SAARC Revival: Key to Peace and Development in South Asia

سارک کا احیاء: جنوبی ایشیا میں امن اور ترقی کی کنجی

:Share

پاکستان اوربنگلہ دیش کے درمیان فوجی تعاون میں حالیہ برسوں میں پیشرفت سے نہ صرف جنوبی ایشیامیں طاقت کاتوازن بدل کر متاثرکرسکتاہے بلکہ انڈیاکیلئےبھی یہ ایک اہم تشویش کا باعث بن گیاہے۔تاریخی،سیاسی،اورجغرافیائی حقائق کی بنیادپر54 سال کے بعداس خطے میں پاک بنگلہ دیش کے بڑھتے ہوئے تعاون سے آخروہ کون سے عوامل اوروجوہات ہیں جس نے انڈیاکوتشویش میں مبتلاکردیاہے اورانڈین میڈیا شب وروزواویلاکررہاہے۔انڈین نیوزویب سائٹ”فرسٹ پوسٹ”پرچھپنے والی ایک خبرکی سُرخی”انڈیا کیلئےباعثِ تشویش،1971کے بعدپاکستانی فوج کی پہلی مرتبہ بنگلہ دیش واپسی”اورایسی دیگرمتعددخبریں اورتجزیے انڈین میڈیاپر گذشتہ کئی دن سے چھاپے اورنشرکیے جارہے ہیں۔

انڈین وزارت داخلہ کے ترجمان نے کہاہے پریس اورسوشل میڈیاپر گردش کرتی خبریں غلط ہیں کہ کہ آئی ایس آئی کے سربراہ بنگلہ دیش کے دورے پرآئے تھے۔انڈین میڈیامیں ایسی “تشویش”بھری خبروں نے اس وقت زورپکڑاجب رواں مہینے بنگلہ دیشی فوج کا ایک وفدپرنسپل سٹاف آفیسرلیفٹیننٹ جنرل ایس ایم قمرالحسن کی قیادت میں پاکستان پہنچااوران کی پاکستان میں عسکری قیادت سے ملاقاتیں ہوئیں۔اس دورے کے دوران بنگلہ دیشی فوج کے وفدنے پاکستانی فوج کے سربراہ جنرل عاصم منیر،چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی جنرل ساحر شمشمادمرزااورپاکستانی فضائیہ کے سربراہ ایئرمارشل ظہیراحمدبابرسندھوسے بھی ملاقات کی تھیں۔

پاکستان اوربنگلہ دیش کے بیچ فوجی تعاون سے متعلق سوال پرانڈین وزارت خارجہ کے ترجمان رندھیرجیسوال نے کہاکہ”جوبھی سرگرمیاں ہمارے پڑوس میں،خطے میں یاانڈیاکے اردگردہوتی ہیں،ہم ہمیشہ اس پرنظررکھتے ہیں اور(خاص کر)ایسی سرگرمیاں جس کاتعلق ہماری قومی سلامتی سے ہو۔ ہمیں جس طرح کے قدم اٹھانے ہیں،وہ ہم اٹھائیں گے۔”

تاریخی طور پرپاکستان اوربنگلہ دیش کے درمیان تعلقات تناؤکاشکاررہے ہیں اوراس کی بنیادی وجہ1971میں پاکستان کودولخت کرنے میں انڈیا کاوہ مذموم کردارہے جس کو مودی خودمیڈیا پرکئی بارتسلیم کرچکاہے۔پاکستان اوربنگلہ دیش کی تاریخ1947کی تقسیم ہندسے جڑی ہوئی ہے۔مشرقی پاکستان(موجودہ بنگلہ دیش)اورمغربی پاکستان(موجودہ پاکستان)کے درمیان سیاسی،معاشی، اور ثقافتی اختلافات نے1971میں بنگلہ دیش کے قیام کی راہ ہموارکی۔اس وقت انڈیانے بنگلہ دیش کی حمایت میں اہم کرداراداکیا،اورانڈیا کی فوجی مداخلت نے پاکستان کودولخت کرنے اور بنگلہ دیش کوایک آزادملک بنانے میں کلیدی کرداراداکیالیکن یہ بھی سچ ہے کہ آج ایسے اختلافات توامریکاکی ریاستوں کے مابین بھی ہیں اورخودانڈیاکے اندرکئی ریاستوں میں اس قدر بدترین حالات ہیں کہ اس وقت 32علیحدگی کی تحریکیں چل رہی ہیں اور کئی ریاستوں میں نیم خودمختاری کا سماں ہے اورخودانڈیاکواپنی ٹرینوں کو ان ریاستوں سے گزرنے کیلئے ان تنظیموں کو باقاعدہ ٹیکس اداکرناپڑتاہے لیکن پاکستان یاچین نے کبھی وہ مکروہ کرداراداکرنے کی کوشش نہیں کی جیساانڈیانے بنگلہ دیش میں اداکیا۔

