ایک وقت تھا کہ ا ہل مغرب کاامت مسلمہ پراعتراض تھاکہ”ہما ری طرح کیوں ہو”اورایک وقت یہ ہے کہ سا ری مغربی دنیا عالم اسلام سے کہہ رہی ہے کہ تم ہما ری طرح ”کیوں نہیں ہو۔” ہما ری طرح کیوں ہو،کاسوا ل اس وقت سے متعلق ہے جب مغرب صرف مغرب نہیں تھا”عیسائی مغرب”تھا۔اس وقت اہل مغرب کومحسوس ہوتاتھاکہ ارے اسلام کے پاس تووہی سب کچھ ہے جوہمارے پاس ہے۔اللہ،آخرت،رسا لت،جنت ودوزخ، وحی اورفرشتے”۔ا ہل مغرب یہ دیکھتے تھے توبرامانتے تھے اور غصے اورتردید کے ملے جلے جذبات کے ساتھ کہتے تھے کہ اسلام کوئی حقیقی یا آسما نی مذہب تھوڑی ہے،یہ تویہودیت اور عیسائیت عقائدکا”چربہ”ہے(معاذ اللہ)محمد ﷺ نے کچھ یہاں سے اورکچھ وہاں سے لیکراسلام کے نام پرایک نیامذہب اورعقیدہ ایجادکرلیاہے۔ظاہرہے اس خیال نے اہل مغرب کوکبھی یہ تسلیم نہیں کرنے دیاکہ حضوراکرم ﷺ پیغمبرہیں جیساکہ واضح ہے یہ ”مماثلت”کے احساس سے پیداہونے والاردِّعمل تھا۔انسان اپنے باطن میں کمزورہوتومماثلت خوف بن جا تی ہے اورغصے، نفرت و حقارت سے لیکرجھگڑے اورجنگ کی صورتوں تک میں اپنااظہارکرتی ہے۔صلیبی جنگوں کی پشت پریہی نفسیات کام کررہی تھی۔مماثلت کے خوف اوراس سے پیداہونے والی نفرت وحقارت کی نفسیات۔دنیاکے ایک کو نے میں آبادغریبوں نے گویاامیروں کے ساتھ ”رشتہ داری”کادعویٰ کردیا تھااورامیررشتہ دارمٹھیاں بینچ کراوردانت کچکچاتے ہوئے اور”یلغارہو”کی صدابلندکرتے ہوئے کہہ رہے تھے کہ”نہیں نہیں”تم ہرگزہماری طرح نہیں ہووہ زبان سے یہ کہہ رہے تھے مگران کے دل میں تھاکہ یہ آخرہما ری طرح کیوں ہیں؟
ایک منظریہ تھاایک اورمنظریہ ہے کہ فرانس کی عدا لت نے ایک مسلم خاتون کویہ کہہ کرشہریت دینے سے انکارکردیاہےکہ وہ ضرورت کے مطابق فرانسیسی معاشرے میں”جذب”نہیں۔یعنی وہ برقع اوڑھتی ہے۔عدالت کودوسرااعتراض یہ ہے کہ وہ شوہرکی حدسے زیادہ اطاعت کرتی ہے اورعدالت کے بقول یہ بات”مساوات”کے مغربی تصورکے خلاف ہے۔اس پرفرانس کے مشہوراخبار”لی موند”نے سوال اٹھایاہے کہ کیا برقع شہریت کے حق کے منا فی ہے؟یعنی کیابرقع اوڑھنے وا لی عورت فرانس کی شہریت کی مستحق نہیں؟اس سوال کی پشت پراسلام اورمسلمانوں کے حوا لے سے اصل سوال یہ ہے تم(100فیصد)ہماری طرح کیوں نہیں ہو؟
