Hated power and fight

اقتداراورجوتم پیزار

:Share

ہرسال کیلینڈرپرجب ماہ اگست شروع ہوتا ہے تواس صدی کاسب سے بڑامعجزہ اوررب کائنات کاسب سے بڑاانعام”پاکستان” ہم سب کی خوابوں کی تعبیرسجدہ شکربجالانےکاتقاضہ کرتا ہے۔ قائداعظم کی قیادت کاسب سے بڑاکارنامہ پاکستان کاقیام ہے لیکن پاکستان کے قیام کی حقیقت کیاہے؟یہ برصغیرکی سیاسی صورتحال کااتفاق ہے،کوئی تاریخی حادثہ ہے، برطانوی ہندکی وحدت کوختم کرنے کی سازش ہے یاانسانی معاشرت کیلئے اللہ تعالیٰ کے قوانین کے عمل اورردِّعمل کانتیجہ ہے؟حقیقت یہ ہے کہ پاکستان دورِحاضرہ میں عالمگیرامت مسلمہ کی بازیافت کااعلان ہے اوریہ بھی حقیقت ہے کہ !……….ہم
ستیزہ کاررہاہے ازل سے تاامروز
چراغِ مصطفوی سے شراربولہبی

1924ءمیں سلطنتِ عثمانیہ کے خاتمے کے ساتھ وہ برائے نام مرکزیت جومسلمانوں کوحاصل تھی وہ بھی ختم ہوگئی اوراس پر مسلمانوں سے دائمی بغض اورعنادرکھنے والی طاقتوں نے اطمینان کاسانس لیالیکن اس واقعے کے سولہ برس بعدیعنی1940ءمیں برصغیرکے مسلمانوں نے اپنےعالمگیرملی تشخص کا اعلان کرتے ہوئے پاکستان کامطالبہ کردیا۔غورکیجئے تواندازہ ہو جائے گاکہ برصغیرکے مسلمانوں نے پاکستان کے قیام کامطالبہ کرکے اجتماعی سطح پر اصولی اعتبارسے اتباعِ سنتِ نبویۖ کافریضہ سرانجام دیاہے۔ہمارے ہادی برحق رسولِ اکرم ﷺنے ایمانی رشتے کی بنیادپرایک عالمگیرامتِ مسلمہ کی تشکیل فرمائی۔برصغیرکے مسلمانوں نے دورِحاضرمیں اسی تشخص کی تجدیدفرمائی۔رسولِ اکرمﷺنے یثرب کی سرزمین کوپہلی اسلامی ریاست کیلئے منتخب فرمایا، برصغیرکے مسلمانوں نے اعلان کیاکہ یہاں اپنے اکثریتی علاقوں کوایک آزاداورخودمختارمملکت کی شکل دیکروہ اسے دورحاضرمیں “عمل پذیراسلام کی تجربہ گاہ”بنائیں گے۔یثرب مدینتہ النبی ﷺ بنا،یہ خطہ پاکستان بنا۔

ایک اورحیرت انگیزبات یہ کہ دنیاکے دیگرتمام علاقوں کے مقابلے میں برصغیرکے مسلمانوں کی تعداد سب سے زیادہ تھی اورجب پاکستان کامطالبہ کیا اس وقت یہاں مسلمانوں کی تعداد دس کروڑکے لگ بھگ تھی لیکن ہندواکثریت کے مقابلے میں وہ تعداد بہت کم تھی،یعنی ایک چوتھائی تھی۔تعدادکی وہ کمی پیشِ نظررکھئے اورقرآنِ پاک میں سورة الانفال کی 26ویں آیت مبارکہ پرغور کیجئے جس میں ارشاد ہواہے:
تم زمین میں تھے،تمہیں بے زورسمجھاجاتاتھا،تمہیں خوف تھاکہ لوگ تمہیں مٹانہ دیں،پھراللہ نے تمہیں جائے پناہ مہیاکی،اپنی مدد سے تمہارے ہاتھ مضبوط کئے اورتمہیں اچھارزق دیا،شائد کہ تم شکرگزاربن سکو”۔
آں کتاب زندہ،قرآن حکیم
حکمت ولایزال است وقدیم

