خونِ ناحق کہیں چھپتاہے

:Share

پاکستان کی تاریخ میں جوسب سے خطرناک عنصرداخل ہواہے کہ دلیل کے میدان میں شکست خوردہ عناصر مدمقابل کومیدان سے گولی،حادثہ کے ذریعے میدان صاف کرکے اپنی راہ آسان کرلیتے ہیں،وہ انسانوں کے لہوسے ہولی کھیل کراقتدارسے رنگے جاتے ہیں یااپنی راہ کے خطرات کودور کرکے اقتدارکی طوالت کاسامان کرلیتے ہیں۔یہ سازشی عناصر وہ خطرناک وائرس ہیںجوملکی کی ترقی وکمال کی راہ کھوٹی کرتے آئے ہیں۔یہ اپنے مقاصد کی خاطر اغیارکے ہاتھوں میں کھیلتے ہیں اورنادیدہ لوگوں کے گملوں میں پرورش پانے میں فخر محسوس کرتے ہیں۔قائداعظم محمدعلی جناح نے تحریک پاکستان کے دوران اپنی تقریرمیں یہ برملااعلان کیاتھاکہ میری جیب میں کچھ کھوٹے سکے ہیں لیکن اس کے باوجوداپنی صحت کی خرابی کو ساری دنیاسے پوشیدہ رکھااوران کھوٹے سکوں کی موجودگی کے باوجوداس معجزاتی ریاست کے قیام کومنزل تک پہنچانے میں کامیاب رہے لیکن پاکستان میں ان کھوٹے سکوں کے ہاتھوں ان کے ساتھ جو بیتی اورجس طرح اس مردبیمارکی ایمبولینس کوگھنٹوں خراب کرکے تپتی دھوپ میں کھڑا رکھا گیا، ان کی حیات کی گھڑیاں کم کرنے کی جودانستہ کوششیں کی گئیں،وہ تاریخ کاایک شرمناک باب ہے۔
بانی پاکستان سے جلدازجلدچھٹکارہ حاصل کرنے کے خواہشمند احباب وہی تھے جنہیں قائدکا اقتدار میں ہونااس لئے پسندنہیں تھاجنہوں نے ناممکن کام کوممکن بناکران عناصرکے ممکنات کوناممکن بنارکھاتھااور ان کھوٹے سکوں کواپنے انجام کی فکردامن گیرتھی اوروہ پاکستان جیسی ریاست کو خاکم بدہن کمزورکرکے اسے ختم کرنے کے درپے تھے۔عالمی منظرمیں قائد اعظم محمدعلی جناح کی موت کامعاملہ کوئی معمولی واقعہ نہ تھامگر بدقسمتی سے اس کوپاکستان میں معمول کی کاروائی سمجھ کرطاقِ نسیان بنادیاگیااورجوہوناتھاوہ ہوگیاکہہ کرفراموش کرنے کی پالیسی اپنالی گئی ۔اس کے بعدلیاقت علی خان کادورِ حکمرانی شروع ہواجوقائداعظم محمدعلی جناح کے دورکا پرتوتھا،جنہوں نے مکارانڈیاکومکا دکھاکربتادیاتھاکہ ہم تمام صوبوں کے عوام مکے کی طرح متحدہیں۔انہوں نے نظریہ پاکستان کی خطوط پراقدامات شروع کیے ،قراردادمقاصدکیلئے علماء اورمفکرین کویکجا کرکے یہ ثابت کیاکہ تمام مسلمان ایک ہیں،اگرچہ ان کے مسالک الگ الگ بلاشبہ ہوں مگرمنزل اسلام ہے اورانہوں نے یہ بھی یقین دہانی کروائی کہ معجزاتی ریاست کی زمامِ کارانہی اصولوں پروضع کی جائے گی جس کیلئے قائداعظم محمدعلی جناح نے اپنی کئی تقاریرمیں وعدہ کیاتھاکہ ہمیں پاکستان کیلئے کسی مغربی آئین سے مددلینے کی قطعی ضرورت نہیں کیونکہ ہماراآئین چودہ صدیاں قبل الحامی کتاب”قرآن”کی شکل میں ہمارے پاس موجودہے۔