یہ سامنے کی بات ہے کہ فرانس اورکئی دوسرے یورپی ممالک میں حجاب ابتداًاسکول او کالج کیلئے نااہلیت بنا،بعدازاں وہ روزگارکیلئے نااہلیت قرارپایا۔ کہاگیاکہ نائن الیون کے بعدکی دنیامیں سلامتی سے متعلق مسئلہ ہے جس سے فردکی شناخت میں دشواری پیش آتی ہے لیکن تا زہ ترین معا ملے میں مسلم خاتون اسکول وکالج میں داخلہ نہیں ما نگ رہی،کسی سرکاری یاغیر سرکاری ادارے میں ملازمت کی طلبگارنہیں،کسی ہوائی اڈے پرچہرہ چھپانے کی خواہش مندنہیں،وہ صرف اپنے مذہب کےاحکاما ت پرعمل کی تمنائی ہے لیکن ریاست فرانس کی عدالت نے فیصلہ دے دیاکہ تمہاری تمنا شہریت کے حق سے ہم آہنگ نہیں۔ایک وقت تھاکہ شہریت کے حق کی درخواستوں پرمغربی حکومتوں کویہ اعتراض ہوتا تھاکہ درخواست گزارکو مقا می زبان نہیں آتی مگراطلاعات کے مطابق فرانس میں مقیم زیربحث خاتون نہ صرف فرانسیسی فرفربولتی ہے بلکہ وہ توبطور فرانسیسی مترجم کے طور پر مختلف اداروں کیلئے کام کرچکی ہے اورفرانسیسی زبان میں تین معروف کتابوں کی مصنفہ ہے۔
ایک خبرکے مطابق مسلم خا تون کے بارے میں کہاجارہاہے کہ اس کابرقع،طرزفکراورشخصیت”فرانسیسیت” کیلئے بڑی”ریڈیکل”ہے۔لفظ ’’ریڈیکل ‘‘کاایک مفہوم انتہاپسندی بھی ہےاورایک معنی میں انقلابی آرمی کوبھی ریڈیکل کہاجاتاہے۔اسے ریاست کے خلاف بغاوت کے معنی میں بھی لیا جاتاہے۔ برقع،شوہرکی اطاعت اور’’ریڈیکل ازم‘‘؟خبرسے متعلق سرخی ملا حظہ ہو!
Muslim Woman deemed to radical to be French?
خیرچلئے برقع میں توانتہاپسندی ہوگی لیکن شوہرکی اطاعت میں کیاانتہاپسندی ہے؟اطاعت ایک خالصتاًداخلی اورحددرجہ ذاتی چیزہے اور عموماًگھریلو اور خانگی زندگی ہی سے متعلق ہے،اس کامساوات کے تصورسے کیاتعلق؟اوراگر”نان ریڈیکل”کاتصوریہ ہے کہ بیوی کوشوہر کا جزوی اطاعت گزار ہوناچاہئے اوراطاعت گذارنہیں بھی ہوناچاہئے؟اگرایساہے توریاست فرانس کی عدالت کوبتاناہوگاکہ مسلم خاتون کوشوہر کی کتنے فیصداطاعت گذارہوناچاہئے اورکن کن کاموں میں اطاعت گزارہونا چاہئے اورکن کن کاموں میں اطاعت گذارنہیں ہوناچاہئے،پھروہ فرانس کی شہریت کی مستحق ہوسکتی ہے؟کوئی حدیاپیمانہ تو ضرورمقررکرناہوگاکہ50فیصد؟60فیصد؟یا80فیصد؟ویسے اگراس اصول کو تسلیم کرلیاجائے توکل اہل فرانس کہہ سکتے ہیں کہ فلاں مسلم خاتون بڑی”ریڈیکل” ہے کیونکہ وہ اپنے بچے خودپا لتی ہے؟گھرمیں کھاناخود پکاتی ہے یاکپڑے سیتی ہے؟
آخر اس اصول کی زد سے پھر کیا بچے گا؟مگرٹھہریئے!سوال یہ ہے کہ اس پورے قصے کے پیچھے کیاہے؟امتیازکاخوف؟ مگرامتیازکاخوف کیوں؟
