بس اتنی کہانی؟
تھوڑی سی مٹی،تھوڑاساپانی
بس اتنی کہانی؟
چھوٹاسابچپن،لمبابڑھاپا،کچھ کچھ جوانی
بس اتنی کہانی؟
نہ عہدہ نہ منصب نہ فرمان نہ کاغذ
بس اک روزِمحشرہے سب کچھ زبانی
بس اتنی کہانی؟
نہ کوٹھی نہ کوٹھا،نہ پت جھڑنہ برکھا،
نہ جنت مکانی نہ خلدآشیانی
بس اتنی کہانی؟
یہ سب کچھ ہے فانی
بس اتنی کہانی!
مٹی کی چلتی پھرتی ڈھیریاں ممٹیوں یامسندوں پرجابیٹھیں توسب کچھ بھول جاتی ہیں۔اپنی اصل اوقات،اپناآغازاوراپناانجام تک بھول جاتی ہیں۔
موت کی ہچکی کوذراغورسے سن
زندگی بھرکاخلاصہ اسی آوازمیں ہے
قبرکاکتبہ پڑھ کرکانپ گیاہوں:
لوحِ مزاردیکھ کے جی دنگ رہ گیا
ہرایک سرکے ساتھ فقط سنگ رہ گیا
لیکن سنتاکون ہے اورسن بھی لے توسمجھتاکب ہے؟
جس نے زندگی بہترگزارنی ہو،اس کیلئے ضروری ہے کہ موت کویادرکھے اورجس مقتدرنے اپناعرصہ اقتداربہترگزارناہوتواس کیلئے ضروری ہے کہ وہ وقت بھی دھیان میں رکھے جب وہ اقتدارسے باہرہوگایازندگی کے مدارسے باہرہوگا۔ ہائے………کوئی انہیں بتائے کہ بابِ علم حضرت علی کرم اللہ وجہ نے فرمایاتھا “بے شک میں نے اپنے ربّ کواپنے ارادوں کے ٹوٹنے سے پہچانا” ۔ ڈرتے رہناچاہئے،بڑے بول سے بچتے رہناچاہئے۔
سامنے کی بات ہے کہ کل تک جس کی مرضی کے خلاف پاکستان میں پتہ تک نہ ہلتا تھا،آج اس دھرتی پر پہ قدم رکھنے کو ترس رہا ہے۔کل تک جس کے
بیانوں اور تصویروں کے بغیر ہر اخبار ادھورا تھا اور ہر خبر نامہ نامکمل تھا………….آج قصہ پارینہ چہرے اور نام بھی بھول چکے۔اگر یاد ہے توصرف اس لئے کہ اس کوواپس اس کے انجام تک پہنچانے کیلئے بلاؤ جو ہر وقت قوم کو مکے دکھا کر ڈرانے کی دہمکیاں دیتا رہتا تھا،جو بڑے تکبرکے ساتھ اعلان کرتا تھاکہ تم کو پتہ بھی نہیں چلے گا کہ میری طرف سے بھیجی ہوئی اجل تمہارا قصہ تمام کر دے گی لیکن رعونت، تکبر، خودپسندی اور نرگسیت کابازار آج بھی ویسے ہی گرم ہے۔ ایکٹر بدل گئے، کردارنہیں بدلے،جیسے دیوداس کا کردارکبھی کے ایل سہگل نے ادا کیا،پھر دلیپ کمارنے اسے امر کر دیااور 2002ءمیں شاہ رخ نے دیوداس بن کر دھوم مچا دی،اسی طرح تکبر اور رعونت کا کرداربھی قائم رہتاہے،صرف اداکاروں کے نام وچہرے تبدیل ہوتے ہیں۔
جنہیں اپنے اگلے پل اورکل کااعتبارنہیں،مستقبل کی صورت گری میں مشغول ہیں،مٹی کے پتلے خاکے بنارہے ہیں،پانی کے بلبلے مستقبل کی تصویروں میں اپنی پسندکے رنگ بھررہے ہیں۔کوئی عبرت نہیں پکڑرہابلکہ پنجوں کے بل کھڑے ہوکراب بھی اپنے خاکی قدکوبڑھانے میں مشغول ہیں۔عبرت کاذکرہوا تو نجانےکیوں ایک واقعہ قلم کی نوک پرآگیاہے جس کوبیان کئے بغیرآگے نہیں بڑھ سکوں گا۔
میں اکثرسوچتاتھاکہ اس قدرکریم ورحیم رب اپنے بندے وسزاکیوں دیتاہے؟اسلام آبادمیں ایک بہت بڑے ویٹنری ڈپارٹمٹ کے پروفیسرکواچانک ایک غیرمعمولی نمبرسے فون پراپنی سراونڈگنزکی کلیئرنس دینے کوکہاگیا کہ ایک بہت ہی اہم شخصیت ان کے کلینک ان سے ملنے آرہی ہے۔ٹھیک پندرہ منٹ بعد پانچ بکتربند گاڑیوں نے ان کے دفترکامحاصرہ کرلیا۔سول وردی میں ملبوس تقریباًحساس اداروں کے لوگ دفترمیں آئے۔ایک آفیسرنے اپنامدعابیان کیاکہ امریکاکی سفیرآئی ہیں، ان کے کتے کوپرابلم ہے،اس کاعلاج کردیں۔تھوڑی دیربعد۔۔۔۔ سفیراپنےایک عالی نسل کتےکوگودمیں لئے داخل ہوئی، بے صبری سےکہنے لگیں:میرے کتے کے ساتھ عجیب وغریب مسئلہ ہے،میراکتانافرمان ہوگیاہے،اسے میں پاس بلاتی ہوں یہ دوربھاگ جاتاہے، خداراکچھ کریں،یہ مجھے بہت عزیزہے،اس کی بے اعتنائی مجھ سے سہی نہیں جاتی۔ پروفیسرنے پندرہ منٹ تک کتے کاغورسےجائزہ لینے کے بعدکہا!میم، یہ کتاایک رات کیلئے میرے پاس چھوڑدیں میں پوری کوشش کروں گاکہ یہ دوبارہ اپنے مالک کافرمانبرادبن جائے۔