پاکستان دورِحاضرمیں اس ارشادِ قرآنی کی تشریح اوراسلام کی نشاطِ ثانیہ کی علامت کے طورپروجودمیں آیاہے اوراس تاریخ ساز عمل میں قائداعظم محمدعلی جناح کی قیادت نے اساسی اورکلیدی کرداراداکیاہے۔یہ بہت بلندرتبہ ہے اوراسی زاویہ نظرسے قائد اعظم کے شخصی کردارپربھی غوروفکرکی ضرورت ہے کہ اسلامی تعلیمات کی روشنی اوررسول اکرم محمد ﷺ کی ذات ِ اقدس سے قلبی وابستگی نے ان کی شخصی اورسیاسی دونوں زندگیوں کوکس طرح باہم مربوط اورمنظم کیا۔ قائد اعظم نے قانون کی تعلیم حاصل کرنے کیلئے برطانیہ میں”لنکن ان”میں داخلہ لیاکیونکہ وہاں دنیاکی قانون ساز شخصیات میں سرِفہرست ہمارے رسولِ اکرم ﷺ کا اسمِ گرامی تحریرتھااورپھرنصف صدی بعد قیامِ پاکستان کے وقت اقتدارکی منتقلی کرتے ہوئے لارڈ ماؤنٹ بیٹن نے جوہم پر طنزکیاتھا،یہ کہہ کر”مجھے امیدہے کہ پاکستان میں اقلیتوں کے ساتھ رواداری کاوہی سلوک کیاجائے گاجیسااکبرِاعظم کے دورمیں کیاگیاتھا “توقائدنے فوری جواب میں کہاتھاکہ “مسلمانوں کی رواداری اکبرِاعظم تک محدودنہیں ہے بلکہ ساڑھے تیرہ سوبرس پہلے ہمارے پیارے رسول اکرم محمد ﷺنے یہودیوں اورعیسائیوں کوفتح کرکے ان سے نہ صرف منصفانہ بلکہ فیاضانہ سلوک کیاتھا”۔

نوجوان قائدکے قلب میں رسول اکرم ﷺ سے وابستگی کی جوایک روشن کرن تھی،اسی کرن کی روشنی ان کیلئے سیاست کی راہ کے انتہائی صبرآزماسفر میں بھی زادِراہ بنی رہی۔شخصی اعتبار سے قائداعظم میں خامیاں بھی رہی ہوں گی لیکن ان خامیوں کے اثرات ان کی ذات پریااس سے متعلق افرادتک رہے جبکہ ان کی خوبیوں کے اثرات ان کی قیادت میں نمایاں ہوئے جس کی توانائی نے برِصغیرکے مسلمانوں کی اجتماعی زندگی پردیرپااورتاریخ ساز اثرات مرتب کئے۔

قائد اعظم نے قیامِ پاکستان کاجوکارنامہ انجام دیاوہ اس اعتمادکے بغیرممکن نہیں ہوسکتاتھاجوپورے برِصغیرکے آبادمسلمانوں نے ان کی قیادت پرکیا ۔ انہوں نے اقلیتی صوبوں کے مسلمانوں کوکبھی کسی غلط فہمی میں نہیں رکھابلکہ بالکل واضح طورپرباربار اعلان کیاکہ پاکستان اکثریتی صوبوں میں بنے گااور اقلیتی صوبوں کے مسلمانوں کواس عظیم مقصدکیلئے قربانیاں دینی ہوں گی۔سر زمین پاکستان کی آزادی کی یہ انفرادیت ہے کہ اس سرزمین کی آزادی کیلئے ان مسلمانوں نے بھی سوچ سمجھ کرقربانیاں دیں جن کا اس سرزمین سے کوئی براہِ راست کوئی رشتہ نہیں تھالیکن یہاں آبادمسلمانوں سے ایمانی رشتے کے تقاضے کاان کوپوراشعور تھا،تاریخ میں اس کی کوئی دوسری مثال موجونہیں ہے۔یہ قائداعظم کی قیادت کی سحرانگیزی تھی اوروہ سحر انگیزی سچائی کی تھی، امانت ودیانت کی تھی۔انہوں نے جذباتی نعرے بازیاں کبھی اختیارنہیں کیں۔ان کودوبہت بڑی طاقتوں کاسامناتھا،ایک ہندو کانگریسی قیادت اوردوسری برطانوی حکومت۔مادی اعتبارسے صورتحال بے سروسامانی کی تھی،مسلمان منتشرتھے،بکھرے ہوئے تھے لیکن ایمانی توانائی مسلمانوں کو بہرحال حاصل تھی۔قائداعظم کی قیادت کی صداقت نے اسی ایمانی توانائی کاشعور مسلمانوں میں بیدارکردیا۔اصل توانائی ان دیکھی طاقتوں کوہی حاصل ہوتی ہے۔ایمان ان دیکھی توانائی ہے لیکن ساری نظرآنے والی طاقتوں پرغالب آجاتی ہے، اور یہ حقیقت ہے کہ:
آج بھی ہوجوبراہیم کاایماں پیدا
آگ کرسکتی ہے اندازِگلستاں پیدا