1971ءکے بعد،انڈیانے بنگلہ دیش پراپنے سیاسی اوراقتصادی اثرورسوخ کوبڑھانے کی کوشش کی لیکن حالیہ برسوں میں بنگلہ دیش نے انڈیاکے اثرسے باہرنکلنے اوراپنی خودمختارپالیسی بنانے کی کوششیں کی ہیں۔1990ءکی دہائی کے بعدسے،پاکستان اور بنگلہ دیش کے تعلقات میں بتدریج بہتری آناشروع ہوئی،خاص طورپراقتصادی تعاون اورعوامی رابطوں کے ذریعے۔تاہم،فوجی تعلقات میں نمایاں پیشرفت حالیہ برسوں میں دیکھنے کوملی ہے،جوانڈیا کیلئےباعثِ تشویش ہے۔

گزشتہ برس اگست میں پُرتشدد مظاہروں کے نیتجے میں شیخ حسینہ کوبطوروزیرِاعظم استعفیٰ دے کرانڈیاجاناپڑاتھاجس کے بعد بنگلہ دیش میں ڈاکٹرمحمدیونس کی سربراہی میں عبوری حکومت کی گئی تھی۔شیخ حسینہ کوانڈیاکاحامی اورپاکستان کامخالف تصور کیاجاتاتھااورصرف یہی نہیں بلکہ حسینہ واجدنے جماعت اسلامی بنگلہ دیش کے درجنوں رہنماؤں کوعدالتی ملی بھگت سے پھانسی پرلٹکا دیاجن کاصرف یہ جرم تھاکہ انہوں نے1971ء میں بطورپاکستانی شہری ہونے کے ناتے انڈین فوجیوں کے خلاف اپنی ملکی فوج کاساتھ دیااورجماعت اسلامی کے ہزاروں اراکین کوپابندِ سلاسل کردیااوراپنے تمام مخالفین کوٹھکانے لگاکربدترین فسطائیت کے ساتھ اپنی حکومت کوچلایا۔ بنگلہ دیش کی فوج کے اندربھی اپنے جابرانہ احکام کے تحت بھارت کی مددسے کئی بنگلہ دیش افسران کوہلاک کرکے ایک ایسے ڈکٹیٹرکاروپ اختیارکرلیاکہ بنگلہ دیشی عوام میں سے کسی کوان کی حکومت کے خلاف کچھ کہنے اور لکھنے تک کی اجازت نہ ہو۔ان کے دورِحکومت میں بنگلہ دیش اورپاکستان کے درمیان تعلقات زیادہ خوشگوارنہیں رہے تھے تاہم شیخ حسینہ کی اقتدارسے بے دخلی کے بعددونوں ممالک کے تعلقات میں بہتری آتی ہوئی نظرآئی۔

گذشتہ مہینے قاہرہ میں ڈی8سمٹ کے دوران پاکستانی وزیرِاعظم شہبازشریف کی بنگلہ دیش کے چیف ایڈوائزرڈاکٹرمحمدیونس سے ملاقات بھی ہوئی تھی اورپاکستانی وزیرِاعظم کے دفترکے مطابق دونوں رہنماؤں نے”دوطرفہ تعلقات میں حالیہ مثبت پیشرفت پر اطمینان کااظہار”کیاتھااور”باہمی فوائدپرمبنی ترقیاتی مقاصد”حاصل کرنے کیلئےمشترکہ کوششیں کرنے پراتفاق بھی کیاتھا۔اس ملاقات کے تناظرمیں پہلی مرتبہ اعلیٰ سطحی فوجی وفدنے پاکستان کودورہ کیاجہاں پاکستان اوربنگلہ دیش کے درمیان دفاعی معاہدے کے تحت دونوں ممالک تربیتی مشقوں،انٹیلیجنس شیئرنگ،اوردفاعی سازوسامان کے تبادلے میں تعاون کررہے ہیں۔

