ہنودویہودجہاں ایک ہی سامراج کے زیرطفیل دنیابھرکے امن وامان کیلئے ایک خطرہ بنے ہوئے ہیں وہاں استعماری وطاغوتی خصائل میں بھی نہ صرف ایک دوسرے کے ہم آہنگ بلکہ ڈویلپمنٹ اورحقائق کی روشنی میں دیکھیں تودونوں بے شرمی،اخلاق سوزی اوربے حیائی میں بھی ایک دوسرے کی راہ پرچل نکلے ہیں۔بھارتی عدالت عظمیٰ کاایک صادرفیصلہ جسے اباحیت کے حوالے سے نرم سے نرم الفاظ میں بھی بے حدشرمناک فیصلہ ہی قراردیاجا سکتاہے۔بھارتی سپریم کورٹ کے اس فیصلے نے بیک جنبش قلم انسان کوجانورکے مقام تک پہنچادیاگیاہے کیونکہ جانور،درندوں اورمویشی کی جبلت بھی اس فعل سے مطابقت رکھتی ہے جوایک بڑے جمہوری ملک کی اعلیٰ ترین عدالت نے کرڈالا۔بھارت کی سیاہ تاریخ میں یہ فیصلہ سیاہ ترین دن کے طورپر ریکارڈہوگیاہےاورآئندہ زمانے میں مؤرخ یقیناًبھارتی النسل ہندوؤں کوان کے آباؤاجداد عدالت عظمیٰ کے اس فعل پرشرمندہ کرتا رہے گااورلعنت ونفرین بھیجتارہے گا۔
فطرت سلیمہ کومسخ کرنے کرنے والے چنداباحیت سیزاورذہنی مریضوں کے اصراروتقاف پربھارتی سپریم کورٹ کے چیف جسٹس دیپک مشراکی قیادت میں پانچ رکنی بینچ نے 158سالہ پرانے انڈین پینل کوڈکی دفعہ377کوختم کرکے ہم جنسی کی خباثت کوقانونی حیثیت دے دی جس کے بھارت بھرکی جیلوں میں ہزاروں افرادجواس شرمناک فعل میں ملوث سزاؤں میں قیدتھے،ان کو بھی خاموشی کے ساتھ رہاکردیاگیا۔بھارت جوہرحوالے سے اسرائیل کے نقش قدم پرگامزن ہے،اب ہم جنس پرستی کے حوالے سے بھی اسرائیل کے قدم سے قدم ملاکرایک بہت بڑی لعنت میں مبتلا ہو گیاہے۔بھارتی سپریم کورٹ نے جوفیصلہ سنایاہے اس کی رو سے بھارت کے ایڈزدہ اورتباہ حال معاشرے کے تابوت میں اس نے آخری کیل ٹھونک دی۔آج ایڈزنے دنیامیں تباہی مچارکھی ہے اورتین سال قبل بھارت کے محکمہ صحت کے وزیرنے اعدادوشماربتاکراس امرکابرملااعتراف کیاکہ ایڈزکی وباءہم جنسی کی بناء پر بھارت کوتیزی سے اپنی گرفت میں لے رہی ہے۔ہم جنسیت اورکئی دیگروجوہ کی نشاندہی کرتے ہوئے بھارتی وزیر نے بھارت میں ایڈزکی وباء پھیلنے کااعتراف کیا۔بھارتی سپریم کورٹ کے اس شرمناک اوراخلاق باختہ فیصلے کے بعدبھارت اوراسرائیل اخلاقی گراوٹ کے لحاظ سے یکساں ہوگئے ہیں۔اس طرح”کندہم جنس باہم جنس پرواز” کی مثال بھارت اوراسرائیل کے مشترکات پرپوری صادق آجاتی ہے۔