1947ء میں مسلم لیگ کے کراچی کے اجلاس میں قائداعظم نے کہا” لیاقت علی خاں میرا دایاںبازو ہیں۔ انہوں نے اپنے فرائض کی ادائیگی میں دن رات ایک کر کے کام کیا ہے اور شاید کسی کو اندازہ نہیں کہ انہوں نے کتنی بھاری ذمے داری سنبھالی ہوئی ہے۔ سب مسلمان ان کی عزت کرتے اور ان پر اعتماد کرتے ہیں۔ وہ اگرچہ نواب زادہ ہیں لیکن عام انسانوں کی طرح کام کرتے ہیں۔ مجھے امید ہے کہ دوسرے نواب بھی ان کی پیروی کریں گے”۔ وہ اپنے یا کسی اور کے اختلاف رائے سے قائداعظم کوآگاہ کردیتے تھے لیکن عمل وہ انہی کے فیصلے پرکرتے تھے۔ جیسا کہ قائد اعظم نے کہا تھا وہ ان کا دایاں بازو تھے۔
سولہ اکتوبر1951ءکادن تھا۔ وزیر اعظم پاکستان لیاقت علی خان کوکمپنی باغ راولپنڈی میں پاکستان مسلم لیگ کے جلسہ عام سے خطاب کرنا تھا۔ اوائل سرما کی اس شام نوابزادہ لیاقت علی خان پونےچار بجے جلسہ گاہ میں پہنچے۔لیاقت علی خان جوڈٹ جانے کی خدادادصلاحیت کے حامل تھے ،ان عناصرکی آنکھ کاکانٹابن گئے جویہ سب کچھ نہیں دیکھناچاہتے ہیں۔ ان کے استقبال کیلئے مسلم لیگ کاکوئی مرکزی یاصوبائی رہنماموجودنہیں تھا۔مسلم لیگ کے ضلعی رہنماؤں نے ان کااستقبال کیا۔ مسلم لیگ گارڈز کے مسلح دستے نے انہیں سلامی پیش کی۔پنڈال میں چالیس پچاس ہزارکا مجمع موجود تھا۔مسلم لیگ کے ضلعی رہنما شیخ مسعود صادق کے خطبہ استقبالیہ کے بعد وزیراعظم مائیک پر آئے۔وزیر اعظم نے ابھی برادران ملت کے الفاظ ہی ادا کیے تھے کہ پستول کے دوفائرسنائی دیے۔اگلی صف میں بیٹھے افغان باشندے سید اکبرنے پستول نکال کروزیراعظم پریکے بعد دیگرے دوگولیاں چلائیں۔ پہلی گولی وزیراعظم کے سینے اوردوسری پیٹ میں لگی۔وزیرِاعظم گر پڑے۔ فضامیں مائیکروفون کی گونج لحظہ بھرکومعلّق رہی۔ پھرتحکمانہ لہجے میں پشتوجملہ سنائی دیا”داچاڈزے اوکڑے؟اولہ”۔ یہ آوازایس پی نجف خان کی تھی جس نے پشتومیں حکم دیاتھاکہ گولی کس نے چلائی؟ مارواسے!
نوسیکنڈ بعدنائن ایم ایم پستول کاایک فائرسنائی دیاپھریکے بعددیگرے ویورلے ریوالورکے تین فائر سنائی دیے۔اگلے پندرہ سیکنڈ تک ریوالوراور رائفل کے ملے جلے فائرسنائی دیتے رہے۔اس وقت تک قاتل کے اردگردموجودلوگوں نے اسے قابوکرلیاتھا۔اس کاپستول چھین لیاگیاتھامگرایس پی نجف خان کے حکم پرانسپکٹرمحمدشاہ نے قاتل پرسرکاری پستول سے یکے بعددیگرے پانچ گولیاں چلا کراسے ختم کردیا۔وزیراعظم شدید زخمی حالت میں جلسہ گاہ سے باہرلائے گئے۔ وزیربرائے امور کشمیرنواب مشتاق گورمانی کی گاڑی جلسہ گاہ میں داخل ہورہی تھی۔ وزیراعظم کواسی گاڑی میں ملٹری ہسپتال پہنچایاگیا۔جہاں وہ زخموں کی تاب نہ لاکرانتقال کر گئے۔لیاقت علی خان کاقتل پاکستان کی تاریخ کے پراسرارترین واقعات میں سے ایک ہے۔ لیاقت علی خان کاقتل وہ نکتہ ہے جہاں پاکستان کی قیادت سیاسی رہنماں کے ہاتھ سے نکل کرسرکاری اہل کاروں اوران کے کاسہ لیس سیاستدانوں کے ہاتھ میں پہنچی۔ قتل کے محرکات،سازشیوں کے نام اورواقعات کاتاناباناشکوک و شبہات کی گہری دھند میں لپٹے ہوئے ہیں۔ کسی نے آج تک اس معاملے کی تحقیق نہیں کی کہ ایس پی نجف کوکس نے یہ اختیاردیاتھاکہ وہ اپنے ماتحت انسپکٹرمحمد شاہ کوسیداکبرکوگولی مارنے کاحکم دے جبکہ قاتل کوغیرمسلح کرکے قابوکرلیاگیاتھا۔ان دونوں پولیس افسروں کوبعدازاں ترقی دیکراگلے عہدوں پرفائزکردیاگیا۔
