرتھ جی کی زبانی بیان ہوا) ۔گاندھی جی نےفرمایا کہ مجھے اردو زبان کے حروف قرآن کے حروف سے مشترک نظر آتے ہیں،لہندا ہندوستانی زبان اختیار کی جائے اور وہ بھی دیوناگری اکھروں میں۔پنڈت نہرو بڑے روشن خیال،دانشور ہونے کے مدعی تھے۔ انہوں نے فرمایاکہ”ہندوستان میں ایک ہی قوم ہے اوروہ ہے ہندوستانی “دو قومی نظریہ”مٹھی بھرافرادکا پیدا کردہ شاخسانہ ہے،میں نے غور سے دیکھا ہے ،میں نے خوردبین لگا کر غور سے دیکھا ہے مگر دوسری قوم مجھے تو نظر نہیں آئی”۔آج یقینا�نہرواوران کے حواریوں کے دلوں میں پاکستان کے وجودکودیکھ کرآگ کاطوفان تو بھڑک رہاہوگااورمیں سمجحتاہوں کہ ان کیلئے یہی سزاکافی ہے بلکہ پاکستان جس قدرترقی کرے گا،ان کی سزامیں اسی قدراضافہ ہوتاجائے گا، یہی میرے رب کافیصلہ ہے.
دو قومی مسئلہ کہاں ہے یعنی مسلمانوں کے جداگانہ وجود سے یکسر انکار!1937ءمیں جب کانگریسی وزارتوں کا قیام عمل میں آیا تو چھ صوبوں میں ودیا مندر اسکیم نافذ کر دی گئی۔وہ تعلیمی منصوبہ تھا کہ غیر بھارتی عناصر کو بھارتی زندگی میں سے نکال باہر کیا جائے،بھارتی ہیرو اور وہ بھی ہندوسامنے لائے جائیں۔ہندی زبان نافذ کی جائے،گیت بندے ماترم مدرسوں میں گایا جائے،اس بندے ماترم کوقائداعظم نے مشرکانہ گیت قرار دیا تھا۔ بندے ماترم جس ناول آنند مٹھ سے لیا گیا تھا اس کی ساری کہانی مسلم دشمنی کے زہر سے لبریز ہے۔ مسلمان عوام اور مسلم لیگی قائدین ہندوؤں کے اس صریح مسلم کش روئیے پر چیخ اٹھے،ہاں گاندھی جی کی مورتی بھی مدرسوں میں سجا دی گئی تھی جس کے روبرو ہاتھ جوڑ کرکھڑے ہونااورپرنام عرض کرنا شامل درس وتربیت قراردیاگیا،مسلمان بچیوں اور بچوں کو بھی اس کارِ شرک پر مجبور کیا جانے لگاچنانچہ مسلمانوں کو باقاعدہ کمیشن بٹھانے پڑے اور ان کمیشنوں نے تحقیقی رپورٹس شائع کیں۔
“شریف رپورٹ اور اے کے فضل الحق رپورٹ “کا تعلق اسی روداد ِ ستم و جور سے تھالیکن مسلمانوں کے صاحب بہادر،کیمونسٹ وغیرہ طبقے تو ایک رہے،عملدارانِ دین متین نے مسلمان عوام اور ان کے ہردلعزیز قائدین کی ایک نہ سنی۔علماء کے نمائندے مسلسل کہتے رہے کہ بندے ماترم قومی گیت ہے ہم گاتے رہیں گے۔حضرت ابوالکلام آزاد جیسے بزرگوں نے اوپر بیان کردہ تحقیقاتی رپورٹ کی تردید کی اور جب مسلمانوں نے کانگرسی وزارتوں کے خاتمے پر دسمبر1939ءمیں یومِ نجات منایا تو ہندوجاتی کودکھ ہونا ہی تھا۔علماء حضرات نے بھی مسلم عوام اورمسلم لیگ کے اس عمل کومتحدہ قومیت کی روح پرفتوح کے خلاف عناد و فساد قرار دیا۔یاد رہے کہ یومِ نجات میں اچھوتوں نے بھی مسلمانوں کا ساتھ دیا تھا جیسا کہ ڈاکٹر لنکا سندرام نے اپنی کتاب “اے سیکولرسٹیٹ فارانڈیا”میں ذکر کیا ہے۔