بھارتی سپریم کورٹ کے اس مذموم اورقبیح فیصلے سے قبل ”ہم جنس پرستی”غیرقانونی اورقابل تعزیرجرم تھااوربھارتی آئین کی دفعہ 377کے تحت ایساکوئی بھی فعل قانوناًسزاتھااگرچہ بھارت نےاپنے آئین میں اس شق کواگریزکےقانون سے مستعارلیاتھاجسے انگریزوں نے852ءمیں نافذکیا تھا جس کے تحت غیرفطری جنسی فعل کوغیرقانونی قراردیاتھا۔واضح رہے کہ اباحیت، جنسی آوارگی اورہم جنسی پرستی کےنتیجےمیں مغربی اورامریکی معاشرہ کاخاندانی نظام ٹوٹ پھوٹ کاشکارہے۔گزشتہ تین دہائیوں سے4کروڑ افرادایڈزکے سبب عبرتناک موت کاشکارہوئے ہیں،اس کاسب سے بڑاسبب ہم جنس پرستی بتایاجاتاہے۔مغرب میں ماہرین قوانین اور عدالتوں نے انسانی قدروں کوبے حدپامال کیاہے وہ مابعدجدیدیت کے اس پہلوپر سختی سے کاربند ہے جس میں مذاہب اوراخلاقی اقدارکی کوئی اہمیت نہیں ہے۔وہاں انسان کے بنائے ہوئے قوانین ہی حرفِ آخرہیں۔اخلاق، اقدار اوروحی الٰہی سے بے نیازہونے کے یہی نتائج سامنے آتے ہیں۔اب بھارت بھی برہنہ کلب میں شامل ہوگیاہے۔آئندہ دنوں میں بھارتی معاشرہ کس حد تک کامل تباہی سے دوچارہوگااس کااندازہ لگاناچنداں مشکل نہیں۔
جس بھارتی سپریم کورٹ نے”ہم جنسیت”کوقانونی قراردیکربھارتی معاشرے پرایٹم بم گرادیا،اسی بھارتی سپریم کورٹ نے2013ء میں دہلی ہائی کورٹ کے2009ءکے فیصلے کوکالعدم قراردیتے ہوئے”ہم جنس پرستی”کوغلاظت میں لت پت دوہم جنس کے درمیان”ہم جنس پرستی”کوجرم کے کٹہرے میں لاکھڑاکیاتھالیکن اس کے بعد”ہم جنسیت” کی غلاظت میں لت پت پانچ فاعل و مفعول کی درخواست پربھارتی سپریم کورٹ کے چیف جسٹس دیپک مشراکی سربراہی میں پانچ رکنی بینچ نے ہم جنس پرستی کو جرم کی ذیل سے ہٹانے کے متعلق درخواستوں کی سماعت کی،اس بینچ میں چیف جسٹس آراین نریمن،جسٹس اے ایم کھانوکر، جسٹس جی ڈی وی چندرچوڑاورجسٹس اندملہوترابھی شامل ہیں۔بھارتی سپریم کورٹ نے اس سلسلے میں مودی حکومت کی نمائندگی کرنے والے ایڈیشنل سالیسٹرجنرل تشتارمہتانے وسپریم کورٹ میں تین صفحات کابیانِ حلفی داخل کرا کے کہاکہ مودی حکومت کادفعہ377کے آئینی جوازکے متعلق کوئی مؤقف نہیں ہے۔ مودی حکومت کے نمائندے نے گیند سپریم کورٹ کے احاطے میں ڈالتے ہوئے کہاکہ اب یہ سپریم کورٹ پرمنحصرہے کہ ہم جنس پرستی کوجرائم کی ذیل میں شمارکرتی ہے یانہیں۔
