امریکاکے کاؤنٹرانٹیلی جنس حکام نے ایک خفیہ پیغام کے ذریعے دنیابھرکے اسٹیشنزاوراڈوں کوبتایاہے کہ امریکی خفیہ ادارہ(سی آئی اے)کیلئے کام کرنے والے بہت سےغیرملکی افرادکومزہدکام کرنے سے فارغ کررہاہے۔ایک غیرمعمولی انتہائی خفیہ کیبل کے ذریعے دیے جانے والے پیغام میں بتایاگیاکہ سی آئی اے کا انسدادِجاسوسی مشن کئی برسوں کے دوران غیرملکی مخبروں کے کیسزکا جائزہ لے رہاہے جومارے گئے،قتل کردیے گئے یاجن کے معاملے میں اصولوں پر سودے بازی کرلی گئی۔اس کیبل میں یہ بھی بتایاگیاہے کہ سی آئی اے کے بہت سے مخبروں کوحریف خفیہ اداروں نے دردناک موت سے بھی ہمکنارکیا۔اس نوعیت کے کیبلزمیں بالعموم ایسی تفصیلات کاتبادلہ نہیں کیاجاتا۔
اس کیبل سے امریکی خفیہ ادارے کی ان مشکلات پرروشنی پڑتی ہے،جواسے دنیابھرمیں مشکل ماحول میں کام کرنے کے حوالے سے درپیش ہوتی ہیں۔ حالیہ چندبرسوں کے دوران روس،چین،ایران اورپاکستان جیسے حریف ممالک کے خفیہ ادارے سی آئی اے کے ذرائع کی تلاش میں رہے ہیں اوربعض کیسز میں بالخصوص آئی ایس آئی نے کمال مہارت سے سی آئی اے کے ایجنٹس یامخبروں کوڈبل ایجنٹ بھی بناڈالاہے۔
کیبل میں یہ تسلیم کیاگیاہے کہ جاسوسوں اورمخبروں کاتقررایک ایسامعاملہ ہے جس میں خطرات بھی مول لیناپڑتے ہیں۔ساتھ ہی حالیہ چندبرسوں کے دوران سی آئی اے کولاحق مشکلات کابھی ذکرکیاگیاہے اوریہ بھی کہ ایجنٹوں کاتقررکرتے وقت تیزی دکھائی جاتی ہے تاہم کاؤنٹرانٹیلی جنس کے حوالے سے جن خطرات کاسامناہوسکتاہے ان پرخاطرخواہ توجہ نہیں دی جاتی۔اس مسئلے کومذکورہ کیبل میں’’سلامتی سے پہلے مشن‘‘کانام دیاگیاہے۔
چندبرسوں کے دوران بہت بڑی تعدادمیں مخبروں پرسمجھوتاکرنے کے اعتراف سے بائیومیٹرک اسکین،چہرے کی شناخت،مصنوعی ذہانت کے استعمال اور مخبروں تک پہنچنے کیلئےسی آئی اے افسران کی نقل وحرکت کاسراغ لگانے کیلئےآلات کی ہیکنگ جیسے معاملات میں دیگرممالک کی مہارت کااندازہ لگایا جا سکتاہے۔
سی آئی اے کے پاس ان خفیہ معلومات کوجمع کرنے کے کئی راستے اورذرائع ہیں،جن کاتجزیہ کرکے ماہرین پالیسی سازوں کیلئے بریفنگ کی تیاری کرتے ہیں، تاہم دنیابھرمیں پھیلے ہوئے ایجنٹوں کی فراہم کردہ معلومات اس حوالے سے کی جانے والی کاوشوں میں کلیدی کردارکی حامل ہیں۔اس نوعیت کی معلومات جمع کرنے کے حوالے سے سی آئی اے غیرمعمولی ساکھ کی حامل رہی ہے۔سی آئی اے کے سابق افسران کاکہناہے کہ سی آئی اے کے کیس افسران مخبروں کی خدمات حاصل کرکے اپنے لیے ترقی اورانعامات کی راہ ہموارکرتے ہیں۔کیس افسران کوبالعموم کاؤنٹرانٹیلی جنس آپریشنزکے حوالے سے ترقی نہیں دی جاتی ، مثلاًیہ معلوم کرناکہ کوئی مخبر کسی اورملک کیلئےتوکام نہیں کررہا۔
