إِنَّ الحَمْدَ للهِ، نَسْتَعِيْنُهُ وَنَسْتَغْفِرُهُ، وَنَعُوْذُ بِهِ مِنْ شُرُوْرِ أَنْفُسِنَا، مَنْ يَهْدِ اللهُ فَلَا مُضِلَّ لَهُ، وَمَنْ يُضْلِلْ فَلَا هَادِيَ لَهُ، وَأَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا الله، وَأَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُوْلُهُ ﷺ تسليماً كثيرا-
اعوذباللہ سمیع العلیم من الشیطن الرجیم۔۔بسم اللہ الرحمن الرحیم
إن الحمد لله نحمده،ونستعينه ونستغفرہ ونومن بہ ونتوکل علیہ،ونعوذ بالله من شرورأنفسنا، ومن سيئات أعمالنا،من يهده الله فلا مضل له، ومن يضلل فلاهادي له،وأشهدأن لاإله إلاالله وحده لاشريك له،وأشهدأن محمداًعبده ورسولهﷺتسليماً كثيرا- اعوذباللہ سمیع العلیم من الشیطن الرجیم۔۔بسم اللہ الرحمن الرحیم
وَلَاتَحْسَبَنَّ الَّذِيْنَ قُتِلُوْافِيْ سَبِيْلِ اللهِ اَمْوَاتًاۭبَلْ اَحْيَاۗءٌعِنْدَرَبِّھِمْ يُرْزَقُوْنَ فَرِحِيْنَ بِمَآاٰتٰىھُمُ اللهُ مِنْ فَضْلِہٖ ۙ وَيَسْـتَبْشِرُوْنَ بِالَّذِيْنَ لَمْ يَلْحَقُوْابِھِمْ مِّنْ خَلْفِھِمْ ۙ اَ لَّاخَوْفٌ عَلَيْھِمْ وَلَاھُمْ يَحْزَنُوْنَ۔(آل عمران:169-170)
صدق اللہ العلی العظیم۔ربِّ اشْرَحْ لي صَدري ویَسِّرْلی أمری واحْلل عُقدةً مِنْ لساني یَفقَهواقَوْلی۔۔ربناتقبل مناإنك أنت السميع العليم،وتب عليناإنك أنت التواب الرحيم آمین یارب العٰلمین
جو لوگ خدا کی راہ میں مارے گئے ان کو مرے ہوئے نہ سمجھنا (وہ مرے ہوئے نہیں ہیں) بلکہ خدا کے نزدیک زندہ ہیں اور ان کو رزق مل رہا ہے۔ جو کچھ خدا نے ان کو اپنے فضل سے بخش رکھا ہے اس میں خوش ہیں۔ اور جو لوگ ان کے پیچھے رہ گئے اور (شہید ہوکر) ان میں شامل نہیں ہوسکے ان کی نسبت خوشیاں منا رہے ہیں کہ (قیامت کے دن) ان کو بھی نہ کچھ خوف ہوگا اور نہ وہ غمناک ہوں گے
انتہائی واجب الاحترام دوستوں، بھائیوں اور بہنوں
اسلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
مجھے جب ” غزہ بمقابلہ اسرائیل۔۔۔۔کس کی ہار ہوئی اور کس کی جیت” کے موضوع پر لیکچر دینے کی دعوت ملی تو میں نے یہ فیصلہ کیا کہ میرے لئے “اس مقدمہ میں خود کو غزہ کے شہداء کا وکیل”بن کر مقدمہ لڑناباعثِ سعادت ہے اور میں کوشش کروں گا کہ زمینی حقائق اور علمی دلائل سے اس مقدمہ کی تفصیلات سے آپ کو نہ صرف آگاہ کروں بلکہ ان دلائل کے بعد آپ کو اور تمام سننے والوں کو یہ حق دیتا ہوں کہ وہ فیصلہ کریں کہ کون ہارا اور کس کی جیت ہوئی ہے۔
میں سب سے پہلے اس اہم موضوع یا عنوان کی وضاحت کیلئے اپنا مقدمہ ان دانشوروں کی طرف سے درج کرائی گئی”ایف آئی آر”ان کے اعتراضات اور الزامات سے شروع کرنا چاہتا ہوں جو یہ فرما رہے ہیں کہ حماس نے 47 ہزار ذبح کروا دیئے، غز ہ ملیا میٹ ہو گیا اور حاصل کیا ہوا؟ جنگ بندی!!! ایک اور گروہ کا کہنا ہے کہ پہلے مقابلے کی بھرپور تیاری کی جانی چاہئے تھی، قوت بنانی چاہیے تھی .. .. تیسرا چوتھا اور پانچواں گروہ بھی ہے جو مختلف ایسے ہی اعتراض اٹھا رہے ہیں…. ہوتے رہیں ہماری بلا سے، لیکن میں ان ان دانشوروں سے پوچھنا چاہتا ہوں کہ فقط یہ بتا دیجئے کہ غزہ کے یہ مجاہدین اور وہ تمام شہداء اتنی قوت کہاں سے اور کیسے لاتے جس کے بعد وہ اپنی حق کی جنگ کا آغاز کرتے؟ غاصبوں کے پاس 605 طیاروں کی فضائی فوج ہے، حماس کو ان کے مقابلے پر کتنے طیارے چاہیے تھے جبکہ غزہ میں تو کوئی ائیر پورٹ ہی نہیں؟ تو پھریہ طیارے کہاں سے پرواَ ز کرتے؟ اسی طرح بحریہ کا بھی بتا دیں کہ حماس کتنی ایٹمی آبدوزیں سمندر کی تہہ میں چھوڑتے اور پھر آپ جناب کی جانب سے للکارنے کی اجازت ملتی اور درست ہوتا؟ آپ تو انہیں خشکی کے کیڑے سمجھ کر ان کو مسلنے کا کام کر رہے ہیں، سارایورپ۔امریکااوردیگرممالک اسرائیل کی پشت پراس کے دست وبازوبنے ہوئے ہیں،اس مرتبہ مودی نے نہ صرف باقاعدہ طورپر اپنے تربیت یافتہ قاتلوں کے دستے روانہ کئے ہیں جوغزہ کے مجبورومقہور مسلمانوں کو نشانہ بنارہے ہیں بلکہ ان کویہ ٹاسک دیاگیا ہے کہ مسلمانوں کو مارنا ہندودھرم کی خدمت کے مترادف ہے۔کیا یہ درست نہیں ،کیا آپ نہیں جانتے کہ اس جنگ میں ایک مسلمان ملک ” اردن” اسرائیل جانے والے تمام میزائل راستے میں تباہ کرنے کی ڈیوٹی سرانجام دے رہا تھا؟؟ ہم سب تفصیلات سے واقف ہیں، ایک ایک ظلم یاد ہے، میرارب تو ایک ایک لمحے کی فلم چلا کر آنکھوں کے سامنے دہرا دے گا، وَیَوۡمَ یَعَضُّ الظَّالِمُ عَلٰی یَدَیۡہِ یَقُوۡلُ یٰلَیۡتَنِی اتَّخَذۡتُ مَعَ الرَّسُوۡلِ سَبِیۡلً (فرقان:27)
“اور اس دن ظالم اپنے ہاتھ کاٹ کاٹ کھائے گا کہے گا اے کاش میں بھی رسول کے ساتھ راہ چلتا۔”پھریہی اعتراض کرنے والے بھی مارےندامت کے اپنے ہاتھوں کو چبا رہے ہوں گے اور بعض تو پورابازوکاٹ کھائیں گے لیکن ندامت کے پہاڑ اسی طرح سرپرقائم رہیں گے۔