آسمانی کتابوں نے سختی سے پابنداورہم جنسیت کی تمام شکلیں تمام آسمانی مذاہب میں حرام وناجائزہیں۔رب العالمین کی طرف سے آسمانی مذاہب کی تنسیخ اوراسلام کے کامل وعامل اور آخری دین قرارپانے کاحکم نازل ہونے پرغورکیاجائے تو صاف طورپرپتہ چلتاہے کہ اسلام مکارم اخلاق اعلیٰ صفات اورعمدہ کردارکی تعلیم دیتاہے۔اسلام کابنیادی مقصدمعاشرے کو صالحیت بخشتاہے، اسلام میں شادی اورنکاح کامقصدصرف جنسی آلودگی کے تمام غیرفطری راستوں کاراستہ روکناہی نہیں بلکہ نسل انسانی کا فروغ،بقا،تحفظ اورزوجین کے مابین مؤدت ومحبت اورتعاون وتناظر،مشروعیت کانکاح وغیرہ اہم ترین مقاصدکی تکمیل بھی ہے۔ اسی لئے جنس مخالف اوران کے ولی کی رضامندی کے ساتھ علی الاعلان نکاح کاحکم دیاگیاہے تاکہ معاشرے میں کسی قسم کی بدگمانی اورپرائی جنم نہ لے،اس کے برعکس آج کامغربی،امریکی،یہودی اوراب ہندومعاشرہ جوخدائی احکام کاصریحاًباغی ہوچکا ہے،گندگی اورغلاظت کی گہرائی میں گرچکاہے۔
اسلام نے اس فعل کوحرام قراردیاہے۔قوم لوط اسی جنسی آوارگی کے سبب عذاب سے دوچارہوئی تھی۔اس عمل پران کااتنااصرار تھاکہ باوجود حضرت لوط کی تعلیمات کومستردکرکے وہ اس جرم عظیم کوانجام دیتے تھے،پھرجب پکڑآئی توایسی آئی کہ وہ آج تک دوسروں کیلئے عبرت کے سبب بنے ہوئے ہیں۔پتھروں کی بارش اورتباہ کن زلزلوں نے ان کی بستی کوزمین دوزکر دیا۔تاریخ کے صفحات اس حقیقت کے ساتھ بھرے ہوئے ہیں کہ قوم لوط جہاں آبادتھی آج اس جگہ بحرمردارکی خطرناک موجوں کاقبضہ ہے ۔آج بھی اس کے اطراف واکناف میں نحوست کاسایہ اورعبرت کی فضا قائم ہے جووہاں جانے والوں کے دلوں پرہیبت طاری کر دیتی ہے۔اس جرم کی پاداش میں اس قوم کی تباہی کے باوجود آج بھارت کی سپریم کورٹ نے بھارتی شہروں اورشہریوں کواسی راہ پرڈال دیاہے جوژولیدگی فکراوربصیرت کی پستی کامظہرہے۔
بھارتی سپریم کورٹ کی طرف سے جنسی ہم پرستی کے حق میں فیصلہ دینے کے باوجودبھارتی مسلمانوں پریہ فرض ہے کہ وہ یہ فیصلہ مستردکردیں کیونکہ یہ اسلام کے متصادم ہے۔بھارتی مسلم علماء کی ذمہ داری ہے کہ وہ ہم جنس پرستی کی غلاظت وقباحت کواہم الم نشرح کردیں اورتمام ادیان ومذاہب اور افکارونظریات کے موضوع کواباحیت سے آگاہ کرنے کی ضرورت ہے کہ یہ فطرت کے خلاف عمل ہے۔بھارت کے سب سے بڑے دودینی اداروں، دیوبند اورندوی علماء کی ذمہ داری بنتی ہےکہ مسلم معاشرے سمیت غیرمسلموں میں بھی اس وبائی اورذہنی مرض سے متعلق دلائل کی روشنی میں گفتگو کرکے بھارتی سپریم کورٹ کے اس جاہلانہ فیصلے کے خلاف ایک مشترکہ سوچ وفکراختیارکرتے ہوئے ہندوؤں کوبھی سمجھائیں کہ اگروہ ایڈزمیں مبتلا ہوں گے تویہ بھی انسانیت پرایک عظیم ظلم ہوگا۔