مغربی دنیاجدیدیت کادورگزارچکی اوروہاں مابعدجدیدیت کی فکریاپوسٹ ماڈرنسٹ تھاٹ” کاآغازہوئے ایک عرصہ ہوگیا۔مابعد جدیدیت فکر
نے جدیدیت کے کم وبیش تمام تصورات کوچیلنج کرکے ان کاحلیہ بگاڑدیاہے۔ان میں فردکے تصورذ ات یا”سیلف کنسیپٹ” کاحلیہ بھی شامل ہے ۔ جدیدیت میں ذات کاتصورپھربھی کچھ نہ کچھ ٹھوس یا”کنکریٹ”تھالیکن مابعدجدیدیت فکرمیں یہ تصوربالکل ہی سیال”فلوڈ”ہوگیاہے۔اس کا اثر شخصیت کی تعمیراورمعاشرے کی بیٹی پرگہراپڑاہے اوراب جدیدمغربی معاشرے میں فردکی شخصیت اورموم کی اس گڑیامیں کوئی فرق نہیں جسے آپ جب چاہیں گڈابنالیں یاآپ کی خواہش ہوتواس موم سے آپ چڑیاتشکیل دے لیں یاجوکچھ آپ کادل چاہے آپ اس سے تخلیق کرلیں۔
اس کے مقابلے میں اسلام جوشخصیت تعمیروتشکیل دیتاہے،وہ ٹھوس ہوتی ہے،وہ حالات کے دباؤسے نہ پچکتی ہے اورنہ ٹوٹ کربکھرتی ہے۔اسے بدلناآسان نہیں۔عام طورپروہ خودبدلے بغیرماحول کوبدلتی ہے۔اس کایہ طرزعمل اسلام کے اپنے کردارکے عین مطابق ہے۔اسلام خودبدلے بغیر انسان اوردنیاکوبدلتاہے۔اس اعتبارسے دیکھاجائے تواہل مغرب کواسلام بہت حقیقی،زندہ اورٹھوس نظرآرہاہے اورانہیں لگ رہاہے کہ وہ ان کے تشخص سے محروم اورسیال معاشرے کوبدل ڈالے گا۔عیسا ئیت مغرب بالخصوص یورپ میں مؤثرہوتی تواہل مغرب کوزیادہ فکرنہ ہوتی مگر عیسائیت کے غیرمؤثرہونے کاماتم خودبیچا رے پوپ صاحب تک کررہے ہیں۔صرف برطا نیہ میں2001ءسے لیکراب تک500گرجاگھریہاں کی لوکل اتھارٹیزکی قانونی اجازت کے بعد493 مساجد معرضِ وجودمیں آچکی ہیں اوراب چرچ آف انگلینڈکی طرف سے یہ پابندی عائدکردی گئی ہے کہ اب مزید کسی چرچ کوکسی بھی مذہبی عبادت گاہ میں تبدیل نہیں کیاجاسکتا۔
یادرہے کہ یہاں کے تمام سرکاری ادارے اورمیڈیااس بات کااعتراف کررہاہے کہ ان مساجدمیں صرف توحیدورسالت اوردنیاکی سلامتی کاپیغام دینے کے ساتھ ساتھ نہ صرف ان کوآبادکیاگیابلکہ تمام مذاہب،رنگ ونسل سے بالاترہوکرلوکل کمیونٹی کےرفاہ عامہ کاکام بھی بخوبی سرانجام دیاجا رہا ہے۔ان گرجاگھروں کے بندہونے کی وجہ ان کی اپنی ویرانی تھی کیونکہ یہاں کوئی عیسائی عبادت کیلئے داخل تک نہیں ہوتاتھاجبکہ 2020میں ہونے والے ایک اہم سرکاری سروے کے مطابق مساجدمیں تبدیل ہونے کے بعدصرف لندن میں6لاکھ83ہزارمسلمان پانچ وقت نمازادا کرتے ہیں جبکہ گرجا گھروں میں عبادت کیلئے آنےوالے عیسائیوں کی تعداد20گناکم ہوکرچھ لاکھ 79ہزارماہانہ ہوچکی ہے جن میں نوجوان عیسائیوں کی تعدادنہ ہونے کے برابرہے۔
