اڑی اڑی سے رنگت……!

:Share

میاں نوازشریف صاحب پاکستان کے واحدحکمران ہیں جوتیسری مرتبہ وزارتِ عظمیٰ کے منصب پرفائزہوئے ہیں لیکن اب بھی اکثرعوامی اجتماعات میں اپنے اس دکھ کااظہار فرماتے ہیں کہ ہمیں اگرپچھلے ادوارمیںغیرجمہوری اندازسے فارغ نہ کیاجاتاتواس وقت پاکستان اس خطے کاخوشحال ترین ملک ہوتالیکن اب تیسری مرتبہ اس منصب پرفائزمیاں صاحب نے ١٦فروری کو بہاولپورکے ایک عوامی اجتماع میں پورے میڈیاکے سامنے نیب کوآڑے ہاتھوں لیاکہ وہ پاکستان کی ترقی کی راہ میں مشکلات پیداکررہاہے جبکہ واقفانِ حال یہ کہہ رہے ہیں کہ دراصل اس کی وجہ چیئرمین نیب قمرالزمان کاموجودہ حکومت کو سپریم کورٹ کے احکامات کی روشنی میں۱۵۰سے زائدمیگااسکینڈلز میں کاروائی کے بارے میں جواب داخل کرنے کی ہدایات جاری کرناہیں اوربالخصوص بہالپورانرجی پراجیکٹ میں لاہورکے ایک مقامی شہزادے کی اربوں روپے کی کرپشن سامنے آئی ہے جس کی تحقیق کیلئے ہدایات پراسیکیوٹرجنرل نیب اوران کی ٹیم کوجاری کی گئیں۔نیب نے پنجاب وزیررانامشہوداور پیپلز پارٹی کی سنیئررہنماء اوربے نظیرانکم سپورٹ پروگرام کی سابقہ سربراہ فرزانہ راجہ کے خلاف بھی کاروائی کرنے کی ہدائت کی ہے۔امریکامیں مقیم فرزانہ راجہ سے اربوں روپے کی بدعنوانی ، اشتہارات میں غبن اورغیرقانونی بھرتیوںکی تفتیش کیلئے ریڈ وارنٹ جاری کرنے پربھی غورکیاجارہاہے ۔
سندھ کے دووزاراء جس میں فریا ل تالپورکے شوہر منورتالپورسے باقاعدہ بازپرس اورتحقیقات شروع کردی گئیں ہیں۔ صوبائی وزیر رانامشہودکے خلاف پنجاب یوتھ گیمزاسکینڈل اورفیوچرکنسرن کے مالک سے رشوت لینے کے مبینہ الزامات کی تحقیقات کے سلسلے میں نیب حکام نے گزشتہ دنوں رانامشہودکے ذاتی ملازمین اورآفس سٹاف سے پوچھ گچھ کی ہے۔واضح رہے کہ نیب رانامشہودکے خلاف اکتوبرسے انکوائری جاری ہے۔ نیب نے پنجاب مسلم لیگ (ن)کے پچاس سرکردہ رہنماؤں کے خلاف بھی اربوںروپے کی کرپشن کی تحقیقات شروع کرنے کافیصلہ کیاہے جن میں موجودہ گورنرپنجا ب رفیق رجوانہ بھی شامل ہیں جن کے خلاف بہاؤالدین ذکریایونیورسٹی لاہورکیمپس کے اسکینڈل میں مبینہ طورپرایک ارب روپے کی کرپشن کے الزامات ہیں۔رفیق رجوانہ بہاؤالدین ذکریایونیورسٹی کے قانونی مشیر تھے جب یہ کرپشن کی گئی۔نیب نے اس اسکینڈل میں وائس چانسلر ، رجسٹرار وغیرہ کوپہلے ہی حراست میں لے رکھاہے۔
اسی طرح شاہ صدرمیں سرکاری زمین کی لیزپرالاٹمنٹ ،چنیوٹ میونسپل کمیٹی کے فنڈز سے دریائے چناب پرپل کی تعمیراورناجائزاثاثے بنانے پرشریف خاندان کی ملکیت رمضان شوگرمل کے ڈائریکٹر زسے پوچھ گچھ اورسرکاری زمینوں پرقبضہ کرنے پرڈپٹی اسپیکرپنجاب اسمبلی اخترگورچانی ،ایم پی اے سردارآصف نکئی ،ایم این اے رانااسحاق ،ایم این اے افتخار شاہ،ایم پی اے وارث کھکواورکنسٹرکشن کمپنی کی مالک راشدہ یعقوب کے خلاف کرپشن تحقیقات بھی متوقع ہیں۔