معززسامعین!بھارتی ہندوجاتی اوراس کی قیادت پاکستان اوراہلِ اسلام کاوجود اس برعظیم سے مٹانے کے درپے تھی اور38سال گزرنے کے بعداب بھی درپے ہے۔کیااس حالت میں وہاں مسلمانوں کیلئے کوئی بہتری عمل میں آسکتی تھی؟کیاوہ مسلمان جووہاں ہیں ان کی صورتِ حال خودٹھوس شہادت نہیں اس امرکی کہ ان کومٹانے کی اب بھی کوششیں جاری وساری ہیں۔ہمارے قوم پرست ملا یہ کہتے ہوئے سنے گئے ہیں کہ ہندو قوم مسلمانوں کو نہیں مٹا سکتی،بارہ سوسال ہوگئے ہیں اکھٹے رہتے ہوئے۔خداجانے ہمارے قوم پرست ملا کی دانش کیوں غائب رہتی ہے؟ہم ہندو کے ساتھ اکٹھے کب رہے ہیں؟ہم حاکم تھے اورہندو محکوم تھے۔صدیوں یہ حال رہا،ایسی صورت میں وہ مسلمانوں کو کس طرح نقب لگاتے، الٹا ان کو نقب لگتی رہی،مسلمان اور ہندودونوں انگریزکے غلام ہو گئے،ایسے عالم میں ہندو بھی بے بس اور مسلمان بھی محکوم۔
ویسے ہندو مسلمان ایک ہی بر عظیم میں آباد ہونے کے باوجود اکٹھے کبھی نہیں رہے۔حق یہ کہ امتحان اور آزمائش کا وقت اب آیا ہے، جب بھارت میں ہندو حاکم کی طرح مسلط ہوگیا ہے۔بھارتی مسلمانوں کو نقب لگ رہی ہے،کشمیریوں پر بے پناہ مظالم توڑے جار ہے ہیں ،سترہزار سے زیادہ ان کے معصوم بچے،بے گناہ عورتیں ،جوان اوربوڑھے شہید کئے جاچکے ہیں۔ان کاقصور صرف یہی ہے کہ ساری دنیا کے سامنے اقوام متحدہ کے روبرو بھارت کے پہلے وزیراعظم پنڈت نہرو نے ان کشمیریوں کے ساتھ جو حق خودارادیت کاوعدہ کیاتھا،وہ اس کامطالبہ کر رہے ہیں۔بھارت میں اسکولوں اور مدرسوں میں وہ نصاب پڑھایاجارہاہے کہ مسلمان بچہ اپنی قوم کے ماضی سے یابے خبررہے یا ان سے نفرت کرے اور ہندواکابر کامعتقد ہو تاچلاجائے۔چند روزہوئے ٹی وی لگایاتوہندوستان کے ایک چینل پرایک لڑکابات کررہاتھا”میرے پتاکانام گپتاجی ہے اور میری ماتا کانام نسیمہ بیگم ہے،میں ہندوہوں اور میری بہن مسلمان ہے،ہم چاروں بڑے امن اور چین سے اپنے گھرمیں رہ رہے ہیں”۔
قرآنِ کریم میں قومِ یہود سے اللہ نے ایک سے زیادہ بار کہا ہے کہ وہ دن یاد کرو جب تم فرعون کی رسواکن غلامی میں مبتلا تھے۔فرعون تمہارے مردوں کو قتل کرا دیتا تھا اور تمہاری عورتوں کو زندہ رکھتا تھا ۔ظاہر ہے کہ اگر مرد واقعی قتل ہو جاتے تو اولاد کیسے پیداہوتی،عورتیں کیسے وجود میں آتیں۔یہاں ماردینامجازاً کہاہے ،مراد ہے کہ یہودی مردوں کوپامال اورمسکین وعاجزبناکررکھاجاتاتھااوریہودی عورتوں کواچھی تعلیم وتربیت دی جاتی تھی تاکہ وہ قومِ فرعون کی عیاشی کاسامان بنیں۔یہی حال اب ہندوستان میں ہورہاہے۔مسلمان بچیوں کوتعلیمی وظائف سے، مسلم نوازی کے طور پرتعلیم وتربیت دی جاتی ہے،جب وہ گریجو ایٹ یاپوسٹ گریجوایٹ ہوجاتی ہیں،طبی تعلیم یا کوئی اورایسی فنی تعلیم مکمل کر لیتی ہیں تو شادی کامسئلہ کھڑاہوجاتاہے۔