٭اس معاہدے کے تحت پاکستانی فوج بنگلہ دیش کے افسران کوتربیت فراہم کررہی ہے،جودونوں ممالک کے درمیان دفاعی تعلقات کو مضبوط بنارہی ہے۔مزیدبراں دونوں ممالک مشترکہ فوجی مشقیں کرچکے ہیں اورمزیدایسے پروگرام منصوبہ بندی کے مراحل میں ہیں جن کامقصدخطے میں دفاعی صلاحیتوں کوبڑھاناہے۔پاکستان بنگلہ دیش کوہتھیاروں کی فراہمی پربھی غورکررہاہے،جس میں جدیدٹیکنالوجی کے ہتھیارشامل ہیں۔برسوں بعدپاک بنگلہ دیش تعاون پرمودی سرکاربے بنیادپروپیگنڈہ سے اپنی تشویش کااظہارکر رہی ہے جس کامودی پریس شب وروزواویلاکررہاہے۔مودی سرکار مشرق اورمغرب دونوں اطراف میں پاکستان اوربنگلہ دیش کے تعلقات مضبوط ہونے سے خودکوایک تزویراتی گھیراؤمیں محسوس کررہی ہے۔

٭دوسرااہم پہلویہ ہے کہ پاک بنگلہ دیش فوجی تعاون خطے میں انڈیاکے اثرورسوخ کوکم کرنے کاباعث بن سکتاہےاورانڈیا (اسرائیل،امریکا)کی مددسے علاقے میں اپنی برتری اورخطے کا تھانیداربننے کاجوخواب دیکھ رہاہے،وہ چکناچورہوجائے گا۔

٭تیسرااہم پہلویہ ہے کہ چین،جوانڈیاکااہم جغرافیائی حریف ہے،پاکستان اوربنگلہ دیش کے درمیان تعلقات میں ایک پسِ پردہ قوت کے طورپردیکھاجاتاہے۔چین پہلے ہی دونوں ممالک کوفوجی سازوسامان فراہم کررہاہے جس سے انڈیاکوخطرہ محسوس ہوتاہے۔

٭چوتھااہم پہلویہ ہے کہ پاکستان اوربنگلہ دیش کے درمیان فوجی تعاون انڈیاکی جنوبی ایشیا میں بالادستی کو چیلنج کرسکتاہے اورانڈیاکیلئے سب سے بڑاخدشہ یہ ہے کہ یہ اتحادجنوبی ایشیامیں اس کی معاشی اوراسٹریٹجک برتری کوناقابل تلافی نقصان پہنچاسکتاہے۔

٭پانچواں پہلویہ ہے کہ انڈیااوربنگلہ دیش کے درمیان سرحدی تنازعات کے ساتھ ساتھ دریائی پانی کی تقسیم پربھی شدیداختلافات ہیں جودونوں ممالک کے تعلقات میں کشیدگی کاسبب ہیں

٭چھٹااہم پہلووہ بھارتی خوف ہے کہ پاک بنگلہ دیش کے درمیان انٹیلیجنس شیئرنگ انڈیاکیلئےسلامتی کے خطرات پیداکرسکتی ہے خاص طورپران علاقوں میں جہاں علیحدگی پسندتحریکیں فعال ہیں۔کیونکہ انڈیابنگلہ دیش کے قیام میں اہم کرداراداکرچکاہے اوراس خطے میں اپنی بالادستی برقراررکھنے کیلئےہمیشہ محتاط رہاہے۔بنگلہ دیش کاپاکستان کے قریب جاناانڈیاکیلئےایک جذباتی اور اسٹریٹجک دھچکاہے۔

یادرہے کہ پچھلی سات دہائیوں کے دوران،پاکستان اورانڈیاکے درمیان تین بڑی جنگیں ہوچکی ہیں،جن میں کشمیرکاتنازعہ اہم رہا ہے ۔ان تنازعات کی وجہ سے انڈیاکوہمیشہ پاکستان کے ساتھ کسی بھی ممکنہ اتحادکے خطرے کاسامنارہتاہے۔انڈیا،امریکا،جاپان،اور آسٹریلیاکے کواڈاتحادکاحصہ ہے،جس کامقصدچین کے اثرورسوخ کوکم کرناہے لیکن پاکستان،بنگلہ دیش،اورچین کے بڑھتے تعلقات اس اتحادکیلئےچیلنج پیداکرسکتے ہیں۔امریکاکی خواہش ہے کہ کواڈاتحادکی مشترکہ طاقت سے چین کامحاصرہ کیاجائے تاکہ اس کی معاشی برتری کوروکاجاسکے۔اسی لیے نومنتخب صدرٹرمپ نے چین کے ساتھ تجارتی ٹیرف بڑھانے کاعندیہ دیاہے۔