بے شک 46500 سے زائد شہادتیں ہوئی ہیں لیکن کیا مزاحمت کار محفوظ رہے؟ وہ قربان نہیں ہوئے؟ ہوئے ناں، انہوں نے اقصٰی کی پکار پر لبیک کہا اور بتا دیا کہ مشرق وسطیٰ میں ایک قضیہ حل طلب ہے پون صدی ہونے کو ہے ہم اپنا وطن اپنا گھر نہیں بھولے یہی اصل کامیابی ہے کہ وہ اپنا حق بھولے نہیں اور اگلی نسلوں کو منتقل کر گئے، دوسری طرف خوف دہشت کو بھی کشید کر گئے وہ بھی نہیں بھولیں گے ان کی کمر بھی ٹوٹی ہے جنگ شروع ہونے سے پہلے ظالموں اور ٖغاصبوں (اسرائیل) کی معیشت تیزی سے ترقی کر رہی تھی، سالانہ جی ڈی پی فی کس 2021 میں 6.8 فیصد اور 2022 میں 4.8 فیصد اضافے کے ساتھ مغربی ممالک سے کہیں زیادہ تھی۔ جولائی 2024ء میں بینک آف اسرائیل کے مطابق ان کی شرح نمو 2.8 فیصد سے کم کردی، بنک آف اسرائیل نے 2024 میں اندازہ لگایا تھا کہ 2025ء تک جنگ کی لاگت 67 ارب ڈالر تک پہنچ جائے گی، اور پھر ذرا یہ بتائیے گا کہ کس غزوہ میں مسلمانوں کی تعداد مد مقابل سے زیادہ تھی؟ ایک میدان جنگ میں تو رسول اللہ خود پیٹ پر پتھر باندھ کر خندق کھود رہے تھے، کیا فرمائیں گے یہ ارباب دانش اور اعتراض کرنے والے کہ اس کسمپرسی میں جنگ لڑنی چاہئے تھی کہ نہیں؟
چشم فلک نے ایسا نظارہ تو پہلی بار ہی دیکھا ہے کہ ایک طرف ایٹمی قوتیں جمع ہوں، ان کے پاس پاتال کی گہرائیوں تک دیکھنے، آسمان کی رفعتیں اور پہنائیاں ناپنے اور زمین کا چپہ چپہ کھوجنے کے آلات ہوں، مگر پھر بھی وہ ناکام رہیں۔ دوسری طرف غلیلوں، پتھروں، چند بندوقوں اور دیسی ساختہ بموں کو اٹھائے خدا کے سرمست دیوانے ہوں اور جان ہتھیلی پر لیے توپوں ، ٹینکوں، سنائپر گنوں اور ڈرون طیاروں کے سامنے ڈٹے مستانے ہوں اور پھر فتح یاب بھی ہوجائیں۔ مقدس سرزمین پر اکیسویں صدی کا یہ معجزہ طلوع ہوچکا ہے، تاریخ کے اوراق پر نقش کی جانے والی انمول داستان، سونے سے لکھنے کے قابل انمٹ کارنامہ اور جنگوں کی تاریخ میں ایک نئے باب کا اضافہ ہو گیا ہے۔کیا یہ کسی فتح سے کم ہے؟
کوئی تصور کرسکتا ہے کہ صرف 41 کلومیٹر لمبا اور 12 کلومیٹر سے بھی کم چوڑائی رکھنے والا زمین کا ایسا ٹکڑا جسے چاروں طرف سے دشمن نے گھیرے میں لے رکھا ہو، جہاں زمین، آسمان اور سمندر سے آنے والی ہر ہر چیز پر دشمن نے کیمرے لگا رکھے ہوں، پہرے بٹھا رکھے ہوں اور ایک ایک چیز اس کی فوجیوں کی نظروں سے گزر کر آ رہی ہو، جو یہ متکبرانہ دعویٰ کرتے ہوں کہ ہمارے علاقے پر اڑنے والی چڑیا کے بارے میں بھی ہمیں یہ علم ہوتا ہے کہ اس کے منہ میں کون سا دانہ ہے، اس نے یہ کہاں سے اٹھایا ہے اور یہ کہاں جا کر پھینکے گی، وہاں پندرہ مہینے اور بارہ دن جنگ جاری رہے اور زمین کا ایک ایک چپہ چھان مارا ہو، شمالی غزہ سے لے کر خان یونس اور رفح تک ایک ایک شہر کو کھنڈر بنادیا ہو، جہاں پر شبہ ہوا، اس جگہ کی اینٹ سے اینٹ بجادی گئی۔ انسانوں کو گاجر مولی کی طرح کاٹا گیا، لیکن پھر بھی مزاحمت ختم نہ ہوسکی، سلام ان ماؤں کو جنہوں نے ایسے جوانوں کی تربیت کی۔
یہ میں نہیں کہتا، یورپ بھر کے صحافی کہہ رہے ہیں کہ انسانی حقوق کے میدان میں بھی حماس کا پلڑا بھاری رہا۔ سیز فائر ہوتے ہی قیدیوں کا تبادلہ شروع ہوا ہے اور دنیا نے دیکھا کہ حماس نے اپنے قیدیوں کو کیسے رہا کیا؟ اسرائیلی خواتین خوشیاں مناتی جارہی ہیں، ان کے ہاتھوں میں مجاہدین کی طرف سے دیے گئے گفٹ ہیمپرز ہیں، ان گفٹ ہیمپرز میں ان خواتین کی قید کے دوران بنائی گئی تصویریں بھی دی گئیں ہیں۔ دوسری طرف فلسطینی بھی رہا کیے گئے ہیں، ان کی مُشکیں کسی ہوئی ہیں، ان کے جسم کپڑوں سے عاری ہیں اور گھٹیا دشمن کے گھٹیا پن کی عکاسی کرتی یہ رہائی کی تقریب منعقد ہورہی ہے۔ مظلوم قیدیوں کے ساتھ اس وحشیانہ سلوک پر نہ اقوام متحدہ کے کانوں پر جوں رینگ رہی ہے، نہ موم بتی مافیا کی گہری نیند ٹوٹ رہی ہے اور نہ ہی یورپی یونین میں انسانی حقوق کا راگ الاپنے والوں کی بے حسی ختم ہورہی ہے۔ اور تو اور، ہر دوسری اسلامی پوسٹ کو دہشتگردی قرار دینے والی فیس بک انتظامیہ جاگ رہی ہے، نہ یوٹیوب اور سوشل میڈیا۔ میں آپ سے صرف تین اسرائیلی قیدیوں کے رہائی کے وقت بیانات شئیرکر دیتا ہوں ،اسے سن کر فیصلہ کریں کہ ہارکس کی ہوئی ہے اورجیت کس کی؟
ایک اسرائیلی خاتون جو کالج کی لیکچرر ہے،وہ اپنی رہائی کے وقت رو رہی تھی کہ وہ واپس نہیں جانا چاہتی، وہ انہیں مجاہدین کے ساتھ رہنا چاہتی ہے کہ انہوں نے خود بھوکا رہ کر ہمیں کھانا کھلایا،خود پیاس کی سختی برداشت کی لیکن ہمیں پانی مہیا کیا، ہمارے آرام کا پورا خیال کیا اور کسی نے آنکھ اٹھا کر بھی ہماری طرف نہیں دیکھا۔
