لہوناحق کب تلک؟

:Share

مقبوضہ کشمیر کے اخبار رائزنگ کشمیر کے ایڈیٹر شجاعت بخاری کی ہلاکت پر پاک وہندکے تقریبا ًتمام قومی اخباروں نے مضامین اور اداریے شائع کیے ہیں۔ جس طرح شجاعت کے بارے میں ان کی زندگی میں لوگوں کی آراء منقسم تھیں اسی طرح ان کی ہلاکت کے بعدبھی لوگوں کی الگ الگ آراءہیں۔مقبوضہ کشمیرکی آزادی کیلئے جدوجہدکرنے والے ان سے نالاں ضرورتھے لیکن ان کے قتل پرلاتعلقی کااظہارکررہے ہیں جبکہ بھارتی خفیہ ایجنسیاں اورہندوتوا نوازتنظیمیں انہیں شدت پسند تنظیموں اورجہادیوں کا ترجمان مانتی تھیں۔ لشکرِ طیبہ کی جانب سے کہاگیاہے کہ کوئی بھی عسکریت پسند گروپ اس کاروائی میں ملوث نہیں۔اسی طرح کشمیر میں سرگرم 12 عسکری تنظیموں کے اتحاد جہاد کونسل کے سربراہ صلاح الدین نے بھی شجاعت بخاری کے قتل کی مذمت کرتے ہوئے عالمی سطح پراس کی تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے۔
خودشجاعت قتل سے پہلے بعض ہندوتوا نوازعناصر کے ان الزامات سے خود کا دفاع کررہے تھے کہ وہ پاکستان کے اشارے پرچل رہے ہیں۔کچھ عرصے پہلے جب انہوں نے کشمیرمیں امن کا کوئی راستہ نکالنے کیلئے دبئی میں ایک ٹریک ٹو ٹائپ کے مذاکرات کا اہتمام کیا تھا تو کشمیر کی شدت پسند تنطیموںنے اسے انڈیا کا سپانسر کیا ہوا پروگرام قرار دیا تھا۔ایک صحافی کے طور پر شجاعت بخاری کی ساکھ کا سب سے بڑا ثبوت یہی ہے کہ انہوں نے ایک درمیانی راستہ اختیارکرنے کی کوشش کی تھی۔2006ءمیں نامعلوم افراد نے اغوا کر کےگولی مارنے کی ناکام کوشش کی تاہم شجاعت ان کی گرفت سے بھاگ نکلے،گزشتہ کئی برسوں سے ان کے ساتھ کم از کم چار ذاتی محافظ تعینات رہتے تھے لیکن اجل نے اس وقت آن لیا جب وہ اپنے دومحافظوں ممتازاحمداور عبدالحمیدکی معیت میں”ڈیلی رائزنگ”کے دفترسے اپنے گھرکیلئے جونہی گاڑی میں بیٹھے۔حملہ آوروں کی گولیوں کی بوچھاڑ میں ان کے ساتھ ان کے دومحافظ بھی مارے گئے۔
تجزیہ کار نروپما سبھرامنین لکھتی ہیں کہ ”شجاعت کاقصوریہی ہے وہ کشمیرکودلی سے آگے دنیا کے دوسرے دارالحکومتوں میں لے کرگئے اس امید میں کہ شاید کشمیر کووہاں کچھ ہمدردی مل سکے اورلوگ کسی پیشگی تعصب کے کشمیر کوتشددکے جہنم سے نکالنے میں مدد کرسکیں”۔ہم سب جانتے ہیں کہ کشمیرمیں جاری وحشیانہ ظلم وستم کی ذمہ دارمتعصب ہندومودی سرکارنے اپنے پیشروحکومتوں کاریکارڈبھی توڑدیاہے۔ یقیناً شجاعت کی ٹارگٹ کلنگ اس حقیقت کی عکاس ہے کہ کشمیر میں اب کوئی راستہ محفوظ نہیں ہے۔شجاعت کی ہلاکت گذشتہ پندرہ برس میں پہلا ہائی پروفائل ٹارگٹڈ قتل ہے۔ان کاقتل کس نے کیااس کے بارے میں بھی اپنی اپنی نظریاتی وابستگی کی بنیاد مفروضے قائم کیے جارہے ہیں جبکہ سوشل میڈیا پر بحث میں اس حملے میں انڈین انٹیلی جنس ایجنسیوں کا ہاتھ بتایا جارہاہے اورشجاعت کے قتل میں سارے اشارے بھارتی خفیہ ایجنسی ”را”کی طرف ہی جارہے ہیں کہ اس نے بھی اپنے یہودی ایجنسیوں کی طرح کام کرناشروع کردیا ہے کہ اپنے مخالفین کوقتل کرنے کے بعداپنے میڈیاکے ذریعے اپنے مخالفین کوموردِالزام ٹھہراکر شکوک وشبہات پیداکرکے خودکوبین الاقوامی انسانی حقوق کے اداروں کے نگاہوں میں بے گناہ ثابت کیاجائے۔