جس ماحول میں تعلیم عمل میں آتی ہے وہ سیکولرہے،گھراوررشتہ داروں میں موافق برنہیں ملتا۔چچیرابھائی رکشہ چلارہاہے،ماموں کابیٹاسائیکل کوپنکچر لگارہاہے،خالہ زادمستری ہےاوردورکابھی کوئی پڑھا لکھارشتہ میسرنہیں،لہندا بڑے آرام سے مسلمان بچی غیرمسلموں میں بیاہ دی جاتی ہے اور مشہور کردیاجاتاہے کہ دامادنے اسلام قبول کرلیاہے۔ہمارے ناشکرگزارمسلمان،وہ جن کی اکثریت علماءاورصاحب بہادر وں پرمشتمل ہے اب اس گروہ میں وہ لوگ بھی شامل ہیں جن کوخدانے قائد اعظم کی جوتیوں کے طفیل کروڑپتی بنادیاہے اورمنصب عزت سے نوازا ہے۔کیا یہ ناشکرے لوگ اللہ تعالی کے یہودیوں سے اس خطاب کامعنی بالکل نہیں سمجھتے؟
کچھ عرصہ ہوا رام پور یوپی (بھارت) سے تعلق رکھنے والے ایک صاحب نے جو پاکستان کے ایک اہم ادارے میں انگریزی ادبیات کے استاد تھے اور آجکل انگریزی اخبارات میں لکھتے لکھاتے ہیں،مجھ سے رازدارانہ سوزوسازکے ساتھ کہا”ملک صاحب!ذرا ٹھنڈے دل سے سوچیں تو سہی1935ء کے ایکٹ نے صوبائی اختیارات کتنے وسیع کر دیئے تھے کہ گویا پوراپنجاب اوربنگال باقی دوتین چھوٹے یونٹوں سمیت اپناتھا۔آزادی کے بعد صوبائی حقوق میں اوربھی اضافہ ہوجاتاتوپھرہم نے علیحدگی کادردِسرکیوں مول لیا؟ایسی ہی فلاسفی کو لسانی جماعت کابھتہ خوربھی دہراتا رہتا ہے۔انگریزی کے پروفیسروں میں اور بھی کئی ایسے متعقل اورصاحب بہادرہیں۔ میں نے عرض کیا ”حضور!قوت مرکزکے پاس ہوتی ہے، قومی پالیسی مرکزنافذکرتا ہے ،مرکزجب چاہے،جس صوبے کاچاہے گلا دبوچ لے ،اس کے علاوہ آپ یہ دیکھیں کہ اصل متحدہ پنجاب کے نصف سے کچھ کم پنجاب بھارت کوملا تھا ۔سکھوں کے باعث بھارت نے اس پنجاب کے تین ٹکڑے کردیئے۔آپ کیا سمجھتے ہیں کہ لالہ آپ کے پاس پنجاب اوربنگال اس صورت میں رہنے دیتاکہ وہاں مسلمانوں کی اکثریت رہتی؟وہ بنگال کابھی تیاپانچاکردیتااورپنجاب کابھی۔بنگال کے کچھ حصے اوربہار کے کچھ حصے ملا کرنیانقشہ بنادیتا،اسی طرح پنجاب کے ساتھ یوپی کا کچھ حصہ ملا کراورکچھ حصہ انبالہ ڈویژن کے ساتھ ملحق کرکے تین صوبے بنادیتا اورجب مسلمانوں کی اکثریت کے صوبوں کاتیاپانچا کیاجاتاتواسے انتظامی ضرورت قراردیاجاتا۔کیاوہ لوگ جو امت کے مفاد کوسمجھتے نہیں یامکرکا شکار ہوجاتے ہیں یاپیٹ کی لپیٹ میں آجاتے ہیں’ہندو حکومت کی اس مسلم کش حکمتِ عملی کی تائید نہ کرتے؟بے شک مسلمان عوام چیختے رہتے”۔