قائداعظم کے بعدیہ دوسراکھلم کھلاقتل کاسانحہ رونماہوگیا۔لیاقت علی خان جولیاقت پارک میں اہم اعلان کرنے اورسازشی عناصرکے بے نقاب کرنے والے تھے،انہیں اس سے قبل ہی گولی مارکر شہیدکردیاگیااورقاتل کے طورپراکبرخان نامی شخص کوبھی موقع پرہلاک کردیاگیاتاکہ واردات کے نشان نہ مل سکیں مگریہ بات لیاقت علی خان کے فرزندنے ایک انٹرویو میں اٹھائی کہ لیاقت علی خان کودو گولیاں توسامنے سے لگیں مگرتیسری گولی کانشان پشت پرتھا،وہ کس نے چلائیَ؟لیاقت علی خان کے آخری مرحلے کے اس جملے نے کہ”اللہ پاکستان کی حفاظت کرے”ان سازشی عناصر کے چہرے کی نقاب نوچ ڈالی ،پھرعوامی ردّ عمل کوسردکرنے کیلئے تحقیقاتی کمیشن کاڈول ڈالا گیا۔تحقیقاتی کمیشن نے جان توڑکوشش سے اس قتل کاسراغ لگا لیااوررپورٹ تیارکرنے کے بعدکہہ دیاکہ حیران کن انکشافات ہوں گے اورپھرکیاہوا،انکوائری کرنے والے موصوف کاطیارہ تباہ کرکے ان کی رپورٹ سمیت دریابردکردیاگیا۔اب جورپورٹ سانحہ لیاقت علی شہیدکی سرکاری ریکارڈ میں بتائی جاتی ہے،وہ چنداوراق پرمشتمل اورخانہ پوری محب وطن قوتوں کے منہ پرطمانچہ سے کم نہیں اورسازشی عناصرکی فتح یابی کے شادیانے کی ایک بڑی دستاویزہے۔اس سانحے کی وجہ بھی قائداعظم کی موت کی طرح اسلام پسندی اورحب الوطنی ہی تھی جوبرداشت نہ تھی۔
تیسری بڑی اجتماعی شہادت جنرل محمدضیاء الحق اوران کے رفقاء کی رہی جوجہادافغانستان میں دنیاکی سپرپاورسوویت یونین کوشکست سے ہمکنارکرکے اللہ کی حاکمیت اورسپرپاورکی روشن مثال دنیاکے سامنے رکھی اورجہادکی کھیتی سبزہ زاربنادی تھی۔ان کی شہادت سے قبل کی تقریر بتاتی ہے کہ وہ مملکت میں اسلامی نظام کے عملاًنفاذکے منصوبے کوجو جہاد افغانستان کی بدولت تعطل کاشکارہوگیاتھااوریوں ہی جہادافغانستان کے کامیاب تجربے کومقبوضہ کشمیر کی آزادی کیلئے آزمانے کی تیاریوں میں مصروف تھے۔17اگست1988 ء کو بہاولپور شہر کے قریب ایک چھوٹے سے گاؤں بستی لال کمال کے نواح میں ان کاخصوصی طیارہ جب کریش ہوا تو آگ اور دھوئیں کا ایک بہت بڑا اور مہیب بادل فضا میں بلند ہوا جو موسم گرما کی اس چمکتی اور شفاف سہ پہر میں دور سے نظر آرہا تھا۔ حرارت بے پناہ اور ناقابل برداشت تھی۔ زمین پر ٹکراتے ہوئے جہاز پرزے پرزے ہو گیا ۔ طیارے کے بعض اجزا جو اس نیم صحرائی علاقے میں گرے تھے ، آگ کے الا ؤبن کر بھڑک رہے تھے۔ کوئی بھی زندہ نہ بچا تھا۔ مرنےوالے31 افراد میں پاک فوج کے پانچ جرنیل،دو امریکی شہری اور صدر پاکستان صدر جنرل محمد ضیا الحق شامل تھے۔ان سازشی عناصرنے آن کی آن میں نہ صرف پاکستانی فوج کی تاریخ کاناقابل تلافی نقصان کرڈالابلکہ پاکستان میں اسلامی نظام کی آمدکاراستہ بھی روک دیا۔ اس شہادت میں بھی نام ہی بدلے ملے تھے ۔وہی کردارجواسلام اورپاکستان دونوں کوپھلتااورپھولتا گوارہ نہیں کرتے وہ اپنی ذات کی خوشحالی اوراغیارکی خوش دلی پررجھتے ہیں۔ یہ تیسرابڑاسانحہ ارتحال تھاجواگروقوع پذیرنہ ہوتاتوپاکستان کی تقدیربدل جاتی مگرابھی عشق کے امتحان اوربھی تھے۔
17اکتوبر1998ء کی ایک صبح کا ماجرہ ہے، جب سپیدہ سحر پوری طرح نمودار بھی نہیں ہوا تھا۔ حکیم محمد سعید اپنی سفید گاڑی میں اپنے آرام باغ میں واقع اپنے مطب پہنچے۔ گاڑی سے اترے اوراپنی ٹوپی اپنے ایک معاون کے ہاتھ میں دی اور مطب کی طرف بڑھنے لگے ۔اسی دوران نیم اندھیرے میں آتشیں ہتھیاروں نے شعلے اگلے اور کئی گولیاں حکیم سعید کے جسم میں پیوست ہو گئیں۔ پھر دنیا نے یہ دلخراش منظر بھی دیکھاکہ لاکھوں لوگوں کا علاج کرنے والے مسیحا کی لاش ایک گھنٹے تک سڑک پر پڑی رہی۔بھارت میں جب ان کے بھائی کوجب اس المناک حادثے کی اطلاع دی گئی تو انہوں نے تڑپ کرکہاکہ میں توکربلامیں محفوظ رہااورمیرابھائی مدینہ میں مارا گیا۔ملک کے ہمدردسابق گورنرسندھ حکیم سعید جوبقاء پاکستان کی ضمانت اورعوام کے دلوں پر احترام کاسکہ جمائے ہوئے تھے،ملک میں بڑھتی ہوئی کرپشن اوربدامنی،لسانی فتنہ پروری جو ملک کی جڑیں کھوکھلاکررہی تھیں کو بچانے کیلئے میدان میں اترے اورحکمت ودانائی سے ان امراض کاعلاج کرنے میں کامیاب ہوتے گئے توپھران کوبھی ظالموں نے راہ کا بھاری کانٹااور پتھرسمجھ کربڑی بے رحمی سے ہٹادیااوریوں وہ جس مشن پرتھے اورجن کی جڑوں پروہ کمال دانشمندی اورحب الوطنی سے تیشہ چلارہے تھے ،ان سازشی عناصرنے ان کوروزے کی حالت میں شہیدکرکے ایک بڑی کامیابی حاصل کرلی۔حکیم محمدسعیدشہیدنے اپنی آخری خواہش میں یہ فرمایاتھاکہ:میں ایسے حال میں فرشتہ موت کا استقبال کرنا چاہتا ہوں کہ میری نگاہوں کے سامنے ہمدرد اسکول اور الفرقان میں پانچ ہزار بچے تعلیم پارہے ہوں۔ ہمدرد یونیورسٹی امتیازات کے ساتھ ہزار ہا نوجوانوں کو انسانِ کامل بنارہی ہو۔ اور یہ جوان دنیا بھر میں پھیل کر آوازِ حق بلند کرنے کی تیار ی کیلئے کمر بستہ ہوں۔ان کی یہ خواہش تو زندگی میں پوری ہوئی لیکن ان کے قاتل آج بھی آزاد ہیں۔