سی آئی اے نے دوعشروں کے دوران افغانستان،عراق اورشام جیسے ممالک میں دہشتگردوں کی طرف سے لاحق خطرات سے نمٹنے پرزیادہ توجہ دی ہے تاہم اب بھی چھوٹی یابڑی دشمن ریاستوں کے بارے میں زیادہ سے زیادہ معلومات کاحصول اس کامرکزی ایجنڈا ہے مثلاًآج کل پالیسی سازچین اورروس کے بارے میں زیادہ خفیہ معلومات کے حصول کے خواہش مندہیں۔سابق افسران نے بتایا کہ مخبروں کو کھو بیٹھنا کوئی نیا مسئلہ نہیں۔کیبل سے البتہ یہ معلوم ہوتاہے کہ بظاہرجتناسمجھاجاتاہے یہ معاملہ اس سے کہیں زیادہ سنگین ہے۔
جن لوگوں نے یہ کیبل پڑھاہے ان کاکہناہے کہ اصلاًتویہ ان فرنٹ لائن افسران کیلئےانتباہ ہے جوجاسوسوں اورمخبروں کاتقررکرنے اورانہیں کام پرلگانے کے عمل میں براہِ راست شریک رہتے ہیں۔اس کیبل نے سی آئی اے کے کیس افسران کوبتایاہے کہ ساری توجہ صرف مخبروں یاذرائع کے تقررپرمرکوزنہیں رکھنی بلکہ انہیں حریف خفیہ اداروں کے دام میں پھنسنے سے بچانے کوبھی مقدم رکھنا ہے۔اس کیبل کے ذریعے سی آئی اے کے کیس افسران کویاد دلایا گیاہے کہ انہیں ایسے تمام اقدامات کے بارے میں سوچناہے جن کے ذریعے وہ سی آئی اے کے مخبروں کومحفوظ رکھتے ہوئے ان سے بہترطورپرکام لے سکتے ہیں۔ سابق سی آئی اے افسران کاکہناہے کہ سی آئی اے کیلئےمخبریاایجنٹس کاتقررکرتے وقت سینئرلیڈرزاورفرنٹ لائن اسٹاف کوسب سے زیادہ توجہ مخبروں کی سلامتی اور کاؤنٹر انٹیلی جنس پر دینا ہے۔سی آئی اے کے ایک سابق آپریٹوڈگلس لندن کہتے ہیں کہ جب کسی ایجنٹ کے ساتھ کچھ غلط ہوجاتاہے تب کوئی بھی ذمہ داری قبول کرنے کیلئےتیارنہیں ہوتا۔کبھی کبھی حالات پرہماراکچھ اختیارنہیں ہوتامگربہت سے معاملات میں تساہل اور غفلت کے نتیجے میں بھی کسی ایجنٹ کیلئےحالات بہت برے ہو جاتے ہیں مگرتب اعلیٰ عہدیداروں میں سے کسی کوبھی موردِالزام نہیں ٹھہرایاجاتا۔
ڈگلس لندن نے کیبل نہیں پڑھا تاہم ان کی کتاب’’دی ریکروٹر:اسپائنگ اینڈ دی لوسٹ آرٹ آف امریکن انٹیلی جنس‘‘میں اس نکتے پر بحث کی ہے کہ خفیہ آپریشن اورنیم فوجی نوعیت کی کارروائیوں کی طرف سی آئی اے کے جھکاؤسے روایتی جاسوسی متاثرہوئی ہے،جس میں کام کازیادہ مدارایجنٹوں کے تقرر اوران سے ڈھنگ سے کام لینے پرہوتاہے۔
سابق سی آئی اے افسران کاکہناہے کہ مشکلات ومسائل اورکاؤنٹرانٹیلی جنس آپریشن سے متعلق پیچیدگیوں کے بارے میں دنیابھرمیں سی آئی اے کے اسٹیشنز اوراڈوں کوبھیجنے والے پیغامات نئے نہیں۔اس طرح کی باتیں توہوتی رہتی ہیں اوریہ کہ کاؤنٹرانٹیلی جنس افسران اس طرح کی تفصیلات سی آئی اے کی وسیع ورک فورس سے بھی چھپاتے ہیں۔جب اس میموکے بارے میں سوال کیاگیاتوسی آئی اے کی ترجمان نے کوئی تبصرہ کرنے سے گریزکیا۔