یہ وہ وجوہات ہیں جس کی بناء پرنیب کے اختیارات محدودکرنے کرنے کے حوالے سے وزیراعظم کی صدارت میں ایک غیررسمی اجلاس میں کئی آپشن پیش کئے گئے۔ وزیراعظم اوران کے قریبی رفقاء نیب کے اختیارات کومحدودکرنے کیلئے نیب قوانین میں مجوزہ ترامیم کیلئے تمام سیاسی جماعتوں سے مشاورت کی بھی تجویزدی ہے۔ نیب چیئرمین کے خلاف ریفرنس تیارکرنے کامشورہ بھی دیاگیاہے کیونکہ ان کومحض ایک سرکاری حکم کے ذریعے برطرف نہیں کیاجاسکتااورقانونی کاروائی کیلئے ٹھوس ثبوت لانے ہوں گے۔ان تمام مشکلات کے باوجودنیب قوانین میں ترامیم کے ساتھ نگران کمیشن کاآپشن ابھی بالکل مستردنہیں کیاگیا ۔ حکومت،نیب قوانین میں ترمیم کیلئے پیپلزپارٹی اورتحریک انصاف کے ساتھ ساتھ بعض دوسری اہم جماعتوں کی حمائت حاصل کرنے کیلئے بھی کوشاں ہے۔دوسری جانب مشکل یہ ہے کہ اس معاملے پرحکومت کومقتدرحلقوں کی قطعاًحمائت حاصل نہیں تاہم اس کے باوجودوزیراعظم دوسری جماعتوں کی حمائت سے نیب کے اختیارات محدودکرنے کی کوششوں میں مصروف ہیں کیونکہ نوازشریف سمجھتے ہیں کہ اگرانہوں نے نیب کوکنٹرول نہ کیاتواس ادارے کی کاروائیوں کے نتیجے میں ان کی حکومت ختم ہوسکتی ہے۔
اس سلسلے میں وزیراعظم سابق وزیرقانون زاہدحامد کونیب قوانین کاجائزہ لے کررپورٹ تیارکرنے کی ہدائت کرچکے ہیں۔نوازشریف یہ کہہ چکے ہیں کہ ان کے کام کرنے کے راستے میں مختلف پابندیاں اورقوانین رکاوٹ ہیں۔حکومتی ذرائع کاکہناہے کہ اخباری بنیادوں پرنیب نے کئی مقدمات بنائے ہیں،جومنصوبے ابھی شروع ہی ہوئے ہیں، نیب نے کسی شکائت کے بغیرازخودکاروائی کرتے ہوئے ان منصوبوں پربھی ہاتھ ڈال دیاہے جس سے کام رک گیاہے اوربعض مقدمات میں نیب مروّجہ قانونی طریقہ کارسے ہٹ کرکام کررہی ہے۔وزیراعظم کے بیان پرسیاسی جماعتوں نے تنقیدکی تونوازلیگ کے قریبی ساتھیوں کالب ولہجہ بھی کچھ تبدیل ہواہے جس پر وزیراطلاعات پرویز رشیدنے کہاکہ ”ہم پر نہیں ناخن تراشیں گے”جبکہ وزیرداخلہ چوہدری نثارعلی خان نے کہا”ہم پرنہیں کاٹیں گے بلکہ میگااسکینڈلزپرعدالتی کمیشن بنانے کیلئے تیارہیں”۔اس موقع پرتمام سیاسی جماعتیں اپنی اپنی سودے بازی میں مصروف ہیں لیکن اب تک کسی جماعت نے اس حوالے سے حتمی فیصلہ نہیں کیااوراگراندرونی طورپرحکومت سے اس سلسلے میں کوئی سازباز ہو رہی ہے تواسے باہرآنے سے روک رکھاہے۔
