’’اوبھراگامیاتوتے آزاد ہوگیاپراسی تے ہمیشہ لئی غلام ہوگئے،اج اسی اپنے پرکھاں اگے بڑے شرمندہ ہاں اوراپنی آون والی پیڑھی اگے بڑے شرمندہ ہاں”۔(اوبھائی گامیا ”غلام محمد” تم توآزادہوگئے لیکن ہم توہمیشہ کیلئے غلام بن گئے ہیں،اپنے بزرگوں کے سامنے بڑے شرمندہ ہیں اور اپنی آنے والی نوجوان نسل کے سامنے بھی شرمندہ ہیں)۔یہ رقت آمیزمنظرتیس سال کے بعدمیری آنکھوں کے سامنے آج پھرتازہ ہوگیاجس نے ہردیکھنے والے کوآبدیدہ کردیاتھاجب ساراگاؤں دودیرینہ دوستوں باباغلام محمداورباباہرنام سنگھ کی نہ رکنے والی آو وزاری اور سسکیوں کے ساتھ سفید داڑھیوں کوترکرتےہوئےبے اختیار بہتے آنسوؤں کودیکھ رہاتھا۔یہ دونوں دوست قیام ِ پاکستان کے بعدپہلی مرتبہ مل رہے تھے اور ہرنام سنگھ اورباباغلام محمد اس پیرانہ سالی میں ایک دوسرے کو اس طرح مل رہے تھے جیسے ایک دوسرے کے اندرضم ہوجائیں گے۔مسلم سکھ دوستی کی اس مشترکہ میراث کوظالم طاقتوں نے جداتوکردیالیکن ان کی محبت والفت کوپانچ دہائیوں کافراق اورمضبوط کردے گا،اس کی کسی کوبھی توقع نہ تھی۔
سکھ مذہب کےبانی اورپہلے گرو”بابانانک”15/اپریل1469ءلاہوراورشیخوپورہ کے وسط ایک گاؤں”بھوئے دی تلونڈی (موجودہ ننکانہ)میں ایک کھتری نسل کے ہندوکلیان چاندداس بیدی جو”کالومٹھا”کے نام سے مشہورتھے،کے گھرمیں پیداہوئے ۔اس وقت ہندوستان پرسلطان لودھی کی حکومت تھی۔باباگرونانک کے والد”علاقے کے ایک مسلمان جاگیرداررائے بلواربھٹی کے ہاں پٹواری تھے۔سکھوں کے ہاں نومبرکے مہینے میں چوہدویں کے چاند کی رات کوان کےجشن پیدائش پر”اکاش دیواس ”منایاجاتاہے،اوراسی جشن میں شمولیت کیلئے 60 سکھ خاندانوں کایہ گروپ میرے ساتھ پاکستان گیاجہاں حکومتی اورعوامی سطح پربڑے والہانہ استقبال نے لاہورائیرپورٹ پرتمام سکھ خاندان کے افرادکونہ صرف حیران کردیابلکہ آبدیدہ کردیا۔اس دوران ہمیشہ کی طرح پاکستانی حکومت کے علاوہ پاکستانی عوام نے دل کھول کران سکھوں کی خدمت میں کوئی کسرنہیں چھوڑی۔
بابا گرونانک کابچپن ان کی ہمشیرہ کے سسرال میں گزرا۔ان کی ہمشیرہ کانام ”بے بے نانکی”تھا۔سکھ روایات کے مطابق پانچ سال کی عمرسے ہی بابا جی مذہبی کہانیوں میں بہت زیادہ دلچسپی لیتے تھے۔ان کے والدنے انہیں سات سال کی عمرمیں روایتی تعلیم کیلئےاسکول میں داخل کروادیا۔ فطری ذہانت کے باعث بہت جلداپنے ہم جولیوں سے آگے نکل گئے۔نوسال کی عمرمیں جب پروہت نے ایک مذہبی تقریب میں جانونامی دھاگاپہناناچاہا توانہوں نے اس رسم کواداکرنے سے انکارکردیاگویا ان کے اندرتوحیدکی ایسی کوئی کرن چھپی ہوئی تھی جس نے ان کوایسے انکارکی طاقت فراہم کی۔اپنی ذہانت کے بل بوتے پرسنسکرت کے علاوہ عربی اورفارسی پران کومکمل عبورحاصل تھا۔باباکے بہنوئی لاہورمیں گورنر کے ہاں ناظم جائداد کی حیثیت سے ملازم تھے،سرکاری امورکی ادائیگی میں باباجی اپنے بہنوئی کاہاتھ بھی بٹاتے تھے۔باباگرونانک کے اس مذہبی رحجان نے سب سے پہلے ان کی ہمشیرہ”بے بے نانکی”کواس قدرمتاثرکیاکہ انہوں نے باباگرونانک کواپناروحانی پیشواتسلیم کرلیا۔
باباگرونانک کایہ بچپن سے معمول تھاکہ وہ سورج نکلنے سے قبل گھرکے قریب ندی کے ٹھنڈے پانی میں اترجاتے اوروہاں خدائے واحد کی حمدبیان کرتے تھے۔سکھ روایات کے مطابق 1499ءتیس سال کی عمرمیں باباجی نے گاؤں کے قریب”کالی بین”ندی میں ایک گہراغوطہ لگایااورجب کافی دیرتک اپنے دوستوں کے پکارنے پربھی پانی کی سطح پرنہ آئے توان کے دوستوں کوبڑی تشویش ہوئی۔گاؤں میں موجوددولت نامی مسلمان غوطہ خورنے ندی کاوہ خاص حصہ چھان مارا لیکن بابا جی کاکوئی سراغ نہ مل سکا۔گاؤں والوں کوباباجی کے ڈوب جانے کاقطعی یقین ہوگیالیکن تین دن کے بعدبابا جی اچانک اپنے گھرلوٹ آئے لیکن اپنے غائب ہونے کے بارے میں ایک دن مکمل خاموش رہے۔اگلے دن لوگوں کے بے انتہااصرارپر اپنی خاموشی توڑتے ہوئے بولے:
’’نہ کوئی مسلمان ہے اورنہ ہی کوئی ہندوہے،توپھرمیں کس کے راستے پرچلوں؟؟؟میں توبس خداکے راستے پرچلوں گاجو نہ مسلمان ہے نہ ہندو ہے”۔انہوں نے اپنے غائب ہونے کی بابت یہ بھی بتایاکہ ان تین دنوں میں انہیں خداکے دربارمیں لے جایاگیاجہاں انہیں”امرت” خدائے واحد کی محبت کاجام پلایاگیاجہاں انعام کے طورپرخدانے اپنی رحمتوں اوربالا دستی کاوعدہ فرمایا۔خدانے اسی توحیدکے پیغام پرعمل کرنے اور دوسروں کوپہنچانے کاحکم بھی دیا،جس کے بعدباباجی نے فوری طورپر اپنی کل جمع پونجی غریبوں میں تقسیم کردی اوراپنے بہت ہی قریبی دومسلمان دوستوں”بالامطرب اورمردانہ”کے ہمراہ اسی توحیدی عقائدکی ترویج کیلئے گاؤں چھوڑکرایک لمبے سفرپرروانہ ہوگئے۔
سکھ روایات کے مطابق باباگرونانک کے پہلے چارطویل سفروں(اداسی)میں بلا شبہ ہزاروں میل کی طویل مسافت میں ”توحید”یعنی خدائے واحد کے سچے پیغام کادرس مقصودرہا۔بنگال سے آسام،تامل ناڈو،کشمیر،لداخ،تبت اورآخری مشہورسفر بغدادسے ہوتے ہوئے مکہ مکرمہ اورمدینہ منورہ کے علاوہ دیگرعرب ممالک میں بھی اپنے عقیدے کے پرچارمیں مشغول رہے۔ان کاآخری اورپانچواں سفراندرون پنجاب رہاجہاں انہوں نے بے شمارمریدوں کوبت پرستی کی لعنت سے آگاہ کرتے ہوئے توحیدکی طرف مائل کیااوراس پیغام میں ان کے دومسلمان ساتھی”بالااورمردانہ ” ان کے پیغام کوگیت اورسنگیت کی شکل میں ڈھال کرلوگوں کومتوجہ کرتے تھے۔باباگرونانک نے ابتدائی تعلیمات میں سب سے پہلے جھوٹ کوترک کرنے، مذہب کی غیرضروری رسومات سے پرہیز،مذہبی کتب کے عین مطابق زندگی گزارنے کے اصول اوربغیرکسی وسیلے کے اللہ تک رسائی کی تعلیمات سے روشناس کروایااوراس کے ساتھ ساتھ انسان کے اندرچھپے ہوئے پانچ خطرناک امراض (چھپے ہوئے چوروں)تکبر، غصہ، لالچ،ناجائزخواہشات اورشہوت سے مکمل پرہیزکاحکم دیاگویاتوحیدکادرس اورپانچ امراض کی نشاندہی یقیناًاسلام کے وہ بنیادی سنہری اصول ہیں جن سے باباگرونانک اس قدرمتاثرہوئے کہ انہوں نے بھی اپنے عقیدت مندوں کیلئے ان کوضروری جانا۔
انہوں نے سکھ مذہب کی مکمل عمارت تین ایسے بہترین رہنماستونوں پراستوارکی جس سے ان کی مذہب اسلام سے محبت ویکسانیت کاپتہ چلتا ہے :
1۔نام جپنا:اس سے مراد خدا کانام لیتے رہنا،اس کے گیت گاتے رہنااورہر وقت اسی کو ذہن وزبان میں تازہ رکھناہے۔جبکہ قرآن ہمیں یہ حکم دیتا ہے کہ:اے اہل ایمان خدا کا بہت ذکر کیا کرو۔(احزاب:41)
2۔کرت کرنی:اس سے مراددیانت داری سے محنت کر کے رزق حلال کماناہے جبکہ اللہ نے قرآن کریم میں دعاؤں کی قبولیت کی اولین شرط رزق حلال کوقراردیاہے: لوگو جو چیزیں زمین میں حلال طیب ہیں وہ کھاؤ۔(البقرہ:168)
3۔ونڈچھکنا:اس سے مراد دولت کوبانٹناہے اورمل جل کرکھاناہے۔قرآن ہمیں یہ سبق دیتاہے کہ:صدقات (یعنی زکوٰة وخیرات) تو مفلسوں اور محتاجوں اور کارکنان صدقات کا حق ہے اور ان لوگوں کا جن کی تالیف قلوب منظور ہے اور غلاموں کے آزاد کرانے میں اور قرضداروں (کے قرض ادا کرنے میں) اور خدا کی راہ میں اور مسافروں (کی مدد) میں (بھی یہ مال خرچ کرنا چاہیئے یہ حقوق) خدا کی طرف سے مقرر کر دیئے گئے ہیں اور خدا جاننے والا (اور) حکمت والا ہے۔(التوبہ:60)