گزشتہ برس سی آئی اے میں اسسٹنٹ ڈائریکٹرفارکاؤنٹرانٹیلی جنس کے منصب پرترقی پانے والی شیتل پٹیل مشن سینٹرکی سربراہ ہیں۔ انہوں نے سی آئی اے کے موجودہ اورسابق افسران کومختلف معاملات میں انتباہ کرنے کے حوالے سے کسی بھی مرحلے پرہچکچاہٹ کامظاہرہ نہیں کیا۔جنوری میں شیتل پٹیل نے سی آئی اے کے ریٹائرڈافسران کوایک خط بھیجا،جس میں انہیں خبردارکیاکہ وہ خفیہ نیٹ ورک قائم کرنے کی کوششوں کے حوالے سے دوسری حکومتوں کواپنی خدمات فراہم نہ کریں۔بعدمیں منظرعام پرآجانے والے اس خط میں سی آئی اے کے سابق افسران سے کہاگیاہے کہ وہ صحافیوں سے گفتگوسے بھی گریز کریں۔
سی آئی اے کے سابق افسران کایہ بھی کہناہے کہ سی آئی اے کے افسران کوکاؤنٹر انٹیلی جنس کے حوالے سے سنجیدہ ہونے پرمائل کرنے کاایک اچھاطریقہ یہ بھی ہے کہ معاملات کوپھیلادیاجائے۔گزشتہ ہفتے بھیجے جانے والے میمومیں کہاگیا ہے کہ سی آئی اے اپنے حریفوں کاوقت ضائع کرنے کیلئے بہت سی ڈمی افواہوں کو میدان میں لاتی ہے-حقائق کاجائزہ لینے سے معلوم ہواہے کہ جن ممالک کو امریکا نشانے پرلیتاہے،وہ بھی سی آئی اے کے مخبروں کاسراغ لگانے کے فن میں طاق ہیں۔چندسابق سی آئی اے افسران کا کہناہے کہ عشروں تک دہشتگردی کے خطرات سے نمٹنے پرمتوجہ رہنے اورخفیہ رابطوں پرزیادہ انحصار کرنے سے مخالف یا حریف خفیہ اداروں سے نمٹنے کی صلاحیت کمزورپڑچکی ہے۔بیرونی حکومتوں کے بارے میں زیادہ سے زیادہ خفیہ معلومات حاصل کرنے کیلئےمخبروں کی بھرتی،تربیت اوران سے کام لینادہشتگرد نیٹ ورکس میں ذرائع کوپروان چڑھانے سے بہت مختلف کام ہے۔
میمومیں بتایاگیاہے کہ بہت سے مخبرگرفتارکرلیے گئے یاماردیے گئے،تاہم ایسابھی ہوتاہے کہ حریف خفیہ ادارے سی آئی اے کے کسی ایجنٹ کاسراغ لگاکر اسے گرفتارکرنے کے بجائے ڈبل ایجنٹ بناکرامریکاکے خلاف استعمال کرنے لگتے ہیں۔یہ ڈبل ایجنٹ سی آئی اے کولاحاصل قسم کی معلومات فراہم کرتے ہیں یاپھر گمراہ کرتے ہیں۔اس سے سی آئی اے کے خفیہ معلومات جمع کرنے اوران کا تجزیہ کرنے کے عمل پرشدیدمنفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔سابق سی آئی اے افسران نے بتایاکہ پاکستانی اس کھیل کے بڑے کھلاڑی ہیں۔
افغانستان میں امریکاکی حمایت یافتہ حکومت کے خاتمے کاایک مطلب یہ بھی ہے کہ اب خطے میں روس،چین اورپاکستان کی حمائت سےطالبان حکومت اب کسی صورت امریکی مفادات یاسی آئی اے کیلئے کام کرنے والوں کیلئے کوئی گنجائش باقی نہیں رہی۔اب ایک بارپھرسی آئی اے پرپاکستان میں مخبروں کانیٹ ورک تیارکرنے کے حوالے سے غیر معمولی دباؤہے۔یہ حقیقت بھی تسلیم کیے ہی بنتی ہے کہ اس نوعیت کے نیٹ ورکس کاسراغ لگاکرانہیں توڑنے میں پاکستان کوملکہ حاصل ہے۔