50سالہ شجاعت بخاری نے تیس سال قبل صحافت کا آغاز وید بھسین کے کشمیر ٹائمز میں ایک ٹرینی رپورٹرکےطورپرکیاتھا۔شجاعت بخاری بھارت کے انگریزی روزنامہ”داہندو” اخبارکے ساتھ 1997ء میں خصوصی نامہ نگارکی حیثیت سے پندرہ سال تک کام کیااوراسی دوران وہ جرمنی کے ریڈیو ڈاش ویلے کے ساتھ بھی منسلک رہے۔بعدازاں 2008ء میں انہوں نے کشمیر میڈیا گروپ نامی صحافتی ادارہ کی بنیادرکھی اوراسی کے تحت انگریزی روزنامہ رائزنگ کشمیر،اردوروزنامہ بلند کشمیر،اردو ہفت روزہ کشمیر پرچم اورکشمیری زبان کاہفت واراخبارسنگرمال جاری کیے اور گزشتہ چند سال سے وہ رائزنگ کشمیر کے ہمہ وقتی مدیرتھے اوروادی میں فنکاروں اوراداکاروں کی بہبود کیلئے انہوں نے کشمیر آرٹ فاؤنڈیشن بھی قائم کر رکھی تھی ۔انہوں نے امریکا،مشرق وسطیِ اوریورپ میں درجنوں شہروں کادورہ کیااوراکثر انہیں کشمیر،افغانستان اوردیگرعالمی امور سے متعلق کانفرنسوں میں مدعو کیاجاتاتھا۔ ہلاکت سے چند ہی روزقبل وہ سپین میں”ورلڈایڈیٹرز” کانفرنس میں شرکت کے بعد لوٹے تھے۔میراپچھلے چند برسوں سے فون پران سے رابطہ رہتاتھا،وہ انتہائی خوش اخلاق اورمثبت سوچ کے مالک تھے اورباوجوداختلاف رائے کے وہ بڑی خوبصورتی کے ساتھ اپنامؤقف بیان کرکے مخاطب کوہمنوابنانے کی بھرپورصلاحیت کے مالک تھے۔
اقوام متحدہ نے پہلی مرتبہ کشمیرکے متنازع خطے سے متعلق تفصیلی رپورٹ شائع کی ہے جس میں اس علاقے میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کو ختم کرنے کی ضرورت پرزور دیتے ہوئے کہاگیا ہے کہ مسئلہ کشمیرتشدد کے سلسلے کوبند کرکے معنی خیزمذاکرات کے عمل سے حل ہو سکتا ہے لیکن سوال یہ پیداہوتاہے کہ اقوام متحدہ کے ایجنڈے پرسب سے پرانامسئلہ کشمیرآج بھی موجودہے،اس کے بعدکئی دیگرممالک کوآزادی مل گئی لیکن امریکااورمغرب کی لونڈی کاکردار اداکرنے والایہ ادارہ بھارت کی جنونی مودی سرکارکے ہاتھوں ایک لاکھ سے زائدبے گناہ مجبورو مقہور کشمیریوں کی شہادت کے بعداب تک کیوں خاموش ہے؟
پچھلی تین دہائیوں سے کشمیری مجاہدین بھارتی قابض فوج سے لڑتے چلے آئے ہیں اورمقبوضہ کشمیرمیں جدوجہدآزادی کی تحریک کونوجوان اپنے خون سے سینچ رہے ہیں اوراب تک ایک لاکھ سے زائد کشمیری جام شہادت نوش کرچکے ہیں جن میں اکثریت کشمیری شہریوں کی ہے۔وہ پاکستان سے انضمام اورغاصب وقابض ہندو تسلط سے مکمل آزادی چاہتے ہیں۔رمضان المبارک کے مقدس مہینے میں بھی مقبوضہ کشمیرمیں بربریت کاسلسلہ درازہوگیااورعیدالفطرکے قریب تواس میں خطرناک حدتک اضافہ ہوگیاہے۔