دوسری خاتون کا تعلق میڈیا سے تھا۔ اس نے رہا ہوتے وقت اس بات کا اعتراف کیا کہ وہ برسوں سے حماس کے خلاف لکھتی رہی، حکومت کی طرف سے جو مواد مہیا کیا گیا، اس کو بڑھا چڑھا کر جو لکھا، وہ صریحاً غلط تھا اور حماس کو اس بات کا علم تھا لیکن انہوں نے مجھے جواب میں ایک لفظ تک نہیں کہا بلکہ اپنے حُسنِ اخلاق سے اس قدر متاثر کیا کہ میری بیماری کے دوران ایک مسلمان ڈاکٹر میرے علاج کو جب آیا تو مجھے پتہ چلا کہ آج ہی اسرائیلی بمباری میں اس کا سارا خاندان شہید ہو گیا ہے لیکن وہ مجھے بہن کہہ کر مخاطب کرتا رہا اور پوری تندہی سے اس نے میرا علاج کیا۔ جبکہ میں اپنی تحریروں میں ان افراد کو جانور کہہ کر پکارتی رہی۔
تیسرا یرغمالی ہیبرون یونیورسٹی کا ایک استاد تھا اور ووہ بھی رہائی کے وقت ایسا ہی جذباتی بیان دے رہا تھا کہ وہ ساری عمر حماس کے افراد کو غلیظ ترین جانور،کیڑے مکوڑے کہہ کر اپنے سٹوڈنٹس کو ان کے کلاف ورغلاتا رہا لیکن انہوں نے اپنے رویے سے اس قدر متاثر کیا کہ میں اب آئندہ زندگی اپنی غلطی کا اعتراف کرتے ہوئے اپنے سٹوڈنٹس کو صحیح صورتحال سے آگاہ کروں گا۔ اب آپ فیصلہ کریں کہ کس کی جیت ہوئی اور کس کی ہار؟
غزہ کے نوجوانوں نے جنگ کو ایک نیا رخ دیا ہے، تاریخ کا ایک نیا باب وا کیا ہے، بموں اور ٹینکوں کے سامنے اپنے عزم، حوصلے اور جرات و بہادری کو لاکھڑا کیا ہے۔ تیزی سے وائرل ہوتی ویڈیوز کو روکنے کیلئےسوشل میڈیا پر بیٹھے متعصب مالکان اورامریکی و اسرائیلی بیانیے کے چوکیدار اس فکر میں ہیں کہ ان ویڈیوز پر کوئی نئی پابندی لگادیں۔ ایسی خبروں کو پھیلنے سے روکیں اور دنیا کو صرف وہ جھوٹ دکھائیں جو یہودی مفادات کا تحفظ کرتا ہو۔ اب آپ فیصلہ کیجئے کہ کس کی ہار ہوئی اور کس کی جیت؟
کسی نے سوشل میڈیا پر کیا خوب شئیرکیا ہے: ایک شوہر نے اپنی بیوی سے کہا کہ جنگ ختم ہورہی ہے، ہم غزہ کے بچوں کو اپنے گھر بسائیں گے۔ اس شخص کی بیوی نے جواب دیا: نہیں! بلکہ ہم اپنے بچوں کو غزہ کے بچوں کے پاس بھیجیں گے تاکہ وہ غزہ کے کھنڈرات میں ان کی تربیت کریں۔اس خاتون سے سوال کیا گیا کہ تم نے ایسا کیوں سوچا؟ اس کاجواب بھی سن لیں کہ یہ کوئی معمولی خاتون نہیں بلکہ اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کمیٹی کی اعلیٰ عہدیدار ہے اوراس کا تعلق بھی یورپ کے ایک ملک سے ہے ۔اس نے کہا کہ میں نے دوران جنگ غزہ میں درجنوں نہیں بلکہ سینکڑوں بچوں اور بچیوں کو ملنے کا اتفاق ہوا، ایک بات سب میں مشترک دیکھی کہ وہ مصائب میں مبتلا ہونے کے باوجود، اپنی آنکھوں سے اپنے ماں باپ، بہن بھائیوں اورتمام عزیز و اقارب کے پرخچے اڑتے دیکھنے کے باوجود صبر کا دامن یہ کہتے ہوئے تھامے رکھا کہ یہ تمام شہداء تو کامیاب ہو گئے ہیں اورہمیں کامیابی کا راستہ دکھا گئے ہیں۔ان تمام بچوں کا ماننا تھا کہ موت سے کیسا خوف، کیاوائٹ ہاؤس اور دیگرمحلوں میں رہنے والوں کو موت نہیں آتی؟ اب آپ فیصلہ کیجئے کہ کس کی ہار ہوئی اور کس کی جیت ؟
بابااقبال “ساقی نامہ “میں کیا خوب فرماگئے:
کسے خبر کہ ہزاروں مقام رکھتا ہے
وہ فقر جس میں ہے بے پردہ روحِ قُرآنی
خودی کو جب نظر آتی ہے قاہری اپنی
یہی مقام ہے کہتے ہیں جس کو سُلطانی
یہی مقام ہے مومن کی قُوّتوں کا عیار
اسی مقام سے آدم ہے ظِلّ سُبحانی
یہ جبر و قہر نہیں ہے، یہ عشق و مستی ہے
کہ جبر و قہر سے ممکن نہیں جہاں بانی
کِیا گیا ہے غلامی میں مبتلا تجھ کو
کہ تجھ سے ہو نہ سکی فقر کی نگہبانی
مثالِ ماہ چمکتا تھا جس کا داغِ سجود
خرید لی ہے فرنگی نے وہ مسلمانی
ہوا حریفِ مہ و آفتاب تُو جس سے
رہی نہ تیرے ستاروں میں وہ دُرخشانی
مسلمانوں کو بے دخل کرنے، ان کے علاقوں دے دربدر کرنے اور دوسرے ملکوں میں بسانے کے سارے منصوبے دھرے کے دھرے رہ گئے ۔ اس کے بجائے ظالم فوجی اپنے سوشل میڈیا اکاونٹس سے فلسطینوں پر مظالم کی ویڈیوز ڈیلیٹ کرنے میں مصروف ہیں۔ چھٹیوں میں دوسرے ملکوں کا سفر کرنے والے یہودی فوجیوں کو خطرہ ہے کہ کوئی پہچان نہ لے اور ہماری فیس بک پوسٹس ہمارے خلاف گواہ نہ بن جائیں۔ اب آپ فیصلہ کیجئے کہ کس کی ہار ہوئی اور کس کی جیت؟
اس جنگ کے کئی پہلو ہیں، ایک طویل تاریخ، فلسطینیوں نے سامراجی طاقت سے مذاکرات کرکے دیکھے، اقوام متحدہ کی ہر شرط مان کر دیکھ لیا مگر اس کا نتیجہ کیا نکلا؟ سات اکتوبر سے ایک دن پہلے پہنچ جائیے اور کھڑے ہوکر دیکھیے تو سارا عالم عرب ہی اسرائیل سے دوستی گانٹھنے میں مصروف تھا، فلسطینیوں کا کسی جگہ بھی نام تک نہیں تھا۔ اپنے مفادات کی اسیر اسلامی ریاستیں فلسطینیوں کی عسکری مدد تو کب کی چھوڑ چکیں، انہوں نے سفارتی اور اخلاقی امداد بھی بندکردی تھی۔ ایسے میں سات اکتوبر کا واقعہ پیش آیا اور بازی الٹ دی گئی۔ دنیا کو پتہ چل گیا کہ فلسطینی الگ وجود رکھتے ہیں، ان کی مزاحمت زندہ ہے، ان کے حوصلے بلند اور ان کے جوان آج بھی وطن پر جان قربان کرنے کیلئے تیار ہیں۔ اب آپ فیصلہ کیجئے کہ کس کی ہار ہوئی اور کس کی جیت؟