ایک سروے میں اس کابھی اعتراف کیاگیاہے مساجدمیں معاشرہ کی اصلاح کاکام بھی ہوتاہے جہاں غیرمسلموں کوبھی دعوت عام ہے کہ وہ آکرخود اپنی آنکھوں سے اس کام کوملاحظہ کریں۔جبکہ گرجاگھروں کے غیرآبادہونے کی وجہ عیسائیوں میں مذہب بیزاری،الحادی سوچ کاعروج، گرجا گھروں میں کرپشن کے علاوہ دیگراخلاقی کمزوریاں جوباوجوددبانے کے منظرعام پربھی آجاتی ہیں۔ اس کے علاوہ عیسائیوں کی ایک کثیرتعداد اسلام بھی قبول کررہی ہے اورباقاعدہ انہی مساجداورامت مسلمہ کاایک حصہ بن کراپناکرداربھی اداکررہے ہیں۔
مثال کے طورپرلندن کے ایک تاریخی گرجاگھرسینٹ آف جارجیامیں 1230افرادکی عبادت کی گنجائش موجودہے لیکن اب وہاں صرف ایک درجن افراد عبادت کیلئے آتے ہیں اوریہی حال مشہور گرجا گھرسینٹ ماریاکاہے جہاں20افرادبڑی مشکل سے جمع ہوتے ہیں جبکہ اس گرجاگھر کے پہلومیں دن میں 5 مرتبہ مسجدمیں ہرنماز میں 100 کے قریب افرادنمازاداکرتے ہیں جبکہ جمعہ کی نمازمیں تعدادکئی سوپر مشتمل ہوتی ہے اوراکثر مسجدسے باہرفٹ پاتھ اورسڑک پربھی لوگ نمازاداکرتے ہیں جن کوگزرتے ہوئے عیسائی بھی ملاحظہ کرتے ہیں۔
یہی حال برطانیہ کےدیگر چھوٹے بڑےشہروں میں بھی ہے۔برطانیہ کے دوسرے بڑے شہرمانچسٹرمیں مسلمانوں کی تعداد 8۔15فیصدہے، برمنگھم میں 8۔21 فیصد ہے،بریڈفورڈمیں7۔24فیصدہے اوران کے مقابلے میں مساجدکی تعدادکودیکھ کرتعجب کی ضرورت نہیں ہے۔یورپ کے دیگربڑے بڑےشہروں میں بھی مساجدکی بڑھتی ہوئی تعداد بھی یہی نقشہ پیش کررہی ہیں۔یہ تمام مساجدکی تعمیراوران کے چلانے کے تمام بھاری اخراجات خالصتاًمسلمان اپنی جیبوں سے پورا کرتے ہیں جبکہ گرجا گھروں کیلئے توباقاعدہ حکومت کی طرف سے بھاری اعانت بھی جاری ہوتی ہے۔آپ کی اطلاع کیلئے ایک اورخوش آئندبات عرض کردوں کہ صرف لندن میں سوسے زائدشریعہ کونسلزبھی مسلمانوں کے باہمی خانگی اور شرعی مسائل میں رہنمائی کیلئے موجودہیں جن کی بناء پربرطانوی عدالتوں میں جانے کی بجائے گھرکی دہلیزپربغیرکسی فیس اورتاخیرکے معاملات حل کئے جاتے ہیں۔