گویاباباگرونانک کے وضع کردہ سکھ مذہب کے تینوں بنیادی اصول قرآن کریم سے ماخوذ ہیں۔
گرو نانک سکھ مذہب کے صرف بانی ہی نہیں بلکہ واحدانیت،تصوف اورروحانیت کاپرچارک بھی ہیں۔آپ مسلمانوں کے عظیم روحانی پیشوا حضرت بابافریدگنج شکرکے ہمعصرتھے۔اپنے طویل تبلیغی سفروں میں باباگرونانک کوکئی جیدمسلمان عالم مبلغوں کے ساتھ ملاقات اورمکالمے کے کئی مواقع ملے۔ہمیشہ سے صوفی منش مبلغ مسلمان اپنے مدارس اورخانقاہوں پرغریبوں کے مفت کھانے پینے کاخصوصی اہتمام کرتے چلے آئے ہیں جوابھی تک جاری وساری ہے جس کوعرفِ عام میں “لنگر”کانام دیاجاتاہے۔باباگرونانک نے بھی اپنے طویل سفرکرنے کے بعدبقیہ زندگی گزارنے کیلئے1522ءمیں کرتار پور گاؤں کی بنیادرکھی(جوبھارت اورپاکستان کی سرحدپرپاکستان میں واقع ہے)جہاں”کرتان اورلنگر”کی تقریبات کاآغازکرتے ہوئے اپنے عقائدکی ترویج وتبلیغ کے ساتھ ساتھ غریبوں کومفت کھانے پینے کی سہولت فراہم کی۔سکھ مورخین کے مطابق اس دھارمک بستی کیلئے جہانگیربادشاہ نے اپنی شہزادگی کے دوران ہی گرو ارجن صاحب کونذرکردی تھی۔اس جگہ پرگرو صاحب نے ایک دھرم شالہ بھی بنوائی۔مشہورسکھ سکالرگیانی گیان سنگھ کے مطابق کرتارپورکوآبادکرنے کی تحریک ایک مسلمان میرعظیم خان نے شروع کی تھی اورکرتارپورپنجاب کی ایک مقدس بستی بن گئی تھی۔اکبربادشاہ باباگرونانک سے خصوصی محبت کرتے تھے جس کی وجہ سے انہوں نے کرتارپور کیلئے ساری زمین تحفہ میں دی تھی۔
اسی طرح امرتسرشہرکی ابتداکے بارے میں یہ ذکربھی تاریخ میں ملتاہے کہ مغلیہ سلطنت کے شہنشاہ اکبرنے امرتسرکا علاقہ سکھوں کے چوتھے روحانی پیشواگرورام داس کودے دیاتھااوررام داس نے یہاں رام داس پورکی بنیاد ڈالی جس کانام بعدمیں امرتسرہوالیکن یہ بھی کہاجاتاہے کہ شہنشاہ اکبرنے1565ءمیں گروامرداس اورپھر1579ءمیں گرورام داس اور1606 میں گروارجن دیوکوعلاقے کی پیشکش کی تھیں جنہیں ان تینوں اشخاص نے قبول نہیں کیاتھا۔گروامرداس کی نسبت یہ بھی تاریخ میں آتاہے کہ جاگیرقبول کرنے سے انکارکے بعداکبر نے وہ جاگیرجس پر امرتسرقائم ہوا،امرداس کی بیٹی بی بی بھانی کوشادی کے تحفے کے طورپر دے دی تھی جس سے امرداس انکارنہ سکے،مزیدیہ کہ اکبرنے سکھوں کے تمام علاقوں کو محصول اداکرنے سے آزادکردیاتھا۔امرتسرکیلئےپرانے نام رام داس پورکے علاوہ گروچک اوررام داس چک بھی استعمال ہوتے رہے ہیں۔کرتارپور(پاکستان)میں 1539ءمیں اپنے انتقال سے قبل گرونانک نے گروانگددیوکونیاگرونامزدکردیاتھاپھر تیسرے گرو امر داس(1479ءتا1574ء)کے بعدآنے والے چوتھے گرورام داس1534ءتا1581ءنے امرتسرکے پرانے تالاب کی مرمت کاکام شروع کیااوراس کے درمیان میں ایک مندریاگردوارادربارصاحب تعمیرکیاجس کوہری مندربھی کہاجاتاہے۔ شہنشاہ اکبراوراس کے بعدبھی عمومی تعلقات رام داس پور(امرتسر)سے نہ صرف اچھے رہے بلکہ مغلیہ سلطنت میں رام داس پورکی حیثیت نیم خودمختار علاقے کی سی تھی۔
امرتسرمیں واقع دربارصاحب کیلئے زمین بھی اکبربادشاہ نے ہی دی تھی۔ 1589ءمیں لاہورکے نیک سیرت فقیراورمشہور خدارسیدہ بزرگ حضرت میاں میرصاحب نے اس کاسنگ بنیاد رکھا۔گوروارجن جی کاپیارسب سے زیادہ میاں میرجی سے تھا۔ یہ مسلمان فقیرتھے،جن کے ہاتھوں گروجی نے ہرمندرصاحب کی بنیادرکھوائی تھی(بحوالہ رسال ہنویاں قیمتاں جنوری1949 )۔ گوروصاحب نے صرف اس پوتراستھان کی بنیادہی ایک پوتر مسلمان کے ہاتھوں سے نہیں رکھوائی بلکہ زمین بھی ہرمندر کیلئےوہ چنی جوایک مسلمان بادشاہ اکبرکی طرف سے نذرکی گئی تھی۔(بحوالہ بھارتی راشٹریہ کانگریس امرتسر1956ء)۔ اس بارے میں ایک سکھ ودوان یوں لکھتے ہیں:1923ءمیں جب تالاب کی سیواکی گئی تھی تومالیرکوٹلہ کے نواب کی جتھے داری کے ماتحت دوسوانتہائی معززمسلمان پوترگارے کی ٹوکریاں اٹھانے کیلئے امرتسرآئے تھے۔(بحوالہ رسالہ خالصہ پارلیمنٹ گزٹ اکتوبر1956ء)