حکیم محمدسعیدشہیدکی شہادت پرکیاتحقیقات ہوئیں،کن وجوہات کی بناء پران کوشہیدکیاگیا،یہ کوئی صیغہ رازنہیں لیکن سازشی عناصرآج بھی فتح کے شادیانے بجارہے ہیں۔پی پی پی ،جن کی حکومت میں یہ گورنررہے ان کوبھی فرصت نہ ہوئی کہ پاکستان کے اس عظیم سپوت کی شہادت کی جامع تحقیقات کراتی مگران کی شہادت سے سندھ جوبرسوں قبل دہشتگردوں کے قبضے سے آزادہوسکتاتھا،وہ اب تک مکمل طورپرآزادنہ ہوسکالیکن پچھلے چندبرسوں میں ان دہشتگردوں کے خلاف جوکاروائی ہوئی جس کے بدلے میں آج امن دیکھنے کومل رہاہے،یہ آپریشن اس وقت بھی ہوسکتاتھا۔ اتنے برسوں تک ملک کے سب سے بڑے شہرمیں ان مجرموں کی سرکوبی کیوں نہ ہو سکی؟اتنے برسوں تک ارض وطن کاجونقصان ہوا،اس کی تو تحقیق ہوسکتی ہے کہ آخروہ کون سے سازشی عناصرہیں جنہوں نے ان کے خلاف آپریشن نہیں ہونے دیا؟حکیم محمدسعیدکی شہادت بھی اسی زمرے میں چلی گئی جس زمرے میں قائداعظم اورلیاقت علی خان ،جنرل محمدضیاء الحق اور ان کے رفقاء کی تھی۔میں نے ملک کی انتہائی اہم شخصیت سے جب پوچھاتوکہا گیا”آگے کی سوچو ”۔شائداب نگاہ متلاشی تھی کہ یہ عناصراب شہادت کاتاج کس کوپہناتے ہیں اورکون ان کاہدف بن کر سرخروہوتاہے۔
بالآخرانہی دنوں یہ الخراش خبرآگئی کہ یہ خوش نصیبی تکبیرکے بانی محمد صلاح الدین کے حصے میں آن پہنچی ہے۔اسلام اورپاکستان کے حوالے سے ان کی جانبدارانہ صحافت ان عناصر کے سینہ پرمونگ دل رہی تھی۔یوں قلم مقدس کے امین محمدصلاح الدین کی شہادت بھی اسی مالا کاپھول بن گئی جس میں قائداعظم سے لیکرحکیم محمدسعیدشہیدمہک رہے ہیں۔محمدصلاح الدین کی صحافت حکیم محمدسعیدشہیدکی طرح ایک عہد رفتہ اورمؤثرآواز تھی جوخاموش کردی گئی۔مجھے آج وہ وقت انتہائی شدت سے یادآرہاہے اوررلابھی رہاہے جب اتفاق سے ان دونوں عظیم شہداء کی میزبانی کامجھے کئی دنوں تک شرف حاصل رہاجب لندن میں یہ دونوں اصحاب میری شدیدخواہش پرمیرے ہاں مقیم تھے اورمیں نے ان سے نہ صرف زندگی کے کئی اہم اسباق سیکھے بلکہ ان کی عقل ودانش ،پاکستان میں اسلامی نظام میں دلچسپی اورتڑپ اورسادگی کوبہت قریب سے دیکھا ۔حکیم محمدسعیدشہیدتو پاکستان میں چلنے والے بہت بڑے کاروباری ادارے ”ہمدرد”کے نہ صرف بانی اورمالک تھے بلکہ سینکڑوں افرادکے گھروں کے چولہے بھی ان کی خاموش مددسے چلتے تھے اورارضِ وطن کوسالانہ بھاری ٹیکس بھی اداکرنے کے علاوہ کئی خیراتی اداروں کواپنی گرہ سے چلاتے تھے اورمحمدصلاح الدین شہیدتوکراچی میں ٹین کی چھت کے گھرمیں اپنے اہل خانہ کے ساتھ مقیم تھے۔ان دونوں حضرات کے پاس رات کے معمولی سے لباس کے علاوہ صرف ایک پاجامہ اورشیروانی تھی جوچنددنوں کے بعداسے خودہی رات کودھوکراگلے دن زیبِ تن کرلیتے تھے۔
ان دوعظیم ہستیوں کوشہیدکرنے کے بعدپھرکیاشہادتوں کاقافلہ رک گیا؟ہرگزنہیں ،کچھ شہادتیں ایسی بھی ہوئیں کہ ان پرزمانہ کی گردڈال دی گئی ۔محترمہ فاطمہ جناح جوقائداعظم کی بہن تھیں ،کی موت پرماہرقانون عبدالحفیظ پیرزادہ نے ایک انٹرویومیں انکشاف کیاتھاکہ ان کوغسل دینے والی کے بقول فاظمہ جناح کی گردن پرانگلیوں کے واضح نشانات تھے ،ان کوگلاگھونٹ کرشہید کیا گیا۔ قوم کی ماں کی ناگہانی موت پرانکوائری نافرمان اولاد کب کراتی جواقتدارکے نشے میں چورو مخمورتھی۔