میں نے عرض کیا’آخر پاکستان میں رہتے ہوئے آپ پاکستان کی بہتری کے بارے میں کوئی تجویز پیش کرنے یاسوچنے کی بجائے الٹاپاکستان کو ختم کر دینے کے ضمن میں کیوں ذہن کوتیارکرتے رہتے ہیں؟اور قراردادِلاہورکو منسوخ کرنے کے درپے کیوں رہتے ہیں؟ میں نے وضاحتاً کہاکہ مسلم لیگ نے 1921ءمیں اورپھر چودہ نکات میں شامل چھٹے نکتے کی روسے انگریزحکومت سے مطالبہ کیاتھا کہ مسلم اکثریتی صوبوں کی حد بندی کو ہرگزیوں نہ چھیڑا جائے کہ وہاں کے مسلمانوں کی اکثریتی حیثیت متاثر ہولیکن متحدہ ہندوستان میں چھٹا نکتہ کیوں ملحوظ رہتا! میں نے مزید عرض کیا کہ اگر آپ جیسا متعقل مجھ جیسے متعصب پاکستانی مسلمان سے بھی یہ رازونیازکرنے کی جرأت کرسکتا ہے تو نجانے دیگر کس کس سے آپ نے یہ قول لقمانی عرض نہیں فرمایاہو گا۔”فی قلوبھم مرض فزادھم اللہ مرضا”۔قائدِ اعظم کو فاجرقائد کہنے والے سوچیں توذرا کہ امّتِ مسلمہ کے باب میں اتنا بیدار ذہن خدائے رحمان رحیم فاجروں کوعطاکرتاہے؟پروفیسر صاحب یہ سن کر خاموش توہوگئے لیکن شرمندگی اورناکامی کا اظہار کئے بغیرمنہ بسورتے ہوئے چل دیئے۔
معززسامعین!آپ اس معجزے سے کس طرح انکار کر سکتے ہیں کہ نزولِ قرآن اور لیلتہ القدر کی بابرکت ساعتوں میں27رمضان المبارک 1366ھ بمطابق 14/اگست1947ءکوپاکستان کاعالمِ وجود میں آنا اللہ تبارک و تعالیٰ کا مسلمانانِ برِعظیم کیلئے ایک عظیم تحفہ ہے۔یوں یہ مملکتِ خدادا کہلائی۔ ریاست مدینہ کے بعد یہ دوسری اسلامی نظریاتی مملکت معرضِ وجود میں آئی۔قائد اعظم محمد علی جناح نے 25جنوری 1948ءکو کراچی بار ایسوسی ایشن کی سیرت کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے فرمایاکہ”میری سمجھ میں نہیں آتا کہ یہ شر انگیزی کیوں کی جا رہی ہے اور یہ پروپیگنڈہ کیوں ہو رہا ہے کہ پاکستان کا آئین شریعت پرمبنی نہیں ہوگا۔پاکستان میں اسلامی اصول اس طرح نافذالعمل ہیں جیسے 1300سال قبل نافذ ہوئے تھے۔”بانی پاکستان کا اشارہ واضح طور پر ریاستِ مدینہ کی طرف ہے۔
قیامِ پاکستان کا پس منظر ہندو کانگریس اور برطانوی سامراج کی مسلم دشمنی کا برِعظیم میں ایک ناپاک گٹھ جوڑ اور بھیانک و سیاہ باب پر مبنی ہے۔1946 ء میں لندن کانفرنس کے دوران ہی ایک بڑی سازش کے تحت جواہر لال نہرو کے دیرینہ دوست لارڈ مونٹ بیٹن کا گورنر جنرل مقرر ہونا،اس سازش میں شریک کرشنا مینن ایک شدت پسند کیمونسٹ لیڈر جس نے بسترِ مرگ سے اس سازش کا انکشاف کیا۔اس نے “فریڈم ایٹ مڈ نائٹ” کے ایک مصنف کے سامنے یہ راز بھی افشاء کیاکہ ماؤنٹ بیٹن کو گورنر جنرل مقرر کرانے کی جو کامیاب کاوش ہوئی ،اس میں یہ بھی طے پایا تھا کہ یہ رازمسلمانانِ برعظیم کو معلوم نہ ہونے پائے ،ورنہ ماؤنٹ بیٹن کی افادیت ختم ہو جائے گی۔واقعی راز فاش نہ ہوا، قائد اعظم اور لیاقت علی خان کانفرنس کے سلسلے میں وہاں موجود تھے،انہیں بھی اس ناپاک سازش کی بھنک تک نہ پڑی۔