ذرائع کاکہناہے کہ نیب قوانین میں ترمیم کرکے نیب عدالتیں یاتوختم کی جاسکتی ہیں یاوہ چیئرمین کے اختیارسے باہرہوں گی کیونکہ حکومت کے خیال میں یہ ناانصافی ہے کہ تفتیشی ادارہ بھی نیب ہواورعدالتی ادارہ بھی نیب ہو،یہ ادارہ دونوں کام بیک وقت نہیں کرسکتا،اس لئے اس کام میں اصلاح ضروری ہے۔تاہم نوازشریف کویہ خیال اس وقت آیاجب چیئر مین نیب کاہاتھ ان کے رفقاء تک پہنچنے لگاہے۔نیب نے اپنے میگامقدمات کی جوفہرست سپریم کورٹ میں پیش کی ہے اس میں کیس نمبر٢٩میں وزیرخزانہ اسحاق ڈار کے خلاف ٢٠٠٠ء میںکی گئی شکائت پرکارووائی کاآغازکردیاگیاہے۔اس میں ان پرالزام ہے کہ انہوں نے دوکروڑتیس لاکھ برطانوی پاؤنڈزاورچارارب ٧٣کروڑ٨٠لاکھ امریکی ڈالرزکی منی لانڈرنگ کی ہے۔کیس نمبر٣٠میں بتایاگیاکہ وزیراعظم میاں نوازشریف اوروزیراعلیٰ پنجاب میاں شہبازشریف اوردیگرنے اپنے اختیارات کاناجائزاستعمال کرتے ہوئے سرکاری خزانے سے ١٢کروڑ٧٠لاکھ روپے سے رائے ونڈسے اپنے خاندانی گھرشریف ہاؤس تک ایک سڑک بنوائی ہے،اس کی بھی تفتیش بھی جاری ہے۔
اس کے علاوہ میگاکیس نمبر ٣٥میں ١٩٩٩ء میں وزیراعظم نوازشریف کے خلاف ایف آئی اے میں غیرقانونی تقرریاں کرنے پربھی تفتیش ہورہی ہے۔علاوہ ازیں میٹروبس سروس، اورنج لائن ٹرین سروس کے معاملات کوبھی نیب نے اپنی تحقیقات میں شامل کرلیاہے۔ان تمام مقدمات سے بچنے کی یہی ایک صورت ہے کہ نیب کے اختیارات محدودکردیئے جائیں۔ذرائع نے بتایاکہ نیب کے معاملے پرحکومت اوراداروں کے درمیان کشیدگی موجودہے۔یہ تاثر بھی موجودہے کہ چیئرمین نیب جوایک سابق فوجی اورسابق صدر جنرل ضیاء الحق کے اے ڈی سی رہ چکے ہیں ،وہ اپنے پرانے ادارے کے ساتھ رابطے میں ہیں۔ذرائع کے مطابق فوج سیاسی معاملات میں نہیں پڑناچاہتی لیکن دہشتگردی کے خلاف جنگ میں اس نے یہ دیکھاکہ کر پشن کی رقم دہشتگردوں کی سرپرستی اورانہیں ہتھیارفراہم کرنے کیلئے استعمال ہوئی اورکرپٹ سرکاری اہلکاراورافسران نے رشوت لیکر دہشتگردوں کوملک میں آنے اورانہیں ٹھہرنے کاموقع فراہم کیا جس کی وجہ سے ملک میں سرمایہ کاری نہیں آئی،کیونکہ نہ امن ہے اورنہ ہی شفافیت موجودہے۔
آرمی چیف نے بارہایہ کہاہے کہ ”ہم کرپشن کے خلاف بھی جنگ لڑیں گے کیونکہ کرپشن ہی دہشتگردی کی سرپرست ہے”لیکن سوال یہ پیداہوتاہے کہ مقتدرحلقوں نے کرپشن اور دہشتگردی کوایک جیساجرم قراردیاتھاتوکیاوہ ان ترامیم کوبرداشت کرلیں گے؟کیونکہ جنرل راحیل شریف نے این ایل سی اسکینڈل میں ملوث جنرل رینک تک کے فوجی افسران کو کرپشن میں ملوث ہونے کے سبب ملازمت سے فارغ کردیاتھاجبکہ اپنے پیش روسابق آرمی چیف جنرل کیانی کے بھائیوں کے خلاف انکوئری پربھی وہ اثراندازنہیں ہوئے لیکن ان دنوں یہ خبربھی گرم ہے کہ حساس ادارے کے ایک اعلیٰ عہدیدارنے ایم کیوایم سے ملاقات میں اپنی تمام کالی بھیڑیں حکومت کے سپردکرنے کے بعدسیاست کرنے کی اجازت دے دی ہے جبکہ ایم کیوایم نے رضامندی کااظہارکرتے ہوئے کراچی کی ایک انتہائی اعلیٰ شخصیت کوعہدے سے ہٹانے سے مشروط کردیاہے!

یہ اڑی اڑی سے رنگت یہ کھلے کھلے سے گیسو
تری صبح کہہ رہی ہے تیری رات کافسانہ

اپنا تبصرہ بھیجیں