بعدازاں مہاراجہ رنجیت سنگھ کے زمانے میں اس کا سنہری جڑاؤ بھی ایک مسلمان انجینئرمحمدیارخان نے تیارکیاتھا۔ایک مشہورسکھ سکالرسردار گوربخش سنگھ شمشیرلکھتے ہیں: ایک مسلمان فقیر حاجی محمدمسکین باباگرونانک کے پیارکی کشش میں امرتسرآئے اور31دسمبر1925ءکودن کے دوبجے انہوں نے ایک بہت قیمتی چندن کاچنوربڑی عقیدت سے بھائی ہیرا سنگھ راگی کی معرفت دربارصاحب کی نذرکیا۔اس نانک پریمی مسلمان نے یہ چندن کاچنورپانچ برس اورسات مہینے کی محنت سے تیارکیاتھاجس کی ایک لاکھ پینتالیس ہزارباریک تاریں ہیں۔ان کو9من 14 سیرچندن سے تیارکیاگیاتھا۔آج کل یہ چنور بڑی حفاظت کے ساتھ جلوخانے میں رکھاہواہے۔جب یہ چندن کاچنورفقیرنے نذرکیاتھاتوسری ہرمندرکی طرف سے ایک سو پونڈکے قیمتی دوشالے ان کوبطورخلعت دیئے گئے تھے۔ بحوالہ رسالہ امرتسرمئی1938سکھوں کی ایک مقدس زیارت پنجہ صاحب پاکستان کے ضمن میں ایک سکھ سکالرگیانی گیان سنگھ یوں لکھتے ہیں :پنجہ صاحب کاتالاب خواجہ شمس الدین صاحب نے بنوایاتھا۔وہاں پرموجود گوردوارہ کومشہورمسلمان نواب خان آف قلات نے ایک وسیع جاگیر عطاکی تھی۔(بحوالہ گوردھام سنگرہ ص 22)
گوروگوبندسنگھ صاحب کےاپنے زمانے کے مسلمان رئیسوں اورعام لوگوں کے ساتھ نہایت دوستانہ تعلقات تھےچنانچہ میر گامے شاہ،میرحسن شاہ،چودھری پیرعلی،بلونت خان،چودھری پھتو،چودھری سمو،جمال خان وغیرہ آپ کے جگری دوستوں میں سے تھے اورآپ کی سیواکرتے تھے۔سکھ مورخین نے لکھاہے کہ پٹنہ(بہار)میں وہاں کے قاضیوں نے گوروتیغ بہادر صاحب کوایک باغ نذرکیاتھاجسے آج کل گوروکاباغ کہتے ہیں۔بہادرگڑھ(پٹیالہ)میں گوروتیغ بہادرصاحب کئی ماہ ٹھہرے تو وہاں پرایک مسلمان علی خان نے دل وجاں سے آپ کی بہت خدمت وتکریم کی۔متھراکے نواب نے گوروگوبند صاحب کو ایک باغ نذرکیاتھاجسے آج کل نذرباغ کہاجاتاہے۔
بہت سے سکھ مورخین کے علاوہ ایک اورمشہورسکھ سکالرسردارگیان سنگھ لکھتے ہیں:جب پہاڑی راجاؤں اورمہاراجوں نے گروگوبندصاحب کے خلاف مورچہ شروع کیاتوپانچ سواداسی سادھو جن کی گوروصاحب کی روٹیوں پرپرورش ہوئی تھی ،موقعہ آنے پرمیدان سے بھاگ گئے۔جب بدھوشاہ کومعلوم ہواتووہ دوہزارسپاہی لے کرمیدانِ جنگ میں آیااوراس لڑائی میں بدھوشاہ کے دوبیٹے بھی گوروصاحب کی طرف لڑتے ہوئے مارے گئے جس کے نتیجہ میں گوروگوبندصاحب کوآنندپور صاحب چھوڑناپڑا،اورآپ ماچھی واڑہ کے جنگلوں میں چلے گئے اورمسلمان حاجیوں کا جیسالباس پہنناپڑا۔اس موقعہ پرسب سے پہلے غنی خان اورنبی خان نے گوروصاحب کی سیوا کیلئے خودکوپیش کیااورانہوں نے گوروصاحب کوپالکی میں بٹھا کرانہیں اپنے کندھوں پراٹھالیا۔اس طرح ان دوبھائیوں نے گوروگوبندسنگھ صاحب کودشمنوں سے بچاکے محفوظ مقام پرلے گئے۔غنی خان اورنبی خان کی اس خدمت پرگوروصاحب نےایک حکم نامہ لکھاکہ”نبی خان اورغنی خان مجھے اپنے بیٹوں سے بھی زیادہ پیارے ہیں۔اس واقعہ کاحوالہ سکھوں کی مختلف کتابوں میں درج ہے جن میں گورپرتاپ سورج گرنتھ ورت، ظفرنامہ سٹیک،جیون کتھااورسکھ اتہاس نامی کتابیں قابل ذکرہیں۔(بحوالہ تواریخ گوروخالصہ اردوص158)سکھ مورخین لکھتے ہیں کہ گوروگوبندصاحب کی پہاڑی راجاؤں کے ساتھ جتنی بھی لڑائیاں ہوئیں ان میں گوروصاحب کی طرف سے بہت سے مسلمان کمانڈربھی شامل رہے اوران لڑائیوں میں بڑھ چڑھ کرحصہ لیا۔ان کمانڈروں میں یدبیگ،الف خان،صیاد خان، صیادبیگ،میمون خان وغیرہ شامل تھے۔