جن کا خیال تھا کہ حماس کی مزاحمت کو ختم کر دیا گیا ہے اور اب وہ قصہ ماضی ہے، انہیں خبر ہو کہ اسرائیل کو اسی مزاحمت کے نمائندوں کے ساتھ بیٹھ کر معاہدہ کرنا پڑا ہے اور معاہدہ بھی وہی ہے جس پر فلسطینی مزاحمت پہلے دن سے رضامند تھی مگر نیتن یاہو نے جسے قبول کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ جن کا خیال تھا کہ غزہ اب قصہ پارینہ بن چکا، اور یہاں اسرائیل ساحل کے ساتھ اب اپنی بستیاں آباد کرے گا، ان کو خبر ہو کہ معاہدے کی رو سے غزہ، غزہ والوں کے پاس ہے۔ اب آپ فیصلہ کیجئے کہ کس کی ہار ہوئی اور کس کی جیت؟
جن کا خیال تھا کہ شمالی غزہ سے فلسطینیوں کو مکمل طور پر بے دخل کر دیا جائے گا، انہیں خبر ہو کہ شمالی غزہ پر اہل غزہ کا حق تسلیم کروا لیا گیا ہے ۔ جن کو یقین تھا کہ فلاڈلفیا اور نیٹسارم کاریڈور اب ہمیشہ کیلئے اسرائیلی فوج کے بوٹوں تلے رہیں گے انہیں خبر ہو کہ دونوں کاریڈورز سے اسرائیل کو انخلا کرنا ہو گا۔ جن کا خیال تھا مزاحمت کاروں کو یوں کچل دیا جائے گا کہ ان کی نسلیں یاد رکھیں گے وہ اب بیٹھے سر پیٹ رہے ہیں کہ صرف بیت حنون میں اتنے اسرائیلی فوجی مارے گئے جتنے آج تک کی جنگوں میں نہیں مارے گئے۔اب آپ فیصلہ کیجئے کہ کس کی ہار ہوئی اور کس کی جیت؟
جن کا خیال تھا چند سر پھروں کی مزاحمت کچل دی گئی، انہیں خبر ہو کہ اسرائیلی برگیڈیر عامر اویوی دہائی دے رہا ہے کہ مزاحمت تو آج بھی پوری قوت کے ساتھ موجود ہے لیکن اسرائیل گھائل ہو چکا، مزاحمت کار تو نئی بھرتیاں کر رہے ہیں لیکن اسرائیل سے لوگ بھاگ رہے ہیں کہ فوجی سروس نہ لی جائے۔ اب آپ فیصلہ کیجئے کہ کس کی ہار ہوئی اور کس کی جیت؟
غزہ میں مزاحمت متحد ہے۔ لوگوں پر قیامت بیت گئی، بچے ٹھٹھر کر مر گئے، قبریں کم پڑ گئیں، لیکن کوئی تقسیم نہیں ہے۔ سب ڈٹ کر کھڑے ہیں ، لہو میں ڈوبے ہیں لیکن خدا کی رحمت سے مایوس نہیں۔ اُدھر اسرائیل ہے جہاں مایوسی اور فرسٹریشن میں دراڑیں وضح ہیں۔ ہرادی یہودی اسرائیلی حکومت کو سیدھے ہو چکے ہیں کہ ملک تو چھوڑ دیں گے لیکن لڑائی میں شامل نہیں ہوں گے۔ اسرائیل کا فنانس منسٹر بزالل سموٹرچ دھمکی دے رہاہے کہ یہ معاہدہ اسرائیل کی شکست ہے، وہ حکومت سے الگ ہو جائے گا۔ نیشنل سیکیورٹی کا وزیر اتمار بن گویر بھی دہائی دے رہا ہے کہ اس وقت ایسا کوئی معاہدہ شکست کے مترادف ہے۔ اب آپ فیصلہ کیجئے کہ کس کی ہار ہوئی اور کس کی جیت؟
ایرل سیگل چیخ رہا ہے یہ معاہدہ اسرائیل پر مسلط کیا گیا ہے۔ یوسی یوشع کہتا ہے بہت برا معاہدہ ہوا لیکن ہم بے بس ہو چکے تھے، اور کیا کرتے۔ مقامی خوف فروشوں سے اب کوئی جا کر پوچھے، حساب سودوزیاں کا گوشوارہ کیا کہتا ہے۔ اب آپ فیصلہ کیجئے کہ کس کی ہار ہوئی اور کس کی جیت؟
اسرائیل کے جنگی مبصرین دہائی دے رہے ہیں کہ جس دن امریکا کمزور پڑ گیا یا اس نے منہ پھیر لیا اس دن اسرائیل کا کھیل ختم ہو جائے گا۔ اسرائیلی فضائیہ کے افسران گن گن کر بتا رہے ہیں کہ امریکی امداد نہ پہنچتی تو اسرائیل تیسرے ہفتے میں جنگ کے قابل نہ تھا۔ وہ حیران ہیں کہ ایک چھوٹا سا شہر ہے، ہزاروں قتل ہوئے پڑے اور لاکھوں زخمی، دنیا نے منہ موڑ رکھا، کئی ایٹم بموں کے برابر سلحہ ان پر پھونک دیا گیا، کہیں سے کوئی امداد نہیں ملی، اسلحہ تو دور کی بات انہیں کوئی مسلمان ملک پانی ا ور خوراک تک نہ دے سکا، لیکن وہ ڈٹے رہے، کیسے ڈٹے رہے۔ وہ لڑتے رہے، کیسے لڑتے رہے؟ اب آپ فیصلہ کیجئے کہ کس کی ہار ہوئی اور کس کی جیت؟
کچھ وہ تھے جن کے سر قضا کھیل چکی، اور کچھ وہ تھے جو اس کے منتظر تھے، قدم مگر کسی کے نہ لڑکھڑائے۔ہبریو یونیورسٹی میں قائم عارضی وار روم میں اب پہلی تحقیق اس بات پر ہو نے لگی ہے کہ ان حالات میں مزاحمت کیسے قائم رہی؟حوصلے کیوں نہ ٹوٹے۔ دنیا اب ویت نام کی مزاحمت بھول چکی ہے۔ دنیا آئندہ یہ پڑھا کرے گی کہ غزہ میں ایسی مزاحمت کیسے ممکن ہوئی؟ یہ ہے کہ امریکی صدر اور نو منتخب امریکی صدر میں کریڈٹ کاجھگڑا چل رہا ہے کہ سہرا کس کے سر باندھا جائے۔ اب آپ فیصلہ کیجئے کہ کس کی ہار ہوئی اور کس کی جیت؟