مشہورزمانہ اخبار”دی وال اسٹریٹ جرنل”نے2جنوری2015ءکوشہ سرخی کے ساتھ یہ خبرشائع کی تھی کہ یورپ میں سینکڑوں گرجاگھربند ہو گئے ہیں،اب تشویش اس بات کی ہے کہ ان غیراستعمال شدہ عمارات کاکیاکریں؟اخبار”ارنہم نیدرلینڈ” میں واقع چرچ آف سینٹ جوزف کی ملکیت “ارنہم اسکیٹ ہال”کی شکستگی وپامالی کابڑاکربناک تذکرہ کرتے ہوئے لکھتاہے کہ”ایک ہزارافرادکی عبادت کرنے کی گنجائش رکھنے والاہال پانی کے نقصانات کی وجہ سے مرمت کامحتاج ہے اوررومن کیتھولک چرچ جواس عمارت کامالک ہے،اسے ہرقیمت پرفروخت کرنے کی کوشش کر رہا ہے کیونکہ وہ اس عمارت کے ٹیکس دینے کامتحمل نہیں۔یہ سینکڑوں گرجاگھروں میں سے ایک ہے۔ان دگرگوں حالات میں مغربی یورپ میں کیمیونیٹیزاور حتیٰ کہ ڈنمارک سے لیکربرطانیہ کی حکومتوں کیلئے ایک سوال بن گیاہے کہ اب ان مقدس عمارات کا کیاکرناہے؟”
چرچزکی زبوں حالی کاتذکرہ کرتے ہوئے اخبارنے اپنی سٹوری میں یہ بھی بتایاہے کہ”ایک46سالہ نوجوان کولن ورسٹھیگ جواس آپریشن کاحصہ ہے،مقامی سیاستدانوں کی مذمت کرتے ہوئے تڑپ اٹھاہے کہ ہم کسی کی سرزمین میں نہیں ہیں،سکیٹ ہال کی مخدوش حالت زارایک عبرت بن چکی ہے اوریہ وہ چرچ ہے جس نے اس خطے میں عیسائیت کوطویل عرصے سے پروان چڑھالیکن اب وہ پوری طرح سے سیکولرہونے کے باوجودبچ نہیں پایا۔یورپ کے گرجاگھروں کے بندہونے سے یورپ کے عقیدے میں تیزی سے کمزورہونے کی عکاسی ہوتی ہے،یہ ایک ایسا واقعہ ہے جو عیسائی عبادت گزاروں اوردوسرے لوگوں کیلئے تکلیف دہ ہے جومذہب کو ایک متفاوت معاشرے میں یکجاعنصرکے طورپردیکھتے ہیں۔
یورپ کے چھوٹے گاؤں جوچندمکانات،وہاں موجودایک آدھ کیفے پرمشتمل ہوتے ہیں،وہاں کی مختصرآبادی کیلئے گرجاگھرہی شادی اورجنازہ کی تقریبات مل بیٹھنے کی واحدجگہ ہوتی تھی لیکن اب شادی کارحجان تقریباًختم ہوتاجارہاہے اورجنازہ میں خطرناک حدتک شمولیت میں کمی آچکی ہے۔ ایک چھوٹے سے ڈچ گاؤں میں چرچ کوبچانے کیلئے لڑنے والی ایک سماجی کارکن”للیان گروٹس ویجرس”کویہ فکرکھائے جارہی ہے کہ اگرچرچ ترک کردیاگیاتو ہمارے ملک میں ایک بہت بڑی تبدیلی آئے گی۔یورپ میں دوسرے مذاہب کے رجحانات عیسائیت کے ساتھ مماثلت نہیں رکھتے ہیں۔آرتھوڈوکس اورنسبتاً یہودیت یورپ میں غالب رہے ہیں مگراب افریقہ اورمشرق وسطیٰ کے مسلم ممالک سے تارکین وطن کی امیگریشن کی بناء پر اسلام نے بہت ترقی کی ہے۔