اسی طرح بے نظیربھٹوکی موت بھی اہم ترین اموات میں سے ایک ہے۔27 دسمبر2007 ء کو لیاقت باغ راولپنڈی میں دہشتگردی کی بدترین کاروائی میں بی بی اپنے درجنوں ساتھیوں کے ہمراہ شہید کردی گئیں۔پی پی پی نے اپنے دور حکومت میں اسکاٹ لینڈ اور اقوام متحدہ سے بھی بے نظیر بھٹو قتل کی تحقیقات کروائی جن پر قومی خزانے سے لاکھوں ڈالر فیس بھی ادا کی گئی مگر کوئی نتیجہ نہ نکلابلکہ اس تحقیقاتی کمیٹی کے سربراہ نے رپورٹ میں آصف زرداری کے خاص اوراس وقت کے وزیرداخلہ رحمان ملک کی دوران تحقیق عدم تعاون کی سخت شکائت کی جس سے آج تک شکوک و شبہات کوبڑی تقویت مل رہی ہے اوربے نظیرکے قتل کے فوری بعدان کی وصیت کابرآمدہو جانا آج تک کسی کوہضم نہیں ہوپایا۔ شنید ہے کہ مشرف دورمیں آصف زرداری کوکرپشن کے تمام مقدمات سے بری کروانے کے پیچھے بھی کئی ہوشرباداستانیں موجودہیں۔
بے نظیر بھٹو کے قتل کے بارے میں اب تک ہونے والی پیش رفت پر ایک ماہر قانون کا مؤقف یہ بھی ہے کہ گماں ہوتا ہے کہ بی بی کے ورثا (آصف زرداری)اس اہم مقدمہ کو منطقی انجام تک پہنچانے میں دلچسپی ہی نہیں رکھتے جس کے سبب ملک کی دومرتبہ وزیراعظم رہنے والی شخصیت کے قتل کا مقدمہ مسلسل التوا کا شکا رہے۔بی بی کی شہادت نے آصف زرداری کوپاکستان میں اقتدار کے سب سے اہم اوراعلیٰ عہدے(صدرپاکستان ) پر توپہنچادیا جس کابی بی کی موجودگی میں اس کاخواب بھی نہیں دیکھ سکتے تھے،اورایوان صدرمیں بیٹھ کرانہوں نے برطانیہ میں اپنے جیالے سفیر واجد شمس الحسن کے ذریعے اپنے خلاف کرپشن اورملک کی لوٹی ہوئی دولت کا سوئٹزرلینڈمیں چلنے والے مضبوط مقدمے کے نہ صرف تمام تحریری شواہد اپنے قبضے میں کر لئے بلکہ عدم پیروی اور شواہدکی عدم دستیابی کی بناء پروہ مقدمہ بالآخرخارج کروادیااوریوں وہ شواہدجوملکی خزانے سے کروڑوں روپے کی لاگت اورانتہائی محنت سے تیارکئے گئے تھے،ان پربھی ہاتھ صاف کرلیاگیا۔
اس سچائی سے انکار کی گنجائش بہرحال موجود نہیں کہ سابق صدرزرداری کی جانب سے پانچ سالہ اقتدار کے دوران جس بدترین گورنس کا مظاہر ہ کیا وہ اپنی مثال آپ رہا۔ایک طرف خبیر تا کراچی دہشتگردی اور قتل وغارت گری کانہ ختم ہونے والا سلسلہ جاری وساری رہا تو وہی توانائی بحران چارسو اپنی موجودگی کا پتہ دیتا رہا۔ میگا کرپشن سکینڈل بھی پاکستان پیپلزپارٹی اور اس کی اتحادی جماعتوں کی حکمرانی میں باشعور پاکستانیوں کا منہ چڑھاتے رہے۔ اس میں قطعاً دوآراء نہیں کہ سابق صدر زرداری کی ناکامیوں اوروائٹ کالرکرپشن کی فہرست خاصی طویل ہے مگر ان سب میں جو ناکامی پارٹی کے لیے اب بھی شرمندگی کا باعث ہے وہ بے نظیر بھٹو کے قاتلوں کا اپنے انجام کو نہ پہنچنا ہے ،شائدآصف زرداری کے مفادمیں یہی تھاکہ یہ مقدمہ سردخانے کی اتھاہ گہرائیوں میں غرق کردیاجائے اورصرف اپنی سیاست کیلئے بوقت ضرورت استعمال کیاجائے۔