سکھ مورخین نے دعویٰ کیاہے کہ مغلوں کے آخری فرمانروابہادرشاہ ظفرنے گوروگوبندصاحب کواسلام کی ایک برگزیدہ شخصیت کی ایک یادگار اورمتبرک تلوارنذرکی تھی،جوآج بھی سری کیس گڑھ آنندپورمیں موجودہے۔مذکورہ ایک سکھ وِدوان نے رسالہ سنت پاہی(اگست1951) میں تحریرکیاہے کہ سکھ ودوان سردارکاہن سنگھ کےمطابق اس تلوارکے ایک طرف کلمہ شریف اوردوسری طرف”نَصْرٌمِّن اللَّهِ وَفَتْحٌ قَرِيبٌ” لکھاہے ” ۔الغرض مسلمانوں نے اپنی نہایت مقدس اورلاثانی چیزبھی گورو صاحب کوعطاکی تھی۔اس سے اس بات کااندازہ بخوبی لگایا جا سکتا ہےکہ مسلمان آپ کی کتنی عزت کرتےتھے اورمسلمانوں اورسکھوں کے درمیان کس قدرخوشگوارتعلقات رہے ہیں۔مغل بادشاہوں کے ساتھ گوروصاحبان کے کس قسم کے خوشگوار تعلقات تھے،اس کااندازہ لگانے کیلئے اوپردرج کئے گئے واقعات نہایت چشم کشاہیں۔ جہاں مسلمان بادشاہوں،نوابوں،رئیسوں، ،فقیروں اورصوفیوں نےگوروصاحبان کے ساتھ نہایت دوستانہ اوربرادرانہ تعلقات قائم کئے تھےوہاں سکھ صاحبان نے بھی مسلمانوں کے ساتھ ہمیشہ دوستانہ اورخوشگوارتعلقات قائم رکھے ہیں۔چنانچہ گوروصاحب نے اپنے خرچےسے کرتارپور ہرگوبندپوراورامرتسروغیرہ جگہوں پرعالی شان مسجدیں بنائی ہیں۔
باباکے جانشین گوروانگدنے ان کی تعلیمات کوعام کرنے کیلئےقدیم کلاسیکی پنجابی زبان میں گرمکھی رسم الخط کومتعارف کرایا۔1551ءمیں امر داس تیسرے گُرومنتخب ہوئے،ان کی1574ء میں وفات کے بعدچوتھے گورورام داس نے امرتسرکی بستی آبادکی،جس کیلئے شہنشاہ اکبرنے اخراجات اداکرنے کے علاوہ500بیگھے زمین بھی وقف کی۔رام داس کی وفات کے بعد 1581ءمیں ان کابیٹاگُروارجن جانشین منتخب ہوئے۔ گُروارجن دیونے ہی سکھوں کی مقدس کتاب”گوروگرنتھ”مرتب کی جس میں پہلے پانچ گروؤں کی(1469ءسے لیکر1708ء تک 239 سال پرمحیط تعلیمات)کوگُرمکھی زبان میں ہی تحریرکیاگیاہے۔یہ 3381/اشعارپرمشتمل ہے جوکہ ہندوؤں کی مقدس کتاب”رگ وید”سے تقریباً تین گنابڑی ہے۔اس میں باباگورونانک، بھگت کبیر اوربابافریدکے اشعارشامل ہیں۔
سکھوں کے تمام مذہبی مقامات گوردواروں میں یہ کتاب موجودرہتی ہے اورمذہبی تہواروں کے مواقع پراس کتاب کے مندرجات پڑھ کراور گا کرسامعین کوسنائے جاتے ہیں۔اس کتاب میں سکھوں کے خداکی جوپہچان بتائی گئی ہے وہ بعینہ قرآن مجیدکی دی ہوئی تعلیمات کے عین مطابق ہے ۔آج سکھ مذہب کے تمام افرادکثرت سے”ست سری اکال” (سچا،بڑا، خدا) کادعائیہ جملہ استعمال کرتے ہیں جس کاترجمہ حیرت انگیزطورپر”اللہ اکبر”ہے اورسکھوں کاسب سے بڑانعرہ”واہگوروکاخالصہ واہگورو کی فتح”بھی قرآن کریم کی مشہور آئت:کہوکہ اے خدا(اے) بادشاہی کے مالک توجس کوچاہے بادشاہی بخشے)کا لفظ بہ لفظ ترجمہ ہے۔چنانچہ دنیاکے دو مذاہب اسلام اورسکھ مذہب ایسے مذاہب ہیں جن کے ہاں خدائی کاتصورشرک سے پاک ہے۔