واشنگٹن کے”پیوریسرچ سینٹر”کے مطابق،یورپ میں مسلمانوں کی تعداد1990ءمیں کل یورپی آبادی کے تقریباً4.1 فیصد سے بڑھ کر 2010 میں6 فیصدہوگئی،اور2030 تک اس کی8فیصد یعنی 58ملین افرادتک پہنچ جانے کاامکان ہے جبکہ اسی سنٹرکی ریسرچ کے مطابق یورپ میں نیدرلینڈ کے43فیصد،فرانس کے30فیصد،جرمنی کے25فیصد،برطانیہ کے22فیصد،اٹلی کے13 فیصداورامریکاکے18فیصدافرادنے کسی بھی مذہب سے لاتعلقی کااظہارکیاہے اوربرملاالحاداختیارکرچکے ہیں جبکہ اس کے مقابلے میں یورپ میں مسلم آبادی نے اپنی محنت سے زندگی کے ہرشعبے میں نمایاں ترقی کی ہے اورمقامی سیاست کے علاوہ ملکی سیاست میں بھی ان کونظراندازنہیں کیاجاسکتا۔یہی وجہ ہے کہ تعدادکے لحاظ سے فرانس کادوسرا سرکاری مذہب “اسلام”قراردیاجاچکاہے۔
یورپ کے رجعت پسندوں کاخیال ہے کہ چرچزخداکے ساتھ تعلقات کی تلاش کاواحدذریعہ ہوتے ہیں لیکن اب ان کے بندہونے سے معاشرہ مذہبی رواداری سے بھی خالی ہوتاجارہاہے اورمقامی حکومتوں کیلئےان تاریخی اوربڑی بڑی عمارتوں کو برقراررکھناایک بڑامہنگاثابت ہورہاہے اور مقامی حکومتوں کیلئے ایک حدتک کنسرٹ ہال اورکیمیونٹی سنٹرکی مالی مدداور گنجائش ہوتی ہے اس لئے ان عمارات کو فروخت کرنے کے سواکوئی چارہ کارنہیں تاہم آئندہ چرچزکوکسی اورعبادت گاہ میں تبدیل کرنے کی اجازت دینے کی بجائے تجارتی منصوبوں کی حوصلہ افزائی کی جائے۔
ظا ہر ہے کہ ”خوف” کبھی باہرسے نہیں آتا،انسان کے اپنے اندرسے آتاہے۔اہل مغرب کاخوف اہل مغرب کے اندرہی سے آرہا ہے اورفرانس کے صدر اوران کی جماعت اپنی گرتی ہوئی ساکھ کوبربادی سے بچانے کیلئے کھل کراسلام دشمن پالیسیوں پر عمل پیراہیں۔بس فرق یہ ہے کہ کل انہیں اسلام کی مما ثلت کاخوف لاحق تھااورآج انہیں اسلام کے امتیازکاخوف لاحق ہے۔ان مسا ئل کوہم جتنی گہرائی میں سمجھ لیں،اسلام ہی نہیں خود مغرب کے حق میں بھی اچھاہے۔اب ضرورت اس امرکی ہے کہ دنیامیں ایک ایسی ماڈل اسلامی ریاست کاقیام عمل میں لایاجائے جس کودیکھ کر مغرب اورامریکامیں امن وسلامتی کی پیاسی مخلوق بے اختیاراسلام کی حقانیت کی معترف ہوکراس کوقبول کرلیں۔اس فریضہ کوسرانجام دینے کیلئے ہمارے کریم ورحیم رب نے ہمیں معجزاتی ریاست پاکستان عطافرمایالیکن ہم نے اوفوبالعہدکی تعمیل کی بجائے اب تک اقامت دین کے اس اہم فریضہ سے منہ موڑکرجرم عظیم کے مرتکب ہورہے ہیں لیکن یوں محسوس ہورہاہے کہ یہ نعمت ہمارے پڑوس افغان طالبان کے مقدرمیں لکھی جارہی ہے۔ہمیں ا قبال کا یہ پیغام کبھی بھی نہیں بھو لنا چاہئے کہ
فطرت کے مقاصد کی کرتا ہے نِگہبانی
یا بندۂ صحرائی یا مردِ کُہستانی