پروفیسرنے اپنے کمدارفیضوکوبلایااورکتے کوبھینسوں کے باڑے میں لیجانے کاحکم دیتے ہوئے کہا”اسے ہرآدھے گھنٹے بعد چمڑے کے لترمار،ہرآدھے گھنٹے بعد صرف پانی ڈالناجب پانی پی لے توپھرلترمار۔!!!کمدارجٹ آدمی تھا۔ساری رات کتے کے ساتھ لترٹریٹ منٹ کرتارہا۔اگلہ صبح پورے عملے ساتھ سفیرزلف پریشاں لئے آدہمکی اوربیتابی سے اپنے کتے کے بارے میں دریافت کیاتوپروفیسرنے جواب دیاکہ کتابھی آپ کوبہت مس کررہاہے۔کمدارکتے کولے آیا،جونہی کتاکمرے کے دروازے میں آیا،چھلانگ لگاکرسفیرکی گودمیں آبیٹھا،لگادم ہلانے منہ چاٹنے،کتا مُڑمڑکےتشکرآمیزنگاہوں سے مجھے اورکمدارکوتکتارہااورہم گردن ہلاہلاکرمسکرارہے تھے ۔
سفیرکہنے لگی:سرآپ نے اس کے ساتھ کیاکیاکہ اچانک پہلے سے بھی کہیں زیادہ بہتراورفرمانبردارہوگیا___؟؟؟میں نے اسے اپنے دل کارازتونہیں بتایا کہ یہ ریشم و اطلس،ایئرکنڈیشن روم،اعلی پائے کی خوراک کھ اکھاکے خود کو مالک سمجھ بیٹھا تھا اور اپنے مالک کی پہچان بھول گیا،بس،اس کایہ خناس اُتارنے کیلئے اس کو ذرا سائیکولوجیکل پلس فیزیکل ٹریٹمنٹ کی اشد ضروت تھی،وہ دیدی۔۔۔ناؤہی ازاوکے۔
دبئی کے بانی شیخ راشدبن المکتوم سے ان کے ملک کے مستقبل کے بارے میں سوال کیا گیاتو انہوں نے جواب دیا کہ میرے دادا گدھے پر سوار تھے، میرے والداونٹ پرسوارتھے،میں مرسڈیز پرسوار ہوں،میرا بیٹا لینڈروور پر سوار ہے اور میرا پوتا اپنا ذاتی جہاز کا مالک ہے لیکن میرے پڑپوتےکو دوبارہ اونٹ پر سوار ہونا پڑے گا۔”وہ کیوں”۔اس کاجواب تھا-“مشکل وقت مضبوط آدمی بناتے ہیں،مضبوط آدمی آسان وقت پیدا کرتے ہیں۔آسان وقت کمزور آدمی پیدا کرتاہے، کمزور آدمی مشکل وقت پیداکرتاہے۔بہت سے لوگ اسے سمجھ نہیں پائیں گے لیکن آپ کوجنگجوپیداکرنے ہوں گے،مفت خورنہیں۔
انسان کی اوقات ہی کیاہے؟ہم تو اپنی کمر کا تل نہیں دیکھ سکتے،داڑھ کا درد باؤلا کر دیتاہے،سر کے بال اپنے بس میں نہیں،پانی کی ایک بوندسانس کی نالی میں جا گھسے اور چند لمحوں کیلئے دماغ کو آکسیجن معطل ہوجائے تو دماغ کے ساتھ جسم کا ایک حصہ بھی جواب دے جاتاہے اور کڑیل سے کڑیل جوان بھی ابلی ہوئی سبزی میں تبدیل ہوجاتاہے۔معمولی سی چوٹ یادداشت سے محروم کر سکتی ہے۔نیندروٹھ جائے توانسان خودکشی کاسوچنے لگ جاتاہے۔یہ ایک گہرا تخیل ہے ۔ جمالیاتی حس کی تسکین،ندرت اوررعنائی کی محتاج ہے۔اللہ جمیل ویحب الجمال سے مفاہیم کشیدکرتے ہوئے جودت طبع کسی پیکرحسن وجمال کی متلاشی رہتی ہے اور اکثراظہارکی مصنوعی یاعارضی جلوہ گاہوں کی اسیربن کے رہ جاتی ہے۔حسن ازل تک رسائی ہوجائے توبصیرت کی کھڑکی سے نظر آنے والامنظربندے کومکمل طورپراپنے سحرمیں جکڑلیتاہے۔
انسان کی اوقات ہی کیاہے؟ڈیاناکاحسن،اوناسس کی دولت،کینیڈی،گورباچوف اورمازوئے تنگ کی بے پناہ طاقت،شہنشاہ ایران کا تکبراورنخوت،خمینی کی سادگی ،مدرٹریساکی شفقت،آئن اسٹائن کی ذہانت،نپولین کی شجاعت،برنیڈررسل کی فراست،مائیکل جیکسن کی شہرت؟؟؟کہاں ہیں سب لوگ؟
ہم جو بھی ہوں اورجیسے بھی ہوتے ہیں
بالآخرسب قبروں میں جاسوتے ہیں