فیٹف کے20اور21اکتوبرکوپیرس میں منعقد ہونے والے دوروزہ اجلاس کے اختتام پرفیٹف کے صدرٹی راجہ کمارنےپاکستان کو 35سفارشات پربہتراندازمیں عمل کرنےکے نتیجے میں پاکستان کوگرے لسٹ سے نکالنے کااعلان کیاہے۔اس اجلاس میں تنظیم کے رکن ممالک کے نمائندوں کے علاوہ آئی ایم ایف،ورلڈبینک اور اقوامِ متحدہ جیسی تنظیموں کے نمائندے بھی بطورمبصر شریک تھے جبکہ پاکستان کی نمائندگی وزیرِ مملکت برائے خارجہ اُمور حنا ربانی کھر کی قیادت میں کر رہا تھا.یاد
رہے کہ جون2022ءمیں فنانشل ایکشن ٹاسک فورس نے پاکستان کو گرے لسٹ میں برقرار رکھنے کااعلان کرتے ہوئے کہاتھاکہ پاکستان نے’’منی لانڈرنگ اور ٹیررفنانسنگ‘‘کی مدمیں اصلاحات کی ہیں اورفیٹف کی ٹیم اگست کے آخرمیں پاکستان کے پانچ روزہ دورے پرآئی اوراس کی رپورٹ کی بنیادپرہی پاکستان کے گرے لسٹ سے اخراج کاحتمی فیصلہ ہوا۔فیٹف کی ٹیم نے پاکستان کادورہ کرکے اس بات کاجائزہ لیاکہ آیا پاکستان کی جانب سے اٹھائے گئے یہ اقدامات مستقبل میں نافذالعمل رہ پائیں گے یانہیں۔
فنانشل ایکشن ٹاسک فورس(فیٹف) ایک بین الاقوامی ادارہ ہے جس کاقیام1989میں عمل میں آیاتھا۔اس ادارے کابنیادی مقصدبین الاقوامی مالیاتی نظام کودہشتگردی،کالے دھن کوسفید کرنےاوراس قسم کے دوسرے خطرات سے محفوظ رکھناہےاوریہ تنظیم اس مقصد کیلئےقانونی،انضباطی اورعملی اقدامات کرتی ہے۔فیٹف کادعویٰ ہے کہ وہ ایک”پالیسی سازادارہ”ہے جوسیاسی عزم پیدا کرنے کیلئےکام کرتاہے۔ 9/11کے بعدفیٹف کی خاص توجہ دہشتگردی کیلئےرقوم فراہم کرنے کو روکنا ہو گیا ہے۔یہ ادارہ مختلف ملکوں کے قوانین پر بھی نظر رکھتا ہے اور ان میں خامیوں کو دور کرنے کیلئےمشورے دیتا ہے۔2000کے بعد سے فیٹف وقتاًفوقتاًایک فہرست جاری کرتی ہے،جس میں ان ملکوں کے نام شامل کیے جاتے ہیں جوکالے دھن کوسفیدکرنے اوردہشتگردی کی مالی پشت پناہی سے روکنے کی سفارشات پرعمل پیرانہیں ہوتے۔فیٹف کے35ارکان ہیں جن میں امریکا،برطانیہ،چین اورانڈیابھی شامل ہیں، البتہ پاکستان اس تنظیم کارکن نہیں ہے۔اس کے ارکان کااجلاس ہرتین برس بعدہوتاہے جس میں یہ دیکھاجاتاہے کہ اس کی جاری کردہ سفارشات پرکس حدتک عملدرآمدہورہاہے۔
یادرہےکہ پاکستان2012سے2015تک فیٹف کی گرے لسٹ کاحصہ رہ چکاہے اورپھر2018میں اسے دوبارہ اس فہرست میں شامل کیاگیاتھا ۔ اس کی وجہ پاکستان کی جانب سے اس عالمی ادارے کودہشتگردی کی مالی معاونت کے خلاف اٹھائے گئے اقدامات سے متعلق مطمئن نہ کرسکنابتائی گئی تھی۔ مارچ 2022میں ہونے والے نظرثانی اجلاس میں پاکستان کوگرے لسٹ میں برقراررکھتے ہوئے کہاگیاتھاکہ پاکستان نے’سفارشات کی تکمیل میں خاصی پیشرفت کی ہے‘تاہم چندنکات پرمزیدپیشرفت کی ضرورت ہے۔جون2022میں ہونےوالے فیٹف کے پلینری اجلاس میں پاکستان کی 2018اور2021کی کارکردگی پربحث ہوئی تھی اوران اقدامات کا جائزہ لیاگیاجو پاکستان نے فیٹف کی سفارشات کی بنیادپرکیے تھے۔
پاکستانی حکام کے مطابق اب فیٹف کی2018میں دی گئی تمام27سفارشات پرعملدرآمدہوچکاتھاجبکہ2021میں فیٹف کی ذیلی شاخ ایشیاپیسیفک گروپ(اے پی جی) کی جانب سے دیے گئے سات نکات میں سے چھ کوقبل ازوقت مکمل کیاگیا۔واضح رہے کہ2020 میں پاکستان نے منی لانڈرنگ کے خلاف قانون میں ترمیم بھی کی تھی تاکہ مزید کارروائی کی جا سکے لیکن2021 کے ریویو میں فیٹف کی جانب سے’دہشتگردتنظیموں کے خلاف قانونی کارروائی اور منی لانڈرنگ کے مقدمات میں پیشرفت کی مزیدمثالیں سامنے لانے کوکہاگیاتھا۔‘رواں سال مارچ میں اوراس سے پہلے2021میں منی لانڈرنگ کاجائزہ لینے والے ایشیاپیسیفک گروپ نے پاکستان کواپنی دوسری فالواپ رپورٹ میں مزیدنگرانی کی فہرست میں شامل کیاتھالیکن اس کے باوجودادارہ گاہے گاہے پاکستان کی حوصلہ افزائی بھی کرتارہاہے۔ادارے کی جانب سے پاکستان کویہ باورکروایاگیاکہ منی لانڈرنگ اوردہشتگردوں کے خلاف قانون سازی کے ذریعے ہی پاکستان کوگرے لسٹ سے نکالاجاسکتاہے۔