قیامِ پاکستان کی راہ کی رکاوٹیں سامنے لایئے،مخالفین کی بھرپورسازشی منصوبہ بندیاں پیشِ نظررکھئے،اس قتل وغارت گری کا تصورکیجئے جوصرف اس لئے برپاکی گئیں کہ پاکستان مستحکم بنیادوں پرقائم نہ ہوسکے اوروہ پھرجذبہ،وہ عزم اورتعمیرکافیصلہ کن اندازجس سے جوکچھ بظاہرناممکن نظرآرہاتھا، اسے ممکن بنادیا۔پاکستان کاقیام دورِحاضرمیں اسلام کے احیاءکے حوالے سے خصوصی اہمیت کاحامل ہے۔سورة الانفال میں ارشاد ہواہے:
وہ اپنی چالیں چل رہے تھے، اور اللہ اپنی تدابیرفرمارہاتھااوراللہ سب سے بہترتدبیرکرنے والاہے”
اورسورة ابراہیم میں ارشادہے:کافروں نے اپنی ساری چالیں چل دیکھیں لیکن ان کی ہرچال کاتوڑاللہ کے پاس تھا،حالانکہ ان کی چالیں ایسی غضب کی تھیں کہ پہاڑبھی اپنی جگہ سے ٹل جائیں(46)۔سچی بات یہ ہے کہ:
جہاں ہوں سعی بشرکی تمام راہیں بند
دیاردوست کارستہ وہیں سے کھلتاہے

ارشاداتِ قرآنی پیش نظررکھئے اورپاکستان کے قیام سے لیکرپاکستان کے ایٹمی طاقت بن جانے تک کے واقعات پرغور کیجئے، انسانی معاشرت کیلئے قدرت کی منصوبہ بندی کی کارفرمائیاں واضح ہوتی چلی جائیں گی ۔قیامِ پاکستان کی ایک وجہ ہمارے مخالفوں کاشدیدتعصب اورسیاسی ریشہ دوانیاں بھی بنیں۔قیامِ پاکستان کومتزلزل کرنے کی ہرممکن کوششیں کی گئیں اورہرکوشش ناکام ہوئی اورایٹمی طاقت کی حیثیت سے نمایاں ہونے میں جس عمل نے ہمارے لئے سب سے بہتردلیل فراہم کی وہ بھارت کاایٹمی دھماکہ تھا۔پاکستان کی داخلی صورتحال اوراس کے وجودکے علاقائی اورعالمی اثرات پرمسلسل تدبراورتفکر کی ضرورت ہے۔ جہاں ہم داخلی سطح پرسماجی تطہیرکے مرحلوں سے گزرہے ہیں(وہاں نائن الیون کے بعد اس خطے کی صورتحال بالکل بدل چکی ہے۔پاکستان دشمن قوتیں بھوکے بھیڑیوں کی طرح ہم پرٹوٹ پڑی ہیں اورایک فاسق وفاجرجنرل ہمیں جن خطرات کے بھنور میں پھینک کرپہلے ملک سے فراراوراب اللہ کےہاں بلالیاگیاہے،لیکن اس کے بوئے کانٹوں کی فصل اس کے بعدہرآنے والی حکومت کی شکل میں قوم کوکاٹناپڑی ہے اور اب بھی موجودہ حکومت تواس سے بھی دس قدم آگے چل رہی ہے،اس لئے اس وقت دشواریاں پہاڑوں جیسی معلوم ہوتی ہیں)۔قیامِ پاکستان کا علاقائی اثریہ ہواکہ بھارت اس سارے علاقے پراپناتسلط قائم نہیں کرسکااور عالمی اثریہ ہواکہ جہاں اسلام عالمی سطح پرنمایاں سے نمایاں ترہوتا چلاگیا وہاں ہماری بداعمالیاں اورنافرمانیوں نے یہ روزِ بدبھی دکھایاہے کہ ایک ایٹمی قوت کاحامل ملک معاشی طورپراس قرکمزوروناتواں کردیاگیاہے کہ عالمی گدھ شب وروزاس کے گردمنڈلا رہے ہیں۔