بالآخرکرتارپورمیں ہی پیر22ستمبر1539ء(9جمادی الاوّل 946 ھ)کوصوفی منش باباگرونانک اپنے ہزاروں عقیدت مندوں کوداغِ مفارقت دیکراسی ربّ ِکائنات کی طرف لوٹ گئے جس کاوہ دنیامیں پرچارکیاکرتے تھے۔ان کےجسدِ خاکی کی آخری رسومات کیلئے ہندوؤں اورمسلمانوں میں ٹھن گئی توباباگرونانک کی وصیت کے مطابق یہ فیصلہ کیاگیاکہ باباکے جسدِخاکی کے گردپھول رکھ دیئے جائیں،اگلے دن جن کے پھول تازہ ہوں گے وہی ان کی آخری رسومات کے حق دارہوں گے۔اگلے دن جب چادرہٹائی گئی تولاش غائب تھی اوردونوں اطراف کے پھول تروتازہ تھے۔چنانچہ ہندؤوں نے اپنے حصے کے پھولوں کونذرآتش جبکہ مسلمانوں نے اپنے حصے کے پھولوں کودفن کردیا،آج کرتارپورمیں دونوں کے مقامات موجودہیں۔
بابا گرونانک کی اہلیہ محترمہ سلاخانی سے ان کے دوبیٹے”سری چند”اور”لکشمی چند”تھے۔سکھ روایات کے مطابق سری چندبہت عابد اورزاہد انسان تھے جن کی لمبی داڑھی اورسرکے طویل بال تھے۔سکھ مذہب کی تعلیمات کے مطابق ہماراجسم خدا(اللہ،بھگوان،جسے بھی آپ خدا مانتے ہیں)کی دین ہے اورہمیں اِسے ویساہی رکھناچاہئے جیساخدانے عطاکیاہے۔اس میں غیر فطری طریقوں سے کسی قسم کی کوئی تبدیلی نہیں کرناچاہئے،یہ خدا کی ناشکری کے مترادف ہے۔اسی حکم کی وجہ سے پختہ عقیدے کے مالک سکھ اپنے جسم کے بال نہیں کٹواتے جبکہ لکشمی چندنے شادی کی اوران کے بھی دوبیٹے ہوئے۔بابا گرونانک نے اپنی تعلیمات سے ہندوؤں اورمسلمانوں کے درمیان مشترکہ مذہبی ہم آہنگی کی بے حدکوشش کی لیکن توحیدتو نام ہی بت شکنی کاہے اسی لئے ایک اورنیاسکھ مذہب وجودمیں آگیا۔مسلمانوں کیلئے باباگرونانک کی تعلیمات قطعاًنئی نہیں کیونکہ یہ وہی تعلیمات ہیں جواس سے قبل آسمانی صحائف،قرآن کریم اورخاتم النبین ﷺکی سیرتِ مبارکہ میں موجودہیں۔
لیکن کیاوجہ ہے کہ مسلمانوں اورسکھوں کے درمیان اس قدرمحبت واخوت کارشتہ استوارکرنے والے باباگرونانک کی تعلیمات کوپس پشت ڈال کرسکھوں اورمسلمانوں کے درمیان دشمنی اورنفرت کی ایسی فصیل کھڑی کردی گئی کہ آج کی نوجوان نسل کوآمنے سامنے کھڑاکردیاگیالیکن کیا وقت نے ان تمام سازشوں کوبے نقاب کردیاہے؟وہ کیاوجوہات تھیں کہ جن کی بدولت مسلم سکھ دوستی اوربرادرانہ تعلقات دشمنی اورنفرت میں تبدیل ہوگئے۔باباگرونانک سے مسلمانوں کی محبت اور عقیدت کایہ عالم کہ ان کی آخری رسومات کیلئے میدان میں اترآئے اوربالآخر باباکی وصیت کے مطابق ان کے حصہ میں جو تازہ پھول آئے ان کودفن کیاگیااورآج تک وہ جگہ مرجع خلائق ہے اوریہی وہ مقام ہے جس نے ابھی تک سکھوں اور مسلمانوں کومضبوط رشتے میں جکڑرکھاہے۔
باباگرونانک کی بنیادی تعلیمات میں غریبوں،مسکینوں اورکمزورلوگوں کی حمائت کاسبق موجودہے جس کااسلام بھی بڑی سختی سے حکم دیتاہے۔بابا گرونانک نے جب کرتارپورکواپنی تعلیمات وتبلیغ کاذریعہ بنایاتووہاں ہرخاص وعام کیلئے لنگر کاانتظام بھی اسی لئے کیاتاکہ وہاں غریبوں مسکینوں اورمحتاجوں کوکھانے پینے کی سہولت میسرآسکے اوران میں اکثریت ایسے افرادکی تھی جو اپنے علاقے میں ہونے والے مظالم سے تنگ آکریہاں مقیم ہوگئے تھے جن کی حفاظت کابیڑہ خودبابا گرونانک اوران کے مریدوں نے اٹھایا۔اس طرح باباجی کی تعلیمات کاشہرہ دوردراز تک پھیل گیااور دن بدن ان کی تعداد میں اضافہ ہوتا چلاگیا۔بالآخرسکھوں کے دسویں گروگوبندنے غریبوں میں سے اپنے پانچ ساتھیوں کاچناؤکرکے ان کوپانچ پیاروں کالقب عطاکیا اوراس طرح پہلی مرتبہ سکھ مذہب میں باقاعدہ طورپرخالصہ تحریک نے جنم لیا۔