امریکاکی پوری کوشش ہے کہ پاکستان میں چین کے اشتراک سے بننے والاسی پیک منصوبہ ناکام بنایاجائے۔اس مقصدکیلئےوہ انڈیا کے ذریعے پاکستان کوغیرمستحکم کرنے کیلئےاپنی پراکسیزکو بلوچستان اورپاکستان کےدیگرعلاقوں میں دہشتگردی کیلئےاستعمال کررہاہے۔یہی وجہ ہے کہ انڈیاکے ہمسایہ ممالک کے اندربدامنی سازشوں کی بناءپرجنوبی ایشیامیں اضافہ ہورہاہے اورپاک بنگلہ دیش کے فوجی تعلقات سے انڈیااوربنگلہ دیش کے درمیان کشیدگی میں اضافہ ہوسکتاہے۔انڈیا،جوبنگلہ دیش کاایک بڑاتجارتی شراکت دارہے،ان تعلقات کی وجہ سے اپنے تجارتی تعلقات پرنظرثانی کرسکتاہے۔

انڈیا کویہ خدشہ ہے کہ بنگلہ دیش کوپاکستان کی مددسےخطے میں”را”کی مددسے چلنے والی تمام علیحدگی پسند تحریکوں کوختم کرنے میں مددملے گی اورعین ممکن ہے کہ یہ معاملہ بھارتی سرزمین پر منتقل ہوجائے۔اس لئےانڈیا کی پوری کوشش ہے کہ پاکستان اوربنگلہ دیش کے درمیان بڑھتے ہوئے تعلقات کی آڑمیں چین اورامریکاجیسی عالمی طاقتوں کو”کواڈ”کے پلیٹ فارم سے جنوبی ایشیامیں مزیدمداخلت پرمجبورکیاجائے جس علاقائی سیاست کومزیدپیچیدہ کرکے مفادات حاصل کئے جائیں۔

یہاں یہ کہنابے جانہ ہوگاکہ شیخ حسینہ کی اقتدارسے بے دخلی کے بعدپاکستان اوربنگلہ دیش کے درمیان تعلقات میں بہتری نظرآئی ہے۔گزشتہ برس نومبرمیں پاکستان اوربنگلہ دیش کے درمیان تقریباً20برس تک منقطع رہنے والی سمندری تجارت بحال ہوئی تھی جب پاکستان سے سفرشروع کرنے والاکارگوبحری جہازچٹاگانگ پہنچاتھا۔دونوں ممالک کے درمیان تجارتی اور سیاسی تعلقات توگزشتہ برس ہی بہترہوناشروع ہوگئے تھے لیکن رواں برس کے ابتدائی ہفتوں میں پاکستان اوربنگلہ دیش کی افواج کے درمیان بھی رابطے بڑھتے ہوئے نظرآئے۔

14جنوری کوپاکستانی فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کی جانب سے جاری ایک بیان میں کہاگیاتھاکہ پاکستانی فوج کے سربراہ جنرل عاصم منیراوربنگلہ دیشی فوج کے پرنسپل سٹاف آفیسرلیفٹیننٹ جنرل ایس ایم قمرالحسن نے ملاقات میں”مضبوط دفاعی تعاون”استوار کرنے کااعادہ کیااور”دونوں برادرانہ ممالک کی شراکت داری کوبیرونی دباؤ”سے پاک رکھنے پرزوردیا۔لیفٹیننٹ جنرل ایس ایم قمر الحسن اپنے دورہ پاکستان کے دوران پاکستانی فضائیہ کے سربراہ ایئرمارشل ظہیراحمدبابرسدھوسے بھی ملاقات کی۔اس ملاقات کے دوران بنگلہ دیشی فوج کے سینیئرافسرنے جے ایف17تھنڈرلڑاکاطیاروں سمیت پاکستان میں بنائے جانے والے دیگرعسکری سامان میں بھی دلچپسی کااظہارکیا۔انڈین میڈیاپرچلنے والی کچھ خبروں میں یہ دعویٰ بھی کیاگیاکہ ایسے امکانات بھی موجودہیں کہ پاکستانی فوج کی جانب سے بنگلہ دیشی فوج کوتربیت دی جائے تاہم پاکستانی فوج کے بیانات میں اس بات کاکوئی ذکرنہیں۔