جس مزاحمت کا نام لینے پر مغرب کے سوشل میڈیا کے کمیونٹی سٹینڈرڈز کو کھانسی، تپ دق، تشنج اور پولیو جیسی مہلک بیماریاں لاحق ہو جاتی تھیں، اتفاق دیکھیے اسی مزاحمت کے ساتھ مذاکرات کرنا پڑے، معاہدے میں اسی مزاحمت کا نام لکھنا پڑا اور عالم دنیا اپنے فوجیوں کی تحسین کرتی ہے مگر ادھر خوف کی فضا یہ ہے کہ غزہ میں لڑنے والے اسرائیلی فوجیوں کی شناخت خفیہ رکھنے کا فیصلہ کیا گیا ہے کہ کہیں کسی ملک میں جنگی جرائم میں دھر نہ لیے جائیں۔ ان جنگی مجرموں کیلئے باقاعدہ مشاورتی فرمان جاری ہو رہے ہیں کہ بیرون ملک جائیں تو گرفتاری سے بچنے کیلئے کون کون سے طریقے استعمال کیے جائیں۔ خود نیتن یاہو کیلئےممکن نہیں کہ دنیا میں آزادانہ گھوم سکے۔ قانون کی گرفت میں آنے کا خوف دامن گیر ہے۔ یہ فاتح فوج کے ڈھنگ ہیں یا کسی عالمی اچھوت کے نقوش ہیں جو ابھر رہے ہیں؟ اب آپ فیصلہ کیجئے کہ کس کی ہار ہوئی اور کس کی جیت؟
ادھر اسرائیل میں بائیڈن کے سفیر جیک لیو کا کہنا ہے کہ ا سرائیل نے نہ صرف گلوبل ساؤتھ گنوا دیا ہے بلکہ مغرب بھی اس کے ہاتھ سے جا رہا ہے ۔اس کا کہنا ہے کہ ہم تو اسرائیل کے ساتھ ہیں لیکن نئی نسل کچھ اور سوچ رہی ہے اور اگلے بیس تیس سال میں معاملات نئی نسل کے ہاتھ میں ہوں گے۔جیک لیو کے مطابق بائڈن اس نسل کا آخری صدر تھا جو اسرائیل کے قیام کے بیانیے کے زیر اثر بڑی ہوئی۔ اب بیانیہ بدل رہا ہے۔ اب آپ فیصلہ کیجئے کہ کس کی ہار ہوئی اور کس کی جیت؟
نیا بیانیہ کیا ہے؟ نیا بیانیہ یہ ہے کہ امریکا میں ایک تہائی یہودی ٹین ایجرز فلسطینی مزاحمت کی تائید کر رہے ہیں۔ 42 فی صد ٹین ایجر امریکی یہودیوں کا کہنا ہے کہ اسرائیل نسل کشی کا جرم کر رہا ہے۔ 66 فی صد امریکی ٹین ایجر یہودی فلسطینی عوام سے ہمدردی رکھتے ہیں۔ کیا یہ کوئی معمولی اعدادو شمار ہیں؟ غزہ نے اپنی لڑائی اپنی مظلومیت اور عزیمت کے امتزاج سے لڑی ہے ورنہ مسلم ممالک کی بے نیازی تو تھی ہی، مسلمان دانشوروں کی بڑی تعداد نے بھی اپنے فیس بک اکاؤنٹ کی سلامتی کی قیمت پر غزہ کو فراموش کر دیا تھا۔ اب آپ فیصلہ کیجئے کہ کس کی ہار ہوئی اور کس کی جیت؟
اسرائیل کا مظلومیت کا جھوٹا بیانیہ تحلیل ہو چکا ہے۔دنیا کے سب سے مہذب فاتح کی کوزہ گری کرنے والی فقیہان ِ خود معاملہ طفولیت میں ہی صدمے سے گونگے ہو چکے ہیں ۔ مرعوب مجاورین کا ڈسکو کورس منہدم ہو چکا ہے ۔ان کے جو ممدوح مزاحمت کو ختم کرنے گئے تھے، اسی مزاحمت سے معاہدہ کر کے لوٹ رہے ہیں۔ اب آپ فیصلہ کیجئے کہ کس کی ہار ہوئی اور کس کی جیت؟
جدوجہد ابھی طویل ہو گی، اس سفر سے جانے کتنی مزید عزیمتیں لپٹی ہوں، ہاں مگر مزاحمت باقی ہے، باقی رہے گی۔ مزاحمتیں ایسے کب ختم ہوتی ہیں؟ ڈیوڈ ہرسٹ نے کتنی خوب صورت بات کی ہے کہ غزہ نے تاریخ کا دھارا بدل دیاہے۔ اب آپ فیصلہ کیجئے کہ کس کی ہار ہوئی اور کس کی جیت؟
بات ابھی ختم نہیں، خطے میں طاقت کا کوئی توازن ہی نہیں۔ طاقت ور دشمن سازشیں کررہا ہے اور مسلمانوں کے پاس ایک ہی رستہ ہے: عسکری قوت، اقتصادی طاقت۔ آج کی دنیا میں ان دو ہتھیاروں کے بغیر جینا ممکن نہیں۔ اللہ تعالی نے لمحوں میں مشرق وسطی کا نقشہ بدل دیا ہے، ایک طرف شامی مزاحمت کار فتح یاب ہوئے ہیں اور دوسری طرف فلسطینی جاں باز۔ خدا کرے عالم اسلام اور مسلمان باہم دست و گریباں ہونے کے بجائے خود کو مضبوط کریں اور مشترکہ دشمن کے خلاف تیاری کریں۔ اب کامیابی کا یہی راستہ ہے
دل اگر دل ہے تو دریا سے بڑا ہوتا ہے
سر اگر سر ہے تو نیزوں سے شکایت کیسی
میرے انتہائی عزیزترین دوستوں اوربھائیوں اور بہنوں!
دنیاکے طول وعرض میں کوئی گوشہ ایسا نہیں جہاں خون کی ہولی نہ کھیلی جارہی ہو۔۔وہ اسلامی ممالک جوکہ دولت کے لحاظ سے دنیاکی غربت و افلاس ختم کرسکتے ہیں ان کے خزانوں کا استعمال بھی اغیارکے ہاتھوں میں ہے اوروہ اس دولت کوانسانی فلاح کی بجائے اسلحے کے بڑے بڑے کارخانوں میں کھپاکر انسانیت کی ہلاکت کاساماں تیار کررہے ہیں اوریہی ممالک جوکہ دنیاوی ترقی کی معراج پرہیں آج اپنی ہی تہذیب اورسوسائٹی سے اس قدرنالاں ہیں کہ ان کی سمجھ میں اصلاح کی کوئی تدبیرنہیں آرہی،آخریہ کیوں ہے؟یہ ایسا سوال ہے جس کاجواب ہرکوئی چاہتا ہے۔ دنیا کی حیرت انگیزترقی ،دولت کی ریل پیل ،حیرت انگیز وسائل رکھنے کے باوجوددنیاکے دانشورآج بے بس اورمجبورکیوں نظرآرہے ہیں،آخر کیوں؟
موت توکوئی نئی چیز نہیں۔موت تو ہر ایک کو آنی ہے۔ موت کے قانون سے نہ تو کوئی نبی مستثنیٰ ہے نہ کوئی ولی۔ جو بھی آیا ہے اپنا مقررہ وقت پورا کرکے اس دنیا سے رخصت ہو جاتا ہے۔موت زندگی کی سب سے بڑی محافظ ہے۔ہم سب اس کی امانت ہیں، پھر کس کی مجال جو اس میں خیانت کر سکے۔ کسی کا اس بھری جوانی میں اس طرح حالتِ ایمان اورراہِ خدا میں قربان ہو جانااس کے حق میں بڑی نعمت ہے اور پھر کیوں نہ ہو، ایسی موت تو وصل حبیب اور بقائے حبیب کا خوبصورت سبب اور حسین ذریعہ ہے اور پھر بقائے حبیب سے بڑھ کر اور نعمت کیا ہو گی!
