Hussain is ours!

حسینؓ ہمارے ہیں۔۔۔۔۔۔!

:Share

محرم الحرام کے حوالے سے خصوصی تحریر

یہ بہت خوشی کی بات ہےکہ محرام الحرام شروع ہوتے ہی ساراملک اللہ کے فضل سے حسینی بن جاتاہے،ہربات سے اختلاف ہو سکتاہے لیکن اس بات پرساری قوم کااتفاق ہے کہ” حسینؓ ہمارے ہیں”توپھرکیوں نہ ہم آج ایک فیصلہ کریں کہ آج کے بعدجوطرز حکومت،جوانداززندگی، جواسلوب،اور روشن نقوش،حضرت حسینؓ نے چھوڑے ہیں،ہم ان سے انخراف کرکے کسی فرقہ پرستی، کمیونزم،سوشلزم،اورباقی ازم جوہم نے بنائے ہوئے ہیں، ان پرلعنت بھیجتے ہیں اورنفرت کااظہارکرتے ہیں۔آئیےآج اس بات کاعہدکریں کہ حضرت حسینؓ نے جن عظیم مقاصدکیلئے قربانی دی،ان مقاصدکو ہم اپناشعاربنائیں گےلیکن افسوس کہ آج ان مقاصد کی طرف کوئی نہیں دیکھتا۔ صرف اپنے مفادکے حصول کیلئے نام لئے جاتے ہیں۔پہلی بات میں عرض کرناچاہوں گا،شہادت نعمت ہےیامصیبت؟اگرشہادت مصیبت ہے،تورویا جائےگا،ماتم کیاجائےگا،پیٹاجائےگااوراگر شہادت نعمت ہےتوخراج تحسین پیش کیاجائے گا۔شہادت یقیناًنعمت ہے،اورمیرے رب کافرمان ہےکہ شہیدزندہ ہوتاہے مگرتمہیں شعورنہیں۔ اور جو لوگ اللہ کی راہ میں مارے جائیں ، انہیں مُردہ نہ کہو ، ایسے لوگ تو حقیقت میں زندہ ہیں ، مگر تمہیں ان کی زندگی کا شعور نہیں ہوتا۔﴿البقرہ:154﴾
شہادت ہے مطلوب ومقصودمومن
نہ مال غنیمت نہ کشورکشائی

یہاں سے پہلے کیوں نہ شروع کریں اورآج طے کرلیں کہ شہادت کے دن سے پہلے سوگ منانا ہے یا بعد میں، پہلے منانا ہے تو کتنے دن پہلے شروع کریں، اور بعد میں کتنے دن تک لے جانا ہے۔ اسلام کی تاریخ تو شہیدوں کے خون سے رنگین ہے، کیا تاریخ اسلام میں ایک ہی امام مظلوم حضرت حسینؓ ہیں، نہیں،آپ کواسی تاریخ میں حضرت عثمان غنی جیسا مظلوم بھی نظر آئے گا کہ جن کی حکومت 44 لاکھ مربع میل پر تھی،جن کے درِاقدس پر سیدنا حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے حکم پر حضرت حسنؓ اورحضرت حسینؓ پہرہ دیتے رہے، جو چالیس دن تک پیاسے رہ کر پیغمبرﷺ کے شہرمدینہ میں شہید ہو گئے لیکن آج اس دن عید منائی جاتی ہے،آخر کیوں؟ کیوں اس دن تعطیل نہیں منائی جاتی؟

یکم محرم امام عدل و حریت حضرت فاروق اعظمؓ کی شہادت کا دن ہے لیکن کسی نے اس دن تعطیل کا مطالبہ نہیں کیا۔ 21 رمضان المبارک جناب حضرت علی المرتضیؓ کی شہادت کا دن ہے، 22 جمادی الثانی صدیق اکبرؓ کی وفات کا دن ہے، 15 شوّال سید الشہداء حضرت حمزہؓ کی شہادت کا دن ہے، پیغمبراسلام ﷺ کے فرمان کے مطابق وہ تمام شہیدوں کے سردار ہیں، ان تمام شہداء کے دنوں پر عام تعطیل کیوں نہیں ہوتی؟ صرف محرم الحرام کے چند دن تمام ملک کے سرکاری اورغیرسرکاری اداروں میں کیوں تعطیل کی جاتی ہے؟ آخر یہ کن عوامل پر طے ہو گا کہ کن عظیم المرتبت شہداء کی یاد میں ہماری عدلیہ، قانون ساز اسمبلی اور صوبائی اسمبلیاں، تمام تعلیمی ادارے مکمل بند ہوں گے؟کیا ہمیں رسول اللہ ﷺ کی حیاتِ مبارکہ میں کسی شہید کے نام پر تعطیل کا حکم دیا گیا؟سیدنا امیر حمزہ توسید الشہداء قرار دیئے گئے لیکن آپ نے تو ان کے بھی یوم شہادت کو تعطیل کا حکم نہیں دیا۔۔۔۔۔ اگر نہیں تو ہم کب اپنا یہ غیر منصفانہ طرزعمل بدلیں گے؟
بند کیجئے یہ جمہوریت کے نعرے؟ ملک میں بسنے والےکروڑوں افراد کے دلوں پراس دن چھریاں چلتی ہیں جب سیدنا حضرت عمرؓ فاروق کی شہادت کا دن ہوتا ہے، تو کوئی پوچھنے والانہیں ، حضرت عثمانؓ کی شہادت کا دن ہوتا ہے۔ کسی سرکاری وغیر سرکاری ادارے کو خبرتک نہیں۔ اگرآپ تاریخ اسلام دیکھیں تو کوئی دن بھی شہادت سے خالی نظر نہیں آئے گا، چھٹی کیجیے، سارا سال گھروں میں آرام کریں، کارحکومت کو بند کریں، پہلے حکومت کون سے تیر مار رہی ہے، ویسے بھی شب روز ہمارے حکمرانوں کی ایک دوسرے پر دشنام طرازی کا مقابلہ جاری ہے جس نےمعاشی بدحالی اور سیاسی ابتری کے سارے ریکارڈ توڑ دیئے ہیں۔اب تو بہانہ بھی میسر آ گیا ہے کہ سارے دن تو شہیدوں کے دن ہوتے ہیں۔ لیکن کیا واقعی شہیدوں نے ہمیں چھٹی کرنا سکھایا ہے۔شہیدوں نے تو ہمیں درد دیا ہے، اب تو یہ ہمارا کام ہے کہ ایسے قیمتی درد کو کہاں اور کیسے سنبھالیں کہ یہ درد ہماری عقبیٰ وآخرت کی نجات کا وسیلہ بن جائے ۔