وقت کے دوپیمانے ہیں،شب وروزاورماہ وسال۔ایک پیمانہ اللہ تعالی نے ہمارے کاموں کیلئے مقررکیاہے۔دوسراپیمانہ اللہ تعالی کے اپنے حساب کاہے جس کاایک”یوم”ہمارے ایک ہزارسال کے برابریااس سے بھی کہیں زیادہ کاہے۔دورِرسالت مآبﷺمیں انسانی معاشرت کیلئے اللہ تعالی کے مقرر کردہ قوانین اورانسانی اعمال میں مکمل ہم آہنگی،مثالی ہم آہنگی ہوگئی تھی لہنداتاریخ کی مکمل روشنی میں ایک مثالی معاشرہ،ایک مثالی مملکت وجود میں آگئی۔اس مثالی معاشرے کی روشنی جہاں تک پہنچائی جاسکتی تھی مسلمانوں نے پہنچائی۔ زمانے کا،انسانی معاشرہ کا،سفرتواب بھی اسی سمت ہے لیکن اس راہ پرہم مسلمانوں کواپنے ایمان وعمل سے جو روشنی پھیلانی چاہئے تھی کہ سفرمیں تیزی آجائے،ہم صدیوں سے اپنا وہ فریضہ بھلابیٹھے ہیں۔قیامِ پاکستان نے ہمیں دورِ حاضر میں اپنے ایمانی کردارکی ادائیگی کاایک اورموقع فراہم کیاہے۔پاکستان میں ہم گزشتہ75سالوں میں اپنے فرائض کی ادائیگی میں کوتاہی کرکے یااس کے شعور سے محروم ہوکرجووقت ضائع کرچکے ہیں اوراس سے نسلِ انسانی کاجوخسارہ ہواہے ہم سب کواپنی اپنی ذمہ داریوں کے اعتبارسے اللہ کے سامنے اس کی جوابدہی کرنی ہوگی ۔کیاواقعی ہماراایمان ہے کہ جوابدہی ہوگی؟کیاہم کو اس حقیقت کاشعوربھی ہے کہ و ہ جوابدہی ہونی ہے اورضرورہونی ہے؟قیامِ پاکستان کے ساتھ ہی ہم نے بہت بڑی ذمہ داری قبول کرلی ہے۔
بے خبرتوجوہرآئینہ پیام ہے
توزمانے میں خداکاآخری پیغام ہے

لیکن سورة محمدکی آخری آیاتِ مبارکہ کے اختتامی الفاظ بھی کہہ رہے ہیں:”اگرتم اللہ کے حکم سے منہ موڑوگے تواللہ تمہاری جگہ دوسری قوم کولےآئے گااوروہ تم جیسے نہیں ہوں گے”۔اس وقت ہماراسب سے بڑاامتحان یہی ہے۔ کاش!ہمیں اس سچائی کاادراک ہوجائے کہ اللہ کے خوف سے محرومی سب سے بڑی محرومی ،سب سے تباہ کن محرومی ہے جس کاکوئی ازالہ کسی بھی صورت ممکن نہیں ہے!!!

حقیقت یہ ہے کہ چندنوں کے بعدپاکستان 14/اگست کو77سال کا ہوجائے گامگر2022 اب تک کی تاریخ کا بد ترین سال ہے۔یادرہے کہ ارض وطن ایوب خان ،غلام محمد اور جسٹس منیر کی سازشوں کی وجہ سے ابتدا ہی سے مظلوم رہا۔1968میں ایوب گیا،یحیی اوربھٹونے بنگلہ دیش کی بنیادرکھی،لیکن تقسیم کااصل سبب ایوب ہی تھااورپھر1971میں ارض وطن تقسیم ہوگیا ۔18ویں ترمیم کے تحت جوصوبوں کواختیارات تفویض کئے جاچکے ہیں،اگر یہی کام 1970ء میں کرلیاجاتاتوملک تقسیم نہ ہوتا۔پھرشعلہ بیان بھٹو کےدورکی تباہی شروع ہوئی۔بھٹو کے جعلی الیکشن پرپاکستان قومی اتحاد کی طرف سے بائیکاٹ پر1977میں ضیا الحق کامارشل لاآیااور1988 تک قوم نے وہ بھگتا۔پھر1988تا1993جرنیلوں کے ماتحت بینظیراورنوازشریف کے مختصردور،پھر1993تااکتوبر 1999دوبارہ بے نظیراورنوازشریف کے مختصرادوار،اس کے بعد1999سے اگست2008تک نوسالہ پرویزمشرف کی آمریت کا دوررہا۔قوم کی بدنصیبی اورالمیہ یہ بھی ہواکہ اس ملک میں ثاقب نثارنے جسٹس منیرکی بدترین یادتازہ کردی جوآج بھی اس ملک کے خزانے سے لاکھوں روپے ماہانہ اپنی آسائشوں کیلئے وصول کررہاہے۔