انتہائی واجب الاحترام دوستوں اوربھائیوں اور بہنوں!
جب ہم اپنے اسلاف کی طرف دیکھتے ہیں تومعاملہ اس کے برعکس نظرآتاہے۔اس زمانے میں اگرتندوتیزہوایاآندھی چل پڑے تولوگ دیوانہ وارمساجدکی طرف دوڑتے تھے کہ مباداقیامت کانزول ہونے والا ہے ۔صحابہ کرام کی پوری جماعت اس عالم میں اللہ کے حضورگڑگڑاکر اپنی مغفرت کی دعائیں کرتی تھی اوراللہ کی رحمت کی طالب ہوتی تھی۔رحمت دوعالمﷺکارخ انوربھی ان مواقع پرکبھی سفیداورکبھی پیلاہوجاتا تھالیکن آج زلزلوں کی تباہی،سمندروں کے طوفان،قحط کاعذاب اورخانہ جنگیوں کی تباہ کاریاں بھی ہمارے دلوںمیں ذراسی جنبش پیدانہیں کرتیں
عملی زندگی میں جس طرح پولیس والے کی اچانک دستک ہمیں بدحواس کردیتی ہے،ناکردہ گناہوں کی صفائی میں کہے جانے والے الفاظ ہمارے ذہنوں سے سفرکرکے زبان کی نوک پرآجاتے ہیں،کیاان تمام ناگہانی آفتوں پرجویقیناً ہمارے اپنے ہی اعمال کی سزاہیں،ان کی صفائی میں کہے جانے والے الفاظ کانزول اپنے دل ودماغ پرہوتے ہوئے دیکھاہےاورپھراپنی زبان سے آئندہ اعتراف کرکے تائب ہونے کی کوشش کی ہے؟ اگرایمانداری سے اس کاجواب تلاش کیاجائے تویقیناًنفی میں ہوگاکیونکہ آج ہمارادل خوفِ خداسے خالی اوردنیاکے خوف کی آماجگاہ بناہوا ہے ۔ حقیقت یہ ہے کہ دونوں خوف ایک دل میں کبھی یکجا نہیں رہ سکتے۔ایک خوف اندرآتاہے تو دوسراخوف چپکے سے نکل جاتاہے۔مقامِ حیرت تویہ ہے کہ پہاڑجیسافرق ہمیں کبھی محسوس نہیں ہوا لیکن دنیاوی دولت یاعزت وحشمت میں بال برابربھی فرق آن پڑے تواس کافوری نوٹس لیاجاتا ہے اوراس کیلئے پوری توانائیاں صرف کردی جاتی ہیں۔ اس کابھرپور علاج تلاش کرکے پھراس پرپوری ثابت قدمی سے عمل کیاجاتاہے لیکن صد حیف !!!روزانہ ہم قرآن کریم کی تلاوت بھی کرتے ہیں،احادیث اورتاریخی اسلامی کتب بھی زیرِمطالعہ رہتی ہیں لیکن اس کے باوجودجسم کے اندرچھوٹاسالوتھڑا(دل)جوکہ پہاڑوں کوتسخیر کرنے کی قوت رکھتاہے اس پرقرآن واحادیث کاکوئی اثر نہیں ہوتا۔ہم میں سے بیشترحضرات نے رسول اکرم ﷺکااپنے جفاکش اوروفاکیش صحابہ سے یہ خطاب یقیناًپڑھاہوگاکہ”خدائے ذوالجلال جب قیامت کے دن اپنے تخت پربراجمان ہوں گے تو آدم علیہ السلام سے کہیں گے کہ ناری گروہ کوبھیجو تو آدم علیہ السلام کہیں گے کہ خداوندا….. ناری گروہ کون ہے؟ارشادہوگا، ہزار میں سے نوسوننانوے(٩٩٩) جہنم میں جھونکے جائیں گے اورجنت میں صرف ایک۔۔۔!
اس خطاب کے بعداجتماع میں آنسوؤں اورہچکیوں کازلزلہ برپاہوگیاتھالیکن شائدہم ان کوکوئی دوسری نسل سمجھتے ہیں ۔وہ لوگ سب کچھ کرکے اس خوف سے روتے تھے کہ ہزارمیں سے ایک کابھی شرف حاصل ہوسکے گانہیں!ان کے دلوں کوقران کی ایک آیت تہہ وبالاکردیتی تھی، لیکن ہمارے دلوں کوپوراقرآن بھی ٹس سے مس نہیں کرتا،کتناہولناک فرق ہے جوآج اسلاف اوراخلاف کے دلوں میں پیداہوگیاہے۔ستم ظریفی تویہ ہے کہ ہزارسمجھانے کے بعد بھی اگریہ فرق ہماری سمجھ میں آبھی جاتا ہے تودل اس کوقبول کرنے کیلئے تیارنہیں ہوتا۔
شقیاالاصبحی جوکہ اسلاف کی ایک نشانی ہیں ،مدینے میں انسانوں کاایک جم غفیر دیکھ کراس معاملہ کی تہہ کی جونہی کوشش کرتے ہیں توکیادیکھتے ہیں کہ لوگوں نے ایک عاشق رسولﷺ کو اپنے حصارمیں لیاہے اورحدیث سننے کی درخواست کررہے ہیں تو جواب میں ان کے ہونٹوں اورجسم پر ایک لرزہ طاری ہوجاتاہے اوردردناک چیخ مارکربے ہوش ہوجاتے ہیں۔تین بارکوشش کی لیکن زبان نے خوفِ خداکی وجہ سے ساتھ نہ دیا۔جب غشی کی حالت ختم ہوگئی توفرمایا:ایک ایسی حدیث سناتاہوں جواسی گھرمیں رسول اکرمﷺکے مبارک منہ سے سنی تھی۔ “قیامت کے روزجب خدابندوں کے فیصلے کیلئے اترے گاتوسب سے پہلے تین اشخاص طلب کئے جائیں گے، ایک قاری،دوسرادولت مند اورتیسرا شہید! خداقاری سے پوچھے گاکہ کیاہم نے تجھے قرآن نہیں سکھایا،اس پرتونے کیاعمل کیا؟قاری جواب میں دن رات قرآن کی تلاوت کاذکرکرے گاتوخدااس سے فرمائے گاکہ توجھوٹ کہتاہے ،تم نے یہ سب لوگوں کیلئے کیا تاکہ تم کوقاری کہیں۔اسی طرح دولت منداپنی سخاوت کااور شہید اپنی جان کی قربانی کاذکرکرے گاتوجواب میں رب ذوالجلال ان کوبھی جھوٹ سے تشبیہ دے کردنیاکے دکھلاوے کاعمل کہے گااوریہ کہہ کر رسول اکرمﷺنے میرے زانوپرہاتھ ماراکہ اللہ تعالیٰ حکم صادرکریں گے کہ ان کومنہ کے بل گھسیٹ کرجہنم میں دھکیل دو اورسب سے پہلے جہنم کی آگ ان پر ہی شعلہ زن ہوگی”۔
میرے انتہائی عزیزترین دوستوں اوربھائیوں اور بہنوں!