بھارتی فوج نے اپنی بربریت کامظاہرہ کرتے ہوئے ضلع کپواڑہ کے علاقے کرن پورسیکٹرمیں سرچ آپریشن کے نام پر مزید6 نوجوانوں کوبیدردی کے ساتھ براہِ راست گولیوں کی بوچھاڑکرکے شہیدکردیا۔یوں تو بھارتی قابض فورسزکی سفاکی کایہ سلسلہ کئی برسوں سے جاری ہے لیکن مودی سرکارنے ظلم وستم کاریکارڈقائم کردیاہے اوران نوجوانوں کی شہادت کا معاملہ تواس وقت سامنے آیاجب مودی سرکارنے مقبوضہ کشمیرمیں نام نہادجنگ بندی کااعلان کیاہے۔مودی سرکارنے 16مئی کورمضان میں جنگ بندی کااعلان کیاتھالیکن 6 جون کوغاصب فوج کے مظالم سے مزیدتین کشمیری نوجوان شہیدہوگئے تھے اورکلگام اورپلوامہ کے رہائشی مدثر احمداورشیرازاحمدکوبھارتی فوج نے 26مئی کوکپواڑہ کے علاقے تنگ دھارمیں جعلی مقابلے میں شہیدکردیاگیاتھااورانہیں غیرملکی دہشتگردبناکر خفیہ طورپربدوان اورتنگ دھارکے علاقے میں ان کی تدفین کردی تھی۔
کشمیرمیں جاری اس تشددمیں گزشتہ دہائی میں کمی آئی تھی لیکن گزشتہ برس مجاہدین کے خلاف بھارتی قابض فوج کے آپریشن لال آؤٹ کے نتیجے میں 350شہادتیں ہوئیں اوروادی میں جاری کشیدگی میں بے حداضافہ ہوگیا۔جب اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق بھارت نے کشمیریوں کو حق خودارادیت دینے سے انکارکردیاتوکشمیریوں نے اپنے پیدائشی حق آزادی حاصل کرنے کیلئے مسلح جدوجہدآزادی شروع کردی جوآج تک جاری ہے۔تحریک آزادی ٔ کشمیرکودبانے کیلئے بھارت ظلم وستم اورتشددوبربریت کے کئی خوفناک ہتھکنڈے استعمال کرچکاہے مگرآج تک اپنے مکروہ مقاصدمیں کامیاب نہیں ہوسکا۔بھارت جتناظلم کرتاہے ،مجاہدین کے حوصلے اتنے ہی بلندہورہے ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ بھارتی قابض فوج کے سربرا ہ جنرل بپن راوت نے جب کمان سنبھالی تواس نےبڑے تکبرسے کشمیریوں کی اس تحریک کوکچلنے کااعلان کیاتھالیکن اب ہاتھ جوڑکرحکومت کو
کشمیریوں سے مذاکرات کامشورہ دے رہاہے ۔
حزب المجاہدین کے کمانڈربرہان وانی کی شہات کے بعدمسلسل ایساسلسلہ شروع ہواہے کہ تھمنے کانام ہی نہیں لےرہا۔مزاحمت اورآزادی کی جنگ اب ایسے نوجوانوں کے ہاتھ میں آ چکی ہے جو شہادت میں اپنی زندگی ڈھونڈرہے ہیں اورانہی نوجوانوں کے عزم سے تحریک آزادیٔ کشمیرکو ایک نئی توانائی ملی ہے۔یہ اسی توانائی کانتیجہ ہے کہ تحریک نے جونئی کروٹ لی ہے اس سے بھارتی قابض فوج بوکھلاہٹ کاشکارہے اورہرمحاذ پرپے درپے ان کے حصے میں ناکامیاں آرہی ہیں جس کابدلہ وہ معصوم کشمیری نوجوانوں کاخون بہاکرلے رہی ہے۔خون بہانے کایہ سلسلہ نجانے کب تک جاری رہے گامگرکشمیریوں نے تہیہ کررکھاہے کہ وہ ہرصورت میں اس غاصب وقابض فوج کے ناپاک وجودسے اپنی دھرتی کو پاک کرکے رہیں گے۔ مسئلہ کشمیردنیاکے دیرینہ تنازعات میں سے ایک ہے جس کی وجہ سے برصغیرکے لوگ بالخصوص مقبوضہ کشمیرکے عوام اذیت میں مبتلا ہیں۔ پاکستان کے خلاف بھارت کی دشمنی کی وجہ سے ہتھیاروں کے حصول کی نہ ختم ہونے ہونے والی دوڑجاری ہے۔