ماؤنٹ بیٹن نے ایٹلی وزیر اعظم کی ہدائت کے مطابق پہلے سرتوڑ کوشش کی کہ برِعظیم تقسیم نہ ہونے پائے ۔مسلم لیگ کا سربراہ اورمسلمانانِ برِعظیم کا قائد اعظم محمد علی جناح متحدہ برِ عظیم کے فلسفے کے خلاف ہمت،شجاعت،حوصلہ اور عزم کی چٹان بن گیا اور دونوں مسلم دشمن سامراجیوں کوجھکناپڑا۔تقسیم کا فیصلہ ہوا لیکن اس کے پردے میں وہ سب کچھ کیاجوبقول قائداعظم محمد علی جناح “دشمن چاہتاہے کہ پاکستان بنتے ہی گائب(غائب) ہو جائے”۔قائد اعظم محمدعلی جناح کے اس وجدان کاثبوت خودمیں نے اپنی آنکھوں سےلندن میں دارلعوام کی ڈیبٹ رجسٹر میں دیکھا جس میں وزیر اعظم برطانیہ ایٹلی نے”انڈیا انڈیپینڈنٹ بل”پر تقریر میں یوں کہا کہ “برعظیم کو دو ممالک میں تقسیم کرناایک عارضی عمل ہے ،بہت جلددونوں دونیشن ایک بڑی ڈومینئن میں متحدہو کر”کامن ویلتھ”میں شریک ہوجائیں گی۔”(کالم1246)۔ اس وقت کے حزبِ اختلاف کے رہنما میکڈونلڈ نے بھی غیر معمولی طور پر وزیراعظم سے متفق ہو کر کہاکہ”انڈیاانڈی پینڈنٹ بل”میں ایسے جراثیم پائے جاتے ہیں کہ یہ دونوں ممالک زیادہ دیر تک علیحدہ نہ رہیں گے (کالم1242)
برِ عظیم کی آزادی کیلئے دارلعوام میں 30جون1948ءتک کی مدت طے پائی تھی،ماؤنٹ بیٹن نے اس مدت کو مختصر کرکے جلد از جلد آزادی دینے کا فیصلہ کیا ۔برِعظیم کی تقسیم کی خفت کی وجہ سے جلد بازی اس لئے کی کہ پاکستان سنبھل نہ پائے۔قائد اعظم نے اس جلد بازی کی سخت ترین مخالفت کی اور دارلعوام کے فیصلے کی مدت پر قائم رہنے کیلئے زور دیا ۔کسے کیا معلوم کہ اللہ تعالیٰ برِ عظیم کے مسلمانوں کیلئے کیا عظیم تحفہ دیناچاہتاہے۔ماؤنٹ بیٹن نے اپنی ذاتی خوشی کیلئے برطانوی اوربرعظیم کے لیڈروں سے بغیرصلاح ومشورہ کے 15/اگست1948ءکی تاریخ کا اعلان کردیا۔یہ تاریخ وائسرے ہند لارڈ ماؤنٹ بیٹن کی زندگی میں بڑی خوشی کادن تھاجب وائسرائے ہند لارڈ ماؤنٹ بیٹن جنگِ عظیم دوم کے دوران برما محاذ کا کمانڈر تھا،اسی تاریخ کو جاپان نے ہتھیار ڈالے تھے۔
برعظیم کی آزادی اس سرنڈر کی دوسری سالگرہ کے موقع پر دینا ایک اور تاریخی کامیابی قرار دے کرتاریخ میں خوش قسمتوں میں اپنا نام لکھوانا مقصود تھا۔اسے کیامعلوم کہ قائد اعظم محمد علی جناح کی مخالفت کی توپرواہ نہ کی لیکن ہندوراشٹر کے اصل حکمراں جوتشی اورستارہ شناسوں کی مخالفت کے سامنے ہتھیار ڈالنا پڑیں گے۔جوتشیوں نے 15/اگست کو “منحوس”قرار دیدیا۔ہندو رہنما تو خاموش رہے لیکن اس طاقتور طبقہ نے طوفان برپا کردیا اوربزدل اور مکار وائسرائے ہند لارڈ ماؤنٹ بیٹن اس مخالف مہم سے بوکھلا گیا۔اس کی بوکھلاہٹ تب کم ہوئی جب جوتشیوں نے 14/اگست کو”مبارک”قرار دیا۔بزدل اور مکار وائسرائے ہند لارڈ ماؤنٹ بیٹن نے اس سیلاب کو روکنے کیلئے اپنی خواہش کو برقرار رکھتے ہوئے اور جوتشیوں کو بھی تسلی بخش طریقہ بتا کر بڑی چالاکی سے نئی تاریخ یوں پیش کی کہ آزادی کی تاریخ “منحوس کو مبارک دن” کے قریب ترین آدھی رات 14/اور15/ کی درمیانی شب بارہ بجے متعین کر دیا۔ہندو جوتشیوں نے ٹھیک بارہ بجے پوجا پاٹ کے دوران بجانے والا سنکھ بجا کر آزادی کے حصول کا مضحکہ طریقہ اپنایا، حالانکہ قانون ساز اسمبلی کواقتدار 15/اگست کوہی منتقل کیا گیااور دوسری طرف پاکستان کو پہلے ہی 14/ اگست کواقتدار اسمبلی کو منتقل کر دیا گیا تھا۔
یہی انسانی مشقیں ہوئیں اور مسلم دشمن ،بزدل اور مکار بزدل اور مکار وائسرائے ہند لارڈ ماؤنٹ بیٹن خود ہی اس ساعت کی طرف کھنچ کر آگیا جو اللہ تعالیٰ کو منظور تھا۔یوں 14/اور15/اگست کی درمیانی رات 27رمضان المبارک کاآغاز 14/اگست کومغرب غروبِ آفتاب سے شروع ہوا۔ اسی رات نزولِ قرآن اورلیلتہ القدر کی مبارک ساعتیں آن پہنچیں،اور وہی ہوا جو منظورِ خدا تھا۔ انہی بابرکت ساعتوں میں پاکستان عالمِ وجود میں آگیااور مملکتِ خداداد کہلایا۔14/ اگست1947ءقیامِ پاکستان کا بچہ بچہ جانتا ہے کہ یہ اسی کے مطابق ہے جو ہجری سال 1366میں 27 رمضان المبارک کو ظہور پذیر ہوا۔اس کی دینی فضیلت تو عالمِ اسلام میں نمایاں ہے اور اس کی ملی اہمیت بھی بہت اہم ہے۔ 27رمضان المبارک کے حوالے سے قیامِ پاکستان کی اہمیت کو نئی نسل تک روشناس کرانے اور اس پر عمل کرنے کیلئے قومی سطح پر جنگی بنیادوں پر لائحہ عمل تیار کرنے کی جو اشد ضرورت تھی ، قائد اعظم محمد علی جناح کے جلد انتقال کے بعد ہمارے بے عمل اور لالچی حکمرانوں نے اس پر بھرپور توجہ نہیں دی لیکن میرا وجدان اب بھی اس بات کی گواہی دیتا ہے کہ اب بھی اگر قدرت کی طرف سے عنائت کردہ اس معجزہ نما ریاست کیلئے ایسی منصوبہ بندی کی جائے جس کا ہم نے اپنے پروردگار سے وعدہ کیا تھا تو ہم یقینا ً اپنی منزلِ مقصود پر پہنچ سکتے ہیں ۔
بقول قائد اعظم محمد علی جناح “پاکستان منزل نہیں بلکہ منزلِ مقصود کا وسیلہ ہے۔”،”پاکستان اسلام کا قلعہ ہے”اور یہ قلعہ اس وقت اسلام دشمن قوتوں کی گولہ باری کی شدید زد میں ہے۔ اسے محفوظ کرنے کیلئے عوام جو طاقت کا سرچشمہ ہیں انہیں واپس انہی اصولوں کی طرف لوٹنا پڑے گا جس کا ربِ کریم نے حکم دے رکھا ہے۔بندوں کو بندوں کی غلامی سے نکال کر اللہ کی غلامی میں دینا ہو گا اور اس کیلئے قرآن و سنت کے سر چشمے ہمارا انتظار کر رہے ہیں۔ جس دن ہم اس مغربی جمہوریت کے فریب سے نکل کرصرف قرآن کواپناآئین مان کر واقعی قرآن و سنت کو اپنی زندگی کے ہرشعبے میں نافذ کر لیا اور محمد عربی ﷺ کو اپنا رہبر مان لیا تو یہ قوم ایک سیسہ پلائی ہوئی مضبوط دیوار کی طرح کامیابی و کامرانی کے تمام مدارج طے کرلے گی۔اللہ ہمارا حامی و ناصر ہو!ثم آمین
(بروزبدھ 27ذوالقعد1405ھ 14/اگست 1985ء کومسلم سوسائٹی کے کنونشن میں لیکچر)