امریکامیں کئی صدورکی حکومتوں نے چین اورروس سے مسابقت کے پیش نظرجاسوسی کے مضبوط نیٹ ورکس قائم کرنے اور برقراررکھنے کی ضرورت محسوس کی ہے۔جاسوسی اورمخبری کے نیٹ ورکس کاتحفظ یقینی بنانابھی غیرمعمولی اہمیت رکھتاہے۔سابق سی آئی اے افسران کاکہناہے کہ روس اور چین میں ٹیکنالوجی بھی ایک مسئلہ بن چکی ہے۔مصنوعی ذہانت،بائیومیٹرک اسکینز، چہرے کی شناخت اوردیگرٹیکنالوجیزنے ان ممالک کی حکومتوں کیلئےاپنے ہاں کام کرنے والے سی آئی اے افسران کاسراغ لگانا قدرے آسان کردیاہے۔ایسے میں مخبروں اورایجنٹس سے ملاقاتیں اوررابطے انتہائی دشوارہوچکے ہیں۔ سی آئی اے کے خفیہ اندرونی نظام میں نقب لگائے جانے سے چین اورایران کواس کے نیٹ ورکس کاسراغ لگانے میں مددملی ہے ۔دونوں معاملات میں سی آئی اے کے مخبروں کوسزائے موت دے دی گئی۔دوسروں کوسی آئی اے نے کسی نہ کسی طورنکال کر دوبارہ بسادیا۔
ایران اورچین میں سی آئی اے کے بعض افسران کایہ خیال ہے کہ مخالف خفیہ ایجنسیوں کوچنداپنوں ہی نے معلومات فراہم کیں جن کی بنیاد پرمخبربے نقاب ہوئے۔امریکی فضائیہ کی سابق سارجنٹ مونیکاایلفرائیڈوِٹ منحرف ہوکرایران کیلئےکام کرنے لگی تھی۔2019ء میں اس پرایران کوخفیہ معلومات فراہم کرنے کی فردجرم عائدکی گئی۔ایرانیوں نے پہلے یہ اندازہ لگایاکہ اس پربھروساکیاجاسکتاہے۔ اس کے بعدہی اس کی معلومات کوقابلِ قبول سمجھاگیا۔اسی سال سی آئی اے کے سابق افسراجیری چن شنگ لی کوچینی حکومت سے متعلق خفیہ معلومات دشمن کوفراہم کرنے کے الزام میں19سال قیدکی سزاسنائی گئی۔سابق سی آئی اے افسران کہتے ہیں کہ ایسی بہت سی مثالیں ہیں کہ سی آئی اے نے اپنے مشن پراس قدرتوجہ دی کہ مخبروں یاذرائع کے تحفظ کے حوالے سے غفلت کامظاہرہ کیا گیا۔ ایسے میں بعض مخبروں کوشدیدنقصان دہ حالات کابھی سامناکرناپڑا۔2009ءمیں افغانستان کے شہرخوست میں سی آئی اے کے ایک اڈے پربم حملہ مشن کوسلامتی پرترجیح دینے کی خاصی واضح مثال ہے۔اس واقعے میں اردن کاایک ڈاکٹرملوث تھا۔سی آئی اے والے سمجھ رہے تھے کہ وہ القاعدہ میں نقب لگانے کے حوالے سے معاونت کرے گامگراس کے بجائے وہ امریکا کے خلاف گیا۔ ڈگلس لنڈن کاکہناہے کہ ہماری خواہش تھی کہ بہت تیزی سے بہت بڑی کامیابی حاصل کرلی جائے۔اس آپادھاپی میں جاسوسی کے فن کی مبادیات کونظراندازکردیاگیا۔ڈگلس لندن کہتے ہیں کہ اب پھریہ یاددہانی کرانے کاوقت آگیاہے کہ کسی بھی مشن کے حوالے سے جاسوسی کی مبادیات اورسلامتی میں سے کسی کوبھی نظراندازنہیں کیاجاسکتا۔وہ مزیدکہتے ہیں کہ اپناکام کیجیے اورتساہل کامظاہرہ مت کیجیے۔یہ دراصل اس بات کوبیان کرنے کاایک طریقہ ہے کہ ہم اتنے جامع نہیں جتنے تصورکیے جاتے ہیں۔یہ بہرکیف مثبت چیز ہے۔
یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ افغانستان کی جنگ میں مشرف پاکستان پرامریکی دباؤکابہتراندازمیں مقابلہ کرسکتاتھامگراس نے اپنے ہی ادارے آئی ایس آئی کی کئی تجاویزپرخاطرخواہ عمل نہیں کیا۔2005ء میں جب امریکی وزیردفاع ڈونلڈرمزفیلڈپرویز مشرف کے پاس اپنی پتلون کی عقبی جیب میں ایک فہرست سمیت پہنچا اوراس نے بتایاکہ وہائٹ ہاؤس کے ایک حالیہ اجلاس میں بش نے اس بات پر ناراضی اورمایوسی کااظہارکیاکہ اس فہرست میں شامل زیادہ تر دہشتگرد امریکاکے ایک اتحادی پاکستان کی سرزمین میں پناہ لیے ہوئے ہیں جس پرمشرف کے حکم پرآئی ایس آئی نے ایک ماہ سے کم عرصے میں اس فہرست کے سب سے اہم فردکوگرفتارکرلیا۔
امریکی خفیہ ایجنسی کے سابقہ اعلیٰ عہدیدارکے مطابق’’سچائی تویہ ہے کہ پاکستان دہشتگردی کی جنگ میں بڑی حدتک امریکاکا سب سے بہترشریکِ کاررہا ہے، کسی اورنے پاکستانیوں سے زیادہ دشمنوں کومیدانِ جنگ سے باہر(گرفتار کرکے)نہیں نکالا‘‘لیکن اس کے باوجودناقابل فہم اورپریشان کن چیزیں ان کے تعاون میں شامل رہیں۔
دومرتبہ سی آئی اے کے سابقہ قائم مقام ڈائریکٹرمائیکل موریل اورایک مرتبہ امریکی وزیردفاع جیمس میٹس بھی ایک فہرست کے ساتھ یہ امیدلیکرآئے کہ پاکستان ان لوگوں کوگرفتارکرے گایا گرفتارکرنے کی کوشش کرے گالیکن دونوں اس مشن میں بری طرح ناکام رہے۔امریکی سابق انٹیلی جنس افسرکے مطابق ’’بڑے غصہ اورمایوسی کی بات ہے کہ گزشتہ دودہائیوں سے ہم ایک جیسی باتیں کرتے رہے کہ تمہیں دہشتگردی سے سختی سے نپٹناچاہیے اوران کے سارے محفوظ ٹھکانے بندکردینے چاہئیں لیکن بظاہرہم ناکام ہو گئے اوربالآخرآئی ایس آئی کی وجہ سے امریکی سپرپاورکوافغانستان سے ناقابل تلافی اورتاریخی شکست کامنہ دیکھنا پڑا‘‘۔
ٹرمپ کے غصہ،مایوسی اورہیجانی کیفیت میں ڈوباہواٹوئیٹ کہ”گزشتہ15سالوں میں امریکانے احمقانہ طور پر پاکستان کو33ارب ڈالر کی امداددی اورانہوں نے اس کے بدلے ہم سے جھوٹ بولااورہمیں بیوقوف بنایا”لیکن اس کے باوجودیہ بھی آئی ایس آئی کی کامیابی کی دلیل ہے کہ بالآخرطالبان کے ساتھ دوحہ میں امن مذاکرات اورانخلاءکیلئے آئی ایس آئی کی ہی منت سماجت کرناپڑی اورایک ہی جھٹکے میں خطے آئی ایس آئی نے ناقابل یقین فتح کارخ بدل کررکھ دیا۔