بظاہرمحترمہ بے نظیر بھٹوکے قتل کے بعد سے لے کراب تک پاکستان پیپلزپارٹی بدستور بحرانوں سے دوچار ہے۔ بی بی کے قریب سمجھے جانے والے لوگوں کوجس اندا زمیں نظر انداز کیا گیا اس نے پی پی پی کے سیاسی مخالفین کو یہ دعوے کرنے کاموقعہ دیاہے کہ نئی قیادت کابی بی کے سیاسی فلسفہ سے کوئی لینادینا نہیں اورحیرت تواس بات پرہے کہ بے نظیرکے بیٹے بلاول زرداری جوپہلی مرتبہ عملی سیاست میں حصہ لے رہے ہیں ،وہ اپنی ہرتقریر میں اپنی والدہ اوراپنے ناناکے منشورکاتذکرہ توکرتے ہیں لیکن اپنی ماں کے قتل کے بارے میں ایک مرتبہ بھی صاف وشفاف تحقیق کامطالبہ نہیں کیا جبکہ ان کے والدآصف زرداری کوتوبے نظیرکی شہادت پر ہمدردی نے ہی نہ صرف الیکشن میں فتح دلوائی بلکہ صدارت کے منصب پرپہنچنے میں بھی مددکی تھی لیکن اب عوام اس قدرباشعورہوگئی ہے کہ کراچی کالیاری کاحلقہ جوپیپلزپارٹی کاگڑھ سمجھاجاتاتھا۔پہلی مرتبہ بلاول زرداری کوعبرتناک شکست سے دوچارکردیااورحیرت کی بات تویہ ہے کہ اس انتخاب میں خودآصف زرداری اوران کی بہن فریال تالپورنے انتخاب میں کامیابی توحاصل کرلی لیکن عملاً اس مرتبہ انتخابی مہم سے لاتعلق رہے ،اسی وجہ سے لاڑکانہ شہرپرپیپلزپارٹی کاجومکمل قبضہ تھا،اس مرتبہ پہلی دفعہ لاڑکانہ شہرکی ایک سیٹ سے بھی محروم ہوگئے۔
سابق صدر جنرل(ر)پرویز مشرف نے دبئی سے اپنے ایک ویڈیو میں کہا ہے کہ سابق وزیراعظم پاکستان،پیپلزپارٹی کی چیئرپرسن اورمسلم ممالک کی پہلی خاتون سربراہ مملکت بے نظیربھٹو اور ان کے بھائی میرمرتضی بھٹو کو آصف زرداری نے قتل کروایا ہے۔ پرویز مشرف کا کہنا تھا کہ بے نظیربھٹو کے قتل میں بیت اللہ محسود کا بھی ہاتھ ہے جبکہ آصف زرداری بینظیربھٹو اورمیر مرتضیٰ بھٹوکوقتل کروانے والے ہیں۔واضح رہے کہ میرمرتضیٰ بھٹو کی برسی کے موقع پر آصف زرداری نے میر مرتضیٰ بھٹو کے قتل پر انصاف نہ ملنے کا شکوہ کیا تھا جبکہ اس کے اگلے ہی دن مرتضیٰ بھٹو کی بیٹی فاطمہ بھٹو نے اپنے والد کی برسی کے موقع پراپنے پیغام میں کہا تھا کہ وہ اپنے والدکے قتل پرانصاف کی منتظرہیں جس کے جواب میں اب سابق صدر پرویزمشرف نے