اس زمانے ہندوستان میں مغلیہ حکومت کے فرمانرواں اورنگ زیب کی حکومت تھی اوراس کے دربار میں تمام مذاہب کے لوگ بلا تفریق مختلف عہدوں پرفائض تھے۔بعض ہندو عہدیداروں نے جب ہندوؤں کی ایک کثیرتعدادکوسکھ دھرم میں داخل ہوتے ہوئے دیکھاتوانہوں نے ایک گہری سازش کرکے اورنگ زیب کوان کے خلاف اکساناشروع کردیاکہ سکھ مغل حکومت کوختم کرنے کے درپے ہیں۔ہندواپنی سازش میں اس لئے بھی کامیاب ہوگئے کہ ان دنوں اورنگ زیب کابھائی دارشکوہ بھی فرارہوکرسکھوں کے ہاں پناہ گزیں تھا،اس لئے انہوں نے اس موقع سے سیاسی فائدہ اٹھاتے ہوئے اورنگ زیب کوسکھوں کے خلاف لشکرکشی پرآمادہ کرلیاکہ کوئی بھی حکومت اپنی سلطنت کے خلاف باغیوں کوسر اٹھانے کی اجازت نہیں دیتی جبکہ دوسری طرف سکھ یہ سمجھتے تھے کہ ان مظالم کے خلاف ان غریبوں کی حمائت باباگرونانک کے حکم کے مترادف ہے۔یہی وجہ ہے کہ مغلیہ دورِحکومت میں سکھوں کے خلاف جنگ کوئی مذہبی جنگ قطعاًنہ تھی۔اگرایساہوتاتوسکھوں کی افواج میں ایک کثیر تعداد مسلمانوں کی نہ ہوتی جوگرونانک سے محبت کی بناءپراپنی جانیں قربان کرنے کیلئے میدان جنگ میں نہ صرف کودپڑے بلکہ بڑی شجاعت کے ساتھ اپنی جانیں بھی قربان کیں جس کاتذکرہ سکھ بڑے احترام سے آج بھی اپنی تاریخ میں محفوط کئے ہوئے ہیں۔
بالآخریہ مسلم سکھ اتحادجوکہ باباگرونانک کی محبت کی مشترکہ میراث تھی،رنجیت سنگھ کی معیت میں پنجاب پرحکومت بنانے میں کامیاب ہوگیا اور تاریخ گواہ ہے کہ رنجیت سنگھ نے اپنے دربارمیں تمام اہم عہدے مسلمانوں کے سپردکئے اورکئی سال مسلمانوں کی وفاداری اورمحبت کے بل بوتے پریہ ایساامن وامان کادورِحکومت تھاجس کاآج بھی سکھ بڑے تفاخرکے ساتھ ذکرکرتے ہیں۔تاریخ گواہ ہے کہ وہی ہندوعناصرجنہوں نے اورنگ زیب کوسکھوں کے خلاف اکسایا،بعدازاں انگریز کے ساتھ ملی بھگت کرکے پہلے ایسٹ انڈیاکمپنی کی داغ بیل ڈالی اورایک سازش کے تحت ہندوستان سے مغلیہ دورِحکومت کوختم کرانے میں کامیاب ہوکرانگریزکے دربارمیں رسائی حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئے۔رنجیت سنگھ کی پنجاب میں کامیاب حکومت کے پیچھے سکھ مسلم اتحادکی مشترکہ میراث کاطاقتورجذبہ موجودتھااورانگریزاس بات سے واقف تھے کہ اس خطے میں یہی دونوں قومیں جنگجوہیں اوریہاں اس وقت تک کامیابی حاصل نہیں ہوسکتی تاوقتیکہ ان دونوں قوموں کے درمیان کوئی ایسی منافرت اوردشمنی نہ پیدا کردی جائے جس سے ان دونوں قوموں کے درمیان ایک ایسی خون ریز جنگ شروع ہوجائے جس سے یہ نہ صرف ایک دوسرے کے خون کے پیاسے بن جائیں بلکہ ہمیشہ کیلئے دشمنی اور نفرت کی ایسی دیوارکھڑی ہوجائے کہ اس خطے میں کبھی بھی ان کادوبارہ ایسامثالی اتحادنہ ہو سکے ۔
برہمن اورانگریزکی مشترکہ سازشوں نے بالآخرمغلیہ دورِحکومت میں وہ تمام ہندوجوسکھوں کاروپ دھارکران میں شامل ہو گئےتھے،اس تحریک کولیکرآگے بڑھے اوراس امپیریل جنگ کو سکھوں اورمسلمانوں کے درمیان مذہبی جنگ سے تشبیہ دیکرتاریخ کومسخ کرنے میں کامیاب ہوگئے جس کے نتیجے میں ایک ایسی نفرت کی آگ پھیلادی جس کے شعلوں نے بالآخر رنجیت سنگھ کے پنجاب میں مسلم سکھ اتحادکوجلاکرخاکسترکر دیااور انگریزوں کوپنجاب پرقبضہ کرنے میں کوئی دشواری نہ ہوئی۔انفرادی طورپربعدازاں سکھ اورمسلمان ایک دوسرے کے ساتھ شیروشکرتوہوگئے لیکن انگریزوں نے ہمیشہ حکومت کرنے کیلئے”ڈیوائڈاینڈرُول”تقسیم کرنے کی پالیسی پرعمل کرتے ہوئے اس خطے میں سکھوں اورمسلمانوں کو سیاسی طورپردوررکھنے میں ہمیشہ کامیاب رہے۔یہی وجہ ہے کہ جب برطانیہ کاسورج بھارت میں غروب ہورہاتھاتوقائد اعظم جوباباگرونانک کی تعلیمات مسلمانوں اورسکھوں کی مشترکہ میراث کی تاریخ سے واقف تھے، انہوں نے سکھوں کے لیڈرماسٹرتاراسنگھ کونہ صرف ہندوؤں کی ذہنیت اورسازشوں سے آگاہ کیابلکہ پاکستاان کے اندرسکھوں کومکمل مذہبی آزادی کے ساتھ تمام بنیادی ومساوی حقوق کی یقین دہانی بھی کروائی لیکن ماسٹرتاراسنگھ نے اپنی کوربصری کی بناءپر سکھوں کی آزادی کایہ سنہراموقع گنوادیاجسے آج حریت پسندسکھ قوم بھی اپنا سب سے بڑامجرم سمجھتی ہے کہ جن کے اس ناعاقبت اندیش فیصلے نے انہیں بے رحم برہمن بھیڑیوں کے سامنے پھینک دیا۔