پھرجس طرح حدیث سنانے والے کی (حضرت ابوہریرہ)کی چیخیں لوگوں نے نکلتی ہوئی دیکھیں یہی عالم سارے مجمع کاہوا۔ ہمارے اسلاف پیکر اخلاص تھے اورہم اس سے کوسوں دور!وہ ریاکاری کے خوف اوراس کے لرزہ خیزانجام سے لرزہ براندام تھے،ہم دنیاداری کودین وایمان سمجھ کربڑے اطمینان سے بیٹھے ہیں ۔شائدیہی وجہ ہے کہ دنیاکے طول وعرض میں مختلف حادثات کوپڑھ کرہم محض اس لئے مطمئن ہیں کہ ہم اس کاشکار نہیں ہوئے حالانکہ دل کی اسی بے حسی اوربدلتی ہوئی کیفیت نے توثابت کردیاہے کہ ہم جوبرسوں سے انحطاط کاشکارہیں اس کی وجہ ہمارا یہی عارضی قلبی اطمینان ہے۔مومن اورمسلمان کے دل میں توایک تڑپ رہتی ہے جواس کوہرپل بے چین رکھتی ہے۔دنیامیں خدااوررسول کے احکام کی روگردانی اس سے برداشت نہیں ہوتی۔اس ساری سوسائٹی و تہذیب کے دھارے کوتبدیل کرنے کی کوشش میں اپنی پوری زندگی کھپادیتاہے ۔ لوگوں کے دلوںکواپنے رب سے جوڑتاہے۔رسول اکرمﷺ کی تعلیمات کوشب وروزدہراتاہے۔صحابہ کی زندگیوں کو سامنے رکھ کرروزانہ کے اعمال کاہرروزسونے سے پہلے محاسبہ کرتاہے۔اگرہماری بھی یہ کیفیت ہوجائے تویقین کے ساتھ یہ امیدرکھی جاسکتی ہے کہ وہ سوال (جن کے جواب آج کل کے دانشوربھی)تلاش نہیں کرسکے ہمارے صالح اعمال کودیکھ کربے ساختہ پکار اٹھیں گے کہ ہروزناگہانی آفتوں کاجواب صرف اورصرف یہ ہے اوردم توڑتی ہوئی انسانیت کواگرزندگی مل سکتی ہے توصرف اسی ایک راستے پرچل کر۔اس کیلئے ہم میں سے ہرشخص خدا کے ہاں جوابدہ ہے کہ اس نے اپنی زندگی میں اللہ کے احکام کواس دنیامیں نافذکرنے میں کتناجان ومال صرف کیا؟
اس دنیا میں جو بھی آیا ہے اسے یقیناً ایک دن جانا ہے اوراس دنیا میں آنا ہی درحقیقت جانے کی تمہید ہے مگر بعض جانے والے اپنے ماں باپ ، لواحقین اوراہل وطن کیلئے ایسی دولت اور فخر و انبساط کی ایسی وراثت چھوڑ جاتے ہیں کہ جس کے آگے خزائن و حشم سے مالا مال شہنشاہ بھی سو فقیروں کے فقیر اور سو کنگالوں کے کنگال لگتے ہیں۔
سلام ہے حماس کے وہیل چیئر تک محدود بانی شیخ احمد یاسین کو جنہوں نےحماس کے نوجوانوں کے قلب وذہن کے اندر پچھلی کئی دہائیوں سے عملِ خیرکا جو بیج بویا تھا،ان کی شہادت کے بعد اس بیج پرمشیت کی برسائی ہوئی برسات نے بالآخرکس طرح عمل خیرکی لہلہاتی ہوئی کھیتی اگا دی ۔اگراس فصل کی تقسیم شروع کر دی جائے تو سب کو ہی اپنا دامن تنگ نظر آئے گا۔ ان نوجوانوں نے اپنے خونِ دل اورجان سے پائے رسول ﷺ کے نقوش کو ایسا اجاگر کیا ہے کہ ہر کسی کو اب اپنی منزل آسان دکھائی دے رہی ہے۔ ان نوجوانوں کی للہٰیت، اخلاص نیت اور بے لوث ادائے فرض نے ایک ہی جست میں تمام فاصلے عبورکر لئے ہیں جس کی تمنا انبیاء اصحابہ اور صالحین نے ہمیشہ کی۔ان عظیم نوجوانوں کی یاد اب تاقیامت تک کفر کے تاریک جزیروں پر ایمانی قوت کے ساتھ کڑکتی اور کوندتی رہے گی۔
میرے انتہائی عزیزترین دوستوں اوربھائیوں اور بہنوں!
غزہ کے شہداء نے جہاں اور بے شمارباتوں کا سبق یاد دلایا ہے وہاں ایک یہ بات بھی ہمارے ذہن نشین کروائی ہے کہ عالمِ اسباب میں سانس کا ایک تموج اور ذرے کا ایک حقیر وجود بھی تخلیق اسباب اور ترتیب نتائج میں اپنا حصہ رکھتا ہے۔ جس طرح عمل بد کی ایک خراش بھی آئینہ ہستی کو دھندلا جاتی ہے اسی طرح عمل خیرکا ایک لمحہ بھی عالم کے اجتماعی خیر کے ذخیرے میں بے پناہ اضافہ کر دیتا ہے اورلوحِ زمانہ میں ریکارڈ ہو کر کبھی نہ کبھی ضرور گونجتا ہے اور میزان نتائج میں اپنا وزن دکھاتا ہے اور یوں آخرت کوجب گروہ درگروہ اپنے رب کے ہاں حاضر ہون گے تو غزہ کے یہ نوجوان بھی اپنے رب کے ہاں اس شان سے حاضر ہوں گے کہ تمام عالم ان پر رشک کرے گا۔
میرے انتہائی عزیز دوستوں، بھائیوں اور بہنوں!
خدا سے ہم نے بھی ملاقات کرنی ہے،خدا جانے کب……؟خدا جانے کہاں……؟اور کس حال میں ہوں گے؟ کتنی بڑی ملاقات ہو گی جب ایک عبد ذلیل اپنے معبود اکبر سے ملے گا! جب مخلوق دیکھے گی کہ خود اس کا خالقِ اکبر اس کے سامنے ہے ، خدا کی قسم۔۔۔۔ کیسے خوش نصیب ہیں یہ نوجوان کہ جلوہ گاہ میں اس شان سے جائیں گے کہ اس ملاقات کے موقع پر خدا کو نذر کرنے کیلئے خدا کا کوئی انتہائی محبوب تحفہ ان کے کفن میں موجود ہو گا۔ جی ہاں!ان کفنوں کی جھولیوں میں جن میں بدن اورسچے ایمان وعمل کی لاش ہوگی مگر شہادت کے طمطراق تمغے سے سجی ہوگی۔ان تمغوں کوخدائے برتر کی رحمت لپک لپک کر بوسے دے گی اوراعلان ہوگا:
توحید تو یہ ہے کہ خدا حشرمیں کہہ دے
یہ بندۂ دوعالم سے خفا میرے لئے ہے
میرے انتہائی عزیزترین دوستوں اوربھائیوں اور بہنوں!