ادارے نے فروری2021میں ہونے والے اجلاس میں پاکستان پرزوردیاتھاکہ وہ تین اہم ترین سفارشات کی تکمیل کرے جن میں دہشتگردوں کو سزا ، ان معاملات کی قانونی چارہ جوئی اورمالی معاونت پرپابندیاں شامل ہیں۔ان تمام سفارشات میں ایک نکتہ رہ گیا تھاجس میں فیٹف نے دہشتگردوں کے خلاف قانون سازی اوران کوملنے والی مالی معاونت کی تفتیش کرنے پربھی زوردیاتھا۔اسی سلسلے میں ادارہ پاکستان سے دہشتگردوں کی مالی معاونت پرپابندی کے قانونی اطلاق کاثبوت بھی مانگتارہاہے۔
اٹلانٹک کونسل تھنک ٹینک میں پاکستان انیشیٹوکے ڈائریکٹرسے پوچھاکہ اس مرتبہ توہم گرے لسٹ سے بچ گئے ہیں مگرمستقبل میں بھی اس لسٹ سے باہر رہیں،اس کیلئےکیاکرناہوگا؟توجواب ملاکہ فیٹف گرے لسٹ میں ہونے کے دوحصے تھےجن میں ایک تو مالیاتی نظام کومضبوط کرکے منی لانڈرنگ کاسدِباب کرنا تھاتودوسری طرف داخلی سطح پران افراداوران تنظیموں کے خلاف گھیراتنگ کرناتھاجوعالمی پابندیوں کی زدمیں ہیں۔ایسی تنظیمیں اورافراد اگر نئے روپ میں سامنے آئے اوردوبارہ پاکستان میں آپریٹ کرنے لگے توبعیدنہیں کہ ایک مرتبہ گرے لسٹ سے باہرنکلنے کے بعدہم دوبارہ بھی اس لسٹ میں جاپہنچیں۔معاشی ماہرین کے مطابق پاکستان نے اس حوالے سے اپنے مالیاتی نظام کوبہت تگ ودوکے بعدفیٹف کی سفارشات سے ہم آہنگ کیاہےمگرزمینی صورتحال کوبھی قابومیں رکھنااتناہی اہم ہوگاجتناکہ مالیاتی نظام کو۔
فیٹف کے اہداف کے تعاقب میں گذشتہ برس فروری میں حکومتِ پاکستان نے ایک صدارتی آرڈیننس جاری کیاجس کے تحت اقوام متحدہ کی جانب سے دہشتگرد قراردی جانے والی تنظیموں کوپاکستان میں بھی کالعدم قراردے دیاگیاہے۔اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں کے تحت جن تنظیموں کودہشتگرد قرار دیاگیاہے ان میں طالبان کے علاوہ حقانی نیٹ ورک،فلاح انسانیت، الرشیدٹرسٹ،اخترٹرسٹ،جماعت الدعوۃ،روشن منی ایکسچینج،حاجی خیراللہ حاجی ستارمنی ایکسچینج ،حرکت جہادالاسلامی،اُمہ تعمیرِنواورراحت لمیٹڈشامل ہیں۔
اس آرڈیننس کے نفاذکے بعدپاکستان میں حکام نے لشکرِطیبہ کے بانی حافظ سعیدسے منسلک دوتنظیموں جماعت الدعوۃ اوراس کے فلاحی ونگ فلاح انسانیت فاؤنڈیشن کے خلاف بھی کارروائیاں کی ہیں۔حافظ سعیدانڈیااورامریکاکودہشتگردی کے الزام میں مطلوب ہیں۔پاکستان نے لشکرِطیبہ پرتوپہلے ہی پابندی لگادی تھی لیکن اس سے مبینہ طورپرمنسلک جماعت الدعوۃ اورفلاحِ انسانیت فاؤنڈیشن نامی خیراتی ادارے بدستورکام کررہے تھے۔حالیہ کارروائیوں کے تحت ان تنظیموں کے تحت چلنے والے مدارس اور اداروں کوحکومتی کنٹرول میں لے لیاگیاہے۔اس ادارے کاانڈیابھی ممبرہے اوراس نے توپوری کوشش کی کہ پاکستان کوگرے لسٹ سے بلیک لسٹ میں پہنچادے تاہم ایسی جماعتیں جوجہادکشمیرکی عملی خدمات پرمامورتھیں،وقتی طورپران کے بال وپرکاٹنے میں کامیاب توہوگیاہے لیکن مقبوضہ کشمیرمیں جوآزادی کی شمع جل چکی ہے،یقیناًایک دن غلامی کی تمام ظلمتوں کوراکھ کرکے چھوڑے گی،ان شاءاللہ