ہیومن ڈویلپمنٹ انڈیکس پردونوں ملک (پاکستان اور بھارت) بہت پیچھے رہ گئے ہیں۔دونوں ملکوں کے عوام کی اکثریت بنیادی حقوق سے بھی محروم ہیں۔انہیں صحت،تعلیم ،خوراک اور پانی کی کمی کے مسائل کاسامناہے جس کی سب سے بڑی وجہ بھارتی ہٹ دھرمی ہے۔اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق کشمیریوں کوان کاحق دینے کی بجائے وہ کشمیرکواپنااٹوٹ انگ کہنے پربضدہے ۔
مقبوضہ کشمیر کے عوام نے لاکھوں جانیں قربان کرکے یہ ثابت کیاہے کہ وہ کسی صورت بھارت کے ساتھ رہنےکوتیارنہیں۔بھارت کے جارحانہ اقدامات نے نہ صرف خطے کوبلکہ دنیا کے امن کو بھی داؤپرلگارکھاہے ۔کشمیر کی آزادی کیلئے چلائی جانے والی تحریک آزادی ٔکوبھارت نے فرقہ واریت کی بنیادپر تقسیم کرنے کی کوشش بھی کی تاکہ آزادیٔ کیلئے چلائی جانے والی تحریک کاشیرازہ بکھرسکے مگروہ اس سازش میں وہ بری طرح ناکام ہو گیا۔بھارتی رہنماؤں نے تقسیم ہندکےآغازپرہی بدنیتی کااظہارکردیاتھا۔تقسیم کے وقت مسلم لیگ نے ریاستوں کے آزادرہنے کے حق کی بھرپوروکالت کی تھی مگر بھارت نے کچھ دیگرریاستوں کی طرح کشمیرپربھی ناجائزقبضہ کرلیا۔قبضہ چھڑانے کی یہ جنگ کشمیری کئی دہائیوں سے لڑرہے ہیں ۔نوے کی دہائی میں بھارت نے کشمیریوں پرجوظلم کیاوہ بھی کشمیریوں کے حوصلے پست نہ کرسکا۔
۲۰۱۸ء میں آزادی کی اٹھنے والی نئی لہرنے کشمیریوں کوایک نئے ولولے سے ہمکنارکیاہے۔ انہوں نے اب تہیہ کررکھاہے کہ وہ ہرصورت بھارت کے تسلط سے آزادی حاصل کرکے دم لیں گے۔اس مقصدکیلئے وہ جانیں قربان کئے جارہے ہیں،آزادی کی ڈگرسے ہٹانے کیلئے بھارت نے ان پرظلم وستم کے پہاڑتوڑرکھے ہیں۔ان پرمہلک ہتھیاروں سے حملے کئےجارہے ہیں،نوجوانوں کو ان کے گھروں سے اغواء کرکے عقوبت خانوں میں شدید قسم کے ظلم وستم کئے جاتے ہیں اور بیشترکوتوجان سے مارکراجتماعی قبروں میں دفن کر دیا گیاہے ۔بچوں کے ساتھ نارواسلوک اور خواتین کے ساتھ بداخلاقی کے واقعات تومعمول بن چکے ہیں،گویاکشمیریوں پران کی اپنی ہی زمین تنگ کردی گئی ہے تاکہ وہ اپنے مقصدسے ہٹ جائیں اورآزادی کے مطالبے سے دستبردارہوجائیں۔جبرسے مسائل حل نہیں ہوتے بلکہ وقتی طوردب توجاتے ہیں لیکن پھرایک دن زبردست طوفان کی طرح پھٹ جاتے ہیں اوران دنوں یہی صورتحال مقبوضہ کشمیرمیں جاری ہے۔بھارت نے ریاستی دہشتگردی کاجوسلسلہ شروع کررکھاہےوہ اب تھم جانا چاہئے۔
اس سلسلے میں اقوام متحدہ کوچاہئے کہ وہ ایک اپاہج عالمی ادارے کاکرداراپنائے رکھنے کی بجائے اپنی قراردادوں پرعملدرآمدکروائے۔اس سلسلے میں عالمی برادری کوبھی اپنافرض اداکرنا ہوگاورنہ یہ مسئلہ ایسی گھمبیر صورت اختیارکرلے گا۔اگراس مسئلے کامنصفانہ حل تلاش کرنے میں مزیددیرکی گئی توبھارت کشمیریوں کااستحصال جاری رکھے گااوربدامنی کی آگ پورے خطے کواپنی لپیٹ میں لے لے گی۔

اپنا تبصرہ بھیجیں