پھرزرداری کی صدارت اورپی پی پی کاپانچ سالہ دور۔گیلانی اورراجہ اشرف کا دور،پھرنوازشریف کاتیسرامختصردور،جنرل پاشا ظہیرالاسلام وغیرہ پر سازشوں کاالزام بھی لگا۔خاقان عباسی کا عارضی دوراوربعدازاں جنرل باجوہ کے کندھوں پربیٹھ کرعمران خان نے اقتدارسنبھالا۔عمران کا2018سے اپریل2022 تک پونے چارسالہ کادورحکومت،جس میں جہاں بیرونی قرضوں میں ملک کو ڈبو دیاگیاوہاں ڈیڑھ لاکھ سے زائدجانوں کی قربانیاں دینے والاکشمیرفروخت کردیاگیا۔ملکی تاریخ میں پہلی مرتبہ فوج کے سپہ سالاراوروزیراعظم کوقصرسفیدکے فرعون نے بلاکرجواحکام جاری کئے،ان پر عمل درآمدکیلئے جہاں ایٹمی طاقت سے مسلح فوج کاسپہ سالارباجوہ دودرجن صحافیوں کوبلاکرکشمیرکے معاملے پراپنی بزدلی کااظہارکرتے ہوئے جنگ سے راہِ فرارکاسبق سنارہا تھاجبکہ اسی فوج میں اگرخدمت گزارخچراپنی کارگزاری سے محروم ہوجائے تواسے گولی ماردی جاتی ہے.

اوردوسری طرف عمران نے قوم کی توجہ ہٹانے کیلئے اپنی امریکاسےواپسی پرہوائی اڈے پرہی اپنی پارٹی کے جم غفیرکوبلاکرجلسہ کرکے اعلان کردیاکہ مجھے یوں لگ رہاہے کہ میں ایک مرتبہ پھرورلڈکپ کافاتح بن کرلوٹاہوں اور اس کے ساتھ خودکوہم بدنصیب کشمیریوں کاوکیل بن کرحکم دے ڈالاکہ اب مقبوضہ کشمیرکے متعلق انڈیاکے غاصبانہ قبضے کے خلاف کسی بھی قسم کامظاہرہ کرنے کی ضرورت نہیں،میں خودکشمیرکاکیس لڑوں گا۔وزیراعظم ہاؤس پہنچ کراعلان کیاگیاکہ ہرجمعہ کے دن ساری قوم ایک گھنٹے کیلئے کشمیرکیلئے احتجاج کیلئے باہرنکلے گی اورخود صرف پہلے ہفتے دس منٹ کیلئے وزیراعظم ہاؤس کے باہرفوٹوسیشن کے بعد انہیں کبھی کشمیریادنہیں آیا۔

بادشاہ گرباجوہ جوکشمیرکے معاملے کواپنے مفادات کیلئے قربان کرکے اپنے آقاؤں کے توسط سے نوبل پرائزاورپھرسے توسیع کاخواب دیکھ رہاتھا،آئی ایس آئی کے سربراہ کی تعیناتی پرعمران خان کے ساتھ کھل کراختلافات سامنے آگئے اورفیصلہ کرلیاگیاکہ ایک نیام میں دوتلواریں نہیں سماسکتیں تو پھر عدم اعتمادکافیصلہ ہوگیا۔پاناماکیس میں فارغ کئے جانے والے نوازشریف جوباجوہ کے خلاف کھلم کھلاآن لائن جلسوں میں تقریریں کررہے تھے، زرداری جواینٹ سے اینٹ بجانے کی دہمکیاں دے رہے تھے،اس تمام بھان متی کے کنبے کوجمع کرکے عمران کوفارغ کردیاگیاجبکہ آخری دنوں میں ایوان صدرمیں عارف علوی کی طرف سے بلائی گئی ملاقات میں عمران اپنے اقتدارکوبچانے کیلئے دوبارہ مدت ملازمت میں توسیع دینے کی آفربھی کررہا تھا لیکن گھربھیجنے کافیصلہ ہوچکاتھا۔ آخری حربے کے طورپرقومی اسمبلی کے اسپیکراسدقیصرنے بھی عمران کے احکام کی تعمیل سے معذرت کرلی توڈپٹی اسپیکرسوری کوآئینی طورپرپیش کی گئی تحریکِ عدم اعتمادکاحشرنشرکرنے کیلئے استعمال کیاگیالیکن رات دیرگئے عدالتیں بھی لگ گئیں اورعدمِ اعتمادکی کامیابی کے بعدپی ڈی ایم کاکنبہ اس ملک پرمسلط کردیاگیا۔