کاش ہمیں بھی اس ملاقات اور یقینی ملاقات کا کوئی خیال آتا اور تڑپا دیتا، کاش ہم بھی ایسی موت سے ہمکنار ہو جائیں جہاں فانی جسم کے تمام اعضاء باری باری قربان ہو جائیں ، سب خدا کیلئے کٹ جائیں،سب اسی کے پائے ناز پر نثار ہو جائیں جس کے دستِ خاص نے ان کو وجود کے سانچے میں ڈھال اہے۔یقیناً ان نوجوانوں کے دھڑ شیطانی قوتوں کا شکار ہو گئے ہیں مگر اشک بار آنکھوں سے سو بار چومنے کے لائق ہیں کہ فرشتے ان کو اٹھا کر اللہ کے ہاں حاضر ہو گئے ہیں اوران کی جوانیاں اس بات کی گواہی دے رہی ہیں کہ دنیا پر نہیں یہ آخرت پر نثار ہوئی ہیں۔ انہوں نے دنیا کی کسی چیز سے نہیں خود خدا سے عشق کیا، انہوں نے دنیا کی ساری اشیاء اور عیش و عشرت پرنہیں خود رسول اکرم ﷺ کی ذاتِ مبارک پر ایمان کی بنیاد رکھی، انہوں نے دنیا کی نشیلی چھاؤں میں نہیں بلکہ شہادت کے پُرشوق سائے میں پناہ ڈھونڈی، انہوں نے زندگی کی دلفریب اور ایمان کی شاہکار شاہراہ پر اس طرح سفر کیا ہے کہ زندگی سے ہٹ کر شہادت اور شہادت کے اس پار تک کچھ سوچنے کا کوئی سوال ہی نہیں تھا۔ وہ شباب و حسن سے وجد کرتے ہوئے اللہ کے ہاں اس طرح حاضر ہو گئے ہیں کہ حسن و جوانی بار بار ایسی حسرت کرے! اب آپ ہی بتائیں کہ کس کی ہار ہوئی اور کس کی جیت؟
وہ زندگی اور دنیا پر جھومنے کی بجائے سچائی اور آخرت پر مر جانے کی رسم ادا کر گئے تاکہ زمین و آسمان ان کی موت پر آنسو بہائیں لیکن خدا اپنے فرشتوں کی محفل میں خوش ہو کہ اس کا بندہ اس کی بارگاہ تک آن پہنچا۔ دراصل غزہ ، کشمیر اور دیگر مظلوم مسلمان جو آزادی کی جنگ لڑ رہے ہیں ، وہاں کے ہرنوجوان کو معلوم ہو گیا ہے کہ ان کا گھر اِس دنیا میں کہیں نہیں بلکہ اُس دنیا میں ہے جو جسم و جاں کا تعلق ٹوٹتے ہی شروع ہوتی ہے۔ ایسی دنیا جہاں خود خدا اپنے بندوں کا منتظر ہے کہ کون ہے جو دنیا کے بدلے آخرت اور آخرت کے بدلے اپنی دنیا فروخت کرکے مجھ سے آن ملے۔ جہاں وہ جنت ہے جس کے گہرے اور ہلکے سبز باغات کی سرسراہٹوں اور شیر و شہد کی اٹھلاتی لہراتی ہوئی ندیوں کے کنارے خوف و غم کی پرچھائیوں سے دور ایک حسین ترین دائمی زندگی ، سچے خوابوں کے جال بن رہی ہے۔ جہاں فرشتوں کے قلوب بھی اللہ کے ہاں پکار اٹھیں گے کہ خدایا…..! یہ ہیں وہ نوجوان جن کی ساری دنیا تیرے عشق میں لٹ گئی ہے، یہ سب کچھ لُٹا کر تیری دید کو پہنچے ہیں، ان کے قلوب میں یہ بات راسخ ہو چکی تھی کہ راہِ حق میں مارا جانا ہی دراصل تجھ تک پہنچنے کا ذریعہ ہے اور شہادت کے معنی ہی ہمیشہ زندہ رہنا ہے۔یہ تو سب کچھ لُٹا کراس یقین تک پہنچے ہیں۔۔۔۔ اور ہاں! کتنا قابل رشک ہے ان نوجوانوں کا یقیں اور ایمان، جن پر ملائکہ ایسی گواہی دیں گے اور کس قدر رونے کے لائق ہیں ہمارے ایمان جن کیلئے ہمارے دل بھی گواہی دیتے دیتے کسی خوف سے چپ ہو جاتے ہیں۔ کل جب میدانِ حشر میں اشک و لہو میں نہائے ہوئے یہ نوجوان خداوندی لطف و اعزاز سے سرفراز کئے جا رہے ہوں گے، خدا جانے ہم کہاں اور کس حال میں ہوں گے!
میرے انتہائی عزیزترین دوستوں اوربھائیوں اور بہنوں!
یقیناغزہ کے ان تمام شہداء نے مسلم امہ کے ان تمام افراد کو سرخرو کر دیا اور وہ ان کی عقبیٰ و آخرت کی نجات کا وسلیہ بن گئے اور جس کی بناء پر انہوں نے دنیا میں ایسی لازوال مثالیں قائم کر دیں کہ تمام شیطان صفت قاتل، ظالم خوفزدہ ہو کر خود اپنی شکست کو تسلیم کر رہے ہیں ۔۔۔ یقیناً غزہ کے شہداء اور غزہ میں واپس آنے والے جیت گئے۔۔۔الحمداللہ۔۔۔ ہم آج ان کو ان کی اس فتح پر مبارکباد پیش کرتے ہیں ۔ اے غزہ کے لوگو! تم سب کو ہماری طرف سے مبارک ہو۔۔۔ آئیے آج ہم سب یہ عہدکریں کہ آپس کی گروہ بندیاں ،تفرقے بازی اورفروعی اختلافات کوپس پشت ڈال کر اپنے دلوں کو خوفِ خداسے آراستہ کریں گے تاکہ عقبیٰ وآخرت کی نجات ہوسکے ۔ثم آمین
میں آج آپ سب کوگواہ بناکر اللہ کے حضور اپنی زندگی کی سب سے بڑی خواہش کو درخواست کی شکل میں پیش کرنا چاہتا ہوں کہ اے احکم الحاکمین: مجھے بھی اُس شہادت کے رتبے سے سرفراز فرما جو تیرے راستے میں قبول ومبرور ہو اور قیامت کے روز میرے آقا نبی اکرم ﷺ کے سامنے شرمندہ ہونے سے محفوظ فرما دینا۔۔اللھم آمین
بروزاتوار3شعبان المعظم 1446ھ فروری 2025ءکو ایکس سپیس پرلیکچردیاگیا۔