عیاربرہمن نے ایک گہری سازش کے تحت قیام پاکستان کے موقع پرسکھوں کے ہاتھوں مشرقی پنجاب میں مسلمانوں کے قتل عام،مسلمان خواتین کی بے حرمتی اوربے یارومددگار قافلوں میں لوٹ مار،قتل وغارت گری کاایسابازارگرم کروایاکہ بعض مقامات پرکچھ جذباتی مسلمان بھی اپنےردعمل پرقابونہ رکھ سکے۔برہمن کی دوررس سازش کامیاب رہی تاکہ یہ دونوں قومیں مشترکہ سرحدپررہتے ہوئے بھی ایک دوسرے کے خلاف نفرت اورانتقام کی آگ میں جلتے رہیں۔کیا یہ قتل عام بابا گرونانک یاان کے بعد آنے والے سکھ مذہب کے گروؤں کی تعلیمات کے مطابق تھایااسلام میں اس کی کہاں اجازت تھی؟؟؟ اس کے برعکس جس ہندوقوم کوخوش کرنے کیلئےسکھوں نے مسلمان کی ریل گاڑیوں کی ریل گاڑیوں کوتہہ تیغ کیااور لاشوں سے بھرے خون آلود ڈبے پاکستان بھیجے،اس ہندوقوم نے سکھوں کوکون ساانعام دیا؟؟؟پاکستان میں توسکھوں کے سارے مقدس مقامات محفوظ ہیں جبکہ اندراگاندھی نے امرتسرمیں واقع سکھوں کے دربارصاحب کی حرمت کوبھارتی فوج کے ناپاک بوٹوں نے بری طرح پامال کردیااوروقت نے قائداعظم کے دانشمندانہ فیصلے کی تصدیق کردی۔
باباگرونانک کی روشن تعلیمات کواس وقت اورتقویت ملی جب روس کے سرخ ریچھ نے اچانک افغانستان پراپنی ناپاک جارحیت کاارتکاب کیا جس کے نتیجے میں جہاں30 لاکھ افغان مہاجرین کو پاکستانی قوم نے اپنے گلے لگایاوہاں35ہزارکے لگ بھگ افغان سکھوں کوبھی پاکستانی مسلمانوں نے اپنے سرآنکھوں پرجگہ دی اورتاریخ نے باباگرونانک کی ان اسلامی تعلیمات” مسلم سکھ اتحادکی مشترکہ میراث”کوسچ ثابت کردکھایا۔ پاکستان کے مسلمان آج بھی سکھوں کے ساتھ حسن سلوک کا وہی رویہ رکھتے ہیں جس کیلئے بابا گرونانک نےبے انتہامحنت کی تھی۔قدرت کاانعام اورفیصلہ دیکھئے کہ نہ صرف بابا گرونانک کی جنم بھومی اورآخری آرام گاہ بلکہ سکھوں کے بیشترمذہبی مقامات سرزمین پاکستان میں واقع ہیں جن کی زیارت کیلئے ہزاروں سکھ ہرسال وطنِ عزیزکی سرزمین پرمہمان بن کرآتے ہیں بلکہ مشرقی پنجاب سے بہنے والے دریاؤں کاپانی،سب کارخ پاکستان کی جانب ہے جوسکھوں اورمسلمانوں کوایک دوسرے کی طرف محبت اورالفت کے ساتھ گلے ملنے کااشارہ دیتے ہوئے اپنے مشترکہ دوست اوردشمن میں تمیزکاسبق دے رہے ہیں۔
پاکستان واحد ملک ہے جہاں سکھ مذہب اوراس کے پیروکارسب سے زیادہ احترام کی نظرسے دیکھے جاتے ہیں۔حکومت پاکستان نے سکھوں کے مذہبی مقامات کی دیکھ بھال میں اہم کرداراداکیاہے۔پاکستان کے بانی قائداعظم محمد علی جناح کے ایک سو تیسویں یومِ پیدائش پرکاکول اکیڈمی کے جن کیڈٹس نے مزارکے گارڈزکے فرائض سنبھالے،ملکی تاریخ میں یہ پہلی مرتبہ ہواکہ قائداعظم کے مزارپرخاتون کیڈٹس یاکسی سکھ کیڈٹ نے سلامی پیش کی ہو۔
بابا ہرنام سنگھ کے تڑپتے وکانپتے ہونٹوں سے نکلاہوا ایک یادگار جملہ بھی تومیں آج تک نہیں بھول سکاجو انہوں نے لاہوربی بی سی کے نمائندے کوانٹرویو دیتے ہوکہا: ’’یہ وہی لاہوراسٹیشن ہے جب 1947ءمیں یہاں ٹرین رکی تھی،میں کہہ رہاتھاکہ یہاں ٹرین کیوں رک گئی ہے اورمارے خوف کے یہ دعاکررہاتھاکہ جلدسے جلدروانہ ہواورآج میں دعا کررہاہوں کہ کاش یہ ٹرین ہمیشہ کیلئے یہاں رک جائے اورزندگی یہیں تمام ہو جائے”۔