پی ڈی ایم کی چندماہ کی حکومت میں نیب کاحشرنشرکرکے کرپشن کے تمام مقدمات ختم کرنے کے قوانین جاری ہوگئے اور پاکستانی روپے کی قدرخوفناک حدتک گرگئی اورملک دیوالیے کے کنارے پہنچادیاگیا۔ادھردوسری طرف2014کے دھرنے سے قوم روزانہ عمران خان کے ایک ایک گھنٹے کے خطاب سنتی چلی آرہی تھی۔عمران خان پرتوشہ خانہ اوردیگربدعنوانیوں اور کرپشن کے مقدمات نے ساری قوم کوچکراکررکھ دیاتھا۔الیکشن کمیشن کے فیصلے نے عمران کے عدالتی امین و صادق کے القاب کومشکوک کردیا۔ادھرقوم کوبھی سیاستدانوں کی تقاریراور بیانات کا نشہ لگ چکاہے اورسیاسی حریف بھی عمران کودوسرابھٹوثابت کرنے پرتلے ہوئے ہیں۔ایک لمبی داستان ہے جس سے آپ سب ہی واقف ہیں۔عمران جیل میں ہے لیکن ایک مرتبہ پھرعدلیہ کی دیوی ان پرایسی مہربان ہوئی ہے کہ ان کے حریف 9مئی کے واقعہ کوبغاوت قراردیکرکبھی اس کی جماعت پرپابندی لگانے کی خواہش کا اعلان کرتے ہیں اورکبھی مفاہمتی بیان سامنے آجاتاہے۔قوم پریشان ہے کہ ملک کواس انتہائی نازک دورسے نکالنے کی بجائے اقتدارکی خواہش میں ایک دوسرے سے جوتم پیزارہیں۔

فوج مارشل لانافذکرے گی توپابندیاں لگ جائیں گی۔عمران کے حوالے کریں گے تومزیدتباہی ہوگی۔موجودہ حکومت کومیڈیااور اپوزیشن چلنے نہیں دیتے ۔عدلیہ کاکرداربھی مشکوک ہوگیا ہے ۔ملک سودی قرضوں تلے ڈوبتاچلاجارہاہے۔اسٹیٹ بینک کوآئی ایم ایف کی غلامی میں دیاجاچکاہے۔ تجارت خسارہ بڑھتاجارہاہے۔ان حالات میں ملک کادھڑن تختہ ہوجائے،پرواہ نہیں۔اب ضرورت اس امرکی ہے کہ فوج سب کواکھٹاکرکے ایک سال کی ایمرجنسی نافذکرے اورتمام سیاسی جماعتوں پرمشتمل قومی حکومت قائم کرے تاکہ معیشت مستحکم ہوجائے لیکن ضدی سیاست دانوں سے اس طرح کی قومی حکومت کے قیام کی توقع نہیں کی جاسکتی جو ملک کودیوالیہ ہونے سے بچالے۔

پھر1971اور1977جیسے حالات ہیں۔ایک دوسرے کوبے ایمان اورکرپٹ ہونے کے الزامات نے ایک خوفناک ماحول پیداکردیا ہے ،پولرائزیشن ہے،قوم تقسیم کی جارہی ہے اورخانہ جنگی کاشدیدخطرہ پیداہوگیاہے۔ساری قوم بے بسی میں اپنے رب سے استغفار کرتے ہوے رحم کی دعامانگ رہی ہے کہ پاکستان کوآزمائش کے دورسے نکال کراسے نیک اورصالح قیادت عطا فرما:آمین

اپنا تبصرہ بھیجیں