آیئے دس محرم کوفیصلہ کیجیے کہ حسینؓ جس عظیم مقصد کیلئے آپ نے جان دی ہے۔ہم آپ کے اس عظیم مقصدیعنی اسلام کی سربلندی کیلئے،اسلام کے خلاف جوسازشیں اٹھائی گیئں، جو اسلام کے خلاف کسی انداز سے کوئی سازش سامنے آئے گی تو ہم اس کا بیڑہ غرق کرکے دم لیں گے، ہم انہیں کیفر کردار تک پہنچا کر دم لیں گے۔ دس محرم کو ایک مضبوط عزم کے ساتھ یہ فیصلہ کریں کہ حضرت حسینؓ نے ہمیں رونے اورپیٹنے کیلئے نہیں چھوڑا بلکہ دنیامیں جاری فسق و فجور ،ظلم و ستم اور فرقہ واریت کو ختم کرنے کیلئے اپنے نانا محمد عربیﷺ کے لائے ہوئے دین کو من و عن نافذ کرنے کیلئے اپنے پورے خانوادہ کی لازوال قربانی دی۔

دکھ تو اس بات کا ہے کہ آج حسینؓ کا نام وہ لیتے ہیں جنہیں نمازیں نصیب نہیں، قرآن کی تلاوت نصیب نہیں، آج سیدہ زینبؓ اور سیدہ ام کلثومؓ اور حضرت فاطمہؓ جن کے رات کی تاریکی میں جنازے اٹھے اور آج ہماری خواتین ان صدموں کی یاد دن کے اجالے میں ننگے سر بکھرے بالوں سے مناتی ہیں، ایمانداری سے سوچیں اور فیصلہ کریں کہ آخر ہمارے اس عمل کا ان پاکیزہ نفوس سے کیا تعلق ہے؟ کیا نسبت ہے؟ کیا رشتہ ہے ان عظیم شخصیات سے؟ ان سے اگر کوئی تعلق ہے تو آج طے کرنا ہو گا اور عہد کرنا ہو گا کہ ہم اس ملک میں وہ نظام لائیں گے جس کیلئے نواسہ رسول نے خود نماز کی حالت میں اور اپنی آنکھوں کے سامنے اور اپنی گود میں اپنے ننھے اور معصوم بیٹے کے حلق میں اترے ہوئے تیر کے بعد بہنے والے خون کو اپنے ہاتھوں میں جمع کرکے رب سے فریاد کی کہ اے بارالہٰ اگر تو اس طرح راضی ہے تو میں تیری مرضی پر راضی البرضا ہوں۔ کیا ہمیں معلوم نہیں کہ میرے آقا ﷺ نے توان کی ماں کی گود میں ہی”جنت میں جوانوں کے سردار”ہونے کی خوش خبری سنادی تھی: یہ حسینیت ہے،اوراگر۔۔۔۔!
نام حسینؓ کا لیا جائے!……………… فحاشی عام ہو
نام حسینؓ کا لیا جائے!……………… رشوت عام ہو
نام حسینؓ کا لیا جائے!……………… بے حیائی عام ہو
نام حسینؓ کا لیا جائے!……………… شراب کادورچلے
نام حسینؓ کا لیا جائے!……………… رات کوشباب وکباب کی محفلیں جمیں
ان کا حسینؓ سے کوئی تعلق نہیں!……………… یہ حسینی نہیں ہیں
جو حسینؓ کے کردارکو اپناتا ہے۔……………… حسینؓ سے تعلق اسی کاہے

سوال یہ ہے کہ کیا ہم میں کوئی ایسامحب رسول نہیں بچا جو رسول اللہ ﷺ کے اتنے قریبی رشتہ دار صحابہ اور دیگر صحابہ پر زبان طعن درازکرنے والوں کوزبانی جواب ہی دے سکے؟آخر ہماری غیرت ایمانی کوکیاہوگیاہے؟کیاہم مسلمانوں کوقرآن کی یہ آیت بھول گئی ہے:
بلاشبہ نبی تواہل ایمان کیلئےاُن کی اپنی ذات پرمقدم ہے،اورنبی کی بیویاں اُن کی مائیں ہیں، مگر کتاب اللہ کی روسےعام مومنین و مہاجرین کی بہ نسبت رشتہ دارایک دوسرےکے زیادہ حقدار ہیں، البتہ اپنےرفیقوں کےساتھ تم کوئی بھلائی (کرنا چاہو تو) کر سکتے ہو۔ یہ حکم کتابِ الٰہی (قرآن)میں لکھا ہوا ہے۔(احزاب:6)
اب یہ ہم پرمنحصرہے کہ حسینؓ ہمارے ہیں یاہم حسینؓ کے ہیں!

اپنا تبصرہ بھیجیں