نے اپنے اس انکشاف میں مرتضیٰ بھٹواوربے نظیربھٹوکے قتل کاذمہ دارآصف زرداری کوٹھہرادیا ہے۔زلمے خلیل زادایک تاجر،ماہربین الاقوامی امور اورسفارتکارتھے۔جارج بش کابینہ میں امریکاکی جانب سے سفیربرائے اقوام متحدہ مقررہوئے۔اس کے علاوہ امریکی سفیر برائے افغانستان پھر امریکی سفیربرائے عراق بھی مقررہوئے۔زلمے خلیل زادامریکی وائٹ ہاس،سٹیٹ ڈپارٹمنٹ اور پینٹا گون میں امریکی پالیسی تشکیل دینے والے کمیٹیوں کے رکن بھی رہے ۔بے نظیربھٹوجواس وقت برطانیہ میں جلاوطن زندگی گزاررہی تھیں ،زلمے خلیل زادکے توسط سے اس وقت کی امریکی خارجہ سیکرٹری کونڈالیزارائس سے ملاقات کا بندوبست کیاگیا۔یادرہے کہ اس وقت جنرل پرویز مشرف بھی پاکستان کے آئندہ انتخابات میں حصہ لیکرجمہوری صدر بننے کیلئے پرتول چکے تھے اوراس سلسلے میں امریکاکویہ باورکرارہے تھے کہ اس خطے میں ان کی پالیسیوں کو بڑھانے کیلئے ان سے زیادہ کوئی موزوں شخص نہیں مل سکتا۔امریکی کانگرس کوبھی پاکستان میں جمہوریت دیکھنے کابخارچڑھ چکاتھا جس کیلئے ”این آراو”کاڈول ڈالاگیااورباقاعدہ طورپر اس سلسلے میں اس خطے میں امریکی پالیسیوں کے تسلسل کیلئے کونڈالیزرائس نے ایک پل کا کردار اداکرتے ہوئے پرویزمشرف اوربے نظیربھٹوکی دبئی میں ملاقاتوں کابندوبست کیاگیاجس میں “ایم آراو”کی نوک پلک سنواری گئی جس میں جنرل کیانی نے بھی دونوں فریقوں کی معاونت کی کیونکہ بے نظیربھٹوکے دورِاقتدارمیں جنرل کیانی نے ان کے ساتھ ملٹری سیکرٹری کے طورپر کام کیا تھاجس کی بنا پربے نظیربھٹوکوان پراعتمادتھا۔ یاد رہے کہ اس سارے سیاسی ڈرامے کاآغاز آصف زرداری کی کرپشن میں تمام مقدمات میں رہائی کے وقت طے ہواتھاجس کے بعدآصف زرداری نے نیویارک میں اپنے فلیٹ میں بیٹھ کراس معاہدے کاآغازکردیاتھا۔تاہم بے نظیربھٹونے شمالی کوریا سے میزائل ٹیکنالوجی لاکرپاکستان کواس قابل بنایا کہ وہ فضاہی میں دشمن کوکوتباہ کرسکے اورکسی بھی قسم کی جارحیت کامنہ توڑجواب دینے کے قابل بن گیا۔کہنے والے بے نظیر بھٹوکی موت کے بارے میں کہتے ہیں کہ ان عناصرسے بغاوت کے زمرے میں ہوئی جونہیں چاہتے تھے کہ کوئی سراٹھا کر جئے اورسرتابی کرے، ان کے احکام کی گستاخی کرے مگران شہادتوں کاالمیہ یہ ہے کہ کسی کی بھی تحقیقات کی رپورٹ آج تک منظرعام پر نہیں آسکی کہ ان تمام کوکس جرم میں شہید کیاگیا۔
قائداعظم محمدعلی جناح ،لیاقت علی خان، جنرل ضیاء الحق اوران کے تمام رفقاء،حکیم محمدسعید، محمدصلاح الدین،محترمہ فاطمہ جناح اوربے نظیر بھٹوکی شہادتوں کی تحقیقات کرکےان عناصر اوراسباب کاسراغ لگایاجائے پھران عناصرکی بیخ کنی کردی جائے توملک وقوم ترقی وکامرانی کی راہ پر گامزن اورخطرات سے نکل سکتے ہیں ورنہ یہ عناصرملک وقوم کونگل جائیں گے۔صرف سات شہادتوں کی تحقیقات سے ہی سب کچھ واضح ہوجائے گاکہ ان شہادتوں کافائدہ کس نے اٹھایا اورکس نے ان کوپایہ تکمیل تک پہنچایا۔یہ کرنے کاکام ہے جو اہم بھی ہے اوروقت کاتقاضہ بھی۔ سب رازان شہادتوں میں پوشیدہ ہیں۔ان قائدین کاخون ضروررنگ لائے گاتوانقلاب آئے گا۔
خونِ ناحق کہیں چھپتاہے چھپائے سے امیر
کیوں میری لاش پربیٹھے ہیں وہ دامن ڈالے

اپنا تبصرہ بھیجیں