یقیناً بنگلہ دیش میں شیخ حسینہ کی حکومت گرنے کے سبب دونوں ممالک کے تعلقات میں بہتری آئی ہے۔پچھلی دو دہائیوں سے شیخ حسینہ کی حکومت میں بہت سے مسائل کھڑے ہوئے تھے، 2016 میں انڈیا نے سارک اجلاس کا بائیکاٹ کیا تھا اور اس کے بعد بنگلہ دیش نے بھی فوراً ایسا ہی کیا تھا۔ اب پاکستان کیلئےمثبت بات یہ ہے کہ بنگلہ دیش میں ڈاکٹر محمد یونس کی قیادت میں نئی انتظامیہ سارک کو دوبارہ بحال کرنا چاہتی ہے۔ڈھاکہ کے امورمیں انڈیاکی مبینہ مداخلت پربنگلہ دیش میں ناراضی پائی جاتی تھی اوروہاں کی نئی انتظامیہ اب شیخ حسینہ کی پالیسیوں کوخیربادکہہ کرپاکستان سے تعلقات بہترکررہی ہے تاکہ لوگوں کی ناراضی کوکم کیاجاسکے۔

دوسری جانب اگراقتصادی نظریے سے دیکھیں تواس وقت بنگلہ دیش کوجے ایف17تھنڈرطیاروں کی فروخت پربات ہورہی ہے۔جب سکیورٹی تعاون بڑھے گاتوپاکستان کابنگلہ دیش پر سٹریٹجک اثرورسوخ بھی بڑھے گا۔بنگلہ دیش سے تعلقات میں بہتری کے نتیجے میں پاکستان کے پاس ایک سٹریٹجک موقع آیاہے جس کے سبب پاکستان اس خطے میں ایک بارپھر اہمیت اختیارکرگیاہے۔پاکستان اور بنگلہ دیش کے بہترہوتے تعلقات انڈیا کیلئے سٹریٹجک تحفظات کاباعث بالکل ہوں گے کیونکہ نئی دہلی کااس خطے میں ایک اورملک پراثرورسوخ کم ہو گیا۔

انڈیااوربنگلہ دیش کے درمیان تعلقات میں تناؤکاسبب شیخ حسینہ کی انڈیامیں موجودگی بھی ہے۔بنگلہ دیش کی نئی انتظامیہ انڈیاسے شیخ حسینہ کی حوالگی کامطالبہ بھی کرچکی ہے۔انڈیااوربنگلہ دیش کے درمیان ایک طویل بارڈرہے اورپھربنگلہ دیش میں سیلاب بھی آتے رہتے ہیں اوران کاواٹرمینجمنٹ پر بھی انڈیاسے مسئلہ رہتاہے۔اب بنگلہ دیش میں یہ سوچ بھی پائی جا رہی ہے کہ کل کلاں اس اہم معاملہ پراگرانڈیاجارحانہ مؤقف اختیارکرتاہے توہو سکتا ہے کہ بنگلہ دیش اپنے دفاع کومضبوط کرنے کیلئے پاکستان اورچین کے ساتھ سہ فریقی فورم تشکیل دے لیں۔

تاہم خطے کے امن کیلئے سارک پلیٹ فارم کوازسرنوزندہ کرنے کایہ بہترین موقع ہے کہ اس پلیٹ فارم پربیرونی دباؤکے بغیراپنے مسائل خودحل کئے جائیں اوریہاں کی کثیرآبادی جوخطِ غربت سے نیچے کی زندگی گزارنے پرمجبورکردیئے گئے ہیں،جنگی بجٹ کوختم کرکے ان کی فلاح وبہبودکیلئے استعمال کیاجائے۔اس خطے کے ممالک کے پاس ایسی صلاحیت ہے کہ اپنے مثبت رویہ سے باہمی تجارت پرتوجہ دیکرترقی کاوہ خواب پوراکریں جس کیلئے ہرملک کے سیاستدان حکومت کے حصول کیلئے عوام سے وعدے کرتے ہیں۔

انڈیاکیلئے یہ ضروری ہے کہ وہ اس صورتحال کوجذبات کی بجائے حکمت اورسفارت کاری کے ذریعے حل کرے۔خطے میں پائیدار امن اوراستحکام کیلئے تمام ممالک کومل کرکام کرنے کی ضرورت ہے تاکہ تنازعات کے بجائے تعاون کوفروغ دیاجاسکے اوریہ اسی صورت ممکن ہوسکتاہے کہ مودی سرکارپاکستان اوربنگلہ دیش کے درمیان بڑھتے ہوئے تعلقات سے خوفزدہ ہونے کی بجائے ان ممالک کے اندرونی معاملات میں مداخلت بندکرے اورہزاروں میل دوربیٹھی قوتوں کے مفادکیلئے محض اس لئے خودکوقربانی کابکرانہ بنائے کہ ان قوتوں کے کندھوں پربیٹھ کروہ اس خطے کی سپرپاوربن جائے گا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں